حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شانِ فقر–Huzoor ki shan e faqr


Rate this post

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شانِ فقر

تحریر: محسن سعید سروری قادری۔ حافظ آباد

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
*اَلْفَقْرُ فَخَرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ۔
ترجمہ :فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
فقر دراصل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقت کا نام ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فخر فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ایک ایسا گنجینہ ہے جس کی طلب ہر مومن و مسلمان کو ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقت تک رسائی کسی کسی کا نصیب ہے ہر کوئی اس حقیقت تک رسائی کا اہل نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مبارکہ اور آپ کی حقیقت جیسی حقیقت اور کسی کی نہیں، جو راز آپ کی ذاتِ مبارکہ سے ظاہر ہواوہ کسی اور نبی و مرسل سے ظاہر نہیں ہوا۔ تب ہی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اُمتی ہونے کی دعا کی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے کہ لِیْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتٌ لَا یَسْعُنِیْ فِیْہِ مَلَکٌ مُقَرَّبٌ وَلَا نَبِیٌّ مُرْسَلٌ۔
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے ساتھ میرا ایساوقت بھی ہے جس میں مجھ تک نہ کوئی مقرب فرشتہ پہنچ سکتا ہے اور نہ نبی مرسل۔
مندرجہ بالا حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقت واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مثل اور کوئی نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بے مثل اور بے مثال ذات ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کا احاطہ کرنا نا ممکنات میں سے ہے اور نہ ہی کوئی آج تک اس کا دعویٰ کر سکا ہے کیونکہ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی بے مثل ذاتِ مبارکہ کے بارے میں اپنی زبانِ مبارک سے خود ہی فرما دیا کہ میں جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہوں تو مجھ تک کسی کی بھی رسائی نہیں ہوتی چاہے وہ کوئی فرشتہ ہو یا کوئی نبی و مرسل۔ اس حدیث سے ایک اور بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی وہ ہستی ہیں جو عالمِ ناسوت میں بشری لباس میں بھی اللہ تعالیٰ کے انتہائی قرب میں رہے اور کسی بھی مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اتنا قریب نہیں کیا۔ یہ فضیلت صرف ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہی حاصل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقت سے آگاہی دیتے ہوئے حضرت  بلھے شاہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:

اوہ بے صورت وچ صورت دے بن آپ محمدؐ آیا اے
رکھ سامنے شیشہ وحدت دا اج ربّ نے یار سجایا اے
بِن صور ت دے ربّ نئیں لبدا اوہدی شکل نورانی مکھ ربّ دا
جے اوہ ناں ہوندا ربّ ناں ہوندا لولاک خدا فرمایا اے
ایہہ گل کوئی یار خطا وی نئیں جے خدا اوہ نئیں تے جد اوی نئیں
آپے احمد ؐبن کے حمد کرے تے محمدؐ نام رکھایا اے

سچل سر مست ؒ لکھتے ہیں کہ

اساں ناں کہیں دے جائے ہیوں
اساں ناں کسی دے بنائے ہیوں
چھوڑ افلاک زمین تے آیا
عرش کرسی وچ آپ سمایا
اصل آہس لامکانی
اتھاں آکر ہویس مکانی
تکیہ جوڑ کیتم انسانی
صورت سب سمائے ہیوں

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس حقیقت کو حضرت علامہ اقبال ؒ جاوید نامہ میں لکھتے ہیں کہ

پیش او گیتی جبیں فرسودہ است
خویش را خود عبدہٗ فرمودہ است

ترجمہ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ شان ہے کہ زمانہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے پیشانی جھکائے ہوئے ہے یعنی زمانہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی کے حکم پر چل رہا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود اپنے آپ کو عَبْدُہٗ کہا ہے۔

عبدہٗ از فہم تو بالاتر است
زاں کہ او ہم آدم و ہم جوہر است

ترجمہ: عَبْدُہٗ  تیری عقل و فہم سے بالا تر ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بشر بھی ہیں اور جوہر (نور) بھی۔

جوہر اوؐ نے عرب نے عجم است
آدم است و ہم ز آدم اقدام است

ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقت نہ تو عربی ہے اور نہ ہی عجمی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں تو بشر لیکن آدم علیہ السلام سے بہت پہلے ہیں۔

عبدہٗ صورت گرِ تقدیر ہا
اندر و ویرانہ ہا تعمیر ہا

ترجمہ: عَبْدُہٗ  تقدیر کا صورت گر ہے۔ اس کے اندر ویرانے بھی ہیں اور تعمیرات بھی ہیں۔

عبدہٗ ہم جاں فزا ہم جاں ستاں
عبدہٗ ہم شیشہ ہم سنگِ گراں

ترجمہ: عَبْدُہٗ  جان فزا بھی ہے اور جانِ ستاں بھی، شیشہ بھی ہے اور سنگِ گراں بھی۔ اس شعر میں قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ کی طرف اشارہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا گیا ۔

عبد دیگر عبدہٗ چیزے دگر
ما سراپا انتظار او منتظر

ترجمہ: عبد (عام انسان) اور ہے اورعَبْدُہٗ  اور ہے۔ عبد اور عَبْدُہٗ  میں فرق یہ ہے کہ عبد خدا کی توجہ کا منتظر رہتا ہے عَبْدُہٗ  کی شان یہ ہے کہ خدا دیکھتا رہتا ہے کہ میرا عَبْدُہٗ کیا چاہتا ہے۔

عبدہٗ دہر است و دہر از عبدہٗ است
ما ہمہ رنگیم او بے رنگ و بو است

ترجمہ: عَبْدُہٗ  دراصل دہر (زمانہ) ہے اور دہر (زمانہ) دراصل عَبْدُہٗ  سے ہے۔ ہم سب زمان و مکان میں قید ہیں جبکہ عَبْدُہٗ  زمان و مکان (Time and space )دونوں کی قید سے بالا تر ہے۔

عبدہٗ با ابتدائے بے انتہا است
عبدہٗ را صبح و شام ما کجاست

ترجمہ: عَبْدُہٗ  کی ابتدا تو ہے لیکن اس کی انتہا نہیں ہے۔  عَبْدُہٗ  کی ہماری طرح صبح و شام (زمانہ) نہیں ہیں۔ گویا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ابتدا (تعین اوّل) تو ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم چونکہ نورِ خدا سے پیدا ہوئے ہیں اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نورِ حق کی طرح لا انتہا ہیں۔

کس ز سِرّ عبدہٗ آگاہ نیست
عبدہٗ جز سِرّ اِلَّا اللّٰہ نیست

ترجمہ: کوئی بھی انسان عَبْدُہٗ کے راز سے آگاہ نہیں ہے۔ عَبْدُہٗ  سِرّ  اِلَّا اللّٰہ کے سوا اور کچھ نہیں۔

لَا اِلٰہَ تیغ و دم او عبدہٗ
فاش تر خواہی بگو ھُو عبدہٗ

ترجمہ: اگرلاَ اِلٰہَ  (نفی۔ نہیں ہے کوئی موجود) تلوار ہے (یعنی غیر معبودوں کو قتل کرنے والی) تو اس کی دھار عَبْدُہٗ  ہے۔ اگر تو چاہتا ہے کہ میں بات کو کھل کر کہہ دوں تو حقیقت یہ ہے کہ جسے عَبْدُہٗ  کہتے ہیں وہ دراصل ھُو ہے گویا ھُو ہی عَبْدُہٗ  ہے۔

عبدہٗ چند و چگونِ کائنات
عبدہٗ رازِ درونِ کائنات

ترجمہ: عَبْدُہٗ کائنات کی حقیقت ہے، عَبْدُہٗ  کائنات کے اندر کا راز ہے گویا عَبْدُہٗ  نہ ہوتا تو اس کائنات کا بھی کوئی وجود نہ ہوتا۔
(جاوید نا مہ)
حدیثِ قدسی ہے کہ
لَوْلَاکَ لِمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ۔
ترجمہ: اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! اگر آپ نہ ہوتے تو میں افلاک کو پید ا نہ کرتا۔
حسینؒ بن منصور حلاج لکھتے ہیں کہ
* اس پروردگار کی تسبیح بیان کرتا ہوں جس نے ناسوت میں اپنے لاھوت درخشاں کے راز کو نمایاں کیا پھر پنہاں و پیدا کی صورت میں جلوہ گر ہوا اور کھانے پینے والے انسان کے روپ میں ظاہر ہوا۔ (طواسین)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو ؒ فرماتے ہیں کہ
* جب نورِ احدی نے وحدت کے گوشۂ تنہائی سے نکل کر کائنات (کثرت) میں ظہور کا ارادہ فرمایا تو اپنے حسن کی گرم بازاری سے (تمام عالموں کو) رونق بخشی‘ اس کے حسن بے مثال اور شمعءِ جمال پر دونوں جہان پروانہ وار جل اٹھے تو اس نے میم احمدی کا نقاب اوڑھ کر صورتِ احمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اختیار کی۔
حدیثِ مبارکہ ہے کہ
اَنَا مِنَ اللّٰہِ وَالْمُؤْمِنُوْنَ مِنِّیْ۔
ترجمہ:میں اللہ پاک سے ہوں اور تمام مومنین مجھ سے ہیں۔
اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ۔
ترجمہ: حق تعالیٰ نے سب سے پہلے میرا نور پیدا کیا۔
یہ ذات کا نزولِ اوّل یا ظہورِ اوّل ہے اور اسے حقیقتِ محمدیہ اس لیے کہتے ہیں کہ آپکی حقیقت احد ہے جیسا کہ حدیث نبویؐ ہے:
اَنَا اَحْمَدٌ بِلَا میْم
ترجمہ: میں میم کے بغیر احمد ہوں۔
اسی حدیثِ مبارکہ کے متعلق پیر مہر علی شاہ ؒ لکھتے ہیں :

اسی ویکھ کے صورت دلبر دی، اج بے صورت نوں جان گئے
بنا ع عرب، بنا میم احمد، اسی یار نوں خوب پچھان گئے

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فقرکی وجہ سے جو فضیلت حاصل ہے اس کا اظہار آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس حدیث میں فرماتے ہیں:
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے اور فقر ہی کی بدولت مجھے تمام انبیا و مرسلین پر فضیلت حاصل ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو آپکی حقیقت فقر کی وجہ سے ہی تمام انبیا پر فضیلت اور سرداری حاصل ہوئی۔ اسی فضیلت کی بنا پر مسجد اقصیٰ میں معراج کی رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تمام انبیا کی امامت فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی فضیلت پر تو اللہ پاک خود گواہ ہے اور ساتھ تمام انبیا بھی۔ اللہ تعالیٰ اس کو قرآن میںیوں بیان فرماتا ہے:
ترجمہ: اور (اے محبوبؐ وہ وقت یاد کریں) جب اللہ تعالیٰ نے تمام انبیا ؑ سے پختہ عہد لیا کہ جب میں (اللہ) تمہیں کتاب اور حکمت عطا کردوں پھرتمہارے پاس وہ (سب سے عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مددکروگے۔ فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب انبیا نے عرض کیا ہم نے اقرار کر لیا۔ فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔ (پھر پوری نسلِ آدم کے لیے تنبیہاً فرمایا) پھر جس نے اس (ارادہ) کے ساتھ رو گردانی کی پس وہی لوگ نافرمان ہوں گے۔ (سورۃ الانفال82,81 )
تمام انبیا کو نبوت بھی اس شرط پر ملی کہ وہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوت پر ایمان لائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوت بھی سب انبیا سے پہلے کی ہے اور مرتبہ سلطان الفقر پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ازل سے ہی ہیں اس کی مثال دنیا میں واقعہ معراج شریف ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو ؒ اپنی کتا ب محک الفقر کلاں میں فرماتے ہیں کہ:
* معراج کی رات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام براق پر سوار ہوئے جبرائیل علیہ السلام آپ کے آگے آگے پا پیادہ دوڑے عرش سے فرش تک دونوں جہان آراستہ کیے گئے اٹھارہ ہزار عالم کو پیراستہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے لایا گیا اور جبرائیل علیہ السلام آگے بڑھنے سے رُک گئے اس سارے اہتمام کے باوجود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی نگاہ ذاتِ حق تعالیٰ سے نہ ہٹائی چنانچہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے۔مَازَاغَ الْبَصْرُ وَمَاطَغٰی  ترجمہ: بہکی نہیں آپکی نگاہ نہ حد سے بڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس تمام اہتمام پر توجہ نہیں دی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر پہنچے تو وہاں صورتِ فقر کا مشاہدہ کیا اور مراتبِ سلطان الفقر کی لذت سے لطف اندوز ہوئے۔ فقرِ نورِ الٰہی سے باطن کو معمور فرمایا اور قابَ قوسین کے مقام پرا للہ تعالیٰ کے قرب و وصال سے مشرف ہو کر ذاتِ حق تعالیٰ سے ہمکلام ہوئے پھر اس سے آگے بڑھ کر مقامِ فقر فنا فی اللہ میں داخل ہوئے ملاقاتِ فقر سے غرق فنا فی اللہ مع اللہ ذات ہو کر رفیقِ فقر ہوئے اور محبت، معرفت، عشق ، شوق، ذوق ، علم ، حلم، جودوکرم اور خلق سے متخلق ہوئے جیسا کہ فرمایا گیا ہے تَخَلْقَوْ ابِاَخْلَاقِ اللّٰہِ تَعَالٰی۔ ترجمہ: (اپنے اندر اخلاقِ الٰہیہ پیدا کرو) اس طرح کمال فقر پر پہنچ کر جب سارا دریائے توحید آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وجود میں جمع ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی زبانِ درِفشاں سے اس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :
*اَلْفَقْرُ فَخَرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ۔
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔ (محک الفقر کلاں)
یہ فخر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے مرتبہ سلطان الفقر پر ہی فرمایا ہے اپنی حقیقت پر ہی ناز کیا ہے اپنی حقیقت کے بارے میں آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے:
*مَنْ رَانِیْ فَقَدْ رَا الْحَقْ۔
ترجمہ: جس نے مجھے دیکھا بیشک اس نے حق دیکھا۔
آج کے اس دور میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فخر ’’فقر‘‘ کی یہ شان سلسلہ سروری قادری کے امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس میں جلوہ گر ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنی نگاہِ کامل کی تاثیر سے اور اسم اللہ ذات کے ذکر و تصور کے فیض سے فقر کی دولت کو طالبانِ مولیٰ میں عام فرما رہے ہیں۔ طالبانِ مولیٰ کے لیے دعوتِ عام ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دامن سے وابستہ ہو کر فقر کی یہ نعمت حاصل کریں جس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فخر فرمایا۔


اپنا تبصرہ بھیجیں