حقیقت ِقلب و روح( Haqiqat e Qalb o Rooh)
تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
جسم اربع عناصر ہوا، پانی، مٹی اور آگ سے تخلیق کیا گیا ہے اس لیے ٹھوس مادی وجود رکھتا ہے۔ اس کی ضرورت کی ہر شے بھی مادے سے تعلق رکھتی ہے اور وہ انہی سے لذت و تسکین پاتا ہے۔ اسے طاقت اور زندہ رہنے کے لیے کھانے پینے کی ضرورت ہے، وجود کو ڈھانپنے کے لیے لباس کی ضرورت ہے، رہنے کے لیے مکان کی ضرورت ہے، اپنی نسل کی افزائش کے لیے جیون ساتھی کی ضرورت ہے۔ ان تمام ضرورتوں یا ان جیسی دیگر ضرورتوں کا تعلق جسم سے ہے اور انسان زندگی بھر ان ضرورتوں کو پورا کرنے میں مگن رہتا ہے، مال و دولت کمانے اور بال بچوں کا پیٹ پالنے کی فکر میں مبتلا رہتاہے، بچوں کی بہتر تعلیم، بہتر مستقبل وغیرہ جیسی پریشانیاں اس کو گھیرے رکھتی ہیں۔ اگر کسی کے پاس بقدرِ ضرورت مال و اسباب موجود ہیں تو بھی وہ مزید آسائشات کی طلب اور ہوس میں ڈوبا رہتا ہے۔ رشتے داریاں نبھانے، معاشرے میں مقام و مرتبہ بنانے یا اپنی ملازمت کو بہتر بنانے یا کاروبار کو وسیع کرنے میں مگن رہتا ہے۔ عبادات کرتا ہے تو محض فرض کی ادائیگی کے طور پر۔ ان عبادات میں اللہ کی بندگی اور محبت کااحساس اور جذبہ نہیں ہوتا بلکہ عبادات میں بھی دھیان دنیاوی فکروں میں گم رہتا ہے۔ پس جسمانی ضروتوں اور لذتوں سے تعلق رکھنے والی یہی تمام چیزیں انسان کو اللہ تعالیٰ سے غافل رکھتی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْھِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَ لَآ اَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ج وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ (سورۃ المنافقون۔9)
ترجمہ: اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں۔ اور جو ایسا کرے گا وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔
لہٰذا ایمان والوں کو کبھی بھی ان چیزوں میں مشغول ہو کر اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ تمام فرائض و حقوق کی انجام دہی اپنی جگہ ضروری ہے لیکن ان فرائض و حقوق کو ہی اپنا دین و ایمان نہیں بنا لینا چاہیے۔
انسانی جسم کے اندر اس کا نفس بھی ہے، قلب بھی اور روح بھی۔ ان میں سے ہر کسی کی الگ الگ طلب اور ضروریات ہیں۔
نفس
انسان کے اندر جو چیز خواہش اور شہوات پیدا کرتی ہے وہ اس کا نفس ہے۔ یہی نفس اسے برائی کی طرف مائل کرتا ہے اور غیر اللہ کی طرف مائل رکھتے ہوئے انسان کو اللہ کی ذات سے غافل کرتا ہے۔ شیطان بھی اسی نفس کا سہارا لیتے ہوئے انسان کو اللہ تعالیٰ سے دور کر دیتا ہے۔ جب تک انسان اپنے نفس کی اصلاح نہیں کر لیتا اور اسے اپنا مطیع و فرمانبردار نہیں بنا لیتا تب تک انسان اللہ کی ذات اور اس کی یاد سے غافل ہی رہتا ہے۔ لیکن جب نفس کا تزکیہ ہو جاتا ہے اور وہ بتدریج امارہ سے مطمئنہ بن جاتا ہے تو شہوات کے غلبہ سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ (نفس کی حقیقت اور تزکیہ کے متعلق اس شمارہ میں علیحدہ مضمون ’’نفس اور تزکیہ نفس‘‘ کے نام سے شائع کر دیا گیا ہے)
قلب
قلب کو دل بھی کہا جاتا ہے۔ دل سے مراد انسان کے سینے میں موجود گوشت کا لوتھڑا نہیں بلکہ اس سے مراد انسان کا باطنی وجود ہے۔
حضرت شاہ محمد ذوقیؒ ’’قلب‘‘ کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
قلب کے معنی لغت میں ’دل‘ اور خِرد اور لشکر کے خالص و درمیانہ حصہ کے ہیں۔ منازلِ قمر میں سے ایک منزل کا نام بھی قلب ہے۔ مگر صوفیائے کرام کی اصطلاح میں قلب ایک جوہرِنورانی ہے جو مادہ سے مجرد اور روح و نفسِ انسانی کے مابین ایک درمیانی چیز ہے۔ انسانیت کا دارومدار اسی قلب پر ہے۔ حکما اسے نفسِ ناطقہ بھی کہتے ہیں۔ روح اس کا باطن ہے اور نفس ِحیوانی اس کا ظاہر ہے اور اس کے لیے بمنزلہ مرکب (سواری) کے ہے۔ نفسِ حیوانی جسم اور قلب کے درمیان ہے چنانچہ حق تعالیٰ نے آیتِ نور یعنی اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ میں جسم کو مشکوٰۃ کے ساتھ، قلب کو زجاجہ کے ساتھ، روح کو مصباح کے ساتھ اور نفس کو شجر کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ بندہ کا قلب اللہ کا عرش ہے جس میں حق تعالیٰ بالذات ظاہر ہوتاہے۔ رحمن اس پر مستوی ہے۔ وہ اسرارِ الٰہیہ کا مرکز اور تمام اعیان و مخلوقات کے دوائر کا احاطہ کرنے والا ہے۔ ہر چیز کے قلب کا خلاصہ ہوا کرتا ہے۔ قلبِ انسانی بھی اللہ تعالیٰ کا ایک نور ہے جس کی ایک چمک تمام مخلوقات و موجودات کا خلاصہ ہے۔ (سرِّ دلبراں)
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ قلب کی اہمیت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
اے عزیز! اگر توخود کو جاننا چاہتا ہے تو یہ بات جاننا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے دو چیزوں سے پیدا کیا ہے، ایک ظاہری ڈھانچہ جسے بدن کہتے ہیں اور اسے ظاہری آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسرا باطنی وجود ہے جس کو قلب کہتے ہیں اور اسے فقط باطن کی آنکھ سے پہچان سکتے ہیں ظاہری آنکھ سے نہیں اور یہی باطنی وجود تیری حقیقت ہے اور اس کے سوا جو چیزیں ہیں وہ اس کی تابع، اس کے لشکر اور خدمت گار ہیں، اس باطنی حقیقت کو قلب کہتے ہیں۔ اس سے اصل میں حقیقی انسان مراد ہے۔ اس حقیقت کو کبھی روح کہتے ہیں اور کبھی نفس۔ قلب سے مراد وہ گوشت کا لوتھڑا نہیں جو سینہ میں بائیں طرف موجود ہے کہ یہ تو جانوروں اور مردوں میں بھی ہوتا ہے۔ یہ دل تو ظاہری آنکھ سے بھی دکھائی دے سکتا ہے اور جو چیز ظاہری آنکھ سے دیکھی جا سکے اس کا تعلق عالمِ ناسوت سے ہے جبکہ قلب، جو ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا، کا تعلق عالمِ امر سے ہے۔ گوشت پوست کا دل اس قلب کی سواری اور ہتھیار ہے اور بدن کے سب اعضا اس کا لشکر ہیں وہ تمام بدن کا بادشاہ اور افسر ہے۔ خدا کی معرفت اور اس کے جمالِ بے مثال کا مشاہدہ اسی دل کی صفت ہے اور اسی کو عبادت کا حکم ہے، اسی سے اللہ کا ہر خطاب ہے، اسی پر ثواب و عذاب ہے، اصلی سعادت اور شقاوت اسی کے لیے ہے، ان سب باتوں میں بدن اس کا تابع ہے۔ اس کی حقیقت اور صفتوں کو پہچاننا اللہ تعالیٰ کی معرفت کی کنجی ہے۔ اے عزیز! ایسی کوشش کر کہ تو اس کو پہچانے کہ وہ ایک عمدہ گوہر ہے اور گوہر ملائکہ کی جنس سے ہے۔ درگاہِ الوہیت اس کا اصلی معدن ہے، وہیں سے وہ آیا ہے، پھر لوٹ کر وہیں جائے گا۔ اس دنیا میں مسافرانہ آیا ہے۔ (کیمیائے سعادت)
چنانچہ انسان کی اصل حقیقت، اس کی اہمیت اور حیثیت اس کے قلب کی ہی بدولت ہے۔ قلب ہی کی وجہ سے انسان کو دیگر جانداروں پر برتری حاصل ہے کیونکہ حیوانی روح اور نفس تو ہر جاندار میں موجود ہے لیکن قلب صرف انسان میں موجود ہے۔ کسی دوسرے جاندار کو یہ شرف حاصل نہیں کہ اس میں اللہ کی ذات ظاہر ہو سوائے انسان کے، کیونکہ دیگر جانداروں میں ’’قلب‘‘ موجود نہیں۔ قلب ہی ہے جو اللہ کے قریب ہوتا ہے اور قلب ہی ہے جو اللہ سے دور ہو تا ہے جسم نہیں، لہٰذا قلب ہی مومن ہے اور قلب ہی کافر ہے، قلب پر ہی عذاب ہے، قلب پر ہی ثواب ہے۔ کلامِ الٰہی قلب پر اترتا ہے جیسا کہ فرمایا گیا :
وَاِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ ۔ عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْن۔ (سورۃ الشعرائ۔192-194)
ترجمہ: اور بے شک یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ اسے روح الامین نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ’’قلب‘‘ پر پیش کیا تاکہ آپ ڈر سنانے والوں میں سے ہو جائیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ فِیْ جَسَدِ اِبْنِ اٰدَمَ لَمُضْغَۃً فَاِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ اَلَا وَہِیَ الْقَلْبُ
ترجمہ:اولادِ آدم کے جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے جب وہ درست ہو جاتا ہے تو پورا جسم درست رہتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو پورا جسم بگڑ جاتاہے اور بے شک وہ قلب ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس فرمان میں گوشت کے لوتھڑے سے مراد قلب ہے نہ کہ جسمانی دل جس کی دھڑکن سینے میں محسوس ہوتی ہے۔
سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا:
اگر تیرا دل مہذب ہو جاتا تو یقینا تیرے تمام اعضا مہذب بن جاتے کیونکہ دل اعضا کا بادشاہ ہے پس جب بادشاہ مہذب بن جاتا ہے رعیت بھی مہذب بن جاتی ہے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 29)
ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:
جب دل درست ہوتاہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف تمام چیزوں سے زیادہ قریب ہو جاتا ہے۔ دل جب قرآن و حدیث پر عمل کرنے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جاتا ہے اور جب وہ اللہ کے قریب ہوتا ہے تو دانا اور بصیر ہو جاتا ہے اور وہ تمام چیزیں جو اس کے نفع اور نقصان کی ہیں اور جو چیزیں اللہ تعالیٰ اور غیر اللہ کے لیے ہیں اور جو حق اور باطل ہے، وہ سب کو پہچان لیتا ہے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس59)
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ قلب کے متعلق فرماتے ہیں:
قلب ایک نہایت وسیع ولایت اور ملکِ عظیم ہے دونوں جہان اور مخلوق اس میں سما سکتے ہیں لیکن قلب دونوں جہانوں میں نہیں سما سکتا۔ (فضل للقائ)
ہر کتابے نکتہ از دل کتاب
دل کتابے دفتر حق بے حساب
ترجمہ: ہر کتاب کتابِ دل (قلب) کا ایک نکتہ ہے، کتابِ دل (قلب) نے بے شمار دفاترِ حق کا احاطہ کر رکھا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
مصنف کہتا ہے کہ قلب کے دو بنیادی اور انتہائی مراتب ہیں ایک قلب ِ غلیظ جو خطراتِ شیطانی و نفسانی اور حادثاتِ دنیا کی پریشانیوں کے باعث مکمل بیمار اور مریض ہوتا ہے اور تب تک دوا کے بغیر اور اللہ کی رحمت و معرفت کی نگاہ سے محروم رہتا ہے جب تک مکمل اخلاص کے ساتھ اللہ کی جانب نہیں آتا اور قلب کی بیماریوں سے شفا کے لیے قلوب کے طبیب مرشد کی طلب نہیں کرتا۔ جو طبیب القلوب مرشد کی طلب نہیں کرتا اس کا قلب مرض کی وجہ سے روز بروز سیاہ ہوتا جاتا ہے اور بالآخر سلب ہو جاتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ لا فَزَادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا (سورۃ البقرہ۔10)
ترجمہ: ان کے قلوب میں بیماری ہے پس اللہ نے اس بیماری کو مزید بڑھا دیا ہے۔
لہٰذا معرفتِ الٰہی کے لیے علم ِفضیلت حاصل کرو جس کا وسیلہ مرشد ہے۔ صاحبِ تصور اسمِ اللہ ذات مرشد زندگی و موت میں نجات کا وسیلہ ہے۔
اَلشَّیْخُ یُحْیِ الْقَلْبَ وَ یُمِیْتُ النَّفْسَ
ترجمہ: شیخ قلب کو زندہ کرنے والا اور نفس کو مارنے والا ہوتا ہے۔
دوم قلب جو ذکرِ اللہ سے پاک وصاف اور اللہ کی بارگاہ میں برگزیدہ ہوتا ہے یہ قلب معرفتِ الٰہی کے اسرار کا حامل ہوتا ہے۔ ایسا قلب نورِ الٰہی سے پرُ ہوتا ہے اور صاحبِ زندہ قلب دائمی حضوری کا حامل ہوتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
جب طالب بندگی کی طرف مائل ہوتا ہے تو شیطان اس کے کانوں میں طمع و حرص اور اس جیسے دیگر ناشائستہ اور ناپاک چیزوں کا طبل بجا کر بندگی سے روکتا ہے اور اسے انتہائی طمع، حرص، حسد، غیبت، خواہشِ نفس، نفاق اور اس جیسی دیگر بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ آدمی کا دل پاک گھر کی مثل ہے اور ذکرِ اللہ فرشتہ کی مثل پاک ہے اور خطرات کتے کی مثل ہیں۔ جس گھر میں کتا داخل ہو جائے فرشتہ اس گھر سے نکل جاتا ہے اور اگر کوئی اس پاک گھر کو مضبوطی سے بند کر لے اس میں خطرات کا کتا داخل نہیں ہو سکتا۔
لَا یَدْخُلِ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَیْتًا فِیْہِ الْکَلْبِ
ترجمہ: جس گھر میں کتا ہو وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
پس ان خطرات کا علاج یہ ہے کہ نظر اسمِ اللہ ذات پر رکھی جائے کیونکہ خطرات کو یہ قوت حاصل نہیں کہ وہ اہلِ ذات پر غالب آ سکیں۔ (کلید التوحید کلاں)
خطرات خطرہ کی جمع ہے اور فارسی زبان میں خطرہ کے معنی دل میں آنے والے خیالات ہیں۔ قلب کو لاحق خطرات سے مراد یہ ہے کہ ہر لمحہ انسان کے قلب میں مختلف وسوسے آتے ہیں جو کہ اہل و عیال کے متعلق بھی ہو سکتے ہیں اور نوکری یا کاروبار کے متعلق بھی، انبیا و اولیا کے متعلق بھی اور راہِ حق کے متعلق بھی۔ یہ خطرات طالب کو پریشان کرتے ہیں اور اس کا دھیان اللہ کی طرف سے ہٹا کر اس متعلقہ پریشانی کی طرف کر دیتے ہیں۔ صاحبِ یقین انسان ان خطرات کی طرف متوجہ نہیں ہوتا بلکہ اللہ پر کامل یقین کی بدولت وہ اپنا ہر معاملہ اللہ پر رکھتا ہے اور وساوس پر دھیان نہیں دیتا۔
قرآنِ پاک میں وسوسے ڈالنے والے شیطان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ لا الْخَنَّاسِ۔ الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ۔ (سورۃ الناس۔4-5)
ترجمہ: (میں پناہ چاہتا ہوں) چھپ کر وسوسے ڈالنے والے کے شر سے جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔
اس لیے وہی شخص کامیاب ہے جو دل میں ڈالے جانے والے ان شیطانی وساوس اور خطرات کی طرف متوجہ نہ ہوبلکہ کامل یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بندگی میں مصروف رہے۔ خطرات سے پاک اسی قلب کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کا عرش قرار دیا۔
قَلْبُ الْمُؤْمِنِ عَرْشُ اللّٰہِ تَعَالٰی
ترجمہ: مومن کا قلب اللہ کا عرش ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات تو ہر انسان کے اندر موجود ہے لیکن مومن کے قلب کو اللہ کا عرش قرار دینے میں حکمت یہ ہے کہ مومن باصفا قلب کا حامل ہوتا ہے اور جب قلب کو پاکیزگی اور صفائی حاصل ہو جائے تو اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات جلوہ گر نظر آتی ہے۔ مگر قلب کا تصفیہ یعنی صفائی مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ کی صحبت اور فیض سے ہی ممکن ہے۔ جو قلب مرشد کامل اکمل کی صحبت اور اسمِ اللہ ذات کی بدولت شیطانی خطرات اور وساوس سے نجات حاصل کرلیتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہو کر سلامتی حاصل کر لیتا ہے اور وہی قلب اللہ تعالیٰ کے جمال کا دیدار کرتا ہے اور اس کے حضور میں پہنچتا ہے۔ جیسا کہ زندہ قلب والوں کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اَلصَّلٰوۃُ دَائِمُوْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ
ترجمہ: وہ اپنے قلوب میں دائمی نماز ادا کرتے ہیں۔
آخرت میں بھی قیامت کے روز جب ہر رشتہ اور تعلق بے فائدہ ثابت ہوگا تب یہی زندہ اور سلامتی والا قلب انسان کے کام آئے گا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا:
یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَ۔ اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۔ (سورۃ الشعرائ۔88-89)
ترجمہ:اس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ اولاد، ہاں مگر جو اللہ کے پاس قلبِ سلیم لے کر حاضر ہوا۔
اسی قلب کو حضوری کی کیفیت حاصل ہوتی ہے جس کے بعد عبادات میں سرور و لذت حاصل ہوتی ہے اور قربِ حق کا احساس رہتا ہے۔ اگر حضورِ قلب حاصل نہ ہو تو عبادات بے فائدہ ہوتی ہیں جس میں نہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کا احساس رہتا ہے اور نہ لذت حاصل ہوتی ہے۔ اسی بنا پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
لَا صَلٰوۃَ اِلَّا بِحُضُوْرِ الْقَلْبِ
ترجمہ: حضورِ قلب کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
اسی قلب کی آنکھوں کے اندھا ہونے پر انسان دیدارِ حق تعالیٰ سے محروم رہے گا۔ قلب کی آنکھوں کے اندھے پن کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَ لٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ (سورۃ الحج۔46)
ترجمہ: بیشک یہ کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ قلوب اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔
اسی بنا پر تو صوفیا اور فقرا ظاہر سے زیادہ باطن پر زور دیتے ہیں کیونکہ اگر باطن درست ہوگا تو ظاہر اس کے مطابق خودبخود ٹھیک ہو جائے گا۔ پس بندے کے لیے اپنے جسم اور عمل کو سنوارنے سے پہلے اپنے قلب کو سنوارنا ضروری ہے اور قلب کی صفائی کے ذریعے قربِ الٰہی کے حصول کی کوشش فرض ہے۔
روح
روح کی بدولت انسان زندہ ہوتا ہے اور اس دنیا میں چلتا پھرتا، سوتا جاگتا، کھاتا پیتا اور اپنا ہر عمل انجام دیتا ہے۔ پس اس ظاہری جسم میں روح ہی اصل چیز ہے۔ یہ اربع عناصر کی خاصیت رکھنے والا مادی جسم تو محض روح کا لباس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جو سجدہ کروایا وہ صرف مٹی سے بنے وجود کو نہیں بلکہ اس کے اندر اپنی روح پھونک کر اسے زندہ کیا تب اسے سجدہ کروایا تھا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ (سورۃ الحجر۔29)
ترجمہ: پس جب میں اسے تیار کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں پس تم سب سجدے میں گر جانا۔
اس لیے اصل فضیلت اسی روح کی تھی جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے امر سے پیدا کیا اور اس میں ہر وہ خاصیت موجود ہوتی ہے جو نورِ الٰہی میں ہوتی ہے کیونکہ نورِ الٰہی سمندر کی مثل ہے جبکہ روح نور کے اس سمندر سے جدا ہونے والا ایک قطرہ یا لہر۔ وجود میں اسی قطرے یعنی نور کی موجودگی کی بدولت انسان زندہ ہوتا ہے اور موت وارد ہونے پر یہی روح واپس اپنے ربّ کی طرف لوٹ جاتی ہے اور ہم سب کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن ترجمہ: بیشک ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ یعنی روح عالمِ لاھوت میں روحِ قدسی کی صورت میں موجود تھی۔ اسی روحِ قدسی نے عالمِ لاھوت میں اللہ تعالیٰ کا بے حجاب دیدار کیا۔ اسی روح کو عالمِ جبروت میں اُتارا گیا تو روحِ قدسی پر روحِ سلطانی کا لباس پہنایا گیا اور جب روح کو عالمِ ملکوت میں اتارا گیا تو اسے روحِ سیرانی کا لباس پہنایا گیا اور اس دنیا یعنی عالمِ ناسوت میں مادی وجود کے اندر آنے پر اس پر روحِ حیوانی کا پرت چڑھا دیا گیا۔ روح درجہ بہ درجہ نزول کے بعد اس مادی اور ٹھوس وجود میں آکر قید ہو گئی اور بیقرار رہنے لگی۔اسے سکون تب ہی ملتا ہے جب یہ اسی طرح عروج کر کے واپس اپنے اصلی وطن یعنی عالمِ لاھوت میں پہنچ جائے جس طرح نزول کر کے آئی تھی۔
پس یہ تمام عالم روح کے لیے لحظات کی مثل ہیں۔ لحظہ سے مراد لمحہ ہے جو کہ وقت کو ظاہر کرتا ہے اور وقت اور فاصلے یعنی زمان و مکان کی قید صرف اس عالمِ ناسوت تک محدود ہے جبکہ دیگر عالم اس سے مبرا ہیں۔ عالمِ ناسوت سے واپس عالمِ لاھوت کا سفر کوئی آسان بات نہیں۔ ظاہری آنکھ سے نظر آنے والی کائنات کی وسعت کا اندازہ کرنا ہی انتہائی مشکل ہے باطنی عالموں کی وسعت کے متعلق کیا کہا جا سکتا ہے! انسانی سوچ اور عقل و فہم تاحال جس قدر ترقی کر چکی ہے اس کی روشنی میں اپنے ذہن میں عالمِ ناسوت کی وسعت کا ایک خاکہ تیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہماری زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے اور سورج کے گرد گھومنے کا ایک چکر تین سو پینسٹھ (365) دنوں میں مکمل ہوتا ہے۔ مریخ جو زمین سے قریب ترین سیارہ ہے وہ چھ سو ستاسی (687) دن میں سورج کے گرد اپنا ایک چکر مکمل کرتا ہے۔ سورج سے قریب ترین سیارہ عطارد (Mercury) اٹھاسی (88) دن میں سورج کے گرد ایک چکر مکمل کرتا ہے جبکہ زہرا (Venus) اپنا چکر دو سو پچیس دن میں مکمل کرتا ہے۔ اسی طرح مشتری (Jupiter) سورج کے گرد اپنا ایک چکر بارہ سال میں مکمل کرتا ہے۔ لہٰذا جو سیارہ سورج کے زیادہ قریب ہے وہ سورج کے گرد ایک چکر کم دنوں میں مکمل کر لیتا ہے اور جو سورج سے زیادہ دور ہے اس کا چکر زمین کے چکر سے دیر سے مکمل ہوتا ہے۔ اس لیے اگر سورج کے گرد ایک چکر کو ایک سال تصور کیا جائے تو مشتری کا ایک سال زمین کے بارہ سال کے برابر ہوگا۔
اسی طرح یہ نظامِ شمسی ایک گلیکسی (Galaxy) میں واقع ہے جس کو ملکی وے ( Milky Way) کہتے ہیں جس میں ہمارے نظامِ شمسی (Solar System) جیسے بیشمار نظام موجود ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ملکی وے گلیکسی کا فاصلہ ایک لاکھ نوری سال ہے یعنی اس ایک گلیکسی کی مکمل سیر کے لیے اگر روشنی کی رفتار سے سفر کیا جائے تو اس کے لیے ایک لاکھ سال کی عمر درکار ہے۔
اس کائنات میں بے شمار گلیکسیز موجود ہیں جن میں سے قریب ترین گلیکسی اینڈرومیڈا (Andromeda) ہے اور ملکی وے گلیکسی سے اینڈرو میڈا گلیکسی کے درمیان پچیس لاکھ نوری سال کا فاصلہ ہے۔ مطلب ہم آسمان پر جن ستاروں، سیاروں اور گلیکسیز کو دیکھتے ہیں ان کی روشنی لاکھوں سال کا سفر کر کے ہم تک پہنچتی ہے اور تب وہ ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ جن سیاروں اور ستاروں کو ہم آج آسمان پر چمکتا ہوا دیکھ رہے ہیں وہ اِس وقت حقیقتاً موجود ہی نہ ہوں بلکہ فنا ہو چکے ہوں یا بلیک ہول (Black Hole) میں گم ہو چکے ہیں۔ لہٰذا ہر سیارے اور ہر گلیکسی کا وقت مختلف ہے اور یہ وقت اور فاصلہ کا قانون صرف ناسوتی کائنات میں ہی کارفرما ہے۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں گلیکسیز اس کائنات میں موجود ہیں۔ اس لحاظ سے اس کائنات کی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں انسانوں اور جنوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْاط لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ۔ (سورۃ الرحمن۔33)
ترجمہ: اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! اگر تم اس بات پر قدرت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے باہر نکل سکو تو تم نکل جاؤ۔ مگر تم نہیں نکل سکتے سوائے سلطان کے۔
سلطان سے مراد طاقت و قوت بھی ہے اور سلطان سے مراد انسانِ کامل بھی ہے۔ یعنی یہ کائنات اس قدر وسیع ہے کہ ایک عام انسان تو شاید یہ زمین ہی مکمل طور پر نہ دیکھ سکے جو نظامِ شمسی کا ایک چھوٹا سا سیارہ ہے جبکہ اب تو ایسے سیارے دریافت ہو چکے ہیں جو سورج سے بھی لاکھوں گنا بڑے ہیں۔ اس لیے انسان کے لیے مادی جسم کے ساتھ اس کائنات سے نکلنا محال ہے۔ لیکن سلطان یعنی انسانِ کامل کی مدد سے روحانی طور پر اس کائنات کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ روح عالمِ امر سے تعلق رکھتی ہے اور عالمِ امر نورانیت کا جہان ہے۔ اس لیے انسان جب تک اس کائنات کے زمان و مکان کی قید سے باہر نہیں نکلے گا تب تک وہ عالمِ امر میں لاھوت لامکان تک نہیں پہنچ سکے گا۔ جب روح اس وجود اور اس عالمِ ناسوت سے باہر نکل جاتی ہے تو وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو جاتی ہے۔ جس طرح نزول کرتا ہوا اور ہر عالم سے گزرتا ہوا عالمِ ناسوت میں آیا ہے اسی طرح عروج کرتا ہوا واپس عالمِ ناسوت سے عالمِ لاھوت میں پہنچنا چاہیے۔ باطنی عروج کے یہ مراتب روحانی طور پر طے ہوتے ہیں اور انسان تب تک یہ باطنی سفر نہیں طے کر سکتا جب تک سروری قادری مرشد کامل اکمل کا ساتھ میسر نہ ہو۔ سروری قادری مرشد کامل اکمل مظہرِ ذات ہوتا ہے اور اسی کو سلطان کہا جاتا ہے جس کی مدد سے جسم کو لذات سے نجات ملتی ہے اور نفس کو شہوات سے، قلب خطرات سے خلاصی پاتا ہے اور روح ہر طرح کی جسمانی اور مکانی قید سے آزاد ہو جاتی ہے۔ پس اس انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کے قرب کا سفر اور منزل آسان ہو جاتی ہے۔
استفادہ کتب:
۱۔ الفتح الربانی: تصنیفِ لطیف سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ
۲۔ کلید التوحید کلاں: تصنیف ِلطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۳۔ محک الفقر کلاں: ایضاً
۴۔ فضل اللقا: ایضاً
۵۔کیمیائے سعادت: تصنیفِ لطیف حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ
۶۔سرّ دلبراں: تصنیف شاہ محمد ذوقی رحمتہ اللہ علیہ
Very Beautiful ❤️ and Informative Article
Behtreen
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ قلب کے متعلق فرماتے ہیں:
قلب ایک نہایت وسیع ولایت اور ملکِ عظیم ہے دونوں جہان اور مخلوق اس میں سما سکتے ہیں لیکن قلب دونوں جہانوں میں نہیں سما سکتا۔ (فضل اللقا)
دل موہ لینے والے انداز میں قلب کے معنی سمجھائے گئے ہیں اور کیسے صرف اور صرف انسانِ کامل کے وسیلہ سے قلب کا اللہ تک سفر ممکن ہے
ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت تحریر۔
سروری قادری مرشد کامل اکمل مظہرِ ذات ہوتا ہے اور اسی کو سلطان کہا جاتا ہے جس کی مدد سے جسم کو لذات سے نجات ملتی ہے اور نفس کو شہوات سے، قلب خطرات سے خلاصی پاتا ہے اور روح ہر طرح کی جسمانی اور مکانی قید سے آزاد ہو جاتی ہے۔ پس اس انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کے قرب کا سفر اور منزل آسان ہو جاتی ہے۔
Great
سروری قادری مرشد کامل اکمل مظہرِ ذات ہوتا ہے
Behtreen mazmoon
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ قلب کے متعلق فرماتے ہیں:
قلب ایک نہایت وسیع ولایت اور ملکِ عظیم ہے دونوں جہان اور مخلوق اس میں سما سکتے ہیں لیکن قلب دونوں جہانوں میں نہیں سما سکتا۔ (فضل للقائ)
قلب ایک نہایت وسیع ولایت اور ملکِ عظیم ہے دونوں جہان اور مخلوق اس میں سما سکتے ہیں لیکن قلب دونوں جہانوں میں نہیں سما سکتا۔ (فضل للقائ)
سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا:
اگر تیرا دل مہذب ہو جاتا تو یقینا تیرے تمام اعضا مہذب بن جاتے کیونکہ دل اعضا کا بادشاہ ہے پس جب بادشاہ مہذب بن جاتا ہے رعیت بھی مہذب بن جاتی ہے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 29)
دوم قلب جو ذکرِ اللہ سے پاک وصاف اور اللہ کی بارگاہ میں برگزیدہ ہوتا ہے یہ قلب معرفتِ الٰہی کے اسرار کا حامل ہوتا ہے۔ ایسا قلب نورِ الٰہی سے پرُ ہوتا ہے اور صاحبِ زندہ قلب دائمی حضوری کا حامل ہوتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
Great 👍
Very good superb
This is a thought Provoking article.. thanks for sharing this
معرفتِ الٰہی کے لیے علم ِفضیلت حاصل کرو جس کا وسیلہ مرشد ہے۔ صاحبِ تصور اسمِ اللہ ذات مرشد زندگی و موت میں نجات کا وسیلہ ہے۔
بہترین مضمون
Ya Allah apna fazal farma 🤲