حسنِ نیت ( Husan-e-Niyat)
تحریر: مسز انیلا یاسین سروری قادری۔ لاہور
قلب میں کسی کام یا عمل کی ادائیگی کے ارادے کو ’’نیت‘‘ کہتے ہیں یعنی ہر عمل کی بنیاد و کنہ نیت ہے۔ ’’نیت‘‘ عربی کلمہ نواۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گٹھلی کے ہیں۔ جیسی گٹھلی ویسا درخت یعنی جیسی نیت ویسا پھل۔ پس حسنِ نیت معرفتِ الٰہی کے حصول کے لیے خالصتاً نیک عمل اور نیک سوچ کو اختیار کرنے کے ارادے کا نام ہے۔
نیت کا مقام قلب ہے۔ معرفتِ الٰہی کی راہ بھی باطن (قلب) کی راہ ہے اور اللہ کی نگاہ بھی بندۂ مومن کے قلب پرہوتی ہے۔ چنانچہ ارشادِ ِباری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: آپ فرما دیں کہ جو تمہارے سینوں میں ہے خواہ تم اسے چھپاؤ یا اسے ظاہر کر دو اللہ اسے جانتا ہے، اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ خوب جانتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہے۔ (سورۃ آلِ عمران۔29)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
ترجمہ: تمہارا ربّ ان (باتوں) سے خوب آگاہ ہے جو تمہارے دلوں میں ہیں، اگر تم نیک سیرت ہو جاؤ تو بیشک وہ (اللہ اپنی طرف) رجوع کرنے والوں کو بہت بخشنے والا ہے۔ (سورۃ بنی اسرائیل۔25)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
بے شک اللہ تعالیٰ نہ تمہارے جسموں کو دیکھتا ہے اور نہ ہی تمہاری صورتوں کو بلکہ وہ تمہارے دلوں (اور ان میں موجود نیتوں) کو دیکھتا ہے۔ (صحیح مسلم۔ 6542)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے :
یقینا اللہ تعالیٰ( تمہارے جسموں) اور تمہاری صورتوں اور اموال کی طرف نہیں دیکھتا، لیکن اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کی طرف (اور اپنی انگلیوں سے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا)اور تمہارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔( صحیح مسلم۔6543)
حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نیت کے معاملے میں دل پر نظر اس لیے فرماتا ہے کیونکہ دل ہی نیت کا مقام ہے۔ ہر شخص کو جزا اور سزا وہی ملے گی جیسی اس کی نیت ہوگی۔ (کیمیائے سعادت)
پس جب دل سے کسی عمل کی نیت ہی نہ کی جائے تو محض زبان سے کہنا کچھ نفع نہیں دیتا۔ نیت قلب کا عمل ہے جبکہ زبان اور دیگر اعضا تو فقط ادائیگیِ عمل کے ترجمان ہیں۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ (صحیح بخاری۔ 1)
مجددِ دین، رہبرِانسانیت مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
لوگ تمہارے کارنامے دیکھتے ہیں اور ربّ تمہاری نیتیں دیکھتا ہے۔ (سلطان العاشقین)
دینِ اسلام میں ہر عمل و عبادت کی ادائیگی میں نیت کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ ارکانِ اسلام کی ادائیگی ہو یا زندگی کے معاشی، معاشرتی اور سماجی معاملات، ہر عمل کی بنیاد نیت ہی کی محتاج ہے۔ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے تصدیق بالقلب سے نیت و اقرار ضروری ہے۔ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ جیسے اعمالِ صالح کی قبولیت کا دارومدار بھی حسنِ نیت پر ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشادفرمایا:
اے لوگو! اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی وہ نیت کرے گا۔ (صحیح بخاری۔ 6953)
حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ایک اور مقام پر فرمایا :
بے شک جب بندہ اعمالِ صالح کرتا ہے تو فرشتے ان اعمال کو مہربند دستاویز میں درج کرنے کیلئے آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں پس ان دستاویزات کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جاتا ہے تو اللہ فرماتا ہے ’’ان دستاویزات کو (نیکیوں سمیت) پھینک دو کیونکہ اس بندے نے ان میں درج اعمال کو میری رضا کیلئے سر انجام نہیں دیا۔‘‘ پھر وہ فرشتوں سے فرماتا ہے ’’تم فلاں بندے کیلئے اتنی اتنی نیکیاں لکھ دو۔‘‘ وہ عرض کرتے ہیں ’’اے ہمارے ربّ! اس نے تو کوئی عمل نہیں کیا؟‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اس بندے نے اس عمل کی نیت کی تھی۔‘‘ (حسنِ نیت اور استقامت)
حضرت شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں’’عبادت وہی خالص ہے جو اللہ عزّوجل کی خوشنودی کے لیے کی جائے کیونکہ ایسی نمازیں اور دیگر عبادات جو محض دکھاوا ہوں وہ اُلٹا دوزخ کی جانب دھکیل دیں گی۔‘‘ (حکایاتِ سعدیؒ)
امام الوقت مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
عبادت اسی طرح سے قبول ہوتی ہے جس طرح کی نیت ہوتی ہے۔ (سلطان العاشقین)
ادائیگی اعمال و عبادات میں نیت ایک ایسی کسوٹی ہے جو بندے کو مقربِ الٰہی بھی بنا دیتی ہے اور راندۂ بارگاہِ الٰہی بھی۔ یعنی اللہ پاک عمل کو نہیں بلکہ ادائیگیِ عمل کے دوران قلب میں نیت کی کیفیت کو دیکھتا ہے اور اللہ پاک کو بندے کا وہی عمل پسند ہے جو خالصتاً اللہ کے لیے کیا گیا ہو۔ حدیثِ نبویؐ ہے:
مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔
لہٰذا ہر عمل،عبادت اور فرائض کی ادائیگی کے وقت انسان کو اپنی نیت کو ضرور جانچنا چاہیے کہ آیا اس کا یہ عمل خالص اللہ پاک کی رضا اور قرب پانے کیلئے ہے یا اس کے اغراض و مقاصد نفس کی تسکین و حصولِ عزت و مرتبہ کے ہیں۔ کیونکہ باطل نیت والے اعمال انسانی قلب کو بے نور اور معرفتِ الٰہی کی راہ سے اندھا کر دیتے ہیں۔
چونکہ حسنِ نیت کا تعلق خالصتاً معرفتِ الٰہی کا حصول ہے اس لیے نفس، دنیا اور شیطان ہمہ وقت عمل و عبادات کی ادائیگی کو فاسد کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ شیطان کا مقصد ہی انسانی قلب پر وساوس مثلاً ریاکاری، نمود و نمائش اور طلبِ عزّ وجاہ سے وار کر کے اعمالِ صالح کو ضائع کرنا ہے۔ اس لیے وہ ہمیشہ انسان کے اعمال بارگاہِ الٰہی میں فاسد کرنے کے درپے رہتا ہے۔ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
شیطان نے کہا: اے ربّ! مجھے تیری عزت کی قسم! میں تیرے بندوں کو تب تک بہکاتا رہوں گا جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں رہیں گی۔ (مستدرک 7672)
پس فلاح پا گیا وہ جس نے اپنے اعمال و عبادات کو حسنِ نیت سے آراستہ کر کے معرفتِ الٰہی کی راہ پر چل کر حیاتِ ابدی پالی۔
سیدّنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو (قیامت والے دن) ان کی نیتوں کے مطابق اٹھایا جائے گا۔ (سنن ابنِ ماجہ 4229،مسند احمد 9079)
حضرت سالم بن عبداللہ بن عمرؓ نے حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کو ایک بار لکھا ’’ اے عمرؓ! یہ ذہن نشین رہے کہ اللہ کی مدد بندے کی نیت کے مطابق ہوتی ہے، بندے کی نیت اگر کامل ہے تو اللہ کی مدد بھی کامل ہوتی ہے اور بندے کی نیت میں اگر کوئی قصور یا کوتاہی ہے تو اس کی مدد بھی اسی طرح نامکمل ہو گی۔‘‘ (عوارف المعارف)
نیت کی اقسام:
ادائیگی فرائض کے لحاظ سے نیت کی تین اقسام ہیں:
۱) نیتِ صافیہ
۲) نیتِ ممتزجہ
۳) نیتِ کَدِرہ
نیتِ صافیہ:
نیت کی اس حالت میں اعمال و عبادات کی ادائیگی کے وقت قلب خالصتاً اللہ پاک کی معرفت اور رضا کی طرف مائل رہتا ہے اور دنیوی مقاصد سے قطع تعلق رہتا ہے۔ ایسا قلب صرف انبیا، فقرا اور متلاشیانِ حق یعنی طالبانِ مولیٰ کا ہوتا ہے۔ یہ ہمیشہ اللہ کی طلب کے سوا اللہ سے کچھ نہیں مانگتے۔ ان کی حالت قرآنِ مجید میں یوں بیان کی گئی ہے ’’ اے ہمارے ربّ! ہم تیری بخشش کے طلب گار ہیں اور ہم سب کو تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔‘‘ (سورۃالبقرہ۔ 285)
نیتِ ممتزجہ:
نیت کی اس حالت میں اعمال و عبادات کی ادائیگی میں قلب اللہ کی رضا کی طرف مائل تو ہوتا ہے لیکن کہیں نہ کہیں دنیوی مقاصد کو بھی مدّنظر رکھتا ہے یعنی خالصتاً اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتا۔ نیت کی یہ کیفیت طالبانِ عقبیٰ کی ہوتی ہے یعنی ایسا گروہ جن کی عبادات اور تمام تر اعمال کا دارومدار دنیوی و اخروی نعمتوں کا حصول ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اور بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں : اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں ( بھی ) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ (سورۃالبقرہ۔ 201)
نیتِ کَدِرہ:
نیت کی اس حالت میں اعمال و عبادات کی ادائیگی کا تمام تر مقصد دنیوی عزوجاہ، نمود و نمائش، تکبر و انانیت اورمال و دولت کا حصول ہوتا ہے۔ نیت کی یہ کیفیت طالبانِ دنیا کے قلوب کی ہوتی ہے۔ ان لوگوں کا ذکر قرآنِ مجید میں ان الفاظ میں آیا ہے:
ترجمہ: پھر لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں: اے ہمارے ربّ! ہمیں دنیامیں (ہی) عطا کر دے اور ایسے شخص کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔(سورۃالبقرہ ۔200)
حضرت لقمانؓ فرماتے ہیں’’نیک نیتی اور نیک چلن سے مقدر سنورتے ہیں۔‘‘
چنانچہ ہر عمل سے پہلے نیت کا جاننا اور سمجھنا لازم و ملزوم ہے۔نیک نیت سے کیے گئے اعمال و عبادات ہی معرفتِ الٰہی اور قلبی تسکین کا باعث بنتے ہیں کیونکہ بانیت بے عمل کوبا عمل بے نیت پر فوقیت حاصل ہے۔
’’کیمیائے سعادت‘‘ میں درج ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک آدمی کا گزر ریت کے ایک بہت بڑے ٹیلے سے ہوا۔ اس وقت قحط سالی زوروں پر تھی۔ اس نے اپنے دل میں کہا:اے کاش! اس ٹیلے جتنا اناج اگر میرے پاس ہوتا تومیں اسے خلقِ خدا میں بطور خیرات محتاجوں میں بانٹ دیتا۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ فوراً پیغمبرِ وقت پر وحی نازل ہوئی ’’میرے اس بندے سے کہہ دیں کہ تیرا صدقہ ہم نے قبول فرمایا۔‘‘ یعنی اگر واقعی تیرے پاس اتنا اناج ہوتا تو تُو واقعی اسے خیرات کر دیتا تو بھی تجھے اتنا ہی ثواب ملتا جتنا کہ اب محض نیک نیتی پر ملا۔
یہ حدیث صحیحین میں موجود ہے کہ جو شخص گناہ کا ارادہ کرے لیکن عمل نہ کرے تو فرشتوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ گناہ اس کے نامہ اعمال میں نہ لکھیں اور اگر وہ گناہ کر بھی ڈالے تو صرف ایک گناہ اس کے خلاف شمار کیا جائے۔ لیکن (حسنِ نیت سے) نیکی کے ارادے پر ہی ایک نیکی کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے اور اگر نیک عمل کر لے تو ایک نیک عمل کی جگہ دس نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھ دی جاتی ہیں۔
حسنِ نیت کا حصول کیسے ممکن ہے؟
حدیثِ قدسی میں اللہ پاک فرماتا ہے:
میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھامیں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو میں نے اپنی پہچان کی خاطر مخلوق کو پیدا فرمایا۔
جب وہ پاک ذات احدیت سے انسان کو مشتاقِ معرفت کی دعوت دیتی ہے توکیا یہ انسان کا فرض نہیں کہ اس دعوت پر فوراً لبیک کہے۔ کیا اپنے نفس،شیطان اور دنیا کا اس قدر غلام بن گیا ہے کہ اسے حسنِ نیت کی تلاش کی ضرورت ہی نہیں جس سے وہ رحیم و کریم مالکِ حقیقی کی معرفت و قرب حاصل کر سکے۔۔اس سے پیار کر سکے، اس کا خالص بندہ بننے کی کوشش کر سکے۔۔ اگر کسی میں طلب ہی نہیں۔۔۔ اسے چاہیے وہ زیادہ سے زیادہ استغفار کرے کیونکہ اسے پتا بھی نہیں کہ وہ کس قدر غضبِ الٰہی کا شکار ہو چکا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اللہ نے ( ان کے اپنے اِنتخاب کے نتیجے میں ) ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ( پڑ گیا ) ہے اور ان کے لئے سخت عذاب ہے۔ (سورۃ البقرہ۔7)
یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی انسان خود سے اپنے نفس و قلب کو دنیوی اور شیطانی وساوس اور پھندوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ خود سے معرفتِ الٰہی کے حصول کی راہ پر چلنا تو درکنار، اس راہ کو اختیار بھی نہیں کر سکتا۔ لہٰذااعمال و عبادات کو خالص معرفتِ الٰہی کے حصول کے لیے اختیار کرنے کے لیے قلب کو حسنِ نیت سے آراستہ کرنا لازم ہے۔ جس کے لیے سب سے پہلا اور بنیادی کام اپنے آپ کو ایسے شیخِ کامل کے سپرد کرناہے جو باطنی فضائل اور خصائل میں پوری بصیرت و مہارت رکھتا ہو اور شریعت، طریقت، معرفت اور حقیقت کا جامع ہو۔ جس کی نگاہ ایسی کیمیا گر ہو جو سنگِ پارس کی مانند مٹی کو بھی سونا بنا دیتی ہو۔ ایسے کامل اکمل مرشد کی صحبت سے ہی قلب حسنِ نیت سے آراستہ ہو سکتا ہے۔حضرت شہاب الدین عمر ابوحفص سہروردیؒ فرماتے ہیں:
اگر کسی کو نیک نیتی پر عمل کرنے کی توفیق نہ ہو تو وہ ایسے شخص (مرشد کامل اکمل) کی صحبت میں رہے جو اسے حسنِ نیت سکھا دے۔
آپؒ مزید فرماتے ہیں:
معرفتِ الٰہی کی راہ میں مرید کے لیے ابتدائی مرحلے میں یہ بات بہت اہم ہے کہ فقرا کا ملین کی صحبت میں ان کا لباس اختیار کرے اور اللہ کی خوشنودی کے لیے ان کی صحبت میں بیٹھا کرے۔ اور جب وہ روحانیت کی راہ پر چلنے کی ابتدا کرے تو نیت کو پختہ کر لے کیونکہ نیت کے پختہ ہونے سے نفسانی خواہشات سے پاک ہو جاتا ہے اور نفس کے فنا ہو جانے والی لذائذ ترک کرنے سے وہ اللہ کے لیے وقف ہو جاتا ہے۔ (عوارف المعارف)
پس مرید جب حسنِ نیت کو اپنا شعار بنا لیتا ہے تو وہ راہِ طریقت و روحانیت کا مردِمیدان قرار پاتا ہے پھر ایسے مرید کا ہر عمل کھانا پینا، سونا، پہننا الغرض ہر عمل و عبادت صرف خالص اللہ عزّوجل کے لیے ہو جاتا ہے۔
حکایت:
حضرت شیخ سعدیؒ ایک بادشاہ کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ اس نے اپنے مشیروں سے کہا کہ فلاں شخص کی تنخواہ دوگنی کر دو کیونکہ وہ کبھی شاہی دربار سے غیر حاضر نہیں ہوا اور ہر وقت میرے حکم کا منتظر رہتا ہے جبکہ باقی تمام لوگ شاہی دربار میں بھی کھیل تماشوں میں مشغول ہوتے ہیں اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی برتتے ہیں۔ ایک صاحبِ حال شخص نے جب بادشاہ کا یہ فرمان سنا تو ایک نعرہ مستانہ بلند کیا اور وجد میں آگیا لوگوں نے اس شخص سے اس کی کیفیت کے متعلق دریافت کیا کہ اس میں ایسی کیا بات تھی کہ تم سن کر وجد میں آگئے؟
اس شخص نے کہا کہ اللہ عزّوجل کی بارگاہ میں بندوں کا حال بھی یہی ہے اور ہر ایک کا مقام و مرتبہ الگ الگ ہے۔ اگر بندہ خلوصِ نیت سے کچھ دن بادشاہ کی خدمت میں رہے اور اپنے امور کی ادائیگی میں پابندی کا خیال رکھے تو بادشاہ اس پر اتنا مہربان ہو جاتاہے۔ تو اللہ عزّوجل خلوصِ نیت کے ساتھ عبادت کرنے والوں پر کیونکر مہربان نہ ہوگا؟ پس نیک نیتی سے حکم ماننا باعثِ رسوائی نہیں بلکہ عقلمندی کی دلیل ہے اور جو حکم عدولی کرتے ہیں وہ محروم رہتے ہیں۔جس کا نصیب اچھا ہو وہ کبھی حکم عدولی نہیں کرتا اور اپنا سر اَدب سے چوکھٹ پر جھکائے رکھتا ہے۔ (حکایاتِ سعدیؒ)
ہر دور میں بحکمِ الٰہی مرشد کامل اکمل جو کہ نائبِ رسولؐ اور اللہ کا خلیفہ ہو، ضرور موجود ہوتا ہے اور اس کے توسط سے اللہ پاک اپنے احکامات مخلوق پر نافذ فرماتا ہے۔ وہ قدمِ محمدؐ پر فائز اپنے دور کا امام اور فقیر مالک الملکی ہوتا ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس دورِ حاضر کے مجدد اور مرشد کامل اکمل ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس قدمِ محمدؐ پر فائز نائبِ رسولؐ کامل فقیر مالک الملکی ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی فیض بخش نگاہِ کامل کی تاثیر اور پاکیزہ و نورانی صحبت سے طالبوں کے دل کی دنیا ہی بدل جاتی ہے۔ طالبانِ صادق آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت میں ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات سے اپنے قلوب کو خصائلِ رذیلہ سے پاک و صاف کر کے اپنے تمام ظاہری و باطنی اعمال و عبادات کو خالصتاً اللہ پاک کی رضا اور خوشنودی کے لیے ادا کرتے ہوئے معرفتِ الٰہی کی نعمت پا رہے ہیں۔
خوشبو ہے دو عالم میں تیری اے گلِ چیدہ
کس منہ سے بیاں ہوں تیرے اوصافِ حمیدہ
تمام متلاشیانِ حق کو،جو حسنِ نیت کی نعمت سے سرفراز ہونے کے خواہاں ہیں، آفتابِ فقرنورِ ھوُ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں با ادب حاضر ہونے کی دعوتِ خاص دی جاتی ہے۔
استفادہ کتب:
۱۔ سلطان العاشقین: ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
۲۔ کیمیائے سعادت: تصنیف امام غزالیؒ
۳۔ عوارف المعارف: تصنیف شیخ محمدشہاب الدین سہر وردیؒ
۴۔ حکایاتِ سعدیؒ: تصنیف حضرت شیخ سعدی ؒ
خوشبو ہے دو عالم میں تیری اے گلِ چیدہ
کس منہ سے بیاں ہوں تیرے اوصافِ حمیدہ
خوبصورت بلاگ ہے۔ بہت مفید
حدیثِ نبویؐ ہے:
مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔
Very Beautiful ❤️ and Informative Article
Behtreen 👌
تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ (صحیح بخاری۔ 1)
خوشبو ہے دو عالم میں تیری اے گلِ چیدہ
کس منہ سے بیاں ہوں تیرے اوصافِ حمیدہ
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس دورِ حاضر کے مجدد اور مرشد کامل اکمل ہیں۔
Allah mujhe husn niyat ki toufeeq ata farmaye
بہت ہی بہترین مضمون تحریر ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس دورِ حاضر کے مجدد اور مرشد کامل اکمل ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس قدمِ محمدؐ پر فائز نائبِ رسولؐ کامل فقیر مالک الملکی ہیں۔
خوشبو ہے دو عالم میں تیری اے گلِ چیدہ
کس منہ سے بیاں ہوں تیرے اوصافِ حمیدہ
نیک نیتی سے حکم ماننا باعثِ رسوائی نہیں بلکہ عقلمندی کی دلیل ہے اور جو حکم عدولی کرتے ہیں وہ محروم رہتے ہیں۔جس کا نصیب اچھا ہو وہ کبھی حکم عدولی نہیں کرتا اور اپنا سر اَدب سے چوکھٹ پر جھکائے رکھتا ہے۔ (حکایاتِ سعدیؒ)
بہترین لکھا ہے
حضرت سالم بن عبداللہ بن عمرؓ نے حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کو ایک بار لکھا ’’ اے عمرؓ! یہ ذہن نشین رہے کہ اللہ کی مدد بندے کی نیت کے مطابق ہوتی ہے، بندے کی نیت اگر کامل ہے تو اللہ کی مدد بھی کامل ہوتی ہے اور بندے کی نیت میں اگر کوئی قصور یا کوتاہی ہے تو اس کی مدد بھی اسی طرح نامکمل ہو گی۔‘‘ (عوارف المعارف)
تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ (صحیح بخاری۔ 1)
اللّٰه پاک ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
Bohat alla
Niyat k mutaliq bohat Acha article hy Masha Allah ❤️❤️❤️❤️❤️
بہت خوب
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
بے شک اللہ تعالیٰ نہ تمہارے جسموں کو دیکھتا ہے اور نہ ہی تمہاری صورتوں کو بلکہ وہ تمہارے دلوں (اور ان میں موجود نیتوں) کو دیکھتا ہے۔ (صحیح مسلم۔ 6542)