خواتین اور راہِ تصوف Khawateen Aur Rah-e-Tasawwuf

Spread the love

5/5 - (1 vote)

خواتین اور راہِ تصوف۔  Khawateen Aur Rah-e-Tasawwuf

تحریر: مسز ریحانہ مظہر سروری قادری۔ ہارون آباد

آج دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں تیز رفتاری کے ساتھ رواں دواں ہے۔ انسان نے چاند پر قدم رکھ لیا اور زمین پر حیرت انگیز تجربات اور ایجادات کر رہا ہے۔اس سائنسی دور میں بھی ہمارے معاشرے میں ایسی سوچ اور نظریات رکھنے والا طبقہ موجود ہے جو عورت کو ان کے شرعی حقوق دینے کا قائل نہیں۔ یہ لوگ عورت کو محض گھر سے گھرداری تک محدود تصور کرتے ہیں اور رتبہ و عزت میں مرد سے کمتر سمجھتے ہیں۔ یہ نظریات اور سوچ سراسر دینِ اسلام کی تعلیمات کے برعکس ہیں۔ اگر ہم تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ عورت نے ہر میدان خواہ دینی ہو یا دنیاوی، روحانیت ہو یا تصوف سب میں روشن مثالیں قائم کی ہیں۔ ان کے زہد و تقویٰ، عبادت و ریاضت اور اللہ کی راہ میں اپنی اولاد کو تیار کر کے بھیجنے کے واقعات کا ایک تسلسل موجود ہے۔ قرآنِ کریم میں مختلف خواتین کا ذکر نام لے کر کیا گیا ہے جو اللہ کے نزدیک خواتین کے بلند رتبہ کو ظاہر کرتا ہے مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ازواج حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ علیہم السلام، فرعون کی بیوی حضرت آسیہ، عزیزِ مصر کی بیوی زلیخا اور حضرت مریم سلام اللہ علیہا جن کی پارسائی کا واقعہ قرآنِ کریم میں درج ہے۔

 سورۃ النور اور سورۃ الاحزاب میں مسلمان عورتوں کو الگ سے خطاب کر کے احکام دئیے گئے ہیں اور ایک سورۃ ’’سورۃ النسا‘‘ تو عورتوں ہی سے منسوب کر دی گئی۔ سورۃ الطلاق اورسورۃ الممتحنہ میں بھی وضاحت سے عورتوں کو ہدایات دی گئی ہیں۔ان کے علاوہ سورۃ التحریم میں بھی اُمہات المومنین کا ذکر آیا ہے۔

حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اہلِ جنت کی عورتوں میں سب سے افضل چار عورتیں ہوں گی، خدیجہؓ بنت خویلد، فاطمہؓ بنتِ محمدؐ، مریم بنت عمران، آسیہ ؑبنت مزاحم جو فرعون کی بیوی تھیں۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل 2668)

سلطان الفقر اوّل سیدّۃ النسا،خاتونِ جنت حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیاری صاحبزادی ہیں، آپؐ پر سب سے پہلے ایمان لانے والی خاتون حضرت اُم المومنین حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ہیں جو ہر اعتبار سے نبی مکرمؐ کی معاون و مددگار ثابت ہوئیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شان کے متعلق بیان کیا جائے تو آپؓ ہی وہ ہستی ہیں جنہوں نے پیغمبرؐ کے ورثۂ علم کی حفاظت فرمائی اور آپؓ کی روایت کردہ حدیثوں پر ایک تہائی فقہ کی بنیاد ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے دو دفعہ قرآنِ کریم میں احکام نازل ہوئے۔ ایک دفعہ اُن کے گلے کا ہار ٹوٹا تو قافلے کو دیر ہوگئی اور پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمّم کی اجازت مل گئی اور دوسری دفعہ واقعہ افک میں اُن کی برأت سے متعلق وحی نازل ہوئی۔

تصوف کے میدان میں حضرت بی بی رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا بھی اہم مقام رکھتی ہیں۔آپؒ کا ذکر تصوف کی تاریخ میں حضرت بایزید بسطامیؒ جیسے اعلیٰ پایہ کے ولی اللہ کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس، جو حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے سلسلہ سروری قادری کے حقیقی و روحانی وارث ہیں، اپنی تصنیف مبارکہ ’’شمس الفقرا‘‘ میں فرماتے ہیں :
 فقر کے میدان میں خواتین کا بھی اتنا حق ہے جتنا کہ مردوں کاکیونکہ قرآن و حدیث میں خواتین کی بیعت کا علیحدہ سے تذکرہ ملتا ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ سبحانہٗ تعالیٰ فرماتا ہے:
ترجمہ: اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جس وقت مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی اور چوری نہ کریں گی اور بدکاری نہ کریں گی اور اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان کوئی جھوٹا بہتان نہ باندھیں گی۔اور نہ ہی حکم شرع پر آپؐ کی نافرمانی کریں گی، پس ان سے بیعت قبول کریں اور ان کے واسطے اللہ سے بخشش مانگیں، بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (سورۃ الممتحنہ ۔ 12 )

خواتین کی بیعت سے متعلق یہ آیت واضح دلیل ہے جس سے سوائے حاسد، متکبر اور منکرینِ قرآن کے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اس آیتِ مبارکہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ بیعتِ اسلام نہ تھی بلکہ بیعتِ توبہ و تقویٰ تھی کیونکہ آیت کے آغاز میں مومنات کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بیعت کرنے کے لیے آئیں۔ (شمس الفقراسے اقتباس)

 مومنات کی بیعت کا ذکر احادیثِ مبارکہ میں کثرت سے ملتا ہے۔ حضرت سلمیٰ بنت قیسؓ فرماتی ہیں:
میں کچھ مسلمان خواتین کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں بیعت کے لیے حاضر ہوئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ شرط لگائی کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گی، چوری نہیں کرو گی، بدکاری نہیں کروگی، اپنی اولاد کو قتل نہیں کروگی، کوئی بہتان اپنے ہاتھوں اور پیروں کے درمیان نہیں گھڑو گی اور کسی نیکی کے کام میں آپؐ کی نافرمانی نہیں کرو گی اور اپنے شوہروں کو دھوکہ نہیں دو گی اور ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ان شرائط پر بیعت کر لی۔(مسند احمد 27674)

جو حضرات دراصل خواتین کی بیعت کا انکار کرتے ہیں اس کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ مرد تصور کرتا ہے کہ عورت اگر بیعت کرے گی تواسے دین کا شعور حاصل ہو گا اور اپنے حقوق سے آگاہ ہو جائے گی لہٰذا اس سے ان کی حاکمیت خطرے میں پڑ جائے گی۔ لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس آگاہی و شعور سے خواتین اپنے فرائض اچھے انداز میں سر انجام دینے کے قابل ہو جائیں گی۔ ایک طبقہ یہ بھی غلط تصور رکھتا ہے کہ شوہر کو عورت کا پیر و مرشد قرار دیا جاتا ہے جبکہ اس مرد نے خود سلوک کی کوئی منزل طے نہیں کی ہوتی۔ نہ ہی وہ ظاہر و باطن میں کوئی ایسے مراتب رکھتا ہے جس کی بنا پر وہ اپنی بیوی کی روحانی تربیت کر کے نفس کا تزکیہ کر سکے اور دل و روح میں عشقِ حقیقی کی شمع روشن کر سکے۔جاننا چاہیے کہ فقر کے اعلیٰ و ارفع مقام اور کامیابی کے ساتھ منزلِ مقصود تک صرف فقرائے کاملین ہی پہنچا سکتے ہیں کیونکہ انہیں یہ اختیار باطن میں اللہ اور اس کے رسول خاتم النبییٖن صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اجازت سے حاصل ہوتا ہے۔ 

خواتین کی بیعت کے متعلق ایک اور غلط مسئلہ جس کی شرعی کوئی حیثیت نہیں وہ یہ کہ عورت مرد کی اجازت کے بغیر بیعت نہیں کر سکتی۔ بیعت کرنا ایک پاکیزہ عمل ہے اور عورت کا بیعت کرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ بلکہ مرد اور عورت کی بیعت کا قرآنِ کریم میں علیحدہ علیحدہ ذکر کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عورت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنا یہ فرض خود ادا کرے۔ مرشد کامل سے بیعت کرنے کا ایک ثمر یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ علمِ معرفتِ الٰہی حاصل ہوتا ہے۔ اور علم کے متعلق یہ حکم ہوا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔ پس جس طرح والد یا شوہر عورت کو نماز، روزے جیسے فرائض سے نہیں روک سکتے اسی طرح بیعت جو علمِ معرفت کے حصول کا ذریعہ ہے، اس سے بھی روکنے کا اختیار نہیں رکھتے بشرطیکہ بیعت مرشد کامل اکمل سے کی جا رہی ہو نہ کہ ناقص یا جعلی پیر سے۔

اگر خواتین بیعت ہو کر مرشد کامل اکمل کی پاکیزہ و نورانی محافل میں شامل ہو کر اپنے نفوس کا تزکیہ کروائیں گی تو وہ نہ صرف آخرت میں کامیابی حاصل کریں گی بلکہ دنیا میں بھی اپنے فرائض پہلے سے زیادہ جوش اور خلوصِ نیت کے ساتھ ادا کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔اگر ملازمت کرتی ہیں تو حلال و حرام کے متعلق آگاہی حاصل ہو جائے گی اور ان کے ہر کام میں آسانی، برکت اور جدت پیدا ہو گی۔اس کے علاوہ وہ اپنے بچوں کی تربیت بھی بہترین انداز سے کر سکیں گی۔ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی آغوش ہوتی ہے جتنے بھی اعلیٰ مقام و کردار کے اولیا اللہ گزرے ہیں سب کی پرورش میں ماں کی نیک تربیت کا بہت بڑا کردار شامل ہے۔ مثال کے طور پر حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ کی والدہ محترمہ اُم الخیر سیدہ فاطمہؒ، جو کہ حسینی سیدّ تھیں ،نے آپؓ کو جنم دیااور بہترین تربیت فرمائی۔ حضرت بابا فریدؒ کی والدہ محترمہ قرسم خاتون نے بھی جس انداز میں اپنے بیٹے کی تربیت فرمائی اس کے واقعات بھی تاریخ میں مشہور ہیں ۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ محترمہ حضرت بی بی راستیؒ خود ولیہ اور عارفہ کاملہ تھیں۔حضرت سلطان باھوؒ نے اپنی تصانیف میں اپنی والدہ کا بارہا ذکر بھی کیا ہے۔میرے مرشد کریم سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس  فرماتے ہیں:
خواتین بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت اور دینِ اسلام اور اسکی تعلیم کے حصول پر اتنا ہی حق رکھتی ہیں جتنا کہ مرد حضرات۔ اللہ پاک نے تمام ارواح کو برابر بنایااور ان سے اپنا رشتہ بھی ایک ہی بنیاد پر استوار کیا۔(شمس الفقرا) 

انسان کی روح نہ مرد ہے نہ عورت۔عورت اور مرد کی تقسیم تب کی گئی جب اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں بھیجنے کے لیے جسمانی لباس عطا کیے۔ ارواح کو مرد اور عورت کا لباس دینے کے پیچھے وجہ یہ تھی کہ دنیا کا نظام قائم کیا جا سکے اور وہ اپنے اپنے فرائض اور کردار ادا کر سکیں۔ لہٰذا کسی کو یہ عذر پیش کر کے ولیٔ کامل کی بیعت سے روکنا کہ وہ عورت ہے، سراسر نا انصافی اور ظلم ہے۔ 

انسان کا اس دنیا میں آنے کا مقصد نفس کا تزکیہ ہے۔آج کے اس پرُفتن دور میں جہاں نفسانفسی کا عالم ہے وہیں تمام مرد و خواتین کو دعوتِ عام ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں تشریف لائیں اور ان کے دستِ اقدس پر بیعت ہوکر ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات حاصل کریں اور آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت سے مستفید ہو کر تزکیۂ نفس و تصفیۂ قلب حاصل کر کے قربِ الٰہی کی منازل طے کریں۔

استفادہ کتب
شمس الفقرا : تصنیف لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس 

 
 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں