سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبیؐ – Sab se Aula aur Aala hmara Nabi


4.6/5 - (28 votes)

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبیؐ 
 Sab se Aula aur Aala Hmara Nabi

تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری

ولادتِ مصطفیؐ کی خوشی

خاتم النبیین، سرورِ کونین، محبوبِ خدا، رحمت للعالمین، احمد مجتبیٰ، صاحب ِ لولاک، شافع روزِ محشر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر لاکھوں درود اورسلام۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت کی خوشی عرش تا فرش سارے عالم میں منائی گئی، آپؐ کی آمد کی خوشی میں خود حضرتِ کبریا نے عرشِ بالا محفل سجائی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تشریف آوری سے ہر دل مہک اٹھا، آپؐ کی تشریف آوری سے اُمت کو دین کی نعمت نصیب ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے تشریف لانے سے کفر و شرک کے بادل چھٹ گئے، اندھیرا نور میں بدل گیا، آپؐ کیا آئے زندگی ہی بدل گئی ۔

سلام ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پراے آمنہؓ کے لعل 

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بلند مقام و منصب کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جتنے بھی پیغمبر مبعوث فرمائے گئے کسی کی آمد کی خوشی اس انداز میں نہیں منائی گئی جس طرح اللہ پاک نے اپنے پیارے محبوبؐ کی ولادت کی خوشی منائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت کے موقع پر ستاروں کو نیچے اتار کر دنیامیں چراغاں کیا گیا، مشرق تامغرب پوری زمین بقعۂ نور بنا دی گئی حتیٰ کہ حضرت آمنہؓ نے شام کے محلات دیکھ لئے۔ آسمان اور جنت کے سب دروازے کھول کر عالمِ بالا کو خوشبوؤں سے مہکا دیاگیا۔ ستر حورانِ بہشت کو استقبال کے لیے فضا میں نیچے اتارا گیا اور ان میں سے کئی حضرت آمنہؓ کے گھر مامور کی گئیں۔ ہزارہا فرشتوں کو بھی استقبال پر مامور کر دیا گیا، جنتی پرندے بھی استقبال کے لیے نیچے اتار دئیے گئے۔ شبِ ولادت قریشِ مکہ کے سب جانوروں کو بھی میلادِ مصطفیؐ کی خوشی کے اظہار کے لیے زبان دے دی گئی۔ آقا دو جہاں کی ولادت کی خوشی میں باری تعالیٰ نے سال بھر عرب کی عورتوں کو بیٹے عطا فرمائے، ولادت کی خوشی میں عرب کے درخت پھلوں سے لاد دیئے گئے، سوکھے ہوئے کھیت ہرے بھرے ہو گئے اور قحط کو ہریالی و شادابی سے بدل دیا گیا۔(حقیقت عید میلاد النبیؐ)

فضیلتِ سیدّ الانبیا

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سیدّ الانبیا ہیں۔ معراج کی رات تمام انبیا نے آپؐ کی امامت میں نماز ادا کی۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا انبیا کرام کو مبعوث فرمانے کا مقصد اپنی توحید اور آپؐ کی رسالت کا پیغام لوگوں تک پہنچانا تھا۔ اللہ پاک نے تمام انبیا کرام سے عہد لیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تشریف آوری اور آپؐ پر ایمان لانے کی ترغیب اپنی اُمت کو دلائیں۔ انبیا کرام سے جو عہد اللہ پاک نے لیا اس کا تذکرہ قرآنِ کریم میں ان الفاظ میں ہوا ہے :
اور( اے محبوبؐ) !وہ وقت یاد کریں جب اللہ نے انبیا سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کروں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤگے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے ۔ فرمایا !کیا تم نے اقرار کر لیا ۔ فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔ (سورۃ آلِ عمران۔ 81) 

کیا خوب شان ہے ہمارے آقاؐ کی کہ اللہ پاک خود اپنے محبوب کے بلند و اعلیٰ رتبہ کی گواہی دے رہا ہے۔ آپؐ کا فرمانِ عالیشان ہے:
’’میں ہی اگلوں پچھلوں میں سب سے زیادہ اللہ کے ہاں عزت والا ہوں ، فخر نہیں ہے۔‘‘(ترمذی ۔3616)

ایک اور جگہ ارشادفرمایا :
حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ کچھ صحابہ کرامؓ بیٹھ کر مختلف انبیا کرام علیہم السلام کے درجات و کمالات کا تذکرہ کر رہے تھے۔ ایک نے کہا حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ تھے۔دوسرے نے حضرت موسیٰؑ کا تذکرہ کیا اور کہا وہ کلیم اللہ تھے۔ تیسرے نے حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں کہا کہ وہ روح اللہ تھے ایک نے حضرت آدمؑ کو صفی اللہ کہا۔ اتنے میں حضور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لائے اور فرمایا جو کچھ تم نے کہا سن لیا وہ سب درست ہے اور میرے بارے میں سن لو !’’میں اللہ کا حبیب ہوں اور اس پرفخر نہیں۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح۔5762)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :
میں ہی تمام رسولوں کا قائد (سردار ) ہوں گا فخر نہیں ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح۔5764)

حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیا کرام میں جتنے کمالات، محاسن و معجزات متفرق تھے وہ سب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام میں یکجاہیں۔بلکہ یوں کہنا غلط نہ ہو گا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خود سراپا معجزہ ہیں۔ بقول شاعر:

خدا نے دئیے معجزے ہر نبی کو
ہمارے نبیؐ معجزہ بن کر آئے
ہزاروں گل کھلے تھے چمن میں
بہار آئی جب مصطفیؐ بن کر آئے

٭٭٭

دو چار معجزے ہوں تو مانے کوئی بشر
پوری حیات سلسلہ معجزات ہے 

٭٭٭

ہر نبی کسی خاص علاقے، قوم اور بستی کی طرف تشریف لایا مگر اللہ نے اپنے حبیبؐ کو فرمایا میں ربّ العالمین ہوں اور آپ رحمتہ اللعالمین ہیں۔ جہاں تک میری خدائی ہے وہاں تک آپ کی مصطفائی ہے۔ شانِ محبوب ؐ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ (سورۃ الم نشرح ۔ 4)
ترجمہ: اور ہم نے آپؐ کی خاطر آپؐ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ ) بلند فرما دیا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ کی کامل دلیل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سارے پیغمبر معجزات لیکر آئے لیکن ہمارے مصطفیؐ کی ذات تو خود سراپا اعجاز ہے۔بقول شاعر:

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبیؐ
سب سے بالا و وَالا ہمارا نبیؐ
خلق سے اولیا، اولیا سے رسل
اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبیؐ

حضرت آدم علیہ السلام:

حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں نے ایک بار سجدہ کیاجبکہ ہمارے آقاپاکؐ پر قیامت تک تمام فرشتے درود پڑھتے رہیں گے بلکہ حضرت آدم علیہ السلام روزِ قیامت خود ہمارے آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جھنڈے تلے ہوں گے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں بیان ہوا ہے:
حضرت آدم علیہ السلام اور تمام انبیا کرام اور ان کی اُمتیں بروزِ قیامت میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے ۔ ( ترمذی۔ 3148 )

حضرت آدم علیہ السلام سے نسل ِ انسانی کا آغاز ہوا ہے جبکہ ہمارے نبی ؐ تو اس وقت بھی موجود تھے جب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی۔ خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا  :
میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم علیہ السلام ابھی مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔ (مستدرک۔4209)

احادیثِ مبارکہ ہیں:
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا کیا۔
میں اللہ کے نور سے ہوں تمام مخلوق میرے نور سے ہے۔
سب سے پہلے اللہ نے میری روح کو پیدا فرمایا۔

حضرت سلیمانؑ اور فخرِ سلیمانؑ : 

حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جنوں، انسانوں اور پرندوں کا لشکر عطا کیا جبکہ اپنے حبیبؐ کی مدد کے لیے آسمان سے فرشتوں کا لشکر نازل فرمایا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پرندوں کی بولیاں سکھائیں جبکہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے تو ہر شے جھک کر سلام پیش کرتی تھی۔ حضرت علیؓ بن ابی طالب سے مروی ہے ’’میں مکہ مکرمہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہمراہ تھا۔ ہم مکہ مکرمہ کی ایک طرف چلے تو جو پہاڑ اور درخت بھی آپؐ کے سامنے آتا وہ آپؐ سے عرض کرتا : السلام علیک یا رسول اللہ‘‘۔

 ہمارے آقا کی شان ہے کہ آپؐ کے سامنے پتھر بھی کلمہ حق کا ورد کیا کرتے تھے۔بقول شاعر:

سمتِ نبی ابوجہل گیا، آقاؐ سے اس نے یہ کہا
گر ہو نبی بتلاؤ ذرا، میری مٹھی میں ہے کیا
آقا کا فرمان ہوا، اور فضلِ رحمان ہوا
مٹھی    سے    پتھر     بولا، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ

حضرت موسیٰ علیہ السلام :

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصامار کر دریاکا سینہ چاک کر دیا جبکہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے اشارے سے چاند دوٹکڑے ہو گیا ۔ 

اشارے سے چاند چیر دیا، چھپے ہوئے خور کو پھیر لیا
گئے ہوئے دن کو عصر کیا یہ تاب و تواں تمہارے لیے 

جہاں موسیٰ علیہ السلام کے قدم لگیں وہ جگہ مرکز تجلی بنے جہاں ابراہیمؑ کے قدم لگیں وہ جائے مصلیٰ بنے اور جہان سرکار کے قدم لگیں وہ جگہ عرشِ معلی بنے ۔  

حضرت موسیٰ علیہ السلام دعا کرتے رہے:
رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ  (سورۃ طٰہٰ۔ 25)
ترجمہ:اے میرے ربّ! میرے لیے میرا سینہ کشادہ فرما دے ۔
 اللہ پاک نے اپنے محبوب کے لیے خود ہی فرما یا:
اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ    (سورۃ الم نشرح۔ 1)
ترجمہ:کیا ہم نے آپؐ کی خاطر آپؐ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لیے ) کشادہ نہیں فرما دیا ۔

 حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی:
وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِنْ اَھْلِیْ۔ ھٰرُوْنَ اَخِیْ۔  (سورۃ طٰہٰ۔ 29-30)
ترجمہ: اور میرے گھر والوں میں سے میرا وزیر بنا دے۔ میرا بھائی ہارون ۔

اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لیے فرمایا:
وَ وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَک    (سورۃ الم نشرح۔ 2)
ترجمہ: اور ہم نے آپؐ کا بار اُتار دیا۔

ایک بار حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خود ہی سوال کیا،اے اللہ ! میں تیرا کلیم ہوں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) تیرا حبیب ہے۔کلیم اور حبیب میں کیا فرق ہے ؟ فرمایا کلیم وہ ہے جو خود چل کر طور پر آئے  اورپھر کہے اے اللہ ! مجھے اپنا جلوہ دکھا اور میں کہوں لَنْ تَرَانِیْ  جبکہ حبیب وہ ہے جس کو دیکھنے کا خود اللہ مشتاق ہو ، کلیم میری رضا چاہے اور میں حبیب کی رضا چاہوں ۔(شانِ مصطفیؐ بزبانِ مصطفیؐ) 

حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کی رضا کے مشتاق تھے ۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں بیان ہوا ہے:
قَالَ ھُمْ اُولَآئِ عَلٰٓی اَثَرِیْ وَ عَجِلْتُ اِلَیْکَ رَبِّ لِتَرْضٰی (سورۃطٰہٰ۔ 84)
ترجمہ: (موسیٰ علیہ السلام نے ) عرض کیا : وہ لوگ بھی میرے پیچھے آرہے ہیں اور میں نے(غلبۂ شوق و محبت میں ) تیرے حضور پہنچنے میں جلدی کی ہے۔ اے میرے ربّ ! تاکہ تو راضی ہو جائے۔ 

 جبکہ اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فرمایا:
وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی (سورۃالضحیٰ ۔ 5)
ترجمہ: اور آ پؐ کا ربّ عنقریب آپؐ کو (اتنا کچھ )عطا فرمائے گا کہ آپؐ راضی ہو جائیں گے۔ 

حضرت امام رضا خانؒ کیا خوب لکھتے ہیں :

خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمدؐ

حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے دیدار کی ایک تجلی برداشت نہ کر پائے جبکہ اللہ کے حبیب عین ذاتِ الٰہی کو ایسے دیکھتے رہے کہ
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی (سورۃ النجم ۔ 17)
ترجمہ: ان کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)۔ 

حسنِ یوسفؑ اور حسنِ مصطفیؐ:

حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر حسن عطا کیا کہ آپ کے مبارک قصے کو قرآن نے احسن القصص  فرمایا یعنی تمام قصوں سے حسین ۔ لیکن ہمارے آقاؐ کے حسن کا کیا کہنا کہ اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں جا بجا آپؐ کے حسن کا تذکرہ فرمایا ہے۔ قرآنِ کریم کے صفحات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جسدِ اطہر کے اعضا مبارک یعنی چہرۂ انور، گیسوئے مبارک اور چشمانِ مقدس کے ذکر سے معمور ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَالضُّحٰی۔ وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰی۔ (سورۃ  الضحیٰ۔ 1-2)
ترجمہ:قسم ہے چاشت کے وقت کی (جب آفتاب بلند ہو کر نور پھیلاتا ہے) ۔ اور قسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے ۔

مفسرین فرماتے ہیں الضحٰی  سے جمالِ مصطفیؐ کے نور کی طرف اشارہ ہے اورالیل سے مراد حضورؐ کے عنبرین گیسوئے مبارک کی طرف اشارہ ہے ۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
وَالنَّجَمِ اِذَا ھَوٰی    (سورۃ النجم۔ 1)
ترجمہ:قسم ہے روشن ستارے (محمدؐ) کی جب وہ (چشم زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر )نیچے اترے۔ 

تصنیف ’’شانِ مصطفیؐ میں قرآنی قسمیں ‘‘ میں اس آیت کے متعلق فرمایا گیا ہے:
امام جعفر صادق نے فرمایا ’’النجم‘‘ سے مراد حضرت محمدؐ ہیں اور آیت کا معنی ہے محمدؐ کی قسم (جب وہ نیچے اترے) یعنی شبِ معراج آسمان سے نیچے اترے۔ نیز یہ بھی فرمایا ’’النجم‘‘ سے مراد قلبِ محمدؐ بھی ہے اور یہاں ربّ العزت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلبِ انور کی قسم کھائی ہے ۔(شانِ مصطفی میں قرآنی قسمیں)

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ میرے والد شاہ عبدالرحیمؒ کو خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی تو انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! زنانِ مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور بعض لوگ انہیں دیکھ کر بیہوش بھی ہو جاتے تھے، لیکن کیا سبب ہے کہ آپؐ کو دیکھ کر ایسی کیفیات طاری نہیں ہوتیں۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’میرے اللہ نے غیرت کی وجہ سے میرا جمال لوگوں سے مخفی رکھا ہے، اگر وہ کماحقہ آشکار ہو جاتا تو لوگوں پر محویت وبے خودی کا عالم اس سے کہیں بڑھ کر طاری ہوتا جو حضرت یوسف علیہ والسلام کو دیکھ کر ہوا کرتا تھا۔‘‘ (حسن سراپائے رسولؐ)

امام محمد مہدی الفاسیؒ نے الشیخ ابو محمد عبد الجلیل القصری رحمتہ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں ’’حضرت یوسف علیہ السلام اور دیگر حسینانِ عالم کا حسن و جمال حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حسن و جمال کے مقابلے میں محض ایک جز کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اسم مبارک کی صورت پر پیدا کئے گئے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حسن کو ہیبت اور وقار کے پردوں سے نہ ڈھانپا ہوتا اور کفار و مشرکین کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دیدار سے اندھا نہ کیا گیا ہوتا تو کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف ان دنیاوی اور کمزور آنکھوں سے نہ دیکھ سکتا۔‘‘ (حسن سراپائے رسولؐ) 

 حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حسن کا ایک حصہ عطا فرمایا تھا لیکن ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کامل حسن عطا کیا۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے روحانی کمالات و خصائص اور ظاہری و باطنی فضائل کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بے مثل و مثال حسن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا زندہ و جاوید معجزہ ہے۔

صحابیٔ رسول اور تاجدارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے درباری شاعر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہٗ نے اپنے قصیدہ میں جمالِ نبوت کی شانِ بے مثال کو اس طرح بیان فرمایا: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! آپ سے زیادہ حسن و جمال والا میری آنکھ نے کبھی کسی کو دیکھا ہی نہیں اور آپؐ سے زیادہ کمال والا کسی عورت نے جنا ہی نہیں۔‘‘ (سیرتِ مصطفیؐ)

 بقول شاعر:

 حسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زناں
سر کٹاتے ہیں تیرے نام پہ مردانِ عرب

ہر فضل جو کائنات میں موجود ہے وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فضیلت کی بدولت ہے۔ جس کو جو بھی کمال ملا وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کامل ہستی کی بدولت حاصل ہوا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے محاسن و کمالات، معجزات اور اوصافِ حمیدہ سب منجانب اللہ تھے اور تمام انبیا کرام کو معجزات و کمالات آپؐ کے وسیلہ سے حاصل ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صورت و سیرت، سنت و شریعت، اخلاق و عادات سب ذات و صفاتِ حق تعالیٰ کا اظہار ہے اور انبیا کرام نے جو بھی فیض پایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلہ سے ہی پایا۔

 قرآن حضور نبی اکرمؐ کا معجزۂ عظیم

 قرآنِ کریم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وہ ابدی معجزہ ہے جو رہتی دنیا کے لیے ہدایت کا خزانہ ہے۔ قرآن کی ہر ہرآیت اور ہر ہر سطرمعجزات کا دفتر ہے۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے:
رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں۔(سورۃالبقرۃ۔ 185)

یہ وہ عظمت والی کتاب ہے، جس کے کتاب الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں اور نہ ہی اس کتاب میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہے۔ یہ کتاب جو حضور علیہ الصلوٰۃ السلام پر نازل ہوئی اس کا ذاتی نام اللہ ربّ العزت نے خود قرآنِ مجید کے اندر ’’قرآن‘‘ رکھا۔

 اللہ تعالیٰ نے اپنے جتنے بھی انبیا کرام پر آسمانی کتب نازل فرمائی وہ سب قرآنِ مجید فرقانِ حمید کے نزول کے ساتھ منسوخ ہو گئیں ہیں۔ اب ہدایت کی کتاب صرف ایک ہی ہے اور وہ قرآنِ کریم ہے جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے اور یہی وہ عظمت والی کتاب ہے جو دیگر تمام الہامی کتب کی تصدیق کرتی ہے۔

 واقعۂ معراج : 

معجزۂ معراج حضو ر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وہ معجزہ ہے جو ارتقائے نسلِ انسانی کا سنگِ بنیاد ہے اور اسے قصرِ ایمان کا بنیادی پتھر بنائے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ نبی آخر زماں کے معجزات میں معجزۂ معراج خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ تمام انبیا کرام کے معجزات ایک طرف اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا معجزۂ معراج ایک طرف، تمام معجزات مل کر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس معجزہ کی افادیت اور عالمگیریت کو نہیں پہنچ سکتے۔

’’آقائے دو جہاںؐ نے فرمایا: میں مکہ مکرمہ سے اٹھا اور براق پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچا، وہاں سے آسمانوں اور پھر عرشِ معلی تک گیا حتیٰ کہ مکان و لامکان کی وسعتیں طے کرتا ہوا قابَ قوسین پہنچا اور حسنِ مطلق کابے نقاب جلوہ کیا، انبیا کرام سے ملاقاتیں کیں اور جب گھر لوٹا تو دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی اور بستر گرم تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ معجزہ دائمی ہے اس لیے کہ ہر گزرتے وقت کے ساتھ اس کی حقانیت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ‘‘ (فلسفۂ معراج النبیؐ)

کامل ایمان:

 یہ ربّ الکریم کا اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت کا اندازہے کہ ایمان کی حالت میں مکمل داخل ہونے کے لیے اپنی اطاعت کے ساتھ اپنے محبوب کی اطاعت کو فرض کر دیا، اپنے ذکر کو محبوب کے ذکر کے ساتھ جوڑ دیا ،کلمہ حق میں صرف لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ  کہنا کافی نہیں بلکہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ  کو اللہ کاآخری نبی ماننا ضروری قرار دیا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فضائل میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کو آپؐ کے نام کے ساتھ، اپنے حکم کو آپؐ کے حکم کے ساتھ، اپنی رضا کو آپؐ کی رضا کے ساتھ جوڑ دیا۔ جس کسی نے بھی آپؐ کی مخالفت یا ناراضی کی روش اختیار کی،اللہ نے اسے اپنی ناراضی قرار دیا۔ درحقیقت  لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا پیغام سمجھنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر کامل ایمان لانا ضروری ہے۔ اعلانِ نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فاران کی چوٹی پر تشریف لاکر اپنی قوم سے پوچھا کہ کیا وہ آپؐ کی ہر کہی ہوئی بات پر یقین رکھتے ہیں؟ سب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صادق اور امین ہونے کی تصدیق کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اللہ کی وحدانیت اور اپنی نبوت کا اعلان فرمایا۔ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ  دعوت ہے تو اس پر ایمان لانے کے لیے داعی پر ایمان رکھنابھی ضروری ہے۔ اگر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ دعوت ہے تو مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ داعی۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ  ہدایت ہے اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ  ہادی،  لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ  ذکر ہے اور  مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ  ذاکر، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ارشاد ہے اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ مرشد ہیں،  لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کلام ہے اور  مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ متکلم۔ جو داعی کو نہ مانے وہ دعوت کو نہیں مان سکتا، جو ہادی کو نہ مانے وہ ہدایت کی راہ پر نہیں چل سکتا، جو ذاکر کو نہ پہچانے وہ ذکر کی حقیقت کو کیسے پا سکتا ہے؟ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
جس نے رسول( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔ (سورۃالنسا۔80)

 ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
آپ فرما دیں کہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی اطاعت کرو پھر اگر وہ روگردانی کریں تو اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔ (سورۃ آلِ عمران ۔32)

شانِ مصطفیؐ پر احادیث مبارکہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا!
میں ہی عاقب ہوں اور عاقب وہ ہوتا ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح۔ 5776)
سب سے پہلا شفاعت کرنے والا میں ہوں گا اور سب سے پہلا میں ہوں گا جس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ (صحیح مسلم 5940)
جب لوگ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے تو میں وہ پہلا شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہوگی اور جب وہ دربارِ الٰہی میں آئیں گے تو میں ان کا خطیب ہوں گا اور جب وہ مایوس اور نااُمید ہو جائیں گے تو میں انہیں خوشخبری سنانے والا ہوں گا، حمد کا پرچم اس دن میرے ہاتھ میں ہوگا اور میں اپنے ربّ کے نزدیک اولادِ آدم میں سب سے بہتر ہوں اور (مجھے) اس پر کوئی فخر نہیں۔ (ترمذی۔3610)
 قیامت کے دن سب (انبیا) سے زیادہ پیروکار میرے ہوں گے۔ (صحیح مسلم۔ 385)

 حاصلِ کلام:

 حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ کے محبوب نبی ہیں اور آپؐ ہی کی خاطر اللہ تعالیٰ نے دنیا تخلیق کی۔ آپؐ کی شان اور قدر و منزلت اور بلند رتبہ کو بیان کرنا تو دور کوئی شخص اس کا ادراک بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ انسان کے اختیار میں صرف اتنا ہے کہ وہ اپنا سر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی غلامی میں جھکائے رکھے اور اس دنیا میں آنے کا مقصد جو کہ حقیقتِ محمدیہ کی پہچان ہے، کو پانے کی کوشش میں مصروفِ عمل رہے۔ حقیقتِ محمدیہ کی پہچان کے بغیر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی غلامی کا شرف حاصل نہیں ہو سکتا۔ حقیقتِ محمدیہ کی پہچان حاصل کرنے کے لیے موجودہ دور کے مرشدکامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت کریں۔

 استفادہ کتب:
۱۔ حقیقتِ عید میلاد النبیؐ : تصنیف و تالیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔ شانِ مصطفی بزبان مصطفیؐ: تالیف الحافظ القاری مولانا غلام حسن قادری
۳۔فلسفہ معراج النبیؐ:شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری
۴۔حسن سراپائے رسولؐ:  ایضاً
۵۔شانِ مصطفیؐ میں قرآنی قسمیں:  ایضاً
۶۔ شانِ مصطفی:تالیف ملک التحریر علامہ مولانا محمد یحییٰ انصاری اشرفی 

 

24 تبصرے “سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبیؐ – Sab se Aula aur Aala hmara Nabi

  1. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا!
    میں ہی عاقب ہوں اور عاقب وہ ہوتا ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح۔ 5776)

  2. کیا خوب شان ہے ہمارے آقاؐ کی کہ اللہ پاک خود اپنے محبوب کے بلند و اعلیٰ رتبہ کی گواہی دے رہا ہے۔ آپؐ کا فرمانِ عالیشان ہے:
    ’’میں ہی اگلوں پچھلوں میں سب سے زیادہ اللہ کے ہاں عزت والا ہوں ، فخر نہیں ہے۔‘‘(ترمذی ۔3616)

  3. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :
    میں ہی تمام رسولوں کا قائد (سردار ) ہوں گا فخر نہیں ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح۔5764)

  4. سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبیؐ
    سب سے بالا و وَالا ہمارا نبیؐ
    خلق سے اولیا، اولیا سے رسل
    اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبیؐ

  5. سلام ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پراے آمنہؓ کے لعل

  6. خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
    خدا چاہتا ہے رضائے محمدؐ

  7. خدا نے دئیے معجزے ہر نبی کو
    ہمارے نبیؐ معجزہ بن کر آئے
    ہزاروں گل کھلے تھے چمن میں
    بہار آئی جب مصطفیؐ بن کر آئے
    ٭٭٭

  8. خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
    خدا چاہتا ہے رضائے محمدؐ

  9. خدا نے دئیے معجزے ہر نبی کو
    ہمارے نبیؐ معجزہ بن کر آئے
    ہزاروں گل کھلے تھے چمن میں
    بہار آئی جب مصطفیؐ بن کر آئے

  10. حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی شان اور مرتبہ وہم و فہم سے بالاتر ہے

  11. سلام ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پراے آمنہؓ کے لعل

  12. خاتم النبیین، سرورِ کونین، محبوبِ خدا، رحمت للعالمین، احمد مجتبیٰ، صاحب ِ لولاک، شافع روزِ محشر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر لاکھوں درود اورسلام۔

  13. سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبیؐ
    سب سے بالا و وَالا ہمارا نبیؐ
    خلق سے اولیا، اولیا سے رسل
    اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبیؐ

  14. خدا نے دئیے معجزے ہر نبی کو
    ہمارے نبیؐ معجزہ بن کر آئے
    ہزاروں گل کھلے تھے چمن میں
    بہار آئی جب مصطفیؐ بن کر آئے

  15. خدا نے دئیے معجزے ہر نبی کو
    ہمارے نبیؐ معجزہ بن کر آئے
    ہزاروں گل کھلے تھے چمن میں
    بہار آئی جب مصطفیؐ بن کر آئے
    ٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں