صنم آشنا
تحریر: فائزہ گلزارسروری قادری۔ لاہور
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا‘ تجھے کیا ملے گا نماز میں
صنم یعنی بُت صرف مٹی، گارے یا پتھر کے نہیں ہوتے بلکہ کھنکتی ہوئی مٹی سے بنے انسان میں بھی ہزار ہا طرح کے بُت (صنم) پائے جاتے ہیں۔ علم کا بُت، عقل و فہم کا بُت، رشتے ناتے کے بُت، خواہشاتِ دنیا و آخرت کے بُت، عہدہ، رتبہ یا مرتبہ کا بت اور بعض اوقات انسان کی اپنی ذات ہی اُس کا سب سے بڑا بُت ہوتی ہے جسے وہ اپنے دل کے صنم کدہ میں سجا سنوار کر صبح و شام اس کی پرستش کرتا رہتا ہے لیکن اس بات سے بالکل نا آشنا ہوتا ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
٭ نفسانی خواہشات کے پیچھے بھاگنا دراصل نفس پرستی ہے اور یہ بھی بت پرستی کی ہی قسم ہے۔ نفسانی خواہشات (برائیوں، بیماریوں) کی اتباع کرنا شرک ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے شرکِ عظیم قرار دیا ہے۔
قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:
اَفَرَءَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوَاہُ۔ (الجاثیہ۔23)
ترجمہ:(اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم!) کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی نفسانی خواہشات کو اپنا معبود (خدا) بنا رکھا ہے۔
صنم مادی ہوں یا غیر مادی، مرئی ہوں یا غیر مرئی، بہرحال ان کے ٹوٹ جانے میں ہی انسان کی نجات اور فلاح ہے۔ جب تک بت ٹوٹتے نہیں اس وقت تک حق کے سر بلند ہونے کا اعلان نہیں ہو سکتا۔ حدیث ِ مبارکہ ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (فتح مکہ کے دن جب) مکہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے چاروں طرف تین سو ساٹھ بت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان بتوں پر مارنے لگے اور فرمانے لگے کہ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُی یعنی حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ (صحیح بخاری۔2478)
بہت کم خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں احساس ہوتا ہے کہ ان کا قلب و باطن ایک صنم کدہ بن چکا ہے اور اس میں اس قدر بھی جگہ نہیں بچی کہ معبودِ حقیقی تجلی فرما سکے۔ ایک عام انسان بھی یہ گوارا نہیں کرتا کہ جس رشتے سے وہ سب سے زیادہ محبت کرتا ہے وہ کسی اور کو اس کے برابراہمیت دے ۔تو کیا ہم غیر اللہ کی محبت کو اللہ کی محبت پر ترجیح دے کر درست کرتے ہیں؟ یقینا ہرگز نہیں! اللہ تبارک و تعالیٰ جو عظیم غیرت کا مالک ہے، جس کی عظمت و کبریائی لا محدود ہے کیسے یہ گوارا کر سکتا ہے کہ اس کے بندے بندگی کا دعویٰ بھی کریں اس کے سامنے ظاہری طور پر سجدہ بھی کریں لیکن دل میں کسی اور کی محبت اور طلب کے بتوں کو سجایا ہو۔
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
٭ جب تک تیرا دل مخلوق کے ساتھ معلق رہے گا تو خالق کے ساتھ کیسے جمع ہوگا۔ تو سب کو شریک ِ خدا بنائے ہوئے ہے پھر تُو سبب پیدا کرنے والے کے ساتھ کیسے رہ سکتا ہے۔ ظاہر و باطن کیسے اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 5)
یہاں یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ صرف دنیا اور دنیا کی نعمتیں ہی ہمارا بت نہیں ہوتیں، آخرت اور آخرت کی نعمتیں بھی انسان کو معبودِ حقیقی سے حجاب میں رکھتی ہیںاور اپنی عبادت کرواتی ہیں۔ سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
٭ ہر وہ دل جس میں دنیا کی محبت ہے وہ اللہ تعالیٰ سے محجوب ہے اور ہر وہ دل کہ جس میں آخرت کی محبت ہے پس وہ بھی اللہ تعالیٰ کے قرب سے محجوب ہے۔ جس قدر تجھے دنیا کی رغبت ہوگی اسی قدر آخرت میں تیری رغبت کم ہوجائے گی اور جس قدر تیری رغبت آخرت میں ہوگی اسی قدر تیری محبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ کم ہوجائے گی۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 10)
الغرض معبودِ حقیقی کو راضی رکھنے کے لیے توحید میں داخل ہونا پڑتا ہے بلکہ ہمہ تن توحید بننا پڑتا ہے اور ایسا اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک دل سے تمام غیراللہ کے بت نکل نہ جائیں کیونکہ ایک جنگل میں دو شیر حاکم نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ایک نیام میں دو تلواریں سما سکتی ہیں۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
٭ ’’توحید تک پہنچنے کے لیے دل سے غیر اللہ کی محبت، طلب اور خوف کے بتوں کو توڑناہوگا۔ اللہ کے سوا ہر چیز سے بے نیاز ہوجانا توحید ہے۔‘‘ (سلطان العاشقین)
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بے نیاز ہو جانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت سے منہ موڑ کر کسی جنگل میں بسیرا کر لے اور اپنی تمام تر ذمہ داریوں سے دامن چھڑانے کی کوشش کرے اور یہ سمجھتا رہے کہ میں نے اللہ کے لیے سب کچھ چھوڑ دیاہے۔ بلکہ بے نیاز ہو جانے کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کے سب کام بھی کر ے لیکن دنیا اور اس کی رنگینیوں میں سے کسی کی بھی طلب اور کشش اس کے دل میں نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ عقل و فہم دے تو اس سے حق اور باطل کا فرق پہچانے۔ مال دیا ہے تو اسے اپنی ضرورت پر خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ بے لوث اللہ کی راہ میں خرچ کرے، اس کے دین کے فروغ کے لیے استعمال کرے اور بدلے میں اللہ سے کسی دنیاوی یا اخروی اجر کا طلب گار بھی نہ ہو۔ اللہ اولاد کی نعمت سے نواز ے تو اس کی بہتر تربیت کرے، اس کی تربیت حلال کمائی سے کرے اور اپنے قول و فعل سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت کی شمعیں ان کے دل میں جلائے رکھے۔ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ کوئی بھی انسان یہ سب کچھ محض اپنی محنت اور خواہش سے نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے اسے کسی صاحب ِ بصیرت فقیر ِ کامل کی رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔ اگر محض اپنی عقل کے مطابق چلے گا تو ٹھوکر لگنے کا بھی اندیشہ ہے اور گمراہ ہونے کا بھی۔ بقول شاعر
عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
٭ عقل انسان کا شرف اور اس کی راہنما ہے اور صاحبِ عقل کو اہلِ شعور کہا گیا ہے۔ لیکن جب عقل نفس، شہوات اور خواہشاتِ نفس کی غلام اور اس کے تابع ہوجاتی ہے تو یہی عقل کتے سے بھی بدتر ہے۔ ایسا عقلمند انسان صاحب ِ نفس ہوتا ہے اور کمینے نفس کی تمام خصوصیات اس میں آہستہ آہستہ ظاہر ہو کر آکاس بیل کی طرح اسے اپنے قبضہ میں لے لیتی ہیںاور وہ شخص متکبر ہو کر گمراہ ہوجاتا ہے۔ ایسے انسان کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو سب سے عقل مند اور دوسروں کو بیوقوف سمجھتا ہے۔ (سلطان العاشقین)
عقل و فہم سے حق و باطل کا فرق پہچاننے کے لیے کسی ایسی فہم و بصارت کی ضروت ہوتی ہے جو عقل کے حملوں کا تدارک جانتی ہواور اسی طرح دیگر تمام بتوں کا ٹوٹنا ضروری ہے۔
حقیقی کامیاب وہ ہوتے ہیںجو اپنے ہاتھوں سے اپنے بتوں کو کسی بت شکن کے حوالے کر دیتے ہیںکیونکہ عشق کا قاعدہ اور قانون یہی ہے کہ جو لوگ اپنے بتوں کو توڑنے کی کوشش نہیں کرتے اللہ تعالیٰ انہیں انہی بتوں کے ہاتھوں رسوا کرتا ہے تاکہ بندے میں ندامت کا احساس پیدا ہو اور وہ اپنی اصلاح کی طرف قدم بڑھائے، اپنے معبودِ حقیقی کے حضور اپنی کوتاہیوں کا اقرار کرے۔ جب تک کوئی اپنی خطا کا اعتراف نہیںکرتا اسے معافی اور اصلاح کی توفیق نہیں ملتی۔ معافی کی توفیق ملنا بھی ابتدائے سفر ہے منزل نہیں ہے۔ سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
٭ اے دنیا سے ناواقف شخص! اگر تو دنیا کی حقیقت کو پہچان لیتا تو ہرگز اس کا طالب نہ بنتا۔ اگر دنیا تیرے پاس آئے گی تو تجھے مصیبت میں ڈال دے گی اور اگر تجھ سے چلی جائے گی تو تجھے حسرت میں مبتلا کرے گی۔ اگرتو اللہ تعالیٰ کی ذات کو پہچان لیتاتو اس وجہ سے غیر اللہ سے واقف ہو جاتا۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 50)
ظاہری بتوں کو توڑنے کے لیے محمود غزنوی آیا کرتے ہیں اور باطنی بتوں کو توڑنے کے لیے ایسی بت شکن قوت چاہیے جو بظاہر نظر نہ آئے لیکن اس کی چوٹ بھاری ہو کیونکہ باطنی بت نظر نہیں آتے لیکن ان کی جڑیں ہماری روح میں بہت گہرائی تک ہوتی ہیں۔ روح کی زندگی بچانے کے لیے حساس سرجری درکار ہوتی ہے، کبھی ریڈیائی شعاعوں کا استعمال کیا جاتا ہے اور کبھی مرہم رکھا جاتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ایک ڈاکٹر اپنا معمولی علاج تو خود کرسکتا ہے لیکن اپنی حساس سرجری خود نہیں کرسکتا، اس کے لیے اسے اپنی تمام تر قابلیتوں کو ایک طرف رکھ کر کسی دوسرے ماہر کی خدمات لینا ہی ہوتی ہیں۔ روح کی حساس سرجری کے لیے ماہر روحانی سرجن یعنی مرشد کامل اکمل سے رجوع کرنا بے حد ضروری ہے اور پھر رجوع کرنے کے بعد اس باکمال ہستی کے سامنے خود کو عاجز مریض کی طرح پیش کرنے سے ہی علاج مکمل اور درست ہوتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ تمام بُت جنہوں نے ہمارے دل میں گھر کر رکھا ہوتا ہے انہیں توڑنے کا سب سے مؤثر ذریعہ کونسا ہے؟
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ترجمہ:اللہ ایمان والوں کا کارساز ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے اور جو لوگ کافر ہیں ان کے حمایتی شیطان ہیں وہ انہیں(حق کی) روشنی سے نکال کر (باطل کی) تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں یہی لوگ جہنمی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ (البقرہ۔ 257)
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
٭ جب کسی کے دل میں اسمِ اللہ ذات آجاتا ہے تو اس سے دو چیزیں پیدا ہوتی ہیں ایک نار اور دوسری نور، نار سے تمام غیر اللہ تصورات و مادی محبتیں جل جاتی ہیں اور نور سے دل منور آئینہ بن جاتا ہے۔ (الفتح الربانی)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
٭ ناپاک زمین کے پاک ہونے کی دو صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ اتنی بارش برسے کہ گندگی کو بہا لے جائے دوسری صورت یہ کہ اتنا سورج چمکے کہ نجاست کو جلا دے اور اس کا نام و نشان مٹا دے۔ اسی طرح قلب کی زمین کے لیے دو چیزیں ہیںایک ذکرِ الٰہی جس کی مثال بارش کی سی ہے دوسرا شیخِ کامل جس کی مثال سورج کی سی ہے۔ ذکر سے دل صاف ہوتا ہے اور شیخِ کامل کی توجہ سے بھی دل صاف ہوتا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں کامل مرشد ملتے ہیں اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میںمرشد کو پانے کی امنگ، آرزو اور تڑپ پیدا ہوتی ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
٭ آدمی نفس اور شیطان کی قید سے ہرگز چھٹکارا نہیں پا سکتا اور نہ ہی اس کا دل دنیا سے اُچاٹ ہوسکتا ہے جب تک وہ مرشد کامل اکمل نہ پکڑلے اور اسمِ اللہ ذات کے متبرکات میں مشغول نہ ہو جائے۔
٭جب تک انسان ذکر اور تصور اسم اللہ ذات میں کامل نہ ہو جائے تب تک خواہشاتِ نفسانی اور ہوا و ہوس سے خلاصی نہیں پاسکتا۔ (سلطان العاشقین)
حاصل کلام یہ ہے کہ آج کا مسلمان خدا آشنا سے زیادہ صنم آشنا ہے لیکن جب وہ ان اصنام کوپہچان کر توڑ لیتا ہے تو انسانیت کی معراج پاتا ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے اس کے پاس دو ہتھیار ہونا اشد ضروری ہیں جن کے بغیر یہ سفر ناممکن ہے ورنہ بندہ ہمیشہ کے لیے گمراہ ہو جاتا ہے۔ ایک مرشد کامل اکمل اور دوسرا اسمِ اللہ ذات۔ مرشد کامل اکمل کون ہوتا ہے؟
٭ مرشد کامل اکمل پہلے دن ہی طالب کو سلطان الاذکاراسمِ اعظم ’’ھُو‘‘ عطا کردیتا ہے اور اسمِ اللہ ذات کا نقش تصور کے لیے عطا فرماتا ہے۔ اگر ایسا مرشد مل جائے تو فوراً دامن پکڑ لے لیکن اس کو تلاش کرنامشکل ہے کیونکہ یہ غیر معروف ہوتا ہے لیکن سینہ بہ سینہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ (شمس الفقرا)
اسم اللہ ذات کیا ہے؟
اسم اللہ ذات اللہ کا ذاتی نام ہے اور اس کی تمام صفات کا مجموعہ ہے۔ فقرا کاملین کے نزدیک یہی اسمِ اعظم ہے۔ بندہ اللہ کو جب اس کے ذاتی نام سے بہت خلوص اور محبت سے پکارتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے اپنے قریب کرنے لگتاہے اور غیر اللہ کی محبت اس کے دل سے دور کر دیتا ہے۔
حدیث ِ قدسی ہے:
٭ میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے میں اپنے بندے کے ساتھ اِس کے گمان کے مطابق پیش آتا ہوں۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کا ہم مجلس ہوتا ہوں۔ جب وہ مجھے کسی مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں۔
عالم ِ ناسوت میں اُلجھا ہوا ایک عام انسان ساری زندگی پہلے سے بہتر مقام و مرتبہ پانے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ کسی صاحب ِ مرتبہ کی آنکھوں کا تارا ہونا اس کے لیے باعثِ فخر ہوتا ہے۔ذرا اس شخص کی قسمت کا تصور کریں جسے خالق ِ دو جہان یاد کرے اور اپنے قریب کر لے۔ کیا وہ شخص جو ہر وقت اللہ کی نگاہِ کرم میں ہوتا ہے وہ کسی اور طلب میں الجھ سکتا ہے؟ نہیں! ہر گز نہیں۔
اسمِاللہ ذات کا ذکر اس قدرعظمت و قوت کا حامل ہے کہ فرشتے بھی اس ذکر کو کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ شیخ فقیر اللہؒ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپؒ اسمِ اللہ ذات کے ذکر میں مشغول تھے ،دیکھاکہ پاس چند فرشتے بیٹھے تسبیح و تقدیس میں محو ہیں تو آپؒ نے ان فرشتوں سے فرمایا ’’تھوڑا قریب آجاؤ اور میرے ذکر میں شریک ہو جاؤ‘‘ تو اُنہوں نے کہا ’’ ہم آپؒ کے قریب آنے اور اس ذکر میں شامل ہونے کی طاقت اور استطاعت نہیں رکھتے‘‘ (یعنی ذکر اسمِ اللہ ذات صرف انسان کا شرف ہے)۔ (اقتباس از کتاب: حقیقت اسمِ اللہ ذات)
پس ذکرِاسم ِاللہ ذات کے ساتھ مرشد کامل اکمل کی راہبری بھی لازم و ملزوم ہے۔فقر و تصوف کی تاریخ یہ حقیقت عیاں کرتی ہے کہ کوئی بھی اللہ تک کسی کامل راہبر کی راہبری کے بغیر نہیں پہنچا۔ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں کسی مرشد کامل کی ضرورت نہیں ہے وہ خود بھی حقیقت سے منہ موڑ کر کھڑے ہوتے ہیں اور گمراہی کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہوتے ہیںاور اپنے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں کو بہکانے کے جرم کے مرتکب بھی ہو رہے ہوتے ہیں۔اللہ بندے کے بہت سے گناہ معاف فرما دیتا ہے لیکن وہ اس بات کو معاف نہیں فرماتا کہ کوئی دوسرے کو سیدھے راستے سے بہکائے۔ مرشد کامل اکمل ذکر و تصورِ اسم اللہ ذات کے ذریعے طالب کو مختلف باطنی مراحل سے گزارتا ہے جس سے اس پر اپنے باطن میں چھپے بت ظاہر ہونے لگتے ہیں پھر جو طالب ان بتوں کو توڑ کر اپنے باطن کو شرک سے پاک کرنے اور حقیقی توحید تک پہنچنے کی طلب رکھ کر چلتے ہیں مرشد کامل اکمل ان کو ان کی طلب کے مطابق اور بعض اوقات صفت ِ رحیمی کے سبب طلب اور استطاعت سے کہیں بڑھ کر عطا فرما دیتا ہے۔
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ باطن کی حقیقت صرف اُسی وقت انسان پر ظاہر ہوتی ہے جب وہ سچا طالب اور سالک بن کر باطن کی راہ پر چلنا شروع کرتا ہے۔ کیونکہ جب انسان غلط راستے کا مسافر ہوتا ہے تو نفس، شیطان یا دنیا کو اسے بہکانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ شیطان نے تو سیدھے راستے پر چلنے سے روکنے کی قسم کھائی ہے۔ اسی لیے جب طالب باطن میں سفر شروع کرتا ہے تب ہی اس پر ہر چیز کی حقیقت واضح ہونا شروع ہوتی ہے کہ کون کون سی خواہشات اور محبتوں کے بت اس کی راہ کے رکاوٹ ہیں۔
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ باطنی سفر کے دوران ان باطنی بتوں سے آگاہی اور ان سے نبرد آزما ہونے کے واقعات یوں بیان فرماتے ہیں:
٭ ایک دفعہ شیطان میرے پاس ایک بھونڈی اور کریہہ صورت میں آیا اس سے نہایت سخت بدبو آرہی تھی۔ کہنے لگا ـ’’میں ابلیس ہوں تم نے مجھے اور میرے شاگردوں کو تھکا دیا ہے اب میں چاہتا ہوں کہ تیری خدمت کروں۔‘‘
میں نے کہا: ’’ اے لعین یہاں سے دفع ہو جا۔‘‘
اس نے انکار کیا۔ یکایک میں نے دیکھا کہ ایک غیبی ہاتھ اس کے سر پر پڑا اور وہ زمین میں دھنس گیا۔
کچھ عرصہ بعد دوبارہ میرے پاس آیا اس وقت اس کے ہاتھ میں ایک کرۂ نار(آگ کا گولہ) تھا کہ مجھ پر پھینکتا تھااور غراتا تھا۔ اس وقت ایک شخص سفید گھوڑے پر سوار منہ پر ڈھاٹا باندھے ہوئے آیا اور مجھے ایک تلوار دی۔ میرا یہ تلوار ہاتھ میں لینا تھا کہ ابلیس الٹے پاؤں بھاگا۔
تیسری دفعہ میں نے ابلیس کو عجیب حالت میں دیکھا۔ وہ زمین پر بیٹھا آہ و زاری کر رہا تھا اور سر پر خاک ڈال رہا تھا۔ مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: اے عبدالقادر! تُو نے مجھے مایوس کر دیا ہے۔
میں نے کہا: اے ملعون دور ہو جا‘ میں ہمیشہ تجھ سے پناہ مانگتا ہوں۔
ابلیس نے سرد آہ بھر کر کہا: یہ بات میرے لیے اور بھی سخت ہے۔
پھر اس نے میرے اردگرد بہت سے جال اور پھندے پھیلا دیئے۔ میں نے کہا: یہ کیا ہے؟
اس نے کہا: یہ دنیا کے جال اور پھندے ہیںجن میں ہم تم جیسے لوگوں کو پھنساتے ہیں۔
تب میں نے ایک برس تک ان جالوں اور پھندوں کی طرف توجہ کی حتیٰ کہ ایک ایک کر کے وہ سب ٹوٹ گئے۔ پھر بہت سے اسباب میرے قریب ظاہر ہوئے۔ میں نے کہا: یہ کیا ہے؟
مجھے بتایا گیا ’’یہ مخلوق کے تعلقات ہیںکہ تمہارے ساتھ ان کا رشتہ ہے۔‘‘ اب میں ان کی طرف متوجہ ہوا اور ایک سال تک ان کے متعلق مجاہدہ کرتا رہا حتیٰ کہ وہ سب بھی ٹوٹ گئے۔
ایک اور موقع پر آپؓ مجاہدات کے دوران اپنی باطنی کیفیات کا یوں تذکرہ فرماتے ہیں:
٭ مجاہدات کے دوران تحیر خیز کیفیات مجھ پر طاری ہوئیں۔ کبھی میرے باطن اور نفس کا مشاہدہ کرایا گیااور کبھی مجھے فقر و غنا اور شکر و توکل کے دروازوں سے گزارا گیا۔ جب مجھے باطن کا مشاہدہ کرایا گیا تو اس کو بہت سے علائق سے ملوث پایا۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ میرے اختیارات اور ارادے ہیں۔ میں نے ایک سال تک ان کے خلاف مجاہدہ کیا۔ حتیٰ کہ یہ سب علائق بھی مجھ سے منقطع ہو گئے۔ پھر مجھے اپنے نفس کا مشاہدہ کرایا گیا۔ میں نے اس میں بھی کئی امراض دیکھے۔ سال بھر میں نے ان کے خلاف جنگ کی۔ حتیٰ کہ یہ امراض جڑ سے اکھڑ گئے اور میرا نفس تابع ِ الٰہی ہوگیا۔ پھر میں توکل کے دروازہ پر آیا تو بہت بڑا ہجوم دیکھا۔ میں اس ہجوم کو چیر کر نکل گیا۔ پھر شکر کے دروازے پر آیا تو وہاں بھی یہی حال تھا میں اس میں سے بھی گزر گیا۔ پھر غنا و مشاہدہ کے دروازوں پر آیا تو انہیں بالکل خالی پایا۔ اندر داخل ہوا تو وہاں روحانی خزائن کی انتہا نہیں تھی۔ ان میں مجھے حقیقی غنا، عزت اور مسرت میسر ہوئی۔ میری ہستی میں انقلاب پیدا ہوگیا اور مجھے وجودِ ثانی عطا ہوا۔ (حیات و تعلیمات سیّدنا غوث الاعظمؓ)
درج بالا تمام واقعات ولیوں کے امام سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی حیاتِ طیبہ سے ہیں، آپؓ پیدائشی ولی تھے اس کے باوجود نفس، دنیا اور شیطان کے خلاف طویل مجاہدات کیے اور حصولِ فیض کے لیے اپنے زمانے کے جید بزرگانِ دین کی خدمت میں رہے۔ ایک عام انسان کی دنیوی و اخروی بھلائی کے لیے باطن کی راہ پر چلنا اور باطنی بتوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے مجاہدہ کرنا کس قدر ضروری ہے کسی صاحب ِ فہم کے لیے ان واقعات سے اندازہ لگانا یقینا مشکل نہیں ہے۔ یقینا ہمارے اسلاف کی زندگیوں میں ہمارے لیے نصیحت ہے۔
اگر آپ بھی ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں جنہیںاللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے یہ احساس حاصل ہوا ہے کہ انہیں صنم شناسی سے خدا شناسی تک کا سفر شروع کرنا ہے تو تحریک دعوتِ فقر آپ کو موجودہ دور کے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دست ِ اقدس پر بیعت کی دعوت دیتی ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کے مریدین اس بات کے گواہ ہیں کہ آپ کی ذاتِ گرامی میں مرشد کامل اکمل کی تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اور جو طالب بھی حق کی طلب لے کر آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہے وہ ظاہر و باطن میں سنور گیا ہے۔
استفادہ کتب
الفتح الربانی۔تصنیف سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
شمس الفقرا۔ تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
حقیقت اسم اللہ ذات۔ ایضاً
سلطان العاشقین۔ناشرسلطان الفقر پبلیکیشنز