ایصالِ ثواب کی ضرورت Esaal-e-Sawab Ki Zrorat


4.9/5 - (39 votes)

ایصالِ ثواب کی ضرورت۔  Esaal-e-Sawab Ki Zrorat

تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

انسان اپنی تمام زندگی جدوجہد میں گزار دیتا ہے، دنیوی زندگی کو بہتر بناتے، اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضرورتوں کو پورا کرتے کب موت کا وقت آپہنچتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا۔ وقتِ نزع انسان اپنے زندگی بھر کے اعمال کی طرف توجہ کرتا ہے اگر تو اس نے دنیوی زندگی کے ساتھ ساتھ اُخروی زندگی کے لیے بھی تیاری کی ہو اور اپنی عاقبت بہتر بنانے کے لیے اچھے اور نیک اعمال آگے بھیجے ہوں تو نہ صرف موت کا مرحلہ آسان ہو جاتا ہے بلکہ قبر کی منزل بھی جنت کا نمونہ بن جاتی ہے۔ ایسا شخص نہ صرف اپنے لیے آسانی پیدا کر چکا ہوتا ہے بلکہ اپنی اولاد کے لیے بھی نفع بخش ثابت ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا:
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان میں ان کی پیروی کی، ہم ان کی اولاد کو بھی اُن کے ساتھ ملا دیں گے (خواہ ان کے اپنے اعمال اس درجہ کے نہ ہوں) اور ہم اُن کے ثوابِ اعمال میں کچھ کمی نہ کریں گے۔ (سورۃ طور۔21)

یعنی اگر دنیا سے رخصت ہونے والے کسی شخص نے اللہ کو راضی کرنے کے لیے نیک اعمال کیے ہوں گے، اولاد کی بھی اچھی تربیت کی ہوگی، اولاد اگر والدین کی پیروی میں ان کے درجہ کو نہ بھی پہنچ سکے لیکن والدین کے صالح اعمال کی وجہ سے اولاد کو بھی اللہ تعالیٰ والدین کے درجہ پر پہنچا دے گا۔

تاہم جس نے آخرت کے لیے کوئی تیاری نہ کی ہوگی جو اس کی بخشش کا سامان کر سکے تو سوائے پشیمانی کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ اگر اس کی کوئی مدد کر سکتا تھا تو وہ اس کے اپنے نیک اعمال تھے جو وہ دنیا میں رضائے ربّ کی خاطر انجام دے سکتا تھا۔ اسی لیے دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیا گیاہے۔ ذراسوچئے !اگر کوئی اس کھیتی میں کاشتکاری ہی نہ کرے، بیج ہی نہ بوئے تو فصل کیا کاٹے گا؟ جس نے دنیا کی زندگی میں آخرت کے لیے کچھ تیاری ہی نہ کی ہوگی توآخرت میں کیا اجر پائے گا؟ 

تاہم نیک اعمال نہ ہونے کی صورت میں مرنے کے بعد اگر کوئی اس کے لیے مددگار ہو سکتا ہے تو وہ نیک اولاد ہے جو اپنے مرحوم والدین کے لیے دعا کریں، عبادات کا ثواب ایصال کریں یا ان کے مغفرت کے لیے کوئی ایسا فلاحی کام کر دیں جو مرحوم والدین کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے اور اس کے سبب مرحومین کی عاقبت بخیر ہو سکے۔

ایصال سے مرادہے پہنچانا۔اگر فوت شدگان قبر میں عذاب سے دوچار ہوں تو پسماندگان اور ورثا کے نیک اعمال کی وجہ سے ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے اور اگر وہ پہلے سے ہی اچھے حال میں ہوں تو ان کے درجات میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ 

نیک اولاد ۔۔صدقۂ جاریہ

انسان کی نیک اولاد اس کے لیے صدقۂ جاریہ ہے۔ اولاد کی اگر نیک تربیت کی جائے، اسے خیر و شر کی تمیز سکھائی جائے، حق و باطل میں فرق کرنا سکھایا جائے، اخلاقِ حسنہ سکھائے جائیں، بری خصلتوں اور نفسانی برائیوں کے نتائج سے خبردار کرتے ہوئے ان سے بچنے کی تلقین کی جائے، شیطان کی پیروی سے روکا جائے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکی تاکید کی جائے، آباؤ اجداد کی قبور کی زیارت کے لیے لے جایا جائے تو ایسی اولاد والدین کے فوت ہونے کے بعد ان کے لیے دعا بھی کرتی ہے اور ان کے ایصالِ ثواب کے لیے نیک اعمال بھی ہدیہ کرتی ہے۔قرآنِ پاک میں بھی فوت شدگان کے لیے دعا کرنے کی تلقین کی گئی۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۔  (سورۃ ابراہیم41)
ترجمہ: اے ہمارے ربّ مجھے بخش دے اور میرے والدین کو (بھی بخش دے) اور دیگر سب مومنوں کو بھی جس دن حساب قائم ہوگا۔ 

ایصالِ ثواب کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ السلام کی کثیر احادیث بھی مروی ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:جب اللہ تعالیٰ کسی نیک بندے کا جنت میں درجہ بلند کرے گا تو وہ پوچھے گا اے میرے ربّ! یہ درجہ میرے لیے کہاں سے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تیرے بیٹے نے تمہارے حق میں مغفرت کی دعا کی ہے۔ (مسند احمد بن حنبلؒ 10618)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے ایک اور حدیث مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا ذاتی عمل اس سے منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین کے۔ صدقۂ جاریہ، ایسا علم جس سے نفع حاصل کیا جائے اور نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرتا رہے۔ (صحیح مسلم 4223)

اس کے برعکس اگر پسماندگان میں نیک اولاد نہ ہو تو اولاد کی بداعمالیوں کی وجہ سے فوت شدگان کو سزا بھی مل سکتی ہے یا پھر وہ اللہ کی بارگاہ میں اپنی اولاد کے برے اعمال کے باعث شرمندہ ہوتے ہیں اور اپنی اولاد کے حق میں بارگاہِ الٰہی میں دعاگو رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں راہِ راست پر لے آئے۔

حضرت اَنس رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ بیشک تمہارے اعمال تمہارے رشتہ دار اور خاندان کے مرُدوں پر پیش کیے جاتے ہیں۔ اگر یہ اچھے ہوں تو انہیں خوشی ہوتی ہے اگر برعکس ہوں تو وہ کہتے ہیں اے اللہ! انہیں اس وقت تک موت نہ دے حتیٰ کہ انہیں ہدایت دے جیسے ہمیں ہدایت دی ہے۔ (مسند احمد بن حنبلؒ 12713)

نیک اولاد اپنے والدین کے لیے آخرت میں کس طرح عذاب میں تخفیف، درجات کی بلندی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث بن سکتی ہے؟ ذیل میں کچھ ایسے اعمال بیان کیے جا رہے ہیں جن کے ایصالِ ثواب پرنیک اولاد والدین کے لیے صدقۂ جاریہ بن سکتی ہے۔

نیک اعمال و عبادات کا ثواب

فرض عبادات اور فرض صدقات کے علاوہ نیک اولاد اگر نفلی عبادات کرے یا نفلی صدقہ دے اور اس کا ثواب اپنے مرحوم والدین کو ہدیہ کر دے تو یہ ان کے لیے آخرت میں درجات کی بلندی کا باعث بنتا ہے۔ 

حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا جب کوئی شخص نفلی صدقہ کرے اور اس کو اپنے والدین کی طرف کر دے تو اس کے والدین کو اس کا اجر ملتا ہے اور اس کے اجر سے بھی کچھ کمی نہیں ہوتی۔ (شرح الصدور)

فوت شدگان کی طرف سے روزے

اکثر لوگ علالت میں یا زندگی کے آخری ایام میں فرض روزے نہیں رکھ پاتے اور کسی وجہ سے ان روزوں کا فدیہ بھی ادا نہیں کرپاتے تو ایسی صورت میں اولاد اپنے والدین کی طرف سے روزے بھی رکھ سکتی ہے اور ان کی طرف سے ان کے چھوڑے گئے روزے شمار کر کے ان کا فدیہ بھی دے سکتی ہے اور خود روزے رکھ کر اس کا ثواب مرحومین کو ہدیہ بھی کر سکتی ہے۔ اس سے ان کے اپنے اجر میں کچھ کمی نہ ہوگی۔

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور اس نے عرض کی کہ میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور اس کے ذمہ ایک ماہ کے روزے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اگر اس پر قرضہ ہوتا تو کیا تم ادا کرتیں؟ اس نے کہا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا قرض ادائیگی کا زیادہ حقدار ہے۔ (صحیح مسلم 2693 )

فوت شدگان کی طرف سے عمرہ و حج

حج ہر صاحبِ حیثیت مرد و عورت مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے۔ تاہم اکثر لوگ زندگی کے جھمیلوں اور مصروفیات میں الجھے رہتے ہیں اور مالی حیثیت رکھنے کے باوجود حج کا فریضہ ادا نہیں کرتے یا حج کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن فوت ہو جانے کی وجہ سے ارادے کی تکمیل نہیں ہو پاتی یا پھر زندگی میں انسان صاحبِ حیثیت نہ ہو سکا اور بعد میں اولاد اس قابل ہو جائے کہ عمرہ و حج کر سکے تو وہ اپنے والدین کی طرف سے بھی حج یا عمرہ کی ادائیگی سے انہیں ایصالِ ثواب کر سکتے ہیں۔

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس جہینہ کی ایک عورت آئی اور اس نے کہا کہ میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی لیکن وہ حج کرنے سے پہلے ہی فوت ہو گئی، کیا میں ان کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہاں اس کی طرف سے حج کرو۔ یہ بتاؤ کہ اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تم ادا کرتی؟ اس عورت نے کہا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا پھر اللہ کا قرض ادا کرو کیونکہ وہ ادا کیے جانے کا زیادہ حقدار ہے۔ (صحیح بخاری 1852)

فوت شدگان کی طرف سے قربانی

مسلمان ہر سال سنتِ ابراہیمی کی اتباع میں عید الاضحی کے بابرکت موقع پر جانور قربان کرتے ہیں۔ یہ قربانی ہر صاحبِ حیثیت مسلمان پر فرض ہے اور اس کا بہت زیادہ اجر بھی ہے۔ تاہم والدین یا عزیز و اقارب کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ان کے ایصالِ ثواب کی نیت سے ان کی طرف سے بھی قربانی کی جا سکتی ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب قربانی کرنا چاہتے تو دو بڑے موٹے تازے مینڈھے خریدتے، ایک اپنی امت کی طرف سے ذبح فرماتے یعنی امت کے ہر اس فرد کی طرف سے جو اللہ کی توحید کی گواہی دیتا ہو اور نبیؐ کے پیغام پہنچانے کی گواہی دیتا ہو اور دوسرا محمدؐ کی طرف سے اور آلِ محمدؐ کی طرف سے۔ (سنن ابنِ ماجہ 3122)

فوت شدگان کی طرف سے نفلی صدقہ

فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کے لیے کوئی بھی چیز صدقہ کی جا سکتی ہے جیسے کپڑے، کھانے پینے کی اشیا، روز مرہ ضروریاتِ زندگی یا نقد رقم سے کسی کی مشکل دور کر دینا وغیرہ۔ اس کے علاوہ اگر کسی فوت شدہ کی طرف سے زکوٰۃ بھی واجب الادا ہو تو وہ بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ 

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہؓ کی والدہ فوت ہو گئیں، انہوں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہؐ! اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں توکیا ان کو نفع پہنچے گا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہاں۔حضرت سعد نے کہا ’’میں آپ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے اپنا پھلوں والا باغ اپنی والدہ کی طرف سے صدقہ کر دیا۔‘‘ (صحیح بخاری 2770)

فوت شدگان کے لیے دعائے خیر

مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ فوت شدگان کے لیے دعائے خیر کرتے رہیں۔ آج کل ایک نظریہ بہت تیزی سے رواج پا رہا ہے کہ نہ تو دفن کرنے سے پہلے میت کے سرہانے کلمات یا قرآن پڑھا جاتا ہے اور نہ دفنانے کے بعد۔ اس پر مستزاد یہ کہ بعد میں بھی قرآن خوانی یا ایصالِ ثواب کے لیے کیے جانے والے اعمال کو بدعت قرار دے دیا جاتا ہے جبکہ فوت شدگان اپنے پیچھے رہ جانے والوں کی طرف سے دعا اور ایصالِ ثواب کے شدت سے منتظر رہتے ہیں۔ زندگی بھر جن لوگوں نے ہر مشکل میں ساتھ نبھایا ہو تو لازم ہے کہ ان پیاروں کے فوت ہو جانے کے بعد ان کی محبت کا حق ادا کیا جائے اور ان کی مغفرت اور درجات میں بلندی کے لیے دعا کرتے رہیں۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ قبر میں میت کی مثال ڈوبنے والے اور فریاد کرنے والے کی طرح ہے جو اپنے ماں باپ، بھائی یا دوست کی دعا کا منتظر رہتا ہے۔جب اسے دعا پہنچتی ہے تو اسے دنیا جہاں کی ہر چیز سے محبوب ہوتی ہے۔ بیشک اہلِ دنیا کی دعا سے اللہ تعالیٰ اہلِ قبور کو پہاڑوںکے برابر اجر عطا فرماتا ہے۔ مردوں کے لیے زندوں کا بہترین تحفہ ان کے لیے استغفار اور صدقہ کرنا ہے۔ (دیلمی)

حضرت اَنس رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جب اہلِ خانہ میں کوئی اپنے فوت شدہ عزیز کے لیے صدقہ و خیرات کر کے ایصالِ ثواب کرتا ہے تو اس کے اس ثواب کا تحفہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک خوبصورت تھال میں رکھ کر اس قبر والے کے سرہانے جا کر پیش کرتے ہیں کہ تیرے فلاں عزیز نے یہ ثواب کا تحفہ بھیجا ہے تو اسے قبول کر۔ وہ شخص اسے قبول کر لیتا ہے اور اس پر خوش ہوتا ہے، دوسرے قبر والوں کو خوشخبری سناتا ہے اور اس کے پڑوسیوں میں سے جن کو اس قسم کا تحفہ نہ ملا ہو وہ غمگین ہوتے ہیں۔ (المعجم الاوسط)

ایک صالح آدمی کا بیان ہے کہ میرا بھائی فوت ہو گیا میں نے اسے خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ جب تمہیں دفن کر دیا گیا تو کیا واقعات پیش آئے؟ بولا آنے والا میرے پاس آگ کا شعلہ لے کر آیا۔ اگر دعا کرنے والے میرے لیے دعا نہ کرتے تو میں ہلاک ہو جاتا۔ (کتاب الروح)

فوت شدگان کے لیے صدقہ جاریہ

والدین، اولاد، بہن بھائی یا دیگر عزیز و اقارب کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ان کے ایصالِ ثواب کے لیے ایسے اعمال سر انجام دئیے جا سکتے ہیں جن کا ثواب مستقل طور پر فوت شدگان کو ملتا رہے جیسے پانی کا کولر لگوا دینا، نلکا لگوا دینا، پھلدار درخت لگوا دینا، مسجد بنوا دینا، کوئی فلاحی ادارہ اور مرکز قائم کر دینا، قرآنِ پاک، سپارے یا اسلامی و اصلاحی کتب تقسیم کرنا وغیرہ۔ جب تک یہ اشیا، کتب یا ادارے قائم رہتے ہیں اور خلق ِخدا ان سے مستفید ہوتی ہے تب تک اس کا ثواب فوت شدگان کو ملتا رہتا ہے۔

حضرت سعد بن عبادہؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں عرض کی یا رسول اللہ! سعد کی ماں فوت ہو گئیں۔ پس کس چیز کا صدقہ کرنا سب سے افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا پانی کا۔ پس سعد نے کنواں کھدوایا اور کہا کہ یہ کنواں سعد کی ماں کے لیے ہے۔ (سنن ابوداؤد 1681) 

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہوا۔ آپ ؐنے فرمایا انہیں عذاب ہو رہا ہے اور عذاب کی کوئی بڑی وجہ بھی نہیں۔ ان میں سے ایک چغل خور تھا اور دوسرا پیشاب سے احتیاط نہ برتتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک سبز شاخ لیکر اس کے دو ٹکڑے کیے اور ہر ایک قبر پر رکھ دئیے اور پھر فرمایا جب تک یہ خشک نہیں ہوں گے امید ہے کہ عذاب میں تخفیف رہے گی۔ (صحیح بخاری 216)

یعنی اگر قبور کے قریب درخت لگادیا جائے تو یہ بھی مرحومین کے لیے بخشش یا عذاب میں تخفیف کا باعث بن سکتا ہے۔

جنازے کا ثواب

مسلمان و مومن مرد و خواتین کے جنازے میں شریک ہونا فرضِ کفایہ ہے۔ عزیز و اقارب اور اہلِ علاقہ جب مسلمان و مومن مرد و خواتین کے جنازہ میں شریک ہوتے ہیں اور نمازِ جنازہ کے بعد ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں تو یہ فوت شدگان کے لیے مغفرت کا باعث بن سکتا ہے۔ 

حضرت مالکؓ بن ہبیرۃ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’کوئی مسلمان ایسا نہیں کہ اس کے جنازے پر مسلمانوں کی تین صفیں نماز پڑھیں مگر یہ کہ اس کے لیے (جنت) واجب ہو گئی۔‘‘ (سنن ابوداؤد 3166)

قرآنِ پاک کا ثواب

نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد جب میت کو دفن کرنے کے لیے قبرستان لے جایا جاتا ہے تو میت کے سرہانے کھڑے ہو کر عزیز و اقارب مختلف قرآنی آیات اور کلمات تلاوت کرتے ہیں اور جب تک میت قبر میں دفن نہیں کر دی جاتی تب تک تلاوت جاری رہتی ہے اور یہ بہت ہی مستحب عمل ہے جبکہ نافہم لوگ اس عمل پر بھی اعتراض کرتے ہیں۔ اگر میت کسی نیک انسان کی ہو تو اس تلاوت سے اس کے درجات میں بلندی ہوتی ہے اور اگر بشری تقاضوں کے تحت اس سے خطائیں اور گناہ سرزد ہوئے ہوں تو اس تلاوت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ میت کے وہ گناہ اور خطائیں معاف فرما دیتا ہے۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ حضرت سعد بن معاذؓ فوت ہو گئے تو ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ان کی طرف گئے۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھ لی اور انہیں قبر میں رکھ کر قبر کو برابر کر دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کافی دیر تسبیح فرمائی ، پس ہم نے بھی طویل تسبیح کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تکبیر فرمائی تو ہم نے بھی تکبیر کہی۔ اس پر عرض کی گئی یا رسول اللہ! آپ نے تسبیح و تکبیر کیوں فرمائی؟ ارشاد ہوا کہ اس نیک بندے پر قبر تنگ ہو گئی تھی۔ ہم نے تسبیح و تکبیر کی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر فراخی فرما دی۔ (مسند احمد بن حنبلؒ 14934)

حضرت اَنس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا جو شخص قبرستان میں گیا اور سورۃ یٰسین تلاوت کی تو اللہ تعالیٰ اہلِ قبور پر عذاب میں تخفیف فرما دے گا جبکہ پڑھنے والے کو بھی اس کی نیکیاں ملیں گے۔ (شرح الصدور)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مر جائے تو اسے روک نہ رکھو بلکہ اسے قبر کی طرف جلدی لے جائو اور اس کی قبر پر اس کے سر کی جانب سورۃ فاتحہ اور اس کی پائنتی کی جانب سورۃ البقرہ کی آخری آیات پڑھی جائیں۔ (بیہقی فی شعب الایمان)

نیک لوگوں کے ساتھ دفن کرنا

اکثر لوگ اپنے انتقال سے قبل اپنی جائے مدفن کے متعلق وصیت کر جاتے ہیں کہ انہیں فلاں فلاں مقام پر فلاں فلاں کے ساتھ دفن کیا جائے۔ انتقال کے بعد اولاد اور عزیز و اقارب کے لیے لازم ہے کہ مرحوم کی وصیت پوری کی جائے۔ تاہم اگر مرحوم نے اپنی جائے مدفن کے متعلق وصیت نہ کی ہو تو پسماندگان کے لیے لازم ہے کہ اپنے فوت شدہ کو کسی نیک سیرت فوت شدہ کے قریب دفن کیا جائے کیونکہ فوت شدہ پر اس کا بے حد اثر ہوتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اپنے مردوں کو نیکوں کے پڑوس میں دفن کیا کرو کیونکہ جس طرح برے پڑوسیوں سے اس دنیا میں تکلیف اور اذیت پہنچتی ہے اسی طرح برے پڑوسیوں کی قبروں سے قبر والوں کو آخرت میں بھی اذیت اور تکلیف ہوتی ہے۔ (شرح الصدور)

اہلِ قبور کی زیارت 

موت ایک اٹل حقیقت ہے اور ہر ذی روح نے اس سے گزرنا ہے۔ دنیا کی رنگینیاں چونکہ انسان کو اپنی طرف مائل کر لیتی ہیں اور موت کو بھلا دیتی ہیں اس لیے انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے عزیز و اقارب کی قبور کی زیارت کے لیے جاتا رہے۔ اس کا ایک فائدہ جو خود اس کی اپنی ذات کے لیے ہے وہ یہ کہ دنیا کی بے اثباتی اس پر واضح ہو جائے گی اور وہ اپنی آخرت کی زندگی کو یاد کر کے اسے بہتر بنانے کی کوشش کرے گا اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ جب وہ اہلِ قبور کی زیارت کی غرض سے جائے گا تو یقینا ان کے لیے دعائے مغفرت بھی کرے گا۔ اس لیے زیارت کنندہ کو چاہیے کہ نہ صرف اپنے عزیز و اقارب بلکہ دیگر مسلمان و مومن مرد و خواتین کو بھی اس دعا میں شامل کرے۔

ابتدائے اسلام میں جب لوگ کفر و شرک کے اندھیروں سے نکل کر اسلام کے دامنِ رحمت میں آئے تو چونکہ بت پرستی اور قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کا زمانہ قریب تھا اس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ابتدائی زمانہ میں کچھ عرصہ کے لیے مسلمانوں کو قبروں پر جانے سے منع فرمایا تاہم جب اسلام مستحکم اور مسلمانوں کے دلوں میں خوب پختہ ہو گیا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حکمِ ممانعت کو منسوخ قرار دیا اور اُمتِ مسلمہ کو قبروں کی زیارت کا حکم دیا۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے روک دیا تھا، تو اب ان کی زیارت کرو، اس لیے کہ یہ دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔ ‘‘(سنن ابنِ ماجہ 1571)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اپنا معمول مبارک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بقیع کے قبرستان میں تشریف لے جاتے، انہیں سلام کہتے اور ان کے لئے مغفرت کی دعا فرما تے اور اپنے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا درس دیتے۔ ذیل میں چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کریں۔

اُمّ المو منین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میرے ہاں قیام فرما ہوتے تو (اکثر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رات کے آخری حصہ میں بقیع کے قبرستان میں تشریف لے جاتے اور (اہلِ قبرستان سے خطاب کرکے) فرماتے ’’تم پر سلام ہو، اے مومنو! جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ تمہارے پاس آ گئی تم بہت جلد اسے حاصل کرو گے اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ ! اہلِ بقیع غرقد والوں کی مغفرت فرما۔‘‘ (صحیح مسلم 2255)

 حضرت بریدہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم انہیں سکھایا کرتے تھے کہ جب وہ قبور کی زیارت کے لئے جائیں تو کہیں:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ أہل الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ  وَاِنَّا إِنْ شَائَ اللّٰہُ لَلَاحِقُوْنَ اَسْأَلُ اللّٰہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ 
ترجمہ:اے اہل دیارِ مومنین و مسلمین! تم پر سلامتی ہو اور اِن شاء اللہ ہم بھی ضرور بالضرور تم سے ملنے والے ہیں، ہم اللہ سے اپنے لئے اور تمہارے لئے عافیت کے طلب گار ہیں۔(صحیح مسلم2257)

مذکورہ بالا احادیثِ مبارکہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تین اہم سنن ثابت ہوتی ہیں:
۱۔زیارتِ قبور کو جانا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مستقل معمول تھا۔
۲۔مومنوں اور مسلمانوں کے قبرستان میں جاکر اُنہیں سلام کرنا۔ اپنے لئے، اُن کے لئے اور پہلے گزرنے والوں کے لئے عافیت، رحمت اور مغفرت کی دعاکرنا۔
۳۔اہلِ قبرستان سے مخاطب ہوکر اس بات کا اعادہ کرنا کہ آپ ہم سے پہلے قبور میں پہنچے ہیں، ہم بھی آپ کے پیچھے آنے والے ہیں۔

ابنِ عینیہ کے ماموں کے بیٹے فضل سے مروی ہے کہ جب میرے والد فوت ہو گئے تو مجھے بہت ملال ہوا۔ میں ہر روز ان کی قبر کی زیارت کرتا تھا۔ پھر کچھ دنوں کے لیے نہیں گیا۔ پھر ایک دن قبر کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ اتفاقاً آنکھ لگ گئی۔ میں نے دیکھا جیسے والد صاحب کی قبر شق ہو گئی۔ وہ قبر میں کفن میں ملفوف بیٹھے ہیں اور مرُدوں کی سی شکل ہے۔ یہ منظر دیکھ کر میں رونے لگا۔ والد صاحب نے پوچھا بیٹا اتنے روز کیوں نہیں آئے؟ میں نے کہا کیا آپ کو میری آمد کی خبر ہو جاتی ہے؟ انہوں نے کہا جب جب تم آئے مجھے تمہارے آنے کی خبر ہو گئی، تمہارے آنے سے اور تمہاری دعاؤں سے نہ صرف مجھے بلکہ میرے آس پاس والوں کو بھی انسیت و خوشی ہوتی ہے۔ اس خواب کے بعد پھر میں مسلسل ان کی قبر پر آتا جاتا رہا۔ (کتاب الروح)

لہٰذا یہ مت سمجھا جائے کہ اہلِ قبور کو خبر نہیں ہوتی کہ کون ان کی قبر پر آرہا ہے اور کون نہیں۔جس کے نیک اعمال یا دعاؤں کا ثواب ان فوت شدگان کو پہنچایا جاتا ہے انہیں مطلع کیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں کی جانب سے یہ ثواب تمہیں ہدیہ کیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ روایات میں آتا ہے کہ مردے کو قبر پر بیٹھنے والے پرندے کے متعلق بھی علم ہوتا ہے۔ 

حضرت اَنس بن مالک رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تین دن تک بدر کے مقتولین کو پڑا رہنے دیا، پھر آپؐ گئے اور ان کے پاس کھڑے ہو کر ان کو پکار کر فرمایا ’’اے ابوجہل بن ہشام! اے امیہ بن خلف! اے عتبہ بن ربیعہ! اے شعبہ بن ربیعہ! کیا تم نے اپنے ربّ کے وعدے کو سچا نہیں پایا؟ میں نے تو اپنے ربّ کے وعدے کو سچا پایا ہے جو اس نے میرے ساتھ کیا تھا۔‘‘ حضرت عمرؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہؐ! یہ لوگ کیسے سنیں گے اور کہاں سے جواب دیں گے جبکہ وہ تو لاشیں بن چکے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم اس بات کو جو میں ان سے کہہ رہا ہوں، ان کی نسبت زیادہ سننے والے نہیں ہو لیکن وہ جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔‘‘ (صحیح مسلم 7223)

دورِ حاضرکے مرشد کامل اکمل ، سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل اور موجودہ امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس قدمِ محمدؐ پر فائز متلاشیانِ حق کی تربیت عین اسی طرز پر فرمارہے ہیں جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے اصحابؓ کی تربیت فرمائی تھی۔ آپ مدظلہ الاقدس کی حیاتِ مبارکہ کے جس بھی پہلو کا جائزہ لیا جائے تو وہ سنتِ نبویؐ کے عین مطابق ہے۔ لہٰذا اس امر میں بھی آپ مدظلہ الاقدس کی حیاتِ مبارکہ میں ثبوت ملتے ہیں کہ سنتِ نبویؐ کو زندہ کرتے ہوئے آپ مدظلہ الاقدس بھی اپنے والدین اور پیاروں کی قبور پر تشریف لے جاتے ہیں اور شرعی تقاضوں کے عین مطابق ان کے ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ خوانی اور دعا بھی فرماتے ہیں۔

 اس کے ساتھ ساتھ آپ مدظلہ الاقدس نے اپنے مریدین و عقیدتمندوں اور امتِ مسلمہ کی بخشش کے لیے ایسے بہت سے کارِ خیر کا اجرا کر دیا ہے کہ جن میں حصہ لے کر نہ صرف اپنی عاقبت کو سنوارا جا سکتا ہے بلکہ اپنے مرحومین کے ایصالِ ثواب اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے صدقۂ جاریہ کا سامان کیا جا سکتا ہے۔ذیل میں کچھ چیدہ چیدہ مثالیں پیش کی جارہی ہیں:
 (1)معزز قارئین! تحریک دعوتِ فقر کے زیرِاہتمام عظیم الشان مسجدِ زہراؓ کی تعمیر و تزئین کا سلسلہ جاری ہے۔ مسجد کی تعمیر و ترقی کی قرآن و حدیث میں بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ آپ بھی اپنے فوت شدگان کو ایصالِ ثواب کرنے کے لیے مسجد کی تعمیر میں حصہ لے سکتے ہیں۔ 

 (2)اس کے علاوہ تحریک دعوتِ فقر کے شعبہ سلطان الفقر پبلیکیشنز کے تحت صوفی تعلیمات پر مبنی بیشمارکتب شائع ہوتی ہیں۔ کتب صدیوں تک طالبانِ مولیٰ کے لیے رہنما ثابت ہوتی ہیں۔ ان کتب کی اشاعت میں بھی حصہ لیا جا سکتا ہے جو کہ صدقہ جاریہ ہے۔ 

 (3)اس کے ساتھ ساتھ ایک ماہنامہ میگزین بھی باقاعدگی سے شائع کیا جا رہا ہے جو ہزاروں عقیدتمندوں کو راہنمائی مہیا کر رہا ہے۔ اس کی اشاعت میں حصہ لینا بھی صدقہ جاریہ ہے۔ 

 (4)سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس طالبانِ مولیٰ کو سلسلہ سروری قادری میں بیعت کرتے ہوئے پہلے روز ہی سنہری حروف سے لکھا اسمِ اللہ ذات ذکر و تصور کے لیے عطا کرتے ہیں۔ اسمِ اللہ ذات کو سنہری حروف سے لکھ کر لکڑی کے خوبصورت فریم میں نصب کرنے کے بعد شیشہ لگایا جاتا ہے ۔بلاشبہ ان اسمِ اللہ ذات کی تیاری پر ایک خطیر رقم خرچ ہوتی ہے لیکن ہر بیعت ہونے والے خوش نصیب کو شیشے اور لکڑی کے فریم میں مزین اسمِ اعظم اسمِ اللہ ذات فی سبیل اللہ عطا کیا جاتا ہے ۔اس کارِ خیر میں حصہ شامل کرنا بھی صدقۂ جاریہ ہے ۔ جب تک طالبانِ مولیٰ اسمِ اعظم کا ذکر و تصور کرتے رہیں گے آپ کو بھی اجرِ عظیم ملتا رہے گا۔

 (5)خانقاہ سلطان العاشقین میں ہمہ وقت خانقاہ نشینوں اور مہمانوں کے لنگر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کارِ خیر میں بھی حصہ لے کر آپ اپنے عزیز و اقارب کو ایصالِ ثواب کر سکتے ہیں۔ آپ ایصالِ ثواب کی غرض سے جو بھی چیز یا رقم صدقہ کریں گے اس کا ثواب آپ کو بھی ملے گا اور فوت شدگان کو بھی۔اس کے علاوہ تحریک دعوتِ فقر کے زیرِ اہتمام چلائی جانے والی ویب سائٹس، سوشل میڈیاپیجز اور چینلز کو فعال رکھنے میں بھی حصہ شامل کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان ذرائع ابلاغ کی بدولت جدید تقاضوں کے مطابق دنیا بھر میں اسلام کی حقیقی تعلیمات یعنی ــ’’فقرِ محمدیؐ‘‘ کا پیغام پھیلایا جا رہا ہے۔

محترم قارئین! یاد رکھیں اگر آج ہم اپنے فوت شدگان کو ایصالِ ثواب نہیں کریں گے تو کل جب ہم اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے تو ہمیں بھی کوئی ایصالِ ثواب نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جو مومن و مسلمان مرد و خواتین اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کو اپنا خاص قرب عطا فرمائے اورجو لوگ بقیدِحیات ہیں انہیں اپنی اُخروی زندگی کو بہتر بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

 
 

25 تبصرے “ایصالِ ثواب کی ضرورت Esaal-e-Sawab Ki Zrorat

  1. ایصال ثواب کی حقیقت کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا

  2. اے ہمارے ربّ مجھے بخش دے اور میرے والدین کو (بھی بخش دے) اور دیگر سب مومنوں کو بھی جس دن حساب قائم ہوگا۔

  3. بہترین تحریر! پڑھ کر احساس ہوا کہ اس موضوع پر تو نہ کبھی سوچا اور نہ عمل کیا۔ اللہ پاک یاد رکھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

  4. بہت معلوماتی مضمون ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔۔

  5. حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے روک دیا تھا، تو اب ان کی زیارت کرو، اس لیے کہ یہ دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔ ‘‘(سنن ابنِ ماجہ 1571)

  6. بہت اچھی تحریر ہے۔۔۔ اس تحریر سے بہت سے سوالوں کے جواب ملے ہیں۔۔۔۔۔
    جزاک اللہ

  7. حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا جب کوئی شخص نفلی صدقہ کرے اور اس کو اپنے والدین کی طرف کر دے تو اس کے والدین کو اس کا اجر ملتا ہے اور اس کے اجر سے بھی کچھ کمی نہیں ہوتی۔ (شرح الصدور)

  8. دورِ حاضرکے مرشد کامل اکمل ، سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل اور موجودہ امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس قدمِ محمدؐ پر فائز متلاشیانِ حق کی تربیت عین اسی طرز پر فرمارہے ہیں جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے اصحابؓ کی تربیت فرمائی تھی۔ آپ مدظلہ الاقدس کی حیاتِ مبارکہ کے جس بھی پہلو کا جائزہ لیا جائے تو وہ سنتِ نبویؐ کے عین مطابق ہے۔ لہٰذا اس امر میں بھی آپ مدظلہ الاقدس کی حیاتِ مبارکہ میں ثبوت ملتے ہیں کہ سنتِ نبویؐ کو زندہ کرتے ہوئے آپ مدظلہ الاقدس بھی اپنے والدین اور پیاروں کی قبور پر تشریف لے جاتے ہیں اور شرعی تقاضوں کے عین مطابق ان کے ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ خوانی اور دعا بھی فرماتے ہیں۔

  9. حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے روک دیا تھا، تو اب ان کی زیارت کرو، اس لیے کہ یہ دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔ ‘‘(سنن ابنِ ماجہ 1571)

  10. للہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جو مومن و مسلمان مرد و خواتین اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کو اپنا خاص قرب عطا فرمائے

اپنا تبصرہ بھیجیں