انسان ِ کامل اقبالؒ کی نظر میں Insan-e-Kamil Iqbal Ki Nazar Mein


4.5/5 - (31 votes)

انسانِ کامل اقبالؒ کی نظر میں
 Insan-e-Kamil Iqbal Ki Nazar Mein

تحریر: سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس

علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام میں انسانِ کامل کو مختلف ناموں سے مخاطب کیا ہے مثلاً مومن، مردِ مومن، بندۂ مومن، مردِ حق، مردِ کامل، مردِ دانا، مردِ حرُ، امامِ برحق، قلندر، صاحبِ ایجاد، مردِ خود آگاہ، دیدہ ور، صاحبِ ادراک، امامِ وقت، مردِ فقیر، بندۂ حق، بندۂ حق بین، مردِ بزرگ، مردِ قلندر، صاحبِ دِل اور مہدی برحق۔ ان تمام اصطلاحی ناموں سے مراد ’انسانِ کامل‘ ہی ہے لیکن شاعری کے اصولوں کی ضرورتوں کے مطابق آپؒ نے دیگرعارفین کی طرح ’انسانِ کامل‘ کو مختلف ناموں سے موضوعِ بحث بنایا ہے۔اقبالؒ انسانِ کامل کے بارے میں کیا لکھتے ہیں، یہ سمجھنے سے قبل ضروری ہے کہ ’’انسانِ کامل یا مردِ مومن ‘‘ کے مرتبہ پر روشنی ڈالی جائے۔

فقرائے کاملین اور انسانِ کامل

راہِ فقر میں اپنی ہستی کو اللہ کی ذات میں فنا کر کے بقا باللہ ہو جانا عارفین کا سب سے اعلیٰ اور آخری مقام ہے۔ یہاں پر وہ دوئی کی منزل سے بھی گزر جاتے ہیں۔ حدیثِ نبویؐ  مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا (مرنے سے پہلے مر جاؤ) میں اسی مقام کی طرف اشارہ ہے۔ فقر کے اس انتہائی مر تبہ کومقامِ فنا فی ھوُ، وحدت، فقر فنا فی اللہ بقاباللہ یا وصالِ الٰہی کہتے ہیں اور یہ مقامِ توحید بھی ہے۔ یہاں پہنچ کر انسان سراپا توحید ہو جاتا ہے۔ انسانی عروج کا یہ اعلیٰ ترین مقام ہے۔ عام اصطلاح میں اس مقام تک پہنچنے والے انسان کو ’’انسانِ کامل‘‘ یا ’’فقیرِ کامل‘‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن فقرا اور عارفین نے اپنی تصنیفات میں اس مقام کو مختلف ناموں سے موسوم کیا ہے۔

 

ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے:
اِذَ ا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ 
ترجمہ: جہاں فقر کی تکمیل ہوتی ہے وہی اللہ ہے۔

جب طالب فقر کی انتہا پر پہنچ جاتا ہے تو جملہ صفاتِ الٰہی سے متصف ہو کر انسانِ کامل کے مرتبہ پر فائز ہو جاتا ہے۔ کائنات کے تمام مراتب میں سب سے اکمل ’’انسان‘‘ ہے اور جملہ افرادِ انسانی میں خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سب سے اکمل و ارفع ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مظہرِاُتمّ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی انسانِ کامل ہیں اور آپ ہی حق تعالیٰ کے خلیفہ برحق ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد آپ کے نائبین کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلہ سے یہ مرتبہ حاصل ہوا۔ دنیا میں ہر وقت ایک شخص قدمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہوتا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا باطنی نائب ہوتا ہے اور انسانِ کامل کے مرتبہ پر فائز ہوتا ہے۔ وہ امانت ِالٰہیہ، خلافتِ الٰہیہ کا حامل ہوتا ہے اور کائنات کا نظام اللہ تعالیٰ اس ’’انسانِ کامل‘‘ کی وساطت سے چلاتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اسے ہی مرشد کامل اکمل فرماتے ہیں۔ انسانِ کامل پر فقر کی تکمیل ہوتی ہے اور اس مرتبہ پر اس صاحبِ فقر کی اپنی ہستی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ’میں اور تو‘ کا فرق مٹ جاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے یکتائی کے اس مرتبہ پر فائز ہو جاتا ہے جہاں دوئی نہیں ہوتی۔ درج ذیل حدیثِ قدسی کے مطابق اس کا بولنا اللہ کا بولنا ہوتا ہے، اس کا دیکھنا اللہ کا دیکھنا، اس کا سننا اللہ کا سننا، اس کا چلنا اللہ کا چلنا اور اس کا پکڑنا اللہ کا پکڑنا ہوتا ہے۔
وَ مَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اُحِبَّہٗ فَاِذَا اَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَ بَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ وَ یَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِھَا وَ رِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا (بخاری شریف6502)
ترجمہ: میرا بندہ (فرض ادا کرنے کے بعد) نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ 

اس مقام کی طرف علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے:

ہاتھ ہے ﷲ کا، بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کشا کار ساز
خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دل بے نیاز

 

 

انسانِ کامل ۔ اقبالؒ کی نظر میں

 علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے اُردو اور فارسی کلام میں جا بجا انسانِ کامل کا ذکر کیا ہے ۔ ذیل میں پہلے اُردو کلام سے کچھ منتخب اشعار درج کیے جا رہے ہیں جن کی بدولت اس امر کابخوبی اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ اقبالؒ کے نزدیک انسانِ کامل یا مردِ مومن کا کیا مربتہ و مقام تھا۔

تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
’حق‘ تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا ’امامِ برحق‘
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر ’رخِ دوست‘
زندگی تیرے لئے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے

(ضربِ کلیم)

ضربِ کلیم سے ہی آپؒ کا ایک اور کلام درج ذیل ہے:

ہر لحظہ ہے ’مومن‘ کی نئی شان، نئی آن
گفتار میں کردار میں، ﷲ کی برہان
قہاری و غفاری و قدّوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم
دریاؤں کے دِل جس سے دہل جائیں، وہ طوفان
فطرت کا سرودِ ازلی اس کے شب و روز
آہنگ میں یکتا، صفت سورۂ رحمن

(ضربِ کلیم)

علامہ اقبالؒ اپنے کلا م میں کہیں انسانِ کامل کے زورِ بازو کا ذکر کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کہیں اس کی نگاہِ کامل کا۔ 

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا!
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

(بانگِ درا)

نگہ بلند، سخن دِل نواز، جاں پرُسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

(بالِ جبریل)

وہی ہے صاحبِ امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فردا

(بالِ جبریل)

اپنے فارسی کلام میں اقبالؒ نے ’انسانِ کامل‘ کے نظریہ کو بہت خوبصورت اور جامع انداز میں پیش کیا ہے۔ آپؒ کے فارسی کلام سے انتخاب پیش کیا جا رہا ہے:

شتربانی جہانبانی کنی
زیبِ سر تاج سلیمانیؑ کنی
تا جہاں باشد جہاں آرا شوی
تاجدارِ ملک لایبلیٰ شوی
نائبِ حق در جہاں بودن خوش است
بر عناصر حکمراں بودن خوش است
نائبِ حق ہمچو جانِ عالم است
ہستی او ظلِ اسمِ اعظم است
از رموزِ جزو و کل آگہ بود
در جہاں قائم بامر اللہ بود

(اسرارِ خودی)

ترجمہ: (۱) اگر تو شتر بان بن جائے (یعنی نفس کے اونٹ کو قابو میں لے آئے) تو دنیا پر حکم چلائے گا اورسلیمانؑ کا تاج تیرے سر کی زینت بنے گا (یعنی نفس کا پردہ ہٹا کر مقامِ فنا فی اللہ بقا باللہ پر پہنچ کر انسانِ کامل کے مرتبہ پر فائز ہو جائے گا)۔
(۲)جب تک یہ دنیا قائم ہے توُ اس کو سجانے والا رہے گا اور اس سلطنت کا تاجدار بن جائے گا جس پر کبھی زوال نہ آئے گا۔
(۳) دنیا میں اللہ تعالیٰ کا نائب (انسانِ کامل) بننا اچھی بات ہے۔ عناصر پر حکمرانی کرنا کتنا اچھا ہے۔
(۴)خدا کا نائب (انسانِ کامل)  دنیا کی روح کی مانند ہے، اس کا وجود اسمِ اعظم (اسمِ اللہ ذات) ہوتا ہے۔
 (۵) وہ ا س کائنات کے ہر جزُ اور کل کا راز جانتا ہے اور دنیا میں اللہ کی طرف سے مامور ہوتا ہے۔

موجودہ پستی کے دور میں انسانِ کامل کے ظاہر نہ ہونے کی وجوہات

ذیل کے اشعار میں علامہ اقبالؒ فرمارہے ہیں کہ اُمتِ مسلمہ صدیوں سے بانجھ پن کا شکار ہے۔ اس نے ہر شعبہ کے ماہر پیدا کیے لیکن کوئی مردِ کامل یعنی انسانِ کامل پیدا نہیں کیا۔ انسانِ کامل تو ہر دور میں موجود ہوتا ہے لیکن ظاہر اس لیے نہیں ہوتا کہ یہ دنیا مادیت اور ظاہر پرستی کی دنیا ہے، اب کسی کو نہ دیدار و معرفتِ الٰہی کی طلب ہے نہ روحانیت کی جو کہ انسانِ کامل کا خاصہ اور اثاثہ ہیں۔ مغربی تعلیم مادی ترقی کے حصول پر زور دیتی ہے اور مذہبی راہنما ظاہر پرستی کی پرورش کرتے رہتے ہیں اور اُمتِ مسلمہ کے گروہ ان دونوں میں سے کسی ایک ہی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ روحانیت، باطن یا فقر کی تلاش اور جستجو ختم ہو چکی ہے۔ چونکہ یہ انسانِ کامل کے پاس ہیں اور اب اس کی تلاش کرنے والے نہیں رہے لہٰذا انسانِ کامل بھی ظاہر نہیں ہوتا۔ آپؒ اسی زوال پر نوحہ کناں ہیں۔

آہ زاں قومے کہ از پا برفتاد
میر و سلطان زاد و درویشے نزاد

(پس چہ باید کرد)

ترجمہ: افسوس ہے اس قوم پر جوپستی کا شکار ہو گئی ۔ اس نے امیر و سلطان تو پیدا کیے لیکن کوئی مرد درویش پیدا نہ کیا۔ 

ترسم ایں عصرے کہ تو زادی در آں
در بدن غرق است و کم داند ز جاں
چوں بدن از قحطِ جاں ارزاں شود
مردِ حق در خویشتن پنہاں شود
در نیابد جستجو آں مرد را
گرچہ بیند روبرو آں مرد را
تو مگر ذوقِ طلب از کف مدہ
گرچہ در کارِ تو افتد صد گرہ

(جاوید نامہ)

ترجمہ: (۱) مجھے اس زمانے سے جس میں تو پیدا ہوا ہے، کچھ ڈر لگ رہا ہے کیونکہ وہ بدن (مادیت) میں غرق ہے اور روح سے بے خبر ہے۔ آج کے لوگ مادیت (ظاہر) میں کھوئے ہوئے ہیں اورروح (باطن) سے ناآشنا ہیں۔
(۲) جب بدن، روح کے قحط کے باعث سستا ہوجاتا ہے تو مردِ حق (انسانِ کامل) خود میں چھپ جاتا ہے۔ یعنی وہ دنیا میں موجود تو ہوتا ہے لیکن مادیت کے شکار لوگ اسے پہچاننے کی اہلیت سے محروم ہوتے ہیں۔
(۳)ایسے دور میں تلاش و جستجو بھی اس (انسانِ کامل) کو نہیں پا سکتی، اگرچہ لوگ اسے اپنے بالکل سامنے ہی کیوں نہ دیکھ رہے ہوں۔ یعنی مادیت کے دور میں اسے ظاہری طور پر نہیں پہچانا جا سکتا، اس کی پہچان کا ذریعہ اس کا عطا کردہ اسمِ اعظم (اسمِ اللہ ذات) ہے۔
 (۴)تاہم تو اس کی طلب کا ذوق ہاتھ سے نہ جانے دے اگرچہ تیری راہ میں سینکڑوں الجھنیں اور مشکلیں کیوں نہ آئیں۔ 

پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ انسانِ کامل سے التجا کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

نمایاں ہو کے دِکھلا دے کبھی اِن کو جمال اپنا
بہت مدت سے چرچے ہیں ترے باریک بینوں میں

(بانگِ درا)

حسن ہو کیا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو
شمع کو جلنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو

(بانگ ِدرا)

 اقبالؒ کا مدعا یہ ہے کہ راہِ فقر پر چلتے ہوئے جب تک آدمی ’’انسانِ کامل‘‘ کے مرتبہ پر نہیں پہنچتا وہ دنیا کی تقدیر نہیں بدل سکتا۔ خلافت کا نظام قائم کرنے کا دعویٰ کرنے والوں میں کیا کوئی ایسا مردِ کامل موجود ہے جو دوسروں کو مردِ کامل بنا رہا ہوبالکل سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرح؟ (یہ مضمون شکریہ کے ساتھ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی تصنیف مبارکہ فقرِ اقبا ل سے شائع کیا جا رہا ہے)

علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام میں ’’انسانِ کامل‘‘ کی جن خصوصیات کا ذکر فرمایا ہے وہ تمام خصوصیات بدرجہ اُتم سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل اور موجودہ امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس میں موجود ہیں۔ جو خوش نصیب مرد و خواتین سلطان العاشقین مدظلہ الاقد س کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہونے کا شرف حاصل کرچکے ہیں وہ اس امر پر تصدیق کی مہر ثبت کرنے میں لمحہ بھر نہیں ہچکچائیں گے کہ بلاشبہ اقبالؒ کا مردِ مومن ، مردِ حق انسانِ کامل سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی صورت رنگیل پور شریف میں جلوہ گر ہے اور اپنی نگاہِ کامل اور زورِ بازو سے طالبانِ دنیا و عقبیٰ کو طالبانِ مولیٰ بنا رہا ہے۔ لاتعداد متلاشیانِ حق اپنا مقصدِ حیات پا کر دین و دنیا کی کامیابی حاصل کر چکے ہیں اور بے شمار مریدین و عقیدتمند آپ مدظلہ الاقدس کی نورانی صحبت سے مستفید ہونے کے لیے بے قرار رہتے ہیں۔

آپ مدظلہ الاقدس بیعت کے پہلے ہی روز طالبانِ مولیٰ کو ذکرِ ھواور تصور اسمِ اعظم اسمِ اللہ ذات عطا فرماتے ہیں تاکہ طالب باطن میں نفس کو مات دے کر روحانی ترقی کی منازل طے کر سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ظاہری جسم کی پاکیزگی کے لیے مشق مرقومِ وجودیہ بھی عطا کرتے ہیں تاکہ طالب بیک وقت ظاہری و باطنی طور پر اپنے خالقِ حقیقی کی طرف معرفت کے سفر میں آگے بڑھتا چلا جائے اور اپنا مقصدِ حیات پا لے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے جس ثابت قدمی، جواں مردی و بے باکی سے مسلمانوں کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا ہے، بلاشبہ آپ مدظلہ الاقدس ہی وہ مہدیٔ برحق ہیں جس کا انتظار علامہ اقبالؒ کو تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اقبالؒ کے کلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)


21 تبصرے “انسان ِ کامل اقبالؒ کی نظر میں Insan-e-Kamil Iqbal Ki Nazar Mein

  1. کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا!
    نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

  2. ہاتھ ہے ﷲ کا، بندۂ مومن کا ہاتھ
    غالب و کار آفریں، کار کشا کار ساز
    خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات
    ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دل بے نیاز

  3. کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا!
    نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
    (بانگِ درا)

  4. بلاشبہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ہی وہ مہدیٔ برحق ہیں جس کا انتظار علامہ اقبالؒ کو تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اقبالؒ کے کلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)

  5. نمایاں ہو کے دِکھلا دے کبھی اِن کو جمال اپنا
    بہت مدت سے چرچے ہیں ترے باریک بینوں میں
    (بانگِ درا)

  6. جملہ افرادِ انسانی میں خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سب سے اکمل و ارفع ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مظہرِاُتمّ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی انسانِ کامل ہیں اور آپ ہی حق تعالیٰ کے خلیفہ برحق ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد آپ کے نائبین کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلہ سے یہ مرتبہ حاصل ہوا۔

  7. انسانِ کامل مرشد کامل اکمل جمع نور الہدہ فقیر ملک الملکی سلطانِ عالم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس

  8. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس قدمِ محمدﷺ پر ہیں جو اپنی نگاہ کاملہ سے زنگ آلود قلوب کو نور الہٰی سے منور فرماتے ہیں ❤❤🌷

  9. ہے وہی تیرے زمانے کا ’امامِ برحق‘
    جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے

  10. حسن ہو کیا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو
    شمع کو جلنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو
    (بانگ ِدرا)

  11. حسن ہو کیا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو
    شمع کو جلنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو

  12. تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
    ’حق‘ تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
    ہے وہی تیرے زمانے کا ’امامِ برحق‘
    جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
    موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر ’رخِ دوست‘
    زندگی تیرے لئے اور بھی دشوار کرے
    دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے
    فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
    (ضربِ کلیم)
    Khobsurat Kalam ❤️

  13. ہاتھ ہے ﷲ کا، بندۂ مومن کا ہاتھ
    غالب و کار آفریں، کار کشا کار ساز
    خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات
    ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دل بے نیاز

  14. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے جس ثابت قدمی، جواں مردی و بے باکی سے مسلمانوں کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا ہے، بلاشبہ آپ مدظلہ الاقدس ہی وہ مہدیٔ برحق ہیں جس کا انتظار علامہ اقبالؒ کو تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اقبالؒ کے کلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)

  15. کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا!
    نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
    (بانگِ درا)

اپنا تبصرہ بھیجیں