وَمَا اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ
اور تو کیا سمجھا کہ شبِ قدر کیا ہے! Tu Kia Smjha Kay Layla tul Qadr Kia Hai?
تحریر:مسز فاطمہ برہان سروری قادری ۔لاہور
سورۃ القدر قرآن کی ستانوے نمبر سورۃ ہے اس میں ایک رکوع، پانچ آیات، تیس (30) کلمے اور ایک سو بارہ (112) حروف ہیں۔ اس سورۃ کا شانِ نزول جو کہ حدیث شریف میں بیان ہوا، یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سابقہ امتوں کے ایک شخص کا ذکر فرمایا جو تمام رات عبادت کرتا تھا اور تمام دن جہاد میں مصروف رہتا تھا۔ اس طرح اس نے ہزار مہینے گزارے تھے۔ مسلمانوں کو اس پر تعجب ہوا تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو شبِ قدر عطا فرمائی اور یہ آیت نازل کی کہ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے حبیبؐ پر کرم ہے کہ آپؐ کے امتی شبِ قدر میں عبادت کریں تو اس کا ثواب سابقہ امت کے ہزار ماہ عبادت کرنے والے سے زیادہ ہوگا۔ سورۃ قدر کی پہلی آیت میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ
ترجمہ: بے شک ہم نے اسے شبِ قدر میں اتارا۔
سورۃ القدر معنی و مفہوم کے لحاظ سے انتہائی لطیف ہے کیونکہ اس میں رازِ الٰہی کو آشکار بھی کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ راز بھی رکھا گیا ہے۔ اس آیت میں یہ بیان نہیں کیا گیا کہ کیا اتارا اور کس پر اتارا۔ اور شبِ قدر کیا ہے؟ ہر آیت اور لفظ میں معنی درمعنی پوشیدہ رکھے ہیں تاکہ ہر بندہ اپنی باطنی استعداد کے مطابق معنی اخذ کر لے۔
سب سے پہلے تو یہ جاننا اور سمجھنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات اپنے پیارے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے بنائی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صاحبِ لولاک ہیں آپؐ کی شان میں فرمایا:
لَوْلَاکَ لَمَا اَظْھَرْتُ الرَّبُوْبِیَۃَ
ترجمہ: (اے محبوبؐ) اگرآپ نہ ہوتے تو میں اپنا ربّ ہونا ظاہر نہ کرتا۔
مزید فرمایا:
لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ
ترجمہ: (اے محبوبؐ) اگر آپ نہ ہوتے تو میں کائنات کو پیدا نہ کرتا۔
حدیث شریف میں ہے:
اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نَوْرِیْ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا فرمایا۔
اَنَا مِنْ نُّوْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَ کُلُّ خَلَائِقٍ مِّنْ نُّوْرِیْ
ترجمہ: میں اللہ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوق میرے نور سے ہے ۔
اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ رُوْحِیْ
ترجمہ: سب سے پہلے اللہ نے میری روح کو پیدا فرمایا۔
یعنی یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس رات جو بھی نازل کیا ہے اپنے پیارے محبوب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہی نازل کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بلند رتبہ نہ کسی فرشتے کا ہے نہ کسی نبی کا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
لِیْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتٌ لَا یَسَعُنِیْ فِیْہِ مَلَکٌ مُّقَرَّبٌ وَلَا نَبِیٌّ مُّرْسَلٌ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے ساتھ میرا ایسا وقت بھی ہے جس میں نہ کسی مقرب فرشتے کی گنجائش ہے نہ نبی رسول کی۔
تذکرۃ الغوثیہ جو کہ حضرت غوث علی شاہ قلندر قادری پانی پتی کے ملفوظات پر مشتمل کتاب ہے، اس میں فرماتے ہیں:
ایک دفعہ حضرت جبرائیل علیہ السلام پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس وحی لائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اے جبرائیل تم جانتے ہو کہ وحی کہاں سے آتی ہے؟ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! میری رسائی سدرۃ المنتہی سے آگے نہیں۔ اس مقام پر ایک ندائے غیب وارد ہوتی ہے اس کو آپؐ تک پہنچانا میرا کام ہے۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں جانتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اب کی بار ندا آئے تو اس پر پرواز شروع کرو اور دیکھو کہ یہ ندا کہاں سے آتی ہے؟
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ایسا ہی کیا اور ایک طویل مسافت طے کرنے کے بعد دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم وہ ندا وحی کر رہے ہیں پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام زمین کی طرف متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی جگہ موجود ہیں۔
اب اگلے سوال کی طرف بڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس رات اپنے پیارے حبیب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر کیا اتارا؟
مفسرین کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیبؐ کے قلبِ اطہر پر قرآنِ کریم نازل فرمایا لیکن یہاں یہ بات سمجھنا اہم ہے کہ کیا اللہ نے اس برکتوں اور عظمتوں والی رات صرف قرآن ہی نازل کیا؟
اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے پیدا فرمائی اپنے تمام ظاہری و باطنی خزانوں کا تصرف اپنے حبیبؐ کو عطا کیا بلکہ تمام ظاہری باطنی اور ہر شے کا تصرف ازل سے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عطا کر دیا گیاکیونکہ یہ کائنات بنائی ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے گئی ہے لیکن یہ عظیم رات ظاہری طور پر عطا کرنے کا مقصد اس رات کو قدر و منزلت سے نوازنا تھا اور مسلمان و مومنین پر ظاہر کرنا تھا کہ ہر شے کے مختارِ کل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام تئیس سالوں میں بحکمِ الٰہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جانب وحیٔ خدا لے کر حاضر ہوتے رہے اور قرآنِ کریم مکمل کیا تاکہ ظاہری اعتبار سے یہ بات آشکار ہو جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں اور جس طرح باقی قوموں کے نبیوں پر حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر نازل ہوتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ بھی وہی طریقہ ہے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو اس وقت بھی نبی تھے جس وقت حضرت آدم علیہ السلام پانی اور مٹی کے درمیان تھے۔ خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
کُنْتُ نَبِیًا وَ اٰدَمُ بَیْنَ الْمَائِ وَالطِّیْن
ترجمہ: میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم (علیہ السلام) ابھی مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔ یعنی ابھی ان کا ظہور بھی نہ ہوا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے شبِ قدر اپنے پیارے محبوب کو انہی کے لیے بنائی سلطنت کا اختیار اور تصرف جو ابتدا سے ہی ان کا تھا، سب ظاہری و باطنی طور پر عطا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ایک لقب ابو القاسم بھی ہے قاسم کے لغوی معنی بانٹنے والا ہے۔ قاسم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اوصافِ حمیدہ میں ایک وصف ہے جس کا مطلب ہے اللہ کے پیدا کردہ خزانوں کو مخلوق خدا میں تقسیم کرنے والا۔
بخاری شریف میں حدیث پاک ہے:
وَ اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللّٰہُ یُعْطِیْ
ترجمہ: اور میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ عطا کرنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تمام ظاہری اور باطنی خزانوں کا تصرف عطا کیا ہے تبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کو تقسیم فرمانے والے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ایک رات میں سویا ہوا تھا کہ مجھے دنیا کے تمام خزانوں کی چابیاں عطا کی گئیں۔‘‘ (صحیح بخاری۔7013)
ظاہری خزانوں سے مراد دنیاوی مال، دولت، رزق، اولاد، علم اور اللہ کی تخلیق کردہ تمام نعمتیں ہیں۔ بے شک تمام نعمتوں کو تخلیق کرنے والا خود اللہ ربّ العزت ہے لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو عطا کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔ باطنی خزانوں سے مراد فقر ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اَلْفَقْرُ کَنْزٌ مِنْ کُنُوْزِ اللّٰہِ تَعَالٰی
ترجمہ: فقر اللہ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَ الْفَقْرُ مِنِّیْ
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جان لے کہ تمام پیغمبروں نے مرتبۂ فقر کی التجا کی لیکن نہ پا سکے وہ فقر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عطا ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود اسے امت کے سپرد کیا۔ (امیر الکونین)
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فقر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حقیقی وراثت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حقیقت میں وہی حقیقی وارث ہے جو اس وراثت کا وارث ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ القدر کی پہلی آیت میں کیا اتارا اور کس پر نازل کیا اس سوال کے جواب کے بعد اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شبِ قدر سے کیا مراد ہے؟
سورۃ قدر کی دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرمایا ہے:
وَمَا اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ
ترجمہ: تو کیا سمجھا کہ شبِ قدر کیا ہے؟
اللہ اس آیت میں غور و فکر کی دعوت دے رہا ہے کہ شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر رازِ الٰہی ہے۔ اس لیے تو اس کے متعلق غور و فکر کرنے کا کہا ہے۔
شبِ قدر سے مراد انسانِ کامل یعنی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ اللہ نے اس عظیم رات جو ظاہری و باطنی خزانہ نازل کیا اسے برداشت کرنے کی طاقت صرف انسانِ کامل میں ہے، نہ کسی دن میں نہ رات میں، نہ آسمان نہ زمین اور نہ پہاڑوں میں۔ قرآنِ کریم میں اس کے متعلق ارشاد ہوا ہے:
ہم نے اپنی امانت آسمانوں زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو سب نے اس بارِ ایمان کو اٹھانے سے عاجزی ظاہر کر دی لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا۔ بے شک وہ اپنے نفس کے لیے ظالم و نادان ہے۔ (سورۃ الاحزاب۔ 72)
یہاں امانت سے مراد خزانۂ فقر ہے۔
حدیثِ قدسی میں اللہ پاک فرماتا ہے:
نہ میں زمین میں سماتا ہوں نہ آسمانوں میں لیکن بندۂ مومن کے قلب میں سما جاتا ہوں۔
انسانِ کامل اللہ تعالیٰ کا مظہر اور مکمل آئینہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے انوارِ ذات و صفات اور اسما و افعال کا انعکاس کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی جامع صفات سے متصف اور اس کے جملہ اخلاق سے متخلق ہوتا ہے۔ صرف وہی اللہ کے راز، خزانوں اور ذات کو برداشت کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے۔
حضرت شاہ سیدّ محمد ذوقی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
انسانِ کامل تمام موجودات کا خلاصہ ہے با اعتبار اپنی عقل اور روح کے اُم الکتاب ہے، با اعتبار قلب کے لوحِ محفوظ ہے، با اعتبار اپنے نفس کے محو و اثبات کی کتاب ہے۔ انسانِ کامل ہی صحفِ مکرمہ اور یہی وہ کتابِ مطہر ہے جس سے کوئی چیز نہیں چھوٹی یعنی ہر چیز اس میں موجود ہے۔ اس کے اسرار و معانی کو سوائے ان لوگوں کے جو حجاباتِ ظلماتی سے پاک ہوں، کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ (سرِّ دلبراں)
حضرت سید عبدالکریم بن ابراہیم الجیلیؒ اپنی تصنیف ’’انسانِ کامل ‘‘ میں فرماتے ہیں:
انسانِ کامل قطبِ عالم ہے جس کے گرد اوّل سے آخر تک وجود کے فلک گردش کرتے ہیں اور جب وجود کی ابتدا ہوئی اس وقت سے لے کر ابد الآباد تک ایک ہی شے ہے۔ پھر اس کے لیے رنگا رنگ لباس ہیں اور باعتبار لباس کے اس کا ایک نام رکھا جاتا ہے دوسرے لباس کے اعتبار سے اس کا وہ نام نہیں رکھا جاتا۔ اس کا اصلی نام محمد ہے۔ اس کی کنیت ابو القاسم، اس کا وصف عبداللہ اور اس کا لقب شمس الدین ہے باعتبار دوسرے لباسوں کے اس کے نام ہیں۔ پھر ہر زمانہ میں اس کا ایک نام ہے جو اس زمانے کے لائق ہوتا ہے۔
حقیقتِ محمدیہ ہر زمانہ میں اس زمانے کے اکمل صورت میں اس زمانے کی شان کے مطابق ظاہر ہوتی ہے۔
یہ انسانِ کامل اپنے زمانے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خلیفہ ہوتا ہے۔
وَمَا اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ
ترجمہ: تو کیا سمجھا کہ شبِ قدر کیا ہے؟
اس سوال کا جواب خود پہلی آیت میں پوشیدہ ہے ’’ہم نے اس ظاہری و باطنی خزانے کو شبِ قدر یعنی انسانِ کامل میں اتارا۔‘‘
اگر قدر کے معنی کو دیکھا جائے تو اس سے مراد ہے عزت، وقعت، طاقت، تقدیر، انداز، فیصلہ، طریقہ، اصل اصول۔ قدر کے معنی انسانِ کامل کی شان کو ظاہر کرتے ہیں جیسے اگر قدر کو شان، عزت، وقعت اور طاقت کے طور پر دیکھا جائے تو تمام عزت و شان انسانِ کامل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے:
میں ہی اگلوں پچھلوں میں سے سب سے زیادہ اللہ کے ہاں عزت والا ہوں، فخر نہیں ہے۔ (ترمذی، دارمی)
میں ہی تم میں سے سب سے بڑا ہوں قیامت کے دن اجر و ثواب کے لحاظ سے۔ (سنن دارمی)
میں ہی قیامت کے دن اولادِ اآدم کا سردار ہوں گا، اس کا فخر نہیں۔ (ترمذی)
میں ہی تمام رسولوں کا سردار ہوں گا، فخر نہیں ہے۔
جب لوگ وفد بنیں گے تو میں ہی ان کا قائد ہوں گا۔ (ترمذی۔ دارمی)
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ انسانِ کامل کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
عارف کامل قادری بہر قدرتے قادر و بہر مقام حاضر
(رسالہ روحی شریف)
ترجمہ: عارف کامل قادری (انسانِ کامل) ہر قدرت پر قادر اور ہر مقام پر حاضر ہوتا ہے۔
اگر لفظ قدر کو تقدیر کے معنی میں سمجھا جائے کہ شبِ قدر تقدیروں کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو یہ مرتبہ بھی صرف انسانِ کامل کا ہی ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصِیْنٰہُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ ( سورۃ یٰسین۔ 12)
ترجمہ: اور ہر چیز کو جمع کر رکھا ہے ہم نے امامِ مبین میں۔
اس آیت میں امامِ مبین سے مراد انسانِ کامل ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر امر، حکم اور اپنی پیدا کردہ کل کائنات کو ایک لوحِ محفوظ جو انسانِ کامل کا قلب ہے، میں محفوظ کر رکھا ہے۔
سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا میرے نزدیک فقیر (انسانِ کامل) وہ نہیں جس کے پاس کچھ نہیں بلکہ فقیر وہ ہے جس کا امر ہر شے پر نافذ ہو اور جب وہ کسی شے کے لیے کہے ’’ہو جا‘‘ تو وہ ’’ہو جائے‘‘۔ (الرسالۃ الغوثیہ)
اگر یہ کہا جائے شبِ قدر میں قرآن نازل کیا گیا تو اس کے معنی میں بھی شبِ قدر سے مراد انسانِ کامل ہی ہے کیونکہ انسانِ کامل کی ذات ہی ہمہ تن قرآن ہے۔ جیسا ایک دفعہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اخلاق کے متعلق پوچھا گیا تو آپؓ نے فرمایا:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اخلاق ہمہ تن قرآن ہے۔ (ابوداؤد۔ 1342)
علامہ اقبالؒ اس کے متعلق فرماتے ہیں:
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
سورۃ قدر کی تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَیْلَۃُ الْقَدْرِ لا ۵ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ
ترجمہ: شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اجر و ثواب میں) ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے۔
اس آیت میں سورۃ القدر کی شانِ نزول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ شبِ قدر اُمتِ محمدیہ کے لیے اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ موطا امام مالکؒ میں ہے کہ:
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سابقہ لوگوں کی عمروں پر آگاہ فرمایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کے مقابلہ میں اپنی اُمت کے لوگوں کی عمر کو کم دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا میری اُمت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر عمل کیسے کر سکیں گی؟ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو لیلۃ القدر عطا فرمائی گئی، جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔
لیلۃ القدر فقط آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت کی خصوصیت ہے۔
امام جلال الدین سیوطیؒ حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
یہ مقدس رات اللہ تعالیٰ نے فقط میری اُمت کو عطا فرمائی ہے۔ سابقہ اُمتوں میں یہ شرف کسی کو بھی نہیں ملا۔
سیدّنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: جو شخص ایمان کے ساتھ محض اجرِآخرت کے لیے شبِ قدر ذکر و عبادت میں گزارے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری۔35)
حضرت سیدّنا انسؓ سے مروی ہے کہ رمضان المبارک کی آمد پر ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: یہ جو ماہ تم پر آیا ہے اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار ماہ سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا وہ ساری خیر سے محروم رہا اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتا محروم ہو۔ (ابن ماجہ 1644)
شبِ قدر کے تعین کے متعلق مختلف اقوال موجود ہیں:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ (صحیح بخاری۔2017)
امام قرطبیؒ فرماتے ہیں:
علما کا شبِ قدر کے تعین کے بارے میں اختلاف ہے لیکن اکثریت کی رائے یہی ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کی ستائیسویں شب ہے۔ (تفسیر قرطبی)
سورۃ قدر کی تیسری آیت انسانِ کامل کی فضیلت کو ہی ظاہر کرتی ہے۔ اگر ہم سورۃ قدر کی شانِ نزول یا شبِ قدر کی فضیلت کے روحانی پہلوؤں کو سمجھیں تو اُمتِ محمدیہ کو شبِ قدر دیگر تمام امتوں سے فضیلت کی بنا پر عطا کی گئی۔ اُمتِ محمدیہ کی فضیلت کی وجہ انسانِ کامل یعنی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات مبارکہ ہے اور وہ مرشد کامل جامع نور الہدیٰ ہیں۔ جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم باطن میں اپنا نائب مقرر فرماتے ہیں اور انسانِ کامل کے مرتبہ سے سرفراز فرماتے ہیں۔ اس لیے فقرا کاملین شبِ قدر سے مراد انسانِ کامل لیتے ہیں۔ فقیر ِ کامل یعنی انسانِ کامل کی صحبت کے متعلق مولانا رومؒ فرماتے ہیں:
یک زمانہ صحبت با اولیا
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
ترجمہ: اولیا یعنی انسانِ کامل کی صحبت میں گزارا ہوا ایک لمحہ سو سال کی بے ریاعبادت سے بہتر ہے۔
سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادرجیلانیؓ فرماتے ہیں:
اللہ کے بندے تو اولیا اللہ کی صحبت اختیار کرتے ہیں کیونکہ ان کی شان یہ ہوتی ہے کہ جب کسی پر نگاہ اور توجہ کرتے ہیں تو ان کو زندگی عطا کر دیتے ہیں یعنی قلب کو زندہ کر دیتے ہیں اور نفس کو ختم کر دیتے ہیں اگرچہ وہ شخص جس کی طرف نگاہ پڑی ہے یہودی، نصرانی، مجوسی ہی کیوں نہ ہو۔ (الفتح الربانی۔ ملفوظاتِ غوثیہ)
سورۃ القدر کی چوتھی اور پانچویں آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اس رات میں فرشتے اور روح الامین جبرائیل علیہ السلام اپنے ربّ کے حکم سے خیر و برکت کے ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ رات طلوعِ فجر تک سراسر سلامتی ہے۔
یہ آیات بھی شبِ قدر کی فضیلت کو ظاہر کرتی ہیں۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لیلۃ القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
شبِ قدر کو جبرائیلِ امین فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اترتے ہیں اور ہر شخص کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے، بیٹھے یعنی کسی بھی حال میں اللہ کو یاد کر رہا ہو۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیں شبِ قدر کے حقیقی معنی کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس عظیم رات خلوصِ دل سے عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
استفادہ کتب:
۱۔ شمس الفقرا : تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔الرسالۃ الغوثیہ: تصنیفِ لطیف سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
۳۔رسالہ روحی شریف: تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۴۔امیر الکونین : ایضاً
۵۔فلسفہ صوم تصنیف ڈاکٹر محمد طاہر القادری