اصل عبادت سوچ ہے Asal Ibadat Soch Hai


4.1/5 - (90 votes)

 اصل عبادت سوچ ہے (Asal Ibadat Soch Hai)

تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری ۔لاہور

فرمانِ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہے :
’’اصل عبادت سوچ (غور و فکر) ہے۔ ‘‘

دینِ اسلام میں سوچ اور فکرپر بہت زور دیا گیا ہے کیونکہ ہم جس سے زیادہ محبت کرتے ہیں اسی کے متعلق سوچتے رہتے ہیں اور جس کے خیالات و تصور میں گم رہتے ہیں اُسی کو راضی کرناچاہتے ہیں، اُسی کے قرب میں رہنا چاہتے ہیں، اُسی کو دیکھنا چاہتے ہیں، اُسی کی یاد کو اپنے عمل سے ظاہر کرنا چاہتے ہیں، مشکل میں اُسی کا ساتھ چاہتے ہیں یعنی آسان لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ اُسی کی عبادت کرتے ہیں۔ نیت اور سوچ میں فرق ہے۔ نیت مخصوص عمل سے قبل کی جاتی ہے جیسے نماز کی نیت، روزے کی نیت وغیرہ وغیرہ۔ تاہم سوچ ہر وقت انسان کے ساتھ رہتی ہے اٹھتے، بیٹھے، چلتے پھرتے الغرض ہر وقت انسان کسی نہ کسی سوچ کے حصار میں ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ سوچ کا انسان پر اتنا گہرا اثر ہے کہ وہ دن بھر جو سوچتا ہے عمو ماً اس کے خواب بھی اُسی کے متعلق ہوتے ہیں۔

سوچ اور شریعت

سوچ کی اہمیت کو شریعت کی رُو سے بیان کیا جائے تو عمل کے مقبول ہونے میں سوچ کا اہم کردار ہے۔ سوچ پاک ہے تو یقینا عمل بھی پاک ہو گا۔ مثال کے طور پر اگر بندہ حج کی نیت سے خانہ کعبہ جانے کا ارادہ کرتا ہے اور خانہ کعبہ پہنچ کر بھی، قبلہ رُو ہو کر بھی وہ اپنی سوچ کو اپنے اہل و عیال، اپنے کاروباری معاملات، دنیاوی محبتوں سے پاک نہیں کرپاتا تو پھر وہ کس طرح اللہ کی بارگاہ میں مخلص ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے؟

سوچ کے متعلق حضرت علیؓ فرماتے ہیں :
’’انسان کو اعلیٰ اور اچھی سوچ پر وہ انعام ملتا ہے جو اسے اچھے اعمال پر بھی نہیں ملتا کیونکہ سوچ میں دکھا وا نہیں ہوتا۔‘‘

درحقیقت عبادت سوچ کا عکس ہوتی ہے۔ جس طرح برتن سے وہی چیز چھلکتی ہے جو اس میں موجود ہوتی ہے اِسی طرح انسان کے وجود سے اُسی چیزکا اظہار ہوتا ہے جو اُس کی سوچ میں گردش کرتی ہے۔

سوچ کو ہمہ وقت یادِ الٰہی میں مشغول رکھنا اور ساتھ ساتھ اپنے تمام دنیاوی فرائض کی ادائیگی کرنا۔۔۔ اس کی بہترین مثال ہمیں حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی سیرت سے ملتی ہے۔ آپؓ تمام امورِ خانہ داری بھی سر انجام دیتیں اور خود کو یادِ الٰہی میں بھی مشغول رکھتیں۔ 

حضرت سلمان فارسیؓ کا بیان ہے کہ حضرت فاطمہؓ گھر کے کام میں لگی رہتی تھیں اور ذکرِ الٰہی بھی کرتی رہتی تھیں۔ وہ چکی پیستے وقت بھی قرآنِ پاک پڑھتی رہتی تھیں۔ (ذکرِ خاتونِ جنت) 

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بیان ہے کہ فاطمہؓ اللہ تعالیٰ کی بے انتہا عبادت کرتی تھیں لیکن گھر کے کام کاج میں فرق نہ آنے دیتی تھیں۔ (ذکر ِ خاتون جنت )

حضرت فاطمۃ الزہراؓ کے اس اندازِ عشق پر عمل صرف اُسی صورت ممکن ہو سکتا ہے جب طالب اپنی سوچ اور اپنے دل کو یادِ الٰہی میں مصروف رکھے۔

سوچ اور راہِ فقر 

راہِ فقر راہِ باطن ہے اور باطن کا تعلق ہماری سوچ اور فکر کے ساتھ ہے۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس اِس ضمن میں فرماتے ہیں:
انسان کے پاس اصل طاقت سوچ ہے۔
انسان کے پاس سوچ کے سوا کچھ نہیں۔
’سوچ‘ ہی انسان کی اصل ہے ۔ سوچ کو مثبت بنا لینا ہی فقر میں کمال ہے۔
فقر ایک نقطہ ہے اور وہ نقطہ مرشد کامل ہے۔ جس کی نگاہ اس نقطے پر مرکوز ہو گئی اُس نے فقر پا لیا۔ (سلطان العاشقین)

نگاہ کو نقطے پر مرکوز رکھنے سے مراد ہے اپنی سوچ اور توجہ کو ہر لمحہ خواہ تنہائی ہو یا محفل، غمی ہو یا خوشی الغرض ہر حال میں ایک ہی ذات کی جانب مبذول کر لینا۔

انسان کا’’ نفس‘‘ اس کی سوچ ہے اور جو اپنی سوچ کا رُخ مرشد کامل کی جانب موڑ لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے وہ اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے۔ مرشد کامل کی قربت اور صحبت طالب کی سوچ کو اللہ کی جانب موڑ دیتی ہے۔ مرشد کامل اپنی باطنی نگاہ سے طالب کی سوچ کا تزکیہ فرماتا ہے، ذہنی انتشار اور اُلجھنوں سے نجات دلاتا ہے جس سے نفس کمزور اور روح قوی ہو جاتی ہے۔ سوچ کی مثال ایک طاقتور گھوڑے کی سی ہے جس پر اطاعتِ الٰہی کی لگام اطاعتِ مرشد کے ذریعہ لگائی جا سکتی ہے ۔ 

انسانی جسم کے مختلف حصے ہیں اور ہرحصہ کے علاج کے لیے اس کے اسپیشلسٹ یعنی ماہرطبیب کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِسی طرح سوچ کے علاج کا ’’روحانی اسپیشلسٹ یاماہر طبیب‘‘ مرشد کامل ہے۔ جس طرح جسم کے مختلف اعضا بیمار ہو تے ہیں اُسی طرح ہماری سوچ خود پسندی، دنیاوی محبت، مال کی محبت، اولاد کی محبت، غرور، تکبر، بد گمانی جیسی ناشائستہ خصلتوں سے بیمار ہو جاتی ہے۔ سوچ کو تمام آلودگیوں سے شفاف کرنے کا علاج اور نسخہ صرف مرشد کامل کی نگاہ اور صحبت ہے۔ 

سوچ اور سائنس

انسان نے کرۂ ارض پر جتنی بھی ترقی کی ہے وہ سوچ یا تفکر کے دَم سے کی ہے۔ انسان نے کسی معاملہ کے متعلق سوچا، اس پر محنت کی، درجہ بہ در جہ اس میں ترقی کرتا چلا گیا اور اپنی منزل تک پہنچ گیا۔ درختوں سے پھل صدیوں سے گرتے آ رہے ہیں لیکن یہ نیوٹن ہی تھا جس نے اس بات پر غور و تفکر کیا کہ چیزیں اوپر سے نیچے کی جانب ہی کیوں گرتی ہیں؟ کون سی ایسی طاقت یا کشش ہے جو چیزوں کو زمین کی جانب کھینچتی ہے؟ ہوا میں اچھالا گیند دوبارہ زمین کی جانب کیوں آتا ہے؟ درخت سے پھل آسمان کی جانب کیوں نہیں جاتے؟ یہ تمام وہ عوامل تھے جو برسوں سے ہوتے آرہے تھے۔نیوٹن نے اس کے متعلق سوچااور یوں زمین کی کششِ ثقل جیسی بڑی حقیقت دریافت ہو گئی۔ 

سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ فرماتے ہیں :
کسی علم یا چیز کو سمجھنے کے لیے جب ہم سوچ و بچار کرتے ہیں تو اسے فکر، تفکر یا غور و فکر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ دنیا آج مادی اور سائنسی ترقی کے جس مقام پر کھڑی ہے اس کی بنیاد سائنس دانوں کا مادیت میں غور و فکر ہے۔ ہر ایجاد اور دریافت کے پیچھے غورو فکر اور تفکر پنہاں ہے۔ (شمس الفقرا)

انسانی سوچ یا انسانی دماغ ایک آلہ ہے جس سے سود مند نتائج بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں اور نقصان دہ بھی۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ مثبت سوچ کو ترجیح دیتا ہے یا منفی!

گویائی اور سکوت 

جس طرح ہمارے ظاہری روّیوں، گفتگو، اعمال اور تعلقات کا دار و مدار سوچ اور فکر پر ہے اسی طرح ہمارے باطن، خلوت اور خاموشی کا تعلق بھی سوچ اور تفکر سے ہے۔ دینِ اسلام ہمیں گویائی اور سکوت دونوں کے سنہری ا صول سکھاتاہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے:
جس گفتگو میں ذکر ِخدا نہ ہو وہ لغو ہے،جس خاموشی میں فکر نہ ہو وہ سہو ہے اور جس نگاہ میں عبرت نہ ہو وہ لہو ہے۔ (خاموشی کے محاسن)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مروی ہے:
جو بات ذکرِ الٰہی سے خالی ہو وہ بیکار ہے، جو خاموشی فکر و تدبر کے بغیر ہو وہ غفلت ہے اور جو نظر عبرت کے لیے نہ ہو وہ لہوہے۔ تو خوش نصیب وہ شخص ہے جس کی گفتگو ذکرِ الٰہی ہو، جس کی خا موشی فکر و تدبر ہو اور جس کا دیکھنا عبرت ہو۔ (خاموشی کے محاسن)

امام شافعی ؒ اپنی کتاب ’’الام‘‘ میں فرماتے ہیں :
جب تم کوئی بات کرنا چاہو توضروری ہے کہ پہلے اپنی بات پر غور و فکر (سوچ) کرلیا کرو،ا گر مصلحت نظر آئے تو بو لو اور اگر شک ہو تو جب تک مصلحت نہ ہو خاموش رہو ۔ 

خاموشی عبادت ہے جس طرح حدیث شریف میں بیان ہوا ہے :
خاموشی کا مقام ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔(شعب الایمان 4953)

ایک اور حدیث شریف میں بیان ہوا ہے :
الصمت ارفع العبادۃ(دیلمی)
ترجمہ: خاموشی عبادت سے افضل ہے ۔

حدیث مبارکہ ہے:
خاموشی قلب کا اللہ سے گفتگو کرنا ہے ۔
لیکن کونسی خاموشی عبادت ہے؟ تو جان لینا چاہیے کہ وہ خاموشی جس میں غور و فکر، تفکر اور مشاہدۂ معرفتِ حضور شامل ہو۔ 

 حضرت سلطان باھوؒ اپنی تصنیف مبارکہ’’اسرارِ قادری‘‘ میں فرماتے ہیں:
جان لے کہ خاموشی میں رحمانیتِ الٰہی کی ستر ہزار حکمتیں ہیں۔ ایسی خاموشی کا تعلق مشاہدہ معرفتِ حضور سے ہے۔(اسرارِ قادری )

آپؒ خاموشی کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
تیسری قسم کی خاموشی ان لوگوں کی ہے جن کا قلب تفکر، ذکر، فکر، مراقبہ اور اللہ کی جانب متوجہ رہنے سے زندہ ہو جاتا ہے۔ یہ وہ قلب ہے جو اللہ سے پیوست ہے۔ وہ اپنے قلب سے الہام اور روزِ الست کے کُنْ فَیَکُوْنَ کے پیغام حاصل کرتے ہیں۔ ان کی خاموشی اس وجہ سے ہے کہ ان کی آنکھیں عین العیان دیدار میں مست ہیں اور وہ وہ قربِ رحمن میں جڑے ہوئے ہیں ۔ (قربِ دیدار)

سوچ کا انسانی شخصیت پر اثر 

ہماری سوچ کا ہماری شخصیت پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ ولیم جیمز جو ایک مشہور فلسفی اور سائکالوجسٹ ہیں، اس کے متعلق بیان کرتے ہیں:

 Thoughts become perception, perception becomes reality. Your thoughts alter your reality. The world which we live in , its quality and character is nothing but a reflection of our own minds.  

ترجمہ: ہماری سوچ ہی شعور بنتی ہے اور یہی شعور حقیقت بنتا ہے۔ سوچ میں اتنی طاقت ہے کہ حقیقت کو بھی تبدیل کر سکتی ہے، یہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں اس کی وقعت اور حیثیت ہمارے ذہنوں میں گردش کرنے والی سوچ کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ 

  Barbara Fredricksonباربرا فریڈرکسن ’’مثبت سوچ‘‘ کے متعلق ایک تھیوری’’براڈن اینڈ بلڈ تھیوری‘‘ (Broaden (And Build Theory  پیش کرتی ہیں جس میں بیان کرتی ہیں :
ترجمہ: مثبت سوچ رکھنا آپ کے سوچنے کے عمل کو وسعت فراہم کر سکتا ہے اور سوچوں کو متوازن کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے جو کہ نتیجتاً انسان کے بہتر ذہنی اور جسمانی نظام کا سبب بنتا ہے ۔

مصنف ماسارو ایموتو نے 1992 میں شائع ہونے والی کتاب ’’The Hidden Messages in Water ‘‘ میں پانی پر ایک شاندار ریسرچ پیش کی ہے جس میں پتا چلا کہ پانی کے اوپر مثبت اور منفی الفاظ کا اثر ہوتا ہے۔ پانی کے دو نمونے لیے گئے، ایک پر مثبت جملے لکھے گئے اور اس پانی کو جما دیا گیا اور ایک پانی کے نمونے پر منفی جملے لکھے گئے اور اسے بھی جما دیا گیا۔ جس پانی پر مثبت جملے لکھے گئے تھے اس پانی کے مالیکیولز بہت خوبصورت تھے اور جس پانی پر منفی جملے لکھے گئے اس کے بد صورت۔ اگر پانی کے اوپر الفاظ کا اثر اتنا گہرا ہوتا ہے تو انسان جس کے جسم میں70فیصد پانی ہے اس کے ذہن میں گردش کرنے والے الفاظ یا سوچ کا کتنا گہرا اثر ہوتا ہو گا؟؟؟

مثبت سوچ کا تعلق نہ صرف ذہنی صحت کے ساتھ ہے بلکہ اس کا اثر ہماری جسمانی صحت پر بھی ہوتا ہے۔ مثبت سوچ ہماری قوتِ مدافعت بڑھاتی ہے اور صحت مند زندگی کی جانب لے کر جاتی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے میڈیکل کمیونٹی میں اس کے متعلق ایک حیرت انگیز تبدیلی رو نما ہوئی ہے۔ ایک ڈاکٹر ہے جو اپنے کینسر کے مریضوں کا علاج کوہ پیمائی Mountain Climbingکے ذریعہ کرتاہے اور اس طرح مریضوں کو مقصد فراہم کرتاہے کہ وہ  اپنی ذہنی اور جسمانی صحت کو تقویت دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہولسٹک میڈیسن (Holistic Medicine) میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جس میں نہ صرف مرض کا علاج کیا جاتا ہے بلکہ مریض کے اندازِ زندگی اور بہتر ذہنی نشو ونما کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جاپان میں ایک ادارہ ’’جاپان ہولسٹک میڈیکل سوسائٹی ‘‘ کا آغاز بھی کیا گیا ہے جس کا مقصد اسی طرح کے علاج کو فروغ دینا ہے۔ 

سوچ اور اللہ کے ساتھ تعلق 

حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِیْ (بخاری 7405)
ترجمہ: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس کے ساتھ پیش آتا ہوں۔
یہ ہماری سوچ ہی ہے جو تعین کرتی ہے کہ ہمارا اللہ کیساتھ تعلق کیسا ہے یا ہم اللہ کے متعلق کیا گمان رکھتے ہیں۔

ایلف شفق کے ناول ’’Forty Rules of Love The ‘‘ میں اس کے متعلق دلچسپ اصول بیان کیا گیا ہے۔ مصنفہ کے نزدیک انسان جو اپنی ذات کے متعلق سوچتا ہے اللہ کی ذات کو بھی اسی سانچے سے جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ لکھتی ہیں:
ہم خدا کے بارے میں جو گمان (سوچ) رکھتے ہیں وہ دراصل ہماری اپنی شخصیت کے بارے میں ہماری سوچ کا ایک عکس ہوتا ہے۔ اگر خدا کے ذکر سے ذہن میں محض ملامت اور خوف ہی ابھرے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے اندر بہت خوف اور ملامت جمع ہو چکی ہے۔ اگر خدا ہمیں محبت اور شفقت سے چھلکتا ہوا دکھائی دے تو یقینا ہم بھی محبت اور شفقت سے چھلک رہے ہیں۔

سوچ کو مثبت بنانے اور اس کے ذریعے اللہ سے تعلق مضبوط بنانے کا سیدھا اور گہرا تعلق شکر گزاری سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ   (سورۃابراہیم۔7)
ترجمہ: اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔
کیسا سنہری اصول ہے سوچ کو مثبت بنا کر زندگی کو خوبصورت اور آسان بنانے کا جبکہ منفی سوچ سراسر نا شکراپن اور اذیت پیدا کرتی ہے۔

صحبتِ ولیٔ کامل 

ہماری سوچ کس طرح عبادت کے درجہ تک پہنچ سکتی ہے ؟

انسانی ذہن سوچوں کا بھنور ہے۔ صحبتِ اولیا کے ذریعہ سوچوں کے سمندر میں اللہ کی محبت داخل ہوتی ہے، سوچ کی اصلاح ہوتی ہے اور دل محبتِ الٰہی سے ایسا منور ہوتا ہے کہ اس میں تجلیاتِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے ۔ صحبتِ ولیٔ کامل کے متعلق سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :

آہن کہ بپارس آشنا شد
فی الحال بصورتِ طلا شد 

ترجمہ: لوہا جو پارس کو چھو جائے فوراً سونا بن جاتا ہے ۔  

موجودہ دور کے ولیٔ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنی نگاہِ کرم سے طالب کے نفس کی اصلاح کرتے ہیں اور طالب کی توجہ اور سوچ دنیا سے ہٹا کر قربِ حق تعالیٰ کی جانب مبذول کر دیتے ہیں۔ 

ذکر و تصوراسمِ اللہ ذات 

سوچ کو مثبت رکھنے کا سب سے بہترین طریقہ جو دینِ محمدیؐ ہمیں سکھاتا ہے وہ ہردَم ذکرِ الٰہی میں مشغول رہنا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :
 سانس گنتی کے ہیں اور جو سانس ذکرِ اللہ کے بغیر نکلے وہ مردہ ہے ۔
انسان کا ذہنی اور باطنی سکون ذکرِ اللہ میں ہے۔

 ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
بیشک ذکرِاللہ (اسمِ اللہ ذات) سے ہی قلب (روح) کو اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے۔ (سورۃالرعد ۔28)

سلسلہ سروری قادری میں طالبانِ مولیٰ کو ذکر و تصوراسمِ اللہ ذات کی عظیم نعمت عطا کی جاتی ہے۔ بیعت کے پہلے روزہی ذکرِخفی (ذکرِ ھو) عطا کیا جاتا ہے اور تصور کے لیے سنہری حروف میں لکھا ہوا ’’اسمِ اللہ ذات‘‘ دیا جاتا ہے۔ تصور کے لغوی معنی خیال، دھیان، تفکر اور مراقبہ کے ہیں۔ تصور سے اسمِ اللہ ذات کو اپنے دل پر نقش کر نے سے انسان کی ذہنی اور باطنی شخصیت پر مثبت اثرات رونما ہوتے ہیں۔ دل سے تمام دنیاوی اور نفسانی خواہشات کا خاتمہ ہو تا ہے اور ذکرِ خفی کی بدولت سوچ کا رُخ اور توجہ اللہ کی جانب موڑنے میں تقویت ملتی ہے ۔

(ذکر و تصوراسمِ اللہ ذات کے متعلق تفصیلی مطالعہ کے لیے تصنیف ’’شمس الفقرا ‘‘ کا مطالعہ کریں ) 

استفادہ کتب :
قربِ دیدار ۔ تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
نور الہدیٰ کلاں۔ ایضاً
اسرارِ قادری ۔ ایضاً
شمس الفقرا۔ تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
سلطان العاشقین ۔ ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
خاموشی کے محاسن اور فوائد  مترجم :عبد الخبیراشرفی مصباحی
اسلام اور جدید سائنس از ڈاکٹر محمد طاہر القادری 

Book: The Hidden Messages In Water by Dr. Masaru Emoto
Transalated by David A. Thayne
Book: The Forty Rules of Love by Elif Shafak
Book: Your Body Speaks Your Mind by Deb Shapiroٓٓ
Article : The role of positive emotions in positive psychology
The Broaden-and-build theory of positive emotions by Barbara L. Fredrickson 

 

نوٹ: اس مضمون کو  آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے  ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube)    چینل کو وزٹ فرمائیں۔ 

یوٹیوب چینل  لنک

مضمون لنک :     Hazrat Ali ra k Dor-e-Khilafat | حضرت علیؓ کے دورِ خلافت کی مشکلات | Urdu / Hindi Podcast

 
 

25 تبصرے “اصل عبادت سوچ ہے Asal Ibadat Soch Hai

  1. درحقیقت عبادت سوچ کا عکس ہوتی ہے۔ جس طرح برتن سے وہی چیز چھلکتی ہے جو اس میں موجود ہوتی ہے اِسی طرح انسان کے وجود سے اُسی چیزکا اظہار ہوتا ہے جو اُس کی سوچ میں گردش کرتی ہے۔

  2. ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
    بیشک ذکرِاللہ (اسمِ اللہ ذات) سے ہی قلب (روح) کو اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے۔ (سورۃالرعد ۔28)

  3. حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے:
    جس گفتگو میں ذکر ِخدا نہ ہو وہ لغو ہے،جس خاموشی میں فکر نہ ہو وہ سہو ہے اور جس نگاہ میں عبرت نہ ہو وہ لہو ہے۔ (خاموشی کے محاسن)

  4. سوچ کے متعلق حضرت علیؓ فرماتے ہیں :
    ’’انسان کو اعلیٰ اور اچھی سوچ پر وہ انعام ملتا ہے جو اسے اچھے اعمال پر بھی نہیں ملتا کیونکہ سوچ میں دکھا وا نہیں ہوتا۔‘‘

  5. سلسلہ سروری قادری میں طالبانِ مولیٰ کو ذکر و تصوراسمِ اللہ ذات کی عظیم نعمت عطا کی جاتی ہے۔ بیعت کے پہلے روزہی ذکرِخفی (ذکرِ ھو) عطا کیا جاتا ہے اور تصور کے لیے سنہری حروف میں لکھا ہوا ’’اسمِ اللہ ذات‘‘ دیا جاتا ہے

  6. سلسلہ سروری قادری میں طالبانِ مولیٰ کو ذکر و تصوراسمِ اللہ ذات کی عظیم نعمت عطا کی جاتی ہے۔

  7. فرمانِ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہے :
    ’’اصل عبادت سوچ (غور و فکر) ہے۔ ‘‘

  8. فرمانِ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہے :
    ’’اصل عبادت سوچ (غور و فکر) ہے۔ ‘‘

  9. انسان کا ذہنی اور باطنی سکون ذکرِ اللہ میں ہے۔

  10. موجودہ دور کے ولیٔ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنی نگاہِ کرم سے طالب کے نفس کی اصلاح کرتے ہیں اور طالب کی توجہ اور سوچ دنیا سے ہٹا کر قربِ حق تعالیٰ کی جانب مبذول کر دیتے ہیں

  11. سوچ کے متعلق حضرت علیؓ فرماتے ہیں :
    ’’انسان کو اعلیٰ اور اچھی سوچ پر وہ انعام ملتا ہے جو اسے اچھے اعمال پر بھی نہیں ملتا کیونکہ سوچ میں دکھا وا نہیں ہوتا۔‘‘

  12. موجودہ دور کے ولیٔ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنی نگاہِ کرم سے طالب کے نفس کی اصلاح کرتے ہیں اور طالب کی توجہ اور سوچ دنیا سے ہٹا کر قربِ حق تعالیٰ کی جانب مبذول کر دیتے ہیں۔

  13. ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
    بیشک ذکرِاللہ (اسمِ اللہ ذات) سے ہی قلب (روح) کو اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے۔ (سورۃالرعد ۔28)

  14. سوچ کے متعلق حضرت علیؓ فرماتے ہیں :
    ’’انسان کو اعلیٰ اور اچھی سوچ پر وہ انعام ملتا ہے جو اسے اچھے اعمال پر بھی نہیں ملتا کیونکہ سوچ میں دکھا وا نہیں ہوتا۔

  15. سوچ کو تمام آلودگیوں سے شفاف کرنے کا علاج اور نسخہ صرف مرشد کامل کی نگاہ اور صحبت ہے

  16. سوچ کو تمام آلودگیوں سے شفاف کرنے کا علاج اور نسخہ صرف مرشد کامل کی نگاہ اور صحبت ہے۔ 

  17. حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے:
    جس گفتگو میں ذکر ِخدا نہ ہو وہ لغو ہے،جس خاموشی میں فکر نہ ہو وہ سہو ہے اور جس نگاہ میں عبرت نہ ہو وہ لہو ہے۔ (خاموشی کے محاسن)

  18. ’سوچ‘ ہی انسان کی اصل ہے ۔ سوچ کو مثبت بنا لینا ہی فقر میں کمال ہے۔ (سلطان العاشقین)

  19. سوچ کے متعلق حضرت علیؓ فرماتے ہیں :
    ’’انسان کو اعلیٰ اور اچھی سوچ پر وہ انعام ملتا ہے جو اسے اچھے اعمال پر بھی نہیں ملتا کیونکہ سوچ میں دکھا وا نہیں ہوتا۔‘‘

  20. فرمانِ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہے :
    ’’اصل عبادت سوچ (غور و فکر) ہے۔ ‘

  21. امام شافعی ؒ اپنی کتاب ’’الام‘‘ میں فرماتے ہیں :
    جب تم کوئی بات کرنا چاہو توضروری ہے کہ پہلے اپنی بات پر غور و فکر (سوچ) کرلیا کرو،ا گر مصلحت نظر آئے تو بو لو اور اگر شک ہو تو جب تک مصلحت نہ ہو خاموش رہو ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں