الف۔ Alif
منتقلی امانتِ الٰہیہ
12 اپریل 1998ء (14 ذوالحجہ 1418ھ) کو سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنے مرشد سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کی غلامی میں پہنچے۔ نگاہ سے نگاہ ملی اور یار نے یار کو پہچان لیا اور پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ کی غلامی ہی آپ مدظلہ الاقدس کا مقصدِ حیات بن گیا۔ آپ مدظلہ الاقدس آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ذات میں یوں فنا ہوئے کہ اپنے مرشد کی ذات کا ہی ایک نمونہ بن کر رہ گئے اور ہر لمحۂ زندگی کو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ڈیوٹی اور غلامی کے لیے وقف کر دیا۔ 1998ء سے2001ء تک سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ نے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کو ظاہری اور باطنی طور پر بہت سی آزمائشوں میں سے گزارا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل اور توفیقِ الٰہی کی بدولت آپ مدظلہ الاقدس ہر آزمائش اور امتحان میں پورااُترے۔ جب سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ نے ’امانت کے وارث‘ کو اچھی طرح پرکھ لیا تو حج کا ارادہ فرمایا اور 28 فروری 2001 بروز بدھ آپ رحمتہ اللہ علیہ نو منتخب طالبانِ مولیٰ اور تین خواتین کے ہمراہ حج کے لیے تشریف لے گئے ۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
مرشد کریم سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کے ہمراہ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر حاضری سب سے بڑی سعادت اور خوش نصیبی تھی۔ مجھے تو21مارچ 2001ء کا دِن نہیں بھولتا جب نمازِ مغرب کی ادائیگی کے بعد تمام ساتھی مختلف کاموں کے سلسلے میں اِدھر اُدھر چلے گئے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ صرف میں رہ گیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے حکم فرمایا چلیں آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضری دے آئیں۔ اس وقت باب السلام کے پاس رش اتنا زیادہ تھا کہ داخلہ مشکل ہو رہا تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو رش اور ہجوم سے بچانے کے لیے میں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے راستہ بناتا گیا۔ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اس دِن کی حاضری میری زندگی کا سب سے اہم واقعہ تھا۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ مجھ پر انوار و تجلیات کی بارش ہورہی ہے، آنسو میری آنکھوں سے جاری تھے۔ جیسے ہی مرشد کریم روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جالی کے سامنے پہنچے تو اچانک آپ رحمتہ اللہ علیہکے سامنے والا آدمی جو کہ ویل چیئر پر سوار تھا، کی ویل چیئر کا پہیہ قالین میں پھنس گیا اور لائن رک گئی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے چہرہ مبارک روضۂ پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف کیا۔ اس وقت آپ رحمتہ اللہ علیہ کا چہرہ مبارک چاند سے زیادہ روشن نظر آرہا تھا۔ میری ایک نظر روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کودیکھتی اور پھر پلٹ کر آپ رحمتہ اللہ علیہ کے چہرہ مبارک پر پڑتی۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا حسین منظر کبھی نہیں دیکھا۔ عجیب محویت کا عالم تھا ، اتنے میں روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے پاس کھڑے شرُطے (سپاہی) نے مرشد کریم کی طرف اشارہ کرکے لائنوں کے دوسری طرف کھڑے شرُطوں کو آواز دییَاشَیْخٌ (یعنی لائن اِس شیخ کی وجہ سے رکی ہے)۔ سبحان اللہ اُن کے منہ سے بھی یا شیخ (مرشد ِکامل) نکل گیا۔ شرُطے لپک کر مرشد کریم کی طرف بڑھے تو اس وقت وہاں کھڑے ہزاروں لوگوں کی نگاہیں میرے مرشد کریم کی طرف اُٹھ گئیں۔ ہر آدمی محویت سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی طرف دیکھ رہاتھا یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ شرُطے نے بڑھ کر آپ رحمتہ اللہ علیہ کا بازو پکڑنا چاہا تو میں نے جلدی سے شرُطے کا ہاتھ پکڑ کر اس کو آگے ویل چیئر والے کی طرف متوجہ کیا اور کہا کہ لائن اس کی وجہ سے رکی ہوئی ہے۔ شرُطوں نے جلدی سے ویل چیئر کا پہیہ سیدھا کیا اور یوں لائن دوبارہ حرکت میں آئی۔
روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر حاضری کے بعد ہم بابِ جبرائیل کے قریب کچھ دیر رکے تو میں نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں عرض کی:
’’حضور عالمِ اسلام مختلف فرقوں میں بٹ چکا ہے، تمام لوگوں اور خاص کر ماڈرن تعلیم یافتہ لوگوں کی نظر حق کی طرف نہیں ہے، عالمِ اسلام کو عالم ِکفر نے متحد ہوکر گھیر رکھا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ مہربانی فرمائیں کہ اسلام کا بول بالا ہو اور شیطانی گروہ مغلوب ہو۔‘‘
مرشدِ پاک نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور فرمایا :
’’ہمیں تو دِل کا محرم مل گیا ہے۔ ‘‘
یعنی ہمارا معاملہ تو حل ہو گیا اور کام بھی مکمل ہو گیا۔
وہیں پر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے مجھ پر کرم اور مہربانی فرما دی اور باطنی طور پر سیراب کردیااور ساتھ ہی باطنی طور پر اس راز کو راز رکھنے کیلئے طاقت بھی عطا فرما دی۔ اس دن کے بعد سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کا چہرہ مبارک خوشی سے دمک اٹھا اور طبیعت ہشاش بشاش ہوگئی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تمام بیماریاں اور پریشانیاں ختم ہو گئی ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا’’ہم جس مقصد کے لئے آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں آئے تھے وہ پورا ہو گیا اور اس عظیم مقصد کے طفیل جو ساتھی جو جو مراد لے کر آیا تھا خواہ وہ دنیا کی ہو یا آخرت کی، اسکی وہ مراد بھی پوری ہوگئی۔‘‘