Alif | الف
ظاہر اور باطن
جس طرح یہ ظاہری دنیا ہے اسی طرح ایک باطنی دنیا بھی ہے۔ اصل دنیا باطنی دنیا ہی ہے اور ظاہری دنیا اس باطنی دنیا کا اظہار ہے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ظاہری دنیا باطنی دنیا کا عکس اور سایہ ہے۔ ظاہری دنیا میں وقوع پذیر ہونے والا ہر عمل پہلے باطنی دنیا میں واقع ہوتا ہے اور پھر ظاہر ہوتا ہے۔سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ظاہر در حقیقت باطن کا اظہار ہے۔ ظاہری جہان فانی ہے اور نفسانی خواب و خیال کی مثل ہے جبکہ باطنی روحانی دنیا لا زوال ہے اور اسے بقائے جاودانی حاصل ہے۔ ان دونوں کے درمیان تعلق قائم کرنے والا علمِ حق شناس اور منصفِ قرآن ہے جس کے مطابق اعمال کی حقیقت اور ان کا ثواب احوال کے موافق ہوتا ہے۔ باطن اصل ہے کہ اس میں معرفت اور وصالِ الٰہی ہے۔ اس کے برعکس ظاہری دنیا سردی گرمی بہار و خزاں کے موسموں کی طرح بدلتی رہتی ہے۔ پس غیب (باطن) پر ایمان لانا ضروری ہے جو بے شک لاریب ہے۔ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
الم۔ (قرآن) وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، یہ کتاب متقین کو ہدایت بخشتی ہے جو غیب (باطن) پر ایمان رکھتے ہیں۔ (سورۃ البقرہ1-3)
جو شخص غیب اور صاحبِ باطن اولیا اللہ اہلِ غیب کی غیبت و گلہ کرتا ہے وہ در حقیقت اپنے حقیقی بھائی کا گوشت کھاتا ہے۔ ایسا شخص مومن و مسلمان کیسے ہو سکتا ہے؟ (نور الہدی کلاں)
ظاہری اور باطنی دنیا ہی کی طرح انسان کا بھی ظاہر اور باطن ہے۔ انسان کی حقیقت اس کا باطن ہے اور اللہ کے ہاں انسان کا مقام و مرتبہ اس کے باطن کی بنیاد پر طے ہوتا ہے۔ کوئی شخص ظاہر میں کتناہی بلند مرتبہ یا بڑا عالم دین ہو، اگر اس کے باطن میں کفر ہو تو وہ اللہ کے ہاں کافر ہی شمارہوگا۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
باطن کئی قسم کا ہے اور ظاہر میں اعلیٰ مراتب حاصل کرنا انتہائی مشکل اور بلند ہمتی و توفیق کا کام ہے۔ بعض کا باطن باطل و زندیق جبکہ ظاہر برحق تحقیق ہوتا ہے، بعض کا ظاہر باطل و زندیق اور باطن برحق تحقیق ہوتا ہے، بعض کا ظاہر و باطن باطل و زندیق ہوتا ہے اور بعض کا ظاہر و باطن برحق تحقیق ہوتاہے۔ تمام مومن و مسلمان و کافرو کاذب و مشرک و منافق و ظالم کے مراتب کی بنیاد انہی اقسام پر ہے۔ (نور الہدی کلاں)
اگر باطن درست نہیں تو ظاہری آراستگی اور درستی محض دکھاوا اور منافقت ہے۔ طالبِ مولیٰ تب تک عارف باللہ کے مرتبے پر نہیں پہنچ سکتا جب تک اس کا ظاہر و باطن درست اور یکتا نہیں ہو جاتا۔حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
جان لے جس طالب مرید قادری کا ظاہر و باطن ایک ہو جاتا ہے اسے رفاقت حق حاصل ہو جاتی ہے اور پھر وہ ظاہر و باطن میں کسی سے کوئی التجا نہیں کرتا۔ پس معلوم ہوا کہ کامل قادری عارف باللہ ہمیشہ دیدار سے مشرف رہنے والا نظارہ بین اور صاحبِ حق الیقین ہوتا ہے، وہ انوارِ توحید میں غرق ہو کر عین با عین دیدار میں مستغرق رہتا ہے۔ پس ایسے کامل قادری کو ذکر فکر، ورد و وظائف، مراقبہ و مکاشفہ سے کیا سروکار کہ وہ تو مکمل یقین اور اعتبار کے ساتھ لاھوت لامکان میں ساکن ہو کر با عیان دیدار کرتا ہے۔ (نورالہدی کلاں)
طالبِ مولیٰ کے ظاہر و باطن کا ایک ہو جانا صرف سروری قادری مرشد کامل اور اس کے عطا کردہ ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات سے ممکن ہے۔
(سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی تصنیفِ مبارکہ ’’شمس الفقرا‘‘ سے اقتباس)