وسعت ِعلم ِنبویؐ vus’at-e-Ilm-e-Nabavi


4.6/5 - (61 votes)

وسعتِ علمِ نبویؐ 

Vus’at-e-Ilm-e-Nabavi

تحریر: سلطان حافظ محمد ناصر مجید سروری قادری

’’وسعتِ علمِ نبویؐ  ‘‘ بلاگ آڈیو میں سسنے کے لیے اس ⇐  لنک  ⇒ پر کلک کریں.

حضرت عبد الرحمن بن عائش رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
فَوَضَعَ کَفَّہٗ بَیْنَ کَتِفَیَّ فَوَجَدْتُ بَرْدَھَا بَیْنَ ثَدَیَیَّ حَتّٰی تَجَلَّی لِیْ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (مسند احمد 23597۔ مشکوٰۃ 725)
ترجمہ: (معراج میں) اللہ تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی میرے دو کندھوں کے درمیان رکھی جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں پائی تو جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے میں نے وہ سب جان لیا۔

اس سے مراد یہ ہے کہ اوّل سے آخر تک ظاہر و باطن اور زمین و آسمان کی کوئی بھی چیز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوشیدہ نہیں اور آپؐ ہر کسی کے متعلق جانتے ہیں۔اپنے سے پہلے انبیا کی اُمتوں کے واقعات بیان کرنا اور قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی خبر دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ازل سے ابد تک کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔

لیکن کم عقل لوگ محض ظاہری علم پڑھ کر لوگوں کوگمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سیدھی سادی عوام کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس علمِ غیب ہونے یا نہ ہونے کی بحث میں ڈالتے ہیں۔ دراصل انہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی معرفت ہی نہیں ہوتی کیونکہ آپؐ کی معرفت حاصل کرنا راہِ فقر اختیار کیے بغیر ناممکن ہے۔ لہٰذا جس انسان نے وہ راہ ہی اختیارنہیں کی وہ کیسے اس کی بات کرسکتا ہے! اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی انسان مکہ معظمہ گیا ہی نہیں نہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے یعنی مکہ معظمہ جانے والی راہ اختیا رہی نہیں کی، محض لوگوں کی زبانی سنا ہے یا کچھ تھوڑا بہت پڑھا ہے وہ بھلا اس انسان کے مقابلے میں کیسے بہتر معلومات فراہم کرسکتا ہے جو کہ کثرت سے مکہ معظمہ گیا ہے اور مکہ معظمہ کی ہر ہر جگہ کی فرطِ محبت سے اپنی آنکھوں سے کئی بار زیارت کرچکا ہے۔ 

ذیل میں چند احادیث بیان کی جارہی ہیں جو ان لوگوں کے لیے ہیں جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علمِ غیب کے بارے میں شکوک و شبہات میں ہیں۔ ان میں رونما ہونیوالے کئی ایسے واقعات کا ذکر ہے جن کی اطلاع حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیشگی عطا فرمادی۔

طالبانِ معرفت کو علمِ غیب سے آگاہی

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جانثار صحابہؓ سفر و حضر میں آپؐ کے ساتھ رہتے اور آپؐ کے لازوال علوم و معارف سے نایاب گو ہر سمیٹنے کی سعی میں لگے رہتے۔ آپ ؐبھی طالبانِ علم و معرفت کو نوازنے میں بالکل بھی بخل سے کام نہ لیتے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو اتنا علم عطا فر مایا کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ حضرت ابوذرغفاریؓ روایت فرماتے ہیں:
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہمیں اس حال میں چھوڑا کہ کوئی شے ایسی نہ تھی کہ جس کا علم آپ ؐنے ہمیں عطا نہ فرما دیا حتیٰ کہ یہ بھی بیان فرما دیا کہ کوئی پرندہ فضا میں اپنے بازوؤں کے ساتھ کیسے محو ِپرواز ہے۔ (مسند احمد بن حنبلؒ255۔ السلسلۃ الصحیحہ2488)

امام قسطلانی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اس سے بھی کہیں زیادہ پر مطلع فرمایا اور اوّلین و آخرین کا علم آپؐ پر القا فر ما دیا۔(المواھب اللدنیہ، 860:3)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور آپؐ کی نبوت قیامت تک جاری وساری ہے۔ آپؐ کی اُمت بھی آخری اُمت ہے۔
بقول علامہ اقبالؒ:

او رُسل را ختم ما اقوام را

یعنی آپؐ کی اُمت بھی تا قیامِ قیامت جریدۂ عالم پر ثبتِ دوام حاصل کرے گی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت کا کثرتِ تعداد کے اعتبار سے کوئی حساب و شمار نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کوعلم غیب کی وہ قوت عطا فرمائی ہے کہ آپؐ اپنی اُمت کے ہر فرد کو پہچانتے ہیں۔ درج ذیل حدیث اس امر پر گواہی دے رہی ہے۔

حضرت حذیفہؓ بن اسید سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’گزشتہ رات میری تمام امت از اوّل تا آخر اس حجرے کے پاس مجھ پر پیش کی گئی‘‘ تو ایک شخص نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! جولوگ پیدا ہو چکے ہیں وہ تو آپؐ پر پیش کیے گئے مگر جن کی ابھی تخلیق نہیں ہوئی وہ آپؐ پر کیسے پیش کیے گئے؟‘‘ آپ ؐنے فرمایا ’’مجھ پر ان کی مٹی کی صورتیں پیش کی گئیں حتیٰ کہ میں ان میں سے ہر شخص کو اس سے زیادہ پہچانتا ہوں جتنا کہ تم میں سے کوئی اپنے کسی دوست کو پہچانتا ہے۔‘‘ (المعجم الکبیر،181:3،رقم،3055)

عبداللہ بن عمرؓو بن العاص سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہمارے پاس اس حال میں تشریف لائے کہ آپؐ کے ہاتھ میں دو کتابیں تھیں۔ پس آپؐ نے فرمایا’’کیا تم ان دونوں کتابوں کے بارے میں جانتے ہو؟ ‘‘ ہم نے عرض کیا ’’نہیں یا رسولؐ اللہ! سوائے اس کے کہ آپؐ ہمیں ان کے متعلق آگاہ فرما دیں۔‘‘ آپؐ نے اس کتاب کے متعلق جو آپؐ کے دائیں ہاتھ میں تھی فرمایا’’ یہ کتاب ربّ العالمین تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ہے، اس میں اہلِ جنت کے اور ان کے آباؤ اجداد کے اور ان کے قبیلوں کے نام درج ہیں اور ان کے آخر تک اجمالی ذکر فرما دیا گیا ہے۔ نہ اس میں کچھ زیادہ کیا جائے گا اور نہ ہی کچھ کم کیا جائے گا۔‘‘ پھر بائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا ’’یہ کتاب بھی ربّ العالمین کی طرف سے ہے، اس میں اہلِ دوزخ کے اور ان کے آباواجداد کے نام اور ان کے قبیلوں کے نام اور ان کے آخر تک اجمالی ذکر فر ما دیا گیا ہے۔ نہ کبھی ان میں کچھ زیادہ کیا جائے گا اور نہ ہی کم کیا جا سکے گا۔‘‘ (ترمذی2141)

یارِ غار

حضور نبی اکرمؐ نے اپنے یارِ غار اور اپنے عاشقِ صادق و غمگسار صحابی سیدّنا ابوبکر صدیقؓ کو دنیاہی میں جنت کی خوشخبری عطا فرما دی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:
ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضرتھے توآپؐ نے فرمایا ’’تمہارے پاس اہلِ جنت میں سے ایک شخص نمودار ہو گا۔‘‘ تو ابوبکرؓ تشریف لے آئے انہوں نے سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ (المستدرک 4443)
یہ حدیث دنیوی اور اخروی دونوں اعتبارات سے حضوراکرمؐ کے علمِ غیب پر شہادت فراہم کر رہی ہے۔ آپؐ کا صحابہ کرامؓ کو یہ فرمانا کہ ’’تمہارے پاس ایک شخص آئے گا‘‘ اس بات پر دلالت کرتاہے کہ آپؐ کو علم تھا کہ تھوڑی دیر بعد یہاں ابوبکرؓ صدیق آنے والے ہیں۔ اور اُخروی اعتبار سے آپؐ کے علمِ غیب کا ثبوت آپؐ کا سیدّنا ابو بکرؓ صدیق کے جنتی ہونے کے اعلان سے فراہم ہورہا ہے۔

دس صحابہ کرامؓ کو جنت کی بشارت

حضور نبی اکرمؐ نے بشمول خلفائے راشدین دس صحابہ رضی اللہ عنہم کے جنتی ہونے کی خبر ایک مجلس میں سنائی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
 ابوبکرؓ جنت میں ہیں اور عمرؓ جنت میں ہیں اور عثمانؓ جنت میں ہیں اور علیؓ جنت میں ہیں اور طلحہؓ جنت میں ہیں اور زیدؓ جنت میں ہیں اور عبدالرحمنؓ بن عوف جنت میں ہیں اور سعدؓ بن ابی وقاص جنت میں ہیں اور سعیدؓ بن زید جنت میں ہیں اور ابو عبیدہؓ بن جراح جنت میں ہیں۔ (ترمذی3747)
علاوہ ازیں حضور اکرمؐ نے متعدد مواقع پر بعض صحابہؓ کو جنت کی بشارت عنایت فرمائی۔

شہادتوں کی خبر

 حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جبلِ احد پر تشریف لے گئے۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ آپؐ کے ساتھ تھے۔ احدپہاڑ وجد میں آ کر حرکت کرنے لگا۔ اس پر حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’اُحد ٹھہر جا۔‘‘ میرا خیال ہے (راوی کا خیال کہ) حضور اکرمؐ نے اپنے پاؤں مبارک سے اس پر ضرب لگائی (پھر فرمایا) ’’تیرے اوپر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہید ہی تو ہیں۔‘‘ (بخاری 3686۔ مشکوٰۃ المصابیح 6083)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو معلوم تھا کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم شہید ہوں گے لہٰذا آپؐ نے ان کی شہادت کی خبر پہلے ہی دے دی۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ یہ دونوں ہستیاں شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئیں۔

سپہ سالاروں کی شہادتوں کی خبر جنگِ موتہ میں

جنگِ موتہ کا میدانِ کارزار گرم تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف فرماتھے اور شام میں ہونے والے معرکۂ حق و باطل کے حالات و واقعات سے صحابہ کرامؓ کو آگاہ فرما رہے تھے۔ اس موقع پر آپؐ نے تین جلیل القدر صحابہ حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت عبداللہ ابن رواحہ رضی اللہ عنہم کے یکے بعد دیگرے شہید ہو جانے کی خبر لوگوں کو سنائی اور یہ ایسے تھا جیسے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام انہیں آنکھوں دیکھا حال بتا رہے ہیں۔

روایت کے الفاظ یہ ہیں: 

حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت عبداللہ ابن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی اطلاع پہنچنے سے پہلے ہی لوگوں کو اس کی خبر دے دی۔ آپؐ نے فرمایا ’’جھنڈا زیدؓ کے ہاتھ میں تھا وہ شہید ہو گئے۔ پھر جھنڈا جعفرؓ نے پکڑ لیا وہ بھی شہید ہو گئے۔ پھر جھنڈا عبداللہ ابنِ رواحہؓ نے پکڑ لیا پس وہ بھی شہید ہو گئے ہیں۔‘‘ اور آپؐ کی چشمانِ اقدس اشکبار ہو گئیں۔ آخر کار جھنڈا اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار یعنی خالدؓ بن ولید نے پکڑ لیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار فرمایا۔ (بخاری 1246)

آج سے چودہ سو سال قبل جب نہ کوئی سیٹلائٹ سسٹم تھا نہ کوئی انٹرنیٹ، ای میل، وائرلیس اور فون جیسے مواصلاتی رابطہ کی سہولت تھی، سینکڑوں کلومیٹر کے فاصلے پر بیٹھ کر میدانِ کارزار کے حالات کی خبر دینا بلا شبہ تاجدارِ کائناتؐ کے علم کی وسعت کی محکم دلیل ہے۔

احوالِ قبور کا علم

حضرت ابنِ عباس ؓسے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دو قبروں کے قریب سے گزر ہوا تو آپؐ نے فرمایا ’’بیشک ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور عذاب کی کوئی بڑی وجہ بھی نہیں، ان میں سے ایک چغلی کھاتا تھا اور ایک پیشاب سے احتیاط نہیں برتتا تھا۔‘‘

 راوی فرماتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک سبز شاخ لے کر اس کے دوٹکڑے کئے اور ان دونوں قبروں پر ایک ایک ٹکڑا گاڑھ دیا۔ پھر فرمایا ’’جب تک یہ خشک نہیں ہوں گے یقینا ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔‘‘ (بخاری6055)

یہ حدیث حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مطلع علی الغیب ہونے پر درج ذیل جہتوں سے دلالت کرتی ہے:
آپؐ نے دو قبروں کے قریب سے گزرتے ہوئے ان کے اندرونی احوال کی خبر دی اور قبروں کے اندرونی احوال کا تعلق امورِ غیبیہ سے ہے۔ معلوم ہوا کہ آپؐ امورِ غیبیہ کا علم رکھتے تھے۔

عذابِ قبر کے جو اسباب آپؐ نے بیان فرمائے ان کا تعلق زمانہ ماضی سے تھا لہٰذا ان کے غیب ہونے کے بارے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش ہی نہیں۔ معلوم ہوا کہ آپؐ کو ماضی کے احوال و واقعات کا بھی علم تھا۔
 عذابِ قبر زمانہ حال سے متعلق امرِغیبی ہے جس کی خبر آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو دی۔ اس میں آپؐ کے علمِ غیب باعتبارِ حال کا اثبات ہے۔
 ٹہنیوں کے سرسبز و شاداب رہنے تک عذاب قبر میں تخفیف امرغیبی باعتبار مستقبل ہے، اس سے آپؐ کی شانِ علمِ غیب باعتبارِ مستقبل واضح ہوگئی۔

 سراقہ بن مالک اور کسریٰ کے کنگن

ہجرت کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنا تعاقب کرنے والے شخص سراقہ بن مالک کو تائب ہونے پر نہ صرف معاف فرما کر امن کی دستاویز عطا فرمائی بلکہ جب وہ واپس جانے لگا توآپؐ نے اسے خوشخبری عطا فرمائی ’’سراقہ تجھے کسریٰ کے کنگن پہنائے جائیں گے۔‘‘ اس وقت کسریٰ ایران جیسی سپر پاور کا مالک و مختار تھا۔ امام حلبیؒ اس خوشخبری کو ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:
جب وہ (سراقہ)رخصت ہونے لگا توحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:اے سراقہ! تیری کیا شان ہوگی جب تجھے کسریٰ کے کنگن پہنائے جائیں گے۔‘‘(السیرۃ الحلبیہ، 45:2)

جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ کے دورِخلافت میں ایران فتح ہوا تومالِ غنیمت میں کسریٰ بن ہرمز کے کنگن بھی موجود تھے۔ امیر المومنین سیدّنا عمر فاروق کے حکم پر یہ کنگن سراقہ کو پہنا دیئے گئے۔ اس موقع پر سراقہ بن مالک نے کہا:
تمام تعریفوں کے لائق وہی ذات ہے جس نے یہ کنگن کسریٰ بن ہرمز جو خود کو لوگوں کا ربّ کہتا تھا، سے چھینے اور سراقہ بن مالک کو پہنائے۔(السیرۃ الحلبیہ، 45:2)

امام سہیلیؒ اس حوالے سے لکھتے ہیں:
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سراقہ کو کنگنوں کی خوشخبری اس وقت دی تھی جب اس نے اسلام قبول کیا، آپؐ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ عنقریب اس کے ہاتھ پر ایران کی فتح عطا کرے گا اور اسے کسریٰ کی سلطنت کا مالِ غنیمت عطا فرمائے گا۔‘‘ سراقہ نے اپنے دل میں اس خوشخبری کو ناممکن خیال کیا اور پوچھا ’’کیا کسریٰ بادشاہوں کا بادشاہ (مفتوح ہوگا)؟‘‘ (الروض الانف، 6:2)

دفینہ عباسؓ کی خبر

غزوۂ بدر کے موقع پر اسیرانِ بدر میں رسولؐ کے چچا حضرت عباسؓ بھی شامل تھے۔ جب قیدیوں کی رہائی کے لئے فدیہ وصول کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو آپؐ نے حضرت عباسؓ کو فدیہ ادا کرنے کا فرمایا تو انہوں نے عذر پیش کیا کہ میں ایک غریب آدمی ہوں اور میرے پاس فدیہ ادا کرنے کے لئے مال موجود نہیں۔ اس پر مخبرِصادق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
وہ مال کہاں ہے جو آپ نے اور اُم الفضل نے دفن کیا تھا اور آپ نے ان سے کہا تھا کہ اگر میں اس سفر میں کام آ جاؤں تو یہ مال میرے دونوں بیٹوں فضل اور قثم کی ملکیت ہے۔

حضرت عباس ؓ نے یہ سنا تو ششدر رہ گئے اور برملا کہنے لگے:
اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ بخدا یہ ایسی بات ہے کہ جسے میرے اور ام الفضل کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا۔ (حجتہ اللہ علی اللعالمین:482)

مستقبل میں ٹیکنالوجی کے استعمال کی خبر

سیدّ نا عبداللہ بن العاص سے مروی ہے کہ تاجدارِ کائناتؐ نے فرمایا:
میری اُمت کے دورِ آخر میں لوگ گوشت پوست اور ہڈیوں کے جانور کی بجائے دوسری سواریوں (یعنی موٹر گاڑیوں اور ہوائی جہازوں وغیرہ) پر سفر کریں گے۔(مستدرک الحاکم)
یہ خبر آپؐ نے اس وقت دی جب جانوروں پر سفر کرنے کے علاوہ سواری کا کوئی دوسرا ذریعہ موجود تھا نہ ہی اس کا کوئی تصور۔

دجال سے جہاد کرنیوالوں کی پہچان

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مستقبل میں دجال سے جہاد کرنے والے گروہ کی خبر دیتے ہوئے فرمایا:
میں ان کے (دجال کذاب سے جہادکرنے والوں کے) نام،ان کے باپ دادا کے نام اور ان کی سواریوں کے رنگ بھی پہچانتا ہوں۔ (جامع الترمذی، 57:2 کتاب الزہد، رقم: 22332۔ مسند احمد بن حنبل، 538،537:2)

اس حدیث کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے ملاعلی قاری فرماتے ہیں:
یہ حدیث اس پر دلالت ہے کہ حضورؐ کا علم کائنات کے کلی اور جزئی تمام واقعات کو گھیرے ہوئے ہے۔(صحیح مسلم، 392:2 کتاب الفتن – مشکوۃ المصابیح: 467 باب الملاحم)

حضرت عیسیٰؑ کے نزول کی خبر اور قربِ قیامت

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا:
حضرت عیسیٰؑ زمین پر اتریں گے اور نکاح فرمائیں گے اور ان کی اولاد ہوگی اور پینتالیس سال قیام فرمائیں گے۔ پھر ان کا وصال ہوگا تو میری قبر کے ساتھ روضہ میں دفن کئے جائیں گے۔ (مشکوٰۃ 5508)

اس حدیث مبارکہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پانچ غیبی امور کی اطلاع دی ہے جو قربِ قیامت میں واقع ہونے والے ہیں:
۱۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی اطلاع۔
۲۔آپ ؑ کے نکاح کرنے کی اطلاع۔
۳۔ حضرت عیسیٰؑ سے اولاد کا ہونا۔
۴۔حضرت عیسیٰؑ کے قیام کی پوری مدت یعنی عرصہ 45 سال کا تعین۔
۵۔حضرت عیسیٰؑ کے مقامِ دفن کی اطلاع۔

اس کے علاوہ بھی آپؐ نے قیامت کی تمام نشانیاں احادیث کے ذریعے بتا دی ہیں جو بلاشبہ آپؐ کے علمِ غیب اور اس کی وسعت پر دلیل ہیں۔ آپؐ نے فرمایا:
 قیامت اس وقت تک منعقد نہ ہوگی جب تک زمانے (وقت) کی اکائیاں سمٹ کر ایک دوسرے کے بالکل قریب نہ آجائیں، سال مہینے کی طرح اور مہینہ ہفتے کی طرح اور ہفتہ ایک دن کی طرح اور ایک دن ایک پل کی طرح اور ایک پل ایک شعلے کی مانند ہو جائے گا۔  (جامع الترمذی،57:2۔کتاب الزھد رقم الحدیث:2332)

استفادہ کتب:
کتبِ احادیث

 

21 تبصرے “وسعت ِعلم ِنبویؐ vus’at-e-Ilm-e-Nabavi

  1. امام قسطلانی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
    بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اس سے بھی کہیں زیادہ پر مطلع فرمایا اور اوّلین و آخرین کا علم آپؐ پر القا فر ما دیا۔(المواھب اللدنیہ، 860:3)

  2. او رُسل را ختم ما اقوام را
    یعنی آپؐ کی اُمت بھی تا قیامِ قیامت جریدۂ عالم پر ثبتِ دوام حاصل کرے گی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت کا کثرتِ تعداد کے اعتبار سے کوئی حساب و شمار نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کوعلم غیب کی وہ قوت عطا فرمائی ہے کہ آپؐ اپنی اُمت کے ہر فرد کو پہچانتے ہیں۔ درج ذیل حدیث اس امر پر گواہی دے رہی ہے۔

  3. اس سے مراد یہ ہے کہ اوّل سے آخر تک ظاہر و باطن اور زمین و آسمان کی کوئی بھی چیز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوشیدہ نہیں اور آپؐ ہر کسی کے متعلق جانتے ہیں۔اپنے سے پہلے انبیا کی اُمتوں کے واقعات بیان کرنا اور قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی خبر دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ازل سے ابد تک کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔

  4. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو معلوم تھا کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم شہید ہوں گے لہٰذا آپؐ نے ان کی شہادت کی خبر پہلے ہی دے دی۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ یہ دونوں ہستیاں شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئیں۔

  5. اوّل سے آخر تک ظاہر و باطن اور زمین و آسمان کی کوئی بھی چیز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوشیدہ نہیں اور آپؐ ہر کسی کے متعلق جانتے ہیں۔اپنے سے پہلے انبیا کی اُمتوں کے واقعات بیان کرنا اور قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی خبر دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ازل سے ابد تک کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔

  6. امام قسطلانی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
    بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اس سے بھی کہیں زیادہ پر مطلع فرمایا اور اوّلین و آخرین کا علم آپؐ پر القا فر ما دیا۔(المواھب اللدنیہ، 860:3)

  7. بہت خوبصورت مضمون ہے۔۔۔ بیشک آقا پاکﷺ کی ذات پاک ہے اور آپﷺ کو تمام جہانوں کا علم تھا۔۔۔۔۔

  8. خوبصورت احادیث مبارکہ کا حوالہ دے کر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے علمِ غیب اور ہر جگہ حاضر و موجود ہونے پر بہترین انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں