Alif-mahnama-sultanulfaqr-magazine

alif | الف


5/5 - (1 vote)

  الف (Alif )

فلسفۂ معراج 

تاریخِ عالم میں واقعہ معراج انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس نے فکرِانسانی کو ایک نیا موڑ عطا کیا اور فکر و نظر کی رسائی کو وسعت عطا ہوئی۔ یہ ایک ایسا عظیم واقعہ ہے جس پر ایمان اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سرشار مسلمان فخر کرتے ہیں کہ ہم اس عظیم المرتبت محبوبِ خدا کے اُمتی ہیں جنہیں ربِ کائنات نے حالتِ شعور میں زمین اور آسمانوں کی سیر کروائی۔ اس واقعہ کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے والے آج بھی شش و پنج میں گرفتار اس عظیم واقعہ کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش میں ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ معراج ایک معجزہ ہے اور معجزہ خلافِ فطرت ہوتاہے جسے عقل سے پرکھنا بے عقلی کی نشانی ہے۔ درحقیقت عشق والوں اور عقل والوں میں یہی فرق ہے جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ 

معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بلاشبہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زندہ معجزہ ہے۔ یہ معجزہ براہِ راست اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظمت، رفعت اور حقیقت کسی بھی بشر کی سمجھ بوجھ، عقل و خرد اور فہم و فراست کی پرواز سے بلند ہے حتیٰ کہ اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جہاں عالمِ انسانیت کو ورطۂ حیرت میں ڈالنے والا واقعہ ہے وہیں طالبانِ مولیٰ کے لیے اس میں بہت سے اسباق پوشیدہ ہیں۔ سفرِمعراج کے دوران حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس فرمانِ عالی شان ’’میرا شوق میری سواری، میری آرزو میرا زادِ راہ اور میری رات میری دلیل ہے۔ میں صرف انہی کے ذریعے ذاتِ کریم تک پہنچوں گا‘‘ سے یہ ثابت کر دیا کہ میری حقیقی پیروی کرنے والے اگر وصالِ حق چاہتے ہیں تو شوق کی سواری سے ہی ایسا ممکن ہے۔ جس قدر شوق، عشق اور جنوں زیادہ ہو گا اُسی قدر قربِ حق کی طرف سفر تیزی سے طے ہوگا۔ اللہ تعالیٰ زمان و مکان سے منزہ و مبرّا ہے اس تک قدموں سے چل کر نہیں پہنچا جا سکتا۔ جو ایسا سوچتے ہیں وہ خطا پر ہیں۔ عشقِ الٰہی، دیدارِ الٰہی اور وصالِ الٰہی اللہ تعالیٰ کی خاص عطائیں ہیں اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات کو پردوں میں پوشیدہ سمجھتے ہیں وہ اس عطاسے محروم رہتے ہیں۔

معراج ’’عروج‘‘ سے ہے یعنی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کمالات کے عروج کی حد۔ معراج کا واقعہ اعلانِ نبوت کے دس سال بعد پیش آیا۔ اس واقعہ سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بہت زیادہ مصائب کا سامناکرنا پڑا۔ تین سال تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو شعبِ ابی طالب میں محصور رکھا گیا۔ حضرت ابو طالبؓ اوراُم المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰؓ کا انتقال ہو گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تبلیغ کے لیے طائف کا سفر کیا تو طائف والوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ ناروا سلوک کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نعلین مبارک خون سے ترہو گئے۔ جب مصائب نے ہر طرف سے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو گھیر لیا تو پھر وہ رات آئی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو معراج کرائی گئی۔ گویا اللہ تک پہنچنے کے لیے طالب کوسخت مشکلات سے صبر و استقامت کے ساتھ گزرنا پڑتا ہے لیکن آخر اللہ سے وصل کی گھڑیاں نصیب ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ صرف مشکلات، مصائب اور آلام سے ہی پُر نہیں ہے بلکہ اس راستے میں مقامات و درجات، حور وقصورِ جنت بھی ہیں اور ربّ تعالیٰ تک صرف وہی طالب پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں جو نہ تو ہمت ہارتے ہیں اور نہ ہی ان کی نظر کسی اور طرف مشغول ہوتی ہے۔ 


اپنا تبصرہ بھیجیں