مقصدِ حیات حصولِ معرفتِ الٰہی
تحریر: محسن سعید۔ حافظ آباد
سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ ارشادِ فرماتا ہے:
* ترجمہ : وہی ہے جس نے تمہاری بقا اور تمہارے فائدے کے لئے زمین میں ہر طرح کی چیزیں تخلیق فرمائیں۔ (البقرہ۔29)
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
* ترجمہ: وہ ہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے فائدے کے لیے پانی اُتارا جو تمہارے پینے کے قابل ہے اور اسی سے نباتات اُگتے ہیں اور اسی میں تم (جانور) چراتے ہو اسی پانی سے تمہارے لیے کھیت، زیتون، کھجور، انگور اور ہر قسم کے میوے اُگاتا ہے ۔ بے شک اس میں غور کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں اور اسی نے دن، رات، سورج اور چاند کو تمہارے تابع کر دیا اور ستارے بھی اسی کے حکم سے تمہارے کام میں لگے ہوئے ہیں بے شک اس میں عقل رکھنے والوں کے لیے نشا نیاں ہیں اور اسی نے زمین پر رنگ برنگ ہر قسم کی مخلوقات تمہارے فائدے کے لیے پیدا فرمائی ہیں۔ بیشک اس میں نصیحت قبول کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں اور وہی ہے جس نے سمندر کو تمہارے لیے مسخر کر دیا تاکہ تم اس میں سے تروتازہ گوشت کھاؤ اور قیمتی زیورات اس میں سے نکال کر پہن سکو۔ اور تو دیکھ سکتا ہے کہ کس طرح ایک کشتی سمندر کی موجوں کو چیرتی ہوئی چلی جاتی ہے تاکہ تم خدا کے فضل سے روزی حاصل کر سکو اور اس کے شکر گزار بندے بنو۔ اور اس (اللہ) نے زمین پر پہاڑ رکھ دئیے تاکہ اپنی حرکت(زلزلوں) سے زمین تمہیں لے کر کانپنے نہ لگ جائے اور تمہارے ہی فائدے کے لیے اس (اللہ) نے نہریں اور راستے بنائے تاکہ تم راہ پا سکو۔ (سورۃ النحل۔ 10-15 )
اللہ تعالیٰ مزید ارشاد فرماتا ہے :
* ترجمہ: کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کی ہر شے کو تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور روحانی ہر قسم کی نعمتوں کو مکمل کر دیا ہے۔ (لقمان۔20)
ان آیات پر غورو فکر کرنے کے بعد انسان کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ نے دنیا کی ہر چیز انسان کی خدمت اور سہولت کے لیے پیدا کی ہے۔ یہ تمام چیزیں دن رات انسان کو فائدہ پہنچانے میں ہی لگی ہوئی ہیں کیونکہ یہ تمام چیزیں سورج، چاند، ستارے، ہوائیں، بارشیں، زمین، سمندر، چرند پرند، پہاڑ، درخت، نباتات غرض کائنات کی ہر چیز جو بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی وہ سب انسان کے لیے ہی پیدا فرمائی ہے۔ ان تمام چیزوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ جب تک اللہ چاہے وہ انسان کو آرام و راحت پہنچائیں لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ انسان اسباب کے ساتھ اتنا مگن کیوں ہے؟ کہیں وہ اپنی ذمہ داری اور مقصدِ حیات سے غافل تو نہیں ہو گیا؟ ہمیں اس بات پر بھی غور و فکر کرنا چاہیے کہ جس اللہ نے ہمیں ان اسباب کی بادشاہی دی ہے وہ اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ اتنی شاندار چیزیں پیدا فرمانے کے بعد انہیں ہمارے لیے مسخر کر دیا گیا تو اس کے بدلے میں ہمیں اپنے ربّ کو کس طرح راضی کرنا چاہیے اور ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟
قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
ترجمہ: اور نصیحت کرتے رہو کہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دیتی ہے (اور یہ کہ) میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔میں ان سے کسی روزی کا طلب گار نہیں اور نہ ہی میں چاہتا ہوں کہ مجھے کھلائیں۔ (الذٰریات۔ 55-57)
پہلی آیت میں نصیحت کا ذکر فرماتے ہوئے اللہ فرما رہا ہے کہ ایک دوسرے کو نیکی کی اور اللہ کی طرف نصیحت کرتے رہو۔ یہ نصیحت ایک یاد دہانی ہے جس سے ایک انسان اللہ پر اپنا ایمان مضبوط رکھتا ہے اور اللہ سے اپنے رشتے اور تعلق کو کبھی کمزور نہیں ہونے دیتا۔
دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ واضح فرما رہا ہے کہ میں نے تمام جنوں اور انسانوں کو صرف اور صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور عبادت سے مراد اللہ تعالیٰ کی حقیقی معرفت ہے۔ اسی آیت کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے لفظ لِےَعْبُدُوْنِ (عبادت کے لیے) کی شرح کے لیے اَئْ لِےَعْرِفُوْنِ (یعنی معرفت کے لیے) کا اضافہ کیا ہے۔ مندرجہ ذیل حدیثِ قدسی میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت اور پہچان کا ہی حکم دیا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:ترجمہ:میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں اس لیے میں نے مخلوق کو پیدا کیا تا کہ میری پہچان ہو۔
اللہ تعالیٰ نے مندرجہ بالا آیتِ مبارکہ اور حدیثِ قدسی دونوں سے انسان کے مقصدِ حیات کو واضح کر دیا ہے کہ انسان کی تمام تر عبادات کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی معرفت اور پہچان ہے اور یہی معرفت کی خواہش ہی مخلوق کی پیدائش کا سبب بنی۔ اسی معرفت اور پہچان کی خاطر اللہ تعالیٰ نے تمام اسباب جو کہ مندرجہ بالا آیات میں بیان ہوئے ہیں‘ انسان کے لیے پیدا کیے جنہیں عام زبان میں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں کہا جاتا ہے۔ یہ تمام نعمتیں اللہ کی پہچان اور معرفت کا سبب بھی ہیں اور ان کے اندر غور و فکر کرنے سے انسان اور اللہ کا رشتہ مزید مضبوط ہوتا ہے۔ تاہم ان اسباب سے انسان فائدے تو حاصل کر رہا ہے لیکن اپنے مقصدِ حیات سے ابھی تک غافل اور اس کی تکمیل کی کوشش میں ناکام ہے۔
تیسری آیت میں اللہ فرماتا ہے کہ اے انسان ان تمام اسباب کے بدلے میں تم سے یہ فرمائش نہیں کرتا کہ تو مجھے ان سے کھلائے پلائے کیونکہ میری (اللہ کی) ذات تو ان چیزوں سے بے نیاز اور مبرا ہے۔
اگر ہم نے اس دنیا میں اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کواستعمال کرنا ہے تو ہم نے اس کا اللہ کے حضور روزِ قیامت حساب بھی دینا ہے۔ اللہ تو اپنے ربّ ہونے کے تمام وعدے پورے کر رہا ہے وہ تو ہمیں ہر لمحہ اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے اور اللہ اپنے وعدے میں بہت سچا ہے وہ قرآن میں فرماتا ہے:
ترجمہ: لوگو! اللہ کا وعدہ سچا ہے تو تم کو دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ فریب دینے والا (شیطان) تمہیں فریب دے۔ (سورۃ فاطر۔5)
انسان کو اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے کہ وہ ان اسباب سے کہیں اتنامانوس تو نہیں ہو گیا کہ مسبب کو ہی بھول گیا اور اللہ کی عطا کی ہوئی طاقت اوربادشاہی میں اپنے مالک اللہ کا شریک تو نہیں بن گیا۔
قرآن میں فرمانِ الٰہی ہے کہ
* ترجمہ: یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشہ ہے اور (ہمیشہ کی) زندگی (کا مقام) تو آخرت کا گھر ہے کاش یہ لوگ سمجھتے۔ (العنکبوت۔ 64)
اللہ تبارک و تعالیٰ مزید ارشاد فرماتا ہے :
* ترجمہ: کیاتم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بے فائدہ پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے۔(سورۃ المومنون۔115 )
جہاں اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کا ذکر کرتے ہوئے انسان کو بتایا ہے کہ میں (اللہ) نے دنیا کی ہر چیز تیرے لیے پیدا فرمائی ہے تو تجھے بھی بے مقصد اور بے فائدہ پیدا نہیں کیا ہے وہاں ساتھ یہ تنبیہ بھی فرمائی کہ تم نے واپس میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ زندگی بھر اللہ کے عطا کردہ اسباب میں ہی مشغول نہ رہے بلکہ اپنے مقصد حیات کو بھی پورا کرے تاکہ جب لوٹایا جائے تو وہ کامیابی کے ساتھ لوٹے نہ کہ ناکامی کے ساتھ اللہ کے حضور شرمندہ ہو۔
انسان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ اس دنیا میں نہ تواپنی مرضی سے آیا ہے اور نہ ہی اپنی مرضی سے واپس لوٹے گا۔ جب ہم اپنی زندگی کو نہ تو اپنی مرضی کا آغاز دے سکتے ہیں اور نہ انجام تو اپنی مرضی کا مقصدِ حیات بھی تو نہیں دے سکتے۔ اے انسان! ذرا سوچ کہ تیرا خالق جس نے تجھے پیدا فرمایا ہے اور وہی تیرا مالک بھی ہے وہ جب تک چاہے تجھے زندہ رکھے اور جب چاہے تجھے موت دے کر واپس بلا لے۔ تجھے دی گئی مہلت یکدم ختم ہو جائے۔ پھر اس کے روبرو تو اپنے مقصدِ حیات سے غفلت کا کیا عذر پیش کرے گا؟ اس لیے اے انسان جیسے تیرا مالکِ حقیقی چاہتا ہے تو ویسا بن ۔
اللہ تعالیٰ کتنی محبت کے ساتھ انسان کو آگاہ فرما رہا ہے کہ اس دنیا کی زندگی میں تو کتنی بھی کامیابیاں حاصل کرلے لیکن تو ہمیشہ کے لیے ادھر رہنے نہیں آیا۔ میرے بندے تو سمجھ جا کہ آخرت کی زندگی ہی تیرا اصل ٹھکانہ ہے جس کے لیے تو محنت نہیں کر رہا۔ اگر ہم عبادت کر بھی رہے ہیں تو اللہ کے قرب اور وصال کے لیے نہیں بلکہ درجات و مراتب کے لیے، جنت کی نعمتوں اور حور و قصور کے لیے سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ اپنی کتاب سِرّ الاسرار میں فرماتے ہیں کہ درجات کے تین طبقات ہیں۔
1 ۔ پہلا طبق (اہل) عالمِ ملک (عالمِ ناسوت) کی وہ جنت ہے جسے جنت الماویٰ کہتے ہیں (اہلِ ناسوت کی جنت سے مراد وہ جنت ہے جوان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے شریعت کے احکام پر اچھے طریقے سے رضائے الٰہی کے لیے عمل کیا لیکن قربِ الٰہی کی خواہش نہ کی اس لیے عالمِ ناسوت میں ہی قید رہے اور قرب کے اگلے مقامات ملکوت، جبروت اور لاھوت تک رسائی حاصل نہ کی)۔
2 ۔ دوسرا طبق (اہلِ ) عالمِ ملکوت کی وہ جنت ہے جسے جنت النعیم کہتے ہیں۔ (اہلِ عالمِ ملکوت وہ ہیں جنہوں نے زائد عبادات اور ورد و وظائف کے ذریعے ناسوت کی قید سے نجات حاصل کر لی اور ساتھ ساتھ تصو ف کے اصولوں کو اپناتے ہوئے خواہشاتِ نفس سے کسی حد تک چھٹکارا حاصل کرلیا۔)
3۔تیسرا طبق (اہلِ ) عالمِ جبروت کی وہ جنت ہے جسے جنت الفردوس کہتے ہیں۔(اہلِ عالمِ جبروت وہ ہیں جنہوں نے طریقت کے احکام پر عمل کر کے تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کے لیے جدوجہد کی اور فرشتوں جیسی نورانیت حاصل کر کے عالمِ جبروت تک رسائی حاصل کر لی۔ البتہ قرب کی انتہا یعنی دیدارو لقائے الٰہی تک رسائی حاصل نہ کر سکے جو روحانی انسان کے لیے مخصوص ہے۔)
یہ نعمتیں جسمانی ہیں (یعنی ان لوگوں کے لیے جو روح کی بجائے جسمانی اعمال میں مصروف رہے اس لیے ان کی روحانیت ان کی جسمانیت پر غالب نہ آسکی)اور جسم اپنے عالم یعنی ان جنتوں کی طرف تین علوم علمِ شریعت، علمِ طریقت، اور معرفت کے بغیر نہیں پہنچ سکتا۔ (سرّ الاسرار)
لیکن اے انسان یہ طبقات بھی ایک دھوکہ ہیں۔ ان کا حصول تیری زندگی کا مقصد نہیں ہے۔ تو ان ساری چیزوں اور ان طبقات کے لیے نہیں پیدا کیا گیا ہے بلکہ یہ ساری چیزیں تیرے لیے پیدا کی گئی ہیں ان سے دھوکہ نہ کھانا اور یاد رکھنا کہ تو خالص اللہ تعالیٰ کی معرفت اوراس سے عشق کے لیے پیدا کیا گیا۔ یہ دنیا تیرا مقام نہیں ہے بلکہ تیرا مقام تو تیرا ازلی وطن عالمِ لاھوت، جنتِ قرب اور وصالِ الٰہی ہے جس میں کسی قسم کی مخلوق کا داخلہ ہی نہیں ہے جہاں پر دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا حسین قرب اور وصال ہے۔اس کی نشان دہی میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان الفاط میں فرماتے ہیں:
اَنَّ لِلّٰہِ جَنَّۃَ لَا فِیْھَا حُوْرٌ وَّلَا قُصُوْرٌ وَلَا عَسَلٌ وَلَا لَبَنٌ بَلَ اَنْ یَنْظُرَ اِلٰی وَجْہِ اللّٰہِ تَعَالٰی۔ (حدیث) (سِرّالاسرار)
ترجمہ: اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک جنت ایسی بھی ہے جس میں نہ حوریں ہیں نہ محلات نہ شہد و دودھ (کی نہریں) بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کے چہرے کا دیدار ہے۔
دیدار اور معرفت کے بارے میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
مَا نَظَرْتُ فِیْ شَیْیٍٔ اِلَّا وَ رَاَیْتُ اللّٰہُ فَھُوَ فِیْہِ عِیْنٌ ۔
ترجمہ: میں نے جس چیز کو دیکھا اس میں اللہ کو ہی دیکھا کیونکہ ہر چیز کی عین اللہ ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت اور پہچان کے لیے قرآن میں فرمایا:
وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ ۔ (سورۃ ق۔16 )
ترجمہ: اور ہم تو تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔
دوسری جگہ فرمایا:
وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ۔ (الذٰریت۔21 )
ترجمہ: اور میں تمہارے اندر موجود ہوں کیا تم دیکھتے نہیں۔
اللہ تعالیٰ تو ہر وقت تمہارے ساتھ ہے مگر تم ہی اللہ کی معرفت حاصل نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ ۔ (الحدید۔4 )
ترجمہ: تم جہاں بھی ہوتے ہو وہ (اللہ) تمہارے ساتھ ہوتا ہے۔
جو انسان معرفت کے بغیر زندگی جی رہا ہے اسے اللہ تعالیٰ یوں مخاطب فرماتا ہے:
وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمیٰ۔(بنی اسرائیل۔72 )
ترجمہ: جو شخص اس دنیا میں اندھا (دیدارِ الٰہی سے محروم) رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا۔
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان اور تنبیہ کے باوجود بھی لوگ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور پہچان کے راستے پر نہیں آتے تو وہ سراسر خود پر ظلم کر رہے ہیں۔ اس سے اللہ کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ تو بے نیاز ہے۔
معرفتِ الٰہی کے حصول کا طریقہ کار
سوال یہ ہے کہ اگر کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنا چاہے تو وہ کیا کرے؟ یقیناًاسے قرآن سے ہی رہنمائی لینی چاہیے کہ وہ اللہ کو کیسے پہچان سکتا ہے اور اس کی معرفت کیسے حاصل ہو سکتی ہے تو اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ (آلِ عمران۔31 )
ترجمہ: آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) فرما دیں اگر تم اللہ کی محبت چاہتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔
یعنی آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کامل اتباع ہی اللہ پاک کی اتباع ہے اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عشق اور محبت کرتے ہیں دراصل وہ اللہ سے عشق اور محبت ہے۔ پس جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقی معرفت حاصل کرتے ہیں وہی اللہ کی معرفت ہے، جو آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پہچان ہے وہی اللہ تعالیٰ کی پہچان ہے اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھا اور آپکی معرفت حاصل کی اس نے حق دیکھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ
اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَا یَتَمَثَّلْ بِی مَنْ رَاَنِیْ فَقَدْ رَا َالْحَقِ ۔ (حدیث)
ترجمہ: بے شک شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا ، جس نے مجھے دیکھا بے شک اس نے حق دیکھا۔ (بحوالہ کتاب عین الفقر)
اور اگر کوئی شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات مبارکہ کے بغیر اللہ تعالیٰ کی بلاواسطہ معرفت اور دیدار کی بات کرے تو حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
لَوْ کَشَفَتُ سُبْحَاتِ وَجْہِ جَلَالَیْ لَاِحْتَرَقَتْ کُلُّ مَا اِنْتَھْی اِلَیْہِ بَصْرِیْ ۔
ترجمہ: اگر میں اپنے چہرے کے جلال کے انوار سے پردہ ہٹا دوں تو تاحدِ نگاہ ہر چیز جل کر راکھ ہو جائے۔ (حدیثِ قدسی۔ بحوالہ کتاب سرّالاسرار)
اگر یہاں پر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنا دیدار کرائے تو ہر شے جل جائے گی تو پھر دیدار کیسے ہوگا؟ یہاں اس نکتہ پر غور کرنا ہے کہ اللہ فرماتا ہے:
قَدْ جَآئَکُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ۔ (المائدہ۔15)
ترجمہ: پس اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے تمہارے پاس ایک نور اور ایک کتابِ مبین آئی۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشادِ مبارک ہے :
وَ اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ ۔ (بحوالہ کتاب سرّالاسرار)
ترجمہ: اور سب سے پہلے اللہ تبارک و تعالیٰ نے میرے نور کو پیدا فرمایا ۔
حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
خَلَقْتُ رُوْحِ مُحَمَّدٍ مِنْ نُّوْرِ وَجْھِیْ ۔ (سِرّ الاسرار)
ترجمہ: روحِ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو میں نے اپنے چہرے کے نور سے پیدا فرمایا۔
یعنی آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقت نورِ وجہہ اللہ ہے۔ حقیقت محمدیہ کی معرفت ہی دراصل معرفتِ الٰہیہ ہے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچا وہی اللہ تک پہنچا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی دریائے وحدت کے ساقی ہیں۔ جس نے بھی جامِ وحدت پیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دستِ مبارک سے ہی پیا۔
اس کی مثال معراج کا واقعہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہمراہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے۔ سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر جا کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آگے عالمِ لاھوت میں داخل ہونے سے انکار کر دیا اور عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اس کے آگے ایک بال برابر بھی گیا تو میرے پر جل جائیں گے۔ کیونکہ عالمِ لاھوت میں مخلوق کا داخلہ منع ہے وہاں غیر مخلوق ذات اپنے جلال اور جمال کے ساتھ ہمیشہ سے موجود ہے۔ وہاں سے آگے کا سفر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود اکیلے طے فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ایک قدمِ مبارک 70 ہزار سال کی مسافت طے کرتا تو اللہ کی طرف سے آواز آتی کہ میرے محبوب اور نزدیک آ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دوسرا قدم مبارک آگے رکھتے تو 70 ہزار سال کی مسافت طے کرتے پھر آواز آتی میرے محبوب اور نزدیک آ۔ روایات کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک ہزار (1000 ) قدم مبارک بڑھائے اس کے آگے اللہ جانے اور اس کا محبوب۔ روایت میں آتا ہے کہ اللہ اور اس کے محبوب کے درمیان دوکمانوں سے بھی کم فاصلہ تھا جب یار سے یار نے ملاقات کی اور کامل معرفتِ الٰہیہ کو اپنے اندر جذب کیا۔ قرب کی اس انتہا پر دوئی کا احساس بھی مٹ گیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جمالِ حق کا آئینہ بن گئے اسی لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا مَنْ رَانِی فَقَدْ رَاَ الْحَقْ ترجمہ: جس نے مجھے دیکھا بے شک اس نے حق دیکھا۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا عشق ہی عشقِ حقیقی ہے۔ آ پ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اتباع اللہ تعالیٰ کی اتباع ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی معرفت اللہ تعالیٰ کی حقیقی معرفت ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیعت دراصل اللہ تعالیٰ کی بیعت ہے جیسا کہ قرآن میں اللہ فرماتا ہے:
ترجمہ: اے نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) جو لوگ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں وہ دراصل اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔(سورۃ الفتح۔10 )
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ کہہ کر ایک مہر ثبت کردی۔ اسی طرح جن لوگوں نے آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی انہوں نے آپؐ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی۔ یہ سلسلہ آگے کیسے چلا اس کے متعلق روایات میں ہے کہ سب سے پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے راہِ معرفت (راہِ فقر) کے حصول کے لیے تلقین کی خواہش کا اظہار کیا۔ آپ رضی اللہ عنہٗ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ہمیں وہ راستہ بتائیے جو خدا تعالیٰ سے بہت قریب اور نہایت افضل اور سہل الوصول ہو۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’اے علیؓ خلوت اور تنہائی میں اللہ کے ذکر کی مداومت کیا کر۔‘‘
حضرت علیؓ نے عرض کی ہم کس طرح ذکر کریں؟ فرمایا ’’اپنی دونوں آنکھیں بند کر اور مجھ سے تین مرتبہ سن اور پھر تو بھی تین مرتبہ سنا‘‘۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی آنکھیں بند کر کے بلند آواز سے تین مرتبہ کلمہ طیبہلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھا اور حضرت علیؓ نے سنا۔ اسی طرح حضرت علیؓ نے آنکھیں بند کر کے تین مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سنا اس روز سے یہ ذکر صوفیا میں جاری ہوگیا۔(ریحان القلوب۔ شریف التواریخ)
یعنی سب سے پہلے کلمہ طیبہ کی باطنی و حقیقی تلقین آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہٗ کو فرمائی اور توحید کی تعلیم دے کر مرتبہ وحدت پر پہنچایا۔
سیر الاقطاب، شریف التواریخ اور آئینہ تواریخ تصوف میں منقول ہے کہ ایک روز حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محفل اقدس میں چاروں اصحاب کبار رضی اللہ عنہم بیٹھے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ سے فرمایاکہ ہم کو شبِ معراج میں جو خرقہ فقر جنابِ ربانی سے عطا ہو اتھا وہ اگر تم کو پہنایا جائے تو اس کا حق کس طرح ادا کرو گے ؟ انہوں نے عرض کیا یا حضرت! میں صدق اختیار کروں گا ۔ پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ سے بھی یہی پوچھا انہوں نے عرض کیا کہ میں عدل اختیار کروں گا۔پھر یہی سوال حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ سے پوچھا انہوں نے عرض کی کہ میں حیا اور تحمل کروں گا۔ پھر جناب حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہٗ سے یہی سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہٗ نے عرض کی کہ اگر خرقہ فقر مجھے عطا ہو تو میں اس کے شکریہ میں پردہ پوشی اختیار کروں گا لوگوں کے عیب ڈھانپوں گا اور ان کی تقاصیر سے درگزر کروں گا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خوش ہو کر فرمایا ’’اے علی (رضی اللہ عنہٗ) جس طرح رضائے مولا اور رضائے محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) تھی اسی طرح سے تونے جواب دیا ہے۔پس یہ خرقہ تیرا ہی حق ہے۔ اسی وقت آپکو خرقہ پہنایا اور بشارت دی کہ تم شہنشاہِ ولایت ہو اور میری تمام اُمت کے پیشوا ہو۔‘‘
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت شریفاِنَمَا اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِکُلِّ قَوْمِِ ھَاد (الرعد۔7 )ترجمہ: ’’اے محمد( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) آپ ڈرانے والے اور ہر قوم کے لیے راہِ راست دکھانے والے ہیں‘،‘ نازل ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے سینہ مبارک پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ ’’میں ڈرانے والا ہوں‘‘ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی جانب اشارہ کر کے فرمایا کہ ’’آپ (رضی اللہ عنہٗ) راہ بتانے والے ہیں اور تجھ سے ہدایت پانے والے ہدایت پائیں گے۔‘‘
آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حدیثِ مبارکہ ہے:
ترجمہ: میں ؐ علم کا شہر اور علیؓ اس کا دروازہ ہے۔ (حدیث)
اس طرح اگلے دور میں آنے والی اُمتِ محمدیہ کے لیے حقیقتِ محمدیہ اور معرفتِ محمدیہ کا دروازہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی صورت میں کھلا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہٗ سے یہ سلسلہ حضرت امام حسن بصریؓ اور پھر آگے چلتا ہوا سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ اور پھر سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اور سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ سے ہوتا ہوا میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس تک پہنچا۔
میرے مرشد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس سے طالبانِ مولیٰ ذکر و تصوراسمِ اللہ ذات حاصل کر کے معرفتِ الٰہیہ حاصل کر رہے ہیں۔ عوام الناس کے لیے عام دعوت ہے کہ آئیں اور حضور مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت ہو کے معرفتِ الٰہیہ سے سرفراز ہوں (جس نے جانا اس نے پہچانا)۔
حضور مرشد کریم سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس انسان کو مقصدِ حیات کی آگاہی کے ساتھ ساتھ اس کی منزل تک کامیابی کے لیے ذکر و تصوراسمِ اللہ ذات اور سلطان الاذکار ھُو عطا فرما رہے ہیں اور اپنی نگاہِ کامل کے ساتھ طالبانِ مولیٰ کا تزکےۂ نفس کر کے انہیں معرفتِ الٰہی کے قابل بنا رہے ہیں تاکہ وہ اپنے مقصدِ حیات میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی زندگی میں برکت عطا فرمائے اور ان کا سایہ رحمت ہمیشہ طالبانِ مولیٰ کی زندگیوں پر قائم رکھے۔ (آمین)