زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
محمد یوسف اکبر سروری قادری
آبروئے ما ز نامِ مصطفیؐ است
تمام بلندیاں اس خالقِ کائنات کو زیب دیتی ہیں جو ازل سے بھی پہلے سے ہے ابد کے بعد بھی رہے گا۔ وہ بلندیوں کا مالک جب چاہے جو چاہے کر سکتا ہے، وہ قادرِ مطلق ہے، شان و شوکت والا ہے جس شان سے چاہے جلوہ گر ہو یہ اسی کے شایان شان ہے اور جسے چاہے جس طرح چاہے نواز دے بلندی عطا کرے یہ اُسی کے لائق ہے۔ وہ پتھر میں کیڑے کو روزی بھی پہنچا سکتا ہے اور اسے زندگی کی روانی بھی عطا کر سکتا ہے۔ بعد از حمد و ثنا درود بَر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو خاتم النبیین ہیں اور ان کی آل پر اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر جن کی محبت اور احترام نے مجھ میں اور میرے قلم ناتواں میں جنبش پیدا کی کہ میں نے اپنی کمزور بشریت کے باوجود اس محبوبِ بر حق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت کے عنوان پر طبع آزمائی کی جسارت کی۔
زیارت کے لغوی معنی و مفہوم
عربی لغت میں ہر لفظ کا مادہ کم از کم تین حرفی ہوتا ہے جس سے باقی الفاظ بنتے اور اخذ ہوتے ہیں۔ عربی لغت میں زیارت کے معنی تلاش کریں تو تو یہ لفظ زَارَ، یَزُرْرُ، زَوْرًا سے مشتق ہے جس کے معنی ملنے، دیکھنے، نمایاں ہونے، رغبت، جُھکاؤ اور ملاقات کے ہیں۔
جب کوئی شخص کسی ایک جگہ سے دوسری جگہ ، ایک مقام سے دوسرے مقام پر کسی سے ملاقات کے لئے جائے تو اس میں اس شخصیت یا مقام کی طرف رغبت، رحجان اور جھکاؤ کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے اور وقتِ ملاقات روئیت بھی ہوتی ہے اس لئے اس عمل کو زیارت بھی کہا جاتا ہے۔
لفظ زیارت مصدر بھی ہے اور اسم مصدر بھی جس کا معنی ہے کسی مقام پر کسی سے ملنے جانا جیسے کہ دوست احباب سے ملاقات۔ اس کا دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ کسی جگہ موجود آثار سے حصولِ برکت کے لئے جانا‘ مثال کے طور پر مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کے لئے جانا یا حج کے لئے جانا۔
عربی لغت کی معروف کتاب ’’ المصباح المنیر‘‘ میں یوں درج ہے:
ترجمہ: ’’عرفِ عام میں زیارت سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص کے ادب و احترام اور اس سے محبت کی بنا پر اس کی ملاقات کے لئے جانا، طلب ملاقات کا ذوق شوق زیارت کہلا تا ہے۔
اسی سے ’’مزار‘‘ اخذ کیا گیا ہے جس کا معنی ہے وہ جگہ یا مقام جس کی کسی احترام کی نسبت سے زیارت کی جائے۔
ابن منظور افریقی اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
مزار سے مراد مقامِ زیارت ہے یعنی زیارت گاہ ۔(بحوالہ لِسان العرب از ابن منظور افریقی)
اسی سے ’’زائر‘‘مشتق ہے جسکا معنی ہے زیارت کے لئے جانے والا شخص یا ملاقاتی ۔
زیارت کے شرعی معنی ومفہوم
قرآن و احادیث کی کتب اور تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض نفوسِ قدسیہ، پاک طینت افراد یا ذواتِ عالی شان، مکرم و مقدس مقاماتِ مطہرہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خصوصی نعمت و رحمت سے نوازا ہے اور ان کو دیگر مخلوق پر برتری و ترجیح و شان عطا کی ہے۔ ان بابرکت و مقدس ذواتِ مطہرہ اور اماکن مقدسہ پر حاضر ہونا یا حاضری کے لئے جانا شرعی طور پر مسنون اور مستحب عمل ہے۔ اسی عمل کو زیارت کہا جاتا ہے۔
اقسامِ زیارت
اللہ ربّ العزت کے پسندیدہ دین اسلام میں زیارت کا اس قدر جامع تصور ہے کہ ہر واجب الاحترام شخصیت ، متبرک مقام اور چیز کو صرف اورصرف دیکھنا ہی عبادت کا درجہ اور موجبِ اجرو ثواب ہے۔
حضرت عبدا للہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم و معظم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :
* والد کو دیکھنا عبادت، کعبہ کو دیکھنا عبادت، قرآنِ حکیم کو دیکھنا عبادت اور اپنے بھائی کی طرف رضائے الٰہی کی غرض سے محبت کی نگاہ سے دیکھنا بھی عبادت ہے۔ (بحوالہ بہیقی )
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جن ذوات، مقام اور اشیا کو دیکھنے کا فرمایا یہ در اصل زیارت کی مختلف اور علیحدہ علیحدہ اقسام ہیں۔ ذیل میں راقم اس حدیث سمیت دیگر حوالہ جات کی روشنی میں زیارت کی اقسام بیان کر رہا ہے جن میں سرِ فہرست اور نمایاں موضوع زیارت رسولِ مقبول امامِ الانبیا، رہبرِ کامل، ختم المرسلین ہے۔
چونکہ میرا موضوع ہی زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے تو موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اک تمنا کا اظہار ضروری خیال کرتاہوں کہ بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں اک عرض ہے،کسی شاعر نے کیاخو ب کہا :
فنا اتنا میں ہو جاؤں فقط تیری ذاتِ عالی میں
جو مجھ کو دیکھ لے اسے تیرا دیدار ہو جائے
اس مضمون کو لکھتے ہوئے اک کیف و سرور سے گزر رہا ہوں جس کو احاطۂ تحریر میں لانا تو شاید ممکن نہیں مگر اک شعر کی صورت بیان کرتا ہوں۔
اب میری نگاہوں میں جچتا نہیں کوئی
جیسے میرے آقاؐ ہیں ویسا نہیں کوئی
زیارتِ مصطفٰیؐ
ایمان کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ اقدس کو دیکھنا افضل ترین اعمال میں سے ہے۔ ایمان کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت کرنے والے خوش نصیب خواہ مرد ہوں یا عورت یا کم عمر سب کو ہی عظیم مرتبہ و رتبۂ صحابیت پر فائز ہونے کا اعلی وارفع شرف عطا ہوا اور یہ خوش نصیب صحابی اور صحابیات کہلائے۔ یہ رتبہ اتنا عظیم، اعلیٰ و ارفع امتیاز ہے کہ جس پر کوئی اور شخص قیامت تک فائز ہو ہی نہیں سکتا اگرچہ وہ تمام عمر عباد ت و ریاضت اور قیام و سجود میں کیوں نہ صرف کر دے۔
ایسے خوش نصیب اصحاب اور اصحابیات کے بارے میں خود میرے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :
* اس مسلمان کو آگ نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا مجھے دیکھنے والے کو دیکھا۔ (بحوالہ ترمذی کتاب المناقب)
جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حالتِ ایمان میں دیکھا وہ صحابیؓ کہلاتا ہے اور جس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھنے والے صحابیؓ کو دیکھا وہ تابعیؓ کہلاتا ہے ۔
یہ تو قبل وصال کی کیفیت کا تذکرہ ہے۔ اسی طرح بعد از وصال زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شرعی حیثیت پر بھی اُمت مسلمہ کا اجماع ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے حقیقتاً مجھ کو ہی دیکھا اس لئے کہ شیطا ن میری صورت نہیں بنا سکتا۔‘‘ (بحوالہ شمائل ترمذی حدیث نمبر382 )
بعض آئمہ حنفی اور فقہ مالکیہ کے علاوہ اہلِ سنت وَالجماعت کے دیگر مکاتب و مذاہب بھی اسے واجب قرار دیتے ہیں۔ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو واضح الفاظ میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:
وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآئُوکَ فَاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا۔ (سورۃ النساء۔64)
ترجمہ: اور (اے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اگر وہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں توآپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) بھی ان کے لیے (اللہ سے) معافی و مغفرت طلب کرتے تو وہ (آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلہ اور شفاعت کرنے کی بنا پر) ضرور اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا اور نہایت مہربان پاتے۔
درج بالا آیتِ مبارکہ سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اس کا اطلاق صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیاتِ مبارکہ تک تھا بلکہ جس طرح قرآنِ مجید کے تمام احکام کا اطلاق قیامت تک کے لئے ہے یعنی عالمگیر ہے اسی طرح اس ارشادِ ربانی کا اطلاق بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مطہرہ پر قیامت تک کے لئے ہے۔
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت سے قبل حضرت آدم ؑ کی دعا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلہ جلیلہ کے طفیل درجہ قبولیت تک پہنچی۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت باسعادت سے قبل حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ نے کعبہ معظمہ کی تعمیر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلہ جلیلہ سے دعا کی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیھِمْ ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مبارک قبل ولادت بھی انبیا علیہم السلام کے لئے مرکز و محور تھی، بعد از ولادت بھی منبعِ انوار ہے اور بعد از وصال بھی مرکز و محورِ ایمان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قبل ولادت عالمِ ارواح میں موجود تھے، بعد از ولادت لباسِ بشری میں دنیائے فانی میں موجود رہے اور بعد از وصال لباسِ نورانی میں موجود ہیں جس طرح کہ فرشتے نوری مخلوق ہیں اور نوری مخلوق کو بوجہ جسمِ لطیف عام انسانوں کی آنکھ سے پوشیدہ رکھا گیا ہے یعنی وہ نوری مخلوق کو نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی زندگی کا شعور رکھتے ہیں۔اسی طرح نوری لباس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم موجود ہیں اور عام مخلوق سے پوشیدہ ہیں اور نوری مخلوق یعنی فرشتوں پر ایمان لانا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔
حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے روضۂ اطہر کی زیارت کے حوالے سے ارشاد فرمایا جو کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے:
* مَنْ زَارَ قَبْرِیْ وَجَبَتْ لَہُ شَفَاعَتِیْ ۔
ترجمہ: جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔ (بحوالہ دار قطنی)
اسی طرح اور بہت سی احادیثِ صحیح متواتر سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی مرقدِ انور کی زیارت کی بڑی ترغیب دلائی۔
صحابہ کرامؓ کے لئے زیارتِ رسولؐ جزوِ ایمان
حقیقت یہ ہے کہ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اوّل تا آخر محبوبِ ربّ العالمین سے والہانہ عقیدت و محبت رکھتے اور یہ کمالِ محبت کا ہی کرشمہ تھا کہ انہیں اپنی جان کی پرواہ تھی نہ ہی مال و اولاد کی۔ وہ ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و مولا کو عزیز ترجانتے ۔ ان کے اسی عشق و محبت کی طاقت نے انہیں ہر طوفان سے ٹکرانے اور ہر مشکل سے سرخرو ہونے کا ہنر سکھایا۔ انہوں نے جس والہانہ عشق و محبت کا مظاہرہ کیا انسانی تاریخ آج تک اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز و قاصر ہے اور تاقیامت اس بے مثال محبت کا مظاہرہ دیکھنا ناممکنات میں سے ہیں۔ انؓ کی محبت اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ عالم تھا کہ وہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت سے ہی اپنی بھوک اور پیاس کو بجھالیتے اور حالتِ نماز میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تکتے ۔
احادیث کی کتب میں متعدد واقعات مذکور ہیں جو انفرادی و اجتماعی طور پر صحابہ کرامؓ کو پیش آئے۔ یہ واقعات اس امر کے غماز ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عشاق صحابہ کرامؓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دیدا رسے زندگی کی حرارت پاتے، انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ایک لمحہ کی جدائی گوارا نہ تھی۔ ان مشتاقانِ زیارت و دید کے دل میں ہر لحظ و ہر لمحہ یہ تمنا دھڑکن بن کر دھڑکتی رہتی کہ ان کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کبھی بھی ان سے جدا نہ ہوں اور وہ صبح و شام آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت سے اپنے قلوب و ارواح کو سکون و راحت اور فرحت بہم پہنچاتے رہیں۔ ذیل میں اس والہانہ عقیدت و محبت کے چند مستند واقعات کا ذکر کیا جاتا ہے۔
* حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب اپنے مرضِ وصال میں تین یوم تک اپنے حجرہِ مبارک سے باہر تشریف نہ لائے تو وہ اصحابِ رسولؐ جو ہر روز زیارتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محظوظ ہوا کرتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ایک جھلک دیکھنے کو ترستے اور تڑپتے تھے۔ جانثارانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سراپا انتظار رہتے کہ کب حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دیدارِ پُر انوار نصیب ہو۔ بالآخر وہ مبارک اور باسعادت لمحہ ایک روز حالتِ نماز میں انہیں نصیب ہو گیا۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ:
ایامِ وصال میں جب نماز کی امامت کے فرائض سیّدنا صدیق اکبرؓ کے حوالے تھے بروز سوموار تمام صحابہ کرام صدیق اکبرؓ کی امامت و اقتدا میں حسبِ معمول نماز باجماعت ادا کررہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے قدرے افاقہ محسوس کیا اوراپنے حجرۂ مبارک سے مسجد نبوی میں جھانک کر دیکھا۔ گویا اپنے عشاق کو صدیقِ اکبرؓ کی امامت و اقتدا میں نماز پڑھتے دیکھ کر اطمینان کا اظہار فرما رہے تھے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے حجرہ مبارک کا پردہ اٹھایا اور کھڑے کھڑے ہمیں دیکھنا شروع فرمایا۔ ہم نے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا تو یوں لگا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرۂ انور کھلا قرآن ہو،پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسکرائے۔
حضرت انسؓ نے اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دیدار پُر انوار کی خوشی میں قریب تھا کہ ہم لوگ نماز چھوڑ بیٹھتے چنانچہ حضرت ابو بکرؓ اپنی ایڑیوں پر پیچھے پلٹے تاکہ صف میں شامل ہو جائیں اور انہوں نے یہ سمجھا کہ حضو ر علیہ الصلوٰۃ والسلام نماز کے لئے باہر تشریف لانے والے ہیں۔ (بحوالہ صحیح بخاری کتاب الاذان)
ان پُر کیف لمحات کے منظر کو ایک روایت میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ
’’جب پردہ ہٹا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرۂ انور سامنے آیا تو یہ اتنا حسین اور دلکش منظر تھا کہ ہم نے پہلے کبھی ایسا (پُرکیف) منظر نہیں دیکھا تھا۔ ‘‘
مسلم شریف جو احادیث مقدسہ کی معتبر کتاب ہے‘ میں اسطرح منقول ہے۔
’’ہم دورانِ نماز آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے باہر تشریف لانے کی خوشی میں حیرت زدہ ہوگئے (یعنی نماز کی طرف توجہ نہ رہی)۔‘‘
علامہ محمد اقبالؒ نے حالتِ نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عاشقِ صادق حضرت بلالؓ کے حوالے سے زیارتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منظر کی اسطرح سے منظر کشی کی ہے:
ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری
زیارتِ مصطفیؐ کے لئے معمولاتِ صحابہؓ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت صحابہؓ کرام کے لئے اتنی بڑی سعادت اور قوت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ اقدس کے دیدار کے بعد قلب و نظر میں اترنے والے کیف و سرور کے سامنے بھوک و پیاس کے شدتِ احساس کی کوئی اہمیت نہ تھی۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک روز حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایسے وقت کا شانۂ نبوت سے باہر تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پہلے کبھی اسوقت باہر تشریف نہ لاتے تھے اور نہ ہی (ان اوقات میں ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کوئی ملاقات کرتا۔ سیّدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ بھی (زیارتِ مصطفیؐ کی) بھوک سے مغلوب باہر تشریف لے آئے تھے ۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے محبوب رفیق یارِ غار سے پوچھا:
’’اے ابوبکر تم اس وقت کیسے آئے ہو؟‘‘
اس پیکرِ وفا نے بصد عجزو نیاز ازراہِ مروّت عرض کی:
’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ملاقات، چہرۂ انور کی زیارت اور سلام عرض کرنے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں۔‘‘
کچھ دیر بعد ہی سیّدنا عمر فاروقؓ بھی آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس حاضر ہوئے۔ نبی برحق صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان سے بھی آنے کا مقصد دریافت فرمایا:
’’اے عمرؓ! تمہیں کون سی ضرورت اسوقت یہاں لائی؟‘‘
اس شمعِ رسالتؐ کے پروانے،عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حسبِ معمول بلا تمہید عرض کی:
ترجمہ:’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (شدت) بھوک کی وجہ سے حاضر ہوا ہوں‘‘ شمائل ترمذی کے حاشیہ پر مذکورہ حدیث مبارکہ کے حوالہ سے یہ عبارت درج ہے:
ترجمہ: حضرت سیّدنا عمرؓ اس لئے تشریف لائے تھے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت سے اپنی بھوک مٹانا چاہتے تھے جس طرح مصر والے حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن کی زیارت سے اپنی بھوک مٹا لیا کرتے اور سیّدنا صدیق اکبرؓ کے آنے میں بھی یہی راز مضمر تھا مگر مزاج شناسِ نبوت نے اپنا آنے کا مقصد نہایت شائستہ اور لطیف انداز میں بیان فرمایا اور یہ بھی واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نورِ نبوت کی بدولت ان کا مدعا بھی ظاہر ہو چکا تھا کہ حضرت سیّدنا ابو بکرؓ کیوں طالبِ ملاقات ہیں اور سیّدنا ابو بکر صدیقؓ پر نورِ ولایت کے سبب یہ راز آشکار ہو چکا تھا کہ آج اس گھڑی (غیر متوقع اوقات) میں حضور پُر نور کا دیدار انہیں ضرور نصیب ہو گا۔
چنانچہ حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے دونوں عشاق اور جانثاروں کی تمنائے زیارت کی حالت سے باخبر ہونے پر اپنی دید کروا کر ان کی اس تمنا کو پورا کیا اور ذکرِ دیدار سے ان مشتاقانِ زیارت کی آرزو پوری فرمائی۔
یہ واقعہ مشتاقانِ طلبِ حق کے لئے مشعلِ راہ ہے کہ اپنے رہبرِ کامل مرشد اکمل سے ملاقات کی آرزو اور زیارت عین ایمان ہے اور مشتاقانِ حق کا اپنے مرشد کامل سے ملاقات کے لئے حاضر ہونا خوشنودیِ الٰہی کا باعث ہے اور ایمان کی تازگی اور فرحتِ قلب کا سبب ہے۔ جیسا کہ حضرت سخی سلطان باھوؒ نے اپنے ابیات میں فرمایا :
مرشد دا دیدار ہے باھوؒ ، مینوں لکھ کروڑاں حجاں ھُو
یہ واقعہ رہبر کامل اور طالب صادق کے مابین باہمی محبت میں اخلاص اور معراج کا نہایت لطیف پُر کشش اور منفرد انداز لئے ہوئے ہے۔
حضورؐ کی زیارت و دیدا رٹکٹکی باندھ کر کرنا
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ساری کائنات کے لئے روح کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حسن وجمالِ کُل حضور رحمتہ اللعالمین کے چہرۂ انور میں مضمر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت سے فیضیاب ہونے والا ہر شخص جمال وکمال مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں اس طرح محو ہو جاتا ہے کہ پلک جھپکنے کا یارا بھی نہیں رہتا اور نگاہیں جمی کی جمی رہ جاتی ہیں۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں:
* حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمتِ اقدس میں ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (کے چہرۂ انور) کو (اس قدر ٹکٹکی باندھ کر انہماک کے ساتھ) دیکھتا رہتا کہ وہ اپنی آنکھ تک نہ جھپکتا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے اس مشتاق و جانثار صحابیؓ کی یہ حالتِ بیتابی دیکھ کر فرمایا :
’’اسطرح دیکھنے کا سبب کیا ہے؟‘‘
اس عاشقِ رسول ؐ صحابیؓ نے یوں عرض کیا:
’’میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر قربان! آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت اور دیدار سے مسرور ہوتا ہوں۔‘‘ (بحوالہ الشفاء ۔ قاضی عیاض)
جانثاران دیدارِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر محویت کی ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حسن و جمال کے دیدار میں اسطرح کھو جاتے ہیں کہ دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ سلطان باھوؒ رہبرِ عارفاں نے اسی حقیقت کا اپنے بیت میں اشارہ کیا ہے:
اتنا ڈٹھیاں مینوں صبر نہ آوے، میں ہور کتے وَل بھجاں ھُوؒ
دورِ حاضر میں زیارتِ مصطفیؐ
درحقیقت دیدارِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کائنات کا بنیادی نقطہ ہے۔ اور ہر مومن کی دلی آرزو، خواہ وہ کسی بھی زمانے سے تعلق رکھتا ہو۔ دیدارِ رسولؐ کی تڑپ نہ رکھنے والا نام کا مسلمان تو ہو سکتا ہے، حقیقی مسلمان نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ظاہری حیات کے بعد آپ کے دیدار حقیقی کو پانے کے لیے آپ کی ابدی حیات کی حقیقت یعنی حقیقتِ محمدیہ کو سمجھنا لازمی ہے۔ اگر حقیقتِ محمدیہ کی فہم حاصل نہ ہو تو نہ ہی مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقت سمجھ آ سکتی ہے اور نہ ہی زیارت و دیدارِ محمدی کی حقیقت باقی رہے گی۔
ہر شے کا خالق اللہ تعالیٰ ہے ہر مسلمان کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ اللہ جل شانہٗ نہ ہوتا تو کچھ بھی نہ ہوتا لیکن اللہ ربّ العزت خود فرماتا ہے:
لَوْلاَکَ لِمَا اَظْھَرْتُ الرَّبُوْبِیَّۃَ ۔
ترجمہ: اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! اگر آپ نہ ہوتے تو میں اپنا ربّ ہونا ظاہر نہ کرتا۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَوْلَاکَ لِمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ۔
ترجمہ: اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! اگر آپ نہ ہوتے تو میں کچھ بھی تخلیق نہ کرتا۔
اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ’’رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم‘‘ کے طور پر دیکھا جائے تو کلمہ طیبہ’’ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ‘‘ کے ترجمہ (’’ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اس کے رسول ہیں‘‘) کو غور سے پڑھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ جو دور بھی گزر رہا ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کے رسول ہیں۔ جو زمانہ گزر گیا اس کے بھی (زمانہ ماضی)، جو گزر رہا ہے اس کے بھی (زمانہ حال) اور جو گزرے گا اس کے بھی (زمانہ مستقبل) رسول ہیں۔ رسول وہ ہوتا ہے جو موجود ہو، اگر حیاتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے انکار کریں گے تو عقیدۂ ختمِ نبوت کے بھی منکر ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوت قیامت تک جاری و ساری رہے گی اسی طرح جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیاتِ ظاہری میں تھی۔ کوئی شخص نہیں کہہ سکتاکہ ’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے رسول تھے‘‘ بلکہ یہی کہے گا’’ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہ صر ف حیات ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس بھی اسی طرح موجود ہے جس طرح ظاہری حیات میں صحابہ کرامؓ کے ساتھ موجود تھی۔ عاشقین و عارفین آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتے اور آپ کے قرب و دیدار سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ دیدارِ حق تعالیٰ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضری کے بعدہی حاصل ہوتا ہے۔ حیاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بارے میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
* جو شخص حیاتِ النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا منکر ہے وہ کس طرح حضور پُرانوار صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اُمتی ہو سکتا ہے وہ جو بھی ہے جھوٹا ہے بے دین و منافق ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے ’’جھوٹا آدمی میرا اُمتی نہیں ہے۔‘‘(کلید التوحید کلاں)
* جسے حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اعتبار نہیں وہ ہر دو جہان میں ذلیل و خوار ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو وہ شخص مردہ سمجھتا ہے جس کا دل مردہ ہو اور اس کا سرماےۂ ایمان و یقین شیطان نے لوٹ لیا ہو۔ (کلید التوحید کلاں)
* اگر کوئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیات کا انکار کرتا ہے تو اس کا ایمان سلب ہو جاتا ہے۔( عین الفقر)
علامہ اقبال ؒ حیات و زیارت نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بارے میں فرماتے ہیں ’’میرا عقیدہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم زندہ و جاوید ہیں اور اس زمانہ کے لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت سے اسی طرح مستفیض ہو سکتے ہیں جس طرح صحابہ کرامؓ ہوا کرتے تھے۔ لیکن اس زمانے میں ا س قسم کے عقائد کا اظہار بھی اکثر دماغوں پر ناگوار ہوگا اسی لئے خاموش رہتا ہوں۔ (خط بنام نیاز الدین خاں۔ فتراک رسول۔7 )
میرے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
باطن میں دیدارِ الٰہی اور حضوری مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دو ایسے انتہائی مقام ہیں کہ ان سے بلند مقام باطن میں کوئی نہیں ہے۔ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آج بھی اسی طرح موجود ہے جس طرح دورِ صحابہؓ میں موجود تھی۔ راہِ حق میں یہ ایک ایسا اعلیٰ و ارفع مقام ہے جس میں طالبِ مولیٰ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضوری (دیدار) سے مشرف ہوجاتا ہے اور رہبرِ کامل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کی تربیت فرماتے ہیں اور باطن میں اسے معرفتِ الٰہی کے مرتب طے کراتے ہیں۔ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمد کے تصور سے حاصل ہوتی ہے اس کی شرح اس طرح ہے کہ صحابہ کرامؓ کے لئے اسمِ اللہ ذات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرۂ مبارک تھا ۔اور اسمِ محمد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات مبارک تھی اب حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ تک رسائی کا طریقہ صرف ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات اور تصور اسمِ محمد ہے مگر شرط یہ ہے کہ یہ وہاں سے حاصل ہو جہاں پر اسے عطا کرنے کی باطنی طور پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اجازت ہو اور یہ حقیقت طالبِ مولیٰ کو اسمِ اللہ ذات کے تصور سے پہلے روز ہی معلوم ہوجاتی ہے کہ اس نے جہاں سے اسم اللہ ذات اور اسم محمد حاصل کیا وہ مرشدِ کامل کی بارگاہ ہے۔ (شمس الفقرا)
حضرت سخی سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
* رُخِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت سے تمام مرادیں پوری ہوجاتی ہیں اور حضور ی غرقِ فنا فی اللہ بھی نصیب ہوجاتی ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
دعا ہے کہ اللہ ربّ العزت سلطان العاشقین کی نگاہِ کامل کے طفیل تمام طالبان و مشتاقان دیدارِ محمدیؐ کو زیارتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مشرف فرمائے اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے سرفراز فرمائے۔ آمین
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :