کلید التوحید (کلاں) Kaleed-ul-Tauheed kalan
قسط نمبر20 مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
جو وجود نورِ ربانی میں دائمی غرق ہو وہ آفتاب کی مثل کون و مکان میں ہر جگہ ظاہری و پوشیدہ طور پر حاضر رہتا ہے۔ اس کا کلام ہر کسی کے لیے جامع ہوتا ہے۔ یہ اس طرح معلوم کیا جا سکتا ہے کہ مخلوق سمجھتی ہے کہ وہ ان سے ہم کلام ہے لیکن وہ باطن میں خالق سے ہم کلام ہوتا ہے اور ذکر ِ الٰہی کے ساتھ مشاہدۂ نور حضور میں مستغرق ہوتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ (سورۃ البقرہ۔152)
ترجمہ: پس تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا۔
مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہم کلام ہو کر ان کے حضور درخواستیں پیش کرتا ہے اور سوال و جواب کرتا ہے۔ تمام انبیا و اولیا اللہ کی ارواح اور صاحبِ مراتب مومن و مسلمان، کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھنے والے اہلِ اسلام کی ارواح سمجھتی ہیں کہ وہ ان سے ہم کلام ہے۔ بیت:
نظر بر نیستی ہرگز نمی افتد ز مغروران
اگرچہ دامن مقراضِ لا دارد گریبان ہا
ترجمہ: مغروروں کی نظر اپنے انجام پر نہیں ہوتی اگرچہ ان کے دامن میں موجود لا (یعنی فنا) کی قینچی ان کے گریبان تک پہنچ جائے۔
تمام مقرب و حامل (یعنی حاملینِ عرش) فرشتے سمجھتے ہیں کہ وہ ان سے ہم کلام ہے یہ قلب کو زندہ کرنے اور نفس کو مارنے والے کے مراتب ہیں کیونکہ اہلِ نفس کو زندہ قلب کا اعتبار نہیں ہوتا اور صاحبِ زندہ قلب کی آواز انہیں پسند نہیں آتی اور اہلِ نفس کی آواز صاحبِ زندہ قلب کو پسند نہیں آتی۔ زندہ قلب روحِ مقدس کا وزیر ہوتا ہے۔ روحِ مقدس وجود میں بادشاہ کی مثل ہے جبکہ دیگر تمام اعضا رعایا کی مثل ہیں جو اس سے سلامتی و جمعیت پاتے ہیں اور اگر وجود میں نفس بادشاہ ہو تو شیطان وزیر ہوتا ہے جن کی وجہ سے وجود کے تمام اعضا بے جمعیت اور پریشان رہتے ہیں۔
جان لو کہ اکثر علما کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں کوئی ایک بھی لائقِ تلقین و ارشاد اور صاحبِ وصال مرشد موجود نہیں لہٰذا وہ مسائلِ فقہ و شریعت کو ہی مرشد تسلیم کر لیتے ہیں۔ فقہ و مسائل کا علم پڑھنے سے دل سے نفاق، کدورت اور سیاہی دور نہیں ہوتی۔ ذکرِقلبی کے بغیر دل کی صفائی نہیں ہوتی اور نہ ہی تصدیق کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے اور صدق و صفائی کے بغیر کوئی بھی شخص مومن و مسلمان نہیں ہو سکتا اگرچہ تمام عمر علمِ فقہ پڑھتا رہے یا مسائل حل کرتا رہے۔ وہ نفس پریشان کا تابع ہو کر حرص و حسد میں مبتلا رہتا ہے جو اسے مرشد کے وسیلہ سے روکتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تمام اصحابؓ کے بھی مرشد تھے لہٰذا دوسرے کون ہوتے ہیں جو مرشد سے منع کریں۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ جو مرشد کے وسیلہ سے منع کرے اس کے وجود میں اللہ کی طلب، اس کی محبت اور معرفتِ الٰہی نہیں ہوتی اور نفس اس مردہ دل کو باطن میں معرفتِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے روکتا ہے۔ مرشد کے دستِ بیعت ہونے اور تعلیم و تلقین حاصل کرنے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہدایت و ولایت حاصل کرنے کا سلسلہ چار پیروں اور چودہ خانوادوں سے جاری ہے جو قیامت تک نہ رکے گا۔
ابیات:
اگر گیتی سراسر باد گیرد
چراغ مقبلاں ہرگز نمیرد
ترجمہ: اگر تمام جہان طوفان کی زد میں آ جائے تو بھی بارگاہِ الٰہی میں مقبول لوگوں کے چراغ نہیں بجھیں گے۔
چراغی را کہ ایزد بر فروزد
ہر آنکس تف زند ریشش بسوزد
ترجمہ: جن چراغوں کو اللہ نے خود روشن کیا ہو اس پر جو بھی پھونک مارے گا وہ اپنی داڑھی خود جلائے گا۔
جو صاحبِ شریعت مرشد کے پاس جانے سے روکے وہ ہدایت سے محروم ہوتا ہے کیونکہ مرشد ذکر کا سلک سلوک دکھاتا ہے اور انسان ذکر کے بغیر مسلمان نہیں ہوتا چاہے تمام عمر قرآن و تفسیر پڑھتا رہے یا نماز و علمِ فقہ۔ وہ اس لیے کہ ابتدا سے انتہا تک مسلمان ہونے کی بنیاد ذکر ہی ہے۔ ذکرِ جہر زبان سے اقرار کے لیے ہے اور ذکرِ خفی تصدیقِ دل کے لیے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَفْضَلُ الذِّکْرِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
ترجمہ: افضل ذکر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً (سورۃ الاعراف۔55)
ترجمہ: اپنے ربّ کو عاجزی اور خفیہ طریقے سے پکارو۔
جیسے ہی قلب تصدیق کے لیے زبان کھولتا ہے اوریَااَللّٰہُ یَااَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پکارتا ہے تو ذکر کے دونوں گواہ یعنی اقرار اور تصدیق ثابت ہو جاتے ہیں۔ قلبی ذکر کرنے والے کا قلب ذکر سے ایسی گویائی حاصل کرتا ہے کہ اس کا نفس تابع ہو جاتا ہے اور زبان فضول گوئی سے رک جاتی ہے۔ جب تک زمین پر نامِ اللہ اور ذکرِ اللہ کرنے والا ایک بھی ذاکر، فقیر اور درویش زندہ اور موجود رہے گا قیامت قائم نہ ہوگی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یُقَالَ فِی الْاَرْضِ اَللّٰہُ
ترجمہ: قیامت قائم نہ ہوگی جب تک زمین پر ایک بھی اللہ کا نام لینے والا موجود ہو گا۔
تصور اسمِ اللہ ذات کی برکت سے تصدیق اور اقرار کے ساتھ کلمہ پڑھنے والے ذاکر کے گناہِ کبیرہ اور صغیرہ کراماً کاتبین کے رجسٹر پر تحریر نہیں کیے جاتے۔ پس معلوم ہوا کہ علمِ روایت (قلب کی) صفائی کے لیے ہے اور ذکر کے ذریعے ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ کیونکہ حضرتِ علمِ روایت فتویٰ دیتے ہیں کہ اس موذی نفس کو قتل کر دو اور اس دنیا کی دوستی سے بیزار رہو اور شیطان کی دوستی سے ہوشیار اور خبردار رہو کیونکہ تحصیلِ علم کی فضیلت معرفتِ الٰہی کی طلب کی وجہ سے ہے لہٰذا مرشد کے وسیلہ سے معرفتِ الٰہی طلب کرو کیونکہ عارف مرشد کامل نجات کا وسیلہ ہے جو ذکرِ اللہ سے مردہ دل کو زندہ کرتا ہے جو کہ دائمی حیات ہے اور اسمِ اللہ سے فنا فی اللہ کے مقام میں غرق کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ انسان کو انسان سے ہی مراتب حاصل ہوتے ہیں اور انسان کا نصیب بھی انسان سے ہے اور انسان کو ہدایت بھی انسان سے حاصل ہوتی ہے اور انسان کو حکمت بھی انسان سے ملتی ہے اور انسان کو ولایت اور غنایت کے مراتب بھی انسان سے حاصل ہوتے ہیں اور انسان کو جمعیت بھی انسان سے ملتی ہے۔
جمعیت دو قسم کی ہے جمعیت ظاہر اور جمعیت باطن۔ جمعیتِ ظاہر دو علوم سے حاصل ہوتی ہے اور وہ دو علوم جمعیت کے دو مراتب کی انتہا تک پہنچاتے ہیں اوّل علمِ تکثیر یعنی دعوتِ کمال جو قبور پر پڑھی جاتی ہے جس سے بحکمِ الٰہی اٹھارہ ہزار عالم تصرف میں آ جاتے ہیں۔ دوم علمِ کیمیا اکسیر جو طریقِ تحقیق سے علم کیمیا اکسیر کے عامل سے حاصل ہوتا ہے۔ علمِ دعوت تکثیر اہلِ قبور کی ارواح سے حاصل ہوتا ہے جس سے دل دنیا میں غنی، لایحتاج اور باجمعیت رہتا ہے اگرچہ دعوت پڑھنے والا مخلوق کی نگاہ میں مفلس، سوالی، بے جمعیت اور پریشان ہی ہو۔ دوم جمعیت باطن بھی دو علوم سے حاصل ہوتی ہے جو دو مراتب تک پہنچاتی ہے اوّل فنا فی اللہ کا علم جس میں تصور اسمِ اللہ ذات کی مشق سے تصور کرنے والے کے وجود میں سر سے قدم تک نورِ وحدانیتِ اسمِ اللہ ذات کی تجلیات پیدا ہوتی ہیں۔ اس کی نظر بھی توحید پر ہوتی ہے اور اس کی زبان سے بھی ہر حرف توحید اور معرفتِ الٰہی کا نکلتا ہے اور وہ توحید و معرفتِ الٰہی کی بات ہی سنتا ہے۔ وہ دنیا و شیطان، نفسِ امارہ کے مکر اور مخلوق کی تقلید اور ریاکاری سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ دوم فنا فی تصور اسمِ محمدؐ کا علم ہے۔ اسمِ محمدؐ کی تاثیر سے وجود میں سر سے قدم تک نورِ محمدی ظاہر ہو جاتا ہے جس سے دل کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضوری حاصل ہوتی ہے جہاں وہ ذکرِ الٰہی کرتے ہوئے ادب سے التماس کرتا ہے۔ ان علوم کا ابتدائی سبق فنا فی الشیخ ہے کیونکہ جیسے ہی صورتِ شیخ تصور میں آتی ہے راہِ شریعت و علم کھل جاتی ہے اور وجود سے جہالت اور بدعت کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ (سورۃ المائدہ۔35)
ترجمہ: اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اور اس (کے قرب) کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔
بیت:
ہر کرا مرشد نہ کبر از ہوا
مرد مرشد برد وحدت باخدا
ترجمہ: جس کا مرشد نہ ہو وہ خواہشاتِ نفسانی کے باعث تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے جبکہ مرد مرشد (طالب کو) وحدت میں حق تعالیٰ تک لے جاتا ہے۔
جس جگہ علم و عمل کی بدولت علما میں اللہ کی محبت، معرفت اور دیدار کی طلب پیدا ہوتی ہے وہاں تلقین و ہدایتِ محمدی عطا کرنے کے لیے روشن ضمیر فقیرِکامل بھی موجود ہوتے ہیں جو نص و حدیث اور تفسیر کے مطابق صاحبِ تاثیر اور صاحبِ دیدار ہوتے ہیں۔ کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کی محبت، شوق اور طلب نے اصحابِ کہف کے کتے کو کتوں کی صف سے نکال کر مراتبِ انسانیت پر جا پہنچایا اور بے ادبی اور نافرمانی نے شیطان کو علمِ حضوری سے دور کر دیا اور اس نے یہ سرزنش اور ذلت والا خطاب پایا:
وَ اِنَّ عَلَیْکَ لَعْنَتِیْٓ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ۔ (سورۃ ص۔78)
ترجمہ: بے شک تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت ہے۔
سن لو کہ ہدایتِ الٰہی، معرفتِ الٰہی اور ذکرِ الٰہی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اور اسمِ اللہ قرآن کی ہدایت کی مثل ہیں کیونکہ وہ قرآن سے ہیں اور ان کا استاد بھی علمِ قرآن کی تعلیم کرنے والا ہوتا ہے۔ جس طرح استاد کے بغیر شاگرد علمِ قرآن کا محرم اور واقف نہیں ہو سکتا اسی طرح مرشد ہادی و باطنی رہبر کے بغیر طالب معرفتِ الٰہی حاصل نہیں کر سکتا نہ ہی مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف ہو سکتا ہے۔ صاحبِ باطن مرشد کے بغیر ظاہری تلاوتِ قرآن یا ورد وظائف یا درود پڑھنے سے یا علمِ مسائلِ فقہ پڑھنے سے یا نوافل نماز پڑھنے سے یا تمام عمر ریاضت و مجاہدہ کرنے سے یا شب بیداری و نمازِ تہجد پڑھنے سے ظاہری مراتبِ عز و جاہ حاصل ہو سکتے ہیں یا ظاہری اعمال کی بدولت چشمِ ظاہر سے لوحِ محفوظ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے اور عرشِ اکبر سے تحت الثریٰ تک کی راہ کھل سکتی ہے۔
لیکن یہ مراتب درجات سے تعلق رکھتے ہیں اور صاحبِ درجات و طبقات باطن میں معرفتِ توحیدِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے شرف سے بے خبر ہوتا ہے۔ معرفتِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری صاحبِ باطن مرشد کامل کے وسیلہ سے طلب کر کیونکہ باطن صاحبِ باطن کی مدد سے ہی کھلتا ہے اور صاحبِ باطن اسے توجہ اور توفیقِ باطنی یا تصور اسمِ اللہ ذات یا کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ سے کھول کر دکھا سکتا ہے۔ معرفتِ الٰہی، وصال اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جمال تک مرشد کامل کے بغیر پہنچنا محال ہے کیونکہ وہ پلک جھپکنے میں یہاں تک پہنچا سکتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ حضرتِ علم فرماتے ہیں کہ نفسِ امارہ، شیطان اور دنیا سے خبردار رہو۔ جیسے ہی یہ تینوں اکٹھے ہوتے ہیں تو سجدہ و سجود، مجلسِ محمدی اور معرفت و وصالِ معبود سے روکتے ہیں۔ مجھے اُن احمق لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو فنا فی الشیخ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن منافق و بت پرست ہوتے ہیں اور دولتِ دنیا کی خاطر غمزدہ رہتے ہیں۔ یہ فنا فی الشیخ نہیں بلکہ فنا فی الشیطان ہیں جو دنیا کے طالب ہونے کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں۔ مجھے اُن احمق لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو دعویٰ کرتے ہیں مجلسِ محمدی میں صاحبِ حضور اور فنا فی نورِ محمد ہونے کا لیکن وہ نفسِ امارہ کی قید میں اور طلبِ دنیا میں مبتلا مردود طالبِ دنیا ہوتے ہیں۔ مجھے اُن لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو فنا فی اللہ صاحبِ وصال ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن انانیت، شرک، کفر اور ہوائے نفس میں مبتلا ہوتے ہیں جو زبان سے تو لَآ اِلٰہَ کا اقرار کرتے ہیں لیکن ان کے دل کی کیفیت درج ذیل آیت کے مصداق ہوتی ہے:
اَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ھَوٰہُ (سورۃ الجاثیہ۔23)
ترجمہ: (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشاتِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے۔
ابیات:
سلطان ہوس چوں آشنائے تو شود
دل مردۂ فرمان ہوائے تو شود
ترجمہ: جب تیری آشنائی (یعنی دوستی) ہوس سے ہوگی تب تیرا دل مردہ اور خواہشاتِ نفس کا غلام ہو جائے گا۔
چوں نفس خود پرستی ہوائے تو بود
دشمن نفس تو ہوائے تو شود
ترجمہ: جب تیرا نفس خود پرستی اور خواہشات میں مبتلا ہوگا تو تیری خواہشات اور تیرا نفس ہی تیرے دشمن ہوں گے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ یُشْھِدُ اللّٰہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ لا وَھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ۔(سورۃ البقرہ۔204)
ترجمہ: اور جو کچھ اس کے قلب میں ہے وہ اس پر اللہ کو گواہ بناتا ہے حالانکہ وہ سب سے زیادہ جھگڑنے والا ہے۔
اس شرک و کفر سے باز آ۔
بیت:
یک زبان با یک دل و یک رنگ باش
ہر چہ باشد غیر حق از دل تراش
ترجمہ: اپنی زبان، دل اور مزاج کو ایک سا رکھو (یعنی ان میں منافقت اور دوغلا پن نہ ہو) اور حق کے سوا جو کچھ تیرے دل میں ہے اسے نکال دے۔
یہ کتاب علما، فقرا، فقہا، اہلِ توحید اور اہلِ تقلید سب کے لیے کسوٹی ہے۔ جو شخص اس کتاب کو رات دن اپنے مطالعہ میں رکھے گا اور اخلاص سے اس کو پڑھتا رہے گا وہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں داخل ہوگا اور اسرارِ الٰہی اس پر منکشف ہوں گے۔ اس سے آسمانوں اور زمین کی کوئی بھی چیز مخفی اور پوشیدہ نہیں رہے گی کیونکہ اس کتاب کو پڑھنے والا سچا عارف ہوتا ہے اور وہ مخلوق کی رہنمائی کرتا ہے کیونکہ عارف باللہ صاحبِ بصیرت ہوتا ہے اور اس کی نگاہ دیدار سے محروم نہیں ہوتی اور نہ ہی اس سے اسرارِ ربانی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جو محتاج اس کتاب کا مطالعہ کرے گا وہ لایحتاج ولی اللہ بن جائے گا۔ اگر مفلس پڑھے تو غنی ہو جائے گا اور اگر پریشان حال پڑھے تو وہ صاحبِ جمعیت ہو جائے گا اور اگر اہلِ حیرت پڑھے تو صاحبِ عزت ہو جائے گا اور اگر مردہ دل پڑھے تو ذکرِ اللہ سے اس کا دل زندہ ہو جائے گا اور اگر جاہل پڑھے تو صاحبِ علم ہو جائے گا اور حیّ و قیوم ذات کے احوال اس پر کھل جائیں گے اور ماضی، حال اور مستقبل کے احوال کی حقیقت اسے معلوم ہو جائے گی کیونکہ جب کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے ذکر کی ضرب دل پر پڑتی ہے تو دل کو صاف کر تی ہے اور وہ ذاکر صاحبِ بصیرت عارف بن جاتا ہے۔ اگر عالم فاضل اس کتاب کو پڑھے تو فیض بخش بن جائے گا۔ اگر صاحبِ عبودیت اس کتاب کو پڑھے تو وہ مراتبِ ربوبیت پر پہنچ جائے گا اور اگر صاحبِ مجاہدہ اس کتاب کو پڑھے تو مراتبِ مشاہدہ پر پہنچ جائے گا اور اگر صاحبِ ریاضت پڑھے تو وہ مراتبِ اسرار پر پہنچ جائے گا اور اگر صاحبِ فقہ پڑھے تو اس کا نفس فنا ہو جائے گا اور وہ اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ کے مراتب پر پہنچ جائے گا۔ اگر صاحبِ حدیث اس کتاب کو پڑھے تو فنا فی اللہ ہو کر اللہ کا ہم نشین ہو جائے گا اور خطراتِ ابلیس سے نجات پالے گا۔ اگر ناقص پڑھے تو وہ کامل ہو جائے گا اور اگر کامل پڑھے تو مکمل ہو جائے گا اور اگر مکمل پڑھے تو اکمل ہو جائے گا اور اگر اکمل اس کتاب کو پڑھے تو سلطان الفقر کے مراتب پر پہنچ جائے گا اور اگر بادشاہ اس کتاب کو پڑھے تو اسے وزیر کی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ مؤکلات اسے دینی و دنیوی اور ظاہری و باطنی معاملات کی خبر دیں گے۔ اگر کیمیا گری کا طالب عامل اس کتاب کو پڑھے گا تو اسے کیمیا گری کا علم بخش دیا جائے گا۔ جو اس کتاب کو ابتدا سے انتہا تک (خلوص سے) پڑھے گا اسے ظاہری مرشد کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اگر رجعت خوردہ اس کتاب کو پڑھے تو وہ رجعت سے نجات پالے گا۔ اگر بیمار پڑھے تو شفایاب ہو جائے گا۔ غافل پڑھے تو ہوشیار ہو جائے گا۔ اگر محجوب پڑھے تو محبوب ہو جائے گا۔ یہ کتاب روشن اور فیض بخش آئینہ ہے جو دونوں جہان کی نعمتیں دکھاتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے (مندرجہ بالا) مراتب تصور اسمِ اللہ ذات کے حاضرات، تصور اسمِ محمد اور تصور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی بدولت حاصل ہوتے ہیں۔ ننانوے اسمائے باری تعالیٰ میں سے اسمِ اعظم کو تلاش کرنا ایک امتحان ہے۔ ان اسما میں سے جس اسم کا بھی تصور کیا جائے اس میں سے تجلیاتِ نور شعلۂ آتش یا بجلی یا آفتاب کی مثل چمکتی ہیں جس سے دونوں جہان اس کے مدِنظر اور ناخن کی پشت پر نظر آتے ہیں۔ یا اگر آیاتِ قرآن کو بھی ترتیب سے ان کی خاصیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے درست پڑھا جائے تو تمام مطالب، درجات، ماضی‘ حال اور مستقبل کے احوال کی حقیقت دکھائی دیتی ہے۔ طریقت کا یہ طریق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی باطنی راہ کا باتحقیق طریق ہے۔ جو اس میں شک کرے وہ منافق، حاسد، مردود اور کافر و زندیق ہے۔ نعمتِ ازل کیا ہے؟ پس نعمتِ ازل قَالُوْا بَلٰی کا اقرار کرنا ہے۔ نعمتِ دنیا کیا ہے؟ نعمتِ دنیا اس کا کھانا پینا اور اس سے قرار حاصل کرنا ہے۔ نعمتِ ابد کیا ہے؟ نعمتِ ابد اس دنیا میں آنے اور (واپس لوٹ) جانے کا اعتبار ہے۔ نعمتِ عقبیٰ کیا ہے؟ گناہوں سے آزاد ہونا اور استغفار کرنا ہے۔ نعمتِ معرفتِ مولیٰ کیا ہے؟ خود سے فنا ہونا اور حق کے ساتھ بقا پانا اور اپنی جان قربان کرنا ہے۔ بیت:
نیم کباب کہ ہنگام سوختن گریم
چو کاغذیم کہ در سوزش خندہ ما
ترجمہ: میں کباب کی مثل نہیں ہوں جو جلنے پر ہنگامہ اور گریہ کروں۔ میں کاغذ کی مثل ہوں جو جلنے پر بھی ہنستا ہے۔
جیسے ہی یہ پانچ نعمتیں حاصل ہو جائیں عارف باللہ دیدارِ پروردگار کے لائق ہو جاتا ہے۔ وہ شریعت میں ہوشیار اور کفر و بدعت سے بیزار ہوتا ہے۔ اہلِ بدعت اس کی نظر میں خوار ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)