تجرید و تفرید
تحریر: فائزہ گلزار سروری قادری۔ لاہور
عام مشاہدہ کی بات ہے کہ میڈیکل، سائیکالوجی، بزنس، وکالت، انجینئرنگ یا کسی بھی دوسری فیلڈ کی اپنی مخصوص اصطلاحات (Terminologies) ہوتی ہیں جو کہ عام بول چال سے قدرے مختلف ہوتی ہیں لیکن اس مخصوص شعبہ کے ماہرین ان اصطلاحات سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔ فقر باطنی تعلیم کی سب سے اعلیٰ سند ہے اور دیگر علوم کی طرح فقر و تصوف کی بھی اپنی مخصوص اصطلاحات ہیں جنہیں اولیا اللہ اور فقرا کاملین بھی اپنا پیغام عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے اپنی کتب اور اپنے خطبات میں استعمال فرماتے رہے ہیں۔ اس میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اصل بات اُن لوگوں تک پہنچ جائے جو حق قبول کرنے والے ہیں اور جو لوگ اس کے متحمل نہیں ہوتے ان کی ناقص عقل کو وہ بات ناگوار بھی نہ گزرے۔
تجرید و تفرید بھی صوفیانہ اصطلاحات میں سے ہیں۔ عام اصطلاح میں تجرد سے مراد تنہائی اختیار کرنا ہے۔ حدیثِ قدسی میں ہے: تجرد (تنہائی) اختیار کر اور مجھے پالے۔
فقر میں تجرید سے مراد رہبانیت بالکل نہیں ہے۔ فقر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ورثہ ہے اوراس میں سنت ِ نبویؐ کی مکمل پیروی کی جاتی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تجرد باطنی طور پر اختیار کیا یعنی دل میں اللہ کے سوا کسی کو جگہ نہ دی جبکہ ظاہری طور پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دنیا کے تمام کام بطریق ِاحسن نبھائے۔ خواہ وہ رشتوں کو نبھانا ہو یا غزوات میں حصہ لینا، تجارت ہو یا امت کی تربیت۔ پس تجرد باطن میں غیر اللہ سے فنا حاصل کرکے اللہ تعالیٰ کے ساتھ موجود ہونے کا نام ہے جیسا کہ فرمانِ مصطفی ؐ ہے:
ترجمہ: میرے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک ایسا وقت بھی ہوتا ہے جہاں کسی مقرب فرشتے یا نبی و مرسل کی بھی گنجائش نہیں۔
تفرید ’فرد‘ سے مشتق ہے فرد کے معنی واحد کے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں طالب دوئی سے نکل کر وحدت میں قدم رکھتا ہے۔ بظاہر وہ عام لوگوں کی طرح رہتا ہے اور ان سے تعلق رکھتا ہے لیکن درحقیقت وہ مقام فردیت اور ربوبیت میں غرق ہوتا ہے۔
عام فہم زبان میں تجرید سے مراد یہ ہے کہ بندہ اپنے کسی بھی عمل میں دنیا و آخرت کی اغراض کو مدنظر نہ رکھے یعنی اس کے کسی فعل میں نہ کوئی دنیاوی غرض ہو اور نہ کوئی اُخروی غرض ہو، عظمت ِالٰہی سے اسے جو کشف حاصل ہو وہ اسے اللہ کی بندگی اور اطاعت میں صَرف کر دے اورتفرید کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے اعمال کو اپنا کمال نہ سمجھے، یہ نہ سوچے کہ جو کچھ اس نے کیا ہے وہ اس کے نفس کی تحریک و ترغیب کا حاصل ہے بلکہ اسے اللہ کا احسان سمجھے۔یہاں یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ تجرید اور تفرید اختیاری نہیں ہیں بلکہ مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ کی عطا ہیں یعنی کوئی خود سے ان مقامات کی گرد تک بھی نہیں پہنچ سکتا جب تک مرشد کامل اکمل کی نظر ِ کرم نہ ہو۔ تجرید میں طالب فنا فی اللہ کے مراحل طے کر رہا ہوتا ہے اور اس حالت میں اکثر اوقات طالب عام لوگوں کی نظر میں مجنوں، پاگل یا دیوانہ ہوتا ہے کیونکہ وہ ہر وقت اللہ کے مشاہدہ میں ہوتا ہے اور اس کی خواہش و رضا پر عمل پیرا ہوتا ہے۔
روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ ایک بار طواف کر رہے تھے اس دوران کسی نے انہیں سلام کیا لیکن انہوں نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ اس شخص نے آپؓ کے کسی دوست سے اس بات کا ذکر کیا۔ جب اس بات کی خبر حضرت عبداللہ بن عمرؓ تک پہنچی تو آپؓ نے جواب دیا ہم وہاں اللہ کا مشاہدہ کر رہے تھے۔
شیخ شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
٭ مقام فنا اور بقا وہ بلند مقام اور معزز ترین حال ہے جسے روحانیت کی منزلِ مقصود کہا جاتا ہے۔ اس عالی مقام اور معزز حال پر بندہ اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ اختیار سے نکلنے اور تدبیر کو ترک کرنے کے بعد اختیار کا مالک نہ بن جائے کیونکہ تدبیر کو ترک کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی ہستی کوفنا کردیا جائے (یہ مقام فنا ہے) اس کے بعد جب اللہ کی طرف سے تدبیر و اختیار اسے دوبارہ ملتے ہیں تو یہ مقامِ بقا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنی عارضی ہستی کو فنا کرکے حق تعالیٰ کے ساتھ شامل ہو گیا اس منزل پر پہنچ کر بندئہ حق میں ذرا بھی کمی باقی نہیں رہتی اور مقامِ عبودیت میں اس کا ظاہر و باطن دونوں متحقق اور درست ہو گئے اور وہ ظاہری اور باطنی علم و عمل سے معمور ہو گیا۔ اب مقامِ قرب پر پہنچ کر ذاتِ الٰہی کے سامنے عجز و فقر کا دامن تھامے ہوئے ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک کا مجسم ہو گیا ہے:
’’الٰہی تو مجھے یا میرے نفس کو ایک لمحے کے لئے اپنی کسی مخلوق کے سپرد نہ فرما ورنہ میں ضائع ہوجاؤں گا، تو میری اسی طرح حفاظت فرما جیسے ایک نومولود بچے کی حفاظت فرماتا ہے اور مجھے اکیلا نہ چھوڑ۔‘‘
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
٭ انسان اللہ کی ذات میں فنا ہو کر بشریت سے فارغ ہو جاتا ہے۔ جب وہ حالت ِ فنا سے واپس بقا کی حالت میں آتا ہے تو انسانِ کامل ہوتا ہے اور اس کی بشریت بھی کامل ہوتی ہے اس لیے اس کا ہر کام عبادت بن جاتا ہے۔
تجرید و تفرید اولیا اللہ کی نظر میں
سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
٭ تجرید سے مراد صفاتِ بشریت سے مکمل طور پر فنا حاصل کرنا اور ا س عالم میں صفاتِ الٰہیہ سے متصف ہو کر بقا حاصل کر لینا ہے۔ (سرالاسرار فصل 15)
حضرت شہاب الدین سہروردیؒ فرماتے ہیں:
٭ تجرید میں اغیار کی نفی ہے اور تفرید میں اپنے نفس کی نفی ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
٭ تجرید یہ ہے کہ طالب (سالک) ہر ایک مقام سے نکل کر تنہا ہو گیا۔ نفس اور شیطان سے اس نے خلاصی پائی۔ مقامِ حضور ہمیشہ اس کے مدِّنظر رہتا ہے۔ منظور ہو کر اس نے نفس ِ مطمئنہ حاصل کر لیا ہے اب اس مقام پر شیطان نہیں پہنچ سکتا (یہ مقامِ فنا فی اللہ ہے)۔
تفرید اسے کہتے ہیں کہ طالب فرد ہو بظاہر شب و روز عام لوگوں کی طرح رہتا بستا ہو اور ان سے تعلقات رکھتا ہو یعنی انسانوں کی طرح زندگی بسر کرتا ہو لیکن درحقیقت وہ مقامِ فردیت اور ربوبیت میں غرق ہو (یہ بقاباللہ اور انسانِ کامل کا مقام ہوتا ہے)۔ (شمس الفقرا)
فقر ایک منزل ہے، ہر منزل تک پہنچنے کے لئے مسافروں کو مختلف مقامات سے گزرنا ہوتا ہے، کہیں رک کر دم بھر کے لیے سانس لینا ہوتا ہے اور تازہ دم ہوکر سفر جاری رکھنا ہوتا ہے۔ تجرید اور تفرید بھی فقر کے بلند ترین مقام تک پہنچنے کے لئے دو مقامات ہیں جن تک پہنچے بغیر فقر کی سب سے اعلیٰ منزل توحید تک پہنچنا ناممکن ہے اور جب تک طالب مقامِ توحید میں داخل نہ ہو جائے اس کا معاملہ خطرے میں ہی رہتا ہے۔ بقول شاعر:
کھول آنکھ اپنی دیکھ عیاں حق کا نور ہے
ہر برگ و ہر شجر میں اسی کا ظہور ہے
جس جا نور حق کا ہووے تم پہ جلوہ گر
سمجھوں میں اس زمیں کو وہی کوہِ طور ہے
ساجد اٹھا قدم نہیں جائے قیام ہے
اپنا مقام جو ہے وہ منزل تو دور ہے
یعنی جو مقامِ تجرید و تفرید سے گزر کر کامل توحید تک نہیں پہنچتا اس کا معاملہ خطرے میں ہی رہتا ہے اور وہ کسی بھی مقام پر راہِ حق سے گمراہ ہو سکتا ہے یا درجات و مقامات میں پھنس کر اپنی نگاہ ذاتِ حق سے ہٹا سکتا ہے اسی لیے صوفیا کرام ہر لمحہ اپنی توجہ اور اپنا رُخ اس ذاتِ حقیقی کی طرف مبذول رکھنے کی ہی تلقین کرتے ہیں۔ اسی کے متعلق سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ اپنی کتاب سِرّالاسرار میں فرماتے ہیں کہ درجات کے تین طبقات ہیں:
1۔ پہلا طبق (اہل) عالم ِ ملک (عالم ِ ناسوت) کی وہ جنت ہے جسے جنت الماویٰ کہتے ہیں (اہل ِ ناسوت کی جنت سے مراد وہ جنت ہے جوان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے شریعت کے احکام پر اچھے طریقے سے رضائے الٰہی کے لیے عمل کیا لیکن قربِ الٰہی کی خواہش نہ کی اس لیے عالم ِ ناسوت میں ہی قید رہے اور قرب کے اگلے مقامات ملکوت، جبروت اور لاھوت تک رسائی حاصل نہ کی)۔
2۔ دوسرا طبق (اہل ِ) عالم ِ ملکوت کی وہ جنت ہے جسے جنت النعیم کہتے ہیں۔ (اہل ِ عالم ِ ملکوت وہ ہیں جنہوں نے زائد عبادات اور ورد و وظائف کے ذریعے ناسوت کی قید سے نجات حاصل کر لی اور ساتھ ساتھ تصوف کے اصولوں کو اپناتے ہوئے خواہشاتِ نفس سے کسی حد تک چھٹکارا حاصل کر لیا)۔
3۔تیسرا طبق (اہل ِ) عالم ِ جبروت کی وہ جنت ہے جسے جنت الفردوس کہتے ہیں۔ (اہل ِ عالم ِ جبروت وہ ہیں جنہوں نے طریقت کے احکام پر عمل کر کے تزکیۂ نفس اور تصفیہ ٔ قلب کے لیے جدوجہد کی اور فرشتوں جیسی نورانیت حاصل کر کے عالم ِ جبروت تک رسائی حاصل کر لی۔ البتہ قرب کی انتہا یعنی دیدار و لقائے الٰہی تک رسائی حاصل نہ کر سکے جو روحانی انسان کے لیے مخصوص ہے)۔
یہ نعمتیں جسمانی ہیں (یعنی ان لوگوں کے لیے جو روح کی بجائے جسمانی اعمال میں مصروف رہے اس لیے ان کی روحانیت ان کی جسمانیت پر غالب نہ آسکی)اور جسم اپنے عالم یعنی ان جنتوں کی طرف تین علوم علم ِ شریعت، علم ِ طریقت اور معرفت کے بغیر نہیں پہنچ سکتا۔ (سرّ الاسرار)
لیکن اے انسان! یہ طبقات بھی ایک دھوکہ ہیں۔ ان کا حصول تیری زندگی کا مقصد نہیں ہے۔ تو ان ساری چیزوں اور ان طبقات کے لیے نہیں پیدا کیا گیا ہے بلکہ یہ ساری چیزیں تیرے لیے پیدا کی گئی ہیں ان سے دھوکہ نہ کھانا اور یاد رکھنا کہ تو خالص اللہ تعالیٰ کی معرفت اوراس سے عشق کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ یہ دنیا تیرا مقام نہیں ہے بلکہ تیرا مقام تو تیرا ازلی وطن عالم ِ لاھوت، جنت ِ قرب اور وصالِ الٰہی ہے جس میں کسی قسم کی مخلوق کا داخلہ ہی نہیں ہے جہاں پر دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا حسین قرب اور وصال ہے۔اس کی نشاندہی میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
اَنَّ لِلّٰہِ جَنَّۃَ لَا فِیْھَا حُوْرٌ وَّلَا قُصُوْرٌ وَلَا عَسَلٌ وَلَا لَبَنٌ بَلَ اَنْ یَنْظُرَ اِلٰی وَجْہِ اللّٰہِ تَعَالٰی۔۔ (حدیث)
ترجمہ: اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک جنت ایسی بھی ہے جس میں نہ حوریں ہیں نہ محلات نہ شہد و دودھ (کی نہریں) بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کے چہرے کا دیدار ہے۔
دیدار اور معرفت کے بارے میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
مَانَظَرْتُ فِیْ شَیْئٍ اِلَّا وَرَاَیْتُ اللّٰہُ فَھُوَ فِیْہِ عِیْنٌ
ترجمہ: میں نے جس چیز کو دیکھا اس میں اللہ کو ہی دیکھا کیونکہ ہر چیز کی عین اللہ ہی ہے۔
جو انسان معرفت کے بغیر زندگی جی رہا ہے اسے اللہ تعالیٰ یوں مخاطب فرماتا ہے:
وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمیٰ۔(بنی اسرائیل۔72)
ترجمہ: جو شخص اس دنیا میں اندھا (یعنی دیدارِ الٰہی سے محروم) رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا۔ (سرّ الاسرار)
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان اور تنبیہ کے باوجود بھی لوگ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور پہچان کے راستے پر نہیں آتے تو وہ سراسر خود پر ظلم کر رہے ہیں۔ اس سے اللہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ بے نیاز ہے۔ اللہ ربّ العزت ہمیں اپنی پہچان اور معرفت کے راستے پر گامزن فرمائے اور ہر مقام سے بخیر و عافیت گزار کر منزل پر پہنچا دے۔ آمین
MURSHID KAREEM
❤❤❤❤❤
SUBHAN ALLAH
MA SHA ALLAH
JAZAK ALLAH