کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan – Urdu Translation

Spread the love

Rate this post

کلید التوحید (کلاں)  | Kaleed ul Tauheed Kalan 

قسط نمبر33                                                                    مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

ذکر اور علم اللہ کی عطا ہیں جبکہ جہالت و دنیا خطراتِ شیطانی کے باعث خطا ہیں۔ پس صاحبِ عطا اور صاحبِ خطا کو ایک دوسرے کی مجلس پسند نہیں آتی۔ یہ درست ہے کہ پارہ صاحبِ عمل عامل کے بغیر کشتہ نہیں بنتا اور نہ ہی کسی کام آتا ہے۔ اسی طرح مرشد کامل عارف کے بغیر فقر و معرفت اور حضوری میں غرق ہونے کے مراتب حاصل نہیں ہوتے۔ عارف بھی دو قسم کے ہیں۔ عارفِ طبقات جو حیرت میں گم ہوتے ہیں اور عارف فنا فی اللہ جو حضوری میں غرق ہوتے ہیں۔ صاحبِ حضور عارف کے چار گواہ ہیں اوّل تجرید، دوم تفرید، سوم توکل سے کیا جانے والا ترک، چہارم توحید۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلتَّوَکَّلُ وَ التَّوْحِیْدُ تَوَامَانِ 
ترجمہ: توحید و توکل دونوں جڑواں بھائی ہیں۔

فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ (سورۃ آلِ عمران۔ 122)
ترجمہ: اور مومنین کو اللہ پر ہی توکل کرنا چاہیے۔ 

مطلب یہ کہ مرشد کامل اکمل حضوری کا طریق جانتا ہے اور اپنے طالبوں کو ذکر فکر اور ورد وظائف جیسے اعمالِ ظاہر میں مشغول نہیں کرتا۔ صاحبِ حضور مرشد سے طالبِ مولیٰ کو پہلے ہی روز حضوری حاصل ہو جاتی ہے۔ راہِ حضوری کی ابتدا فنا فی الشیخ کا مرتبہ ہے اور راہِ حضوری کا متوسط فنا فی اللہ کا مرتبہ ہے اور انتہائے راہِ حضوری فنا فی محمد رسول اللہ کا مرتبہ ہے۔ جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی حضوری، شریعت، امر بالمعروف اورنص و حدیث سے باہر قدم رکھے وہ مردود، خبیث اور ابلیس ہے جو ظاہر و باطن میں اہلِ بدعت، اہلِ سرود، حسن پرست اور خدوخال دیکھنے والا ہوتا ہے اور خواہشاتِ نفس کے باعث مست رہتا ہے وہ باطن کے کسی بھی مقام اورمنزل پر نہیں پہنچتا کیونکہ اس کا باطن باطل ہے۔ اور اگر شیطان تجھے ظاہر میں کچھ (مقام و مرتبہ) دکھاتا ہے وہ جنونیت اور استدراج ہے۔ 

اَلْاِسْتَدْرَاجُ بَعِیْدٌ مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی 
ترجمہ: استدراج اللہ کی رحمت سے دور ہے۔

فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ۔  (سورۃ الاعراف۔182)
ترجمہ: اور جو لوگ ہماری نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں عنقریب ہم انہیں اس طرح گھیریں گے کہ انہیں خبر بھی نہ ہو گی۔ 

جان لو کہ فنا فی الشیخ کے ابتدائی مراتب یہ ہیں کہ طالب صورتِ شیخ کو اپنے تصور میں لاتا ہے تو اگر شیخ کامل ہو تو طالب کے وجود میں قلب کو زندہ کر دیتا ہے اورنفس کو مار دیتا ہے اور طالب کے وجود سے تمام ہوا و ہوس نکل جاتی ہے۔ اور اگر شیخ ناقص ہو تو وہ طالب کے وجود میں نفس کو زندہ اور قلب کو مار دیتا ہے۔ جس سے طالب کے وجود میں مردار کی طلب پیدا ہو جاتی ہے اور وہ مردار کا طالب کتا بن جاتاہے۔ پس معلوم ہوا کہ شیخِ کامل کا طالب فنا فی الشیخ کے مراتب تک پہنچتا ہے۔ جسے شیخِ کامل نوازتا ہے اس طالب کا مرتبہ ایک ہی بار میں اپنے مرتبہ کے برابر بنا دیتا ہے (یہاں اس صادق طالب کی بات ہو رہی ہے جسے مستقبل میں امانتِ الٰہیہ منتقل کرنا ہوتی ہے۔ )۔ ایسے طالب کو فنا فی الشیخ کہتے ہیں۔ شیخِ ناقص کا طالب جب ناقص شیخ کی صورت کو اپنے تصور میں لاتا ہے اسی وقت صورتِ شیطان شیخِ ناقص کی صورت کی مثل بن جاتی ہے اور طالب فنا فی الشیخ کے مراتب نہیں پاتا بلکہ فنا فی الشیطان کے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے۔

عقلمند اور آگاہ ہو جا۔ جب مبتدی طالب اسمِ اللہ ذات کو اپنے تصور و تصرف میں لاتا ہے تو اسمِ  اللہ ذات دل پر نقش ہو جاتا ہے اور طالب دل کی طرف متوجہ ہوتا ہے تب نور کی مثل ایک شعلۂ نار دل کے گرد پیدا ہوتا ہے اور طالب اس نارِ شیطانی کو تجلیٔ حضور سمجھتا ہے اور اس نارِ شیطانی سے شیطان آواز دیتا ہے کہ میں تیرا اور تو میرا یار ہے اس لیے ظاہر و باطن میں بندگی سے توبہ کر لے اور بس اس تجلی میں میرا دیدار کر۔ اس کے بعد وہ شیطانی تجلی ایک بچے کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور اس کے بعد جوان کا روپ دھار لیتی ہے اور پھر ایک بوڑھے کا روپ۔ اس کے بعد شیطان کہتا ہے کہ یہ فقیر کے مراتب کے اسرار ہیں۔ اس کے بعد وہ شیطانی صورت اس کو ہر چیز کے متعلق اس کے اندر سے جواب دیتی ہے اور ماضی، حال اور مستقبل کے حقائق تفصیلاً بتاتی ہے اور تمام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فلاں فقیر صاحبِ کشف ہے حالانکہ یہ استدراج کے مراتب ہیں جو اس کے اندر آوازِ شیطانی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ اے عزیز! باخبر رہو۔ جب یہ شیطانی صورت تم سے ہم کلام ہو تو توُ باطنی توجہ سے کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  اور لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ پڑھ تاکہ صورتِ شیطانی دفع ہو جائے۔ اس کے بعد حروفِ اسمِ اللہ ذات سے صورتِ تجلیٔ نور ظاہر ہوتی ہے اور وہ صورتِ تجلیٔ نور تجھے جو کچھ دکھائے وہ نص و حدیث کے عین مطابق برحق اور ہدایت ہے۔ ہم اس پر یقین لائے اور اس کی تصدیق کی۔ جو باطن ظاہر میں شریعت، قرآن اور اسمِ اللہ ذات کے موافق نہیں وہ باطل ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
کُلُّ بَاطِنٍ مُخَالِفٌ لِظَّاہِرِ فَھُوَ بَاطِلٌ 
ترجمہ: ہر وہ باطن جو ظاہر کا مخالف ہو‘ وہ باطل ہے۔

مراتبِ فنا فی الشیخ اسمِ اللہ ذات، تجلیاتِ نور حضور کے مشاہدہ اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ مراتبِ فنا فی الشیطان تمام وسوسہ، وہمات اور خطرات سے تعلق رکھتے ہیں۔ شیخِ ناقص کے فنا فی الشیطان طالبِ دنیا مریدین کثیر ہیں جو نفس پرست، مغرور اور تکبر میں مست ہیں۔ جبکہ فنا فی الشیخ طالب کم ہیں جو روشن ضمیر اور معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ اور مجلسِ محمدی کے لائق اور شریعت میں ہوشیارہوتے ہیں۔ 

شرح تصور فنا فی الشیخ کامل عارف

جان لو کہ تصورِ شیخ بے حد کثرت سے کرنے سے وجود میں غیب الغیب سے ایک صورتِ نور پیدا ہوتی ہے جو کبھی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  پڑھتے ہوئے ذکرِ اللہ میں مشغول ہوتی ہے اور کبھی وہ صورت روز و شب تلاوتِ قرآن اور آیات حفظ کرنے میں مشغول ہوتی ہے اور کبھی وہ صورت علمِ فضیلت بیان کرتی ہے اور نص و حدیث، تفسیر، مسائلِ فقہ اور فرض، واجب، سنت، مستحب کے علم کے ذریعے سنتِ محمدی کو بجا لانے اور ربّ کے حضور پیش ہونے کے فرض آداب سکھاتی ہے اور کبھی وہ صورت ذکرِ اللہ میں غرق ہوتی ہے اور کبھی وہ صورت وجود کے اندر بلند آواز سےسِرِّھُوْ، سِرِّ ھُوْ، ھُوَ الْحَقُّ،  لَیْسَ فِی الدَّارَیْنِ اِلَّا ھُوْ  پکارتی ہے جو طالب کو سنائی دیتی ہے اور کبھی وہ صورت ماضی، حال اور مستقبل کے احوال ایک ساتھ بتاتی ہے اور اکثر وہ صورت رات دن نماز میں مشغول رہتی ہے اور طاعت و بندگی سے کبھی بھی فارغ نہیں رہتی۔ اور وہ صورت ہر لمحہ شریعت کی نگہداری کرتی ہے۔ اگر طالب سے کوئی خطا، غلطی یا غیر شرعی امر واقع ہو جائے یا پھر کفر، شرک، بدعت یا گناہ کا کوئی جملہ اس کے منہ سے ادا ہو جائے تو وہ صورت نفس کو ملامت کرتے ہوئے محاسبہ کے لیے مغلوب کرتی ہے اور نفس سے کہتی ہے کہ پڑھولَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد اللہ کے رسول ہیں۔ 

حدیث:
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ   مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ بِالْفَنَآئِ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ بِالْبَقَآئِ 
ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا پس تحقیق اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ جس نے اپنے نفس کو فنا سے پہچانا پس تحقیق اس نے اپنے ربّ کو بقا سے پہچانا۔

نفس فنا فی الشیخ کے مراتب پر پہنچ کر ہی خدا کو پہچانتا ہے۔ یہ صورت جب وجود میں غائب ہو جاتی ہے تو وجود گناہوں سے تائب ہو جاتا ہے۔ یہ صورت صرف صفائے قلب سے حاصل ہوتی ہے جو تصور اسمِ اللہ ذات سے ہی ممکن ہے۔ اس صورت کی ابتدا اس وقت ہوئی جب اللہ پاک نے (ارواح سے) فرمایا:اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی  ترجمہ: کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ (ارواح نے جواباً) کہا ہاں کیوں نہیں۔ یہ صورتِ نفس زیاں کار کو سرزنش کرتی ہے تاکہ وہ خطاؤں اور سرکشی سے باز آ کر راہِ راست پر آجائے۔ نفس کو پہچاننا اور شیخ کی طرف سے ہونے والے الہام و پیغام کے ذریعے اس پر اعتبار کرنا بچوں کے (یعنی ابتدائی) مراتب ہیں کہ اس پیغام سے معرفت اور فقر حاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے (اے طالب) اس مرتبہ پر مغرور نہ ہو۔ اللہ کے قرب اور نورِ حضور کے مراتب اس سے بہت آگے ہیں جو شوق و سرور سے حاصل ہوتے ہیں اور باطن کو معمور کر کے بارگاہِ حق میں منظور کراتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَوَّلَہٗ فَنَائٌ فِی الشَّیْخِ بَعْدَہٗ فَنَائٌ فِی اللّٰہِ   
ترجمہ: پہلا مرتبہ فنا فی الشیخ ہونا ہے اس کے بعد فنا فی اللہ کا مرتبہ ہے۔

لَا دِیْنَ لِمَنْ لَا شَیْخَ لَہٗ  وَ لِمَنْ لَا شَیْخَ لَہٗ یَتَّخِذُہُ الشَّیْطٰنُ 
ترجمہ: جس کا شیخ نہیں اس کا دین نہیں اور جس کا شیخ نہ ہو شیطان اسے گھیر لیتا ہے۔

بیت:

ہر کرا مرشد نہ شد شیطان مرید
ہر کہ با مرشد بود گو بایزید

ترجمہ: جس کا مرشد نہیں وہ شیطان کا مرید ہے اور جو مرشد کے ساتھ وابستہ ہو وہ گویا بایزیدؒ ہے۔

مرشد کامل مرد صفت ہونا چاہیے۔ زن سیرت اور مخنث صورت ناقص مرشد جو بے شریعت اور بدعتی ہو کسی کام نہیں آتا۔ اگر کوئی صورتِ شیخ میں فنا ہو اور وہ گناہوں کی طرف رجوع کرے تو شیخ کی صورت مانع ہو جاتی ہے اور قوت کے ساتھ گناہ و شہوات کے غلبہ سے باز رکھتی ہے۔ جب صاحبِ صورتِ فنا فی الشیخ سوتا ہے تو وہ صورت توفیقِ الٰہی سے اس کی رفیق ہوتی ہے اور ہاتھ پکڑ کر توحید و معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ  میں غرق کر دیتی ہے اور اگر صاحبِ صورتِ فنا فی الشیخ مراقبہ میں ہو تو وہ صورت ہاتھ پکڑ کر اسے مجلسِ محمدیؐ میں لے جاتی ہے اور منصب و مراتب دلاتی ہے۔ یہ باطن صفا فنا فی الشیخ طالب کے مراتب ہیں۔ 

وَ السَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی (سورۃ التوبہ۔47)
ترجمہ: اور اس شخص پر سلامتی ہو جس نے ہدایت کی پیروی کی۔

وہ صورت ہمیشہ درج ذیل تسبیح میں مصروف رہتی ہے۔

سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرْ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ۔ سُبْحَانَ ذِی الْمُلْکِ وَالْمَلَکُوْتِ سُبْحَانَ ذِی الْعِزَّۃِ وَالْعَظْمَۃِ وَالْھَیْبَۃِ وَالْقُدْرَۃِ وَالْکِبْرِیَآئِ وَالْجَبَرُوْتِ سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَنَامُ وَ لَا یَمُوْتُ سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبَّنَا وَ رَبُّ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَالرُّوْحِ 
ترجمہ: اللہ پاک ہے اور سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کے سوا کسی کے پاس کوئی اختیار اور قوت نہیں وہ سب سے اعلیٰ اور عظیم ہے۔ پاک ہے وہ ذات‘ ملک و ملکوت اسی کے ہیں۔ پاک ہے وہ ذات‘ سب عزت، عظمت، ہیبت، قدرت، کبریائی اور جبروت اسی کے لیے ہے۔ پاک ہے وہ بادشاہ جو ہمیشہ سے زندہ ہے جو نہ سوتا ہے اور نہ اس کے لیے موت ہے۔ سب تعریفوں کے لائق اور سب سے پاک وہی ہے وہ ہمارا، تمام فرشتوں اور ارواح کا ربّ ہے۔

وہ صورت حاتم سے بڑھ کر سخی ہے اور اس قدر مکمل اور کامل ہے کہ مشرق تا مغرب سب سلطنت، جن و انس، درندوں و پرندوں، پانی و خاک، ہوا و آگ کو اپنے قبضہ و تصرف میں لے آتی ہے جو کہ ملکِ سلیمانی ؑسے بہتر ہے۔ وہ صورتِ فنا فی الشیخ ان تمام مراتب تک پلک جھپکنے میں پہنچاتی ہے اور منصب و مراتب دلاتی ہے۔ یہ فنا فی الشیخ باطن صفا طالب کے مراتب ہیں۔ ابیات:

نیک خصلت خلق نیکو دل صفا
کان کرم و جود حکمت ہر بہ کاری از خدا

ترجمہ: مرشد کامل نیک صفت، مہربان اور باطن صفا ہوتا ہے۔ وہ کرم اور سخاوت کا منبع ہوتا ہے اس کے ہر کام میں اللہ کی طرف سے حکمت ہوتی ہے۔

یک نظر باحق رساند خلق را راہی نما
طالبان زو حق بیابند خود نما را نیست جا

ترجمہ: وہ (مرشد کامل) مخلوق کی رہنمائی کرتا ہے اور ایک ہی نظر میں حق تک پہنچا دیتاہے۔ طالبان اس کے توسط سے حق کو پاتے ہیں لیکن اس مقام پر خود نمائی کی کوئی گنجائش نہیں۔

باھوؒ باہم جلیس مرسلان و انبیا و اصفیا
غرق فی اللہ گشت فانی دائمی بامصطفیؐ

ترجمہ: باھوؒ انبیا، اصفیا اور مرسلین کا ہم نشین ہے کیونکہ وہ فنا فی اللہ ہو چکا ہے اس لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں حاضر رہتا ہے۔

نفس کافر قتل سازم میبرآیم از ہوا
ایں عبادت جاودانی بس ترا ای باھوؒا

ترجمہ: میں نے اپنے کافر نفس کو قتل کر دیا ہے اور خواہشاتِ نفس سے بھی نجات حاصل کر لی ہے۔ اے باھوؒ! یہ دائمی عبادت ہی تیرے لیے کافی ہے۔

طالبِ مولیٰ کو دنیا اور عزو جاہِ دنیا کی کیا ضرورت؟ وہ تو راہِ معرفت و وِصال کا طالب ہوتا ہے۔ جان لو کہ طالب کے چار حروف ہیں ط، ا، ل، ب۔ حرف ’ط‘ سے طالب دنیا کو طلاق دے دیتا ہے جس طرح بے حیا عورت کو طلاق دی جاتی ہے۔ حرف ’ا‘ سے طالب کے اپنے نفس کی کوئی آرزو اور مراد نہیں ہوتی۔ حرف ’ل‘ سے لائقِ دیدار اور لایحتاج ہوتا ہے جو لاف زنی نہیں کرتا۔ حرف ’ب‘ سے باادب اور بے اختیار ہوتا ہے اور مرشد کو اپنا بااختیار بنا دیتا ہے اور محبتِ حق کو پسند کرتا ہے۔ جو طالب ان خصوصیات کا حامل نہیں وہ طالب نہیں جو حرف ’ط‘ سے دنیا کو طلاق نہیں دیتا اور حرف ’ا‘ سے آرزو رکھتے ہوئے نفس کو اس کی مراد دیتا ہے اور حرف ’ل‘ سے لادین ہوتا ہے اور حرف ’ب‘ سے بدبخت اور بدنہاد ہوتا ہے۔ پس ایسے طالب کو تلقین و ارشاد کرنا ہی نہیں چاہیے کیونکہ وہ کذاب اور فسادی ہے۔ کاذب طالب بے توفیق ہوتا ہے۔ صادق طالب تین طرح کے ہوتے ہیں بلبل کی مثل، پروانہ کی مثل اور مرغِ سمندر (آگ میں رہنے والا پرندہ) کی مثل۔ جیسا کہ کہا گیا ہے:

بلبل نیم کہ نعرہ زنم و درد سر کنم
پروانہ ام کہ سوزم و دم بر نیاورم

ترجمہ: میں بلبل نہیں ہوں کہ نعرہ لگائوں اور دردِ سر کا باعث بنوں۔ میں تو پروانہ ہوں جو جلتا ہے لیکن پھر بھی شکایت نہیں کرتا۔

پروانہ نیستم کہ بہ یک شعلہ جان دہم
مرغِ سمندرم کہ در آتش نشستہ ام

ترجمہ: بلکہ میں پروانہ بھی نہیں ہوں کہ ایک ہی شعلے سے جان دے دوں۔ میں تو مرغِ سمندر ہوں اور آگ میں رہتا ہوں۔

مصنف کہتا ہے کہ وہ مرشد بھی خام ہے جو مقامِ معرفت کی انتہا پر لے جائے اور کہے کہ یہی کامل فقر ہے۔ مرشد کامل وہ ہے جو معرفت سے نورِ توحید میں لے جائے اور اس طرح نور میں غرق کرے کہ نہ اسم یاد رہے نہ جسم، نہ مقامات یاد رہیں نہ طبقات بلکہ فنا فی اللہ ہو کر عین بعین ذات میں غرق ہو جائے۔ یہ وہ لازوال مراتب ہیں جو وصال کے تصور سے بھی نکال دیتے ہیں کہ صاحبِ غرق کے نزدیک وصال بھی خام خیالی ہے۔ یہ یقین ہے کہ جب طالب صادق اور مرشد کامل اکمل فقیر صاحبِ تصرف اخلاص سے ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو اگر مرشد چاہے تو طالب کو باطن میں مشرق تا مغرب تمام جہان اور تمام انسانوں پر تصرف عطا کر دے اور مجلسِ محمدیؐ کی حضوری سے سرفراز فرما دے اور معرفت و فقر کے منصب دلا دے۔ اس مرتبہ پر حیران نہ ہو اور نہ نقص نکال کیونکہ صاحبِ باطن کے بغیر باطن حاصل نہیں ہوتا اس لیے طالب مرید کو بھی صادق ہونا چاہیے۔ یہی تفکر اور تصرف دونوں جہان کی عبادت سے بہتر ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
تَفَکَّرُ السَّاعَۃِ خَیْرٌ مِّنْ عِبَادَۃِ الثَّقَلَیْنِ 
ترجمہ: گھڑی بھر کا تفکر دونوں جہان کی عبادت سے بہتر ہے۔

بیت:

مرد مرشد می رساند باتمام
مرشدی نامرد ناقص ہست خام

ترجمہ: مرد مرشد ہی تمامیت او رکمال تک پہنچاتا ہے جبکہ نامرد و ناقص مرشد طالب کو خام ہی رکھتا ہے۔

اے عزیز! راہِ فقر میں غیر ماسویٰ اللہ تو جو کچھ بھی دیکھتا ہے وہ راہزن ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰی۔ (سورۃ النجم۔17)
ترجمہ: ان کی نگاہ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی نہ حد سے بڑھی۔

وَ السَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی (سورۃ طٰہٰ۔47)
ترجمہ: اور اس شخص پر سلامتی ہو جس نے ہدایت کی پیروی کی۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلدُّنْیَا لَکُمْ وَ الْعُقْبٰی لَکُمْ وَالْمَوْلٰی لِیْ 
ترجمہ: دنیا بھی تمہارے لیے ہے اور عقبیٰ بھی تمہارے لیے ہے۔ میرے لیے بس مولیٰ ہے۔

فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
حَسْبِیَ اللّٰہُ (سورۃ التوبہ۔129)
ترجمہ: اللہ میرے لیے کافی ہے۔

وَکَفٰی بِاللّٰہِ (سورۃ الاحزاب۔39)
ترجمہ: اور اللہ (اپنے بندوں کے لیے) کافی ہے۔

اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ 
 (جاری ہے)

 
 
 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں