بخل اور اسراف کی مذمت | Bukhal or Israaf ki mazahmat


3/5 - (1 vote)

بخل اور اسراف کی مذمت
 (Bukhal or Israaf ki Muzammat)

تحریر: فقیہہ صابر سروری قادری (رائیونڈ)

یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ یہاں اللہ ربّ العزت نے انسان کو مختلف چیزوں سے آزمایا ہے جس میں ایک آزمائش مال و دولت کی صورت میں ہے جس کو قرآنِ مجید  (Quran-e-Majeed) میں فتنہ کہا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
تمہارا مال اور اولاد تمہارے لیے فتنہ ہیں۔ (سورۃ التغابن۔ 15)

مال و دولت کم ہو یا زیادہ، ہر صورت میں ہی آزمائش ہے۔ عام طور پر لوگوں میں دو طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں ایک وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ (Allah) پر یقین نہیں رکھتے اور خود کو ہر چیز کا مالک تصور کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا منصب، مال و دولت اور جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ سب ہماری محنت سے ہے اس لیے ہم مالک ہیں ہماری مرضی جہاں چاہیں خرچ کریں جہاں چاہیں نہ خرچ کریں، ہم کسی کے پابند نہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو فرعون، قارون اورہامان وغیرہ کے پیروکار ہیں اور اپنی زندگی کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔

دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کسی شے کے مالک نہیں ہیں، ہماری عزت و آبرو، مال و دولت، ہماری زندگی کی ایک ایک سانس اور جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے سب کا مالک اللہ ربّ العزت (Allah) ہے۔ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بطور امانت دی ہیں زندگی بسر کرنے کیلئے۔ ہماری حیثیت مالک کی نہیں بلکہ امین کی ہے۔ امانت ہونے کی وجہ سے ہم پابند ہیں کہ جہاں ا س کے مالکِ حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ (Allah) کی رضا ہو ہم وہیں خرچ کریں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ ربّ العزت (Allah) پر توکل کرتے ہیں اور مستقبل کے متعلق سوچ کر مال کو گن گن کر نہیں رکھتے بلکہ اپنے خالق و مالک کی راہ میں لگا دیتے ہیں اور سخاوت کے مرتبے پر فائز ہوتے ہیں۔ یہی اللہ کے محبوب بندے ہیں جو کنجوسی نہیں کرتے۔

بخل کی مذمت

بخل  (Bukhal) کے معنی کسی چیز کو مضبوطی سے پکڑ لینے، اس کا حریص بننے اور دوسروں سے روک رکھنے کے ہیں۔
بخل (Bukhal) نہایت بری عادت ہے۔ یہ کم عقلی کی علامت ہے۔ بخیل انسان اللہ کے ہاں ناپسندیدہ شخص ہے۔ یہ ایک ایسی بد خصلت ہے جو انسان کی زندگی کے کسی ایک پہلو ہی پر اثر نہیں ڈالتی بلکہ اس کی سوچ اور عمل دونوں پر حاوی ہو جاتی ہے۔ بخل انسان کو اس طرح جکڑ لیتا ہے کہ وہ تمام عمر اس کے اثر سے نہیں نکل پاتا۔ 

قرآنِ مجید (Quran-e-Majeed) میں دس مقامات پر واضح انداز میں اور کئی مقامات پر ضمناً بخل (Bukhal) کا ذکر آیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
جو کوئی بھی بخل کرتا ہے وہ درحقیقت اپنی جان ہی سے بخل کرتا ہے، اور اللہ (Allah) بے نیاز ہے، تم (سب) محتاج ہو۔ (سورۃ محمد۔38)

بخل (Bukhal) معنی کے لحاظ سے کرم کا عکس ہے۔ کرم کے معنی میں عطیہ، سخاوت اور خرچ کرنا شامل ہے جبکہ بخل میں نہ صرف رکنا بلکہ خرچ کرنے کی جگہ پر روک لینا مراد ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور (اس نے) مال جمع کیا پھر (اسے تقسیم سے) روکے رکھا۔ (سورۃ المعارج۔ 29)

سخاوت اور بخل دو دریا ہیں جو ایک دوسرے کے متوازی بہتے ہیں۔ سخاوت کا دریا اگرچہ ٹھنڈے اور شریں پانی کا ہے لیکن اس کے اندر اور کناروں پر بہت ہی کم لوگ نظر آتے ہیں۔ یہ خوش بخت لوگ ہیں۔ اس کے برعکس بخل کے دریا کا پانی کھارا اور بدذائقہ ہے لیکن اس کے اندر اور کناروں پر لوگوں کا جمِ غفیر ہے۔ یہ مادہ پرست بدبخت لوگ ہیں۔

بخل  کی مذمت (Bukhal ki Muzammat) میں احادیث بھی ملتی ہیں۔ خاتم النبیین رحمتہ  اللعالمین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad pbuh) نے فرمایا:
دو بھوکے بھیڑیے بکریوں کے ریوڑ میں گھس کر اتنا نقصان نہیں کرتے جتنی مال و جاہ کی چاہت انسان کا دین برباد کر دیتی ہے۔ (ترمذی)
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad pbuh)  نے فرمایا ’’بندوں پر کوئی صبح نہیں آتی مگر اس میں دو فرشتے نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدل عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے اے اللہ! بخل (Bukhal) کرنے والے کو تباہی عطا کر۔ (صحیح بخاری1356)

ایک اور مقام پر حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام  (Prophet Mohammad pbuh)نے فرمایا:
ظلم کرنے سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن تاریکی ہے اور بخل سے بچو کیونکہ بخل (Bukhal) نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا ہے اور بخل ہی کی وجہ سے اپنوں نے لوگوں کے خون بہائے اور حرام کو حلال کیا۔ (صحیح مسلم 2079)

بخل (Bukhal) انسانی صفات میں کمی اور حیوانی صفات کے غالب آجانے کی دلیل ہے۔ جب وہ مال کا بندہ بن جاتا ہے تو نہ ربّ (Allah) اس سے راضی رہتا ہے اور نہ مخلوق۔ 

ایک مقولہ ہے کہ:
سخی شخص کے دشمن بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں جبکہ بخیل کی اولاد بھی اس سے بغض رکھتی ہے۔
بخل (Bukhal) آگ ہے اور اسے صرف سخاوت سے ہی بجھایا جاسکتا ہے بشرطیکہ خودنمائی اور شوکتِ نفس کی بجائے خشیتِ الٰہی اور پرہیزگاری سے کی جائے۔
حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں شہر میں زبردست آگ لگ گئی، آدھا شہر جل چکا تھا، لوگ پانی اور سرکہ کی مشکیں اس پر ڈالتے تھے لیکن وہ بڑھتی جاتی تھی۔ لوگ حضرت عمر فاروقؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آگ پانی سے نہیں بجھ رہی۔ فرمایا ’’یہ آگ اللہ تعالیٰ (Allah) کی نشانیوں میں سے ہے اور تمہارے بخل (Bukhal) کی آگ کا شعلہ ہے، اس پر پانی ڈالنا چھوڑ دو، روٹیاں تقسیم کرو، بخل سے توبہ کرو اور خیرات کرو۔‘‘ لوگوں نے عرض کی ’’ہم تو شروع سے خیرات کرتے ہیں اور بہت سخی ہیں۔‘‘ فرمایا ’’تم خودنمائی اور شان و شوکت کے اظہار کے لیے ایسا کرتے ہو نہ کہ اللہ تعالیٰ کے خوف اور پرہیزگاری کی وجہ سے۔‘‘ (انوارالعلوم ج 1)

بخل فقر کے راستہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ فقر عشق ہے اور عشق قربانی مانگتا ہے اس لیے بخیل اپنے بخل کی وجہ سے اس راستے پر نہیں چل سکتا۔
حضرت یحییٰ بن زکریاؑ کی شیطان سے اسکی اصل صورت میں ملاقات ہوئی۔ آپؑ نے پوچھا ’’ اے شیطان! بتا تجھے سب سے زیادہ کس سے محبت ہے اور کون سا شخص زیادہ نا پسند ہے؟‘‘ شیطان بولا ’’مجھے بخیل سے زیادہ محبت ہے اور فاسق سخی مجھے زیادہ برا لگتا ہے کیونکہ اسکے بارے میں ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ (Allah) اسکی سخاوت قبول کر لے۔‘‘ پھر جاتے ہوئے کہا ’’اگر آپ حضرت یحییٰ نہ ہوتے تو میں یہ بات نہ بتاتا۔‘‘ (احیاء العلوم الدین ، ج 3)

اسراف کی مذمت 

بے جا خرچ کرنا اور حد سے تجاوز کرنا اسراف (Israaf) کہلاتا ہے۔ حضرت سفیان ثوریؒ سے منقول ہے کہ اللہ کی نافرمانی میں خرچ شدہ مال اسراف (Israaf) ہے۔
اسلام ہر شعبہ میں سادگی، اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے۔ فضول خرچی، عیش و عشرت اور نمود و نمائش سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ اس کی شدید مذمت بھی کرتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (سورۃ الاعراف۔31)

فضول خرچی کی نہ صرف مذمت کی گئی ہے بلکہ سخت تنبیہ بھی کی گئی ہے اور ایسا کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کہا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔ (سورۃ بنی اسرائیل۔27)

اسراف (Israaf) دراصل اللہ تعالیٰ کی نعمت کی بے توقیری، ناقدری اور ناشکری ہے جو اللہ تعالیٰ (Allah) کی ناراضی، غصہ اور عتاب کا سبب ہے۔ ناقدری اور ناحق شناسی کی وجہ سے نعمت ملنے والے سے واپسی کا تقاضا کرتی ہے جیسا کہ قدر دانی اور نعمت کی حفاظت کی وجہ سے نعمت برقرار اور زیادہ ہوتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَ نَّکُمْ (سورۃ ابراہیم۔7)
ترجمہ: اگر تم شکر ادا کروگے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا۔
اسلام ترکِ دنیا اور رہبانیت کی دعوت نہیں دیتا بلکہ کمائی اور خرچ کی ناجائز راہوں سے روکتا ہے۔ اپنی ذات پر، بیوی بچوں پر، والدین پر اور عزیز و اقارب پر خرچ کرنا اور ان کی جائز ضروریات پوری کرنا نیکی ہے۔ 

اسراف (Israaf) اور فضول خرچی کا مطلب جائز مقامات پر ناجائز حد تک خرچ کرنا ہے۔ سادگی مسلمان کی شان ہے۔ بخاری شریف میں ہے:
حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa-Aalihi Wasallam) کا ارشادِ گرامی نقل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے والدین کی نافرمانی، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے، خود بخل کرکے دوسروں سے سوال کرنے، فضول باتوں اور سوالات اور مال ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا ’’جو فضول خرچی پر فخر کرتا ہے وہ مفلس ہو کر ذلیل ہوتا ہے۔‘‘ (غرر الحکم)

اسراف کے اسباب

اسراف (Israaf) کے اسباب میں چند درج ذیل ہیں:
پہلا سبب لاعلمی اور جہالت ہے۔ جب بندہ کسی کام میں مال خرچ کرتا ہے تو اس میں اسراف کے کئی پہلو ہوتے ہیں لیکن اسے اپنی جہالت کی بنا پر احساس ہی نہیں ہوتا۔
اسراف کا دوسرا سبب غرور و تکبر ہے۔ بسا اوقات دوسروں پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے بے جا دولت خرچ کی جاتی ہے۔

اسراف (Israaf) کا تیسراسبب شہرت کی خواہش ہے۔
اسراف (Israaf) کا چوتھا سبب غفلت اور لاپرواہی ہے۔ انسان کو یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں کام میں خرچ کرنا اسراف ہے لیکن اپنی غفلت اور لاپرواہی کی بنا پر اسراف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
حضرت سفیان ثوریؒ کا قول ہے ’’اللہ (Allah) کی اطاعت کے سوا اور کام میں جو مال خرچ کیا جائے وہ قلیل بھی ہو تو اسراف ہے۔‘‘
زہریؒ کا قول ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ معصیت میں خرچ نہ کرو۔
مجاہد نے کہا کہ حقوق اللہ میں کوتاہی کرنا اسراف ہے اور اگر ابوقبیس پہاڑ سونا ہو اور اس تمام کو راہِ خدا میں خرچ کر دو تو اسراف (Israaf) نہ ہو اور ایک درہم معصیت میں خرچ کرو تو اسراف۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات)

حاصل تحریر

سب چیزوں کا اصل مالک اللہ تعالیٰ (Allah) ہے۔ اسی نے اپنے بندوں کو ہر چیز سے نوازا ہے لیکن استعمال کرنے کی بھی اسی ذات نے تحدید فرمائی ہے، جس میں اس کی پابندی اور تابعداری ضروری ہے۔ اس لیے اس کے دیئے ہوئے مال میں نہ کنجوسی کی کوئی گنجائش ہے اور نہ اسراف کی۔ کنجوسی صرف مال پہ ہی نہیں ہوتی بلکہ محبت اور شفقت کے اظہار میں، مسکراہٹ بکھیرنے میں، تسلی و تشفی دینے میں، گویا بخیل دینے کے ہر عمل سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔ عمر گزرنے کے ساتھ انسان کے بہت سے عیوب چھٹ جاتے ہیں لیکن بخل پہلے سے بڑھ کر جوان ہوتا ہے۔ بخیل کی مثال اس پیاسے اونٹ کی ہے جس کی پیٹھ پر پانی لدا ہو۔

اسراف دراصل ناشکری ہے اور اللہ (Allah)ربّ العزت کو ناشکری کرنے والے سے سخت نفرت ہے۔ حاصل بحث یہ کہ بخل (کنجوسی) کی راہ اختیار نہ کی جائے اور دل کھول کر اللہ پاک (Allah) کی بارگاہ میں مال خرچ کیا جائے۔ دوسری جانب اسراف یعنی فضول خرچی سے بھی بچا جائے یعنی جائز ضروریات کی تکمیل کے لیے میانہ روی اختیار کی جائے۔ 

یہ دونوں باطنی بیماریاں ہیں اور ان کا علاج مرشد کامل اکمل (Murshid Kamil Akmal – The Perfect Spiritual Guide) کی نگاہِ کیمیا ہے۔ آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) طالبانِ مولیٰ کا تزکیہ نفس فرما کر انہیں باطنی بیماریوں سے نجات دلاتے ہیں، طالبانِ مولیٰ ہر اتوار کو خانقاہ سلطان العاشقین (Khanqah Sultan ul Ashiqeen & Zahra Mosque, Village Rangeel Pur Sharif, Sundar Adda, Multan Road, Lahore) میں حاضر ہو کر مرشد کی صحبت سے فیض یاب ہوتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ  (Allah)ہمیں شیطان کے شر اور نفس کی چالبازیوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین

استفادہ کتب:
۱۔انوار العلوم، اردو نثر مثنوی مولانا رومؒ
۲۔احیاء العلوم؛تصنیف ِلطیف امام غزالیؒ
۳۔رسالہ: باطنی بیماریوں کی معلومات

 

45 تبصرے “بخل اور اسراف کی مذمت | Bukhal or Israaf ki mazahmat

  1. بخل (Bukhal) انسانی صفات میں کمی اور حیوانی صفات کے غالب آجانے کی دلیل ہے۔ جب وہ مال کا بندہ بن جاتا ہے تو نہ ربّ (Allah) اس سے راضی رہتا ہے اور نہ مخلوق۔

  2. اللہ کو نہ تو بخل (کنجوسی)پسند ہے اور نہ اسراف (فضول خرچی) نہ ہی مال جمع کرنا۔ اللہ پاک ضرورت سے زیادہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے

  3. حضرت سفیان ثوریؒ کا قول ہے ’’اللہ (Allah) کی اطاعت کے سوا اور کام میں جو مال خرچ کیا جائے وہ قلیل بھی ہو تو اسراف ہے۔‘‘

  4. بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔ (سورۃ بنی اسرائیل۔27)

  5. سب سے اچھا ہے پوری دنیا میں اس جیسا کوئی نہیں

  6. اللہ تعالیٰ (Allah)ہمیں شیطان کے شر اور نفس کی چالبازیوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین

  7. اللہ پاک حضور پاک کے صدقہ سے بخل اسراف جیسی روحانی بیماریوں سے محفوظ رکھے آمین❤❤❤🌹🌹🌹

  8. اللہ تعالی ہمیں شیطان کے شر اور نفس کی چالبازیوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین

  9. ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
    تمہارا مال اور اولاد تمہارے لیے فتنہ ہیں۔ (سورۃ التغابن۔ 15)

  10. آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) طالبانِ مولیٰ کا تزکیہ نفس فرما کر انہیں باطنی بیماریوں سے نجات دلاتے ہیں، طالبانِ مولیٰ ہر اتوار کو خانقاہ سلطان العاشقین (Khanqah Sultan ul Ashiqeen & Zahra Mosque, Village Rangeel Pur Sharif, Sundar Adda, Multan Road, Lahore) میں حاضر ہو کر مرشد کی صحبت سے فیض یاب ہوتے ہیں۔

  11. اللہ پاک ہم سب کو اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل کرے

  12. اللہ تعالیٰ (Allah)ہمیں شیطان کے شر اور نفس کی چالبازیوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین

  13. سخاوت اور بخل دو دریا ہیں جو ایک دوسرے کے متوازی بہتے ہیں

  14. بخل انسانی صفات میں کمی اور حیوانی صفات کے غالب آجانے کی دلیل ہے۔ جب وہ مال کا بندہ بن جاتا ہے تو نہ ربّ اس سے راضی رہتا ہے اور نہ مخلوق۔

  15. آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس طالبانِ مولیٰ کا تزکیہ نفس فرما کر انہیں باطنی بیماریوں سے نجات دلاتے ہیں

  16. بخل فقر کے راستہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ فقر عشق ہے اور عشق قربانی مانگتا ہے اس لیے بخیل اپنے بخل کی وجہ سے اس راستے پر نہیں چل سکتا۔

  17. سخی شخص کے دشمن بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں جبکہ بخیل کی اولاد بھی اس سے بغض رکھتی ہے۔

  18. مال و دولت کم ہو یا زیادہ، ہر صورت میں ہی آزمائش ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں