حضرت بایزید بسطامی ؒ اور راہب کا دلچسپ مناظرہ Bayazid Bastami Aur Rahib Ka Munazra


4.8/5 - (45 votes)

حضرت بایزید بسطامیؒ  اور راہب  کا دلچسپ مناظرہ 

 Bayazid Bastami Aur Rahib Ka Munazra

حضرت سیدّنا بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں: ایک دن میں کسی سفر میں اپنی خلوت وراحت سے لطف پا رہا تھا۔ غور و فکر میں مشغول اور یادِالٰہی عزّوجل سے مانوس تھا کہ اچانک میرے دل میں ندادی گئی:
’’اے ابویزید! سمعان کے گرجاگھر جاؤ اور راہبوں کے ساتھ اُن کی عید اور قربانی میں شرکت کرو۔ اس میں ایک خبر اور اہم معاملہ ہے۔‘‘ فرماتے ہیں: میں نے اس خیال سے اللہ عزوجل کی پناہ طلب کی اور کہا میں اس کی پرواہ نہیں کروں گا۔ جب رات ہوئی تو خواب میں ہاتفِ غیبی کی آواز آئی۔ اس نے وہی بات دہرائی۔ میں ہانپتے کا نپتے بیدار ہو کر اُٹھ بیٹھا اور ابھی اسی سوچ میں گم تھا کہ دل میں پھر ندا آئی:
’’تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں، تم ہمارے ولی و نیک بندے ہو، تمہارا نام فرمانبرداروں کے رجسٹر میں درج ہے لیکن ہماری خاطر راہبوں کا سا لباس اور زنار پہن لو تم پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘ 

آپؒ فرماتے ہیں ’’میں صبح سویرے اٹھا اور حکم کی بجا آوری میں جلدی کی۔ راہبوں کا سا لباس پہنا اور سمعان کے گرجا گھر پہنچ گیا۔ جب ان کا بڑا پادری آیا تو تمام راہب اکٹھے ہو گئے اور اس کو سننے کے لئے سب نے کان لگا دیئے لیکن اس کے پاؤں لڑکھڑا گئے اور وہ کوئی بات نہ کر سکا گویا اس کے منہ میں لگام دے دی گئی ہو۔ یہ کیفیت دیکھ کر پادریوں اور راہبوں نے اس سے پوچھا ’’اے سردار! کون سی چیز آپ کی گفتگو میں مانع ہے؟ ہم تو آپ کی باتوں سے ہدایت پاتے اور آپ کے علم کی پیروی کرتے ہیں۔‘‘ اس نے جواب دیا ’’مجھے یہ چیز گفتگو سے مانع ہے کہ آج تمہارے درمیان کوئی محمدی بیٹھا ہے اور وہ تمہارے دین کا امتحان لینے اور تم پر حملہ کرنے آیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا: ہمیں دکھا دیں، ہم اسے ابھی قتل کر دیتے ہیں۔ اس نے کہا ’’اسے دلیل و برہان کے ساتھ قتل کرو، میں اس سے امتحان لینا چاہتا ہوں، اس سے عِلمُ الْاَدْیَان  (یعنی دینوں کے علم) کے متعلق سوالات کروں گا، اگر اس نے صاف صاف جوابات دے دیئے تو ہم اسے کچھ نہ کہیں گے اور اگر وضاحت نہ کر سکا تو اسے قتل کر دیں گے۔ امتحان کے وقت ہی آدمی عزت پاتا یا ذلیل ہوتا ہے۔‘‘ سب راہب بولے: آپ جو چاہتے ہیں کریں، ہم یہاں مفید باتیں سیکھنے کے لئے ہی حاضر ہوئے ہیں۔ 

اب ان کابڑا سردار کھڑا ہوا اور زور سے آواز دی ’’اے محمدی! تجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا واسطہ! جہاں بھی ہے کھڑا ہو جا تاکہ سب تجھے دیکھ لیں۔‘‘

 حضرت سید نا با یزید بسطامیؒ اس طرح کھڑے ہوئے کہ آپؒ کی زبان پر حمد و ثنا اور ذکرِالٰہی جاری تھا۔ پادریوں کے سردار نے کہا ’’اے محمدی! میں تجھ سے کچھ سوالات کروں گا اور سن! اگر تو نے ان کے جوابات وضاحت کے ساتھ دے دیئے تو ہم تیری پیروی کریں گے ورنہ تجھے قتل کر دیں گے۔‘‘ 

حضرت سیدّنا ابو یزیدبسطامیؒ نے ارشاد فرمایا ’’نقلی وعقلی علوم میں سے جو چاہو پوچھو، اللہ عزوجل ہماری گفتگو کو ملاحظہ فرما رہا ہے۔‘‘ بڑے پادری نے پوچھا:

(1)مجھے اُس ایک کے متعلق بتاؤ جس کا دوسرا نہیں۔
(2)ان دو کے متعلق بتاؤ جن کا تیسرا نہیں۔
(3)ان تین کے متعلق بتاؤ جن کا چوتھا نہیں۔
(4) ان چار کے متعلق بتاؤ جن کا پانچواں نہیں۔
 (5) ان پانچ کے متعلق بتاؤ جن کا چھٹا نہیں۔
(6) ان چھ کے متعلق بتاؤ جن کا ساتواں نہیں ۔
(7)ان سات کے متعلق بتاؤ جن کا آٹھواں نہیں۔
(8)ان آٹھ کے متعلق بتاؤ جن کا نواں نہیں۔
 (9)ان نو کے متعلق بتاؤ جن کادسواں نہیں۔
 (10)عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ (یعنی مکمل دس دن) سے مراد کون سے دن ہیں؟
(11)ان گیارہ کے متعلق بتاؤ جن کابارہواں نہیں۔
 (12)ان بارہ کے متعلق بتاؤ جن کا تیرہواں نہیں۔
(13)ان تیرہ کے متعلق بتاؤ جن کا چودہواں نہیں۔
(14)ایسی قوم کے متعلق بتاؤ جنہوں نے جھوٹ بولا پھر بھی جنت میں داخل کر دیئے گئے۔
 (15)اس قوم کے متعلق بتاؤ جنہوں نے سچ بولا مگر آگ میں داخل کر دیئے گئے۔
(16)تمہارے جسم میں تمہارے نام کا ٹھکانہ کہاں ہے؟
(17) وَ الذّٰرِیٰتِ ذَرْوًا
(18)فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا 
(19) فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًا  اور
(20)فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا (سورۃ الذاریت ۔ 4-1)سے کیا مراد ہے؟
(21)کون سی شے بغیر روح کے سانس لیتی ہے؟
(22) ان چودہ کے متعلق بتاؤ جنہوں نے ربّ العلمین جلّ جلالہٗ سے کلام کیا؟
(23)کون سی قبر صاحبِ قبر کو لے کر چلی؟
(24)وہ کون سا پانی ہے جو آسمان سے اترانہ زمین سے نکلا؟
(25)ان چار کے نام بتاؤ جو باپ کی پشت سے پیدا ہوئے نہ ماں کے بطن سے؟
(26)زمین پر سب سے پہلا خون کس کا بہایا گیا؟
(27)اس شے کے متعلق بتاؤ جسے اللہ عزوجل نے پیدا کیا اور پھر خود ہی خرید لیا؟
(28)ایسی شے کے متعلق بتاؤ جس کو اللہ عزوجل نے پیدا کیا اور خود ہی ناپسند فرمایا؟
(29) اس چیز کے متعلق بتاؤ جس کو اللہ عزو حل نے پیدا کیا اور عظمت بھی بخشی؟
(30)اس چیز کے متعلق بتاؤ جس کو اللہ عزو حل نے پیدا کیا اور پھر خود ہی اس کے متعلق سوال کیا؟
(31)سب سے افضل عورتیں کون ہیں؟(32)سب سے افضل دریا کون سے ہیں؟
(33)افضل ترین پہاڑ کون سا ہے؟
(34)سب سے افضل چوپایہ کون سا ہے؟
(35)افضل ترین مہینہ کون سا ہے؟
(36) سب سے افضل رات کون سی ہے؟
(37)العامۃ  سے کیا مراد ہے؟
(38)وہ کون سا درخت ہے جس کی بارہ شاخیں ہیں، ہر شاخ پر تیس پتے ہیں اور ہر پتے میں پانچ رنگ ہیں، دو سورج کی روشنی میں اور تین سائے میں؟
(39)وہ کون سی چیز ہے جس نے بیت الحرام کا حج کیا اور طواف کیا حالانکہ اس میں روح نہیں اور نہ ہی اس پر حج فرض تھا؟
(40)اللہ عزوجل نے کتنے نبی پیدا فرمائے؟
(41) ان میں سے کتنے مرُسل اور کتنے غیر مرسل ہیں؟
(42)وہ کون سی چار چیزیں ہیں جن کا رنگ اور ذائقہ مختلف ہے مگر اصل ایک ہے؟
(43)نَقِیْر  کیا ہے؟
(44)قِطْمِیر  کیا ہے؟
(45)قبیل کیا ہے؟
(46) السَّبَد کیا ہے؟
(47) اللَّبَد  کیا ہے؟
(48) الظلم کیا ہے؟
(49)اکرم کیا ہے؟
(50)کتا بھونکنے میں کیا کہتا ہے؟
(51)گدھا رینکنے میں کیا کہتا ہے؟
(52)بیل ڈکرانے میں کیا کہتا ہے؟
(53)گھوڑا ہنہنانے میں کیا کہتا ہے؟
(54)اونٹ بلبلانے میں کیا کہتا ہے؟
(55)مور اپنی چیخ و پکار میں کیا کہتا ہے؟
(56)تیتر اپنی سیٹی میں کیا کہتا ہے؟
(57)بلبل اپنے نغموں میں کیا کہتا ہے؟
(58)مینڈک اپنی تسبیح میں کیا کہتا ہے؟
(59) ناقوس (نصاریٰ کا گھنٹہ ہے جسے وہ اپنی عبادت کے وقت بجاتے ہیں) اپنی آواز میں کیا کہتا ہے؟
(60)ایسی مخلوق کے متعلق بتاؤ جنہیں اللہ عزو جل نے الہام فرمایا وہ جنوں میں سے ہے، نہ انسانوں میں سے اور نہ ہی فرشتوں میں سے؟
(61)جب دن نکلتا ہے تو رات کہاں چلی جاتی ہے؟
(62)اورجب رات چھا جاتی ہے تودن کہاں چلا جاتا ہے؟

حضرت سیدّ نا ابو یزید بسطامیؒ نے پوچھا’’کیا ان کے علاوہ بھی کوئی سوال ہے؟‘‘
 تو سب پادریوں نے کہا: نہیں۔

آپؒ نے ارشاد فرمایا ’’اگر میں نے ان کے جوابات صحیح طور پر دے دیئے تو کیا تم اللہ عزو جل اوراس کے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ  علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لے آؤ گے؟‘‘ سب نے کہا: جی ہاں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی’’ یا اللہ عزو جل! تو ان کی باتوں پر گواہ ہے۔‘‘ پھر فرمایا ’’اب اپنے سوالات کے جوابات سنتے جاؤ‘‘:

1)وہ ایک جس کا دوسرا نہیں تو وہ اللہ واحد قہار ہے۔
2)وہ دو جن کا تیسرا نہیں تو وہ دن اور رات ہیں جیسا کہ اللہ عزو جل کا فرمانِ عالیشان ہےوَجَعَلْنَا الَّیْلَ وَالنَّہَارَ اٰیَتَیْنِ (سورۃ بنی اسرائیل ۔12) ترجمہ : اور ہم نے رات اور دن کو(اپنی قدرت کی) دو نشانیاں بنایا۔
(3) وہ تین جن کا چوتھا نہیں تو وہ عرش، کرسی اور قلم ہیں۔
(4)وہ چار جن کا پانچواں نہیں تو وہ آسمانی کتابیں تورات، انجیل، زبور اور قرآنِ پاک ہیں۔
(5) وہ پانچ جن کا چھٹا نہیں تو وہ پانچ نمازیں ہیں جو ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہیں۔
(6) وہ چھ جن کا ساتواں نہیں تو وہ چھ دن ہیں۔ اللہ عز و جل ان کا ذکر قرآن پاک میں فرماتا ہے: وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِتَّۃِ أَیَّامٍ (سورۃ ق۔ 38) ترجمہ: ا ور بے شک ہم نے آسمانوں اور زمین کواور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں بنایا۔
(7) وہ سات جن کا آٹھواں نہیں تو وہ سات آسمان ہیں۔ چنانچہ اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے: سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا (سو رۃ الملک۔3) ترجمہ : سات آسمان ایک کے اوپر دوسرا۔
(8) وہ آٹھ جن کا نواں نہیں تو وہ عرش اٹھانے والے آٹھ فرشتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے:وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ ( سورۃ الحاقہ۔ 17) ترجمہ : اور اس دن تمہارے ربّ کا عرش اپنے اوپر آٹھ فرشتے اٹھائیں گے۔
(9) وہ نوجن کا دسواں نہیں تو وہ نو افراد کی جماعت تھی جو فساد برپا کرنے والے تھے۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:وَکَانَ فِی الْمَدِیْنَۃِ تِسْعَۃُ رَھْطٍ یُّفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُونَ (سورۃ النمل۔48) ترجمہ : اور (قومِ ثمود کے)شہر میں نو شخص تھے کہ زمین میں فساد کرتے اوراصلاح نہیں کرتے تھے۔
(10)عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ (یعنی مکمل دس دن) سے مراد وہ دس دن ہیں جن میں حجِ تمتع کرنے والا ہدی کا جانور نہ پانے کی صورت میں روزے رکھتا ہے۔ چنانچہ ربّ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ أَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَسَبْعَۃٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ط تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ   (سورۃ البقرہ۔ 196) ترجمہ : تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات جب اپنے گھر پلٹ کر جاؤ یہ پورے دس ہوئے۔
(11)وہ گیارہ جن کا بارہواں نہیں تو وہ حضرت سید نا یوسف علیہ السلام کے بھائی ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ حضرت یوسف علیہ السلام کا قول حکایت کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:  إِنِّیْ رَأَیْتُ أَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا (سورۃ یوسف۔4) ترجمہ : میں نے (خواب میں)گیارہ ستارے دیکھے۔
(12)وہ بارہ جن کا تیرہواں نہیں تو وہ مہینوں کی تعداد ہے۔ چنانچہ ربّ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ (سورۃ التوبۃ۔36) ترجمہ : بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہے اللہ کی کتاب میں ۔
(13)وہ تیرہ جن کا چودہواں نہیں تو وہ حضرت سید نا یوسف علیہ السلام کا خواب ہے۔ جیسا کہ ربّ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:إِنِّیْ رَأَیْتُ أَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَیْتُہُمْ لِیْ سَاجِدِیْنَ (سورۃ یوسف۔4) ترجمہ : میں نے (خواب میں)گیارہ ستارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے دیکھا۔
(14)وہ قوم جنہوں نے جھوٹ بولا پھر بھی جنت میں داخل کر دیئے گئے تو وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی ہیں۔ جیسا کہ ربّ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:قَالُوْا یٰٓاَبَانَآ إِنَّا ذَھَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَکْنَا یُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَأَکَلَہُ الذِّئْبُ (سورۃیوسف۔17)  ترجمہ : بولے اے ہمارے باپ! ہم لوگ دوڑ میں مقابلہ کرنے چلے گئے اور ہم نے یوسف کو اپنے اسباب کے پاس چھوڑا تو اسے بھیڑیا کھا گیا۔‘‘ انہوں نے جھوٹ بولا پھر بھی جنت میں داخل کر دیئے گئے۔
(15)وہ قوم جنہوں نے سچ بولا لیکن جہنم میں داخل کر دیئے گئے تو وہ یہود و نصاری ہیں۔ اور وہ ان کا یہ قول ہے:وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیْئٍ  ص وَّقَالَتِ النَّصٰرٰی لَیْسَتِ الْیَھُوْدُ عَلٰی شَیْئٍ     (سورۃ البقرۃ۔113) ترجمہ :اور یہودی بولے نصرانی کچھ نہیں اور نصرانی بولے یہودی کچھ نہیں۔ انہوں نے سچ کہا لیکن جہنم میں داخل کر دیئے گئے۔
 (16)تمہارے جسم میں تمہارے نام کا ٹھکانہ کان ہیں( یعنی جب کوئی نام بولا جاتا ہے تو کان ہی سنتے ہیں)۔
(17)وَالذّٰرِیٰتِ ذَرْوًا (یعنی اُڑاکر بکھیردینے والی ہواؤں کی قسم) سے مراد چار ہوائیں ہیں۔
(18)فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا (یعنی بارِ گراں اٹھانے والی بدلیوں کی قسم)سے مراد بادل ہیں۔ جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْأَرْضِ (سورۃ البقرۃ۔ 164) ترجمہ : اور وہ بادل کہ آسمان وزمین کے بیچ میں حکم کا پابندہے۔
(19) فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًا (یعنی نرم چلنے والیاں) سے مراد دریا میں چلنے والی کشتیاں ہیں۔
(20)فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا (پھر کام کو تقسیم کرنے والے)سے مراد ملائکہ ہیں جو لوگوں کا رزق پندرہ شعبان سے دوسرے سال پندرہ شعبان تک تقسیم کرتے ہیں۔
(21)جن چودہ نے ربّ العلمین سے کلام کیا تو وہ سات آسمان اور سات زمینیں ہیں۔ چنانچہ ربّ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: فَقَالَ لَھَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا أَوْ کَرْھًا قَالَتَآ أَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ (سورۃ حم السجدہ۔11) ترجمہ : تو اس (آسمان) سے اور زمین سے فرمایا کہ دونوں حاضر ہو خوشی سے چاہے ناخوشی سے، دونوں نے عرض کی کہ ہم رغبت کے ساتھ حاضر ہوئے۔
 (22)وہ قبر جو صاحبِ قبر کو ساتھ لے کر چلی تو وہ حضرت یونس علیہ السلام کی مچھلی ہے۔
(23)جو چیز بلا روح ہے مگر سانس لیتی ہے تو وہ صبح ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ  (سورۃا لتکویر۔18)  ترجمہ: اور صبح کی قسم جب دم لے۔
 (24 )وہ پانی جو آسمان سے اُترا نہ زمین سے نکلا تو وہ گھوڑوں کا پسینہ ہے جس کو شیشے کی بوتل میں بھر کر ملکہ بلقیس نے حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کو بھیجا تھا۔
(25) وہ چار نفوس جو باپ کی پشت سے پیدا ہوئے نہ ماں کے بطن سے تو وہ حضرت آدم علیہ السلام، حضرت حواؑ، حضرت اسماعیل علیہ السلام کا مینڈھا اور حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی ہیں۔
(26)زمین پر سب سے پہلا خون ہابیل کا بہایا گیا جب قابیل نے اسے قتل کیا۔
(27)ایسی چیز جس کو اللہ عزو جل نے پیدا کیا پھر خرید لیا تو وہ مومن کی جان ہے۔ جیسا کہ وہ خودارشاد فرماتا ہے:اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنْفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ بِأَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَط  (سورۃالتوبۃ۔111) ترجمہ : بے شک اللہ نے اہلِ ایمان سے ان کے مال اور جان خرید لئے ہیں اس بدلے پر کہ ان کے لئے جنت ہے۔
(28)ایسی شے جسے اللہ عزو جل نے پیدا کیا اور نا پسند کیا تو وہ گدھے کی آواز ہے۔ جیسا کہ وہ خود ارشاد فرماتا ہے:اِنَّ اَنْکَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ (سورۃ لقمان۔19) ترجمہ:بے شک سب آوازوں میں بری گدھے کی آوازہے۔
 (29) ایسی چیز جسے اللہ عزو جل نے پیدا کیا اور اسے بڑا کہا تو وہ عورتوں کا مکر ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: إِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیمٌ (سورۃ یوسف۔28) ترجمہ: بے شک تم عورتوں کافریب بڑا(خطرناک) ہوتا ہے۔
(30) وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا پھر اس کے متعلق سوال کیا تو وہ حضرت سید ناموسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کا عصا ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ یٰمُوْسٰی ۔ قَالَ ہِیَ عَصَایَ ج اَتَوَکَّؤُا عَلَیْہَا وَ اَہُشُّ بِہَا عَلٰی غَنَمِیْ (سورۃ طٰہٰ۔18-17) ترجمہ : اور یہ تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے اے موسیٰ! انہوں نے کہا: یہ میرا اعصا ہے، میں اس پر تکیہ لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں۔
(31) سب سے افضل عورتیں اُمّ البشر حضرت اماں حواعلیہا السلام، حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت آسیہ علیہا السلام اور حضرت مریم بنتِ عمران علیہا السلام ہیں۔
(32)سب سے افضل دریا سیون پیچون، دجلہ، فرات اور مصر کا دریائے نیل ہیں۔
(33)سب سے افضل پہاڑ طور ہے۔
(34)سب سے افضل چوپایہ گھوڑا ہے۔
(35)سب سے افضل مہینہ رمضان المبارک ہے جیسا کہ اللہ عزو جل ارشاد فرماتا ہے:شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ     (سورۃالبقرۃ۔185) ترجمہ : رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا۔
 (36)سب سے افضل رات شبِ قدر ہے چنانچہ اللہ عزو جل ارشاد فرماتا ہے:لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ۵لا خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ (سورۃ القدر ۔3) ترجمہ : شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہترہے۔
 (37)’’الطامۃ‘‘ سے مراد قیامت ہے۔
(38) وہ درخت جس کی بارہ (12) شاخیں ہیں، ہر شاخ میں تیس(30) پتے، ہر پتے میں پانچ رنگ، دو سورج کی روشنی میں اور تین سائے میں، تو وہ درخت سال ہے، بارہ مہینے اس کی بارہ شاخیں ہیں، تیس پتے تیس دن ہیں اور پانچ رنگ پانچ نمازیں ہیں، تین سائے میں یعنی مغرب، عشاء اور فجر، دو روشنی میں یعنی ظہر اور عصر۔
(39) ایسی چیز جس میں روح نہیں اور نہ ہی اس پر حج واجب تھا پھر بھی اس نے کعبہ مبارکہ کا طواف کیا تو وہ حضرت سیدّنانوح علیہ السلام کی کشتی ہے۔
 (40)اللہ تعالیٰ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار (124,000) انبیا پیدا فرمائے۔
(41)ان میں سے تین سو تیرہ (313) رسول ہیں۔
 (42)چار اشیا جن کا ذائقہ اور رنگ مختلف ہے مگر اصل ایک ہے تو وہ آنکھ، ناک، منہ اور کان ہے۔ آنکھ کا پانی نمکین، منہ کا پانی میٹھا، ناک کا پانی ترش اور کان کا پانی کڑوا ہوتا ہے۔
(43) نقیر  ایک جھلی ہے جو گٹھلی کے اوپر ہوتی ہے۔
(44 )قِطْمِیْر انڈے کے چھلکے کو کہتے ہیں۔
(45)قبیل سے مراد گٹھلی کے اندر کاگودا ہے۔
(46 )السَّبَد  اور
 (47 )اَللَّبد  بھیڑ اور بکری کے بالوں کو کہتے ہیں۔
(48) القلم اور
(49 )الکریم ہمارے باپ حضرت سیدنا آدم صفی اللہ علیٰ نبینا وعلیہ السلام سے پہلے کی جنات قومیں ہیں
(50)گدھا جب شیطان کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے: اللہ عزوجل نا جائزٹیکس لینے والے پر لعنت فرمائے۔
(51)کتا اپنے بھونکنے میں کہتا ہے، وَیْلٌ لَاَہْلِ النَّارِ مِنْ غَضَبِ الْجَبَّارِ  یعنی دوزخیوں کے لئے ہلاکت ہے کہ اللہ کے غضب میں ہیں۔
(52 )بیل اپنے ڈکرانے میں کہتا ہے:سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ 
(53 )گھوڑا اپنے ہنہنانے میں کہتا ہے ’’پاک ہے میری حفاظت فرمانے والا جب جنگجو لڑتے ہیں اور مردانِ کارلڑائی میں مصروف ہوتے ہیں۔‘‘
(54 )اونٹ اپنے بلبلانے میں کہتا ہے:حَسْبِیَ اللّٰہُ وَکَفٰی بِہٖ وَکِیْلًا  یعنی میرے لئے اللہ عزو جل ہی کافی اور وہی میرا کار ساز ہے۔
(55)مور اپنی چیخ و پکار میں کہتا ہے:اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی  (سورۃ طٰہٰ۔5)   ترجمہ: وہ بڑی رحمت والا اس نے عرش پر استویٰ فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے۔
(56 )تیتر اپنی سیٹی میں کہتا ہے بِالشُّکُرِ تَدُوْمُ النِّعَمُ تَعَالٰی  یعنی اللہ عزوجل کا شکر ادا کرنے سے نعمتیں ہمیشہ رہتی ہیں۔
(57)بلبل اپنے نغموں میں یوں گویا ہوتا ہے   فَسُبْحٰنَ اللّٰہِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَحِیْنَ تُصْبِحُوْنَ (سورۃ الروم۔ 17) ترجمہ: تو اللہ کی پاکی بولو جب تم شام کرو اور جب تم صبح کرو۔
(58)مینڈک اپنی تسبیح میں کہتا ہےسُبْحَانَ الْمَعْبُوْدِ فِی الْبَرَارِی وَالْقِفَارِ سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْجَبَّارِ  یعنی پاک ہے جنگلوں اور چٹیل میدانوں میں عظیم معبود، پاک ہے خدائے جبار۔
(59 )ناقوس اپنی آواز میں کہتا ہے : اللہ عزو جل پاک ہے، وہ حق ہے، اے ابن ِآدم! اس دنیا کے مشرق و مغرب میں دیکھ! کسی کو ہمیشہ باقی رہنے والا نہ پائے گا۔
(60 )ایسی مخلوق جسے اللہ عز و جل نے الہام فرمایا، وہ جنوں میں سے ہے نہ انسانوں میں سے اور نہ ہی ملائکہ میں سے تو وہ شہد کی مکھی ہے۔ چنانچہ اللہ عزو جل ارشاد فرماتا ہے: وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوْنَ  (سورۃالنحل۔68) ترجمہ : اور تمہارے ربّ نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں اور چھتوں میں۔
 (61)جب دن آتا ہے تو رات کہاں جاتی ہے؟ اور
(62 )جب رات چھا جاتی ہے تو دن کہاں چلا جاتا ہے؟ یہ تو اللہ عزو جل کے پوشیدہ علم میں ہے، کسی نبی یا مقرب فرشتے پر بھی ظاہر نہیں۔

مذکورہ تمام جوابات دینے کے بعد حضرت سیدّنا ابو یزید بسطامی نے پوچھا ’’کیا تمہارا کوئی سوال باقی ہے؟‘‘ انہوں نے کہا ’’نہیں۔‘‘

 تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے بڑے پادری سے فرمایا’’ بتاؤ آسمانوں اور جنت کی چابی کیا ہے؟‘‘ 

ان کا بڑا پادری خاموش رہا تو سب نے اسے کہا: آپ نے اتنے سوالات پوچھے اور انہوں نے سب کے جوابات دیئے، اب انہوں نے ایک ہی سوال کیا اور آپ جواب دینے سے عاجز آگئے۔ پادری نے کہا’’میں عاجز نہیں آیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ میں جواب دوں گا تو تم تسلیم نہیں کرو گے۔‘‘ 

انہوں نے کہا’’ کیوں نہیں، ہم مانیں گے، کیونکہ آپ ہمارے بزرگ ہیں، آپ جو بھی فرمائیں گے ہم سر تسلیم خم کریں گے۔‘‘ 

تو بڑے پادری نے کہا ’’آسمانوں اور جنت کی چابی کلمہ طیب لَآ اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ 
‘‘ ہے۔ جب دیگر پادریوں اور راہبوں نے سنا تو وہ سب کے سب مسلمان ہو گئے۔ انہوں نے گرجا گھر توڑ کر اسے مسجد میں تبدیل کر دیا ور اپنے اپنے زنار بھی توڑ دیئے۔ حضرت سیدنا ابویزید بسطامیؒ کو غیب سے آواز آئی ’’اے ابو یزید! تو نے ہمارے لئے ایک زنار باندھا تو ہم نے تیری خاطر پانچ سوز نارتو ڑ دیئے۔‘‘ 


21 تبصرے “حضرت بایزید بسطامی ؒ اور راہب کا دلچسپ مناظرہ Bayazid Bastami Aur Rahib Ka Munazra

  1. ’’اے ابو یزید! تو نے ہمارے لئے ایک زنار باندھا تو ہم نے تیری خاطر پانچ سوز نارتو ڑ دیئے۔‘‘
    SubhanAllah 💗💗💗

  2. وہ بڑی رحمت والا اس نے عرش پر استویٰ فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے

  3. حضرت بایزید بسطامی کےجوابات آپ کی فہم و فراست اور اللہ پاک کی کبریائی کا ثبوت ہیں۔ بہترین تحریر

  4. حضرت بایزید بسطامیؒ بہت اعلیٰ پائے کے ولی اللہ تھے

  5. بےشک اللہ اپنے محبوبین کی حفاظت فرماتا ہے اور انہیں اپنے ہاں سے بےشمار عزت و تکریم سے نوازتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں