ایٹم کی پر اسراریت Atom Ki Purasrariyat
تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری
جب سے انسان اس کائنات کے متعلق جاننے کی کوشش میں لگا ہوا ہے کوئی بھی ایسے دلائل یا صورت پیدا نہیں ہوئی جس سے خدا کے وجود کا انکار ممکن ہوا ہو بشرطیکہ سائنس کو ملحدانہ فلسفہ کے طور پر پیش نہ کیا گیا ہو۔ سائنس اور سائنسی طریقہ کار ثبوت اور دلائل پیش کرتے ہیں کہ اس عظیم کائنات کو چلانے کے لیے کوئی ماہر اور قدرت رکھنے والی طاقت ضرورموجود ہے ۔ تخلیقِ کائنات خوداللہ ربّ العزت کے وجود کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ ذیل میں چند معروف اور بڑے سائنس دانوں کے اقوال نقل کیے جا رہے ہیں ۔
سائنسی طریقہ کار کے بانی سر فرانسس بیکن (1561-1626) کا کہنا ہے :
یہ کہنا بالکل درست ہے کہ تھوڑا سا فلسفہ پڑھنے سے ایک شخص ملحد بن سکتا ہے لیکن فلسفہ میں گہرائی کا نتیجہ مذہب سے تعلق کی صورت میں ہی نکلتا ہے ۔
مائیکروبیالوجی کے بانی لوئیس پاسچر( 1822-1895 )کا کہنا ہے :
میں جس قدر قدرت کا مطالعہ کرتا ہوں، اُسی قدر اِس کائنات کے خالق کے بارے میں میری حیرت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔ سائنس کا مطالعہ انسان کو خداکے قریب لے آتا ہے ۔
ماڈرن فزکس کے بانی آئن اسٹائن( 1879-1955) کا کہنا ہے :
میں جس قدر سائنس کا مطالعہ کرتا چلا جاتا ہوں ، اسی قدر خدا پر میرا ایمان بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ (بحوالہ کتاب : وجودِ باری تعالیٰ فلسفہ ، سائنس اور مذہب کی روشنی میں )
جس طرح سائنس دان کائنات کی تخلیق کے انداز اور مہارت کو دیکھ کر خدا کے وجود کا اقرار کرتے ہیں اسی طرح سائنس دان اس بات پر بھی حیران ہیں کہ جو ریسرچ انہیں آج کئی تجربات کر کے معلوم ہوئی ہے وہ چودہ سو سال پہلے اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل کی گئی کتاب قرآنِ مجید میں پہلے سے ہی موجود ہے۔ قرآن کی جامعیت کا یہ عالم ہے کہ اگر ہم اس کی آیات پر غور و فکر کریں تو یہ فیصلہ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہو گی کہ طبیعات (Physics) اور حیاتیات (Biology) کے جملہ مسائل پر اصولی اور بنیادی رہنمائی قرآن میں موجود ہے۔ قرآن کی اسی وسعتِ علم کا نام ’’جامعیت ‘‘ ہے ۔
اس مضمون کا موضوع سائنس کی حیرت انگیز دریافت ’’ایٹم‘‘ ہے، قرآنِ کریم اس اہم دریافت کے متعلق کیا بیان کرتاہے ؟ایٹم کا مطالعہ ایک وسیع علم (ایٹومک فزکس ) کے تحت کیا جاتا ہے اور اس کے اسرار و عجائب کی انتہا نہیں ہے۔ مگر یہ محض نظری علم نہیں بلکہ عملی اہمیت کا علم بھی ہے اور آج سائنس اس سے بحر و بر تسخیر کر رہی ہے۔ قرآنی تصریحات کے مطابق ایٹم کا خالق اور اس کے ضابطوں کو بنانے والا بھی خالق ِارض و سما ہے جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ہے :
اِنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍ (سورۃالقمر ۔49)
ترجمہ: بیشک ہم نے ہر چیز کو ایک مقررہ اندازے کے مطابق بنایا ہے۔
اسی طرح ایٹم کا اندرونی نظام نہایت محکم اور محیر العقول ہے جو اس ارشادِ الٰہی کی تصدیق کرتا ہے :
صُنْعَ اللّٰہِ الَّذِیْٓ اَتْقَنَ کُلَّ شَیْئٍ ( سورۃ النمل۔ 88)
ترجمہ:(یہ )اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کو (حکمت و تدبیر کے ساتھ) مضبوط و مستحکم بنا رکھا ہے ۔
تخلیقِ کائنات اور سپر ایٹم (Super Atom):
تخلیقِ کائنات کے متعلق قرآنِ حکیم میں بیان ہوا ہے کہ ابتدائے خلق کے وقت کائنات کا تمام بنیا دی مواد ایک اکائی کی صورت میں موجود تھا جسے بعد ازاں پارہ پارہ کرتے ہوئے مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ۔اس کے بعد کائنات میں توسیع کا عمل شروع ہوا جو ہنوز جاری و ساری ہے۔ قرآنِ مجید اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے :
اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا (سورۃ الانبیا ۔30)
ترجمہ: اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب ) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے ، پس ہم نے انہیں پھاڑ کر جدا کر دیا ۔
جارج لی میٹرے (Geogres Lemaitre) بیلجیم کا ماہرِفلکیات تھا جس نے ماڈرن بگ بینگ (Big Bang)کا نظریہ پیش کیا جس کے مطابق کائنات ایک چھوٹے اور ابتدائی ایٹم،جسے وہ سپر ایٹم (super atom or primeval atom) کا نام دیتا ہے ،کے پھٹنے سے وجود میں آئی ہے ۔ قرآنِ کریم میں اس primeval atom , super atom or minute cosmic egg کے لیے اکائی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
’’قرآن کے سائنسی انکشافات‘‘ میں ’’ایٹم ‘‘ کے متعلق مزید یہ انکشاف کیا گیا ہے :
ایٹم کا تصور قرآنِ مجید میں لفظ ذرّہ میں موجود ہے ، ذرّہ کو ہی کم سے کم اکائی کہا گیا ہے جس طرح ایٹم مادے کی کم سے کم اکائی کا نام ہے ۔
اس تصنیف میں ایک اور جگہ ایٹم کے متعلق مزید وضاحت اور قرآنِ کریم کی آیت کا حوالہ دے کر بیان کیا گیا ہے کہ :ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَاْتِیْنَا السَّاعَۃُ قُلْ بَلٰی وَ رَبِّیْ لَتَاْتِیَنَّکُمْ عٰلِمِ الْغَیْبِ لَا یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ وَ لَا اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِکَ وَ لَا اَکْبَرُ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ (سورۃ سبا۔ 3)
ترجمہ: اور یہ کافر کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت نہ آئے گی ۔ آپ فرما دیجیے کہ کیوں نہیں، قسم ہے اپنے پروردگارِ عالم الغیب کی وہ ضرور تم پر آئے گی اس سے کوئی ذرّہ برابر بھی غائب نہیں نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی ہے اور نہ بڑی مگر سب کھلی کتاب میں موجود ہے ۔
قرآنِ حکیم کا اعجاز ملاحظہ ہو کہ اس آیت میں تین قسم کے ذرّات کا بیان ہوا ہے :
ایک’’ مثقال ذرّہ ‘‘ یعنی رتی برابر
دوسرا نسبتاً اس سے چھوٹا
اور تیسرا اس سے بڑا
بنیادی طور پر کائنات میں تین قسم کے ذرّات پائے جاتے ہیں :
ایک ایٹم ، دوسرے ایٹم کے اندرونی اجزا اور تیسرے ایٹم کے مرکبات (compounds)۔
مثقال ذرّہ : لغوی اعتبار سے اس کا مفہوم ہے ہر وہ رتی سی چیز جس میں وزن پایا جاتا ہو ۔ واضح رہے کہ مادے (matter) کی بنیادی تعریف یہی ہے کہ ہر وہ چیز جس میں وزن اور مقدار پائے جائیں اور ایٹم چونکہ مادے کی اکائی ہے اس لیے یہ دونوں خصوصیات اس میں پائی جاتی ہیں۔
ولا اصغر: اس سے چھوٹا۔ یعنی ایٹم سے چھوٹا ۔ اور معنوی اعتبار سے اس لفظ کی وسعت میں وہ تمام ذرّات داخل ہو سکتے ہیں جو ایٹم سے نسبتاً چھوٹے ہوں خواہ وہ الیکڑان، پروٹان اور نیوٹران ہوں یا ڈیوٹران، پازیٹران، فوٹان وغیرہ۔ (یہ سب ایٹم کے اندرونی ذرّات ہیں)۔
ولا اکبر: اس سے بڑا۔ یعنی ایٹم سے بڑا۔ اس لفظ کی معنوی وسعت میں ایٹم سے بڑے ذرّات و مرکبات خواہ وہ سالمات (molecules) کی شکل میں ہوں یا شہابِ ثاقب (meteor) وغیرہ ذرّات کی شکل میں، سب داخل ہو سکتے ہیں۔
یہ قرآنِ کریم کی بلاغت اوراس کا کمالِ اعجاز ہے کہ قیامت تک دریافت ہونے والے اس قسم کے ذرّات اور اجزا خواہ وہ کتنے ہی چھوٹے اور کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں ان تینوں قسموں سے باہر نہیں جا سکتے بلکہ اعجازی طور پر ان سب کا احاطہ کر لیا گیا ہے۔ ( قرآنِ کریم کے سائنسی انکشافات)
اللہ زمینوں اور آسمانوں کا نور ہے
قرآنِ کریم کی آیت ہے :
اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْض (سورۃ النور ۔ 35)
ترجمہ: اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔
ہر شے میں اللہ کا نور ہے یعنی اللہ کی صفات کی مظہر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایٹم بھی اللہ کا نور ہوا اور اس میں یہ نور، قوت و حیات اور دیگر صفات کی صورت میں ظاہر ہے۔ جانوروں اور پودوں کو تو ہم زندہ مانتے ہیں لیکن سائنسی نقطہ نگاہ سے جن جمادات کو ’’بے جان ‘‘ قرار دیا جاتا ہے ان کے مادے کو بھی خوردبین سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ جن ایٹموں سے مل کر بنے ہیں وہ ایٹم مسلسل حرکت کر رہے ہیں۔ ان کے نیوکلئس کے گرد الیکڑان مسلسل اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔ بعض عناصر (elements) کے ایٹم بے پناہ قوت کے حامل ہیں جن سے ایٹم بم تیار ہوتے ہیں۔ تمام عناصر قوت کو خارج بھی کرتے ہیں اور جذب بھی کرتے ہیں۔ آپس میں جوڑے (bonds) بھی بناتے ہیں، پرانے ایٹم مرتے بھی ہیں اور نئے پیدا بھی ہوتے ہیں (اسی وجہ سے اشیا گلتی ، سڑتی ، گھستی اور پرانی ہوتی ہیں)ایک دوسرے کو حرارت اور توانائی بھی منتقل کرتے ہیں۔ الغرض ایٹم میں نورِ الٰہی ہونے کے باعث حیات کا عنصر شامل ہے۔
سید الشہدا سیدّنا امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی تصنیف مبارکہ ’’مرآۃ العارفین‘‘کی شرح کرتے ہوئے مسز عنبرین مغیث سروری قادری نے انتہائی خوبصورتی کے ساتھ اشیا میں قوت کی صفت کو نورِ الٰہی سے مناسبت دیتے ہوئے لکھا ہے :
جیسا کہ ہم جانتے ہیں قوت کو نہ تخلیق کیا جا سکتا ہے نہ تباہ کیا جاسکتا ہے ، اسے صرف ایک قسم سے دوسری قسم میں تبدیل کیا جا سکتا ہے یعنی ’’قوت‘‘ کا ماخذ دنیا کی کوئی شے نہیں تو پھر اشیا کو اپنے افعال کے لیے قوت کہاں سے حاصل ہوتی ہے؟ کسی بھی شے کے ایٹم کیسے حرکت کرتے ہیں؟ بیشک کائنات کی ہر شے کی قوت کا باعث اس شے کے اندر موجود نورِ حق تعالیٰ ہے۔ جو تمام قوتوں کا مالک، ان کا پیدا کرنے والا، ان کامنبع، مصدر اور سرچشمہ ہے جیسا کہ اللہ نے خود قرآنِ کریم میںواضح فرما دیا ’’بے شک تمام قوتوں کا مالک اللہ ہے ‘‘ (سورۃالبقرہ ۔ 165)۔ اِسی نور کی قوت کے باعث یہ حرکت کرتی، بڑھتی اور پھلتی پھولتی ہیں۔ یہی نور سورج کی حرکت، چاند کی روشنی، پانی کی روانی، پھول کی خوشبو، تتلی کی اُڑان میں ہے۔ یہی نور ایک ’’نطفے‘‘ کو انسان بننے کی قوت دیتا ہے۔ اِسی نور کی موجودگی کی بنا پر ہم کائنات کی کسی بھی شے کو ’ بے جان‘ نہیں کہہ سکتے۔ (مرآۃ العارفین۔ ترجمہ و شرح)
وحدت الوجود کا نظریہ یہی تو ہے کہ ہر ماد ی و غیر مادی شے کا وجود نورِ الٰہی ہے۔ تمام اشیا میں اللہ کی صفات کا اظہار ہے ۔ تو پھر ایٹم میں کیسے یہ صفت موجود نہ ہوتی بلکہ حال میں ہی ایک نئی ریسرچ سامنے آئی ہے کہ ایک ایٹم دوسرے ایٹم کو کوانٹم انفارمیشن quantum information بھیجتا ہے ۔ یہ ریسرچ ایٹم میں قوت و حیات ہونے کی دلیل فراہم کرتی ہے۔یہ ریسرچ 27مئی2021 کو دیلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی (نیدرلینڈ) کے ریسرچرز نے شائع کی ہے۔ وہ اس کے متعلق بیان کرتے ہیں :
Atoms, of course, don’t really talk but they can feel each other. This is partiularly case for magnectic atom. Each atom carries a small magnectic moment called spin. These spins influence each other, like compass needle do when you bring them close together. If you give one of them a push, they will start moving together in a very specific way, ”explains Sander Otte leader of the team that performed the research.” But according to the laws of quantum mechanics, each spin can be simultaneously point in various directions forming superposition. This means that actual information takes place between the atoms, like some sort of conversation.
(Research by Delft University Of Technology in Collaboration with RWTH Aachen University and the research Centre Julich)
ترجمہ:ایٹم یقینا بات نہیں کرتے لیکن وہ ایک دوسرے کو محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ خاص طور پر مقناطیسی ایٹم کا معاملہ ہے۔ ہر ایٹم میں ایک چھوٹا مقناطیسی لمحہ ہوتا ہے جسے سپن (گھماؤ) کہتے ہیں۔ یہ گھماؤ ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں جیسا کہ کمپاس سوئی اس وقت کرتی ہے جب آپ انہیں ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں۔ اگر آپ ان میں سے کسی ایک کو دھکا دیں گے تو وہ ایک خاص طریقے سے ایک ساتھ چلنا شروع کر دیں گے،’’ تحقیق کرنے والی ٹیم کے لیڈر سینڈر اوٹے نے وضاحت کی۔‘‘ لیکن کوانٹم میکینکس کے قوانین کے مطابق، ہر سپن (گھماؤ) بیک وقت مختلف سمتوں کی طرف اشارہ کر سکتا ہے جو سپر پوزیشن بناتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایٹموں کے درمیان حقیقی معلومات ہوتی ہیں جیسا کہ کسی قسم کی گفتگو۔ (ڈیلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کی طرف سے آر ڈبلیو ٹی ایچ ایچن یونیورسٹی اور ریسرچ سنٹر جولیچ کے تعاون سے تحقیق)
سائنس دانوں کی ریسرچ ایٹم میں وزن اور کمیت کے متعلق
حال میں ہی سائنسدانوں نے ایٹم میں موجود ایک ’’خدائی ذرّہ‘‘ دریافت کیا ہے۔ ان کے مطابق ایٹم یا مادے میں اِسی خدائی ذرّے کی وجہ سے قوت و حیات ہے ۔ ان کے ذہنوں میں کافی عرصہ سے ایک سوال کلبلا رہا تھا کہ مادے کو وزن یا کمیت کس وجہ سے ملتا ہے ؟ اس کو دریافت کرنے کے لیے تحقیقات کئی سال سے جاری تھیں۔ دنیا بھر کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے اس کی دریافت کے لیے سوئٹزرلینڈ اور فرانس کے سرحدی علاقے ــ’’سرن ‘‘ میں ایک زیر زمین سرنگ نما لیبارٹری بنائی جس کا نام لارج ہارڈن کولائڈر (L.H.C) ہے اور اس کی تیاری پر بارہ ارب روپے خرچ ہوئے ۔اس لیبارٹری میں کائنات کے آغاز میں ہونے والے بگ بینگ کی طرز پر ایک بڑا دھماکہ کیا گیا ، بالکل اسی طرح کا ماحول بنایا گیا جوبگ بینگ کے پہلے سیکنڈ کے کھرب ویں حصے میں تھا اور پھر ایٹم کے پروٹان اور اینٹی پروٹان کو آپس میں ٹکرایا گیا ۔ اس ٹکڑانے یا تصادم کی رفتار روشنی کی رفتار (ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ) سے زیادہ تھی ۔ جب اس انتہائی تیز رفتار تصادم سے دھماکہ ہوا تو یکدم ایک بہت روشن اور چمکدار ذرّہ چند لمحوں کے لیے نمودار ہوا اور فوراً غائب ہو گیا، بس سائنسدانوں نے اعلان کر دیا ہم نے God Particle دریافت کر لیا ہے (گو کہ ملحد سائنسدان اسے یہ نام دینے سے کتراتے رہے)۔ یہ تجربہ 4 جولائی 2012ء کو کیا گیا تھا۔ اس کی مزید تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ وہی خدائی ذرّہ ہے جس کی موجودگی کی وجہ سے مادے یا ایٹم کو اس کی تمام خصوصیات خاص طور پر وزن یا کمیت عطا ہوتی ہے، اسی وجہ سے تمام کائنات قائم ہے کیونکہ اگر تمام کائنات کا وزن اور کمیت ہی ختم ہو جائے تواس کا وجود ہی ختم ہو جائے اور وہ بے وقعت ہو کر رہ جائے گی ۔ (مرآۃ العارفین)
ایٹم کو قوت کہاں سے ملی ؟ یہ ریسرچ سائنس دانوں کی سائنسی دلیل اور تجربہ ہے جب کہ اولیا کرام ہمہ اوست در مغز و پوست کا نظریہ پہلے سے ہی دے کر یہ بتا چکے ہیں کہ یہ کائنات نورِ خدا کے ظہور کے سواکچھ ہے ہی نہیں ، کائنات کی ہر شے اس نور کی بدولت ہے ۔ الغرض تمام بحث اور تحقیق کا لب ِ لباب یہ ہے کہ ایٹم یا مادے میں قوت اور وزن سب نورِ الٰہی کی وجہ سے ہے۔ اگر یہ نور اس میں سے نکل جائے تو وہ بے وزن اور بے نور ہو جائے گا جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے :
اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ۔ وَ اِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ۔ وَ اِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ (سورۃالتکویر ۔1-3)
ترجمہ: جب سورج لپیٹ کر بے نور کر دیا جائے گا ۔ اور جب ستارے (اپنی کہکشاؤں سے ) گر پڑیں گے اور جب پہاڑ (غبار بنا کر فضا میں) چلا دئیے جائیں گے۔
فَاِذَا النُّجُوْمُ طُمِسَتْ (سورۃالمرسلات ۔8)
ترجمہ:پھر جب ستاروں کی روشنی زائل کر دی جائے گی۔
ایٹم کی ساخت (Structure of atom)
اگر ایٹم کی ساخت پر غور کریں تو ایٹم کے درمیان میں نیوکلئس ہے اور الیکٹران اس کے ارد گرد گھوم رہے ہیں ۔ اسی طرح تمام سیارے سورج کے گرد گھوم رہے ہیں اور خود سورج بھی کہکشاں Mikly way galaxy کے گرد گھوم رہا ہے یہاں تک کہ پورا نظامِ شمسی بھی اسی pattern پر گھوم رہا ہے ۔ جس سیارے یعنی زمین Earth پرہم رہتے ہیں وہ خود خانہ کعبہ کے گرد گھوم رہا ہے ۔ یہ کتنا حیران کن اتفاق ہے کہ ہر شے کا ایک سینٹر ہے جس کے گرد وہ گھوم رہی ہے ۔ واقعی یہ کائنات’’ خالقِ کائنات‘‘ کی تخلیقی صفت کا شاندار اظہار ہے!!!!!
حاصلِ کلام :
قرآنِ کریم میں ارشاد ہے :
سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ (سورۃ فصلت۔53)
ترجمہ:ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اطرافِ عالم میں اور خود ان کی ذاتوں میں دکھا دیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دو طریقوں کا ذکر کیا ہے جس کے ذریعہ انسان حق کو پہچان سکتا ہے ایک خارجی دنیا ہے اور دوسرا اس کا اپنا وجود ہے۔ خارجی دنیا کی بات کریں تو سارا عالم اللہ کی نشانیوں کا ثبوت ہے چاہے وہ ایٹم جیسا ایک چھوٹاسا ذرّہ ہی کیوں نہ ہو۔اگر ہم انسان کے اپنے وجود کی بات کریں تو انسان کے مختلف اعضا کے پیچیدہ نظام پر غور و فکر کر کے بھی انسان خدا پر ایمان لا سکتا ہے۔ لیکن یہاں ’ ’وجود کے اندر اپنی نشانیاں دکھادیں گے ‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر باطن یا روح کی حقیقت کو بھی جان لے تو اس پر رازِ حق عیاں ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انسان کے وجود کے اندر اللہ اپنی نشانیاں دکھائے گا اور انسانی وجود میں اللہ کی سب سے بڑی اور واضح نشانی ’’روح‘‘ ہے۔
قارئینِ کرام پس حق کی کامل معرفت یہی ہے کہ خارجی دنیا میں غورو فکر کے ساتھ ساتھ انسان اپنے وجود کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کرے۔ جس طرح خارجی دنیا کے متعلق حقائق جاننے کے لیے سائنس دانوں کی مدد لینی پڑتی ہے اِسی طرح باطن کے عالم کی تسخیر کے لیے مرشد کامل کی مدد لینا ضروری ہے۔ اس عظیم مقصد کے لیے تحریک دعوتِ فقر آپ کو موجودہ دور کے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس سے بیعت کی دعوت دیتی ہے ۔
استفادہ کتب:
۱۔مرآۃ العارفین: تصنیفِ لطیف سیدّالشہدا حضرت امام حسینؓ۔ ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
۲۔اسلام اور جدید سائنس: شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری
۳۔قرآن کے سائنسی انکشافات : مؤلف انور بن اختر
۴۔وجودِ باری تعالیٰ فلسفہ ، سائنس اور مذہب کی روشنی میں: ڈاکٹر حافظ محمد زبیر
![](https://www.mahnama-sultan-ul-faqr-lahore.com/wp-content/uploads/2025/02/Atom-Ki-Purasrariyat--1024x513.jpg)