درود شریف کے فضائل Darood Sharif Kay Fazayl


4.9/5 - (80 votes)

درود شریف کے فضائل( Darood Sharif Kay Fazayl)

تحریر: مسز عظمیٰ شکیل سروری قادری۔ اوکاڑہ

درود عربی زبان کا لفظ ہے جس سے مرادہے صلوات۔ اگر خدا کی طرف سے ہو تو رحمت و برکت، ملائکہ کی جانب سے ہو تو استغفار، اگر اہل ِ ایمان کی جانب سے ہو تو بالخصوص نبیؐ پر دعا و سلام اور حیوانات و طیور کی نسبت سے ہو تو تسبیح کے معنی دیتا ہے۔ درود ایک ایسا بابرکت عمل ہے جو سنت ِ الٰہی ہے اور تمام مخلوقات پر اللہ کی اس سنت کی ادائیگی واجب ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
بیشک اللہ اور اس کے (سب)فرشتے حضور نبی (مکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم( بھی)اُن پر دورداور خوب سلام بھیجا کرو۔ (سورۃالاحزاب۔56)

 

میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
 اللہ کا نبی اکرمؐ پر درود بھیجنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر کو بلند فرما رہا ہے۔ ہر لمحہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین کو غلبہ عطا فرما رہا ہے۔اللہ تعالیٰ نے تمام انبیا کرام کی شریعتوں کو منسوخ کر کے اپنے محبوبؐ کی شریعتِ مطہرہ کو ہمیشہ ہمیشہ برقرار رکھنے کا اعلان فرما دیا ہے۔ اور اب تاقیامت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اداؤں کو جمیع اہل ایمان کا عمل اور مدارِ نجات اور قربِ الٰہی کا ذریعہ قرار دے رہا ہے۔
فرشتوں کی جانب سے درود کا مطلب ہے کہ فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حق میں دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اعلیٰ سے اعلیٰ مراتب عطا فرمائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین کو دنیا میں غلبہ عطا فرمائے۔

اہلِ ایمان کی طرف سے درودبھیجنا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان بلند کرنے کی التجا ہے۔ یعنی اہل ایمان پر یہ واضح کیا گیا ہے کہ جب میں اپنے محبوب پر برکات کا نزول کرتا ہوں اور میرے فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان میں تعریف کرتے ہیں تو اے ایمان والو تم بھی میرے محبوب کی تعریف کرو۔ (حقیقت ِ محمدیہ)

 حضرت ابوسعید خدریؓ نے فرمایا کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہے لیکن ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود کس طرح بھیجیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’کہو اے اللہ! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود بھیج جو تیرے بندے اور رسول ہیں۔ جیسے تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر درود بھیجا اور برکت نازل فرما حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آل پر جیسے تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو برکت دی۔ ‘‘(ابنِ ماجہ۔903)

درود پاک کاجو طریقہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو بتایا اس میں حیران کن بات یہ ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایاکہو ’’اے اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر دورد بھیج جو تیرے بندے اور رسول ہیں جیسے تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پردرود بھیجا۔‘‘ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ دیا پھرآپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مزید فرمایا ’’اور برکت نازل فرما حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آل پر جیسے تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آلِ ابراہیم کو برکت دی۔‘‘ 

قارئین! ان حوالہ جات کو سمجھنے اور درود پاک کی کنہ تک پہنچنے کے لیے ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر کیا انعامات فرمائے۔

حضرت ابراہیمؑ اور آلِ ابراہیم پر اللہ تعالیٰ کے انعامات

۱)  کتاب و حکمت

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
کیا یہ (یہود) لوگوں (سے ان نعمتوں) پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہیں، سو واقعی ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ہم نے انہیں بڑی سلطنت بخشی۔ (سورۃ النسا۔54)

۲)  حضرت ابراہیمؑ سے پیغمبرالزماں کی پیدائش

اللہ پاک قرآن ِ مجید میں فرماتا ہے:
اور ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب (علیہما السلام بیٹا اور پوتا) عطا فرمائے اور ہم نے ابراہیم ؑ کی اولاد میں نبوت اور کتاب مقرر فرما دی اور ہم نے انہیں دنیا میں (ہی) ان کا صلہ عطا فرما دیا۔ اور بیشک وہ آخرت میں (بھی) نیکوکاروں میں سے ہیں۔ (سورۃ العنکبوت۔ 27)

۳)  حضرت ابراہیمؑ کے ہاتھوں خانہ کعبہ کی تعمیرِ نو

آیاتِ قرآن اور روایات اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ خانہ کعبہ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے بنایا۔ پھر طوفان نوح میں گِر گیا۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ہاتھوں اس کی تعمیرِ نو ہوئی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اللہ پاک کے ہونے والے ان انعامات کو اگر مختصراً بیان کیا جائے توکچھ یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس دوست، برگزیدہ اور پیارے نبی کو قرآنِ مجید میں ’’امتہ‘‘ (سورۃ النحل۔120) ،’’امام الناس‘‘(سورۃالبقرہ۔124)،’’حنیف‘‘ اور ’’مسلم‘‘ (سورۃآلِ عمران ۔67)کے ناموں سے بار بار پکارا ہے۔ قرآنِ مجید کی تقریباً بائیس سورتوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر آیا ہے۔ قرآنِ مجید میں بہت سارے ایسے انبیاکرام ؑکا ذکر ہے جو ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے تھے اور سرکارِ دوعالم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی آپ ؑہی کی نسل میں سے ہیں۔ آپ علیہ السلام موجد ،مسلم اور راست رو تھے اس لیے مسلمان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد پر بھی درود بھیجتے ہیں۔

حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہا یا خیر البریہ اے مخلوقات میں سے بہترین انسان! آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’وہ ابراہیم ؑہیں‘‘۔ (صحیح مسلم۔ 6138)

فضائلِ درود پاک

درود پاک ایک خالص عبادت ہے جس ذکر میں ذاکر کا اپنا کوئی عمل دخل یا اس کے نفس کی انانیت شامل نہیں ہوتی اور اسی لیے یہ عمل اللہ پاک کی بارگاہ میں ہر حال میں مقبول ہوتا ہے۔ درود پاک پڑھنا اہل ایمان پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حق ہے چنانچہ بالغ ہونے کے بعد پوری زندگی میں کم از کم ایک بار درود پڑھنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔ (قرطبی، ص 232)

نیز کسی مجلس میں جب ایک سے زیادہ بار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر ہو تو کم از کم ایک بار درود پڑھنا واجب ہے اور ہر بار درود پڑھنا افضل اور بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ درود پڑھنے والے کو بہت سے انعامات اور فوائد سے نوازتا ہے اور مومنین کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود پڑھنے کے بدلے میں اللہ تعالیٰ بڑھا چڑھا کر ان پر رحمتیں نازل فرماتا ہے۔

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہٗ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایامیری ملاقات حضرت جبرائیل علیہ السلام سے ہوئی، اس نے مجھے کہا! اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کے لیے یہ خوش خبری ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’جو شخص آپؐ پر سلام بھیجے گا، میں اس پر سلام بھیجوں گا اور جو آپؐ پر درود بھیجے گا، میں اس پر رحمتیں بھیجوں گا۔‘‘ (المستدرک 810)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔‘‘ (نسائی 1297)

حضرت انسؓ سے روایت ہیں کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا، اس کے دس گناہوں کو معاف فرمائے گا اور (تقریب الی اللہ کے سلسلے میں) اس کے دس درجے بلند کرے گا۔ (نسائی 1298)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے بہت سے فرشتے جو زمین پر سیاحت کرنے والے ہیں میری امت کا سلام میرے پاس پہنچاتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد 4320۔ نسائی 1283)

 اس روایت کی تشریح میں علامہ قطب الدین خان دہلوی مظاہر حق میں رقم طراز ہیں:
اس حدیث کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو روضۂ اقدس سے دور رہتے ہیں اور انہیں روضہ مقدس پر حاضری کا شرف حاصل نہیں ہوتا، چنانچہ ایسے لوگ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر قلیل تا کثیر تعداد میں سلام بھیجتے ہیں تو فرشتے ان کا سلام بارگاہِ نبوت میں بصد عقیدت و احترام پیش کرتے ہیں۔

البتہ وہ حضرات جنہیں اللہ نے اپنے محبوب کے روضہ اقدس پر حاضری کی سعادت سے نواز رکھا ہے جب وہ بارگاہِ نبوت میں سلام پیش کرتے ہیں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچانے کے لیے فرشتوں کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ روضہ اقدس پر حاضر ہونے والوں کا سلام آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خود سنتے ہیں۔ اس حدیث سے چند باتوں پر روشنی پڑتی ہے اوّل یہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حیات جسمانی حاصل ہے کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس دنیا میں زندگی حاصل تھی اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قبر میں بھی زندگی حاصل ہے۔ دوم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت کے لوگ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر سلام بھیجتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خوش ہوتے ہیں جو سلام بھیجنے والے کے حق میں انتہائی سعادت و خوش بختی کی بات ہے۔ سوم یہ کہ جب فرشتے کسی امتی کا سلام بارگاہِ نبوت میں پیش کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ سلام قبولیت کے درجہ کو پہنچ گیا۔ نیز ایک روایت میں مذکور ہے کہ جب فرشتے سلام لے کر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوتے ہیں تو سلام بھیجنے والے کا نام بھی لیتے ہیں۔

 حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات پاک سے عشق و عقیدت ایمان کا جزو ہے جس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی جس کا ایمان جس قدر مضبوط ہو گا اسے اسی قدر قربت ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نصیب ہو گی۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ راوی ہیں کہ رحمت ِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ مجھ سے قریب وہ لوگ ہوں گے جو مجھ پر اکثر درود پڑھنے والے ہیں۔ (جامع ترمذی484)

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے مجھ پر درود پڑھا کرو بلاشبہ مجھ پر تمہارا درود پڑھنا تمہارے لیے روحانی و جسمانی پاکیزگی کا باعث ہے۔ (ابن ِ ابی شیبہ، المصنف 8704۔ السلسلۃ الصحیحہ2863)
درود و سلام پڑھنے کے متعلق وقت کی کوئی قید نہیں ہے مگر کچھ خاص اوقات یا لمحات جن میں واضح ہوتا ہے کہ درود پاک پڑھنالازم ہے۔

حضرت فضالہ بن عبیدؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک شخص کو نماز میں دعا کرتے سنا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود نہ بھیجا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’ اس نے جلد بازی کی ہے‘‘ آپؐ نے اسے بلایا اور فرمایا’’ تم میں سے کوئی شخص جب نماز پڑھ لے تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر دورد بھیجے، اس کے بعد جو چاہے اللہ سے مانگے۔ (ترمذی 3477،ابوداؤد 1481)

حضرت عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں:
بے شک دعا آسمان اور زمین کے درمیان رکی رہتی ہے اور کوئی دعا اوپر نہیں جاتی یہاں تک کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود بھیجیں۔

جو شخص عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خیال نہیں رکھتا اور سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود نہیں پڑھتا اس کے متعلق سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سخت وعید سنائی ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے:
اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا۔ (ترمذی 3545)
بخیل وہ ہے جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔ (ترمذی :3546)

درود و سلام کی حکمتیں

جیسا کہ قرآن کی روشنی میں یہ قارئین کے گوش گزار کیا جا چکا ہے کہ یہ درود و سلام ایسا عمل ہے جو ربّ ِکریم بذاتِ خود ازل تا ابد کرنے میں مصروف ہے اور اس عظیم عمل کا حکم اپنی تمام مخلوقات کو بھی دیا ہے۔ بزرگانِ دین درود و سلام کی حکمتوں کا خلاصہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے بعد جملہ مخلوقات میں سب سے زیادہ کریم، رحیم، شفیق، عظیم اور سخی ہیں اور حبیب ِ خدا، تاجدارِ انبیا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مومنوں پر سب سے زیادہ احسانات کے شکریہ میں ہم پر درود پڑھنا مقرر کیا گیا ہے ۔
چنانچہ علامہ سخاویؓ لکھتے ہیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود پڑھنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حق کو ادا کرنا ہے۔

چنانچہ علامہ سخاویؓ لکھتے ہیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود پڑھنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حق کو ادا کرنا ہے۔
 بعض بزرگوں نے فرمایا کہ ہمارا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود بھیجنا ہماری طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے درجات کی بلندی کی سفارش نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم جیسے ناقص ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جیسے کامل و اکمل کی شفاعت نہیں کر سکتے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا بدلہ چکانے کا حکم فرمایا جس نے ہم پر احسان و انعام کیا اور اگر ہم احسان چکانے سے عاجز ہوں تواس کے لیے دعا کریں لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے احسان کا بدلہ دینے سے عاجز ہیں تو اس نے درود پڑھنے کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی تا کہ ہمارے درود آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے احسانات کا بدلہ بن جائیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے احسان سے افضل کوئی احسان نہیں۔

جیسا کہ ظاہراً تو ہم درود پاک میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آباؤ اجداد اور آل پاک کے لیے برکات و شفاعت کے طلب گار ہوتے ہیں مگر حقیقتاً یہاں وہ فارمولہ کام کر رہا ہوتا ہے جس کو سمجھتے ہوئے واصف علی واصف نے لکھا کہ اگر تم کوئی چیز طلب کرنا چاہو تو وہ تقسیم کرنے لگ جاؤ۔ اب انسان ہر دم رحمت و برکت اور سلامتی و شفاعت کا طلبگار ہوتا ہے مگر وہ اس کا حصول کسی بھی عبادت کے باوجود نہیں کر سکتا تھا تو اس لیے اللہ نے مہربانی کر دی اور درود پاک وہ وسیلہ یا کنجی تحفہ کر دی کہ تم درود پاک کی کثرت کرتے جاؤ اس میں موجود تمام خزائین تمہیں میں (اللہ) عطا کرتا جاؤں گا۔

ابو محمد مرجانیؓ فرماتے ہیں: اے مخاطب !نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود بھیجنے کا نفع حقیقت میں تیری ہی طرف لوٹتا ہے۔ گویا تو اپنے لیے دعا کر رہا ہے۔

علامہ ابنِ عربیؒ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر دورد بھیجنے کا فائدہ درود بھیجنے والے کی طرف لوٹتا ہے کیونکہ اس کا درود پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ درود پڑھنے والے کا عقیدہ صاف ہے اور اس کی نیت خالص ہے اور اس کے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عقیدت و محبت اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیکی پر مدد حاصل ہے اور اس کے اور اس کے آقا و مولیٰ دو عالم کے دولہا حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے درمیان ایک مبارک و مقدس نسبت موجود ہے۔ (القول البدیع، المقصود بالصلاۃ علی النبیؐ، ص 83 )

درود پاک کے متعلق شرعی احکامات

کسی مجلس میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر کیا جائے تو ذکر کرنے اور سننے والے کا ایک مرتبہ درود و سلام پڑھنا واجب ہے۔ اور اس سے زیادہ مستحب ہے اور نماز کے قعدہ اخیرہ میں تشہد کے بعد درود پڑھنا سنت ہے۔ 

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے تابع کر کے آپ ؐ کی آل و اصحاب اور دوسرے مومنین پر بھی درود بھیجا جا سکتا ہے جبکہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سوا ان میں سے کسی پر درود بھیجنا مکروہ ہے۔

درود شریف میں آل و اصحابؓ کا ذکر شروع سے چلتا آرہا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آل کے ذکر کے بغیر درود مقبول نہیں یعنی درود شریف میں حضور پرُ انوار صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اہلِ بیتؓ کو شامل کیا جائے۔ آلِ رسولؐ کون ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
مَنْ سَلَکَ عَلٰی طَرِیْقیْ فَھُوَ اٰلی 
ترجمہ: جو چلا میری راہ وہی میری آل ہے۔

درود شریف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عزت و تکریم ہے فقرا نے اللھم صلی علیٰ محمد  کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ یا ربّ! محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کوعظمت عطا فرما دنیا میں ان کا دین بلند کر کے، ان کی دعوت غالب فرما اور ان کے دین ان کے ورثہ فقر کو بقا عنایت کر کے اور دنیا و آخرت میں ان کی قربت و دیدار عطا فرما دنیا میں دائمی حضوری کی صورت میں اور آخرت میں شفاعت و حاضری کی صورت میں۔
خطبے میں حضور اقدس ؐ کا نام پاک سن کر دل میں درود پڑھیں ، زبان سے سکوت فرض ہے۔
اللہ تعالیٰ نے درود و سلام پڑھنے کے لیے کسی وقت اور خاص حالت مثلا ًکھڑے ہو کر یا بیٹھ کر پڑھنے کی قید نہیں لگائی چنانچہ کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر ، جہاں چاہے جس طرح چاہے نمازسے قبل یا بعد یونہی اذان سے پہلے یا بعد جب چاہے درود پڑھنا جائز ہے۔

حقائقِ درود پاک

واصف علی واصف لکھتے ہیں:
اللہ اور اس کے فرشتے جو پڑھتے ہیں وہ آپ بھی پڑھنا شروع کر دیں پھر آپ بھی خاموشی سے اللہ کے ساتھ اس جماعت میں شامل ہو جائیں گے جس کے بارے میں اللہ کہتا ہے کہ میں اورمیرے فرشتے ایک کام کر رہے ہیں یعنی درود شریف پڑھتے ہیں آپ بھی وہ کام شروع کر دیں۔
مزید ایک جگہ آپؒ فرماتے ہیں:
درود پاک ذکر ہے یاد ہے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی۔

قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
 اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر بلند فرما دیا ہے۔ (سورۃ الم نشرح۔4)

 اللہ ربّ العزت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر تمام عالموں میں بلندکیاہے کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رحمت اللعالمین ہیں توآپؐ کا ذکر بھی تمام عالموں میں بلند فرمایا گیا۔ اللہ ربّ العزت نے سرکار ِدو عالم کے ذکر کو اس طرح بلند کیا ہے کہ اپنے ذکر کے ساتھ ذکرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کولازم کر دیا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا:
اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جہاں میرا ذکر ہوتا ہے وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر بھی ہوتا ہے جس نے میرا ذکر کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر نہیں کیا، جنت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ (در منشور جلد 6 صفحہ 401)

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنی تصنیفِ لطیف حقیقتِ محمدیہ میں رقم طراز ہیں:
درود وہ ذکر اور عبادت ہے جو ہر عبادت کو بارگاہِ الٰہی میں مقبول بناتی ہے کیونکہ ہر فرقہ اور مسلک کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اگر دعا یا کسی عبادت کے اوّل و آخر درود شریف پڑھ لیا جائے تو عبادت اور دعا ضرور قبول ہو جاتی ہے پس فرمایا کہ مجھ سے کچھ مانگنا ہے تو پہلے میرے محبوب پر درود بھیجو۔ میرے محبوب کا ذکر کرو پھر قبول کروں گا۔ یہ ہے ایک اور طریقہ محبوب کے ذکر کو بلند کرنے کا۔درود و سلام سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعریف میں نذرانہ عقیدت پیش کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظیم الشان ہستی کے اوصافِ حمیدہ بیان کرنے کا نام ہے۔ یہ ایسی عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ، فرشتے اہل ایمان اور حتیٰ کہ تمام مخلوقات کرتے ہیں۔(حقیقتِ محمدیہ)

الغرض اللہ نے صرف اپنے حبیب ؐ کا ذکر ہی بلند نہ کیا بلکہ جس نے بھی اللہ کے حبیب کو اپنا محبوب جانا اس کا بھی ذکر بلند کیا۔ جس کی  زندہ مثالیں حضرت ابوبکرصدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت بلال حبشیؓ، حضرت اویس قرنیؓ سمیت تمام اصحاب کی صورت میں منہ بولتا ثبوت ہے۔ پھر جیسا کہ ہم ان تمام دلائل کے متعلق آگاہی حاصل کر چکے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر ازل تا ابد قائم رہے گا لہٰذا اللہ نے عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر کو بلند کرنے کی صورت میں ذکر ِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حیات ِجاودانی بخشی۔ حتیٰ کہ صحابہ کرامؓ کے بعد جس زمانہ میں جس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قرب حاصل کیا اور جتنا قریب ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنا محبوب بنایا، خود کو آپؐ کی ذات میں فنا کر دیا وہ اللہ کا ولی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا محبوب ہو گیااور اس کا نام بھی بلند ہو گیا۔ اگر نہیں اعتبار تو صدیوں سے قائم اولیا اللہ کے مزارات کو دیکھ لیں کہ دشمن خواہ جتنی مرضی مخالفت کرتے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا ذکر اتنا ہی بلند ہوتا جا رہا ہے۔

میرے مرشد میرے ہادی سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
جو بھی صدقِ دل اور صحیح عقیدے سے ایک بار خود کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے وابستہ کر لے گا وہ بھی بلند ہو جائے گا۔ یہ ذکر بلند سے بلند تر ہوتا رہے گا۔ کیونکہ اس کی جبلت میں بلند ہونا ہے اور اپنے وابستگان کو بھی بلند سے بلند تر کرتا ہے اور کرتا رہے گا کیونکہ اسے بلند کرنے کا ذمہ اس نے لیا ہے جو کائنات کی ہر شے سے بلند و برتر ہے۔

استفادہ کتب:
۱۔ شمس الفقرا: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔  حقیقتِ محمدیہ:  ایضاً

 
 

20 تبصرے “درود شریف کے فضائل Darood Sharif Kay Fazayl

  1. اللہ ربّ العزت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر تمام عالموں میں بلندکیاہے کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رحمت اللعالمین ہیں توآپؐ کا ذکر بھی تمام عالموں میں بلند فرمایا گیا۔

  2. میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
    اللہ کا نبی اکرمؐ پر درود بھیجنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر کو بلند فرما رہا ہے۔ ہر لمحہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین کو غلبہ عطا فرما رہا ہے۔

  3. حضرت انسؓ سے روایت ہیں کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا، اس کے دس گناہوں کو معاف فرمائے گا اور (تقریب الی اللہ کے سلسلے میں) اس کے دس درجے بلند کرے گا۔ (نسائی 1298)

  4. حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے بہت سے فرشتے جو زمین پر سیاحت کرنے والے ہیں میری امت کا سلام میرے پاس پہنچاتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد 4320۔ نسائی 1283)

  5. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔‘‘ (نسائی 1297)

  6. میرے مرشد میرے ہادی سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
    جو بھی صدقِ دل اور صحیح عقیدے سے ایک بار خود کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے وابستہ کر لے گا وہ بھی بلند ہو جائے گا۔ یہ ذکر بلند سے بلند تر ہوتا رہے گا۔ کیونکہ اس کی جبلت میں بلند ہونا ہے اور اپنے وابستگان کو بھی بلند سے بلند تر کرتا ہے اور کرتا رہے گا کیونکہ اسے بلند کرنے کا ذمہ اس نے لیا ہے جو کائنات کی ہر شے سے بلند و برتر ہے۔

  7. اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ،
    اللَّهُمَّ بَارِكَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَ ا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

  8. میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
    اللہ کا نبی اکرمؐ پر درود بھیجنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر کو بلند فرما رہا ہے۔

  9. حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے مجھ پر درود پڑھا کرو بلاشبہ مجھ پر تمہارا درود پڑھنا تمہارے لیے روحانی و جسمانی پاکیزگی کا باعث ہے۔ (ابن ِ ابی شیبہ، المصنف 8704۔ السلسلۃ الصحیحہ2863)

  10. درود ایک ایسا بابرکت عمل ہے جو سنت ِ الٰہی ہے اور تمام مخلوقات پر اللہ کی اس سنت کی ادائیگی واجب ہے۔

  11. درود پاک ذکر ہے یاد ہے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی۔

  12. حضرت انسؓ سے روایت ہیں کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا، اس کے دس گناہوں کو معاف فرمائے گا اور (تقریب الی اللہ کے سلسلے میں) اس کے دس درجے بلند کرے گا۔ (نسائی 1298)

  13. ابو محمد مرجانیؓ فرماتے ہیں: اے مخاطب !نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود بھیجنے کا نفع حقیقت میں تیری ہی طرف لوٹتا ہے۔ گویا تو اپنے لیے دعا کر رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں