الف (Alif)
قرآنِ کریم ۔ حضور نبی اکرمؐ کاعظیم معجزہ
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آمد آمد ہے۔ چار سو عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے۔ لبوں پر درود، دلوں میں سرور، آقاپاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مہینہ خوشیاں لٹانے آیا ہے۔
ہر نبی اپنی اُمت کا پیشوا اور راہنما ہوتا ہے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اس کی ترغیب ہوتی ہے۔ اپنی اُمت کو زمانۂ جاہلیت سے نکالنے اور دینِ حق کی روشنی سے ان کے دلوں کو منور کرنے کے لیے اللہ نے اپنے ہر نبی کو مختلف معجزات سے نوازا تاکہ اس کی اُمت پر حق و باطل کا فرق واضح ہو جائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیاتِ طیبہ بھی ایسے ہی دل افروز معجزات اور واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہر قول و فعل ظاہری و باطنی ہر لحاظ سے عالمِ اسلام کے لیے معجزے سے بڑھ کر نعمت ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رحمت اللعالمین ہیں۔ قرآن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا معجزۂ عظیم ہے۔
معجزے کے معنی ہیں جو بات خلافِ عادت ہو اور نبی سے ظاہر ہو اور جس کے کرنے سے مخلوق عاجز ہو۔ (رسولِ کریمؐ کے معجزات)
قرآن جو کہ معجزۂ عظیم ہے، ایک مومن کے لیے نعمتِ عظیم تب ہی ہو سکتا ہے جب اس پر قرآنِ کریم کے حقیقی اسرار و رموز منکشف ہو جائیں اور وہ حقیقی فیضِ فقر سے مستفید ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا لا وَّ یَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا ط وَمَا یُضِلُّ بِہٖٓ اِلاَّ الْفٰسِقِیْنَ (سورۃ البقرہ۔ 26)
ترجمہ: اس (قرآن) کے ذریعہ وہ بیشتر کو گمراہ کرتا ہے اور بیشتر کو راہِ راست پر لاتا ہے۔ اور گمراہ تو صرف فاسقوں کو ہی کرتا ہے۔
قرآنِ کریم ہدایت سے بہرہ مند کرنے کا وسیلہ بھی ہے اور فاسقوں کے گمراہ ہونے کا بھی۔یہی اس کے معجزۂ عظیم ہونے کی نمایاں صفت ہے۔ ہر شے کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن۔ قرآنِ کریم وہ روشن کتاب ہے کہ کسی شخص کا باطن جس قدر منور ہو گا اسی قدر اس پر قرآن کے حقیقی معنی اور پہلو روشن ہوں گے۔ مختصراً جس کی جتنی باطنی استطاعت ہو گی وہ اسی حساب سے قرآنِ مجید سے ظاہری و باطنی معانی اخذ کر کے مستفید ہوگا۔ قرآنِ کریم ہدایت کا منبع ہے جو اپنے اندر شریعت، طریقت، معرفت اور حقیقت کے تمام اسرار سمیٹے ہوئے ہے۔
الہامی علوم کا تمام سرچشمہ قرآنِ پاک ہے۔ بلاشبہ قرآن مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ انسانیت کو راہِ ہدایت سے ہمکنار کرنے کا راستہ اور وسیلہ قرآنِ کریم ہی ہے کیونکہ اس کے بعد نہ ہی کوئی نبی بھیجا جائے گا اور نہ کوئی آسمانی کتاب نازل کی جائے گی۔
خداوندِعالم نے ایک جانب اپنی وحی سے سرفراز فرما کر ایسی صفتِ علم ان (انبیا) کو عطا فرمائی کہ اس علم تک کسی کے فہم و ادراک کی رسائی نہ ہو سکے تو دوسری طرف معجزات عطا کر کے ایسی قدرت کا کرشمہ اپنے پیغمبروں کے ہاتھوں پر ظاہر فرمایا کہ تمام عالم کی قوت و طاقت سے بالا و برتر ثابت ہوتے ہیں تاکہ عالم پر حضراتِ انبیا کی صفتِ علم و صفتِ قدرت کا کمال اور برتری ظاہر ہو اور یہی معجزات دشمنوں کی مغلوبی کا ذریعہ بنیں تو حق تعالیٰ جل شانہٗ نے آنحضرتؐ پر قرآنِ کریم نازل فرما کر اپنی صفتِ علم سے وہ کمال عطا فرمایا کہ دنیا کے عقلا و حکما اس کے علوم کے سامنے درماندہ و عاجز رہے۔ علاوہ دیگر معجزات سے تائید کے خود اپنے اس کلام کو آپ کے ثبوت کی دلیلِ محکم اور برہانِ قاطع بنا دیا۔ علما نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عطا کیے ہوئے معجزات میں قرآنِ کریم ایک عظیم الشان معجزہ ہے۔ (قرآن ایک معجزہ عظیم)