نفس کی حقیقت و علاج
سلطان العارفین ؒ کی تعلیمات کی روشنی میں
تحریر: انیلا یٰسین سروری قادری۔ لاہور
حدیثِ قدسی ہے :
کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْق ترجمہ:میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں اس لیے میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی پہچان اور معرفت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ پھر ایسی کیا وجہ ہے کہ انسان اپنی پیدائش کے مقصد کو یکسر بھول گیا ہے ؟ اللہ کی پہچان اور معرفت کا راستہ کوئی دشوار گزار پہاڑ پر چڑھنے کا راستہ نہیں ہے اور نہ ہی اللہ اور بندے کے درمیان کو ئی ایسا پردہ حائل ہے کہ جس کے باعث بندہ ربّ کا دیدار حاصل نہیں کر سکتااور نہ ہی اسے دیدار کے لیے کوئی میلوں مسافت طے کرنی پڑتی ہے۔اللہ اور بندے کے درمیان تو پیاز کی جِھلی سے بھی زیادہ باریک ایک حجاب حائل ہے جو انسان کو دیدارِ الٰہی سے بے بہرہ کیے ہوئے ہے اور اگر انسان عمر بھرکوشش نہ کرے تو وہ دیدارِ الٰہی کی ایسی عظیم ترین نعمت سے آخرت میں بھی محروم ہی رہے گا اور پھر انسان کے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں بچے گا، وہ حجاب ہے انسان کا ’’نفس‘‘۔
مفہوم
کشف المحجوب میں نفس کے معنی و مفہوم ان الفاظ میں بیان کئے گئے ہیں ’’لغوی اعتبار سے نفس سے مراد کسی چیز کا وجود،یا اُس کی حقیقت یا اُس کی ذات ہوتی ہے ‘البتہ عام محاورے اور عبارات میں یہ عام معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے جو ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جبکہ بعض حضرات کے نزدیک نفس سے مراد روح، مروّت اور قوت ہے۔ لیکن محققین صوفیا ان میں سے کسی ایک
معنی کومراد نہیں لیتے۔ یہ لوگ نفس کو شر کا منبع اور برائی کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ بعض حضرات کے نزدیک نفس ایسا وجودہے جو روح کی طرف ودیعت کیا گیا ہو جیسا کہ انسان کے زندہ ہونے کی طرح یہ بھی ایک زندہ صفت ہے۔‘‘
حضرت شاہ سیّد محمد ذوقی ؒ فرماتے ہیں:
* کسی چیز کی ذات کو اس کا نفس کہتے ہیں، نفس کی حقیقت اس کی روح ہے اور روح کی حقیقت حق تعالیٰ ہے۔(سرِّ دلبراں)
جب شیطان حسد و نفسانیت میں مبتلا بارگاہِ حق سے دھتکارا گیا تو اس وقت یہ نفس ہی تھا جوخودپسندی اور انا پرستی کی صورت میں اس مردود کے قلب میں موجزن تھا، جواسے اپنے اعلیٰ مقام سے انتہائی ادنیٰ اور حقیر مقام پر لے آیا ۔ اس لیے شیطان نفس کو ہی ہتھیار بنا کر اولادِ آدم کو گمراہ کرتا ہے۔
نفس کی حقیقت مشائخ عظام کے فرمودات کی روشنی میں
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* نفس انسانی وجود میں ایسا چور ہے جو انسان کو خدا کی طرف مائل نہیں ہونے دیتا۔(شمس الفقرا)
* نفس اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان حجاب ہے اگر یہ حجاب ہٹ جائے تو اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہتا۔ (سلطان العاشقین)
* انسانی نفس خواہشات کی آماجگاہ ہے۔ ہر طرح کی بُری خواہشات اور باغیانہ خیالات اسی میں پیدا ہوتے ہیں۔یہی انسان کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی نافرمانی کے متعلق ابھارتا ہے اور یہی شہوت کے وقت حیوانوں جیسی حرکتیں کرتا ہے۔غصہ میں درندوں کی طرح اظہارِ وحشت کرتا ہے۔جب بھوکا ہوتا ہے تو حلا ل و حرام کی تمیز کھو بیٹھتا ہے اور جب سیر ہوتا ہے تو باغی ،سرکش اور متکبر ہو جاتا ہے۔ غرض یہ کہ انسان کا نفس کسی حال میں خوش نہیں رہتا انسان کو ہر وقت نت نئے فتنوں میں مبتلا کرنے کے در پے رہتا ہے۔ جو اس کو قابو میں لاتا ہے وہی وصالِ الٰہی کی منزل تک پہنچ جاتا ہے لیکن اس کو مارنا مرشد کامل اکمل کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔نفس کی موت ہی قلب کی حیات ہے۔(سلطان العاشقین)
* نفسانی خواہشات کے پیچھے بھاگنا نفس پرستی ہے اور یہ بھی بت پرستی کی قسم ہے۔ (سلطان العاشقین)
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
* نفس کا وجود معصیت ہے اور اس کا گم کر دینا طاعت ہے۔ خواہشات پر عمل کرنا نفس کا وجود ہے۔ خواہشات سے باز رہنا نفس کا گم کر دینا ہے۔ خواہشاتِ نفسانیہ سے باز رہ اور بغیر موافقت اور تقدیرِ الٰہی ان کو حاصل ہی نہ کر، نہ اختیار سے اور نہ خواہش سے۔ (حیات و تعلیمات سیّدنا غوث الاعظمؓ)
حضرت ذوالنون مصری ؒ فرماتے ہیں’’سب سے شدید حجاب نفس اور اس کی تدبیر کی طرف توجہ کرنا ہے۔‘‘
حضرت بایزید بسطامی ؒ فرماتے ہیں’’نفس ایک ایسی صفت ہے جو صرف باطل کے ذریعے ہی سکون حاصل کرتی ہے۔‘‘
شیخ محمد بن علی ترمذی ؒ فرماتے ہیں’’تم حق کی معرفت حاصل کرنا چاہتے ہوحالانکہ تمہارا نفس تمہارے اندر موجود ہے،نفس خود کو ہی نہیں پہچان سکتا تو کسی اور کو کیا پہچانے گا؟‘‘
حضرت جنید بغدادی ؒ فرماتے ہیں’’تمہارا اپنے نفس کی مراد کو پورا کرنا‘ کفر کی بنیاد ہے۔‘‘
شیخ ابو سلیمان درانی ؒ فرماتے ہیں’’نفس خیانت کرنے والا اور (حق کی رضا جوئی سے ) روکنے والا ہوتا ہے۔ اس کی مخالفت سب سے افضل عمل ہے۔‘‘( کشف المحجوب)
الغرض ظاہری انسانی وجود نفس ہی ہے اور جس انسان کی توجہ اور سوچ کا تمام تر دارومدار اپنی ظاہری حالت پر رہے گا وہ کیونکر اپنے باطن سے واقف ہو سکتا ہے، وہ تو محض دھوکے میں ہے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ فرماتے ہیں:
* خود پرستی اور نفس پرستی ہی دراصل بت پرستی ہے اور اسی کو ترک کرنے کے بعد کہیں خدا پرستی کی منزل شروع ہوتی ہے۔
نفس کی حقیقت سلطان العارفینؒ کی تعلیمات کی روشنی میں
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:
* نفس مملکتِ وجود میں بادشاہ ہے اور شیطان اس کا وزیراعظم،جو ہر وقت مصلحت اندیشی اور خود پرستی کی منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
* نفس کیا چیز ہے؟ شیطان کیا چیز ہے؟ دنیا کیا چیز ہے؟ نفس بادشاہ ہے،شیطان اس کا وزیر اور دنیا ان دونوں کی ماں ہے جو ان کی پرورش کرتی ہے۔(عین الفقر)
نفس دانی چیست دیو بس بزرگ
بر مسلمان تاختہ مانند گرگ
ترجمہ: تو نفس کو کیا سمجھتا ہے؟ نفس ایک بہت بڑا دیو ہے جو مسلمانوں پر بھیڑیے کی طرح جھپٹتا ہے۔(محک الفقر کلاں)
بیت:
دِل بازار تے منہ دروازہ، سینہ شہر ڈسیندا ھُو
روح سوداگر نفس ہے راہزن، جیہڑا حق دا راہ مریندا ھُو
جاں توڑی ایہہ نفس نہ ماریں، تاں ایہہ وقت کھڑیندا ھُو
کردا ہے زایا ویلا بَاھُوؒ ، جان نوں تاک مریندا ھُو
مفہوم:دِل ایک بازار ہے جس میں حقیقت موجود ہے اور منہ اس بازار تک پہنچنے کا دروازہ ہے جس سے حقیقت تک رسائی ہوتی ہے اورسینہ ایک شہر ہے جس میں پوری کائنات پوشیدہ ہے ۔روح (رازِ حق تعالیٰ) اس شہر اور بازارِ حقیقت کی سوداگر ہے مگر نفس ایسا ظالم راہزن ہے جو ہمیں اس بازار اور شہر تک پہنچنے سے پہلے ہی لوٹ لیتا ہے۔ اس نفس کو مارنا بہت ضروری ہے جب تک نفس کا تزکیہ نہیں ہو گا تب تک یہ غفلت میں مبتلا کر کے وقت ضائع کرتا رہے گا۔ یہ نفس ذاتِ حق تعالیٰ تک پہنچنے کے قیمتی لمحات ضائع کرتا ہے اور اِسی طرح زندگی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ (ابیاتِ باھُوؒ کامل )
* دونوں جہان میں نفس سے زیادہ بُری اور کمینی چیز اور کوئی نہیں۔جو آدمی معرفتِ الٰہی حاصل کر لیتا ہے وہ نفس کو پاؤں تلے روند کر اپنی ہستی کو مٹا دیتا ہے اور جو آدمی نفس کو اپنا دوست بنا لیتا ہے وہ نفس کا قیدی بن کر ہوا و ہوس کی مستی میں غرق ہو جاتا ہے اورہوا و ہوس سے مغلوب ایسے نفس کو ’’سرکش توسن‘‘ (منہ زور نوجوان گھوڑا) کہتے ہیں جس پر ہر وقت خود پسندی سوار رہتی ہے۔خَلق کی نظر میں تو وہ آدمی ہوتا ہے لیکن خالق کی نظر میں خنزیر، گدھے، کتے اور بندر جیسا حیوان ہوتا ہے۔صورت میں آدمی لیکن سیرت میں حیوان۔ایسے حیوان سے بات کرنا مناسب نہیں ۔یوں کہیے کہ ایسا صاحبِ نفس ہزار شیطانوں سے بدتر ہے اور اہلِ نفس آدمی سے دوری اختیار کر۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔(محک الفقر کلاں)
* جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے نفس و دنیا و شیطان کو بندے کی آزمائش و ہیبت و قہر یت کے لیے پیدا فرمایاہے۔ (محک الفقر کلاں)
نفس کی اقسام
نفس کی چار حالتیں ہیں ۔
سلطان الفقر(ششم ) حضرت سخی سلطا ن محمد اصغر علی ؒ ان چاروں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
* امارہ‘جو ہر وقت برائی ،گناہ ،بدی، انانیت ،ریاکاری اور تکبر میں مبتلا رہتا ہے اور اس حالت کا انسان کو احساس تک نہیں ہوتا۔ پھر جب مرشد کامل کی نگرانی میں طالب اسمِ اللہ ذات کا تصور شروع کرتا ہے تو یہ امارہ سے لوامہ ہو جاتا ہے یعنی برائی کے بعد انسان پچھتاوا محسوس کرتا ہے اور اس کی تیسری حالت ملہمہ کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو برائی کے قریب جانے ہی نہیں دیتا اور آخری ‘ارفع و اعلیٰ حالت نفسِ مطمئنہ کی ہے۔ یہ حالت انبیا‘ اولیا اور صدیقین کو حاصل ہے یعنی نفس مکمل طور پر انسان کے قابو میں آجاتا ہے اور یہ انسان اور اللہ کے درمیان سے ہٹ جاتا ہے۔‘‘ (سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ حیات و تعلیمات)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ بھی نفس کی ان چار حالتوں کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
* دائرہ’’شریعت ‘‘ میں آدمی کا نفس ’’امارہ‘‘ ہوتاہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ یہ تمہارا دشمن ہے اسے مار دو۔ الٰہی مجھے بصارت دے کہ میں اسے دیکھوں اور قتل کروں۔ دائرہ’’طریقت‘‘ میں نفس ’’لوامہ‘‘ ہوتا ہے اس کی لذات اور چاہتوں کو پامال کرتا ہواآگے بڑھ جا۔ دائرہ ’’حقیقت‘‘ میں نفس ’’ملہمّہ ‘‘ ہوتا ہے اسے عشق و ذکرِ اللہ کی آگ میں موم کر حتیٰ کہ یہ مرنے سے پہلے مر جائے (مُوْتُوْاقَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا ) ۔ دائرہ ’’معرفت‘‘ میں نفس ’’مطمئنہ‘‘ ہوتا ہے جو حقیقی طور پر مطیع، بااخلاص، موحّد خاص الخاص، محرمِ اسرارِ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم) اور غیر ماسویٰ اللہ سے بیزار ہوتا ہے اور استغفار کرتا رہتا ہے۔مطمئنہ سے کیا چیز حاصل ہوتی ہے؟ لامقام، مشاہدۂ فقر فنا فی اللہ تمام۔(عین الفقر)
نفسِ امارہ ،برائیوں کا ارتکاب کرنے والا سرکش اور ظالم نفس ہے۔ اس نفس کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:
اِنَّ النَّفْسَ لَاَ مَّارَۃٌ بَالسُّوْٓئِ (سورہ یوسف۔53)
ترجمہ:’’ نفسِ امارہ برائی کا امر کرتا ہے۔‘‘
ایسا نفس کفار،مشرکین،منافقین،فاسقین اور فاجر لوگوں کا ہوتا ہے۔ اگر اس کی اصلاح نہ کی جائے تو سرکش ہو کر انسان سے حیوان، حیوان سے درندہ بلکہ مطلق شیطان بن جاتا ہے۔سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ ایسے نفس کے بارے میں فرماتے ہیں:
* نفس غصے کی حالت میں درندہ بن جاتا ہے ۔گناہ کرتے وقت بچہ بن جاتا ہے۔ فراوانیِ نعمت کے وقت فرعون بن جاتا ہے۔ سخاوت کے وقت قارون بن جاتا ہے۔بھوک میں پاگل بن جاتا ہے اور پُر شکم ہو تو متکبر اور مغرور گدھا بن جاتا ہے۔(عین الفقر)
* نفس کے تین حروف ہیں’ن‘ ’ف‘ ’س‘۔حرف’ن‘ سے نیتِ بد، نالائق، ناطالب ایمان کش،ناقص اورنا پسند۔حرف ’ف‘ سے فتنہ پرور، فریبی فضیحت پسند، فسادکش اور فاجر۔حرف ’س‘ سے سخت،آہن و سنگ سے زیادہ سخت مخالفِ رحمن۔ یہ حقیقت نفسِ امارہ کی ہے جس کے مالک کفار، منافق، کاذب اور ظالم دنیا دار لوگ ہیں۔ (عین الفقر)
بیت:
صُورت نفس امّارہ دِی ، کوئی کتا گلّر کالا ھُو
کُوکے نوکے لہوِ پیوے، منگے چرب نوالا ھُو
کھبّے پاسوں اندر بیٹھا ، دِل دے نال سنبھالا ھُو
ایہہ بدبخت ہے وَڈّا ظالم بَاھُوؒ ، اللہ کَرسی ٹالا ھُو
بے شک اللہ ربّ العزت اپنی مخلوق کے لیے بے حد مہربان اور رحیم ہے جو اپنے نیک اور برگزیدہ بندوں کی بدولت گناہگاروں کے نفسِ امارہ کی اصلاح فرماتا ہے۔یعنی اگر اس سرکش نفس کی اصلاح و تربیت مرشد کامل اکمل کی نگرانی میں شروع ہوجائے تو یہ باطن میں عالمِ ملکوت کی طرف ترقی کرتا ہے اور نفسِ امارہ سے نفسِ لوامہ بن جاتا ہے۔لوامہ کے معنی ہیں ملامت کرنے والا۔چونکہ اللہ تعالیٰ کی تائیدِ غیبی اور توفیقِ باطنی ایسے نفس کے شاملِ حال رہتی ہے لہٰذا ایسا نفس انسان کو گناہ پر شرمسار کرتا رہتا ہے۔ایسے نفس کو ہر وقت روزِ قیامت کی فکر رہتی ہے۔ اس نفس کے بارے میں ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبانی قسم اٹھائی ہے:
* لَآاُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَ لَآ اُقْسِمُ بِا لنّفْسِ اللَّوَّ امَۃِ۔ (القیمۃ۔(2-1
ترجمہ: ’’خبردار میں قسم کھاتا ہوں روزِ قیامت کی اور نیز قسم کھاتا ہوں نفسِ لوامہ (گناہوں پر ملامت کرنے والے نفس)کی۔
نفسِ لوامہ وصالِ یار کی منزل نہیں اس لیے اس کی بھی مزید تربیت ہوتی ہے تو یہ لوامہ سے ملہمہ بن جاتا ہے۔ نفسِ ملہمہ کے باعث انسان کو تائیدِ غیبی سے الہام کے ذریعے گناہ کے ارتکاب سے پہلے ہی بچا لیا جاتا ہے۔ ایسے نفس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
* وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَا مَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْ وٰی ۔ (النازعٰت۔(41.40
ترجمہ:’’اور جو شخص اللہ کے رو بروحساب کے لیے کھڑا ہونے سے ڈرا اور اُس نے اپنے نفس کو ہوا (خواہشاتِ نفسانی) سے باز رکھا ۔ پس بیشک ایسے شخص کا ٹھکانہ جنتِ ماویٰ ہے۔‘‘
اس کے بعد جب نفس باطن میں ترقی اور عروج حاصل کرتا ہے تو اس کا مزید تزکیہ ہو جاتا ہے اور یہ نفسِ مطمئنہ ہو جاتا ہے۔ایسا نفس رضائے الٰہی پر راضی رہتا ہے ۔گویا ایسا نفس ازلی راہزن شیطان سے نجات پا کر وصالِ الٰہی کی منزل کو پا لیتا ہے جو غم اور خوف سے امن کا مقام ہے۔
ایسا پاکیزہ اور اعلیٰ نفس انبیا اور اولیا کرام کا ہوتا ہے ۔ پس قرآنِ پاک میں ارشاد ہے:
* اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآ ءَ اللّٰہِ لَا خَوْ فٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ (یونس۔62)
ترجمہ:’’بے شک اولیا اللہ کو نہ تو غم ہوتا ہے اور نہ کوئی خوف۔
* یٰٓاَ یَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْ جِعِیْٓ اِ لیٰ رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَا دْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَادْ خُلِیْ جَنَّتِیْ۔ (الفجر27-30)
ترجمہ: ’’اے نفسِ مطمئنہ!لوٹ اللہ تعالیٰ کی طرف، ایسی حالت میں کہ وہ تجھ سے راضی ہے اور توُ اُس سے راضی ہے۔پس میرے بندگانِ خاص کے حلقے میں شامل اور میری بہشت (قرب و وصال) میں داخل ہو جا۔‘‘
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ ایسے نفس کے بارے میں فرماتے ہیں:
* نفسِ مطمئنہ ایک سواری ہے جس کی رسائی رازِالٰہی تک ہے اور یہ مشاہدۂ توحیدِ حق تک پہنچاتی ہے۔(کلید التوحید کلاں)
* نفسِ مطمئنہ کے بھی تین حروف ہیں ’ن‘ ’ف‘ ’س‘۔ حرفِ ’ن‘ سے نالد یعنی دن رات خوفِ خدا میں رونے والا ، نہی یعنی اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ باتوں سے پرہیز کرنے والا اور نیکی پھیلانے والا ۔ نانِ حلال یعنی نیک کمائی کھانے والا ،اطاعت بے ریا اختیار کرنے والا، ایمان کی سلامتی والا،ناصر التوفیق یعنی توفیقِ الٰہی سے مدد کیا ہوا، ذکرو فکر واشغال اللہ یعنی تصورِ اسم اللہ ذات کی مدد سے مراقبہ و معرفت و مشاہدۂ نور میں مستغرق۔نفس جب نورِ الٰہی میں غرق ہوتا ہے تو مغفور ہو کر نفسِ مطمئنہ بن جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔حرف ’ف‘ سے فخرِ دین،کفر و اسلام کے درمیان ’’فرق‘‘ کرنے والا۔فرمانِ حق تعالیٰ ہے:ترجمہ:’’یہ اس لیے ہے کہ مومنوں کا مولیٰ اللہ ہے اور کافروں کا مولیٰ کوئی نہیں۔‘‘اہلِ نفسِ مطمئنہ حق الیقین کے مرتبے پر فائز ہوتا ہے اور صاحبِ حق الیقین اسے کہتے ہیں جسے استغراقِ حق حاصل ہواور وہ باطل کی طرف متوجہ نہ ہو۔ حق اسلام ہے اور باطل کفر ہے، اسلام کی بنیاد فقر اور معرفتِ الٰہی ہے۔ کفر کی بنیاد درہمِ دنیا ہے،بدعت کی بنیاد حُبِّ دنیا ہے اور ہدایت کی بنیاد حُبِّ الٰہی ہے۔ حرف ’س‘سے سرراستیِ راہ بااستغراق اِلٰہ یعنی صراطِ مستقیم پر گامزن ا ور تصورِ اسم اللہ ذات میں غرق، بظاہر مشغول سجدہ سجود لیکن بباطن غرق فنا فی اللہ با معبود۔ان صفات سے متصف نفسِ مطمئنہ انبیا و فقراکا ہوتا ہے اور بہت کم صاحبِ ولایت اولیا کا ہوتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
* تابع نفس (نفسِ مطمئنہ) پیاری جان سے بہتر دوست ہے۔ نفس کواحمق و بے تمیز لوگ کیا جانیں؟ (عین الفقر)
بیت:
ایہو نفس اساڈا بیلی، جو نال اساڈے سِدّھا ھُو
زاہد عالم آن نوائے، جِتھے ٹکڑا ویکھے تِھدّا ھُو
جو کوئی اِس دی کرے سواری، اُس ناں اللہ دا لدّھا ھُو
راہ فقر دا مشکل بَاھُوؒ ، گھر ما نہ سیرا رِدّھا ھُو
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطا ن محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* ’’نفس شیطان سے زیادہ طاقتور ہے لیکن نفس کا تزکیہ ہو جائے تووہ خیر بن جاتا ہے جبکہ شیطان کا تزکیہ نہیں ہو سکتا اس لیے وہ شر ہے۔‘‘ (سلطان العاشقین)
سلطان العارفینؒ فرماتے ہیں:
* ’’طالبِ اللہ کو چاہیے کہ ہر دم اور ہر گھڑی دن رات نفس کی مخالفت کرتا رہے کسی وقت بھی اس سے غافل نہ رہے۔کیونکہ نفس کافر ہے۔‘‘ (عین الفقر)
اگر ہم صحابہ کرامؓ اور اولیا کاملین کی پاکیزہ زندگیوں کا مطالعہ کریں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ کس طرح یہ پاکیزہ ارواح اپنے ناسوتی لباس میں رہ کر بھی عالمِ لاہوت کے حصول کے لیے ہر دم شدید ترین محاسبۂ نفس میں مشغول رہتی تھیں۔
حضرت یوسف ؑ نے اپنے نفس کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا:
* وَمَآ اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْٓ ج اِنَّ النَّفْسَ لَاَ مَّارَۃٌ م بَالسُّوْٓئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ۔ (یوسف۔ 53)
ترجمہ: میں اپنے نفس کو بے قصور قرار نہیں دیتا، کیونکہ نفس(امارہ) بُرائی کا بہت زیادہ حکم دیتا ہے‘ ماسوائے اُس کے جس پر میرا پروردگار رحم کر دے۔‘‘
* حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں ’’میرے والد حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنی وفات کے وقت فرما رہے تھے ’میں حضرت عمرفاروقؓ سے زیادہ کسی کو محبوب نہیں رکھتا ‘ پھر فوراً ہی کہا ’’اے عائشہؓ میں نے ابھی ابھی کیا کہا تھا؟ میں نے ان کے الفاظ ہوبہو دہرا دئیے فرمایا: میرا مطلب یہ تھا کہ زندہ لوگوں میں سے مجھے عمرؓ سے زیادہ کوئی شخص عزیز نہیں۔‘‘تو اندازہ کیجیے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کلام کے معاملے میں بھی اس چھوٹی سی لغزش کا محاسبہ کر لیا۔‘‘ (کیمیائے سعادت)
* حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں ’’اے لوگو! اس سے پہلے کہ تمہارے اعمال ترازوئے عدل میں جائیں تم خود ہی ان کا وزن کر لو۔ آپؓ رات کو گھر تشریف لاتے تو ایک درّہ زور سے اپنے پاؤں پر مارتے اور (اپنی ذات سے) کہتے بتا تو نے آج کیا کچھ کیا ہے؟ ‘‘ (کیمیائے سعادت)
*حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں:’’ نفسِ لوامہ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو ملامت کرتے رہو کہ فلاں کام کیوں کیا ؟ اور فلاں چیز کیوں کھائی۔ الغرض اپنے امور کا محاسبہ اہم ترین ذمہ داری ہے۔‘‘ (کیمیائے سعادت)
الغرض جب تک نفس کا تزکیہ نہ ہو جائے اور نفس اپنے اعلیٰ ترین مقام یعنی نفس مطمئنہ پر نہ پہنچ جائے اس وقت تک نفس کی مخالفت کرنا ہی تمام عبادات کی حقیقت ہے جو کہ مجاہدات سے حاصل ہوتی ہے اور اس کے بغیر انسان ذاتِ حق کے وصال کو نہیں پا سکتا ۔ نفس کی مخالفت ہی حُبِّ دنیا سے نجات کا ذریعہ ہے۔
نفس کا علاج سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ کی تعلیمات کی روشنی میں
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ ان انسانوں کی عقل پر ماتم کرتے ہیں جنہیں قریب رہنے والا بہت دور نظر آتا ہے اور اسے ہمیشہ باہر تلاش کرتے رہتے ہیں۔آپؒ اللہ کو اپنے اندر ہی تلاش کرنے کی تاکید فرماتے ہیں ۔اس مقصدکے حصول کے لیے آپؒ سب سے پہلے دل سے نفسانی خواہشات کی سیاہی کو ختم کرنے کی تاکید فرماتے ہیں۔سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو ؒ نے اپنی تعلیمات میں ’’ذکر و تصورِ اسم اللہ ذات ‘‘ کو ہی نفس کے علاج کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں:
* ’’تصورِ اسم اللہ ذات ‘‘ کی مشق سے آدمی کے وجود میں نفس بیمار ہو جاتا ہے۔ گویا کہ اُسے خسرہ کی بیماری لاحق ہو گئی ہے۔ تصورِ اسم اللہ ذات ‘‘ سے نفس کو ایسی بے قراری لاحق ہو جاتی ہے کہ اُسے کسی پل آرام نہیں آتا بلکہ اس کی ہستی ہی مٹ جاتی ہے۔یہ نافرمان نفس فرمانبردار بن جاتا ہے اور ایک غلام کی طرح ہمیشہ زیر فرمان رہتا ہے۔ (شمس العارفین)
* جس شخص کا نفس ابتدا میں سرکش اور امارہ ہوتا ہے تو ’’تصورِ اسم اللہ ذات ‘‘ کی مشق کرنے سے پہلے لوامہ بنتا ہے پھر ملہمہ اور آخر میں مطمئنہ بن جاتا ہے۔(کلید التوحید کلاں)
* جب اسم اللہ ذات دِل پر نقش ہو جاتا ہے اور اسم اللہ ذات کی تجلّی دِل پر غالب ہو کر بھڑک اٹھتی ہے تو نفس مغلوب ہو کر مر جاتا ہے اور دِل زندہ ہو جاتا ہے۔ (عین الفقر)
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ فرماتے ہیں:
* ’’نفس کو مارنے کا واحد طریقہ تصور اور ذکرِ اسم اللہ ذات اور مرشد کامل کی نگاہ ہے۔‘‘ (سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ حیات و تعلیمات)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* ظاہری عبادات کی کثرت سے نفس سر کشی اختیار کر کے انانیت کی گرفت میں آجاتا ہے۔ مرشد کامل اکمل کی صحبت میں ذکر و تصورِ اسم اللہ ذات میں ترقی پانے سے نفس کا تزکیہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ (شمس الفقرا)
الغرض جو بھی معرفتِ حق تعالیٰ کا متلاشی ہے اُسے سب سے پہلے اپنے آئینۂ دِل کو نفسانی خواہشات کی لذت سے بیزار کرنا ہو گا جو کہ ذکر و تصورِ اسم اللہ ذات کے بغیر ہرگز ممکن نہیں۔ ذکر و تصورِ اسم اللہ ذات بھی وہ جو سروری قادری مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سے حاصل کیا گیا ہو ۔
مرشد کامل کی نشانی کیا ہے؟ سلطان العارفین ؒ فرماتے ہیں:
* ’’مرشد کامل اکمل وہ ہوتا ہے جو طالب کو اسمِ اللہ کے ذکر کے ساتھ ساتھ اس کا تصور بھی عطا کرے،آپؒ فرماتے ہیں ’’جو مرشد طالب کو تصورِ اسم اللہ ذات عطا نہیں کرتاوہ مرشد لائقِ ارشاد مرشد نہیں ۔‘‘ (نورالہدیٰ)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ کے حقیقی روحانی وارث ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی ذات پاک انسانِ کامل کی مکمل صورت ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس ذکر و تصورِ اسم اللہ ذات کے فیض سے دنیا بھر کے تما م سچے طالبانِ مولیٰ کو نفسِ مطمئنہ کے اعلیٰ مقام پر پہنچا کر معرفتِ حق سے بہرہ مند فرما رہے ہیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ تمام طالبانِ حق کو آپ مدظلہ الاقدس کی ذات پاک کی عاجزی اور اخلاص والی نورانی صحبت میں تزکیۂ نفس و تصفیۂ قلب سے وصالِ الٰہی کی نعمت عطا فرمائے۔آمین
استفادہ کتب:
نور الہدیٰ کلاں تصنیف حضرت سخی سلطان باھُوؒ
کلید التوحید کلاں ایضاً
محک الفقر کلاں ایضاً
عین الفقر ایضاً
شمس الفقرا تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
ابیاتِ باھُوؒ کامل ترتیب، تحقیق اور شرح از سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ حیات و تعلیمات، تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
سلطان العاشقین مطبوعہ سلطان الفقر پبلیکیشنز
کیمیائے سعادت تصنیف امام غزالیؒ
مکاشفۃ القلوب ایضاً