بزمِ سلطان العاشقین (ملفوظات سلطان العاشقین) Bazm-e-Sultan-Ul-Ashiqeen

Spread the love

Rate this post

بزمِ سلطان العاشقین (ملفوظات سلطان العاشقین)
  Bazm-e-Sultan-Ul-Ashiqeen

قسط نمبر 4                                                                مرتب: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

دولت اور سکون

کسی نے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس سے سوال کیا کہ انسان کے پاس دولت آجائے توکیا سکون آجاتا ہے؟
آپ مدظلہ الاقدس نے فرمایا: اگر دولت سے سکون ملتا ہوتا تو میں اس راستے پر کبھی نہ چلتا (دراصل اللہ نے آپ مدظلہ الاقدس کو بہت زیادہ دولت سے نوازا تھا لیکن آپ مدظلہ الاقدس کو اس میں سکون نہ ملتا تھا) سکون تو صرف اللہ کی ذات میں ہے۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ  (سورۃالرعد۔28)
ترجمہ: خبردار! اللہ کی یاد ہی سے دل سکون حاصل کرتے ہیں۔

اولیا کرام ہمیشہ پرسکون ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر جب کسی ولی کو کوئی بیماری لگ جائے وہ تکلیف کو تکلیف نہیں سمجھتا ۔ وہ مریض ہوتا  ہے مگر اس کا چہرہ ہشاش بشاش ہوتا ہے اور اس کے چہرے سے لالیاں پھوٹ رہی ہوتی ہیں کیونکہ وہ اللہ کے دیدار میں ہر لمحہ مستغرق ہوتا ہے۔

انسان کی بے بسی

 فرمایا: انسان کی سب ضروریات اللہ پوری کرتا ہے، اس نے سب کچھ لکھ دیا ہے اور لکھ کرقلم توڑ دیا ہے۔انسان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔جہاں تک رزق کی بات ہے تو وہ اس کے ذمہ ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے:
وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا  (سورۃ ھود۔ 6)
ترجمہ: اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو۔ 

اس آیت میں اللہ نے ’’جاندار‘‘ فرمایا ہے’’انسان‘‘ نہیں۔ درخت کی بھی روزی ہوتی ہے۔ پھر جس جگہ سے رزق ملنا ہے وہ بھی لکھ دیا ہے۔
وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَھَا (سورۃ ھود۔ 6)
ترجمہ: اور وہ ہرایک کے ٹھکانے اور سپرد کئے جانے کی جگہ کو جانتا ہے۔
پھر اس نے یہ بھی لکھ دیا کہ کس کو کتنا دینا ہے:
قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ یَقْدِرُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (سورۃ السبا ۔36)
ترجمہ: آپ فرما دیجئے کہ بیشک میرا ربّ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ فرما دیتا ہے اور (جس کے لیے چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

جہاں تک روح کی بات ہے تو وہ بھی اس کی مرضی ہے کہ شقی روح انسان میں پھونکے یا سعید۔ بیٹا بیٹی بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے نہ کہ انسان کے ہاتھ میں:
یَہَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ اِنَاثًا وَّ یَہَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ الذُّکُوْرَ۔ اَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَانًا وَّ اِنَاثًا   (سورۃ الشوریٰ۔ 49،50)
ترجمہ: جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں۔

یہ بھی اللہ کی مرضی ہے کہ اولاد ہی نہ دے۔
وَ یَجْعَلُ مَنْ یَّشَآئُ عَقِیْمًا  (سورۃالشوریٰ۔ 50)
ترجمہ: اور جسے چاہے بانجھ کردے۔ 

انسان کی تربیت بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ماں باپ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بچوں کی تربیت کی ہے دراصل وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ دو بچے اگر جڑواں ہوں اور ایک ہی والدین ان کی پرورش کرتے ہیں لیکن وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، ایک دنیا کی راہ پر چلتا ہے اور ایک اللہ کی راہ پر۔ انسان کے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ انسان کے ہاتھ میں صرف ایک ہی چیزہے وہ کوشش ہے لیکن اس کا نتیجہ نہیں۔ پھر مصائب بھی اللہ کی طرف سے ہیں:
مَا أَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ (سورۃ التغابن ۔11)
ترجمہ: کوئی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی۔ 

مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا (سورۃ الحدید۔ 22)
ترجمہ: زمین میں اور تمہاری جانوں میں جو مصیبت پہنچتی ہے وہ ہمارے اسے پیدا کرنے سے پہلے (ہی) ایک کتاب میں (لکھی  ہوئی)ہے۔

پھر یہ ساری جدو جہد کیسی جب سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ 

انسان کا اختیار

فرمایا: اور جہاں اللہ تعالیٰ کی ذات کا معاملہ آتا ہے تووہ معاملہ اللہ تعالیٰ انسان کے اوپر چھوڑ دیتا ہے یعنی اللہ کی ذات کو پہچاننا انسان کے بس میں ہے جیسا کہ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی    (سورۃالنجم۔39)
ترجمہ: اور یہ کہ ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی۔
اس میں کوشش سے مراد قربِ الٰہی کے لیے کوشش ہے۔ یہی وہ قسمت ہے جو اللہ نے نہیں لکھی بلکہ انسان کی کوشش کے مطابق لکھتا جاتا ہے۔ انسان بھی کیا عجیب ہے کہ جو لکھی جا چکی اس کے لیے دن رات ضائع کرتا ہے اور جو لکھی جانی ہے اس کے لیے کچھ بھی نہیں  کرتا۔

شیطان کے جال

حضور سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں: 
راہِ حق سے ہٹانے کے لئے میرے اوپر شیطان مختلف حیلوں سے حملے کرتا تھا۔ ریاضتوں اور مجاہدوں کے دوران ایک بار میرے اردگرد بہت سے فریب کے جال بچھ گئے۔ ایسا محسوس ہوا کہ وہ جال مجھے جکڑ لیں گے۔ میں نے توجہ کی اور دریافت کیا کہ یہ جال کیا ہیں؟ تو بتایا گیا کہ یہ دنیا کے فریب کے جال ہیں، یہ شیطان کے حیلوں اور حملوں میں سے ایک حیلہ اور حملہ ہے۔ 

یہ جال سب سے پہلے رشتہ دار، بہن بھائی، ماں باپ کی صورت میں بھی آ سکتے ہیں جو انسان کو اس راہ سے روکتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ  (سورۃالتوبہ۔123)
ترجمہ: اے ایما ن والو جہاد کرو ان سے جو تمہارے قریب ہیں۔

نفس Positive  بھی ہے اور Negative بھی

شیطان نفس کو ساتھ ملانے کی کوشش کرتا ہے۔نفس میں دونوں خصوصیات ہیں، نفس positive بھی ہوتا ہے اور negative بھی۔ جبpositive ہوتا ہے تو انسان کی راہ ِ فقر پر چلنے میں مدد کرتا ہے جیسا کہ حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کا پنجابی بیت ہے:

ایہو نفس اساڈا بیلی، جو نال اساڈے سدھا ھوُ

اور جب negative ہوتا ہے تو شیطان سے مل جاتا ہے۔

لمبی امیدیں

فرمایا: شیطان کاکام ہے لوگوں کو راندۂ درگاہ کروانا۔ اسی لیے شیطان کو گمراہ کرنے کی صلاحیت دی گئی ہے۔ لیکن نہ وہ رزق بڑھا سکتا ہے نہ کم کر سکتا ہے، نہ زندگی کم کر سکتا ہے نہ بڑھا سکتا ہے، نہ اولاد دے سکتا ہے نہ چھین سکتا ہے، نہ مشکل پیدا کر سکتا ہے نہ ہٹا سکتا ہے۔ بس وہ لمبی امیدوں کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :
 لمبی امیدیں لگانا شیطان کا کام ہے۔
قرآن میں ہے:
وَ لَاُمَنِّیَنَّہُمْ (سورۃ النساء ۔ 119)
ترجمہ:(شیطان نے کہا)اور میں ضرور انہیں امیدیں دلائوں گا۔

انسانی شیطان

 اس کے علاوہ شیطان یہ بھی حربہ استعمال کرتا کہ انسانوں کی شکل میں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کا اختتام اِسی پر ہوتا ہے:
الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ ۔ مِنَ الْجِنَّۃِ وَ النَّاسِ۔ (سورۃ الناس ۔ 6,5)
ترجمہ: لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتے ہیں چاہے وہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔
حدیث ہے کہ جن شیطان سے انسانی شیطان زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ 

اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی شیطان کو پہچاننا مشکل ہوتاہے۔قرآن میں بھی انسانی شیطانوں کا ذکر ہے۔ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ (سورۃالانعام ۔112)
ترجمہ: اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے شیطان انسانوں اور شیطان جنوں کو دشمن بنا دیا۔

انسانی شیطان کسی بھی انسانی صورت میں آ سکتا ہے جس سے اس کو لگے کہ بات مانی جائے گی چاہے عالم کی صورت میں، چاہے بیوی کی صورت میں۔ شیطان کہتا ہے کہ عالم کو گمراہ کرنا میرے لیے معمولی کام ہے جبکہ اَن پڑھ کو گمراہ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ 

شیطان کن کو گمراہ کرتا ہے؟

شیطان نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ میں تیرے بندوں کو ناکام کروں گا۔ اب یہ بندے دنیا دار تو نہیں۔ وہ تو دنیا کے بندے ہیں۔ نفس کے پجاری بھی نفس کے بندے ہیں، اللہ کے نہیں۔
اَرَئَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوٰہُ  (سورۃ الفرقان۔ 43)
ترجمہ: کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا جس نے اپنے نفس کی خواہش کو اپنا خدا بنالیا۔

جس کا خدا پہلے ہی نفس ہے اسے گمراہی کی کیا ضرورت؟ یا جو پہلے ہی اللہ کا منکر ہے یا نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نہیں مانتا اسے گمراہ کرنے کی کیا حاجت؟ شیطان نے تو اللہ کو چیلنج کیا کہ میں تیرے بندوں کو گمراہ کروں گا۔ اس سے مراد وہی لوگ ہیں جو راہِ فقر پر چلنے والے ہیں۔ کیونکہ فقر کی راہ پر چل کر ہی انسان اس کا بندہ بنتا ہے، اس لیے شیطان انہی لوگوں کو گمراہ کرنے کی چالیں چلتا رہتا ہے۔ 

شیطان کا مظہر

جب بھی شیطان کسی انسان کو اپنا مظہر بناتا ہے یعنی وہ انسان فنا فی شیطان ہو جاتا ہے تو شیطان اسے کھلا چھوڑ دیتا ہے کہ تو اب شیطان بن گیا ہے۔ بلکہ ان کو پھر لوگوں کی طرف بھیجتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
شیطان کے بنی آدم میں سے کچھ معاون و مددگار ہیں، ملعون ان کو مومنوں کی طرف بھیجتا ہے۔ وہ انہیں نماز، صدقات اور اللہ کے ذکر سے غافل کرتے ہیں، حرام اور ناجائز کمائی کو خوش نما بناتے ہیں۔

شیطان سے مقابلہ نہیں کرنا

فرمایا: شیطان سے مقابلہ کرنا بے وقوفی ہے۔ وہ بہت بڑا عالم ہے۔ وہ ستر ہزار سال فرشتوں کو علم پڑھاتا رہا، فرشتوں کا سردار تھا۔ اس سے انسان مقابلہ نہیں کر سکتا۔ حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیںـ کہ ایک مرتبہ میرے دِل میں ابلیس کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اللہ نے ملا دیا۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے اسے کہا:’’اے لعنتی! تجھے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا؟ ‘‘ابلیس بولا: اے جنید! آپ کیا چاہتے ہیں میں غیر ِخدا کو سجدہ کر لیتا۔ حضرت جنید بغدادیؒ کے پاس اس کا جواب نہ تھا۔ اتنے میں اللہ نے دل میں بات ڈالی کہ کہہ دو کہ ’’جس اللہ نے تجھے اپنے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے سے روکا تھا اُسی نے آدمؑ کوسجدہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ ‘‘

حضرت ذوالنونؒ فرماتے ہیں :
شیطان ایسا ہے کہ وہ تمہیں دیکھتا ہے اور تم اُسے نہیں دیکھ سکتے لیکن اللہ تعالیٰ تو اسے دیکھتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا تو تم اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سے مدد چاہو۔

امام فخرالدین رازیؒ بہت بڑے عالم تھے۔ قرآن کی تفسیر بھی لکھی ہے۔اندازہ کریں کہ کتنے بڑے عالم تھے جو یہ فرمایا کرتے تھے اگر میں اَعُوْذُ بِاللّٰہ  کے مسائل نکالنا شروع کردوں تو میں دس ہزار مسائل نکال سکتا ہوں۔جب نزاع کا وقت آیا تو شیطان آگیا۔  شیطان نے اِن سے پوچھا کہ تم اتنے بڑے عالم ہو کیاخدا کو بھی پہچانا؟آپؒ نے فرمایا:بیشک خدا ایک ہے۔اس نے کہا اس پر کیا دلیل ہے؟

’’خواجہ نجم الدین کبریؒ‘‘امام فخر الدین رازیؒ کے مرشد ہیں۔خواجہ نجم الدینؒ نے ہزاروں میل کے فاصلے سے اپنے مرید کو دیکھا کہ نزع کا وقت ہے اور شیطان حملہ آور ہے۔خواجہ صاحبؒ وضو فرمارہے تھے توآپؒ نے فوراً وضو کے پانی کی چھینٹیں مار کر کہا:
 ’’رازی تو چرانمی گوئی کہ من خدا را بلا دلیل میشناسم ‘‘
ترجمہ: رازی!تو یہ کیوں نہیں کہتا میں خدا کو بغیر دلیل کے مانتا ہوں۔

امام فخر الدین رازیؒ نے مرشد کی آواز سنی تو فوراً کہا:
شیطان! میں خدا کو بغیر دلیل کے مانتا ہوں۔

اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
جس کا کوئی مرشد نہیں اس کا مرشدشیطان ہے۔ 

لوگ امیدیں لگا کر بیٹھ جاتے ہیں کہ مسلمان نے آخر دوزخ سے نکل ہی آنا ہے۔ وہ تو دور کی بات ہے پہلے ذرا یہ تو بتائیں کہ آپ کے پاس اس کی کیا گارنٹی ہے کہ ایمان کی حالت میں موت آئے گی؟

 روح اور جسم

انسان دو چیزوں کا مجموعہ ہے، ایک جسم اور ایک روح اور جب ہم پڑھتے ہیں:
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ (سورۃالبقرۃ۔ 156)
ترجمہ: ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

جب انسان کو موت آتی ہے تو جسم تو اللہ کی طرف نہیں لوٹتا یہ تو قبر میں چلا جاتا ہے۔ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف روح لوٹتی ہے کیونکہ روح ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے۔ جن کی روح زندہ ہو انہیں موت نہیں آتی۔ بابا بلھے شاہؒ فرماتے ہیں:

بلھا شاہ اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور

اصل حیات یہ ہے کہ انسان ہمیشہ کی زندگی پالے اور ہر غم سے آزاد ہو جائے۔یہی وجہ ہے کہ اولیاکرام قبر میں بھی زندہ ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ نے ان لوگوں کے بارے میں فرمایا جو اللہ کی راہ میں اپنے آپ کو مار دیں:
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ  فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ ط بَلْ اَحْیَآئٌ وَّ لٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْن  (سورۃالبقرۃ۔154)
ترجمہ: اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں۔
لیکن ان اولیا کو پہچاننا بہت مشکل ہے کیونکہ حدیثِ قدسی ہے :
 بے شک میرے اولیا ایسے بھی ہیں جو میری قبا کے نیچے چھپے رہتے ہیں اور انہیں میرے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ 

مولانا رومؒ فرماتے ہیں:

اے بسا سگ پوست کورا نام نیست
لیک اندر پردہ بے آں جام نیست

ترجمہ: سن! بہت سے معمولی لباس والے ہیں جن کا ذکر نہیں ہے لیکن در پردہ وہ اس جامِ معرفت کے بغیر نہیں ہیں۔  

(جاری ہے)

 
 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں