دست ِقدرت Dast -e- Qudrat

Spread the love

5/5 - (3 votes)

دستِ قدرت Dast -e- Qudrat

  وہی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے

 

تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

انسان اپنی زندگی میں طویل پلاننگ کرتا ہے کہ فلاں وقت میں یہ کروں گا، فلاں کام ایسے کروں گا وغیرہ وغیرہ لیکن جب اس امر کے وقوع پذیر ہونے کا وقت آتا ہے تو انسان کی ساری پلاننگ دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اپنے اختیار میں توکچھ بھی نہیں ہے۔ انسان کہتا ہے کہ میں نے تو ایسا سوچا بھی نہیں تھا، میرے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھاکہ ایسا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ 

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمانِ عالی شان ہے:
میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے ربّ کو پہچانا۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ انسان کے اپنے اختیار اور قابو میں کچھ بھی نہیں۔ سب کچھ اللہ کے دستِ قدرت میں ہے۔ وہی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے کیونکہ وہی خدا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَسُبْحٰنَ الَّذِیْ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْئٍ (سورۃ یسٰ۔83)
ترجمہ: پس وہ ذات پاک ہے جس کے دستِ(قدرت) میں ہر چیز کی بادشاہت ہے۔ 

تَبٰرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ  (سورۃ الملک۔1)
ترجمہ: وہ ذات نہایت بابرکت ہے جس کے دستِ(قدرت) میں تمام سلطنت ہے۔ 

کائنات کا خالق اللہ ہے 

اللہ تعالیٰ ہی اس وسیع و عریض کائنات کا خالق و مالک ہے جس نے اپنی پہچان اور اپنے اظہار کے لیے اسے تخلیق کیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ  (سورۃ ھود۔7)
ترجمہ: اور وہی (اللہ) ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ایام میں تخلیق فرمایا۔

کائنات کی وسعت کا اندازہ انسان کے وہم و فہم سے بالاتر ہے۔ انسان زندگی بھر کوشش کرتا رہے تو اس زمین کے متعلق ہی مکمل طور پر نہیں جان پاتا جبکہ ایسے لاکھوں سیارے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ یہ گلیکسی(کہکشاں) جس میں ہمارا نظامِ شمسی موجود ہے، اس قدر وسیع ہے کہ اس کی مکمل سیر کے لیے اگر روشنی کی رفتار سے سفر کیا جائے تو ایک لاکھ سال درکارہوں گے۔ایسی بیشمار گلیکسیز (کہکشائیں)کائنات میں موجود ہیں۔ اس سے کائنات کے خالق و مالک کی عظمت اور کبریائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ پھر بھی نہ جانے انسان کس بل بوتے پر اس قدر اکڑتا ہے۔

اللہ ہی رازق ہے

انسان کی سب سے بڑی فکر یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ضروریات کیسے پوری کرے گا، اپنے اہل و عیال کا پیٹ کیسے پالے گا؟ اگر وہ مر گیا تو اس کے بعد اس کے اہل و عیال کا کیا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر انسان کو اس کی سب سے بڑی فکر سے آزاد کر دیا ہے کہ:
وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا  (سورۃ ھود۔ 6)
ترجمہ: اور زمین پر کوئی جاندار ایسا نہیں کہ جس کی روزی کا ذمہ اللہ پر نہ ہو۔

رزق سے مراد محض کھانے پینے کی چیزیں نہیں بلکہ انسان کی ضرورت کی ہر شے رزق کے زمرے میں آتی ہے۔ انسان کے اس دنیا میں آنے سے قبل ہی اس کے مقدر میں رزق لکھ دیا جاتاہے، اس کے باوجود انسان رزق کی تلاش میں مارا مارا پھرتاہے اور شب و روز اس کے پیچھے سرگردان رہتا ہے جبکہ یہ اس کے اپنے اختیار میں ہرگز نہیں ہے۔اس لیے اسباب کی بجائے مسبب کا طلبگار بننا چاہیے۔

اللہ ہی نفع و نقصان کا مالک ہے

انسان ہمیشہ اپنے نقصان پر غمزدہ رہتاہے اور نفع و فائدہ پر خوش ہوتا ہے۔ نقصان پر خود کو یا دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے اور نفع پر خود کو سراہتا ہے کہ اس کی کوششوں اور سوجھ بوجھ سے اس قدر فائدہ ہوا۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ نہ نفع انسان کے اختیار میں ہے نہ نقصان۔ اگر انسان کو اس کی پسند یا نفع کی کوئی چیز ملتی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام اور مہربانی ہے اور اگر کوئی نقصان یا ضرر پہنچتا ہے تو اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی بیشمار حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ (سورۃ الاعراف۔188)
ترجمہ: آپ فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لیے نہ کسی نفع کا مالک ہوں نہ نقصان کا۔ 

وَ اِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ھُوَ ط وَ اِنْ یَّمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (سورۃ الانعام۔17)
ترجمہ: اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اسے کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تجھے کوئی بھلائی پہنچائے تو وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔

وَ اِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ھُوَ ط وَ اِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ  (سورۃ یونس۔107)
ترجمہ: اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اسے کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تیرے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے تو کوئی اس کے فضل کو ردّ کرنے والا نہیں۔

اللہ ہی مشکل کشا ہے

انسان کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی ہے تو فوراً ہی اسباب کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ اس مشکل سے نجات پانے کے لیے اس کے پاس کیا اسباب دستیاب ہیں لیکن جب وہ اسباب بھی اسے مشکل سے نکالنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو پھر اپنے عزیز و اقارب کی طرف رجوع کرتا ہے لیکن وہاں بھی منہ کی کھانی پڑتی ہے کیونکہ اس دنیا میں کوئی کسی کے کام نہیں آتا بلکہ کہتے ہیں کہ مشکل میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنی ہر مشکل اور حاجت اللہ سے بیان کرے۔تاہم جب اللہ تعالیٰ انسان کو اپنے فضل سے اس مشکل اور آزمائش سے نکال دیتا ہے تو انسان پھر اللہ تعالیٰ سے غافل ہو جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کو ان الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا:
وَ اِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّھُمْ مُّنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ ثُمَّ اِذَآ اَذَاقَھُمْ مِّنْہُ رَحْمَۃً اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ بِرَبِّھِمْ یُشْرِکُوْنَ  (سورۃ الروم۔33)
ترجمہ: اور جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے ربّ کو اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے پکارتے ہیں۔ پھرجب وہ (اللہ) ان کو اپنی جانب سے رحمت سے لطف اندوز فرماتا ہے تو پھر فوراً ان میں سے کچھ لوگ اپنے ربّ کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہیں۔

وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِہٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَآئِمًاج فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ مَرَّکَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَآ اِلٰی ضُرٍّ مَّسَّہٗ  (سورۃ یونس۔12)
ترجمہ:اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں اپنے پہلو پر لیٹے یا بیٹھے یا کھڑے پکارتا ہے اور جب ہم اس سے اسکی تکلیف دور کر دیتے ہیں تو وہ (ہمیں بھول کر) چل دیتا ہے گویا اس نے کسی تکلیف میں جو اسے پہنچی تھی، ہمیں پکارا ہی نہ تھا۔

زندگی و موت اللہ کے ہاتھ میں ہے  

انسان بہت ہی زیادہ بے بس ہے۔ نہ وہ اپنی زندگی پر اختیار رکھتا ہے نہ موت پر۔ نہ ہی کسی کو زندہ رکھنے پر قادر ہے نہ موت دینے پر۔ لیکن اگر کوئی انسان دوسرے انسان کو قتل کرنے کی دھمکی دے تو وہ خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ جب تک انسان کی موت کا وقت نہ آیا ہو کوئی اس کو بال برابر بھی نقصان نہیںپہنچاسکتا۔ البتہ جب انسان موت کو بھول جاتا ہے تو دنیا میں مگن ہو جاتا ہے اور دنیوی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ لیتا ہے جبکہ موت ہر لمحہ اس کے تعاقب میں ہے اور کسی بھی وقت وہ لقمۂ اجل بن سکتا ہے۔ یا پھر یہ نظریہ رکھنا کہ فلاں کی وجہ سے فلاں کی جان چلی گئی، یا فلاں کی وجہ سے فلاں کی جان بچ گئی،سراسر غلط ہے۔ یہ سب اسباب بھی صرف اور صرف اللہ ہی پیدا کرتا ہے کیونکہ زندگی اور موت کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے اس کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ ھُوَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ  (سورۃ المومنون۔80)
ترجمہ: اور وہی ہے جو زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے۔

لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ج  یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ(سورۃ الحدید۔2)
ترجمہ: اسی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔

قُلِ اللّٰہُ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ  (سورۃ الجاثیہ۔26)
ترجمہ: فرما دیجئے کہ اللہ ہی تمہیں زندگی دیتا ہے اور پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے۔ 

بیماری اور شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے 

اکثر لوگ دوسروں پر الزام تراشی کرتے ہیں کہ میں تمہاری وجہ سے بیمار ہوا ہوں یا تمہاری بدولت صحت یاب ہوا ہوں۔ ان کا یہ نظریہ بے بنیاد ہے۔ انسان کی صحت و تندرستی اور بیماری دونوں اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ اگر وہ بیمار ہو تو اللہ ہی اسے شفا بخشتا ہے۔ ایسے میں یہ سمجھنا کہ فلاں شخص کے فلاں عمل کی وجہ سے بیمار ہوا اور پھر ڈاکٹر سے علاج کروا کر دوا کھائی جس کی وجہ سے تندرست ہوا، جیسے نظریات رکھنا مناسب نہیں۔ ظاہری طور پر علاج کروانا اور دوا کھانا ضروری ہے لیکن بیماری اور شفا کو اللہ کی جانب سے سمجھنا ایمان کا حصہ ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا:
وَ اِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ (سورۃ الشعرا۔80)
ترجمہ: اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ 

عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے 

انسان کو عزت اور ذلت دینے کا اختیار بھی اللہ کا ہی ہے۔اگر کسی شخص کی لوگ عزت کرتے ہیں تو وہ خود کو دوسروں سے برتر سمجھتے ہوئے تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے اور متکبر شخص اللہ تعالیٰ کو نہایت ناپسند ہے۔ اگر کوئی بے عزتی کرے تو انسان اس کے خلاف دل میں کینہ و بغض پال لیتا ہے کہ اس نے بلاوجہ میری تذلیل کی۔

اگر کوئی عزت دے تو یہ نظریہ ہونا چاہیے کہ یہ اللہ ہی ہے جو عزت عطا کر رہا ہے ورنہ میں تو عام سا انسان ہوں۔ اگر کوئی بے عزتی کرے تو بھی اسے اللہ کی طرف سے سمجھنا چاہیے کہ ضرور میرے اندر کوئی خرابی یا کمی ہے اور یہ معاملہ اللہ کی جانب سے میری تربیت کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے:
وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ (سورۃ آلِ عمران۔26)
ترجمہ: تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے۔

اولاد اللہ کے اختیار میں ہے 

اکثر مرد یا دیگر رشتہ دار عورت کو اولاد نہ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں یا صرف بیٹیاں پیدا کرنے پر برا بھلا کہتے ہیں۔ ان کا یہ عمل انتہائی جاہلانہ ہے۔ اولاد عطا نہ کرنا یا صرف بیٹا یا بیٹی عطا کرنا سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ ط یَھَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ اِنَاثًا وَّ یَھَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ الذُّکُوْرَ۔ اَوْ یُزَوِّجُھُمْ ذُکْرَانًا وَّ اِنَاثًاج وَ یَجْعَلُ مَنْ یَّشَآئُ عَقِیْمًا (سورۃ الشوریٰ۔ 49-50)
ترجمہ: وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتاہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں عطا فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے بخشتا ہے۔ یا انہیں بیٹے اور بیٹیاں دونوں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے۔

اس طرح اللہ کی ایسی بیشمار نشانیاں ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر فرمایا ہے اور اگر انسان ان نشانیوں پر غور و فکر کرے تو واقعی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ وسیع و عریض کائنات، سورج و چاند کا مقررہ حدودمیں چلنا اور انسان کو نفع پہنچانا، وسیع وعریض سمندر اور ان پر لاکھوں ٹن وزنی جہازوں کاسامانِ تجارت اور مسافروں کو لے کر چلنا، جانوروں اور پرندوں کی تخلیق، فصلیں، درخت، پھل، سبزیاں اور رنگ برنگے پھول، انواع و اقسام کی نعمتیں الغرض اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرناچاہیں توہرگز نہیں کر سکتے۔ جس طرف بھی نظر دوڑائیں اللہ کی صنعت گری نظر آتی ہے۔ انسان تو ایک چھوٹا سا کیڑا بنانے کا اختیار بھی نہیں رکھتا۔ سب کچھ اللہ کے دست ِقدرت میں ہے اور اس نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَآئً ج  فَاَنْبَتْنَا بِہٖ حَدَآئِقَ ذَاتَ بَہْجَۃٍ ج  مَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُنْبِتُوْا شَجَرَہَا ط ئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ط بَلْ ہُمْ قَوْمٌ یَّعْدِلُوْنَ  (سورۃ النمل۔60)
ترجمہ:بلکہ وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور تمہارے لیے آسمانی فضا سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس سے تازہ اور خوشنما باغات اگائے؟ تمہارے لیے ممکن نہ تھا کہ تم ان کے درخت اگا سکتے۔کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟

اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّجَعَلَ خِلٰلَہَآ اَنْہٰرًا وَّ جَعَلَ لَہَا رَوَاسِیَ وَ جَعَلَ بَیْنَ الْبَحْرَیْنِ حَاجِزًا ط ئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ط بَلْ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ (سورۃ النمل۔61)
ترجمہ: بلکہ وہ کون ہے جس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے درمیان نہریں بنائیں اور اس کے لیے بھاری پہاڑ بنائے اور دو سمندروں کے درمیان آڑ بنائی؟کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ 

اَمَّنْ یَّہْدِیْکُمْ فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَنْ یُّرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ ط ئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ط تَعٰلَی اللّٰہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ (سورۃ النمل۔63)
ترجمہ: بلکہ وہ کون ہے جو تمہیں خشک و تر کی تاریکیوں میں راستہ دکھاتا ہے اور جو ہوائوں کو اپنی رحمت سے پہلے خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ 

اَمَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ ط ئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ط قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ  (سورۃ النمل۔64)
ترجمہ: بلکہ وہ کون ہے جو مخلوق کو پہلی بار پیدا فرماتاہے اور پھر اسی (عمل)  کو دہرائے گا اور جو تمہیں آسمان و زمین سے رزق عطا فرماتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟

حاصل تحریر:

انسان کو چاہیے کہ اللہ کی نشانیوں میں غور کرے، اس کی قدرت کا مشاہدہ کرے، اس کی حمد و ثنا اور شکر ادا کرے۔ یہ کائنات اور اس کا نظام اللہ تعالیٰ کے دستِ قدرت میں ہے۔ اس لیے چاہیے کہ اپنے ہر کام میں اور ہر مشکل میں اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔ انسان ہمہ وقت خود کو اللہ کے حضور عاجز و کمزور سمجھے۔ اس کے ساتھ اپنا قلبی و روحانی تعلق مضبوط کرے۔ اس کے دیدار کا مشتاق ہوکہ جس نے اس قدر خوبصورت کائنات بنائی ہے وہ خود کس قدر خوبصورت ہوگا۔ اللہ کا دیدار اور اس کی معرفت ہی انسان کی تخلیق کا مقصدہے اور دیدارِ الٰہی سے بڑی نعمت کوئی نہیں۔ کائنات اور اس کی بیشمار نعمتیں بِن مانگے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کر دیں لیکن دیدار کا سوال انسان کے اختیار میں چھوڑا ہے۔ فیصلہ انسان نے خود کرنا ہے۔


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں