فطرت اور صحبت( Fitrat aur Sohbat)
تحریر: مقدس یونس سروری قادری۔ لاہور
لفظ’’فطرت‘‘ معنی کے اعتبار سے خاصہ وسیع مفہوم رکھتا ہے۔
قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا ط فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا ط لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ق وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (سورۃ روم۔30)
ترجمہ:پس آپ یک سو ہو کر اپنا رخ دینِ حنیف کی طرف متوجہ کر دیں، اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت(توحید) جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں، یہی سیدھا دین ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔
اس آیت میں فطرت سے مراد دینِ اسلام ہے اور معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو ایمان پر پیدا کیا۔سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اپنی تصنیفِ مبارکہ ’’ شمس الفقرا‘‘ میں فرماتے ہیں:
جب اللہ تعالیٰ نے خود کو نورِ محمدی کی صورت میں ظاہر کیا اور اپنے ہی آئینۂ قدرت میں خود کو صورتِ محمدی میں دیکھا تو اپنے اس رُوپ پر خود ہی عاشق اور فریفتہ ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کا یہی عشق نورِ محمدی کا جوہرِ خاص بنا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے’’امرِ کنُ‘‘ فرما کر نورِ محمد سے تمام عالم کی کل مخلوقات کی ارواح کو پیدا فرمایا۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے:
اَنَا مِنْ نُّوْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَکُلُّ خَلَائِقِ مِنْ نُّوْرِیْ
ترجمہ:میں اللہ تعالیٰ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوق میرے نور سے ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نور مبارک سے جب تمام ارواح کو پیدا کیا گیا تو عشقِ الٰہی کا جوہرِ خاص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت سے ارواح انسانی کے حصے میں بھی آیا۔ جب اپنے حسن و جمال کے اظہار کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح کو اپنے رُوبروصف آرا فرمایا تو خود کو اسمِ اللہ ذات کی صورت میں جلوہ گر فرمایا۔ تمام ارواح اللہ تعالیٰ کے حسنِ بے مثال ولامحدود کو دیکھ کر دنگ رہ گئیں اور حسنِ مطلق کی حمد اور ذکر میں محو ہوگئیں۔ یہی حمد اور ذکر اسمِ اللہ ذات کا نور اور دیدارِ الٰہی جملہ ارواح کا رزق بنا اور وہ اسی رزق پر پلنے لگیں۔ اظہارِ جمال کے بعد عہدِالست لیا اور مزید شفقت و مہربانی یہ فرمائی کہ اس کے متعلق قرآن میں بیان بھی فرما دیا تاکہ مخلوق اپنے خالق سے کیے گئے وعدے کو یاد کرکے توحید پر قائم رہے اور اس کی مکمل پہچان و معرفت حاصل کرلے۔
عالمِ ارواح میں اللہ پاک نے ارواح سے فرمایا:
اَلَسْتُ بِرَبّکُمْ (سورۃالاعراف۔172)
ترجمہ:کیا میں تمہارا ربّ (پالنے والا) نہیں ہوں؟
(یعنی کیا تم میرے حسن و جمال کے جلووں،دیدار اور میرے ذکر پر پل نہیں رہے ہو؟)
اس وقت تمام ارواح کی آنکھیں نورِ اسمِ اللہ ذات سے منور اور مدہوش تھیں اور ہر کدورت وآلائش سے پاک تھیں اس لیے سب نے یک زبان ہو کر جواب دیا:
قَالُوْابَلٰی (سورۃاعراف۔172)
ترجمہ: کہا، ہاں کیوں نہیں!(تو ہی ہمارا پالنے والا ہے)۔
المختصر جب انسان نے اللہ تعالیٰ کے روبرو سرِ محفل اس کے عشق کا دم بھرلیا تو اللہ تعالیٰ نے ہجروفراق کی بھٹی میں ڈال کر اس کے جذبۂ عشق کی صداقت کو پرکھنا چاہا اور انسان کو عنصری جسم دے کر اِس دنیا کے دارالامتحان میں لاکھڑا کیا۔ اسے اَحْسَنِ تَقْوِیْم سے اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ میں اُتارا اور اس کی فطرتِ نورانی میں نارِشیطانی،خواہشاتِ نفسانی اور کدورت وآلائشِ دنیائے فانی ملادی۔ارواح کی طاقتِ ایفا، اخلاصِ وعدہ بَلٰی اور قوت اقرارِ عبودیت کی پوری پوری پرکھ اور آزمائش کرنے کے لیے ان ارواح کو بہشتِ قرب و صال اور جنت حضورسے نکال کر نفس اور شیطان کے ہاتھوں میں اس کی ڈوریں دے دیں اور اسے دنیا کے کمرہ امتحان میں لاکھڑا کیا۔(شمس الفقرا)
دنیامیں جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے وہ اسی فطرت پر پیدا ہوتا ہے یعنی اسی عہد پر پیدا کیا جاتاہے جو اس نے بَلٰی کہہ کر اللہ تعالیٰ سے کیا تھا۔
صحیح مسلم میں حدیثِ مبارکہ درج ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی، یا مشرک بناتے ہیں‘‘
بنی نوع انسان کی تخلیق فطرتِ الٰہیہ پر ہوئی ہے اور ابتدائے آفرینش سے بطنِ مادر سے پیدائش کے وقت انسان کا پہلا فطری مذہب توحید ہوتا ہے، پھر کوئی کسی مذہب سے منسلک کردیا جاتا ہے اور کوئی کسی اور مذہب سے۔
حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے نبی کریم ؐنے خطبہ کے درمیان ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے تمام بندوں کو اس حال میں پیدا کیا کہ وہ باطل سے دور رہنے والے تھے، بے شک ان کے پاس شیطان آیا اور ان کو دین سے پھیر دیا۔‘‘
جب بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو اس کی باطنی صورت و شخصیت (فطرت) بہترین، پاک و شفاف ہوتی ہے۔لیکن پھر اس کا ماحول،دنیا کی لذتوں کی رغبت و لالچ،کبھی اردگرد کے لوگوں کی بدسلوکیاں اور کبھی بے جا لاڈ پیار، نفس اور شیطان کے پے در پے حملے اس کی بہترین باطنی صورت کو مسخ کرکے رکھ دیتے ہیں۔
فطرت پر صحبت کا اثر
انسان انس سے ہے اور اُس کے بننے بگڑنے میں کسی کی رفاقت و معیت اور صحبت کابے حد دخل ہے۔ تاریخ میں جتنی عظیم ہستیاں گزری ہیں، وہ کسی مردِ آہن کی محنت و توجہ سے ہی عظمت کی مثال بنے ہیں اور جو بگڑے ہیں وہ بھی اپنے اردگرد کے ماحول سے ہی برباد ہوئے ہیں۔ اثر و قبول انسان کا ہمہ گیر خاصہ ہے۔ ماحول و معاشرہ اور اچھے برے ساتھیوں کے اطوار وہ بہت جلد اپنا لیتا ہے۔ اس لیے ایک آدمی کی تعمیرو تخریب میں اُس کے اردگرد کے حالات و شخصیات کا گہرا اثر ہوتاہے۔ رات دن میں لوگ سینکڑوں کام کسی کی دیکھا دیکھی ہی کرتے ہیں، نادان کہے جانے والے بچے بھی اپنے ماں باپ، گھر اور درسگاہ کے ماحول کا اثر خودبخود لے لیتے ہیں۔ درج ذیل مشہور انگریزی محاورہ بہت معنی خیز ہے:
“A man is known by the company he keeps.”
ترجمہ: آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’نیک اور برے دوست کی مثال مشک ساتھ رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے۔ (جس کے پاس مشک ہے اور تم اس کے دوست ہو) وہ اس مشک میں سے تمہیں کچھ تحفہ کے طور پر دے گا یا تم اس سے خرید سکو گے یا (کم از کم) تم اس کی عمدہ خوشبوسے تو محظوظ ہو ہی سکوگے اور بھٹی دھونکنے والا یا تو تمہارے کپڑے (بھٹی کی آگ سے) جلا دے گا یا تمہیں اس کے پاس سے ایک ناگوار بدبودار دھواں پہنچے گا۔‘‘
یہ حدیثِ مبارکہ دوستی اور مجلس کی حقیقت کو نہایت احسن انداز میں واضح کرتی ہے کہ انسان کی سیرت وکردار پر اچھی صحبت کے لازماً اچھے اثرات اور بری صحبت کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں :
سچے دوست تلاش کرو اور ان کی پناہ میں زندگی گزارو کیونکہ وہ خوشی کی حالت میں زینت اور آزمائش کے وقت (آسانی کا) سامان ہیں۔ کسی گناہ گار کی صحبت اختیار نہ کرو ورنہ اس سے گناہ کرنا ہی سیکھو گے۔
منقول ہے کہ ایک آدمی نے دو اینٹیں لیں، ایک اینٹ کو مسجد میں لگا دیااور ایک اینٹ بیت الخلا میں لگا دی۔
اینٹیں ایک جیسی
بنانے والا ایک جیسا
لگانے والا بھی ایک ہی آدمی
لیکن ایک کی نسبت مسجد سے ہوئی اور ایک کی نسبت بیت الخلا سے
جس اینٹ کی نسبت بیت الخلا سے ہوئی
وہاں ہم ننگے پاوں بھی قدم رکھنا پسند نہیں کرتے
اور جس اینٹ کی نسبت بیت اللہ سے ہوئی
وہاں ہم اپنی پیشانیاں ٹیکتے پھرتے ہیں
دونوں کے رتبے میں فرق کیوں ہوا
قیمت ایک تھی چیز بھی ایک تھی
فرق صرف یہ تھا کہ دونوں کی نسبت الگ الگ تھی
اپنی نسبت اللہ والوں کے ساتھ رکھیں۔۔۔ ان سے جو حقیقت کی راہ جانتے ہوں کیونکہ اللہ والوں کی محفل اور اللہ والوں سے نسبت اللہ تک پہنچا دیتی ہے۔
تاریخ ِعالم میں جھانکنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ہر دور میں صالح افراد کی تشکیل صالحین کی صحبت سے ہوئی ہے، بگڑے مزاجوں کے بننے اور بھٹکے ہوئے آہوؤں کو سوئے حرم لے جانے میں خدا کے نیک بندوں کی رفاقت کا غیر معمولی اثرر ہاہے۔قرآنِ حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ (سورۃتوبہ:119)
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو۔
اس آیت میں یہ تعلیم ہے کہ انسان کو اپنی صحبت سچے لوگوں کے ساتھ رکھنی چاہیے، جو زبان کے بھی سچے ہوںاور عمل کے بھی ۔ایسے سچے لوگوں سے مراد بلاشبہ اولیا اللہ فقرائے کاملین مرشد کامل اکمل ہیں۔
فطرت پر صحبتِ مرشد کا اثر
آج مسلمان اولیااللہ کی صحبت سے جتنادورہوتا جارہاہے اتنا زیادہ شیطان کے قریب ہو رہا ہے۔ اللہ کے مقربین کی صحبت کا مضبوط حصار نہ ہونے کے باعث شیطان اس پر جلد حملہ آور ہو تاہے۔ اگر انسان نیک عمل نہ بھی کرسکے توان اولیااللہ کی صحبت کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے۔ انہی اولیا اللہ مرشد کامل کی مجالس اورصحبت سے انسان کی شخصیت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کی فطرت اس حد تک بدل جاتی ہے کہ اس کے پرانے جاننے والے بھی حیران رہ جاتے ہیں۔
مرشد کامل کی صحبت کے بارے میں شیخ سعدیؒ اپنی مشہورِ ز مانہ کتاب ’’گلستانِ سعدی‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ایک دن حمام میں میرے دوست نے مجھے خوشبو والی مٹی دی ۔میں نے اس مٹی سے پوچھا کہ تومشک ہے یا عنبر ہے؟ تیری خوشبونے تو مجھے مست کر دیا ہے۔مٹی کہنے لگی میں تو مٹی ہی ہوں مگر ایک عرصہ تک پھولوں کی صحبت میں رہی ہوں ۔یہ میرے ہم نشیں کے جمال کا اثر ہے ورنہ میں تو وہی مٹی ہوں۔
مرشد کامل ہی وہ واحد ہستی ہے جو انسان کی منفی اثرات سے بگڑ جانے والی فطرت کو اپنی نگاہِ کامل اور صحبت سے دوبارہ اُسی حالت میں لے آتا ہے جس پر اسے اللہ پاک نے پیدا کیا تھا یعنی فطرتِ الٰہیہ۔ بشرطیکہ مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ ہو،جو باطن کی راہ جانتا ہو۔ ورنہ ظاہر پرست پیر جو خود تو کسی مقام و مرتبے پر نہیں پہنچ پاتے،اپنے مریدوں سے بھی یہی کہتے ہیں کہ پہلے وہ شریعت کے پابند بنیں ، فلاں برائی ترک کریں اور فلاں عادت اپنائیں اس کے بعد اُن کی رہنمائی کی جائے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ طالب پہلے سے ہی شریعت اور حقیقت کے اسرار و رموز جانتا ہوتا تو مزید رہنمائی کے لیے کسی مرشد کے پاس کیونکر جاتا۔ اگر اس میں برائیوں کو ترک کرنے کی صلاحیت اور طاقت ہوتی تو وہ مرشد کی تلاش میں کیوں نکلتا؟ ایسے جعلی پیر اپنے ظاہر پر تو پرہیزگاری اور نیک نامی کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں مگر اندر سے ان کی فطرت اور عادات و خصائل پر بدی کا پردہ پڑا رہتا ہے ۔ ان کا کام لوگوں کو مزید گمراہ کر کے اللہ سے دور کرنا ہوتا ہے۔ خود کو بہت نیک اور پرہیزگار ظاہر کرتے ہیں مگر اندر سے ویسے ہی کمینہ خصلت ہوتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں کسی بھی انسان کو اپنے قلب و باطن اور روح پر اختیار حاصل نہیں، وہ ازخود اپنا تزکیہ اورتصفیہ نہیں کر سکتا۔ جس طرح انسان اپنی ظاہری بیماریوں کا علاج خود نہیں کر سکتا اسی طرح اپنی باطنی بیماریوں کا بھی نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ہر ایک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے باطن کی درستی اور قلب کی حیات کے لیے ایسے مرشد کامل اکمل کو تلاش کرے جو روح و باطن کے اسرار و رموز سے واقف ہو اور ان پر اس قدر اختیار رکھتا ہو کہ ان کی تمام خامیاں، بیماریاں، کجیاں اور کمیاں دور کرنے کے علم، صلاحیت اور تصرف میں کامل ہو۔ ایسا کامل مرشد ہی اللہ کے حکم یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ (سورۃ ابراہیم۔48) ترجمہ: ’’اور جس دن یہ (قلب کی) زمین (نئی زمین سے) بدل دی جائے گی‘‘ کے مطابق اس کے قلب و باطن کو ایک نئی جہت، نیا رُخ اور نئی صورت عطا کرتا ہے جو بالکل اس صورت جیسی ہوتی ہے جس پر اللہ نے اس شخص کو تخلیق کیا تھا۔ اس کے سب ٹیڑھے پن دور کر دیتا ہے، سب میل صاف کر دیتا ہے اور آئندہ کے لیے بھی اسے شیطان، نفس اور دنیا کے حملوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس کی نئی شخصیت اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کے لائق بنا کر اسے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں پیش کرتا اور دائمی حضوری دلواتا ہے۔ اس کے قلب و باطن کو آئینۂ حق تعالیٰ بنا کر دیدار و وصالِ الٰہی کی منزل پر بھی پہنچا دیتا ہے جس کے بعد طالب کو حیاتِ جاودانی حاصل ہو جاتی ہے۔ وہ بدبخت سے نیک بخت، شقی سے سعید، راندۂ درگاہ سے مقبولِ بارگاہِ خداوندی اور فانی سے باقی بن جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا سورہ عنکبوت میں ارشاد ہے:
وَ الَّذِینَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا (سورۃ العنکبوت۔69)
ترجمہ: جو ہماری طرف آنے کی کوشش کرتے ہیں ہم اُن کو اپنی طرف آنے کے راستے دکھادیتے ہیں۔
اس راہ میں طلب کے مطابق مرشد کی طرف رہنمائی ہوتی ہے۔ہر زمانے میں ایک سروری قادری مرشد کامل اکمل موجود ہوتا ہے۔ موجودہ زمانہ کے شیخِ کامل، مرشد کامل اکمل اور سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کا اندازِ تربیت بالکل حضورنبی اکرمؐ کے طریقہ کے مطابق ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنی بارگاہ میں آنے والے ہر طالب کو اپنی صحبت و نگاہ کے فیض اور ذکر و تصوراسمِ اللہ ذات سے نواز کر اس کی زنگ آلودہ فطرت کو فطرت الٰہیہ میں تبدیل کرتے ہیں۔ جس طرح ایک مکان تعمیر کرنے کے لیے پہلے سے موجودبوسیدہ مکان کی عمارت کو گراکر نئے سرے سے تعمیر شروع کی جاتی ہے اسی طرح آپ مدظلہ الاقدس طالب کی پہلے والی بوسیدہ شخصیت کو باطنی طور پر فنا کر کے اسے نئی شخصیت عطا کرتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنی نگاہِ کاملہ سے طالب کے اندر موجود ہر باطنی برائی کو اس طرح ختم کر دیتے ہیں جیسے وہ اس کے اندر موجود ہی نہ تھی۔
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ پنجابی بیت میں فرماتے ہیں:
مرشد وانگ سنارے ہووے، جیہڑا گھت کٹھالی گالے ھوُ
پا کٹھالی باہر کڈھے، بندے گھڑے یا والے ھوُ
مفہوم: جس طرح سنار سونے کو کٹھالی میں ڈال کر مائع کی شکل دیتا ہے اور پھر اس سے اپنی مرضی کا زیور تیار کرتا ہے۔ مرشد کامل اکمل بھی ایسا ہونا چاہیے کہ طالبِ مولیٰ کو عشق کی بھٹی میں ڈالے اور اسمِ اللہ ذات کی حرارت سے اس کے وجود سے غیر اللہ کو نکال باہر کرے یعنی اس کی پہلی عادات اور خواہشات کو ختم کر دے اور پھر اپنی رضا اور منشا کے مطابق اس کی تربیت کرے۔ (ابیاتِ باھوؒ کامل)
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی نگاہِ کامل کا یہ فیض تاقیامت جاری رہے اور طالبانِ مولیٰ آپ کی نظرکرم اور مہربانی سے اپنے نفوس کا تزکیہ اور قلوب کا تصفیہ کرواتے رہیں تاکہ روزِ قیامت وہ اسی احسن صورت (فطرت الٰہیہ) جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں تخلیق فرمایا ہے، پیش ہو کر ندامت اور پشیمانی سے بچ سکیں۔آمین
استفادہ کتب:
شمس الفقر: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
نوٹ: اس مضمون کو آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube) چینل کو وزٹ فرمائیں۔
مضمون لنک : Fitrat aur Sohbat | Topic in Urdu/Hindi | Mahnama Sultan-ul-Faqr Lahore | فطرت اور صحبت
علامہ اقبالؒ کے کلام سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ ملا اور عاشق کی فطرت کا بنیادی فرق یہ ہے کہ ملا طالبِ عقبیٰ ہوتا ہے اور عاشق طالبِ مولیٰ ہوتا ہے ۔
بہت اچھی تحریر ہے ۔
💕💕💕🌹❣️❤️😍🌺
Fitrat o sohbat ka bohot gehri asar hota hai
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی نگاہِ کامل کا یہ فیض تاقیامت جاری رہے اور طالبانِ مولیٰ آپ کی نظرکرم اور مہربانی سے اپنے نفوس کا تزکیہ اور قلوب کا تصفیہ کرواتے رہیں تاکہ روزِ قیامت وہ اسی احسن صورت (فطرت الٰہیہ) جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں تخلیق فرمایا ہے، پیش ہو کر ندامت اور پشیمانی سے بچ سکیں۔آمین
Very informative article nice 👍
صحیح مسلم میں حدیثِ مبارکہ درج ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی، یا مشرک بناتے ہیں‘‘
ترجمہ: آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔
بنی نوع انسان کی تخلیق فطرتِ الٰہیہ پر ہوئی ہے اور ابتدائے آفرینش سے بطنِ مادر سے پیدائش کے وقت انسان کا پہلا فطری مذہب توحید ہوتا ہے، پھر کوئی کسی مذہب سے منسلک کردیا جاتا ہے اور کوئی کسی اور مذہب سے۔
حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں :
سچے دوست تلاش کرو اور ان کی پناہ میں زندگی گزارو کیونکہ وہ خوشی کی حالت میں زینت اور آزمائش کے وقت (آسانی کا) سامان ہیں۔ کسی گناہ گار کی صحبت اختیار نہ کرو ورنہ اس سے گناہ کرنا ہی سیکھو گے۔
صحیح مسلم میں حدیثِ مبارکہ درج ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی، یا مشرک بناتے ہیں‘‘
حق بیان فرمایا
موجودہ زمانہ کے شیخِ کامل، مرشد کامل اکمل اور سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں
حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے نبی کریم ؐنے خطبہ کے درمیان ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے تمام بندوں کو اس حال میں پیدا کیا کہ وہ باطل سے دور رہنے والے تھے، بے شک ان کے پاس شیطان آیا اور ان کو دین سے پھیر دیا۔‘‘
مرشد کامل ہی وہ واحد ہستی ہے جو انسان کی منفی اثرات سے بگڑ جانے والی فطرت کو اپنی نگاہِ کامل اور صحبت سے دوبارہ اُسی حالت میں لے آتا ہے جس پر اسے اللہ پاک نے پیدا کیا تھا یعنی فطرتِ الٰہیہ۔
حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں :
سچے دوست تلاش کرو اور ان کی پناہ میں زندگی گزارو کیونکہ وہ خوشی کی حالت میں زینت اور آزمائش کے وقت (آسانی کا) سامان ہیں۔ کسی گناہ گار کی صحبت اختیار نہ کرو ورنہ اس سے گناہ کرنا ہی سیکھو گے۔
بنی نوع انسان کی تخلیق فطرتِ الٰہیہ پر ہوئی ہے اور ابتدائے آفرینش سے بطنِ مادر سے پیدائش کے وقت انسان کا پہلا فطری مذہب توحید ہوتا ہے، پھر کوئی کسی مذہب سے منسلک کردیا جاتا ہے اور کوئی کسی اور مذہب سے۔
لفظ’’فطرت‘‘ معنی کے اعتبار سے خاصہ وسیع مفہوم رکھتا ہے۔
قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا ط فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا ط لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ق وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (سورۃ روم۔30)
ترجمہ:پس آپ یک سو ہو کر اپنا رخ دینِ حنیف کی طرف متوجہ کر دیں، اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت(توحید) جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں، یہی سیدھا دین ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی نگاہِ کامل کا یہ فیض تاقیامت جاری رہے اور طالبانِ مولیٰ آپ کی نظرکرم اور مہربانی سے اپنے نفوس کا تزکیہ اور قلوب کا تصفیہ کرواتے رہیں تاکہ روزِ قیامت وہ اسی احسن صورت (فطرت الٰہیہ) جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں تخلیق فرمایا ہے، پیش ہو کر ندامت اور پشیمانی سے بچ سکیں۔آمین
بےشک
انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں :
سچے دوست تلاش کرو اور ان کی پناہ میں زندگی گزارو کیونکہ وہ خوشی کی حالت میں زینت اور آزمائش کے وقت (آسانی کا) سامان ہیں۔ کسی گناہ گار کی صحبت اختیار نہ کرو ورنہ اس سے گناہ کرنا ہی سیکھو گے۔
آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔
بے شک آپ مدظلہ الاقدس اپنی بارگاہ میں آنے والے ہر طالب کو اپنی صحبت و نگاہ کے فیض اور ذکر و تصوراسمِ اللہ ذات سے نواز کر اس کی زنگ آلودہ فطرت کو فطرت الٰہیہ میں تبدیل کرتے ہیں۔
حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں :
سچے دوست تلاش کرو اور ان کی پناہ میں زندگی گزارو کیونکہ وہ خوشی کی حالت میں زینت اور آزمائش کے وقت (آسانی کا) سامان ہیں۔ کسی گناہ گار کی صحبت اختیار نہ کرو ورنہ اس سے گناہ کرنا ہی سیکھو گے۔
قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:پس آپ یک سو ہو کر اپنا رخ دینِ حنیف کی طرف متوجہ کر دیں، اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت(توحید) جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں، یہی سیدھا دین ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔
جو ہماری طرف آنے کی کوشش کرتے ہیں ہم اُن کو اپنی طرف آنے کے راستے دکھادیتے ہیں۔
ترجمہ:میں اللہ تعالیٰ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوق میرے نور سے ہے۔
اَنَا مِنْ نُّوْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَکُلُّ خَلَائِقِ مِنْ نُّوْرِیْ
ترجمہ:میں اللہ تعالیٰ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوق میرے نور سے ہے۔
Bohat hi acchi naseeyat hai
Behtreen mazmoon
Behtareen must read❤️
بے حد معیاری بلاگ ہے۔
بہت دلچسپ مضمون ھے
صحبتِ مرشد میں ہی طالب مرشد سے اخذ ِ فیضان کرتا ہے اور مرشد کامل اکمل تعلیم و تلقین اور نگاہِ کامل سے اس کا تزکیۂ نفس ،تصفیۂ قلب اور تجلیۂ روح فرماتا ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں :
سچے دوست تلاش کرو اور ان کی پناہ میں زندگی گزارو کیونکہ وہ خوشی کی حالت میں زینت اور آزمائش کے وقت (آسانی کا) سامان ہیں۔ کسی گناہ گار کی صحبت اختیار نہ کرو ورنہ اس سے گناہ کرنا ہی سیکھو گے۔
Great information
سبحان اللہ ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت مضمون ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی نگاہِ کامل کا یہ فیض تاقیامت جاری رہے اور طالبانِ مولیٰ آپ کی نظرکرم اور مہربانی سے اپنے نفوس کا تزکیہ اور قلوب کا تصفیہ کرواتے رہیں تاکہ روزِ قیامت وہ اسی احسن صورت (فطرت الٰہیہ) جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں تخلیق فرمایا ہے، پیش ہو کر ندامت اور پشیمانی سے بچ سکیں۔آمین
قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا ط فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا ط لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ق وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (سورۃ روم۔30)
ترجمہ:پس آپ یک سو ہو کر اپنا رخ دینِ حنیف کی طرف متوجہ کر دیں، اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت(توحید) جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں، یہی سیدھا دین ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔
Allah hum sub pe apna fazal farmaye
اَنَا مِنْ نُّوْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَکُلُّ خَلَائِقِ مِنْ نُّوْرِیْ
ترجمہ:میں اللہ تعالیٰ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوق میرے نور سے ہے۔