حضرت بایزید بسطامیؒ اور شانِ سلسلہ سروری قادری
Hazrat Bayazid Bastami (ra) Aur Shan Silsila Sarwari Qadri
تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری۔ لاہور
حضرت بایزید بسطامیؒ کا شمار بڑے اولیا اللہ اور مشائخ میں ہوتا ہے ۔ حضرت جنید بغدادیؒ آپ کے بلند اور اعلیٰ مرتبہ کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
بایزید بسطامی ؒ ہم میں ایسے معظم ہیں جیسے جماعتِ ملائکہ میں جبریلِ امین ۔ (کشف المحجوب)
حضرت بایزید بسطامیؒ ایران کے صوبہ قومِس کے شہر بسطام میں زہد و تقویٰ میں مشہور گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کا نام ’’طیفور‘‘ رکھا گیا لیکن دنیائے تصوف میں آپ اپنی کنیت اور نسبت ’’بایزید‘‘ سے مشہور ہوئے ۔آپؒ کے والد بزرگوار شیخ عیسیٰؒ کا شمار بسطام کے عظیم بزرگوں میں ہوتا تھا۔
آپؒ مادر زاد ولی تھے۔ آپ ؒکی کرامات کا ظہور شکمِ مادر ہی میں ہونے لگا تھا۔ آپؒ کی والدہ فرماتی تھیں کہ جس وقت بایزید میرے شکم میں تھا تو اگر کوئی مشتبہ غذا میرے شکم میں چلی جاتی تو اس قدر بے کلی اور بے چینی ہوتی کہ مجھے (وہ غذا) حلق میں انگلی ڈال کر نکالنا پڑتی۔ (سیرتِ بایزیدؒ)
تعلیم و تربیت
آپؒ نے بسطام کے ایک مدرسہ میں تعلیم و تربیت کا آغاز فرمایااور مکتب میں داخل ہوئے۔ ایک دن آپ نے سورۃ لقمان کی یہ آیت پڑھی :
اَنِ اشْکُرْلِیْ وَلِوَالِدَیْکَ (سورۃ لقمان ۔ 14)
ترجمہ: تو میرا (بھی) شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔
آپؒ نے اس آیت کے معنی سنے توآپؒ کا رنگ متغیر ہو گیا ۔ آپؒ گھر تشریف لے گئے اور اپنی والدہ سے عرض کیا کہ مجھ سے دو ہستیوں کا شکر نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا آپ مجھے طلب کر لیں تا کہ میں آپ کا شکر ادا کرتا رہوں یا پھر مجھے خدا کے سپرد کر دیں کہ میں اس کا شکر ادا کرنے میں مشغول ہو جاؤں۔ والدہ نے فرمایا ’’میں اپنے حقوق سے دستبردار ہو کر تجھے خدا کے سپرد کرتی ہوں۔‘‘ اس کے بعد آپؒ شام کی جانب نکل گئے اور وہیں ذکر و اذکار کو جزوِ حیات بنا لیا اور تین سال شام کے میدانوں اور صحراؤں میں گزار دئیے۔ آپؒ ایک سو ستر مشائخ سے بھی نیاز حاصل کر کے ان کے فیوض سے سیراب ہوئے ۔ (تذکرۃ الاولیا )
احترامِ استاد
منزلِ مقصود تک پہنچنے کی کنجی استاد کا ادب اور احترام ہے جیسا کہ کہا گیا ہے ’’باادب با نصیب، بے ادب بے نصیب۔‘‘ حضرت با یزید بسطامیؒ کی زندگی سے بھی ہمیں استاد کے ادب اور احترام کا درس ملتا ہے۔ ایک مرتبہ آپؒ اپنے محترم استاد حضرت امام جعفر صادقؓ کی خدمت میں تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ بایزید فلاں طاق میں جو کتاب رکھی ہے وہ اٹھا لاؤ۔ آپؒ نے پوچھا وہ طاق کس جگہ ہے؟ امام جعفرؓ نے فرمایا اتنا عرصہ رہنے کے باوجود بھی تم نے طاق نہیں دیکھا؟ آپؒ نے عرض کیا ’’طاق توکجا میں نے تو آپ کے روبرو کبھی سر بھی نہیں اُٹھایا۔ یعنی ادھر ادھر کبھی دیکھا ہی نہیں۔‘‘ استاد امام جعفر صادقؓ نے یہ سنا تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا ’’اگر حالت یہ ہے تو تم بسطام واپس جا سکتے ہو کیونکہ تمہارا تحصیل و عرفان کا کام مکمل ہو چکا ہے۔‘‘ (تذکرۃ الاولیا)
والدہ کی خدمت
والدین کی خدمت بلاشبہ عبادت ہے۔ فرمانِ رسولؐ کے مطابق ’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔‘‘ حضرت بایزید بسطامیؒ خود فرماتے ہیں:
میں جو کچھ اپنی تمام ریاضتوں، مجاہدوں، خدمت اور پردیس میں تلاش کرتا رہا وہ سب کچھ مجھے ماں کی خدمت میں مل گیا۔ (سیرتِ بایزیدؒ)
ماں کی خدمت کے متعلق حضرت بایزید بسطامیؒ کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے۔ فرماتے ہیں :
ایک رات میری والدہ نے مجھ سے پانی طلب کیا۔ میں نے پانی تلاش کیا، صراحی میں دیکھا تو پانی نہیں تھا لہٰذا دوڑتا ہوا ندی پر گیا اور وہاں سے پانی لے کر آیا۔ اسی آمدورفت کی تاخیر کی وجہ سے والدہ کو پھر نیند آ گئی اور میں رات بھر پانی لئے کھڑا رہا حتیٰ کہ شدید سردی کی وجہ سے وہ پانی پیالہ میں منجمد ہو گیا اور جب والدہ کی بیداری کے بعد پانی پیش کیا تو انہوں نے فرمایا ’’تم نے پانی رکھ دیا ہوتا، اتنی دیر کھڑے رہنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’محض اس خوف سے کھڑا رہا کہ مبادا آپ بیدا رہو کر پانی نہ پی سکیں اور آپ کو تکلیف پہنچے۔‘‘یہ سن کر انہوں نے مجھے بہت دعائیں دیں۔ (سیرتِ بایزیدؒ)
ریاضات اور مجاہدات
راہِ تصوف میں ریاضات اور مجاہدات کا مقصد تزکیۂ نفس ہے۔ درحقیقت اپنے نفس اور دل کی اصلاح اور پاکیزگی کے بغیر سلوک کی راہ طے نہیں ہوتی۔ اسی لیے صوفیا کرام نے مجاہدات کے ذریعہ تزکیۂ نفس کو ضروری قرار دیا ہے۔ تزکیۂ نفس کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی ( سورۃ الاعلیٰ ۔14)
ترجمہ: بیشک وہی با مراد ہوا جو ( نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہو گیا۔
ایک دفعہ حضرت بایزید بسطامیؒ نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا :
یا اللہ !تجھ تک آنے کا طریقہ کونسا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
’’اپنے نفس کو چھوڑ دو اور (اللہ کی طرف ) آجاؤ۔‘‘ (سلطان الوَھم)
حضرت بایزیدؒ کو نفس سے اس قدر مخاصمت ہو گئی تھی کہ فرمایاکرتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے اگلے جہان میں فرمائے کہ کوئی آرزوہے تو بیان کرو، تومیں عرض کروں گا ’’پالنے والے مجھے اجازت دیجئے تاکہ میں دوزخ میں جاؤں اور اس نفس کو اس (دوزخ کی) آگ میں ایک غوطہ دے آؤں کیونکہ اس کی وجہ سے مجھے دنیا میں بہت سی مصیبتیں اٹھانی پڑی ہیں۔‘‘ (شرح تعرف)
حضرت بایزید بسطامیؒ سے ان کے مجاہدات کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:
جو مجاہدات میں نے کئے ہیں اگر بیان کروں تو اس کے سننے کی تاب نہ لا سکو گے۔ بہرحال ایک معمولی سا مجاہدہ بیان کئے دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ آدھی رات کومیرے دل میں آیا کہ باقی رات یادِ الٰہی میں جاگوں گا۔ میرے نفس نے مخالفت کی۔ اس پر میں نے قسم کھائی کہ اے نفس! تو نے مجھے دھوکہ دیا اور عبادت میں میرا یار نہیں ہوا۔ تیری سزا یہ ہے کہ تجھے ایک سال تک پانی نہ دوں گا۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور سال برابر پانی نہ پیا ۔(تذکرۃ الاولیا)
حضرت سیدّ علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ فرماتے ہیں کہ حضرت بایزید بسطامیؒ سے لوگوں نے پوچھا کہ ولی کون ہوتا ہے؟ آپؒ نے نہایت جامع اور بلیغ انداز میں جواب دیا ’’سچا ولی وہ ہوتا ہے جو نفس کا بندہ نہ ہو اور صبر و تحمل کے ساتھ خدا کے اوامر و نواہی کی تعمیل کرے۔‘‘ (کشف المحجوب )
حضرت بایزید بسطامیؒ مجاہدۂ نفس کے متعلق فرمایا کرتے کہ میں نے بارہ سال تک نفس کو ریاضت کی بھٹی میں ڈال کر مجاہدے کی آگ سے تپایا اور ملامت کے ہتھوڑے سے کوٹتا رہا جس کے بعد میرا نفس آئینہ بن گیا۔ پھر پانچ سال مختلف قسم کی عبادات سے اس پر قلعی چڑھاتا رہا۔ پھر ایک سال تک جب میں نے خود اعتمادی کی نظر سے اس کا مشاہدہ کیا تو اس میں تکبر و خود پسندی کا مادہ موجود پایا۔ چنانچہ پھر پانچ سال تک سعی بسیار کے بعد اس کو مسلمان بنایااور جب اس میں خلائق کا نظارہ کیا تو سب کو مردہ دیکھا اور نمازِ جنازہ پڑھ کران سے اس طرح کنارہ کش ہو گیا جس طرح لوگ نمازِ جنازہ پڑھ کر قیامت تک کے لیے مردے سے جدا ہو جاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد مجھے اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا مرتبہ حاصل ہو گیا۔ (تدبر اولیا جوہرِ دین)
نفس کی معرفت کے متعلق آپؒ فرماتے ہیں ’’نفس کی معرفت یہ ہے کہ ہمیشہ نفس سے بد ظن رہے۔ کبھی اس سے حسنِ ظن نہ رکھے۔‘‘ (تدبر اولیا جوہر دین)
آپؒ فرماتے ہیں انسانی خواہشات کو چھوڑ دینا درحقیقت واصل اِلی اللہ ہو جانا ہے اور جو واصل اِلی اللہ ہو جاتا ہے مخلوق اس کی فرمانبردار ہو جاتی ہے۔ (تدبر اولیا جوہر دین)
نقل ہے کہ حضرت بایزید بسطامیؒ ہمیشہ دن میں روزہ رکھتے اور رات نماز میں گزارتے تھے۔ ایک دن حضرت بایزید بسطامیؒ کو نماز میں خطرات لاحق ہوئے۔ انہوں نے خادموں سے کہا ’’اے دوستو! گھر کی تلاشی لو مجھے لگتا ہے کہ میرے گھر میں دنیا داخل ہو گئی ہے۔‘‘ خدام نے قسم کھا کر کہا ’’اے سلطانؒ! ہم نے بارہ سال سے اس گھر میں دنیا کے مال کی شکل نہیں دیکھی اور نہ ہی پیٹ بھر کر کوئی لذیذ کھانا کھایا ہے۔‘‘ سلطان ؒ نے فرمایا ’’مجھے خطرے کا احساس بلاوجہ نہیں ہوا۔‘‘ یہ سن کر ملازموں نے سارے گھر میں جھاڑو دیا تو پلنگ کے نیچے ایک کھجور ملی۔ جب وہ اس کھجور کو سلطان بایزید بسطامیؒ کے پاس لے کر گئے تو انہوں نے فرمایا ’’اگر کسی کے گھر میں اس قدر مال و متاع بھی موجود ہو تو وہ ( فقیر کا نہیں بلکہ) کسی سوداگر کا گھر ہوتا ہے۔‘‘ ( عین الفقر)
بھوک
آپ ؒ سے سوال کیا گیا کہ آپ بھوکا رہنے کی تعریف کیوں کرتے ہیں؟ فرمایا کہ اگر فرعون فاقہ کشی کرتا تو ’’میں تمہارا ربّ ہوں‘‘ کہہ کر خدائی کا دعویدار نہ ہوتا۔ (تدبر اولیا جوہر دین)
شریعت
حضرت بایزید بسطامیؒ شعائرِالٰہی کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور انہیں شریعت کا بے حد ادب و احترام ملحوظِ خاطر رہتا تھا۔ حضرت سیدّ علی ہجویریؒ کشف المحجوب میں تحریر فرماتے ہیں:
حضرت با یزیدؒ تمام حالات میں علم دوست اور علما و فقرا کی تعظیم کرنے والے ہوئے ہیں۔ بخلاف اس مردود گروہ کے کہ جنہوں نے بسبب الحاد، شریعت کے خلاف جدوجہد کو اپنا موضوع بنا لیاتھا۔
حضرت داتا گنج بخشؒ مزید فرماتے ہیں حضرت بایزید بسطامیؒ ان بزرگوں میں سے تھے جو ہمیشہ صاحبِ مجاہدہ اور محوِمشاہدہ رہا کرتے تھے اور غلبۂ عشقِ الٰہی میں مدہوش اور مغلوب رہتے تھے۔ البتہ جب نماز کا وقت آتا تو ہوش میں آ جاتے تھے لیکن نماز پڑ ھ لیتے تو پھر مغلوب ہو جاتے تھے۔ (کشف المحجوب )
دیدارِ الٰہی
دیدارِ الٰہی کے متعلق آپؒ نے فرمایا ’’میں نے اللہ کو اللہ کے ذریعہ دیکھا اور اس کی حقیقت میں گم ہو کر گونگا، بہرہ اور جاہل بن گیا اور نفس کی بربریت کو درمیان سے فنا کر کے ایک عرصہ وہاں قیام کیا، پھر خدا نے مجھے علومِ ازلی سے آگاہ فرما کر زبان کو اپنے کرم سے گویائی اور آنکھوں کو اپنے نور سے نور عطا کیا۔‘‘ (تذکرۃ الاولیا)
حضرت سلطان بایزید بسطامیؒ نے فرمایا ’’میں تیس سال اللہ تعالیٰ سے ہمکلام رہا اور مخلوق یہی سمجھتی رہی کہ میں ان سے ہمکلام ہوں۔‘‘ (عقلِ بیدار )
سلسلہ سروری قادری کی فضیلت
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حضرت با یزید بسطامیؒ تصوف میں یکتا مقام رکھتے ہیں۔ آپؒ سے احادیثِ نبویؐ میں بہت سی روایات منقول ہیں۔ آپؒ کے اوصاف، مجاہدۂ نفس اور آپؒ کی ریاضتوں کے احوال سالک کے لیے مشعلِ راہ ہیں لیکن قارئین کو یہاں یہ بات بتانا مقصود ہے کہ ایک سلسلہ ایسا موجود ہے جس میں طالبِ فقر مرشد کامل اکمل کے وسیلہ سے ابتداہی میں حضرت بایزید بسطامیؒ کے روحانی مراتب پر پہنچ جاتا ہے جیسا کہ حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :
طالبِ فقر ابتدا میں ہی حضرت بی بی رابعہ بصری ؒ اور حضرت بایزید بسطامیؒ کے منصب پر فائز ہوتا ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
این توجہ تیغ سر را میبرید
بہ از توجہ رابعہؒ و از بایزیدؒ
ترجمہ: میری توجہ رابعہ بصریؒ اور بایزید بسطامیؒ کی توجہ سے بہتر اور تیز تلوار کی مانند ہے جو دشمنوں کی گردنیں اڑا دیتی ہے ۔ (نور الہدیٰ کلاں )
حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات کے مطابق وہ سلسلہ ’’قادری‘‘ ہے۔ تمام سلاسلِ تصوف میں سلسلہ قادری کوسب سے اعلیٰ درجہ حاصل ہے۔ آپؒ قادری سلسلہ کی دو شاخوں کا ذکر فرماتے ہیں: سروری قادری اور زاہدی قادری۔ آپؒ سروری قادری ہیں اور سروری قادری کو ہی کامل قادری یا اصل قادری سلسلہ تسلیم کرتے ہیں۔ آپؒ فرماتے ہیں :
جان لے کہ طریقہ قادری بادشاہ ہے اور دیگر تمام طریقے اس کی رعیت ہیں یا مثل فرمانبردار اس کے حکم کے تحت ہیں۔ طریقت اور سلوک کی ہر راہ کی پیشوا ریاضت ہے لیکن کامل قادری راہ میں روزِ اوّل ہی دیدار و حضوریٔ انوار اور قربِ الٰہی کا شرف ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں )
جان لے دیگر ہر طریقے میں رنج کشی کی آفات ہیں لیکن طریقہ قادری میں طالب کو پہلے ہی روز تصور اسمِ اللہ ذات کے ذریعہ فنا فی اللہ کا مرتبہ حاصل ہو جاتا ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں )
ابتدائے قادری را شد لقا
انتہائے قادری با مصطفیؐ
ترجمہ: قادری سلسلہ کی ابتدا دیدارِ الٰہی ہے اور انتہا مجلسِ محمدیؐ کی حضوری ہے ۔ (نور الہدیٰ کلاں )
مرشد کامل وہ ہے جو پہلے ہی روز طالب کو تصور اسمِ اللہ ذات سے مرتبۂ نور فی اللہ میں غرق کر کے دیدارِ الٰہی اور حضوری سے مشرف کر دیتا ہے تاکہ اسے ریاضت، خلوت اور چلہ کشی کی ضرورت نہ رہے۔ (قربِ دیدار)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس اپنی تصنیفِ مبارکہ ’’شمس الفقرا‘‘ میں سلسلہ سروری قادری کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
سلسلہ سروری قادری میں رنج و ریاضت، چلہ کشی، حبسِ دم، ابتدائی سلوک اور ذکر فکر کی اُلجھنیں ہرگز نہیں ہیں۔ یہ سلسلہ ظاہری درویشانہ لباس اور رنگ و ڈھنگ سے پاک ہے اور ہر قسم کے مشائخانہ طور طریقوں مثلاً عصا، تسبیح، جبہَّ و دستار وغیرہ سے بیزار ہے۔ اس سلسلہ کی خصوصیت یہ ہے کہ مرشد پہلے ہی روز سلطان الاذکار ھوُ کا ذکر، تصور اسمِ اللہ ذات اور مشق مرقومِ وجودیہ عطا کر کے طالب کو انتہا پر پہنچا دیتا ہے۔ جبکہ دوسرے سلاسل میں یہ سب کچھ نہیں ہے۔ (شمس الفقرا)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمانِ عالیشان ہے:
نفس کی اصلاح کرنا زاہدوں کا کام ہے اور قلب کی اصلاح کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف راغب ہونے والوں کا کام ہے اور روح کی اصلاح کرنا عارفین کا کام ہے۔
طالبِ مولیٰ کے اوصاف
جیسا کہ بیان کیا گیا ہے سلسلہ سروری قادری کی یہ شان ہے کہ مرشد کامل اپنی نگاہِ کامل اور تصور اسمِ اللہ ذات کی برکت سے طالب کو ابتدا میں ہی حضرت بایزید بسطامیؒ اور حضرت رابعہ بصریؒ کے مرتبہ پر پہنچا دیتا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتانا اہم ہے کہ مرشد اور مرید کے رشتہ میں جہاں مرشد کا کامل ہونا ضروری ہے اسی طرح طالب کا بھی طلبِ مولیٰ میں پختہ ہونا، مرشد کے ساتھ باوفا رہنا اور اخلاص رکھنا ناگزیر ہے۔ وہی طالبِ مولیٰ ظاہری و باطنی روحانی مراتب سے ہمکنار ہوتا ہے جو عشقِ حقیقی میں اپنا تن من دھن سب قربان کر دینے کا جذبہ رکھتا ہے۔ دنیا اور نفسانی خواہشات میں مبتلا طالب کبھی اپنی حقیقی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ اگر مرشد کامل کو سچا طالبِ مولیٰ مل جائے تو اس کے لیے اسے حضرت بایزید بسطامیؒ جیسے جلیل القدر ولی اللہ کے روحانی مراتب تک پہنچانا کچھ مشکل نہیں ہوتا۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ اپنی تصنیفِ مبارکہ ’’عین الفقر ‘‘ میں طالبِ مولیٰ کے اوصاف بیان فرماتے ہیں:
مولیٰ کے چار حروف ہیں، ان چاروں حروف کی تاثیر سے طالبِ مولیٰ میں چار اوصاف پائے جاتے ہیں۔ حرف ’م‘ سے طالبِ مولیٰ اپنے نفس کو اس کی مراد اور لذت نہیں پہنچاتا اور معرفت میں محو رہتا ہے۔ حرف ’و‘ سے طالبِ مولیٰ وحدانیت میں غرق رہتا ہے۔ حرف ’ل‘ سے دنیا مردار کے تعلقات کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے دیدار کے لائق بنتا ہے۔ حرف ’ی‘ سے یادِ حق میں اس قدر محو رہتا ہے کہ اسے دوست (اللہ) کے سوانہ مال یاد رہتا ہے نہ اولاد اور نہ ہی اپنا آپ۔ (عین الفقر)
حاصلِ تحریر:
آج کل کے مادہ پرست دور میں لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں اور نہ ہی ہمت ہے کہ وہ نفسانی بیماریوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے محنت، ریاضت اور سخت مجاہدات کریں اور ورد و وظائف میں مصروف رہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ کی تعلیمات کے مطابق تزکیۂ نفس کے لیے بہترین اور آسان ترین طریقہ ذکر اور تصور اسمِ اللہ ذات ہے۔ سلسلہ سروری قادری میں طالبِ فقر مرشد کامل اکمل کی نگاہِ فیض سے ابتدا میں ہی حضرت بایزید بسطامیؒ کے مراتب کو پا لیتاہے ۔ یہ اللہ کا فضل ہے کہ اس نے فقرائے کاملین کے وسیلہ سے سلوک کی راہ کو ریاضات، مجاہدات اور چلہ کشی سے نکال کر طالبِ مولیٰ کے لیے آسان بنا دیا ہے۔ مرشد کامل اکمل کے دستِ اقدس پر بیعت ہو کر طالبِ مولیٰ باطن کے اعلیٰ اور بلند روحانی مراتب کو پا سکتا ہے بشرطیکہ اس کا مرشد کامل ہو اور طالب بھی طلبِ مولیٰ میں پختہ ہو۔ موجودہ دور کے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس طالبِ مولیٰ کو بیعت کے پہلے روز ہی ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات عطا فرما دیتے ہیں جس سے وہ تزکیۂ نفس کے مراحل کو طے کر کے قرب اور وصالِ الٰہی سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ معرفتِ حق تعالیٰ کے طلبگاروں کے لیے خانقاہ سلطان العاشقین کے دروازے ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں۔
استفادہ کتب :
۱۔شمس الفقرا: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔ سلطان العاشقین: ناشر سلطا ن الفقر پبلیکیشنز
۳۔ نور الہدیٰ کلاں : تصنیفِ لطیف حضر ت سخی سلطان باھوؒ
۴۔ عین الفقر: ایضاً
۵۔ قربِ دیدار: ایضاً
۶۔ سلطان الوَھم : ایضاً
۷۔ تذکرۃ الاولیا: ناشر الفاروق بک فاؤنڈیشن
۸۔ سیرتِ با یزید: ناشرسنگِ میل پبلیکیشنز ، لاہور
۹۔ کشف المحجوب: تصنیفِ لطیف حضرت سیدّ علی بن عثمان ہجویریؒ
۱۰۔ تدبر اولیا جوہرِ دین: تصنیف سجاد مسعود قریشی
A very inspirational blig
Very Beautiful ❤️ and Informative Article
حضرت سخی سلطان باھوؒ کی تعلیمات کے مطابق تزکیۂ نفس کے لیے بہترین اور آسان ترین طریقہ ذکر اور تصور اسمِ اللہ ذات ہے۔
بہترین آرٹیکل ❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
ماشاءاللہ بہت ہی بہترین مضمون تحریر کیا ہے۔
بہت ہی عمدہ تحریر ہے
حضرت سلطان بایزید بسطامیؒ نے فرمایا ’’میں تیس سال اللہ تعالیٰ سے ہمکلام رہا اور مخلوق یہی سمجھتی رہی کہ میں ان سے ہمکلام ہوں۔‘‘ (عقلِ بیدار )
موجودہ دور کے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس طالبِ مولیٰ کو بیعت کے پہلے روز ہی ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات عطا فرما دیتے ہیں جس سے وہ تزکیۂ نفس کے مراحل کو طے کر کے قرب اور وصالِ الٰہی سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمانِ عالیشان ہے:
نفس کی اصلاح کرنا زاہدوں کا کام ہے اور قلب کی اصلاح کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف راغب ہونے والوں کا کام ہے اور روح کی اصلاح کرنا عارفین کا کام ہے۔
بہت بہترین مضمون ہے
بہترین
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمانِ عالیشان ہے:
نفس کی اصلاح کرنا زاہدوں کا کام ہے اور قلب کی اصلاح کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف راغب ہونے والوں کا کام ہے اور روح کی اصلاح کرنا عارفین کا کام ہے۔
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی ( سورۃ الاعلیٰ ۔14)
ترجمہ: بیشک وہی با مراد ہوا جو ( نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہو گیا۔
Behtreen
وہی طالبِ مولیٰ ظاہری و باطنی روحانی مراتب سے ہمکنار ہوتا ہے جو عشقِ حقیقی میں اپنا تن من دھن سب قربان کر دینے کا جذبہ رکھتا ہے۔
بہترین
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمانِ عالیشان ہے:
نفس کی اصلاح کرنا زاہدوں کا کام ہے اور قلب کی اصلاح کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف راغب ہونے والوں کا کام ہے اور روح کی اصلاح کرنا عارفین کا کام ہے۔
Behtareen
Great 👍
Great article
بہترین آرٹیکل ہے
یہ اللہ کا فضل ہے کہ اس نے فقرائے کاملین کے وسیلہ سے سلوک کی راہ کو ریاضات، مجاہدات اور چلہ کشی سے نکال کر طالبِ مولیٰ کے لیے آسان بنا دیا ہے
😍