الف (Alif )
روزہ کی فرضیت کا مقصد
رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کا حکم 02ھ میں تحویلِ قبلہ سے کم و بیش پندرہ روز بعد نازل ہوا۔
ہر عبادت یا کام کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے ، روزوں کا مقصد کیا ہے ؟ آئیں دیکھتے ہیں قرآن اس بارے میں کیا کہتا ہے:
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تا کہ تم متقی بن جاؤ۔(سورۃالبقرہ۔ 183)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ روزوں کی فرضیت کا مقصد مسلمان کو متقی یعنی مومن بنانا ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے:
تم میں سے بہتر وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے یعنی تقویٰ والا ہے۔
اب تقویٰ کیا ہے؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ایک مرتبہ تقویٰ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انگلی سے دل کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تقویٰ یہاں ہوتا ہے۔تقویٰ اصل میں قلب (باطن) کے اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کا نام ہے۔ جس قدر کسی کا قلب اللہ تعالیٰ کے قریب ہوگا وہ اسی قدر متقی ہوگا یعنی تقویٰ قربِ الٰہی کا نام ہے۔ روزہ انسان کو قربِ الٰہی میں لے جاتا ہے،اس عبادت کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے’’روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں خود ہوں۔‘‘ یعنی روزہ کی جزا قربِ الٰہی ہے۔قرآن ِپاک میں ارشاد ہے:
یہ کتاب تقویٰ والوں کو راہ دکھاتی ہے۔ (سورۃ البقرہ۔ 2)
اس آیتِ مبارکہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرآنِ پاک سے ہدایت صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو متقی ہوتے ہیں۔
تقوی کا پہلا درجہ یہ ہے کہ جس چیز پر علما اور فقہا کا فتوی ہے اس سے بچنا ضروری ہے،یہ عام مسلمانوں کا تقویٰ ہے۔ دوسر ادر جہ مشتبہ چیزوں سے پر ہیز ہے یعنی شریعت میں کسی چیز کو بظا ہر حلال کر دیا گیا ہے لیکن مشتبہ کہلاتی ہے تو اس سے گریزصلحا کا تقویٰ ہے۔ تیسرے درجہ پروہ متقی ہیں جوحرام ہو جانے کے اندیشہ سے بھی گریز کرتے ہیں۔ یہ اتقیاء کا درجہ ہے۔ چوتھا درجہ ان چیزوں سے گریز کا ہے جن سے عبادات و اطاعت پر قوت حاصل نہیں ہوتی یہ صدیقین کا تقویٰ ہے۔ گویا پہلا درجہ جوعوام کا تقویٰ ہے ترک ِکفر و شرک ہے۔ دوسرا درجہ جس میں شرع کی منہیات سے پر ہیز اور گناہ کے ترک کرنے کا حکم ہے، یہ متقیوں کا تقویٰ ہے۔ تیسرے درجے پر خواص کا تقویٰ ہے جو عبادات و ریاضت میں خطرات کو کم کرتا ہے۔ چوتھے درجہ پر وہ ہیں جو ہرلمحہ ترکِ ماسویٰ اللہ پر قائم ہیں اور دنیا کا کوئی خطرہ دل میں نہیں آنے دیتے ،نفس اور شیطان سے خلاصی پاچکے ہیں۔ یہ خاص الخاص یعنی عارفین کا تقویٰ ہے یہی اہل تقویٰ اللہ کے محبوب ہیں۔
یعنی روزہ کا اصل مقصد متقی بنانا ہے۔ اگر تقویٰ حاصل ہوگا تو قرآن کریم سے راہنمائی، نور اور صراطِ مستقیم حاصل ہوگا اور تقویٰ کی کس منزل تک پہنچنا چاہیے اس کی قسمیں بیان کر دی گئی ہیں۔ جس طرح انسان دنیا میں اعلیٰ سے اعلیٰ مراتب اور اعلیٰ سے اعلیٰ زندگی کے حصول کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح تقویٰ کی بھی اعلیٰ سے اعلیٰ منزل اور مرتبہ کی کوشش کرنی چاہیے اور رمضان المبارک ان لوگوں کے لیے ایک سنہری موقع ہے کہ اللہ تعالی سے صراطِ مستقیم طلب کریں اور تقویٰ کے حصول کی کوشش کر یں۔
(اقتباس: حقیقتِ روزہ تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس)