فہم ِدین – Fahm-e-Deen


4.6/5 - (39 votes)

فہمِ دین  – Fahm-e-Deen

تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

’’فہمِ دین‘‘           بلاگ آڈیو میں سسنے کے لیے اس ⇐   لنک⇒ پر کلک کریں

اسلام ایک آفاقی دین ہے جو ایسا کامل و مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسانی زندگی کے ہر ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے چاہے وہ پہلو معاشی ہو یا معاشرتی، سماجی ہو یا عبادات و معاملات کے متعلق۔ حیاتِ انسانی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس میں اُسے دین سے کامل راہنمائی نہ ملتی ہو۔ اسی لیے حجتہ الوداع کے موقع پر جو آیات نازل ہوئیں ان میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتَمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (سورۃ المائدہ۔3)
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین پسند کر لیا۔

اکثر لوگ دین میں صرف قرآن کو ہی شامل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن ہی مکمل رہنمائی کے لیے کافی ہے۔ اس کے لیے وہ درج ذیل آیت کو دلیل بناتے ہیں جس میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَوَلَمْ یَکْفِھِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ یُتْلٰی عَلَیْھِمْ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَرَحْمَۃً وَّ ذِکْرٰی لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ  (سورۃ العنکبوت۔51)
ترجمہ: کیا ان کے لیے یہ (نشانی) کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر (وہ) کتاب نازل فرمائی ہے جو ان پر پڑھی جاتی ہے (اور ہمیشہ پڑھی جاتی رہے گی)، بیشک اس (کتاب) میں رحمت اور نصیحت ہے مومنین کے لیے۔

بیشک قرآنِ مجید فرقانِ حمید کلامِ ربانی ہے اور ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے لیکن اگر محض قرآن کافی ہوتا تو سرکارِ دو عالم حبیبِ خدا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس دنیا میں بطور نبی مبعوث کرنے کا کیا مقصد تھا؟ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ تُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِلا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ۔ (سورۃ ابراہیم۔1)
ترجمہ: (اے محبوبؐ) یہ (عظیم) کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اُتارا ہے تاکہ آپ لوگوں کو (کفر کی) تاریکیوں سے نکال کر نور کی جانب لے آئیں، ان کے ربّ کے حکم سے اس راہ کی طرف جو غلبہ والا سب خوبیوں والا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’خبردار رہو!قریب ہے کہ کوئی آدمی اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور وہ کہے: ہمارے اور تمہارے درمیان (فیصلے کی چیز) بس اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں جو چیز ہم حلال پائیں گے پس اسی کو حلال سمجھیں گے، اور اس میں جو چیز حرام پائیں گے بس اسی کو ہم حرام جانیں گے، یاد رکھو! بلا شک و شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیز حرام قرار دے دی ہے وہ ویسے ہی حرام ہے جیسے کہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیز۔‘‘ (جامع ترمذی 2664)

دین قرآن و حدیث کا مجموعہ ہے۔ حدیث میں سنت بھی شامل ہے۔ یعنی وہ فرامینِ مصطفیؐ جن پر آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عمل کر کے بھی دکھایا۔ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ  اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا۔ (سورۃ الاحزاب۔ 21)
ترجمہ: فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونہ ہے ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔ 

یعنی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کردار اور گفتار، حدیث اور سنت دونوں میں رہنمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہر ہر عمل قرآن اور رضائے الٰہی کے مطابق تھا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اخلاق کیسا تھا؟ تو آپؓ نے فرمایا کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خلق بس قرآن ہی تھا۔ (سنن ابوداؤد1342) 

اب یہ تو واضح ہو گیا کہ دین قرآن، سنت اور حدیث کے مجموعہ کا نام ہے لیکن اس دین کا حقیقی فہم کیسے حاصل کیا جائے؟ ہم نے عمل، کردار سازی اور تزکیۂ نفس کو چھوڑ کر چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہی خود کو جنتی ثابت کر لیا ہے ۔مثال کے طور پر یہ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا جس نے اللہ تعالیٰ کے ننانوے اسماء یاد کر لیے وہ جنتی ہے، یا جس نے کسی اسلامی مہینے کے شروع ہونے کی خبر دوسروں کو پہنچائی اس پر جنت واجب ہے، جس نے میری حدیث دوسروں تک پہنچائی تو وہ جنتی ہے۔ اگر محض ان خبروں یا مختصر سے اعمال سے جنت واجب ہو سکتی تھی تو صحابہؓ کی زندگی کیوں اتنی مشکل گزری؟ وہ تو دن بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے احکامات کی تعمیل کیا کرتے تھے، آپؐ کی خدمت میں کمربستہ رہتے تھے، آپؐ کے حکم کی تعمیل کی خاطر آپؐ کی آنکھ کے اشارے کے منتظر رہتے تھے، انہوں نے تو گھر بار قربان کر دئیے، کمزور و ناتواں ہوتے ہوئے بھی اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن سے ٹکرا گئے، مال و دولت دینِ حنیف کے لیے وقف کر دیا، ان کی قربانیاں کیا بے مقصد تھیں؟ وہ تو تمام تر اطاعت کے باوجود خوف سے کپکپاتے تھے کہیں اللہ اور اس کا رسولؐ ہم سے ناراض نہ ہو جائیں، کہیں ہم سے کوئی ایسی خطا سرزد نہ ہو جائے جو اللہ اور اس کے محبوبؐ کی بارگاہ سے ہمیں ردّ کر دے۔ 

حقیقت یہ ہے کہ ان صحابہؓ کو دین کا فہم حاصل تھا، انہیں اللہ کی معرفت حاصل تھی، وہ جانتے تھے کہ کامیابی اور فلاح اللہ اور اس کے محبوب کی رضا اور خوشنودی میں ہے۔ انہوں نے دین کا فہم اور معرفتِ الٰہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حاصل کی تھی۔ ان کی زندگی کا کوئی بھی مسئلہ ہوتا وہ خاتم النبییٖن حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اور اپنا مسئلہ و مشکل بیان کر کے اس کا تسلی بخش جواب اور حل پا لیتے۔ انہوں نے تو یہ کبھی نہیں سوچا کہ قرآن نازل ہو گیا ہے اور کسی سے پوچھنے یا سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 

دورِ حاضر کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کو یہ سوچ کر تبرکاً پڑھا جاتا ہے کہ اس کے ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں ملتی ہیں، پڑھنے کے بعد دوبارہ غلاف میں لپیٹ کر اور چوم کر رکھ دیا جاتا ہے، اس کے بعد چاہے دن بھر ایسی خطائیں اور غلطیاں سرزد ہوں جو قرآن پڑھنے پر حاصل ہونے والے ثواب سے بھاری ہوں۔

خواتین و حضرات! ہم قرآن و حدیث کو ضابطۂ حیات کہتے تو ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے۔ ہمارے اعمال ہمارے دنیاوی مفاد اور اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے ہوتے ہیں جبکہ دین کا فہم حاصل کیے بغیر کبھی بھی دین کو اپنایا نہیں جا سکتا نہ اپنی زندگی پر اس کو نافذ کیا جاسکتا ہے، نہ ہی دین کے فہم کے بغیر معرفت حاصل ہو سکتی ہے۔

فہمِ دین اور علم حاصل کرنے کی فضیلت

کثیر احادیث میں دین کا فہم اور علم حاصل کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے جن میں سے چند احادیث ذیل میں درج کی جا رہی ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’منافق میں دو خصلتیں (صفتیں) جمع نہیں ہو سکتیں: حسنِ اخلاق اور دین کا فہم۔‘‘ (جامع ترمذی 2684)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، تو اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے۔‘‘ (جامع ترمذی 2645)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو علم حاصل کرنے کے ارادہ سے کہیں جائے، تو اللہ اس کے لیے جنت کے راستے کو آسان (اور ہموار) کر دیتا ہے۔‘‘  (جامع ترمذی 2646)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے نکلے تو وہ لوٹنے تک اللہ کی راہ میں (شمار) ہو گا۔‘‘ (جامع ترمذی 2647)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو کوئی علم حاصل کرنے کے لیے کسی راہ پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔ اور جسے اس کے عمل نے پیچھے رکھا اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا۔‘‘  (سنن ابو داؤد 3643)

تابعین کے دور میں لوگ دور دراز کا سفر کر کے احادیث سننے جایا کرتے تھے اور تمام محدثین نے بھی اپنے احادیث کے مجموعے اسی طرح مرتب کیے ہیں کہ فرداً فرداً راویوں سے ملتے ہوئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حدیثِ مبارکہ سنتے اور اس کی تصدیق کرکے اسے اپنے پاس محفوظ کر لیتے۔ 

ایک شخص مدینہ سے ابو الدرداء رضی اللہ عنہٗ کے پاس دمشق آیا، ابوالدرداء رضی اللہ عنہٗ نے اس سے کہا: میرے بھائی! تمہیں یہاں کیا چیز لے کر آئی ہے، اس نے کہا: مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ایک حدیث بیان کرتے ہیں، ابو الدرداءؓ نے کہا: کیا تم کسی اور ضرورت سے تو نہیں آئے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: کیا تم تجارت کی غرض سے تو نہیں آئے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ میں تو صرف اس حدیث کی طلب و تلاش میں آیا ہوں، ابو الدرداءؓ نے کہا: (اچھا تو سنو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ’’جو شخص علمِ دین کی تلاش میں کسی راستہ پر چلے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اسے جنت کے راستہ پر لگا دیتا ہے۔ بیشک فرشتے طالب (علم) کی خوشی کے لیے اپنے پرَ بچھا دیتے ہیں، اور عالم کے لیے آسمان و زمین کی ساری مخلوقات مغفرت طلب کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی۔ عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علما انبیا کے وارث ہیں اور انبیا نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کر لیا، اس نے (علمِ نبوی اور وراثتِ نبوی سے) پورا پورا حصہ لیا۔‘‘ (جامع ترمذی 2682) 

دنیاوی مقاصد اور مباحثہ کے لیے علمِ دین کا حصول

دورِ حاضر میں ایک بہت بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ دین کا علم دنیوی مقاصد یعنی مال و دولت کے حصول کے لیے سیکھا جاتا ہے۔ دوسری صورت یہ بھی ہے کہ بجائے اس علمِ دین کو پھیلایا جائے، اس پر عمل کرنے کی ترغیب دلائی جائے، علمِ دین کو مباحثہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور کمال کی بات یہ ہے کہ مباحثہ کرنے والے قرآن و حدیث کے حوالہ جات سے ہی ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ اس عمل کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نہایت ہی ناپسند فرمایا ہے۔ ذیل میں چند احادیث درج کی جا رہی ہیں جو اسی ضمن میں نازل ہوئی ہیں۔ 

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ جو شخص اس لیے علم حاصل کرتا ہے کہ بے علم (عوام) سے بحث کرے یا علما کے مقابلے میں فخر کا اظہار کرے یا لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائے ، وہ جہنم میں جائے گا۔‘‘  (سنن ابنِ ماجہ 253)

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے یہ ارشاد مبارک سنا ہے ’’ علم کو اس غرض سے حاصل نہ کرو کہ علما کے مقابلے میں فخر کا اظہار کرو یا کم عقل لوگوں سے بحث کرو ، یا لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرو۔ جس نے یہ کام کیا ، وہ جہنمی ہے۔‘‘ (سنن ابنِ ماجہ 259)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’جس نے علم کو غیر اللہ کے لیے سیکھا، یا وہ اس علم کے ذریعہ اللہ کی رضا کے بجائے کچھ اور حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسا شخص اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔‘‘ (جامع ترمذی 2655)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو علم محض اللہ کی رضا کے لیے حاصل کیا جاتا ہے، اگر کسی نے اسے دنیا کا مال و متاع حاصل کرنے کے لیے سیکھا، اسے قیامت کے دن جنت کی خوشبو نہیں آئے گی۔‘‘  (سنن ابنِ ماجہ 252)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص علم اس واسطے سیکھے کہ اس کے ذریعہ علما کی برابری کرے، کم علم اور بیوقوفوں سے بحث و تکرار کرے یا اس علم کے ذریعہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جہنم میں داخل فرمائے گا۔ (جامع ترمذی 2654)
علمِ دین کو دنیاوی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی ایک صورت یہ بھی پیدا ہو گئی ہے کہ لوگ اپنے مفاد اور پسند کے مطابق علما اور مفتی حضرات کے پاس جا کر اپنا مسئلہ بیان کرتے ہیں اور تھوڑے سے مال کے عوض اپنے مفاد اور مرضی کے مطابق فتویٰ لے لیتے ہیں۔ یا پھر اگر کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہو جس میں علما حضرات کو اپنا نقصان نظر آرہا ہو تو دین کی بات ہی چھپا لیتے ہیں۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس سے علم دین کی کوئی ایسی بات پوچھی جائے جسے وہ جانتا ہے، پھر وہ اسے چھپائے تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔‘‘ (جامع ترمذی 2649)

درحقیقت ان نام نہاد علما کو بھی دین کا حقیقی فہم کماحقہ حاصل ہی نہیں۔ اگر کسی انسان کو دین کا فہم حاصل ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی معرفت حاصل کر لیتا ہے۔

صوفیا اور فقرا کاملین کی کتب سے فہمِ دین

تمام تر صوفیا کرام اور فقرا کاملین نے اپنی الہامی تصانیف میں قرآن و حدیث کے نکات کھول کر بیان فرمائے ہیں، زمانہ کے اعتبار سے احکامِ الٰہی کی شرح فرمائی ہے، تفسیر کی وضاحت اور سند کے لیے جابجا احادیث بھی درج فرمائی ہیں اس لیے صوفیا کرام کی الہامی تصانیف بھی فہمِ دین کے لیے مددگار ہیں۔ ان صوفیا کی کتب میں درج کی گئی احادیث جب بیان کی جاتی ہیں تو اکثر کم فہم لوگ ان کا حوالہ مانگنا شروع کر دیتے ہیں کہ صحاحِ ستہ میں اس حدیث کا حوالہ بتائیں۔ ان لوگوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ احادیث کی تدوین تابعین اور تبع تابعین کے دور میں ہوئی اور حدیث کی سند حاصل کرنے کے لیے محدثین صحابہؓ کرام سے ملنے کے لیے دور دراز کا سفر بھی کرتے تھے اور ان کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ ہر صحابیؓ یا تابعی سے مل پاتے۔ اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان محدثین نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تمام تر حیاتِ مبارکہ میں کہی گئی ہر ایک بات کو جمع کیا ہو۔ جبکہ صوفیا کرام اور فقرا کاملین کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل ہوتی ہے جہاں وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ سے بلاواسطہ احادیث سماعت کرتے ہیں اور انہیں اپنی کتب میں بیان کرتے ہیں۔ اولیا اور فقرا کاملین کو کیا ضرورت کہ وہ خود سے احادیث گھڑیں جبکہ یہ مقدس ہستیاں تزکیۂ نفس اور باطنی صفائی میں عام عوام سے بہت آگے ہیں۔احادیث مبارکہ ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’مجھ پر جھوٹ نہ باندھو کیونکہ مجھ پر جھوٹ باندھنے والا جہنم میں داخل ہو گا۔‘‘(جامع ترمذی 2660)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کی نسبت کی تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنا لے۔‘‘  (جامع ترمذی 2659)

لہٰذا یہ بات بعید از قیاس ہے کہ اولیا و فقرا کاملین خود سے احادیث گھڑلیں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ خود اپنی تصنیف نور الہدیٰ میں فرماتے ہیں:

ہیچ تالیفی نہ در تصنیفِ ما
ہر سخن تصنیف مارا از خدا
علم ز قرآن گرفتم و ز حدیث
ہر کہ منکر میشود اہل از خبیث

ترجمہ: میری تصنیف میں کوئی تالیف نہیں اور میری تصنیف کا ہر سخن اللہ کی جانب سے ہے۔ میں نے اس تصنیف میں جو علم بیان کیا ہے وہ قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے اس لیے جو میری تصنیف کا منکر ہو وہ خبیث ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)

فہمِ دین حاصل کرنے کا آسان طریقہ

فہمِ دین حاصل کرنے کے لیے قرآن و حدیث میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ فلاں آیت کس موقع پر نازل ہوئی، یا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فلاں بات کس موقع پر کہی۔ جب تک ہم قرآن و حدیث کے سیاق و سباق پر تحقیق نہیں کریں گے کبھی بھی قرآن و حدیث کو نہیں سمجھ پائیں گے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں ’’اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، کتابِ اللہ کی کوئی سورت نہیں مگر میں اس کے متعلق جانتا ہوں کہ وہ کب نازل ہوئی اور کتابِ اللہ کی کوئی آیت نہیں مگر مجھے علم ہے کہ وہ کس بارے میں نازل ہوئی۔‘‘ (صحیح مسلم 6333)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد آنے والے ادوار کے لوگ قرآن کی آیات کے متعلق نہیں جانتے کہ وہ کس موقع پر نازل ہوئیں اور نہ ہی انہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی احادیث کے متعلق علم ہے کہ وہ کس موقع پر کس تناظر میں بیان کی گئیں۔ مثال کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص تکبر کی وجہ سے تہمد گھسیٹتا ہوا چلے گاتو اللہ پاک قیامت کے دن اس کی طرف نظر بھی نہیں کرے گا۔‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! میرے تہمد کا ایک حصہ کبھی لٹک جاتا ہے مگر یہ کہ خاص طور پر اس کا خیال رکھا کروں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو ایسا تکبر سے کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری 5784)

اس حدیث کو بنیاد بنا کر لوگوں نے شلواریں ٹخنوں سے اوپر باندھنا شروع کر دی ہیں جبکہ اصل مقصد تکبر کا خاتمہ تھا نہ کہ شلواریں اوپر باندھنا۔ اسی طرح حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام مسواک کیا کرتے تھے کیونکہ اس وقت دانتوں کو صاف کرنے کے لیے دستیاب اشیا میں صرف مسواک ہی تھی۔مقصد دانت صاف کرنا ہے نہ کہ صرف مسواک سے ہی دانت صاف کرنا۔ اسی لیے دورِ حاضر میں ٹوتھ برش اور پیسٹ سے دانت صاف کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر سنت پوری کرنے کی نیت سے مسواک کر لی جائے تو مستحب ہے۔ایسی بیشمار احادیث اور احکامات ہیں جن میں چھپے مقصد اور روح کو نظرانداز کر کے ہم محض الفاظ کی پیروی میں لگ جاتے ہیں۔ اسی لیے قرآن و حدیث کے ہر فرمان اور حکم کے پیچھے اس خاص مقصد کو جاننا نہایت ضروری ہے۔ 

آج تک قرآنِ پاک کی بیشمار تفاسیر اور احادیث کی کثیر شرح لکھی گئی ہیں کہ انسان زندگی بھر بھی ان کا مطالعہ کرتا رہے تو کبھی بھی مکمل فہم نہ حاصل کر سکے۔ فہمِ دین حاصل کرنے کے لیے کتبِ تفسیر و احادیث ایک مشکل طریقہ ہے۔ تاہم فہمِ دین حاصل کرنے کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ ہمیں اُس ہستی تک پہنچنا ہوگا جو قرآن و حدیث کا مآخذ ہے یعنی خاتم النبییٖن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی قرآن کا حقیقی فہم زمانہ کے مطابق عطا کر سکتے ہیں اور طبیعت، مزاج اور موقع محل کی مناسبت سے اپنی گفتگو کے ذریعہ تربیت کر سکتے ہیں۔ تاہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک رسائی کا وسیلہ ایک ہی ہے یعنی صاحبِ مسمیّٰ مرشد کامل اکمل۔ مرشد کامل اکمل طالبِ مولیٰ کا تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کرتا ہے، اس کی ظاہری و باطنی تربیت کرتا ہے تاکہ طالبِ مولیٰ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچ سکے جہاں وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں روحانی تربیت حاصل کر کے فہمِ دین حاصل کر سکے۔  

دورِ حاضر کے مجدد مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس بھی اپنی نورانی صحبت میں طالبانِ مولیٰ کا تزکیۂ نفس فرماتے ہیں اور ان کی روحانی و اخلاقی تربیت کے لیے اپنی شیریں سخن گفتگو میں جابجا آیاتِ قرآن و حدیث بیان فرماتے ہیں۔ ہر ایک طالب کو یوں محسوس ہوتا ہے گویا یہ گفتگو اس کے باطنی حال کے مطابق کی جا رہی ہے۔ اسی لیے ہر طالب اس کے مطابق اپنی اصلاح کی کوشش بھی کرتا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنی نگاہِ کاملہ سے طالبوں کے اندر ایسی استعداد پیدا فرماتے ہیں کہ ان پر قرآن و حدیث کے باطنی معانی منکشف ہونے لگتے ہیں۔ اس لیے طالبانِ مولیٰ کے لیے دعوتِ عام ہے کہ اگر وہ بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح دین کا فہم اور معرفت ِالٰہی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں حاضر ہوں، آپ سے اسمِ اللہ ذات کا ذکر و تصور حاصل کریں، آپ کی نورانی صحبت میں رہ کر اپنے نفس کا تزکیہ اور قلب کا تصفیہ کروائیں اور فہمِ دین حاصل کر کے قرآن و حدیث و سنت کے مطابق زندگی بسر کریں۔ 


31 تبصرے “فہم ِدین – Fahm-e-Deen

  1. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس سے علم دین کی کوئی ایسی بات پوچھی جائے جسے وہ جانتا ہے، پھر وہ اسے چھپائے تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔‘‘ (جامع ترمذی 2649)

  2. طالبانِ مولیٰ کے لیے دعوتِ عام ہے کہ اگر وہ بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح دین کا فہم اور معرفت ِالٰہی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں حاضر ہوں، آپ سے اسمِ اللہ ذات کا ذکر و تصور حاصل کریں، آپ کی نورانی صحبت میں رہ کر اپنے نفس کا تزکیہ اور قلب کا تصفیہ کروائیں اور فہمِ دین حاصل کر کے قرآن و حدیث و سنت کے مطابق زندگی بسر کریں۔🥀🥀

  3. حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، تو اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے۔‘‘ (جامع ترمذی 2645)

  4. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو کوئی علم حاصل کرنے کے لیے کسی راہ پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔ اور جسے اس کے عمل نے پیچھے رکھا اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا۔‘‘ (سنن ابو داؤد 3643)

  5. دورِ حاضر کے مجدد مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس بھی اپنی نورانی صحبت میں طالبانِ مولیٰ کا تزکیۂ نفس فرماتے ہیں

  6. اللہ پاک سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے زیرِ سایہ دین درست فہم عطا فرمائے۔۔ آمین

  7. دورِ حاضر کے مجدد مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس بھی اپنی نورانی صحبت میں طالبانِ مولیٰ کا تزکیۂ نفس فرماتے ہیں اور ان کی روحانی و اخلاقی تربیت کے لیے اپنی شیریں سخن گفتگو میں جابجا آیاتِ قرآن و حدیث بیان فرماتے ہیں۔

  8. دورِ حاضر کے مجدد مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں۔

  9. دورِ حاضر کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کو یہ سوچ کر تبرکاً پڑھا جاتا ہے کہ اس کے ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں ملتی ہیں، پڑھنے کے بعد دوبارہ غلاف میں لپیٹ کر اور چوم کر رکھ دیا جاتا ہے، اس کے بعد چاہے دن بھر ایسی خطائیں اور غلطیاں سرزد ہوں جو قرآن پڑھنے پر حاصل ہونے والے ثواب سے بھاری ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں