ترکِ دنیا کیا ہے؟ Tark-e-Dunya Kia Hai?


4.5/5 - (45 votes)

ترکِ دنیا کیا ہے؟

  Tark-e-Dunya  Kia Hai?

تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

’’ترکِ دنیا کیا ہے؟‘‘          بلاگ آڈیو میں سسنے کے لیے اس ⇐  لنک  ⇒ پر کلک کریں

اکثر لوگ صاحبِ حیثیت ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ نعمتوں کو خود پر حرام کر لیتے ہیں، اچھا لباس پہنتے ہیں نہ اچھا کھانا کھاتے ہیں اور نہ ہی دیگر اشیائے ضروریہ سے استفادہ کرتے ہیں حالانکہ ایسا کرنا کفرانِ نعمت ہے۔ یہ کم فہم لوگ اپنے اس عمل کی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ترکِ دنیا کا فرمایا۔ بیشک نہ صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بلکہ دیگر انبیا کرام، صوفیا کرام اور فقرا کاملین نے بھی ترکِ دنیا کا حکم دیا اور فرمایا کہ حبِ دنیا ہر برائی کی جڑ ہے۔ تو کیا ترکِ دنیا سے مراد یہ ہے کہ ہر تعلق اور رشتہ توڑ کر، اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہر نعمت سے منہ موڑ کر، اہل و عیال اور گھربار چھوڑ کر ویرانوں یا بیابانوں میں نکل جائیں؟ ایسا بالکل بھی نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کوئی عمل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرتِ مطہرہ سے ثابت ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیشمار جگہ پر اپنی عطا کردہ نعمتوں کا تذکرہ کیا ہے کہ اس نے لوگوں کو اپنے فضل سے فلاں فلاں نعمتیں عطا کی ہیں اور پوچھابھی ہے کہ تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَکُلُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ حَلٰلًا طَیِّبًاص وَّاشْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ (سورۃ النحل۔114)
ترجمہ: پس جو حلال اور پاکیزہ رزق تمہیں اللہ نے بخشا ہے، تم اس میں سے کھایا کرو اور اللہ کی نعمتوں کا شکر بجا لاتے رہو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔

وَ اٰتٰکُمْ مِّنْ کُلِّ مَاسَاَلْتُمُوْہُ ط وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا (سورۃ ابراہیم۔34)
ترجمہ: اور اس نے تمہیں ہر وہ چیز عطا فرما دی جو تم نے اس سے مانگی، اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو پورا شمار نہیں کر سکو گے۔

ذیل میں دو احادیث بطور حوالہ درج کی جا رہی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا استعمال ممنوع نہیں۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے۔ آپؐ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’کیا اسے کوئی چیز نہیں ملتی کہ اس سے اپنے بالوں کو سنوار لے؟‘‘ آپؐ نے ایک دوسرے آدمی کو دیکھا جس کے کپڑے میلے ہو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’کیا اُسے کوئی چیز نہیں ملتی کہ اس سے اپنے کپڑے دھو لے؟‘‘ (سنن ابوداؤد 4062)
ایک آدمی نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کیا ’’میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’بیشک اللہ تعالیٰ جمال کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (جامع ترمذی 1999)

ترکِ دنیا سے پہلے دنیا کو سمجھنا ضروری ہے کہ دنیا سے مراد کیا ہے؟  ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں رکاوٹ بنے اور اس کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی معرفت اور قرب پانے سے رک جائے یا اللہ سے منہ موڑ کر اس شے میں مشغول ہو جائے،وہ دنیاہے ۔ لہٰذا ترکِ دنیا سے مراد یہ ہوگا کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہو اُسے ترک کر دیا جائے۔ یہ ترک بھی باطنی و قلبی طور پر ہوگا نہ کہ ظاہری و جسمانی طور پر۔ ظاہری طور پر رشتوں سے قطع تعلق کرنے اور نعمتوں سے منہ موڑنے کا نہ تو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے اور نہ ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایسی کوئی نصیحت کی ہے۔بلکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
 ’’اللہ کی قسم! مجھے تمہارے اوپر فقر و فاقہ کا خوف نہیں بلکہ اس بات کا خوف ہے کہ تم پر دنیا کی وسعت ہوجائے جیساکہ تم سے پہلی امتوں پر ہوچکی ہے، پھر تمہارا دل اِس میں لگنے لگے جیساکہ ان کا لگنے لگا تھا۔ پس یہ چیز تمہیں بھی ہلاک کردے جیساکہ پہلی امتوں کو ہلاک کرچکی ہے۔‘‘ (صحیح بخاری3158)

میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
ترکِ دنیا سے مراد دنیا کو چھوڑنا نہیں بلکہ اپنے باطن میں دنیا اور اس کی خواہشوں کو شکست دینا ہے یعنی دل سے دنیا کی محبت نکال دی جائے کیونکہ جب تک دل سے دنیا کی ہوس اور محبت نہیں نکلے گی اللہ کی محبت نہیں آئے گی۔ (سلطان العاشقین)

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس نے انسان کی مثال کشتی سے اور دنیا کی مثال پانی سے دی ہے۔ اگر کشتی پانی کے اوپر تیرتی رہے یعنی انسان دنیا میں رہے لیکن دنیا کی محبت کو دل میں نہ آنے دے تو انسان کامیاب ہوگا لیکن اگر پانی کشتی میں داخل ہو جائے تو کشتی یقینا ڈوب جائے گی یعنی دل میں دنیا کی محبت آنے سے انسان برباد ہو جائے گا۔

حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جس قدر آدمی اس دنیا سے بیزار ہوتا ہے اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق اُسی قدر مضبوط ہوتاہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی گھربار، بیوی بچے چھوڑ کر جنگل میں جا بیٹھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دل میں دنیا کی محبت نہ ہو۔ دنیا میں رہے مگر دنیا کا نہ بنے۔ یہ ہے کمالِ درویشی۔ دریا کے اندر رہ کر دامن تر نہ ہونے دینا بڑی بہادری ہے۔ اگر کوئی دریا کے نزدیک بھی نہ جائے اور کہتا پھرے کہ میرا دامن تر نہیں ہوا تو یہ کون سی بڑی بات ہے۔ (کشف المحجوب)

مال و دولت یا دنیوی نعمتیں اور آسائشیں اگر انسان کو خود میں مشغول کر لیتی ہیں تو اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کیا جاسکتا ہے اور اُسے راضی کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰکَ اللّٰہُ الَّدَارَ الْاٰخِرَۃَ (سورۃ القصص۔77)
ترجمہ: اور تم اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تمہیں دے رکھی ہے، آخرت کا گھر طلب کرو۔

وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ (سورۃ المنافقون۔10)
ترجمہ: اور تم اس (مال) میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے۔

یعنی مال و دولت اور دنیا اللہ تعالیٰ کو پانے کا ذریعہ بھی ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی بنا پر دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیا۔ اگر ہم اس دنیا کو اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کریں گے تو اس کھیتی سے صرف دنیا کی لذات کی فصل حاصل کر سکیں گے اور اگر اسے اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے استعمال کریں گے تو اس کھیتی سے آخرت کا توشہ حاصل ہوگا۔سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ محک الفقر کلاں میں فرماتے ہیں:
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْاٰخِرَۃِ 
ترجمہ: دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔

اس سے مراد وہ دنیا ہے کہ دل و جان سے شب و روز سب کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا جائے جیسے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ نے کیا۔جو دنیا کو جمع کرتا ہے اور راہِ خدا میں نہیں دیتا وہ ثانی شیطان ہوتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)

اب سوال یہ ہے کہ اس دنیا کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُخروی مقاصد کے لیے کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے؟
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات اور کامل دین ہے۔ دین کی بقا کے لیے اس کا فروغ انتہائی زیادہ ضروری ہے اور فروغِ دین کے لیے مال کی ضرورت ہوتی ہے۔ فروغِ دین کے لیے جن ذرائع سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ان میں سب سے پہلا ذریعہ پرنٹ میڈیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی تمام انبیا کرام علیہم السلام پر کتب اور صحائف نازل فرمائے اور ان آسمانی کتب و صحائف سے آج بھی دنیا مستفید ہو رہی ہے خاص طور پر قرآنِ مجید فرقانِ حمید سے۔ قرآن و حدیث اور تفسیر کا علم اگر آج محفوظ ہے تو اشاعتِ دین کی وجہ سے۔ صحابہ کرام نے قرآن کے نسخہ جات زیادہ سے زیادہ نقل کر کے محفوظ کیے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی احادیث کو قلمبند کیا اور زیادہ سے زیادہ لوگوں سے روایت کیا۔ آج قرآنِ پاک اور کتبِ احادیث کے تراجم شائع کیے جا رہے ہیں جن سے کثیر لوگ استفادہ کر رہے ہیں۔

اسی طرح صوفیا اور فقرا کاملین کی الہامی کتب سے اگر استفادہ کیا جا رہا ہے تو ان کی کتب کی اشاعت کی وجہ سے، علمِ فقہ و مسائل سے اگر آج لوگ آشنا ہو رہے ہیں تو ان کی کتب کی اشاعت کی وجہ سے۔ سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور سیرتِ صحابہؓ و اولیا کاملین سے آج اگر لوگ واقف ہو رہے ہیں تو ان کتب کی اشاعت کی وجہ سے۔ لہٰذا کتب کی اشاعت کے ذریعے نہ صرف پیغامِ حق کو دنیا بھر میں پھیلایا جا سکتا ہے بلکہ ان تعلیمات کو رہتی دنیا تک بقا بھی مل جاتی ہے۔ جیسا کہ تحریک دعوتِ فقر کے زیرِاہتمام سلطان الفقر پبلیکیشنز گزشتہ بیس سال سے کتب و رسائل کے ذریعے پیغامِ حق کو عام کر رہا ہے۔ اگر کوئی اللہ کے عطا کردہ مال و دولت سے ان کتب کو شائع کرنے میں تعاون کرے گا تو یہ کتب اس کے لیے آخرت کا توشہ اور صدقہ جاریہ بن جائیں گی۔ 

کتب و رسائل کے علاوہ انفرادی طور پر گلی گلی کوچہ کوچہ شہر شہر گاؤں گاؤں گھوم پھر کر لوگوں کو دعوتِ حق دی جائے تو اس کے لیے بھی مال کی ضرورت ہوتی ہے، ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرنے کے اخراجات، قیام و طعام کے اخراجات، جن لوگوں نے خود کو دینِ حق کے لیے وقف کیا ہوتا ہے ان کے ذاتی اخراجات۔ انبیا کرام علیہم السلام اور اولیا و فقرا کاملین بھی زندگی بھر چل پھر کر لوگوں کو معرفتِ حق کی دعوت دیتے رہے اور ان کی ظاہری و باطنی تربیت فرماتے رہے۔ تحریک دعوتِ فقر کا شعبہ دعوت و تبلیغ بھی ملک بھر میں اپنے نمائندے بھیجتا ہے جو بازاروں اور گلیوں میں لوگوں سے مل کر انہیں پیغامِ فقر دیتے ہیں اور اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور سے معرفتِ الٰہی حاصل کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ رسائل اور پمفلٹ فی سبیل اللہ تقسیم کرتے ہیں۔ اگر کوئی اس کارِ خیر میں تعاون کرتا ہے تو دعوت و تبلیغ پر مامور ان افراد کے پیغامِ حق کے نتیجے میں جتنے بھی لوگ راہِ حق کی طرف مائل ہونگے ان سب کا اجر اُن لوگوں کو بھی ملے گا جنہوں نے اِن مبلغین کے اخراجات برداشت کیے ہوں گے۔ 

کتب و رسائل اور انفرادی طور پر دعوت و تبلیغ کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کا سب سے اہم ذریعہ دورِ حاضر میں سوشل میڈیااور ڈیجیٹل میڈیاہے، سوشل میڈیاپر مختلف تصاویر، آیاتِ قرآن و حدیث اور اقوالِ اولیا و فقرا کاملین پر مبنی پوسٹیں اور اسلامی موضوعات پر مبنی تقاریر اور محافل کی ویڈیوز کے ذریعے بھی دنیا بھر میں لوگوں تک پیغام کو پہنچایا جا سکتا ہے اور یہ سب بھی دنیوی مال و دولت سے ہی ممکن ہے۔ اب اگر انسان مال و دولت اور دنیا کو ترک کر کے کہیں گوشہ نشین ہو جائے تو پیغامِ حق کیسے عام ہوگا؟ تحریک دعوتِ فقر کے زیرِاہتمام اور سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی زیرِصدارت منعقد ہونے والی روحانی محافل اور تقاریب کی ویڈیو کوریج، مختلف سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر ان کی ترویج، سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی تصانیف اور آپ کی زیرِنگرانی شائع ہونے والی دیگر کتب اور ان کے تراجم کو ویب سائٹس کے ذریعے دنیا بھر میں عام کیا جا رہا ہے اور اس سب کے لیے بھی خطیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلکہ روحانی محافل کے انعقاد کے لیے بھی کثیر عطیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو لوگ اس کارِ خیر میں حصہ لیتے ہیں وہ یقینا اپنی آخرت کی زندگی کو بہتر بنا رہے ہیں۔ پیغامِ حق کی ترویج اور اشاعت کے طفیل جتنے بھی لوگ راہِ حق کو اختیار کریں گے یا روحانی محافل میں شرکت کریں گے اس کا اجر اس کارِ خیر میں مالی تعاون کرنے والوں کو بھی ہوگا جو ان کی اُخروی زندگی کو بھی بہتر بنائے گا اور اللہ تعالیٰ دنیوی زندگی میں بھی خیر و برکت شامل فرمائے گا۔ میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
جو دنیا دین میں مدد کرتی ہے وہ دنیا نہیں جیسا کہ وہ مال جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ (سلطان العاشقین)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کثیر مواقع پر صحابہ کرامؓ سے مال طلب فرمایا۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس تحریر فرماتے ہیں:

جنگِ تبوک کے موقع پر حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس جنگ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب فرمائی۔ اس موقع پر صدق و وفا کے پیکر خلیفہ اوّل سیدّنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے گھر کا تمام سامان اور مال و اسباب، خلیفہ دوم سیدّنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ نے نصف مال لاکر حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قدموں میں نچھاور کر دیا۔ اس وقت خلیفہ سوم سیدّنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ نے عرض کیا کہ میں ایک سو اونٹ سامان سے لدے ہوئے دیتا ہوں۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دوبارہ ترغیب دی تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ پھر اٹھے اور کہا کہ میں دو سو اونٹ پھر دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پھر ترغیب دی تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ نے کہا کہ میں تین سو اونٹ مزید دیتا ہوں۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جہاد کیلئے اللہ کے راستہ میں مال خرچ کرنے کیلئے دوبارہ ترغیب دی تو مجسم جود و سخا سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ نے چوتھی بار کہا کہ میں دو سو اونٹ اور ایک ہزار اشرفیاں مزید دیتا ہوں۔یہ سن کر حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم منبر مبارک سے نیچے تشریف لائے اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ کی اس بے مثال فیاضی و سخاوت پر اس قدر خوش ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اشرفیوں کو اپنے دستِ مبارک سے الٹ پلٹ کرتے تھے اور فرماتے تھے ’’ماضر عثمان ماعمل بعد ہذالیوم‘‘ یعنی آج کے بعد عثمانؓ کا کوئی کام اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ اے عثمانؓ! اللہ تعالیٰ نے تیرے تمام گناہ معاف کردیئے ہیں۔ جو تجھ سے ہو چکے یا قیامت تک ہوں گے۔ (خلفائے راشدین)

اسی طرح کثیر صحابہ کرامؓ نے غلاموں کی آزادی، پانی کے کنووں کی خریداری، قحط سالی میں مفت غلہ کی تقسیم، مساجد کی تعمیر، مہاجرین اور غریب و نادار مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی مدد کے لیے دل کھول کر عطیات دیئے۔

البتہ مال و دولت کو غلط دنیوی مقاصد کے لیے استعمال کرنا مناسب نہیں۔ فضول خرچی، نمود و نمائش، غیر شرعی و غیر اخلاقی امور کی انجام دہی وغیرہ کے لیے مال کو استعمال کرنا حرام ہے۔اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے احادیث میں مال کو فتنہ قرار دیاکیونکہ اس کی بنا پر انسان غیر اخلاقی اور غیر معاشرتی حرام کاموں میں بھی مشغول ہو سکتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ
اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ 
(سورۃ الانفال۔28)
ترجمہ: اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تو بس فتنہ ہی ہیں۔

حضرت کعب بن عیاضؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے ’’ہر امت کے لیے ایک فتنہ رہا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔‘‘ (جامع ترمذی2336) 

میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
دنیا جب آتی ہے تب بھی فساد برپا کرتی ہے، جب جاتی ہے تب بھی جھگڑا پیدا کرتی ہے۔ (سلطان العاشقین)

امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
مال بمنزلہ ایک سانپ کے ہے جس میں زہر بھی ہے اور تریاق بھی۔ اس کے فوائد بمنزلہ تریاق کے ہیں اور اس کے نقصانات بمنزلہ زہر کے ہیں۔ سو جو شخص اس کے فوائد و نقصانات سے واقف ہو جائے وہ اس پر قدرت حاصل کرسکتا ہے کہ اس کے فوائد حاصل کرے اور اس کے نقصانات سے محفوظ رہے۔ اس میں فوائد تو دو قسم کے ہیں (۱) دنیوی (۲) دینی۔ دنیوی فوائد تو ہر ایک شخص جانتا ہے اس لئے ان کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں البتہ دینی فوائد یہ ہیں:
پہلا فائدہ یہ ہے کہ مال بالواسطہ یا بلا واسطہ عبادت کا سبب ہے۔ بالواسطہ تو اس طرح کہ اپنے کھانے پینے اور ضروریات میں خرچ کرے کہ یہ ضرورتیں اگر پوری نہ ہوں تو آدمی کا دل اُدھر مشغول رہتا ہے جس کی وجہ سے دینی مشاغل میں اشتغال کا وقت نہیں ملتا اور جب مال بالواسطہ عبادت کا ذریعہ ہے تو یہ خود بھی عبادت ہوا لیکن صرف اتنی ہی مقدار جس سے دینی مشاغل میں اعانت ملے اس سے زیادہ مقدار اس میں داخل نہیں اور بلا واسطہ یہ اس طرح عبادت کا سبب ہے کہ بعض عبادات جہاد اور حج وغیرہ روپے پیسے سے ہی ہوسکتے ہیں اور ویسے کرنا مشکل ہیں۔

دوسرا فائدہ یہ ہے کہ مال دوسرے لوگوں پر چار طرح سے خرچ کیا جاتا ہے: (۱) صدقہ جو غربا اور مساکین پر کیا جائے۔ (۲) مروّت  جو اغنیا پر دعوت، ہدیہ وغیرہ کی صورت میں خرچ کیا جائے۔ یہ قسم اگرچہ صدقہ کے زمرے میں نہیں آتی تاہم یہ قسم بھی اپنے اندر دینی فوائد سموئے ہوئے ہے کہ اس سے باہمی تعلقات قوی ہوتے ہیں اور سخاوت کی بہترین عادت پیدا ہوتی ہے۔ (۳) اپنی آبرو کا تحفظ ہوتا ہے یعنی مال کا ایسی جگہ خرچ کرنا کہ جہاں اگر خرچ نہ کیا جائے تو کم تر لوگوں کی طرف سے بدگوئی، فحش وغیرہ مضرتوں کا اندیشہ رہتا ہے۔ یہ بھی صدقہ کے حکم میں آجاتا ہے۔ چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنی آبرو کی حفاظت کے لئے جو خرچ کرتا ہے وہ بھی صدقہ ہے۔(۴) مزدوروں کی مزدوری کی اجرت دینا کہ آدمی بہت سے کام اپنے ہاتھ سے نہیں کرسکتا یا کر تو سکتا ہے لیکن اپنا یہ قیمتی وقت علم و عمل یا ذکر و فکر وغیرہ جیسے امور کے لئے بچا لیتا ہے تو یہ بھی ایک قسم کا مال کا دینی فائدہ ہے۔

تیسرا فائدہ یہ ہے کہ مال سے عمومی خیر و بھلائی کے اخراجات نمٹائے جاتے ہیں جن میں کسی دوسرے معین شخص پر تو خرچ نہیں کیا جاتا  البتہ عمومی فوائد اس سے ضرور حاصل ہوجاتے ہیں جیسے مساجد و مدارس کا بنانا، مسافر خانوں اور شفا خانوں کا بنانا وغیرہ۔ وہ تمام رفاہی کا م کہ جن سے تمام لوگ ہمہ وقت مستفید ہوسکتے ہوں کہ یہ تمام کام صدقہ جاریہ کے حکم میں آتے ہیں اور ان کا اجر و ثواب مرنے کے بعد بھی انسان کو ملتا رہتا ہے اور ان سے فوائد حاصل کرنے والے اللہ کے نیک اور متقی لوگوں کی دعائیں بھی انسان کو پہنچتی رہتی ہیں۔ (احیا العلوم، جلد سوم)

دل سے دنیا کی محبت کو نکال دینا ہی اصل کامیابی ہے لیکن دل سے دنیا کی محبت کو نکال کر اللہ کی محبت کو کیسے داخل کیا جائے؟

محترم قارئین! انبیا کرام اور ان کے بعد فقرا کاملین کا اس دنیا میں آنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ عوام الناس کو اللہ کی معرفت کی طرف بلایا جائے، اُخروی زندگی یاد دلائی جائے اور دل و دماغ کو دنیا میں مشغول نہ ہونے دیا جائے بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے اور تمام دنیوی امور کو سرانجام دیتے ہوئے قلب و روح کو اللہ کی یاد اور محبت میں مشغول رکھا جائے۔ ایسا تب ہی ہو سکتا ہے جب کسی مرشد کامل اکمل فقیرِکامل اکمل کی صحبت اور رہنمائی میسر آسکے۔

دورِ حاضر کے مجدد اور فقیرِکامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس طالبانِ مولیٰ کی تربیت اور اصلاح بالکل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریقہ کے مطابق فرماتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے کبھی کسی کو ظاہری طور پر کچھ بھی ترک کرنے کا نہیں فرمایا اور نہ ہی کسی تعلق کو توڑنے کا حکم دیا ہے بلکہ اپنے تمام ضروری دنیوی امور کی احسن طریقے سے انجام دہی کی تلقین کی ہے البتہ دنیوی مشاغل، فضول گوئی، وقت کی بربادی اور مال و دولت کی ہوس سے پرہیز کی تاکید کی ہے۔ آپ اپنی نگاہِ کامل سے طالبانِ مولیٰ کا تزکیۂ نفس فرماتے ہیں تو دنیا کی رغبت اور محبت ان کے دل سے بتدریج کم ہونے لگتی ہے اور بالآخر طالبانِ مولیٰ ہمہ وقت دل و دماغ کو یادِ الٰہی میں مشغول رکھتے ہیں، دنیوی مال و دولت کو جوڑنے اور جمع کرنے کی بجائے فروغِ دین کے لیے استعمال کر کے آخرت کا زادِ راہ تیار کرتے ہیں۔ البتہ دل سے دنیا کی محبت کو نکال کر اسے راہِ حق میں صرف کرنے کے لیے خلوص، صدق، ہمت اور مضبوط ارادے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ دنیا ایک جنگل کی مانند ہے جو انسان کو خود میں گم کرنے کے لیے اسباب پیدا کرتی ہے۔ اس جنگل سے بچنے کے لیے بہت زیادہ ہمت اور حوصلہ درکار ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ترکِ دنیا کے تواند ہر خسی یا بوالہوس
شیر مردی بایدت در بادیہ مردانہ

ترجمہ: کمینے اور ہوس پرست دنیا کیسے ترک کر سکتے ہیں؟ دنیا ترک کرنے کے لیے تجھے مرد شیر بننا چاہیے تاکہ جنگل میں مردانہ وار رہ سکو۔ (محک الفقر کلاں)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس دنیا میں مشغول ہونے سے بچائے اور مال و دولت کی محبت سے بھی محفوظ رکھے۔ آمین

استفادہ کتب:
۱۔ سلطان العاشقین:  ناشر سلطان الفقر پبلیکشنز
۲۔ محک الفقر کلاں:  تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۳۔ احیا العلوم جلد سوم:  تصنیفِ لطیف حضرت امام غزالیؒ


25 تبصرے “ترکِ دنیا کیا ہے؟ Tark-e-Dunya Kia Hai?

  1. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
    ترکِ دنیا سے مراد دنیا کو چھوڑنا نہیں بلکہ اپنے باطن میں دنیا اور اس کی خواہشوں کو شکست دینا ہے یعنی دل سے دنیا کی محبت نکال دی جائے کیونکہ جب تک دل سے دنیا کی ہوس اور محبت نہیں نکلے گی اللہ کی محبت نہیں آئے گی۔ (سلطان العاشقین)

  2. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
    دنیا جب آتی ہے تب بھی فساد برپا کرتی ہے، جب جاتی ہے تب بھی جھگڑا پیدا کرتی ہے۔ (سلطان العاشقین)

  3. ایک آدمی نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کیا ’’میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’بیشک اللہ تعالیٰ جمال کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (جامع ترمذی 1999)

  4. جو دنیا دین میں مدد کرتی ہے وہ دنیا نہیں جیسا کہ وہ مال جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ (سلطان العاشقین)

  5. حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
    دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔

  6. دل سے دنیا کی محبت کو نکال دینا ہی اصل کامیابی ہے

  7. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس دنیا میں مشغول ہونے سے بچائے اور مال و دولت کی محبت سے بھی محفوظ رکھے۔ آمین

  8. ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں رکاوٹ بنے اور اس کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی معرفت اور قرب پانے سے رک جائے یا اللہ سے منہ موڑ کر اس شے میں مشغول ہو جائے،وہ دنیاہے

  9. دل سے دنیا کی محبت کو نکال دینا ہی اصل کامیابی ہے

  10. دل سے دنیا کی محبت کو نکال دینا اصل کامیابی ہے۔۔

  11. مال و دولت اور دنیا اللہ تعالیٰ کو پانے کا ذریعہ بھی ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی بنا پر دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیا

  12. دنیا جب آتی ہے تب بھی فساد برپا کرتی ہے، جب جاتی ہے تب بھی جھگڑا پیدا کرتی ہے۔ (سلطان العاشقین)

  13. حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
    جس قدر آدمی اس دنیا سے بیزار ہوتا ہے اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق اُسی قدر مضبوط ہوتاہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی گھربار، بیوی بچے چھوڑ کر جنگل میں جا بیٹھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دل میں دنیا کی محبت نہ ہو۔ دنیا میں رہے مگر دنیا کا نہ بنے۔ یہ ہے کمالِ درویشی۔ دریا کے اندر رہ کر دامن تر نہ ہونے دینا بڑی بہادری ہے۔ اگر کوئی دریا کے نزدیک بھی نہ جائے اور کہتا پھرے کہ میرا دامن تر نہیں ہوا تو یہ کون سی بڑی بات ہے۔ (کشف المحجوب)

  14. حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
    اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْاٰخِرَۃِ
    ترجمہ: دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔

    اس سے مراد وہ دنیا ہے کہ دل و جان سے شب و روز سب کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا جائے جیسے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ نے کیا۔جو دنیا کو جمع کرتا ہے اور راہِ خدا میں نہیں دیتا وہ ثانی شیطان ہوتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)

اپنا تبصرہ بھیجیں