Kaleed-ul-Tauheed Kalan

کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan – Urdu Translation


Rate this post

کلید التوحید (کلاں) (Kaleed ul Tauheed Kalan)

جان لو کہ کامل مکمل اور اکمل مرشد صاحبِ توحید دو قسم کے ہوتے ہیں اوّل صاحبِ دیدار جو طالبوں کو اپنی نگاہ سے وحدانیت کی حضوری میں لے جاتے ہیں اور نگاہِ رحمت میں منظور کراتے ہیں۔ دوم مرشد وہ ہوتے ہیں جو طالبوں کو دعوتِ اہلِ قبور یا تصور اسمِ اللہ ذات کی قوت یا توجۂ باطنی یا غلبۂ شوق و سرور کے طریق سے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Mohammadan Assembly) کی حضوری میں لے جاتے ہیں۔ حضوری کا یہ سلک سلوک رازِ حق سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ حق حق سے کھلتا ہے اور حق حق کے توسط سے ہی دکھائی دیتا ہے۔ بیت:

باھوؒ ہر کہ بیند عین را عفو العباد
عارفان از عفو باطن شد آباد

ترجمہ: باھوؒ  (Hazrat Sakhi Sultan Bahoo ra)جو عین حق دیکھ لیتا ہے وہ لوگوں کی خطاؤں سے درگزر کرتا ہے کیونکہ عارفین عفو کی صفت سے اپنے باطن کو آباد کرتے ہیں۔
اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔
یہ آیت کریمہ دل کے وسیع طبقات اور وجود کے اللہ کی ذات میں فنا ہونے سے متعلق ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:

 

                        اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحٌ ط  اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ ط اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّھَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّ لَا غَرْبِیَّۃٍلا یَّکَادُ زَیْتُھَا یُضِیْٓئُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ ط نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ ط یَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآئُ ط وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ ط وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ۔(سورۃ النور۔35)
ترجمہ: اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال اس طاق جیسی ہے جس میں چراغ ہے۔ چراغ فانوس میں رکھا ہے فانوس گویا درخشندہ ستارہ ہے جو زیتون کے اس مبارک درخت سے روشن ہے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تیل چمک رہا ہے اگرچہ ابھی اسے آگ نے چھوا بھی نہیں۔ نور کے اوپر نور ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنے نور تک پہنچا دیتا ہے اور اللہ لوگوں (کی ہدایت) کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے اور اللہ ہر چیز سے خوب آگاہ ہے۔

یہ آیاتِ کریمہ اولیا کے متعلق ہیں اور ولی اسے کہتے ہیں جو ہمیشہ اللہ کی نگاہ میں اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) کی حضوری میں رہتا ہو۔ ذکرِ اللہ سے اس کا دل پاکیزہ ہو چکا ہو اور وہ مجلسِ انبیا و اولیا میں ہر ایک نبی و ولی کی روح سے ملاقات کرتا ہو۔ وہ آیاتِ کریمہ یہ ہیں فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَلِیًّاز ق وَّکَفٰی بِاللّٰہِ نَصِیْرًا۔   (سورۃ النسا۔45)
ترجمہ : اور اللہ (بطور) کارساز کافی ہے اور اللہ (بطور) مددگار کافی ہے۔ 

فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِیَآئَ حَتّٰی یُھَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (سورۃ النسا۔89)
ترجمہ: (اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) آپ ان میں سے (کسی کو) اپنا ولی مقرر نہ فرمائیں یہاں تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کریں۔

وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَۃً فَامنْبِذْ اِلَیْھِمْ عَلٰی سَوَآئٍط اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ۔  (سورۃ الانفال۔58)
ترجمہ: اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اُن کے عہد اُن کی طرف برابری کے ساتھ پلٹ دیں۔ بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

اولیا اللہ کے دلوں میں اسمِ اللہ ذات (Ism-e-Allah Zaat/ Ism-e-Azam) کے ذکر و تصور کی بدولت خوف طاری رہتا ہے۔ بیت:

از ہیبت آں دو راہ خون شد دل من
تا آخر بہ کدام راہ برد منزلِ من

ترجمہ: ان دو راہوں کی ہیبت کی بدولت میرا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ آخر کونسی راہ مجھے منزل تک پہنچائے گی۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّۃِ وَ فَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ (سورۃ الشوریٰ۔7)
ترجمہ: ایک گروہ جنت میں ہوگا اور دوسرا گروہ دوزخ میں ہوگا۔

انسان کو اپنے دل کی آنکھ کھولنی چاہیے کیونکہ ظاہری آنکھ (اس راہ میں) کسی کام نہیں آتی۔ اے عارف باللہ! اولیا اللہ دل کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کیونکہ ظاہری آنکھیں تو حیوان بھی رکھتے ہیں۔ اہلِ چشمِ باطن حق تعالیٰ کے مقرب ہوتے ہیں۔ طالبِ مولیٰ دیدار کرنے والا ہوتا ہے اور اسے حق الیقین کے مراتب حاصل ہوتے ہیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:

وَّکُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَۃً ط۔فَاَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ لا مَآ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ ۔ ط وَاَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ لا مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ ط ۔ وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ ۔لا اُولٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَج۔ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ۔ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَلا ۔وَ قَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ۔ ط عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ۔ لا مُّتَّکِئِیْنَ عَلَیْھَا مُتَقٰبِلِیْنَ۔ یَطُوْفُ عَلَیْھِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ۔ لا بِاَکْوَابٍ وَّ اَبَارِیْقَلا وَکَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ۔ لا لَّا یُصَدَّعُوْنَ عَنْھَا وَ لَا یُنْزِفُوْنَ۔ لا وَ فَاکِھَۃٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ۔ لا وَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَھُوْنَ۔ ط وَحُوْرٌ عِیْنٌ۔لا کَاَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَکْنُوْنِ۔ج جَزَآئًم بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ لَایَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّ لَا تَاْثِیْمًا۔لا اِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا۔ (سورۃ الواقعہ7-26)
ترجمہ: اور تم تین گروہوں میں بٹ جاؤ گے ایک دائیں جانب والے‘ دائیں جانب والوں کی تو کیا ہی بات ہے۔ اور (دوسرے) بائیں جانب والے‘ کیا (ہی برُے حال میں ہوں گے) بائیں جانب والے۔ اور (تیسرے) سبقت لے جانے والے‘ (یہ) پیش قدمی کرنے والے ہیں۔ یہی لوگ (اللہ کے) مقرب ہوں گے۔ جنتِ نعیم میں ہوں گے۔ (ان مقربین میں) بڑا گروہ اگلے لوگوں میں سے ہو گا اور پچھلے لوگوں میں سے (ان میں) تھوڑے ہوں گے۔ وہ جڑاؤ تختوں پر ہوں گے ۔ ان پر تکیے لگائے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ ہمیشہ ایک ہی حال میں رہنے والے نوجوان خدمتگار ان کے اردگرد گھومتے ہوں گے۔ کوزے، آفتابے اور چشموں سے بہتی ہوئی (شفاف) شراب کے جام لے کر۔ انہیں نہ تو اس سے دردِ سر کی شکایت ہوگی اور نہ ہی عقل میں فتور آئے گا۔ اور (جنتی خدمت گزار) پھل لے کر (پھر رہے ہوں گے) جنہیں وہ (مقربین) پسند کریں گے۔ اور پرندوں کا گوشت بھی جس کی وہ خواہش کریں گے اور خوبصورت کشادہ آنکھوں والی حوریں بھی (ان کی رفاقت میں ہوں گی) جیسے محفوظ چھپائے ہوئے موتی ہوں۔ یہ ان (نیک) اعمال کی جزا ہوگی جو وہ کرتے رہے تھے۔ وہ اس میں نہ کوئی بیہودگی سنیں گے اور نہ کوئی گناہ کی بات۔ مگر ایک ہی بات کہ سلام ہی سلام سنیں گے۔

ذکرِ روحانیت اور تصور اسمِ اللہ ذات (Ism-e-Allah Zaat/ Ism-e-Azam) طالب کو نورِ ایمان میں غرق کر دیتے ہیں جس کی بدولت وہ ظاہری طور پر ہمیشہ شریعت پر عمل پیرا رہتا ہے اور باطن میں کامل عارف باللہ ہو جاتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَاط مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا  الْکِتٰبُ وَ لَا الْاِیْمَانُ وَلٰکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْرًا نَّھْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَآئُ مِنْ عِبَادِنَاط وَ اِنَّکَ لَتَھْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ صِرَاطِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ ط اَلَآ اِلَی اللّٰہِ تَصِیْرُ الْاُمُوْرُ ۔    (سورۃ الشوریٰ52-53)
ترجمہ: (اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ہم نے آپ کی طرف اپنے امر سے روح کی وحی فرمائی۔ آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے۔ اور ہم نے اسے نور بنا دیا۔ ہم اس کے ذریعے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت سے نوازتے ہیں اور بیشک آپ ہی صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت فرماتے ہیں۔ (یہ صراطِ مستقیم) اسی اللہ ہی کا راستہ ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہے۔ جان لو کہ سب امور اللہ کی طرف ہی لوٹائے جاتے ہیں۔

فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَلٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیْلَ کُلِّ شَیْئٍ وَّ ھُدًی وَّ رَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۔  (سورۃ یوسف۔111)
ترجمہ: اور ان (آسمانی کتابوں) کی تصدیق کرتا ہے جو اس (قرآن) سے پہلے (نازل ہوئی) ہیں اور اس قوم کے لیے جو ایمان لائے (ان کے لیے) اس میں ہر شے کی تفصیل اور ہدایت و رحمت ہے۔

وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْئًا وَّ ھُمْ یُخْلَقُوْنَ۔   (سورۃ النحل۔20)
ترجمہ: اور یہ (مشرک) لوگ جن (بتوں) کو اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں۔

بیت:

از شرک و کفر باز آ ای بت پرست
تا ترا حاصل شود وحدت الست

ترجمہ: اے بت پرست! شرک و کفر سے باز آتاکہ تجھے وحدت حاصل ہو سکے جو تجھے روزِ الست حاصل تھی۔
جو یہ چاہتا ہو کہ وہ دریائے وحدانیتِ الٰہی تک پہنچ جائے اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Mohammadan Assembly) کی حضوری سے دائمی طور پر مشرف و حاضر رہے اور سلطان الفقر سے ملاقات کرے کیونکہ صورتِ سلطان الفقر نورِ حق ہے اور سلطان الفقر فنا فی اللہ ہوتے ہیں جو ہمیشہ قربِ خدا میں اور حضور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) کی صحبت میں رہتے ہیں‘ (تو وہ جان لے کہ) آدمی کے وجود پر کم و بیش تیس کروڑ تیس لاکھ بال ہیں اور ہر بال کے اندر شیطان کا گھر ہے جو کہ خواہشات سے پرُ ہے اور اس کی اساس دنیا ہے جو ہر خواہش کو پروان چڑھاتی ہے اور لذتِ دنیا سے پانی کی مثل سیراب کرتی ہے۔ لہٰذا جو سب سے پہلے دل میں سے حبِ دنیا کو باہر نہیں نکالتا وہ ہرگز اللہ کا قرب نہیں پا سکتا نہ ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad pbuh) کی مجلس میں پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی اس کے ہر بال اور قلب و قالب سے ذکر جاری ہوتا ہے۔ معرفت و فقرِ خداجو کہ اصل کامیابی ہے‘ اس تک اور وحدانیت و وِصال تک ترکِ دنیا کے بغیر کوئی نہیں پہنچ سکتا اگرچہ تمام عمر اپنا سر پتھر سے ٹکراتا رہے اور تقویٰ و کثرتِ مجاہدہ سے اس کی کمر کبڑی ہو جائے اور وجود (سوکھ کر) بال کی مثل باریک ہو جائے وہ خدا سے جدا اور حجاب و دوری میں ہی رہتا ہے۔ وہ دنیا کا دوست اور خدا کا دشمن ہوتا ہے۔
ابیات:

ز بہر زر چرا تو دلق پوشی
ز بہر زر چرا دائم خموشی

ترجمہ: توُ مال و دولت کی خاطر کیوں درویشانہ لباس پہنے ہوئے ہے اور مال و دولت کی خاطر کیوں دائمی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے؟

ز بہر زر چرا عرفاں مکانی
ز بہر زر چرا درویش خوانی

ترجمہ: توُ مال و دولت کی خاطر کیوں صاحبِ عرفان بنا ہوا ہے اور کیوں مال و دولت کی خاطر خود کو درویش کہلواتا ہے؟

ز بہر زر چرا گریہ کشائی
ز بہر زر چرا صورت نمائی

ترجمہ: توُ مال و دولت کی خاطر کیوں آنسو بہاتا ہے اور اس کی خاطر کیوں یہ رنجیدہ صورت بنائی ہوئی ہے؟

ز بہر زر چرا خلوت نشینی
ز بہر زر چرا خوش خواب بینی

ترجمہ: توُ مال و دولت کی خاطر کیوں خلوت نشینی اختیار کیے ہوئے ہے اور کیوں اسی کے ہی خوشنما خواب دیکھتا رہتا ہے؟

ز بہر زر چرا اللہ فروشی
ز بہر زر چرا غوغا خروشی

ترجمہ: توُ مال و دولت کی خاطر کیوں خدا کا نام بیچتا ہے اور امیر ہونے کی خاطر شور و غل کرتا ہے؟

ز بہر زر چرا نقشی بدانی
ز بہر زر چرا تسبیح خوانی

ترجمہ: توُ مال و دولت کی خاطر کیوں زائچے بناتا اور تعویذ گنڈے اور وظائف کرتا ہے؟

ز بہر زر چرا علم و فضیلت
ز بہر زر چرا دنیا وسیلت

ترجمہ: توُ مال و دولت کے لیے کیوں علم و فضیلت حاصل کرتا ہے اور اسے دنیا کے حصول کے لیے وسیلہ بناتا ہے؟

ز بہر زر چرا تو شاہ طلبی
ز بہر زر چرا تو ذکر قلبی

ترجمہ: توُ مال و دولت کی خاطر کیوں بادشاہی اور مراتب طلب کرتا ہے اور اس کے حصول کی خا طر کیوں ذکرِ قلبی کرتا ہے؟

ز بہر زر چرا تو انتظاری
ز بہر زر چرا ہر در بخواری

ترجمہ: توُ مال و دولت کا کیوں منتظر رہتا ہے اور اس کی خاطر کیوں در در خوار ہوتا ہے؟

باھوؒ را نیست طلبش زر زوالی
کہ غرق معرفت باحق وصالی

ترجمہ: باھوؒ  (Hazrat Sakhi Sultan Bahoo ra)کو اس زوال پذیر ہونے والے مال و دولت کی بالکل طلب نہیں کیونکہ وہ معرفت میں غرق ہو کر حق سے وصال پا چکا ہے۔

تو جان لے کہ دنیا کچھ دن کی متاع ہے اور آخرکار تجھے حق تعالیٰ کے حضور جانا ہے۔ جان لے کہ دنیا متاعِ شیطان ہے اور دنیا کا تارک مراتبِ عرفان حاصل کر لیتا ہے۔ ذکرِ الٰہی میں ایک لمحہ کے لیے مشغول ہونا دنیا کی ہزار بادشاہتوں سے بہتر ہے۔ جان لے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) سے ان کے اصحاب اور دوستوں نے پوچھا کہ یا حضرت! ایسی کونسی بہتر چیز ہے جو دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کے قرب میں پہنچاتی ہے اور کونسی کمتر چیز ہے جو دنیا و آخرت میں حق تعالیٰ سے دور کرتی ہے اور ذلت کا باعث بنتی ہے؟ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa-Aalihi Wasallam) نے اپنی زبانِ مبارک سے فرمایا کہ معرفت و فقر کو اپنا محبوب رکھو کہ ان دونوں نعمتوں سے ہی دونوں جہان میں سرفرازی اور فخر نصیب ہوتا ہے اور دنیا کی جانب سوائے حقارت کی نگاہ کے نہ دیکھو کیونکہ دنیا متاعِ شیطان ہے۔ ابیات:

مائلِ جیفہ کے شود جز سگے
کینہ وری بی خبری بدرگے

ترجمہ: مردار کی طرف کتوں کے سوا کون مائل ہوتا ہے؟ جو کینہ پرور، غافل اور کمینہ ہو۔ 

طالب دنیا ز سگ کمتر است
ظاہر او گرچہ بجاہ و فراست

ترجمہ: طالبِ دنیا کتوں سے بھی کمتر ہے اگرچہ ظاہری طور پر صاحبِ جاہ و فراست ہو۔

باطنش آلودہ بہ پندار او
خلق سگ ظاہر از ادبارِ او

ترجمہ: اس کا باطن غرور کے باعث آلودہ ہوتا ہے اور اس کے کتے جیسے اوصاف سے اس کی بدبختی ظاہر ہوتی ہے۔ 

بغضب و شہوت و حرص و ہوا
سیرتِ او چوں دد و آدم نما

ترجمہ: غضب، شہوت، حرص اور ہوس (جیسی برائیوں) کی بنا پر اس کی سیرت حیوانات کی مثل ہوتی ہے وہ محض دیکھنے میں ہی انسان ہوتا ہے۔

سیم و زرش قبلہ آرام او
گاؤ صفت خواب و خورش کام او

ترجمہ: اس کا قبلہ اور آرام گاہ مال و دولت ہوتی ہے اور جانوروں کی مثل اس کا کام محض کھانا اور سونا ہوتا ہے۔

روز و شبش صرف بغفلت مدام
با زن و بچہ دل او گشتہ رام

ترجمہ: اس کے شب و روز ہمیشہ غفلت میں گزرتے ہیں اور عورتوں اور بچوں سے ہی اس کا دل سکون پاتا ہے۔

رفت ز یادش غم نزع و ممات
غافل و مخذول ز راہِ نجات

ترجمہ: وہ موت اور نزع کی تکلیف کو بھول چکا ہوتا ہے اس لیے راہِ نجات سے غافل اور بے پرواہ ہوتا ہے۔

عام صفت ما و توئی را گرفت
رنگ دو بینی و دوئی را گرفت

ترجمہ: عام لوگوں کی طرح وہ ’میں اور تو‘ کے چکر میں پھنس کر دوئی اور منافقت میں گھرا ہوتا ہے۔

صاف دلی را نہ شنید و نہ دید
تیرہ دلی از رخ او شد پدید

ترجمہ: دل کو صاف کرنے کی بات نہ وہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے۔ دل کی سیاہی اس کے چہرے سے ظاہر ہوتی ہے۔

خانۂ عمر تو بود بر دمے
بہر دمے می طلبی عالمے

ترجمہ: تیری زندگی تو محض لمحوں پر محیط ہے لیکن تو ہر لمحہ دنیا کی طلب میں ہے۔

بہر دمے کینہ و کبر و ریا
بہر دمے ایں ہمہ حرص و ہوا

ترجمہ: اس ایک لمحے کے لیے یہ کینہ، تکبر اور ریا؟ اور اسی ایک لمحے کے لیے یہ ساری حرص اور ہوس؟

بہر دمے ایں ہمہ شر و فساد
ہفت ہزارے شدنت اجتہاد

ترجمہ: اس ایک لمحے کی خاطر یہ شر اور فساد؟ اور اس کی خاطر یہ ہزاروں اجتہاد؟

حیف بریں دانش و آئین تو
کور شدہ دیدئہ حق بین تو

ترجمہ: تیرے اس اصول اور عقل پر افسوس جس کی وجہ سے تو حق دیکھنے سے اندھا ہو چکا ہے۔

دنیا خوار را جواب خوار تر
ملعونست در نظر عارفان بابصر

ترجمہ: دنیا خوار ہے اور یہ بدلے میں شدید خوار کرتی ہے۔ اس لیے صاحبِ بصیرت عارفین کی نظر میں یہ ملعون ہے۔

حب دنیا دل گرفت از سر ہوا
دل ز حبِ دنیا رود عارف خدا

ترجمہ: حبِ دنیا کی وجہ سے دل خواہشاتِ نفس میں جکڑا ہوتا ہے اور جب دل سے حبِ دنیا نکل جاتی ہے تو طالب عارفِ خدا بن جاتا ہے۔

(جاری ہے)

(Kaleed ul Tauheed Kalan)

 

اپنا تبصرہ بھیجیں