جدت Jiddat


4.7/5 - (44 votes)

جدّت. Jiddat

تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری

’’جدّت‘‘              بلاگ آڈیو میں سسنے کے لیے اس ⇐     لنک  ⇒ پر کلک کریں

جدّت (Innovation, Newness, Modernity) ایک فطری عمل، زندگی کا ایک بنیادی اصول اور روح کا جوہر ہے۔ جدت پسندی ہر دور میں انسان کو اپنی زندگی آسان اور بہتر بنانے کے لیے نت نئے انداز اور طورطریقے وضع کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اگر ہم ماضی کے اوراق اٹھا کر دیکھیں تو اندازہ ہو گاکہ انسان ابتدا سے ہی ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے۔ مشکل حالات، بحران اور آزمائش سے گزر کر ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ میں داخل ہوتا ہے اور انہی مشکلات سے نبرد آزما ہو کر ہر دور میں ’’انقلاب‘ ‘ رو نما ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں انسان کے ارتقا ئی عمل کی ابتدا پتھر کے دور یعنی Stone Age سے ہوئی۔ انسان نے ترقی در ترقی کی منازل طے کیں  Stone Era  سے Iron Era (لوہے کا دور)،پھر  Era Industrial (صنعتی ترقی کا دور) سےCorporate Era  (کارپوریٹ دور) اور آج Cyber Era  (سائبر دور) میں جی رہا ہے۔ آج کا انسان پہلے سے زیادہ مضبوط، روشن دماغ، باصلاحیت اور پرُاعتماد ہے۔ نہ جانے اور کتنے انقلاب ہیں جو اس نے دیکھنے ہیں اور کتنی جدت کی راہیں ہیں جو اس نے طے کرنی ہیں۔ علامہ اقبالؒ اپنی کتاب تجدیدِ فکریاتِ اسلام (Reconstruction of Religious thought in Islam )  میں لکھتے ہیں:

“Life always moves forward with a burden of past on its back and sees its direction intuitively.”

یعنی زندگی ہمیشہ مستقبل رو ثابت ہوئی ہے ۔ یہ آگے کی طرف سفر کرتی ہے اور اپنے مشاہدات، تجربات اور بصیرت کی روشنی میں نئی راہیں تلاش کرتی ہے۔ درحقیقت جدت پسندی ایک آفاقی پہلو ہے اور جدت کے اس قانون کے احاطہ میں نہ صرف انسان بلکہ حیوانات اور نباتات بھی آتے ہیں۔ قدرت نے حیوانات اور نباتات کو اس صلاحیت سے نوازا ہے کہ وہ موسمی تغیرات اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو ماحول کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ صحرا کا اونٹ دیکھیں تو اس کو اتنی چربی (فیٹ) کی ضرورت نہیں ہوتی اس لیے اس کا ایک کوہان ہوتا ہے اور وہ جب سرد علاقوں میں رہتا ہے تو اس کے دو کوہان پیدا ہو جاتے ہیں تاکہ سردیوں کا لمبا موسم گزار سکے۔ یعنی قدرت نے اسے یہ اصول سکھایا ہے کہ اپنی بقا کی خاطر کیسے مشکل حالات کا مقابلہ کرنا ہے او ر آگے بڑھنا ہے۔ قدرت نے انسان کے لاشعور میں بھی جدت کے جواہر پوشیدہ رکھے ہیں۔ جس طرح کچھ ذرّات پانی کی سطح پر ہوتے ہیں اور کچھ گہرائی میں۔ اگر پانی میں پتھر پھینکا جائے تو گہرائی کے ذرات پانی کی سطح پر اُبھر آتے ہیں۔ انسان میں جدت کا موتی اس کے لاشعور سے شعور کی جانب تب آتا ہے جب وہ مشکل حالات، چیلنجز اور آزمائشوں سے گزرتا ہے۔ وہ بقا کی خاطر نئی راہیں تراشتا ہے اور ایک نئی اور مضبوط شخصیت کے ساتھ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ سقراط بھی اس حوالہ سے یہی کہتا تھا کہ میں کوئی نیا علم لے کر نہیں آیا۔ میں سوال اور جواب کے ذریعہ لوگوں کے لاشعور میں موجود علم کو ان کے شعور تک لے آتا ہوں۔ دنیا میں آج تک جتنی بھی ایجادات ہوئی ہیں وہ بھی اسی طرز پر ہوئی ہیں۔ نئی ایجادات کو لے کر تمام سوچ، ترکیب، آئیڈیاز سب انسان کے لاشعور میں پہلے سے ہی موجود ہوتے ہیں بس بوقتِ ضرورت وہ ابھر کر لاشعور سے شعور کی جانب آ جاتے ہیں۔ 

مختصراً یہ کہ قدرت کی طرف سے انسان کی فطرت اور لاشعور میں جدت کے قانون ودیعت کردیے گئے ہیں اورا سلام فطرت کا دین ہے تو پھر یہ حتمی ہے کہ اسلام جدت کا قائل ہے۔ ایک صحیح مومن کی نشانی بھی یہی ہے کہ وہ جدت کا قائل ہوتا ہے اور زمانہ کے ساتھ چلتا ہے۔ جس ترقی کی راہ پر زمانہ چلتا ہے وہ اس راہ کا امام ہوتا ہے۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
انسانِ کامل اپنے زمانہ کا امام ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ زمانہ کے ساتھ چلتا ہے۔ (سلطان العاشقین)
تبدیلی کائنات کا اصول ہے، تبدیلی کے ساتھ جو تبدیل نہیں ہوتا وہ فنا ہو جاتا ہے۔ (سلطان العاشقین )

علامہ اقبالؒ کتاب تجدیدِ فکریاتِ اسلام (Reconstruction of Religious thought in Islam )  میں لکھتے ہیں :
خدا سے وفاداری کا مطلب خود انسان کی مثالی فطرت سے وفاداری ہے۔ جیسا کہ اسلام نے سمجھا ہے زندگی کی مطلق روحانی اساس ازلی ہے اور تغیر اور تنوع میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ 

آج ہماری قوم جس زبوںحالی، انتشار اور زوال کا شکار ہے اس کی سب سے اہم وجہ یہی ہے کہ ہم نے خود پر جدت کی راہوں کو تنگ کر لیا ہے۔ دنیا جس تیز رفتاری سے ترقی کی راہ پر چل رہی ہے اس کے مقابلہ میں ہم سست روی کا شکار ہیں۔ وہ قوم جس نے ہزار سال پوری دنیا پر حکمرانی کی آج وہ ترقی کی دوڑمیں پیچھے ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم نے ’’جدت‘‘ کو مغرب کی پیش کی گئی  ’’جدیدیت‘‘ (modernism) کی تصویرکے ساتھ الجھا دیا ہے۔ ماڈرنیزم یعنی جدیدیت (جو مادیت پرستی، سیکولرزم کی ایک قسم ہے) دراصل ان نظریاتی، تہذیبی، سیاسی اور سماجی تحریکوں کے مجموعہ کا نام ہے جو سترھویں اور اٹھارویں صدی کے یورپ میں روایت پسندی اور کلیسائی استبداد کے ردِ عمل میں پیدا ہوئیں۔ یہ وہ دور تھا جب یورپ میں کلیسا کا ظلم اور جبر اپنی انتہا کو تھا، تنگ نظر پادریوں نے ہر طرح سے سائنسی ترقی اور علوم پر سخت پابندی عائد کی ہوئی تھی، کوئی حق یا سچ بات لیکر منظرِ عام پر آتا تو اسے سخت سے سخت سزائیں دی جاتی تھیں، مذہب کے نام پر لوگوں پر ظلم اور جبر کی داستانیں رقم کی جا رہی تھیں۔ تاریخ میں اس دور کو ’’تاریک دور‘‘ Dark Agesکے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان سب عوامل نے مل کر کلیسا کے استبداد کے خلاف شدید رد ِ عمل پیداکیا اور جدیدیت کی تحریک کا آغاز ہوا۔ 

تصنیف ’’اسلام اور جدیدیت کی کش مکش میں‘‘ مصنف محمد ظفر اقبال لکھتے ہیں:
 مغرب کی جدیدیت ’’عقل ‘‘کی خدائی اور مذہب سے بغاوت کا نام ہے ۔ اس کا بنیادی وصف ماضی کا انکار اور مستقبل سے رابطہ ہے۔ اس جدیدیت نے انسان، حیات اور کائنات کا پورا تصور ’’خدائی مرکزی‘‘ سے موڑ کر ’’انسان مرکزی‘‘ کی طرف پھیر کر خود انسان کو خدائی منصب پر لا بٹھایا ہے۔ (اسلام اور جدیدیت کی کش مکش میں)

ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
مغرب کی جدیدیت اپنے جوہر میں مذہب مخالف ہے ۔ اس جدیدیت کی قبولیت و نفوذ کی بات اسلام کے تصورِ بندگی سے دست بردار ہوئے بغیر ممکن نہیں۔ اس قسم کی جدیدیت محض ایک منفی تحریک نہیں ہے بلکہ ایک مستقل عقیدے کی داعی ہے، جس کا اظہار نطشے (Nietzsche1844-1900) نے ’’خدا کی موت‘‘ کا اعلان کر کے کیا تھا۔ اس حوالہ سے رابرٹ سپین لکھتا ہے:

The great nineteenth and early twentieth century experience of the ”Death of God” ….led either to a some   of absence…..or a  new individual of man and human power.
( اسلام اور جدیدیت کی کش مکش میں)

دراصل مغرب نے کئی سال کلیسائی نظام کے باعث پسماندگی، تنزلی  اور زبوںحالی میں گزارے۔ اس لیے مغرب کے لاشعور سے جو بقائے حیات کا قانون سامنے آیا وہ ’’ماڈرنیزم‘‘ کی صورت میں اُبھرا۔ انہوں نے اس چیز کا مشاہدہ کیا کہ ہمیں چرچ اور مذہب نے برباد کیا ہے اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ مذہب کو راستہ سے نکال دیا جائے اور صرف عقل ’’Reason and Rationale‘‘ کو ساتھ لیکر چلا جائے۔ آج  Renaissance European  کے بعد مغرب یہی چاہتا ہے۔پوری دنیا میں انہی اصول و ضوابط کو اپنایا جائے اوردنیاوی ترقی حاصل کرنے کے لیے مادیت پرستی کو آفاقی سمجھا جائے اور مذہب کو خیر آباد کہہ دیا جائے یا محض اسے ایک نجی معاملہ Private Matter کی صورت میں تسلیم کیا جائے ۔   

آج اسلامی معاشرے کو جو مسائل درپیش ہیں وہ یہ کہ ایک طرف ہماری فطرت اورہمارا دین جدت کو اپنانے کی ترغیب دیتاہے تو دوسری طرف جدیدیت کی تصویر جو مغرب پیش کر رہا ہے وہ منظر بھی ہولناک، سیاہ اور اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے۔ ایک طرف ترقی حاصل کرنے کے لیے ہم پر مسلط کیا گیا جدیدیت کا جھوٹا پروپیگنڈا اور دوسری جانب اس پروپیگنڈا کے خلاف ہمارے نام نہاد مذہبی رہنماؤں کا کٹر مذہبی رویہ۔ وہ رویہ جس نے دین کو ظاہری حد تک اور شریعت کے دائرے تک محدود کر دیا ہے، اس کی روح جو اس کی اصل بنیاد تھی، اسے ہی ختم کر ڈالا ہے ۔ اس رویہ کے باعث ہماری قوم پر ایک جمود طاری ہے اور اسلامی دنیا نفسانفسی اوربے چینی کا شکار ہے۔ خصوصاً بالخصوص نوجوان نسل شش و پنج میں مبتلا ہے۔ ہماری روح، دماغ اور وجود دو انتہا پسندیوںExrtremities کے درمیان اُلجھ کر رہ گئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کوئی ایک ایسا مجدد اُٹھے جو ہماری قوم پر طاری اس جمود کو توڑ ڈالے، دین کی حقیقت سے ہماری روح کو آشنا کرے، جدت کی اہمیت سے واقف کرے اور مغرب کی جانب سے مسلط کیا جدیدیت کا جھوٹا اور گمراہ کن فلسفہ بے نقاب کرے ۔ بقول اقبالؒ 

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

(بانگِ درا)

حقیقی جدت کے اصولوں کو ہماری صفوں میں شامل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مغرب کی تقلید نہ کریں بلکہ خود جدت کے قانون کو ان بنیادوں پر استوار کریں جو ابدی اور دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کے مطابق ہوں۔ آج ہمیں خود اپنا ایک نیا جہان پیدا کرنا ہے۔ علامہ اقبالؒ اسے شاعرانہ انداز میں یوں بیان کرتے ہیں :

دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں ترے نورِ سحر سے
خورشید کرے کسب ضیا تیرے شرر سے
ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے
دریا متلاطم ہوں تری موجِ گہر سے
شرمندہ ہو فطرت ترے اعجازِ ہنر سے 

(ضربِ کلیم)

ہم جدت کے قانون کو کس بنیاد پر استوار کر سکتے ہیں؟ اسلام کے دو پہلو ہیں ایک کا تعلق ظاہر سے ہے اور دوسرے کا باطن سے۔ جدت فطرت کا اہم پہلو ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس کی اساس ’’روحانی‘‘ ہو۔ علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کی ترقی اور بہتری کے لیے جو اصول وضع فرمائے ہیں اس کا انحصار بھی روحانی ترقی پر ہے۔ جیسا کہ آپؒ کتاب تجدیدِ فکریاتِ اسلام (Reconstruction of Religious thought in Islam ) میں لکھتے ہیں :
انسانیت کو آج تین چیزوں کی ضرورت ہے: کائنات کی روحانی تعبیر، فرد کا روحانی استخلاص (آزادی، نجات) اور ایسے عالم گیر نوعیت کے بنیادی اصول جو روحانی بنیادوں پر انسانی سماج کی نشوونما میں رہنما ہوں۔ (تجدیدِ فکریاتِ اسلام)

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس اس حوالے سے فرماتے ہیں:
دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لیے سیاست کی نہیں بلکہ روحانی تربیت کی ضرورت ہے۔

سادہ اور آسان الفاظ میں بات کی جائے تو جدت’’ ترقی‘‘ کو کہتے ہیں۔ ترقی کی دو اقسام ہیں: ظاہری ترقی اور باطنی ترقی۔ ظاہری دنیا توایک چھوٹا سا عالم ہے اصل جہاں تو انسان خود ہے یعنی اس کا باطن۔ جب وہ بحیثیتِ انسان روحانی ترقی حاصل کر لے گا تو ظاہری دنیا کو مسخر کرنا اس کے لیے مشکل نہیں رہے گا۔

مولانا رومؒ اس حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں :

بس بصورتِ عالمِ صغریٰ توئی
پس بمعنی عالمِ کبریٰ توئی

ترجمہ:شکل سے تو جہانِ صغیر ہے مگر حقیقت میں تو جہانِ کبیر ہے۔ 

آدمی را ہست حس تن سقیم
لیک در باطن یکے خلق عظیم 

ترجمہ: انسانی جسم حواس کے نظریہ سے حقیر و ہیچ ہے مگر باطن میں ’’عالمِ عظیم‘‘ ہے۔ (شمس الفقرا)

واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں :
آپ کا اصل ساتھی اور آپ کا صحیح تشخص آپ کے اندر کا انسان ہے۔ اسی نے عبادت کرنی ہے اور اسی نے بغاوت ۔وہی دنیا والا بنتا ہے اور وہی آخرت والا۔ اسی اندر کے انسان نے آپ کو جزا اور سزا کا مستحق بنا نا ہے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔آپ کا باطن ہی آپ کا بہترین دوست ہے اور وہی بدترین دشمن ۔ آپ خود ہی اپنے لیے دشواریٔ سفر ہو او ر خود ہی شادابیٔ منزل ۔ باطن محفوظ ہو گیا تو ظاہر بھی محفوظ ہو گیا۔

حضرت امام حسینؓ اپنے فرزند حضرت امام زین العابدین ؓسے مرآۃ العارفین میں فرماتے ہیں:
پس اے بیٹے! یہی کتاب ہے اور یہی علمِ کتاب ہے اور توُ ہی وہ کتاب ہے جیسا کہ بیان کیا ہم نے اور تیرا اپنے آپ کو جاننا علمِ کتاب ہی ہے اور نہ کوئی تر حصہ زمین یعنی عالمِ مِلک اور نہ کوئی خشک حصہ زمین یعنی عالمِ ملکوت اور نہ کچھ اس سے اعلیٰ مگر سب کچھ کتابِ مبین میں ہے اور وہ توُ ہی ہے۔ (مرآۃ العارفین )

روحانی ترقی یا باطنی ترقی سے یہی مراد ہے کہ روح ترقی حاصل کر کے اپنی ابتدا ’’ نورِ محمدی ‘‘تک پہنچے۔ ظہورِ حق کی ابتدا نورِ محمدی کے ظہور سے ہوئی اور تمام مخلوق نورِ محمدی سے ظہور پذیر ہوئی اس لیے ابتدا نورِ محمدی ہے، اسی ابتدا تک پہنچنا انسانی اور روحانی ترقی کی انتہا ہے۔ جب بندہ باطن میں ترقی در ترقی کی منازل طے کرتا چلا جاتا ہے تو ظاہری دنیا میں جدت کی راہیں اس پر کھلتی جاتی ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرامؓ کی تربیت اسی انداز میں فرمائی کہ ان کے باطن کو اپنی نگاہِ کامل سے پاک و منور کر دیا۔اسی پاکیزگی و نورانیت کی روشنی سے انہیں ایسی وسعتِ نگاہ حاصل ہوئی کہ انہوں نے پوری دنیا میں اپنی کامیابیوں کا لوہا منوایا۔ آج ضرورت ایسے ہی مردِبا صفا اور مجددِ دین کی ہے جو اپنی نگاہِ کامل سے طالبانِ مولیٰ کا تزکیۂ نفس فرما کر انہیں ظاہر و باطن میں کامیاب کر دے۔ موجودہ دور کے مجددِ دین اورمرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے حقیقی معنوں میں دین کی تجد یدِ نو فرما کر اس کی روح کو زندہ کیا ہے اور دینِ حق کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا ہے۔ آپ طالبانِ مولیٰ کی باطنی تربیت اس انداز میں فرماتے ہیں کہ طالب کی ظاہری شخصیت سنور جاتی ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے ہمیشہ شریعت کے تقاضوں میں رہتے ہوئے جدت پسندی کی روش اختیار کرنے اور زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کو پسند فرمایا ہے کیونکہ آپ مدظلہ الاقدس کے نزدیک حقیقی مومن وہی ہے جو زمانہ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتا ہے۔ 

عام طور پر ہمارے ہاں دین کی تبلیغ کرنے والے کو روایتی اور شدت پسند تصور کیا جاتاہے لیکن آپ مدظلہ الاقدس کی شخصیت اس کے برعکس ہے۔ تصنیف ’’سلطان العاشقین‘‘ میں آپ مدظلہ الاقدس کے اس وصف کے متعلق لکھا ہے :
جہاں علمائے ظاہر ترقی معکوس کی جانب گامزن ہیں وہاں انسانِ کامل سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس تعمیر و ترقی کو سراہتے ہیں کیونکہ اللہ پاک خود زمانہ ہے اور جس سمت زمانہ کا رُخ ہو اسی طرف چلنا چاہیے ورنہ نسلیں نیست و نابود ہو جاتی ہیں۔ حدیثِ قدسی ہے :
ابنِ آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، زمانے کو برا بھلا کہتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ کے پیدا کرنے والا ہوں ، میرے ہی ہاتھ میں تمام کام ہیں، جس طرح چاہتا ہوں رات دن کو پھیرتا رہتا ہوں۔ (بخاری شریف ۔7491)

چونکہ خیر و شر ربّ العزت کی تخلیق ہے اور انتخابِ راہ بندہ کی دلیل ہے اس لیے زمانہ کی ایجادات کو برا کہنے کی بجائے ان کو اسلام کے رنگ میں رنگ دینا چاہیے جیسا کہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس جدید ذرائع ابلاغ مثلاً ٹک ٹاک، یوٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام وغیرہ پر اپنی ٹیم سے حمد، نعت، منقبت، تعلیماتِ فقر پر مبنی انگلش و اُردو مضامین اور ویڈیوز وغیرہ نشر و پوسٹ کروا کے عوام الناس تک پہنچا رہے ہیں۔ آپ طالبِ علم مرد و خواتین کو علم کے حصول اور تعلیم کو مکمل کرنے کی ہدایت دیتے ہیں اور پسند فرماتے ہیں۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا نظریہ یہ ہے:
کوئی ایسا مجدد جو دین کو جدیدیت میں داخل کر سکے وہی نظام کو دوبارہ کھڑا کر سکتا ہے ۔ مجدد وہ ہوتا ہے جسے اللہ علمِ لدنیّ عطا کرے اور وہ اسی علم کے مطابق دین کی تجدید کرتا ہے۔ اللہ اس کی بات خود لوگوں سے منوا لیتا ہے۔ وہ جدید دور کے مطابق اسلام کو زندہ کرے اور ایسا نظام لائے جو تمام دنیا کے انسانوں کے لیے کشش رکھتا ہو تب ہی اسلام کو ساری دنیا میں عروج حاصل ہو سکتا ہے۔ (سلطان العاشقین)

طالبِ مولیٰ جتنا مرشد کامل کے قریب ہوتا ہے اس کی سوچ میں جدت اور علمِ لدنیّ سے وسعت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس لیے اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی صحبت سے مستفید ہونے اور قربِ الٰہی کی منازل طے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

جو عالمِ ایجاد میں ہے ’صاحبِ ایجاد‘
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ

استفادہ کتب :
۱۔شمس الفقرا : تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔فقرِ اقبالؒ:ایضاً
۳۔مرآۃ العارفین : تصنیفِ لطیف سیدّ الشہدا حضرت امام حسینؓ
۴۔سلطان العاشقین :  ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
۵۔تجدیدِ فکریاتِ اسلام:  مترجم ڈاکٹر وحید عشرت
۶۔اسلام اور مغرب کی کش مکش میں: مصنف سید قطب شہید، مترجم ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
۷۔اسلام اور مغرب کا تصادم :  اسرار الحق


35 تبصرے “جدت Jiddat

  1. تبدیلی کائنات کا اصول ہے، تبدیلی کے ساتھ جو تبدیل نہیں ہوتا وہ فنا ہو جاتا ہے۔ (سلطان العاشقین )

  2. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
    انسانِ کامل اپنے زمانہ کا امام ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ زمانہ کے ساتھ چلتا ہے۔ (سلطان العاشقین)

  3. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
    دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لیے سیاست کی نہیں بلکہ روحانی تربیت کی ضرورت ہے۔

  4. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
    تبدیلی کائنات کا اصول ہے، تبدیلی کے ساتھ جو تبدیل نہیں ہوتا وہ فنا ہو جاتا ہے۔ (سلطان العاشقین )

  5. جدت پسندی ہر دور میں انسان کو اپنی زندگی آسان اور بہتر بنانے کے لیے نت نئے انداز اور طورطریقے وضع کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔

  6. طالبِ مولیٰ جتنا مرشد کامل کے قریب ہوتا ہے اس کی سوچ میں جدت اور علمِ لدنیّ سے وسعت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے

  7. موجودہ دور کے مجددِ دین اورمرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں

  8. جہاں علمائے ظاہر ترقی معکوس کی جانب گامزن ہیں وہاں انسانِ کامل سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس تعمیر و ترقی کو سراہتے ہیں کیونکہ اللہ پاک خود زمانہ ہے اور جس سمت زمانہ کا رُخ ہو اسی طرف چلنا چاہیے ورنہ نسلیں نیست و نابود ہو جاتی ہیں

  9. یعنی زندگی ہمیشہ مستقبل رو ثابت ہوئی ہے ۔ یہ آگے کی طرف سفر کرتی ہے اور اپنے مشاہدات، تجربات اور بصیرت کی روشنی میں نئی راہیں تلاش کرتی ہے۔

  10. جو عالمِ ایجاد میں ہے ’صاحبِ ایجاد‘
    ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ

  11. تبدیلی کائنات کا اصول ہے، تبدیلی کے ساتھ جو تبدیل نہیں ہوتا وہ فنا ہو جاتا ہے۔ (سلطان العاشقین )

  12. تبدیلی کائنات کا اصول ہے، تبدیلی کے ساتھ جو تبدیل نہیں ہوتا وہ فنا ہو جاتا ہے۔ (سلطان العاشقین )

  13. جو عالمِ ایجاد میں ہے ’صاحبِ ایجاد‘
    ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ

  14. جو عالمِ ایجاد میں ہے ’صاحبِ ایجاد‘
    ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ

  15. تبدیلی کائنات کا اصول ہے، تبدیلی کے ساتھ جو تبدیل نہیں ہوتا وہ فنا ہو جاتا ہے۔ (سلطان العاشقین )

  16. دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
    افلاک منور ہوں ترے نورِ سحر سے
    خورشید کرے کسب ضیا تیرے شرر سے
    ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے
    دریا متلاطم ہوں تری موجِ گہر سے
    شرمندہ ہو فطرت ترے اعجازِ ہنر سے
    (ضربِ کلیم)

  17. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس اس حوالے سے فرماتے ہیں:
    دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لیے سیاست کی نہیں بلکہ روحانی تربیت کی ضرورت ہے۔

  18. بیشک دورِ حاضر کے مجدد مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں۔

  19. جدّت (Innovation, Newness, Modernity) ایک فطری عمل، زندگی کا ایک بنیادی اصول اور روح کا جوہر ہے۔ جدت پسندی ہر دور میں انسان کو اپنی زندگی آسان اور بہتر بنانے کے لیے نت نئے انداز اور طورطریقے وضع کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اگر ہم ماضی کے اوراق اٹھا کر دیکھیں تو اندازہ ہو گاکہ انسان ابتدا سے ہی ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے۔ مشکل حالات، بحران اور آزمائش سے گزر کر ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ میں داخل ہوتا ہے اور انہی مشکلات سے نبرد آزما ہو کر ہر دور میں ’’انقلاب‘ ‘ رو نما ہوتے ہیں۔

  20. بہت اچھا آرٹیکل ہے ، پڑھ کر کافی کچھ سیکھنے کو ملا ، شکریہ

  21. جدت پسند لوگ ہی زمانے کے ساتھ چلتے ہیں .
    بہت اعلیٰ وضاحت

اپنا تبصرہ بھیجیں