بشکلِ شیخ دیدم مصطفیؐ را
تحریر: فائزہ گلزار سروری قادری۔ لاہور
اللہ تعالیٰ بے انتہا حسین وجمیل ہے وہ چاہتا تھا کہ اس کے حسن کو کوئی دیکھے، تعریف کرے اور اس میں محو ہو کر ہر چیز بھلا دے۔ اس کے لیے ایک ایسا مجسم آئینہ درکار تھا جس میں وہ اپنا حسن ظاہر کر سکے۔یہی چاہت انسان کی تخلیق کا باعث بنی۔ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک کا سب سے کامل آئینہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ بابرکات بنی۔سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو ؒ نے فرمایا ہے:
* ’’ جان لو کہ جب اللہ واحد نے حجلۂ تنہائی وحدت سے نکل کر کثرت میں ظہور فرمانے کا ارادہ کیا تو اپنے حسن و جمال کے جلوؤں کو صفائی دے کر عشق کا بازار گرم کیا جس سے ہر دو جہان اس کے حسن و جمال پر پروانہ وار جلنے لگے اس پر اللہ تعالیٰ نے میم احمدی کا نقاب اوڑھا اور صورتِ احمدی اختیار کی۔‘‘ (رسالہ روحی شریف)
صورتِ احمدی دراصل اللہ تعالیٰ کے نور کی بہترین صورت ہے جس میں کچھ کمی یا خامی نہیں ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:’’اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ ہے۔ چراغ فانوس میں ہے فانوس ایسے ہے کہ ایک موتی جو ستارے کی مانند چمکتا ہے۔ یہ چراغ اس برکت والے پیڑ زیتون کے تیل سے روشن ہوتا ہے جو نہ شرقی ہے نہ غربی۔ قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اُٹھے۔ اگرچہ اُسے آگ نہ بھی چھوئے۔نور پر نور چھایا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس نور کی طرف اسی کو ہدایت دیتا ہے جو اس کا طالب بنتا ہے۔‘‘ (سورۃ النور۔35 )
درج ذیل حدیث مبارکہ میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے:
* اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ۔
ترجمہ: سب سے پہلے اللہ نے میرے نور کو پیدا فرمایا۔
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
* جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے روحِ محمد کو اپنے نورِ جمال سے پیدا کیا۔ جیسا کہ فرمان حق تعالیٰ ہے:
’’ میں نے روحِ محمد کو اپنے چہرے کے نور سے پیدا فرمایا۔‘‘ (مقدمہ سرّ الاسرار)
حضرت شاہ سیّد محمد ذوقی ؒ اپنی تصنیف ’’ سرِّ دلبراں‘‘ میں فرماتے ہیں:
* ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ کا وہ نور ہیں جو سب سے پہلے چمکا اور جس سے تمام کائنات کی تخلیق ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اصل ہیں جملہ کائنات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خلاصۂ موجودات ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جانِ عالم ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اجمال ہیں اُن اسماء و صفات کا جن کا ظہور تفصیلی کائنات میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی عقل اوّل ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی نورِ نبوت ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی حقیقت ہیں آدم ؑ کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی اصل ہیں جملہ انبیا علیہم السلام کی۔‘‘
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* ’’ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حقیقت نور ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ظاہر میں ’’انسانِ کامل‘‘ کا لباس پہن کر تشریف لائے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صورت میں بشر اور حقیقت میں نور ہیں۔ بے عیب و پاک صاف اور شفاف بشریت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اعلیٰ وصف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بشریت بھی بے مثل ہے اور اتنی لطیف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سایہ تک نہیں۔‘‘ (حقیقتِ محمدیہ)
یہ بھی حقیقت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ نور ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتا بلکہ اسے دیکھنے کے لیے باطنی بصیرت درکار ہوتی ہے قرآنِ مجید میں باطنی بصیرت سے محروم لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
وَتَرَ اھُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْک َ وَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ۔ (الاعراف۔197 )
ترجمہ: او ر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) دیکھتے ہیں ان کو کہ آپ کی جانب نظر کرتے ہیں ۔مگر کچھ نہیں دیکھتے۔
جن سچے عاشقانِ رسولؐ کی باطنی آنکھ کھل جاتی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حُسنِ بے مثال کے دیدار میں محو ہو جاتے ہیں اور (اسی محویت میں ) اپنی گردنیں تک کٹوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ حضرت حسان بن ثابتؓ فرماتے ہیں:
* ’’ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حسن کی تجلیات کا مشاہدہ کیا تو اپنی ہتھیلی اپنی آنکھوں پر رکھ لی ۔ اس لیے کہ (تجلیات کی شِدت سے) کہیں میں بینائی سے محروم ہی نہ ہو جاؤں۔‘‘(جواہر البحار جلد 2 )
اللہ تعالیٰ کا حسنِ بے مثال جو کامل ترین صورت میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ پاک میں جلوہ گر ہوا،ازل سے تھا اور ابد تک موجود رہے گا۔ اس حسن کے نظارے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ظاہری حیات مبارکہ میں طالبانِ مولیٰ نے خوب کئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کا حسن اس کے طالبوں سے چھپ نہیں سکتا کہ وہ باطن بھی ہے اور ’ظاہر‘ بھی۔ کلمہ طیبہ کے الفاظ ’’محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے رسول ہیں‘‘ اس حقیقت پر مہر ثبت کرتے ہیں کہ آپصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم موجود ہیں اور فیض کے طالبوں کو ضرور بالضرور نوازتے ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ’’ محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے رسول تھے۔‘‘ اگر کوئی ایسا کہے تو وہ بالاتفاق کافر ہے۔
مستند اولیا کرام ؒ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہر زمانہ میں اس زمانے کی شان کے مطابق ظاہر ہوتے ہیں۔ سیّد عبدالکریم بن ابراہیم الجیلی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ ہر صورت میں متصور ہوں۔ حتیٰ کہ وہ ان صورتوں میں متجلی ہوتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ دستور جاری ہے کہ وہ ہمیشہ ہر زمانہ میں اس زمانہ کے اکمل کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں تاکہ ان کی شان بلند ہو اور زمانہ کا ان کی طرف میلان درست اور قائم ہو۔ وہ ظاہر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خلیفہ ہوتے ہیں اور باطن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کی حقیقت ہیں۔‘‘ (انسانِ کامل)
’’ فصوص الحکم والایقان ‘‘ میں علامہ ابنِ عربی ؒ حقیقتِ محمدیہ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
* ’’ چونکہ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں نہ رسول جو نئی شریعت لائے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد ہر زمانہ میں ایک مردِ کامل ہوتا رہے گا جس میں حقیقتِ محمدیہ کا ظہور ہوگا اور وہ فنا فی الرسول کے مقام سے مشرف ہو گا۔ وہ مردِ کامل قطبِ زمان ہے اور ہر زمانہ میں ایک ولی اس منصب پر فائز کیا جاتا ہے۔‘‘
مزید فرماتے ہیں:
* ’’ انسانِ کامل اپنے زمانہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خلیفہ ہوتا ہے اور انسانِ کامل ایک ہی ہے اور وہ ذات صاحبِ لولاک سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات پاک ہے جو آدم علیہ السلام سے لیکر عیسیٰ علیہ السلام تک رسولوں، نبیوں اور خلفا کی صورت میں ظاہر ہوتی رہی ہے اور ختمِ نبوت کے بعد غوث، قطب، ابدال اور اولیا اللہ کی صورت میں اعلیٰ قدر مراتب ظاہر ہوتی رہے گی۔‘‘
حضرت شاہ سیّد محمد ذوقی رحمتہ اللہ علیہ حقیقتِ محمدیہ کے مختلف اوقات میں ظاہر ہونے کے متعلق فرماتے ہیں:
* ’’جب اللہ تعالیٰ نے زمین پر اپنے خلیفہ کا ہونا قرار دے دیا تو ہر زمانے میں خلیفہ کا ہونا لازم ٹھہرا ۔خلیفہ کے لیے اس کی بھی ضرورت ہے جو اپنے زمانے کے لوگوں سے ایک گونہ مناسبت رکھے تاکہ لوگ اس کے ذریعہ سے کمال حاصل کر سکیں اور وہ خلافت کے منصب کو انجام دے سکے۔ رفتارِ زمانہ سے لوگوں کے حالات میں تغیر واقع ہوتا رہتا ہے مختلف زمانہ کے لوگ یکساں قسم کے نہیں ہوتے۔ ان جملہ وجوہات کی بنا پر حقیقتِ محمدیہ کا ظہور ان کمالات کے ساتھ پہلے ممکن نہ تھا اس لیے وہ حقیقت وقتاً فوقتاً مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی رہی۔ ہر ہر صورت خاص شان اور خاص مرتبہ سے مخصوص ہوئی۔ وہ تمام صورتیں اپنے اپنے زمانہ اور اپنے اپنے وقت کے حالات سے بہت مناسب تھیں اور اپنے اپنے زمانے کی مناسبت سے جو کمالات اقتضائے زمانہ کے مناسب تھے ان سے وہ صورتیں سب کی سب مزیّن تھیں۔ وہ صورتیں انبیا علیہم السلام ہیں اور اُنکی اصل حقیقتِ محمدیہ ہے۔‘‘
آپؒ مزید فرماتے ہیں:
* ’’ انقطاعِ نبوت کے بعد قطبیت مطلقہ اولیا اللہ میں منتقل ہو کر آگئی ۔ یہ حالت خاتم الاولیا کے ظہور تک رہے گی۔ پھرا س کے بعد یہ سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا اور دائرہ پورا ہو جائے گا۔ پھر حشر و نشر اور جنت و نار کا دور شروع ہو گا۔ یہی اولیا اللہ ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی متابعت اور محبت سے ظاہری طور پر انسانِ کامل کے مرتبہ پر فائز ہو کر خلافتِ الٰہی اور نیابتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منصب پر ممتاز ہوئے ہیں اور امامِ آخر زمان کے ظہور تک ہر زمانہ میں رہیں گے۔‘‘ (سِرّ دلبراں)
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
* ’’نبوت کی ظاہری صورت اٹھ گئی لیکن اس کے معنی قیامت تک باقی ہیں ورنہ زمین کیونکر اور کس طرح باقی رہتی ۔ زمین میں چالیس ابدال ہیں اور ان میں سے بعض وہ ہیں جن میں نبوت کے معنی پائے جاتے ہیں اور ان کا دل ایسا ہے کہ جس طرح ایک نبی کا اور ان میں بعض اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے زمین میں خلیفہ ہیں۔‘‘ (الفتح الربانی)
ایک اور موقع پر آپؓ نے فرمایا:
* حدیثِ مبارکہ’’میں اور میرے پیروکار نورِ بصیرت کے مالک ہیں‘‘ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ میرے بعد میرے وارث کامل مرشد ہوں گے جو صاحبِ ارشاد ہوں گے اور میری طرح باطنی بصیرت کے مالک ہوں گے یعنی وہ ولایتِ کاملہ کے مالک ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے کلام میں ’’وَلِیًّا مُّرْشِدًا‘‘ کہہ کر اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (سرالاسرار۔ فصل 22)
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں :
او کلیم ؑ و او مسیح ؑ و او خلیلؑ
او محمدؐ او کتاب او جبریلؑ
ترجمہ: وہ(انسانِ کامل) ہی کلیم اللہ (موسیٰؑ ) مسیح(عیسیٰؑ ) اور خلیل (ابراہیم ؑ ) ہے۔ وہ محمد ؐ ہے وہ کتاب ہے اور وہ جبرائیل ؑ ہے۔
ہر دور میں مرشد کامل ہونے کی یہی دلیل رہی ہے کہ ان کی ذات میں حقیقتِ محمدیہ جلوہ گر ہو۔ تمام مستند اولیا اللہ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر مرید اپنے مرشد میں حقیقتِ محمدیہ کا مشاہدہ نہ کر سکیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا مرشد ناقص ہے لہٰذا وہ اللہ تک پہنچنے کے لیے کسی مرشد کامل اکمل کی تلاش کریں۔ صرف اسی مرشد کامل کی ذاتِ مبارکہ میں حقیقتِ محمدیہ ظاہر ہوتی ہے جو فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کے تمام مراحل طے کر چکا ہو۔
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
* ’’ جس شخص کی تابعداری حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ صحیح ہو جاتی ہے اس کو حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام اپنی زرہ خود پہناتے ہیں اور اپنی تلوار اس کے گلے میں ڈالتے ہیں اور اسکو اپنے طریقوں اور خصلتوں کی خلعت عطا فرما دیتے ہیں اور اس سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بہت خوش ہوتے ہیں کہ یہ ان کی اُمت میں کیسا ہونہار نکلا۔ اس پر سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے ربّ کا شکر ادا کرتے ہیں پھر اس کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی امت میں نائب اور رہنما اور اللہ تعالیٰ کے دروازے کی طرف بلانے والا مقرر فرما دیتے ہیں۔ مگر جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال باکمال ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت میں وہ لوگ مقرر کر دئیے گئے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سچے جانشین تھے اور وہ لاکھوں انسانوں میں ایک دو ہی ہوتے ہیں۔ وہ مخلوق کی راہنمائی کرتے ہیں اور وہ ہر وقت مخلوق کی خیر خواہی چاہتے ہیں اور ان کی ایذاؤں کو برداشت کرتے ہیں۔ وہ منافقوں اور فاسقوں کے منہ پر مسکراتے ہیں اور طرح طرح کے حیلے کرتے ہیں کہ کسی طرح منافقت اور فسق ان سے چھوٹ جائے اور ان کو اللہ تعالیٰ کے دروازہ کی طرف لے جائیں ۔‘‘ (الفتح الربانی۔ مجلس 23 )
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو ؒ فرماتے ہیں :
* چونکہ اللہ تعالیٰ کے نورِ مبارک سے جناب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نور مبارک ظاہر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور سے تمام مخلوق کا ظہور ہو ااس لئے انسان کی اصل نور ہے اور عمل کے مطابق جب نفس ، قلب اور روح تینوں نور بن جاتے ہیں تو اس کو انسانِ کامل کہتے ہیں۔(عقلِ بیدار)
* فقیر (انسانِ کامل) رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا معشوق، اللہ تعالیٰ کا عاشق ہوتا ہے اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کے عاشق ہوتے ہیں۔ یہاں عاشق ، معشوق اور عشق تینوں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ یہاں پر جب وصل کی گنجائش نہیں تو ہجر کا کیا دخل ۔ یہ مراتب ان کے ہیں جو فنا فی اللہ، فنا فی الرسول اور فنا فی الشیخ ہیں ۔ (عقلِ بیدار)
* عارف باللہ کی روح بھی نور ہوتی ہے اور سِرّ بھی نور ہوتا ہے کہ اس کا تعلق اسرارِ نور سے ہوتا ہے۔ عارف باللہ جب بقا حاصل کر لیتا ہے تو بیشک وہ اپنے ربّ کو بقا سے پہچان لیتا ہے اس کے بعد اس کے وجود میں ہوس رہتی ہے نہ طلب و محبتِ طالب و مرید رہتی ہے۔ عارفانِ باللہ کے یہی وہ مراتب ہیں کہ جن پر حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا اور حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ فائز تھے۔ کیا تجھے ابھی تک اتنی شناخت حاصل نہیں ہوسکی کہ تیرے وجود میں نفس یزید ہے اور روح بایزیدؒ ہے، جو یزید کا د وست ہے وہ بایزید ؒ کا دشمن ہے۔ اہلِ دنیا یزید ہیں اور صاحبِ فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بایزیدؒ ہے۔ اس راہ کا کامل مرشد وہ ہے جسے رفاقتِ حق حاصل ہے اور وہ راہِ اسم ’’اللہ‘‘و مسمّیٰ اور فنا فی اللہ بقا باللہ، مشاہدہ توحید، استغراق مع اللہ اور حق حضور مذکور کے علاوہ اور کوئی راہ نہ جانتا ہو اورذکرِ اللہ کے علاوہ اور کوئی ذکر نہ کرتا ہو۔ ( محک الفقر کلاں)
* جو آدمی فنا حاصل کر لیتا ہے وہ بقا تک پہنچ جاتا ہے اور جو بقا تک پہنچ جاتاہے اس کا سارا وجود نور ہو جاتا ہے پھر وہ اپنے اندر خود کو نہیں دیکھتا کہ خود پرستی سے بڑا گناہ کوئی اور نہیں۔ جو آدمی مقام سِرّ سے آگاہ ہوجاتا ہے وہ ورقِ دل کے مطالعہ میں مشغول ہو جاتا ہے جس سے ہر مقام کا مشاہدہ اس پر کھل جاتا ہے۔ یہ اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ۔(جہاں فقر مکمل ہوتا ہے وہیں اللہ ہے) کا مرتبہ ہے اور اس مرتبے کا فقیر بلند پرواز شہباز کی مثل ہوتا ہے۔ جب صاحبِ جمعیت طالب ذکر فکر کی مدد سے اس مرتبۂ کمال پر پہنچتا ہے تو صاحبِ کیمیا نظر ہوجاتا ہے اس کی نظر میں کیمیائے اکسیر کی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسے فقیر کو ’’ صاحبِ جمعیت لا یحتاج فقیر ‘‘ کہتے ہیں۔(محک الفقر کلاں)
کپتان ڈبلیو بی سیال لکھتے ہیں:
* مقامِ فنا فی اللہ میں رہ کر بحرِ ذات وصفاتِ الٰہی میں غوطے لگا کر بندۂ مومن بمصداق حدیثِ قدسی بِیْ یَسْمَعْ وَیُبْصَرْ‘‘ حق تعالیٰ کی صفات سے متصف ہوتا ہے اس مقام کی طرف ایک اور حدیث سے بھی اشارہ ہوتا ہے جس میں کہا گیاہے تَخَلْقَوْ ابِاَخْلَاقِ اللّٰہِ تَعَالٰی. (اللہ کی صفات سے متصف ہو جاؤ)۔ جب صفاتِ الٰہی سے بندۂ مومن متصف ہو کر واپس بقا کی حالت کی طرف آتا ہے تو بحیثیت انسانِ کامل خلافتِ الٰہیہ کا تاج اس کے سر پر رکھا جاتا ہے اور یہ مقام انسانی عروج کا بلند ترین مقام ہے اور پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خاصہ ہے۔ یہ عبدیت کا بلند ترین مقام ہے کیونکہ فنا میں رہ کر آدمی ہمیشہ کے لیے غرق ہو جاتا ہے۔ (روحانیت اور اسلام)
علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں:
مردِ حق باز آفریند خویش را
جز بہ نورِ حق نہ بیند خویش را
بر عیارِ مصطفیؐ خود را زند
تا جہانے دیگرے پیدا کند
مفہوم:مردِ حق(انسانِ کامل) خود کو پہلے وجود میں لاتا ہے۔ وہ جب خود کو دیکھتاہے تو صرف نورِ حق دیکھتا ہے۔ پہلے وہ (انسانِ کامل) خود کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات میں فنا کرتا ہے پھر ایک نئی دنیا وجود میں لاتا ہے یعنی پھر وہ جو کچھ کرتا ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طریق کے مطابق کرتا ہے اور پھر وہ جو کچھ وجود میں لاتا ہے وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دنیا بن جاتی ہے۔
مردِ حُر از ’’لَآ اِلٰہ‘‘ روشن ضمیر
می نہ گردد بندۂ سلطان و میر
ترجمہ: مردِ حُر(انسانِ کامل) ’’لَآ اِلٰہ‘‘ پر کامل ایمان و عمل کے باعث روشن ضمیر ہوتا ہے۔ وہ کسی سلطان اور امیر کا غلام نہیں بنتا وہ صرف خدائے واحد اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا غلام رہتا ہے۔
ما کلیسا دوست، ما مسجد فروش
او زِ دستِ مصطفیؐ پیمانہ نوش
ترجمہ: ہم کلیسا دوست ہیں اور مسجد فروش ہیں۔ مردِ حُر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دستِ مبارک سے پیالہ پینے والا ہے یعنی ہم تو مغربی تہذیب و تمدن کے عاشق اور فرنگیوں کے طور طریقے اپنانے والے اور دین فروش ہیں جبکہ وہ (انسانِ کامل) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عشق کی شراب پینے والا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے براہِ راست فیض یاب ہونے والا ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* ’’سلسلہ سروری قادری میں جب طالب ھُو میں فنا ہو کر فنا فی ھو ہو جاتا ہے اور اس کے ظاہر و باطن میں ھُو کے سوا کچھ نہیں رہتا تو یہ ہے’’ ہمہ اوست در مغز و پوست ‘‘ اور یہی ہے فقیر مالک الملکی (انسانِ کامل ، نائبِ رسولؐ) اور یہی ہے مرشد کامل اکمل نور الہدیٰ۔ ایسا انسان ہر وقت کائنات میں موجود ہوتا ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کانائب ہو تاہے یعنی حقیقتِ محمدیہ مختلف زمانوں کے اندر اپنے نائب، خلیفہ اور جانشین کی صورت میں بدلتی رہتی ہے۔ (شمس الفقرا)
ایک اور موقع پر آپ مدظلہ الاقدس نے فرمایا:
* ’’انسانِ کامل اللہ تعالیٰ کا مظہر اور مکمل آئینہ بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے انوارِ ذات و صفات اور اسما و افعال کا اپنے اندر انعکاس کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی جمیع صفات سے متصف اور اس کے جملہ اخلاق سے متخلق ہو جاتا ہے ۔ جیسا کہ حدیثِ قدسی ہے:
قَلْبُ الْمُؤْمِنْ عَرْشَ اللّٰہِ تَعَالٰی۔
ترجمہ: مومن کا قلب اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔
لَایَسْعُنِیْ اَرْضِیْ وَلَا سَمَائِیْ وَلٰکِنْ یَسْعُنِیْ قَلْبُ عَبْدِ الْمُؤْمِنْ۔
ترجمہ: نہ میں زمین میں سماتا ہوں اور نہ آسمانوں میں لیکن بندۂ مومن کے دل میں سما جاتا ہوں۔ ( شمس الفقرا)
اسی کے متعلق مولانا رومی ؒ فرماتے ہیں :
بشکلِ شیخ دیدم مصطفیؐ را
ندیدم مصطفیؐ را بل خدا را
ترجمہ: میں نے اپنے شیخ کی شکل میں مصطفیؐ کا دیدار کیا، نہ صرف مصطفیؐ کا دیدار کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کا بھی دیدار کیا۔
مولانا روم ؒ اسے ایک مثال سے یوں واضح فرماتے ہیں کہ ایک شمع سے اگر چراغ جلایا جائے پھر اس چراغ سے چراغ در چراغ ہزاروں چراغ جلائے جائیں تو آخری چراغ میں پہلی شمع کی روشنی موجود ہوتی ہے۔ اس مثال سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ روشنی کی ابتدا ہی جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شمع سے ہوئی تو گویا ہر فنا فی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہونے والے کے وجود کے چراغ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شمع کی روشنی موجود ہوتی ہے۔
اس کی وضاحت یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ ایک شخص اگر کسی مرشد کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے تو مرشد کا ہاتھ بھی اس کے اپنے بیعت کرنے والے مرشد کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور اس کا اپنے مرشد کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ یوں سلسلہ در سلسلہ ہاتھ میں ہاتھ ہونے سے سب سے آخری شخص کاہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھ میں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اس کے متعلق سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
* ’’تمہارے درمیان صورتاً کوئی نبی موجود نہیں ہے تاکہ تم اس کی اتباع کرو پس جب تم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متبعین (مرشد کامل) کی اتباع کرو گے جو کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقی اتباع کرنے والے اوراتباع میں ثابت قدم تھے تو گویا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اتباع اور زیارت کی۔‘‘ (الفتح الربانی مجلس 14 )
تحریک دعوت فقر آپ کو دعوتِ حق دیتی ہے آئیے او راس میں شامل ہوکر اسم اللہ ذات کے ذکرو تصور کے ذریعے موجودہ دور کے انسانِ کامل کی شناخت کریں۔ ذکرو تصور کے متعلق سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں کہ اس میں شیطانی استدراج نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنا اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مخلص عاشق بنا دے اور ہمیں اپنی حقیقی اتباع کرنے والوں کی اتباع کرنے کی توفیق ، ہمت اور لگن عطا فرمائے۔ (آمین)