حسینؓ زندہ باد!. Hussain (r.a) Zindabaad
تحریر: فقیہہ صابر سروری قادری
نواسۂ رسولؐ، جگر گوشۂ بتولؓ، فرزندِحیدرؓ، سردارِ نوجوا نانِ جنت، سیدّ الشہدا حضرت امام حسینؓ کی فضیلت کے کیاکہنے۔۔۔ آپؓ نے اپنے نانا خاتم النبیین حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شفقت بھری سرپرستی میں بچپن گزارا اور تربیت حاصل کی۔ آپؓ جب پیدا ہوئے تو آپؓ کے منہ میں گھٹی بھی آپؓ کے نانا مصطفی کریمؐ نے دی۔ وہ گھٹی بھی کوئی عام چیز نہ تھی بلکہ آپؐ کا مبارک لعاب تھا۔ گویا شہزادۂ جنت کی پہلی غذا آپؐ کا لعابِ دہن تھا۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا حضرت امام حسینؓ آپؐ کے لعاب کو اس طرح چوستے تھے جس طرح آدمی کھجور کو چوستا ہے۔ (نورالابصار)
جن کی پہلی غذا وہ عظیم نعمت ہو جو دونوں جہانوں میں حتیٰ کہ جنت میں بھی نہ ہو، ان کے باطن کی نورانیت کا عالم کیا ہوگا۔ آپؓ کے کان مبارک میں اذان بھی نانا مصطفی کریمؐ نے دی اور آپؓ کے لیے دعا فرمائی جس کی برکت کا یہ عالم ہے کہ شہید ہوتے وقت بھی سر سجدے کی حالت میں ہے اور زبان پر ربّ العالمین کی تسبیح جاری ہے۔ ساتویں دن عقیقہ ہوا اور حسینؓ نام تجویز کیا گیا۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے (اپنے دونوں نواسوں) حسنؓ اور حسینؓ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں سے اور ان کے والد اور والدہ (علی المرتضیٰؓ اور سیدّہ فاطمہ زہراؓ) سے محبت کی تو وہ قیامت کے دن جنت میں میرے درجہ میں میرے ساتھ ہو گا۔(جامع ترمذی۔3733)
ایک اور جگہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’حسنؓ و حسینؓ دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری۔3753)
حضرت امام حسینؓ کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی کہ سن کر ہی رشک آتا ہے۔ خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفیؐ، شیرِخدا حیدرِ کرار حضرت علیؓ ابنِ ابی طالب، جگر گوشۂ رسولؐ سیدّہ فاطمتہ الزہراؓ آپؓ کے اساتذہ کرام تھے۔ ایک طرف پیغمبرِ اسلام حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جن کی زندگی کا مقصد اخلاقِ انسانی کی تکمیل تھا، دوسری طرف امیر المومنین حضرت علی ابنِ ابی طالبؓ جو کہ اپنے عمل سے خدا کی رضا کے خریدار بن چکے تھے۔ تیسری حضرت فاطمتہ الزہراؓ جو خواتین کے طبقہ میں پیغمبر کی رسالت کو عملی طور پر پہنچانے کے لیے ہی قدرت کی طرف سے پیدا ہوئی تھیں۔ ایسے خوبصورت اور نورانی ماحول میں حضرت امام حسینؓ کی پرورش ہوئی۔
حضور نبی اکرمؐ اور حسنین کریمینؓ کے باہمی رشتہ کی نوعیت
امام حسنؓ اور امام حسینؓ کا نبی اکرم ؐسے رشتہ کیا ہے؟عام رشتوں میں یہ رشتہ نانا نواسے کا بنتاہے لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس رشتے کی نوعیت ہی بدل دی۔حضرت فاطمۃ الزہراؓ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
ہر ماں کی اولاد اپنے باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے، سوائے فاطمہؓ کی اولاد کے۔ پس میں ان کا ولی ہوں اور میں ان کا نسب ہوں۔ (طبرانی،ا لمعجم الکبیر)
یعنی نسبِ فاطمہؓ ہی نسبِ مصطفیؐ ہے۔ اب حسنؓ و حسینؓ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نواسے نہیں بلکہ بیٹے کہلائیں گے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ سیدّنا فاروقِ اعظمؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فرماتے ہوئے سنا :
قیامت کے دن میرے حسب و نسب کے سوا ہر سلسلۂ نسب منقطع ہو جائے گا۔(الحاکم فی المستدرک4747)
پس معلوم ہوا کہ ہر ایک کے نسب اور آل کو فنا ہے مگر نسبِ فاطمہؓ اور آلِ فاطمہؓ کو فنا نہیں اس لیے کہ نسبِ فاطمہؓ، نسبِ مصطفیؐ ہے اور آلِ فاطمہؓ، آلِ مصطفیؐ ہے۔ خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیؐ کو اپنے بیٹے حضرت امام حسینؓ سے شدید محبت تھی۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا:
اَلْحُسَیْنُ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنَ الْحُسَیْنِ
ترجمہ: حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔
سیدّ الشہدا حضرت امام حسینؓ کی زندگی، سیرت اور خدماتِ دین کا مطالعہ کرنے سے ’’الحسین منی و انا من الحسین‘‘ کا راز آشکار ہوتا ہے کہ فاطمہؓ کی گود سے لے کر کربلا کے دن تک حسینؓ،مصطفیؐ سے ہیں اور کربلا سے لے کر قیامت تک مصطفیؐ ،حسینؓ سے ہیں۔یعنی اسلام اپنے وجود میں محمدیؐ ہے اور اپنی بقا میں حسینیؓ ہے۔حسینؓ کا وجود مصطفیؐ سے ہے اور اسلام کی بقا حسینؓ سے ہے۔اسلام کی پیروی حسینؓ کے قدموں سے ملتی ہے کیونکہ دینِ اسلام کی بقا حسینؓ سے ہے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ فرماتے ہیں:
شاہ اَست حسینؓ، بادشاہ اَست حسینؓ
دین اَست حسینؓ، دین پناہ اَست حسینؓ
سر داد نہ داد دست در دستِ یزید
حقاّ کہ بنائے لااِلہٰ اَست حسینؓ
ترجمہ: (۱)شاہ بھی حسینؓ ہیں، بادشاہ بھی حسینؓ ہیں۔(۲)دین بھی حسینؓ ہیں، دین کی پناہ بھی حسینؓ ہیں۔(۳)سر دے دیا مگر اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں نہیں دیا۔ (۴)حقیقت تو یہ ہے کہ لا الہٰ کی بنیاد بھی حسینؓ ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حسینؓ کی محبت کو اپنی محبت قرار دینا اور ان سے غیر معمولی محبت کرنا اسی وجہ سے تھا کہ حضرت حسینؓ سے اسلام کو بقا ملنی تھی۔(ڈاکٹر طاہرالقادری)
حسینیت اور یزیدیت
خیر و شر، نیکی و بدی، حق و باطل اور حسینیت و یزیدیت کے درمیان معرکہ آرائی ازل سے جاری ہے۔ جس طرح سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع نہیں ہو سکتا اسی طرح کبھی بھی خیر پر شر غالب آ سکتا ہے نہ یزیدیت کی حسینیت کے مقابلے میں جیت ہو سکتی ہے۔ حق و باطل کی جنگ ہمیشہ سے جاری رہی ہے۔بقول حضرت علامہ اقبالؒ :
موسیٰؑ و فرعون و شبیرؓ و یزید
این دو قوتِ از حیات آید پدید
زندہ حق از قوتِ شبیریؓ است
باطل آخر داغِ حسرتِ مِیری است
یعنی حق وباطل کی معرکہ آرائی موسیٰؑ وفرعون کی صورت میں جاری رہی، پھر ختم المرسلین خاتم النبییٖن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عہدِ مبارک میں چراغِ مصطفویؐ اور شرارِ بولہبی کی صورت میں نظر آئی اور آپؐ کے بعد یہی معرکہ شبیرؓ و یزید کی صورت میں بپا ہوا، یہی دو قوتیں ایک دوسرے کے مدِمقابل صف آرا ہوئیں، حق قوتِ شبیریؓ سے زندہ ہے اور شاہی (باطل کااقتدار) ظاہری فتح کے باوجود آخر کار داغِ حسرت بن کر رہ جاتا ہے۔
واقعۂ کربلا تاریخِ انسانیت میں حق و باطل کا وہ ناقابلِ فراموش معرکہ ہے جسے کوئی بھی صاحبِ شعور انسان نظر انداز نہیں کر سکتا۔ سانحہ کربلا ظلم و ستم کی وہ طویل داستان ہے جس میں یزید اور آلِ رسولؐ کے دشمنوں نے حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھی افراد کو شہید کیا۔ حضرت امام حسینؓ دینِ حق اور اسلام کی بقا کی خاطر یزیدی لشکر کے مقابلے میں بہادری سے میدان میں اترے، اپنا سر کٹا دیا مگر قیامت تک آنے والے اہلِ اسلام کے لیے یہ پیغام چھوڑ گئے کہ جہاں بھی حق کے خلاف کوئی ظالم یزیدی بن کر سر اٹھائے گا تو حق پر قائم مردِ مومن حسینی بن کر اس کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرے گا اور اپنی جان کی بازی لگا دے گا مگر باطل کے سامنے سر جھکانا گوارا نہیں کرے گا۔ قوتِ شبیریؓ نہ ہوتی تو حق کب کا مٹ چکا ہوتا۔ امام عالی مقامؓ ایک ابدی حقیقت ہیں جس کو کوئی حق پرست نہیں جھٹلا سکتا۔
حسینیت کیا ہے؟
باطل کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنا حسینیت ہے۔
یزیدی حکمرانوں کے سامنے سینہ سپر ہو جانا حسینیت ہے۔
دینِ حق کی بلندی حسینیت ہے۔
حسینؓ ضمیر کی آواز کا نام ہے۔
آج حسینؓ ضمیر کی آواز بن کر باضمیر نفس کے رہبر ہیں۔
سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گرو نانک نے ایک دفعہ اپنے مرید سے کہا ’’حسینؓ کا غم منایاکرو۔‘‘ مرید نے کہا: نہیں، وہ تو مسلمانوں کے پیشوا ہیں۔ بابا گرو نانک نے کہا ’’میں تمہارا گرو ہوں میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ گھر جا اور اپنی بہن سے شادی کر۔ مرید نے کہا:میرا ضمیر اجازت نہیں دیتا۔گرو نانک مسکرا کے بولے: ’’ارے مورکھ! اسی ضمیر کو تو حسینؓ کہتے ہیں کیونکہ حسینؓ صرف مسلمانوں کے نہیں ضمیر والوں کے گرو ہیں۔‘‘ (بحوالہ: گرو کا بیان)
حضرت امام حسینؓ سچے عاشق تھے اور عاشق کبھی امرِ اللہ کے خلاف نہیں جاتا بلکہ ہر حال میں اپنے محبوب کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ہر قسم کی دعا اور مراد سے اجتناب کرتا ہے۔ اگر محبوب آزمائش چاہتا ہے تو عاشق نرمی کی درخواست کے بجائے پل صراط سے ثابت قدمی سے گزرنے کی استدعا کرتا ہے اور یہی حضرت امام حسینؓ نے کیا۔ آپؓ ان تمام مشکلات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار تھے جو ان کے ایمان کی استقامت کو آزمانے کیلئے ان کی منتظر تھیں۔ قرآن میں آٹھ مصیبتوں یعنی خوف، جان کا نقصان، مال کا نقصان، بھوک، پیاس، ناموس، اولاداور اموال کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ آزمائشیں تمام پیغمبروں پر ایک ایک کر کے نازل ہوئیں لیکن حضرت امام حسینؓ پر یہ تمام آزمائشیں ایک وقت میں اتریں اور انہوں نے ثابت قدمی سے ان کا مقابلہ کیاکیونکہ حسینیت عشق کا نام ہے۔ میدانِ کربلا دراصل عشق کا میدان تھا۔ حقیقت میں تو عقل اور عشق کی جنگ ہو رہی تھی کیونکہ امام حسینؓ سے لڑنے والے عالم،فاضل اوراپنے آپ میں عابد، زاہد تھے لیکن عشق کی پہنچ سے کوسوں دور تھے۔ ایک طرف حسینؓ(عشق) تھا تو دوسری طرف ظاہری مال و متاع اور عیش و عشرت (عقل) تھی۔ ایک طرف عقل موت سے ڈرا رہی ہے اور دوسری طرف عشق خوف سے جان چھڑا کر اَبدی زندگی کی طرف لیکر جا رہا ہے۔ آپؓ کے ساتھیوں کا دل بھی قوتِ ایمانی یعنی (عشق) سے بھرپور تھا۔ آپؓ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا:
’’صورتحال جو پیش آئی ہے وہ تم دیکھ رہے ہو اور یقینا دنیا کا رنگ بدل گیا ہے اور اس کی نیکی رخصت ہو چکی ہے اور اس میں کچھ نہیں رہ گیا ہے سوائے تھوڑے حصے کے، جو پانی بہنے کے بعد برتن میں بچ رہتا ہے اور معمولی زندگی مثل زہریلی گھاس کے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہوتا اور باطل سے علیحدگی اختیار نہیں کی جاتی۔ اس صورت میں مومن یقینا لقائے الٰہی کا آرزو مند ہوتا ہے۔ میرے نزدیک تو موت کی صورت میں شہادت کی سی نعمت ہے۔ ان ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا خود ایک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘
سبحان اللہ! کیسا امام ہے جو ہر لمحہ اپنے عاشقوں کو آگاہ کر رہا ہے ہر امتحان سے ہر آزمائش سے اور یا اللہ یہ کیسے عاشق ہیں جو ہر لمحہ تیار ہو رہے ہیں ایک نئے امتحان اور ایک نئی آزمائش کے لیے۔(حضرت امام حسینؓ اور یزیدیت)
یہ عشق ہی تھا جس نے آپؓ کے ساتھیوں کو لڑکھڑانے نہ دیا۔عشق ہی ہر آزمائش پر سرِ تسلیم خم کرتا ہے۔سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
ابلیس میں تین عین تھے چوتھا نہیں تھا۔ عابد تھا، عالم تھا، عاقل تھا مگر عاشق نہیں تھااگر عاشق ہوتا تو ضد نہ کرتا اور سربسجود ہو جاتا۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
عشق فرمودہ قاصد سے سبک گام عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنی پیغام ابھی
(بانگِ درا)
عشق کا سب سے پہلا قاعدہ ربّ ِکائنات کی رضا کے آگے سرِتسلیم خم کرتے ہوئے اپنی ذات کی نفی کرنا ہے۔ ہر قسم کی مشکلات کے باوجود اپنی محبتِ حقیقی سے دستبردار نہ ہونا، ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار رہنا اور ہر حال میں اس کا شکر ادا کرنا ہے۔ میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس اپنی مایہ ناز تصنیف مبارکہ’’ شمس الفقرا‘‘ میں فرماتے ہیں:
رضا کی اصل حقیقت یہ ہے کہ سالک (طالب) اس امر پر یقین ِکامل رکھے کہ ہر چیز کی عطا یا مناہی اللہ کی مشیت اور ارادہ ہے۔ دنیاوی معاملات ہوں یا راہِ سلوک، طالبِ مولیٰ کے لیے بہتر یہی ہے کہ ہر بات میں خوف اور امید کے مابین رہے۔ اطاعت کے وقت اللہ کے سامنے فخر نہ کرے اور مصیبت کے وقت اس کے در سے مایوس نہ ہو جائے۔ ہیبت و پریشانی، دکھ اور سکھ، سکون اور اضطراب، آسانی اور تنگی، بیماری اور صحت، بھوک اور سیری الغرض ہر حالت میں اللہ پاک کی رضا پر راضی رہنا اور سرِتسلیم خم کردینا ہی اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبول و منظور ہے۔ (شمس الفقرا)
مسز عنبرین مغیث سروری قادری لکھتی ہیں:
دینِ اسلام کو صرف ثواب و عذاب کے دائرے میں قید کرنے والے، صبح و شام بدنی عبادتوں کی کثرت پر تکبر کرنے والے، گائے بکرے کی قربانی کو اصل قربانی سمجھنے والے دین کی حقیقت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ سے سیکھیں۔ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لائے ہوئے دین کی تشریح و تفسیر حضرت امام حسینؓ نے اپنے عمل اور اپنی قربانی سے کی۔ اپنی اور اپنے خاندان کی قربانی دے کر امام عالی مقامؓ نے امت کو دین کی حقیقت بتائی۔ دین کا جو اصل روپ حضرت امام حسینؓ نے امت کو دکھایا وہی اصل دین قوت دیتا ہے اسلام کے پیروکاروں کو ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی۔ وہی دین اُخروی زندگی کی قدر و قیمت مسلمان کی نظروں میں اس فانی دنیا سے کئی گنا زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ اسی میں راز ہے نجات کا، آزادی کا ہر طرح کی غلامی سے خواہ وہ نفس کی ہو، خواہشات کی یا ظالم و جابر دنیوی حکمران کی۔ اسی دین پر چل کر دنیا جنت بنے اور جنت لذتِ قربِ الٰہی بن جائے۔
حسینیت نام ہے احترامِ انسانیت کا جبکہ یزیدیت نام ہے ظلم و جبر کا۔ یزیدیت انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔ حضرت امام حسینؓ چاہتے تو یزید (ملعون) کے ہا تھ پر بیعت ہو کر اپنی جان بچا سکتے تھے مگر آپؓ کی رگوں میں شیرِ خداؓ کا خون دوڑ رہا تھا آپؓ کی پرورش کسی اور نے نہیں بلکہ محبوبِ خداؐ اور سیدّۃ النساء فاطمۃُ الزہراؓ نے کی تھی آپؓ کیسے گوارا کر لیتے کہ ایک شرابی اور زانی کی بیعت کر کے دینِ حق کو ختم کر دیتے۔ اگر آپؓ اپنی اور اپنے خاندان کی قربانی پیش نہ کرتے تو آج دینِ حق اصل حالت میں موجود نہ ہوتا۔
قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
(مولانا محمد علی جوہر)
پوری اسلامی تاریخ دیکھنے سے پتہ چلتاہے کہ اللہ تعالیٰ کو راہِ حق کی دو قربانیاں اتنی پسند آئیں کہ ان کی یاد اور عقیدت روزِ محشر تک مسلمانوں کے لیے ایک مثال بن گئی جس سے فلسفۂ توحید سمجھ آتا ہے کہ اللہ کی محبت ہر مسلمان کے لیے اوّلین ترجیح ہے۔ ایک وہ تسلیم و رضا جس کا عملی نمونہ حضرت اسماعیلؑ نے حکمِ خداوندی میں گردن پیش کرکے دیا تھااوردوسرا حضرت امام حسینؓ نے کربلا میں پیش کیا۔
حضرت اسماعیلؑ کی قربانی اجمالی تھی اور حسینؓ کی تفصیلی۔ امام حسینؓ ذبحِ عظیم کی تفسیر ہیں۔علامہ اقبالؒ بالِ جبریل میں فرماتے ہیں:
امام عالی مقامؓ کی شہادت اسی داستانِ حرم کی انتہا ہے جس کا آغاز حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی سے ہوا تھا:
غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ، ابتدا ہے اسمعیلؑ
(بالِ جبریل)
میدانِ کربلا میں سیدّنا امام حسینؓ نے جو قربانی دی وہ بیان کی جا سکتی ہے لیکن اس قربانی کے پسِ پرد ہ عشقِ الٰہی کا جو جذبہ کارفرما تھا اسے الفاظ کیسے بیان کر سکتے ہیں! حضرت امام حسینؓ نے روزِ عاشورہ اپنے بہتر (72) جانثاروں کو اسلام کے تقدس کی خاطر قربان کردیا اور آوازِ حق بلند کرکے شعائر اللہ کے احترام کا تاقیامت سلیقہ سکھا دیا۔ بقول شاعر
جبریلؑ کربلا سے یہ کہتے ہوئے گئے
مقروض حشر تک ہے خدائی حسینؓ کی
کربلا کے میدان میں جہاں رہتی دنیا تک کے لئے حق اور باطل کا فرق واضح کرنے کے ساتھ ساتھ حبِ الٰہی میں سب کچھ قربان کر دینے کی مثال رقم ہونا تھی جس کی آزمائش مشیتِ ایزدی تھی، وہیں حضرت امام حسینؓ نے بیعتِ یزید کے مطالبے کو ٹھوکر مار کر دنیا کو بتلا دیا کہ ہم خانوادہِ رسولؐ ہیں کسی ظالم و جابر کے سامنے نہیں جھکتے اور نوکِ سناں پر بھی کلمۂ حق بلند کرتے ہیں۔ اسی لیے آپؓ نے گورنر مدینہ کے سامنے اپنا تعارف یوں کرایا:
اے ولید! ہم خانوادہِ نبوت اور معدنِ رسالتؐ ہیں، ہم پر فرشتوں کی آمد ہوتی ہے، خدا کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، خدا نے اسلام کو ہمارے گھرانے سے شروع کیا اور ہم ہی پر اختتام کریگا لیکن یزید جسکی بیعت کی توُ توقع رکھتا ہے وہ شرابی ہے، بے گناہ افراد کا قاتل ہے،احکامِ خدا کو پامال کرنیوالا ہے، کھلے عام فسق و فجور کرتا ہے اور مجھ جیسا اس یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔
امام عالی مقامؓ نے اس خطاب میں اپنا موقف کھلے الفاظ میں بیان کردیا کہ وہ بیعتِ یزید کو غیر اسلامی اور غیر قانونی سمجھتے ہیں۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
زندہ حق از قوتِ شبیریؓ است
باطل آخر داغِ حسرت میری است
چوں خلافت رشتہ از قرآں گسیخت
حریت را زہر اندر کام ریخت
خاست آں سر جلوئہ خیر الامم
چوں سحاب قبلہ باراں در قدم
(رموز ِبیخودی)
مفہوم: حق قوتِ شبیریؓ سے زندہ ہے اور شاہی (باطل کااقتدار) ظاہری فتح کے باوجود آخر کار داغِ حسرت بن کر رہ جاتا ہے۔ جب خلافت نے قرآنِ پاک سے اپنا رشتہ توڑ لیا تو اس نے حریت کے حلق کے اندر زہر انڈیل دیا۔ یہ حالت دیکھ کر بہترین امت کا وہ جلوہ یوں اٹھا جیسے قبلہ کی جانب سے بارش سے بھرپور بادل۔
یعنی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ حق قوتِ شبیریؓ سے زندہ رہتا ہے اور حضرت امام حسینؓ جیسی اعلیٰ مرتبہ کی حامل شخصیت ہی ایسی خدمت انجام دیتی ہے۔ باطل شکست و نامرادی سے دوچار ہوتا ہے اور حق کا بول بالا قوتِ خیر سے ہوتا ہے جبکہ باطل قوتوں کا انجام ذلت و خواری ہے۔ بظاہر امام حسینؓ خاک و خون میں لت پت ہو گئے، ان کا سرِ مقدس کربلا سے دمشق لے جایا گیا، ان پر فرات کا پانی بند کر دیا گیا لیکن درحقیقت وہ سرخرو اور سرفراز ہوئے۔ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ جب خلافت کا تعلق قرآن سے منقطع ہوگیا اور مسلمانوں کے نظام میں حریتِ فکر و نظر باقی نہ رہی تو اس وقت امام حسینؓ اسطرح اٹھے جیسے قبلے کی جانب سے گھنگھور گھٹا اُٹھتی ہے اور اُٹھتے ہی جل تھل کر دیتی ہے۔ یہ گھنگھور گھٹا کربلا کی زمین پر برسی اور ویرانوں کو لالہ زار بنا دیا۔ امام حسینؓ کی موجِ خون نے حریت کا گلزار کھلا دیا۔ یزید بظاہر تو وہ جنگ جیت گیا مگر کچھ ہی عرصہ بعد اس کا تختہ الٹنے اور جس جس نے سادات پر ظلم کیا تھا ان کی بھیانک موت کا معاملہ آیا، ہر ایک جان گیا کہ حسینؓ جیت گئے اور یزید ہار گیا۔
حضرت علیؓ کا قول ہے :
جو ظلم کے ذریعے عزت حاصل کرنا چاہتا ہے اللہ اسے انصاف کے ذریعے ذلیل کرتا ہے۔
یزید کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ آج تک یزید ہر دور میں ذلیل و رسوا ہوا۔ یزید مردہ باد کی بازگشت اور حسینؓ زندہ باد کی آواز ہر طرف تاحشر جاری رہے گی۔
یزید کل وی مردہ سی تے اج وی مردہ باد اے
حسینؓ زندہ باد اے حسینؓ زندہ باد اے
واصفؔ علی واصفؔ نے کیا خوب کہا ہے:
حسینؓ مثبت،حسینؓ کامل، حسینؓ داخل، حسینؓ عاقل
یزید منفی، یزید ناقص، یزید خارج، یزید باطل
یہی کرشمہ ہے سچ کا واصفؔ یہی کرامت ہے کربلا کی
شہید کر کے یزید فانی، شہید ہو کر حسینؓ باقی
حضرت سخی سلطان باھوؒ پنجابی بیت میں حضرت امام حسینؓ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جے کر دین علم وِچ ہوندا، تاں سِر نیزے کیوں چڑھدے ھوُ
اٹھارہ ہزار جو عالم آہا، اَگے حسینؓ دے مردے ھوُ
جے کجھ ملاحظہ سرورؐ دا کردے، تاں تمبو خیمے کیوں سڑدے ھوُ
جے کر مندے بیعت رسولیؐ، پانی کیوں بند کردے ھوُ
پر صادق دین تنہاں دا باھوؒ، جو سر قربانی کردے ھوُ
سچا دین تو ان عاشقوں کا ہوتا ہے جو سر تو قربان کر دیتے ہیں لیکن اپنے عشق پر حرف نہیں آنے دیتے۔ حضرت امام حسینؓ کے عشق میں علامہ اقبالؒ بھی چپ نہ رہے اور آپؒ فرماتے ہیں:
در نوائے زندگی سوز از حسینؓ
اہلِ حق حریت آموز از حسینؓ
(رموزِ بیخودی)
مفہوم: میری زندگی کے نغموں میں سوز حسینؓ سے ہے اوراہلِ حق نے ہمیشہ آزادی کا سبق حسینؓ سے حاصل کیا۔
پیغام شہادتِ امام حسینؓ
سیدّ الشہداحضرت امام حسینؓ کی شہادت سے جو ہمیں سبق اور پیغام ملتا ہے وہ یہ ہے:
ایمان والا اپنے خون کا آخری قطرہ بہہ جانے تک حق و صداقت پر قائم رہتا ہے۔باطل قوتوں سے مرعوب ہو کر حق کو نہیں چھوڑتا۔
باطل، یزیدی خصلتوں کے حامل لوگوں سے خود کو دور رکھے اور امام حسینؓ کی پیروی کرتے ہوئے رہبرِکامل کا دامن نہ چھوڑے۔ فسق و فجور والا کام نہ کرے اور غلط لوگوں کو چھوڑ دے۔ ایسے لوگوں کا ساتھ نہ دے بلکہ رفقائے حسینؓ کی طرح وفاداری کے ساتھ رہبر کامل اکمل کا دامن تھامے رکھے۔
ظاہری قوت کو دیکھ کر مرعوب نہ ہوجائے اور حق کا راستہ نہ چھوڑے۔
اسلام کا سرمایۂ حیات یزیدیت نہیں بلکہ حسینیت ہے جس کا عملی نمونہ امام حسینؓ نے کربلا میں پیش کیا۔
اسلامی طرزِ زندگی کو قائم رکھے، اسلامی رنگ و روپ کی بحالی کے لئے صداقت، حقانیت، جہدِمسلسل اورعملِ پیہم میں حسینی کردار اور حسینی جذبہ ایثار و قربانی کا عملی مظاہرہ کرے۔
اقتدار کی طاقت جان تولے سکتی ہے مگر ایمان نہیں۔ اگر ایمان کی طاقت قوی ہوگی تو اس کے عزم و استقلال میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ اور یہ رہبرِ کامل اکمل کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے دعوتِ خاص ہے کہ آئیں!سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت ہو کر کربلا کی حقیقت سے آگاہی حاصل کریں اور حضرت امام حسینؓ کا سچا عشق حاصل کریں۔ کیونکہ عاشقوں کی صحبت سے ہی عشق حاصل ہوتا ہے۔
استفادہ کتب:
۱۔شمس الفقرا: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔سیدّ الشہدا حضرت امام حسینؓ اور یزیدیت: ایضاً
۳۔ آرٹیکل: کربلا درسگاہِ دین و عشق، شمارہ جولائی2020، ماہنامہ سلطان الفقر لاہور، تحریر: مسز عنبرین مغیث سروری قادری
۴۔ رموزِ بیخودی: ڈاکٹر علامہ اقبالؒ
۵۔ آرٹیکل: حضرت امام حسینؓ از ڈاکٹر صغرا صدف
قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
(مولانا محمد علی جوہر)
آپؐ نے ارشاد فرمایا:
حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔
اَلْحُسَیْنُ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنَ الْحُسَیْنِ
ترجمہ: حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔
سلام یا حسین رض
حسین مثبت حسین کامل
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
عشق فرمودہ قاصد سے سبک گام عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنی پیغام ابھی
Ya Hussain ibn Ali ra pe lakhoun salam
بہترین
سلام یا حسین ابن علی۔۔ حسینیت زندہ باد
.Salam Ya Hussain R.A Beautiful ❤️
آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’حسنؓ و حسینؓ دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری۔3753)
Bohat behtreen mazmoon ha
سلام یا حسین
Bohat accha likha hai
قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
بہترین مضمون ہے
بہت اچھا لکھا ہے
سچا دین تو ان عاشقوں کا ہوتا ہے جو سر تو قربان کر دیتے ہیں لیکن اپنے عشق پر حرف نہیں آنے دیتے۔
اسلام اپنے وجود میں محمدیؐ ہے اور اپنی بقا میں حسینیؓ ہے۔حسینؓ کا وجود مصطفیؐ سے ہے اور اسلام کی بقا حسینؓ سے ہے۔اسلام کی پیروی حسینؓ کے قدموں سے ملتی ہے کیونکہ دینِ اسلام کی بقا حسینؓ سے ہے۔
حسینؓ مثبت،حسینؓ کامل، حسینؓ داخل، حسینؓ عاقل
یزید منفی، یزید ناقص، یزید خارج، یزید باطل
یہی کرشمہ ہے سچ کا واصفؔ یہی کرامت ہے کربلا کی
شہید کر کے یزید فانی، شہید ہو کر حسینؓ باقی
قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
(مولانا محمد علی جوہر)
سلام یا حسین علیہ السلام
Behtareen
بہترین
آپؐ نے ارشاد فرمایا:
اَلْحُسَیْنُ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنَ الْحُسَیْنِ
ترجمہ: حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔
دین است حسین, دین پناہ است حسین
Salaam ya Hussain
ہر ایک کے نسب اور آل کو فنا ہے مگر نسبِ فاطمہؓ اور آلِ فاطمہؓ کو فنا نہیں اس لیے کہ نسبِ فاطمہؓ، نسبِ مصطفیؐ ہے اور آلِ فاطمہؓ، آلِ مصطفیؐ ہے۔