عاشقانِ رسول اور جشنِ میلاد النبیؐ
تحریر: نورین عبدالغفور سروری قادری ۔سیالکوٹ
اللہ کے اپنے بندوں پر بے حساب انعامات وا حسانات ہیں جن کا شکر بجا لانا ہم سب پر فرض ہے۔ ان میں سے سب سے بڑا احسان جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ فرمایا ولادت وبعثتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے۔ ماہِ ربیع الاوّل اس احسانِ عظیم کی عطا کا مہینہ ہے۔ اس ماہِ مبارک میں جان وروحِ کائنات، محبوب ربّ العالمین اور تاجدارِ کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس عالم ِ رنگ و بو میں تشریف لائے، اور اس ماہِ مقدس کے آتے ہی پورے عالمِ اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ عاشقانِ مصطفیؐ کے دل مسرت و شادمانی سے جھوم اُٹھتے ہیں۔ ہر ایک زبان پر اَللّٰھُمَّ صِلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کے پُر کیف نغمے جاری ہو جاتے ہیں۔ ہر آ نگن میں خد ا کی رحمتوں کا نزول ہونے لگتا ہے۔ اس ماہِ سعید میں فضا درود و سلام کے نعروں سے معمور ہو جاتی ہے اور ہر سُو رنگ و نور کی بارش برستی محسوس ہوتی ہے۔
عشق و محبتِ رسولؐ ہر مسلمان کے ایمان کا لازم جزو ہے۔ ماہ ِ میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں ہر مسلمان اپنے اپنے انداز میں محبتِ رسولؐ کا اظہار کرتا نظر آتا ہے۔ کوئی سجود و قیام سے شکر اِیزدی بجا لاتا ہے تو کوئی کثرت سے درود و سلام پڑھتا ہے۔ کوئی جلسہ ٔ عام کرتا ہے تو کوئی جلوس کا اہتمام کرتا ہے، کوئی محفل ذکر ِ خیر الانام کرتا ہے تو کوئی غریبوں کی ضیافت کا اہتما م کرتا ہے اور بہت سے خوش نصیب اپنے گھر اور گلی کوچوں کو قمقموں سے سجا کر اپنی بے پنا ہ خوشی اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس ایمانی و وجدانی ماحول میں فضا ’’آمدِمصطفیؐ، مرحبا مرحبا‘‘ کے دل آویز نعروں سے گونج اُٹھتی ہے۔
تاریخ کے آئینے میں دیکھا جائے تو خیر القرون سے لے کر آج تک ہر دور کے مسلمان اپنے اپنے انداز میں عید میلاد النبیؐ کی خوشیاں مناتے چلے آرہے ہیں۔ لفظ میلاد ’’ولادت ‘‘ سے ہے اور عید سے مراد خوشی ہے اور عید میلاد النبیؐ سے مراد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ولادت با سعادت کی خوشی منانا ہے۔
میلاد کا سب سے پہلا اجتماع عالمِ ارواح میں اللہ تعالیٰ نے خود منعقد فرمایا جس میں حاضرین و سامعین تمام انبیا علیہم السلام تھے اور اس محفل کا مقصد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظمت، فضائل اور شمائل کا بیا ن تھا۔ اس محفل کا تذکرہ قرآنِ پاک میں ان الفاظ میں کیا گیا:
ترجمہ: اور (اے محبوبؐ) وہ وقت یاد کرو جب اللہ نے انبیا سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب سے عظمت والا) رسولؐ تشریف لائے جواُن کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور اُن پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور اُن کی مدد کرو گے۔ فرمایا! کیا تم نے اقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب (انبیا ) نے عرض کیا ہم نے اقرار کر لیا۔ فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔ (آلِ عمران۔81)
اس آیتِ کریمہ سے ثابت ہواکہ ذکرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے محفل کا انعقاد سنتِ الٰہیہ ہے اور سب سے پہلی محفل خود اللہ پاک نے منعقد فرمائی۔ ارشاد ِ ربانی ہے :
ترجمہ: ’’اے اہلِ کتاب! بے شک ہمارے (یہ) رسول ؐ تشریف لائے ہیں جو تمہارے لیے بہت سی ایسی باتیں ( واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے درگزر (بھی) فرماتے ہیں۔ بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمدؐ) آ گیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآنِ مجید) ‘‘۔ (المائدہ۔15)
ولادتِ باسعادت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے بزمِ کائنات میں جشن کا سماں پید افرما کر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے عشق و محبت کا اظہار فرمایا۔ وہ محبوبؐ جن کے متعلق فرمایا گیا:
٭ لولاک لما اظہرت الربوبیۃ
ترجمہ: اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! اگر آپؐ نہ ہوتے تو میں اپنا ربّ ہونا ظاہر نہ کرتا۔
٭ لولاک لما خلقت الافلاک
ترجمہ: اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ! اگر آپؐ نہ ہوتے تو میں کائنات کو پیدا نہ کرتا۔
جس محبوبؐ کی خاطر اللہ تعالیٰ نے کائنات تخلیق کی‘ اُن کی ولادت کی خوشی بھی اللہ ربّ العزت نے سب سے بڑھ کر منائی۔ احادیث کے مطابق ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کو معطر و منور کر دیا۔ ستاروں کو نیچے اتا رکر دنیا میں چراغاں کیا گیا۔ مشرق سے مغرب تک پوری زمین نور بنا دی گئی۔ حتیٰ کہ حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا نے شام کے محلات دیکھ لیے۔ آسمان اور جنت کے دروازے کھول کر عالم ِبالا کو خوشبوؤں سے مہکا دیا گیا۔ مشرق و مغرب میں اور کعبہ کی چھت پر پرچم لہرا دئیے گئے۔ ستر ہزار حورانِ بہشت کو استقبال کے لیے فضا سے زمین پر نیچے اتارا گیا اور ان میں سے کئی حضرت آمنہ ؓ کے گھر پر مامور کی گئیں۔ ہزارہا فرشتوں کو بھی استقبال پر مامور کر دیا گیا۔ وقتِ ولادت حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کو مبارکبادی کا جنتی مشروب پلایا گیا۔ شبِ ولادت قریشِ مکہ کے سب جانوروں کو بھی عید میلاد النبی ؐ کی خوشی کے اظہار کے لیے زبان دے دی گئی۔
ولادتِ مصطفیؐ کی خوشی میں اللہ باری تعالیٰ نے سال بھر عرب کی عورتوں کو بیٹے عطا فرمائے تاکہ اس سال عرب میں جاہلیت کے دستور کے باعث کوئی بیٹی ناحق قتل نہ ہو۔ جنت میں نہر ِ کوثر کے کناروں پر ستر ہزار عطر بیز درخت اگائے گئے اور انہیں پھلوں سے لادا گیا۔ میلادِ مصطفی ؐ کی خوشی میں عرب کے درختوں کو پھلوں سے لاد دیا گیا۔ سوکھے ہوئے کھیت ہرے بھرے ہو گئے اور قحط کو ہریالی و شادابی میں بدل دیا گیا۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے جشن ِ ولادت کو منانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
جب کہ سرکارؐ تشریف لانے لگے
حور و غِلماں بھی خوشیاں منانے لگے
ہر طرف نور کی روشنی چھا گئی
مصطفیؐ کیا ملے زندگی مل گئی
اے حلیمہ تیری گود میں آگئے
دونوں عالم کے رسولؐ، اللہ ہی اللہ
حدیث مبارکہ ہے کہ :
ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت کی خوشخبری ابو لہب کو سنائی تو اس نے انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے لونڈی سے کہا ’’جاؤ آج سے تم آزاد ہو‘‘۔ پھر جب وہ حالت ِ کفر میں مر گیا تو ایک مرتبہ حضرت عباس ؓ کے خواب میں آیا اور کہنے لگا کہ تم سے جدا ہوکر سخت عذاب سے دو چار ہوں بس سوموار کے دن اس انگلی سے سیراب کیا جاتا ہوں ( جس کے اشارے سے لونڈی کو آزاد کیا تھا)۔ (صحیح بخاری)
اگر ابو لہب جیسا کافر آپؐ کو صرف بھتیجا سمجھ کر آپؐ کا میلاد منائے تو اسے بھی سیراب کیا گیا تو اس اُمتی کی کیا شان ہو گی جو آپؐ کو نبیؐ اور اللہ تعالیٰ کا حبیب سمجھ کر عشق و محبت سے میلاد کا جشن مناتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میں اللہ کا بندہ اور اس وقت سے خاتم النبیین ہوں جبکہ آدم علیہ السلام ابھی مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں، میں اپنی والدہ کا چشم دید واقعہ ہوں کہ دیگر انبیا کی طرح میری والدہ نے میری ولادت پر ایک نور دیکھا جس کی روشنی سے ملک شام کے محلات دکھائی دیئے۔‘‘(مسند احمد، دلائل النبوۃ ، مستدرک)
سرورِ کائنات رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت با سعادت سے ایک ہزار سال قبل کی بات ہے کہ یمن کا بادشاہ تبع الحمیری بڑے جاہ و جلال اور شان و شوکت کا حامل تھا۔ وہ اپنی عقل و ذہانت کی وجہ سے صدیوں ممتازِ جہاں رہا۔ تبع الحمیری ان پانچ بادشاہوں میں سے ایک تھا جنہوں نے کائناتِ ارضی پر قبضہ جما رکھا تھا۔ اس دور میں بھی اس کے لشکر میں ایک لاکھ 33 ہزار سوار اور ایک لاکھ 13 ہزار پیدل سپاہی شامل تھے۔ یہ بادشاہ ایک بار اپنے لشکر کے ساتھ گرد و نواح کے علاقوں کو فتح کرنے کے لیے یمن سے نکلا اور فتوحات کے جھنڈے گاڑتا ہوا جب مکہ مکرمہ پہنچا تو اہلِ مکہ اس سے کسی طرح بھی مرعوب نہ ہوئے۔ اس صور تِ حال سے بادشاہ بہت غضبناک ہوا۔ وزراء میں سے کسی نے بتایا :
’’یہ اہلِ عرب اپنی عظمت پر نازاں ہیں اور چونکہ اس شہر میں کعبۃ اللہ ہے جسے بیت اللہ کہا گیا ہے اس لیے وہ اس کے پاسبان ہونے کے ناطے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔‘‘ یہ سن کر بادشاہ نے شہر مکہ کو تباہ و برباد کرنے کا ارادہ کر لیا اور قتلِ عام کا حکم دے دیا۔ لیکن اس حکم کے جاری ہوتے ہی بادشاہ کو ایک پراسرار بیماری نے آلیا اور اس کے کان، ناک اور منہ سے خون بہنے لگا اور سر کے درد سے بے حال ہو کر موت کے منہ سے جا لگا اور کوئی بھی طبیب اس کا علاج نہ کر سکا۔ ایک صاحب ِ بصیرت شخص نے کہا میں بادشاہ کا علاج کر سکتا ہوں بشرطیکہ جو بھی سوال کروں اس کا مجھے درست جواب دیا جائے۔ یہ صاحبِ بصیرت شخص بادشاہ سے مختلف سوال کرتا رہا۔ جب بادشاہ نے کعبۃ اللہ کو مسمار کرنے اور اہلِ مکہ کے قتلِ عام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو اُس دانا آدمی نے کہا:
’’باد شاہ سلامت! یہی تمہاری اصل بیماری ہے جس نے تمہیں کئی دنوں سے مبتلائے عذاب کر رکھا ہے۔ اس خیالِ خام کو دل سے نکال دو کیونکہ اس گھر کا مالک اللہ تعالیٰ ہے جس نے اس کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے۔‘‘ بادشاہ نے یہ سن کر اپنے ارادے کو ترک کر دیا اور سچے دل سے توبہ کی اور اسے فوراً پر اسرار بیماری سے نجات مل گئی۔ پھر بادشاہ نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور اہلِ مکہ کو بہت بڑی ضیافت دی۔ کعبۃ اللہ کے لیے غلاف تیار کروایا اور کعبہ سے تما م بتوں کو نکلوا دیا اور خوب تزئین و آرائش کی۔ پھر دوبارہ سے اپنی مہم پر چل نکلا اور یثرب آپہنچا۔ بادشاہ تبع الحمیری اہل ِ یثرب پر حملہ کرنا چاہتا تھا لیکن اہلِ یثرب نے مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے شہر کے دروازے بند کر دئیے اور قلعہ بند ہو گئے۔ کئی ماہ یونہی گزر گئے اور بادشاہ کو کامیابی نہ مل سکی۔ ایک صبح اسے اپنے لشکر کے خیموں سے کھجو ر کی گٹھلیاں ملیں تو حیران ہوا کیونکہ اس کے زادِ راہ میں کھجو رو ں کانام و نشان تک نہ تھا۔ اہل ِ لشکر سے استفسار کیا تو پتہ چلا کہ اہلِ یثرب شہر کی فصیل کے اوپر سے کھجوروں سے بھری ہو ئی بو ریا ں پھینک دیتے ہیں۔ با دشاہ بہت حیران ہوا کہ وہ اہل ِ یثرب کو مارنا چاہتا ہے اور اہل ِ یثرب اس کے لشکر کی مہمان نوازی کر رہے ہیں۔ بادشاہ نے پریشانی کو حل کرنے کیلئے اکابرین کو اہل ِ یثرب کے پا س بھیجا۔ اہل ِیثرب نے کہا:
’’ہم دور دراز علا قوں سے آ کر یہاں آباد ہوئے ہیں ہم میں سے کسی کا تعلق خیبر سے ہے اورکسی کا کسی دوسرے علا قے سے ‘ کو ئی شام سے آیا ہے اورکو ئی مصر سے ‘ لیکن ہم یہو دی ہیں۔ ہم نے توریت اور زبور الہا می کتا بو ں میں پڑھا ہے کہ یہا ں نبی آخر الزما ں آنے والے ہیں اورہم یہاں رہ کر ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہماری کتب اور صحائف ِ آسمانی کے مطابق پیغمبر آخر الزماں حلیم وکریم اور شفیق و مہربان ہونے کے ساتھ ساتھ مہمان نواز بھی ہوں گے۔ اس لیے ہم ان جیسی صفا تِ کریمہ سے متصف ہونے کی کو شش کر رہے ہیں۔ بادشاہ تبع الحمیری اہل ِ یثرب کی باتوں اور حسن ِسلوک سے بہت متاثر ہوا اور اس کا دل پگھل گیا۔ وہ ا س بات سے بے انتہا اثر پذیر ہوا کہ وہ پیغمبر ابھی مبعوث بھی نہیں ہوئے لیکن ان کے اوصافِ کریمہ پر لوگو ں نے عمل بھی شروع کر دیا ہے۔ وہ روتا جاتا اور کہتا تھا کہ کاش وہ اس نبی کریمؐ کے دور میں ہوتا اور ان پر ایمان لا کر سرخرو ہوتا اور اپنی قوم کے مظالم سے تنگ آ کر جب وہ یہا ں تشریف لاتے تو ان کی خدمت کرتا۔ بادشاہ تبع الحمیری نے اہلِ یثرب سے اجازت مانگی کہ وہ اس شہر محبو ب کی گلیو ں ‘ بازاروں اور مکانوں کی زیارت کر سکے۔ وہ دل گرفتہ جلو س کے ساتھ یثرب کے بازاروں اور گلیوں میں گھومتا رہا۔ اس کے شوقِ فراواں اور ذوقِ بے پایاں کا عالم تھا کہ درد سے لبریز اور سوز سے معمور اشعار پڑھنے لگا۔ مؤرخین بتاتے ہیں کہ ’’یا محمدؐ ‘ یامحمدؐ‘‘ کے نعرے لگائے گئے اور اہلِ یثرب حضور پُر نور کو یاد کر کے بے حد روئے۔ تا ریخِ عالم میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کایہ پہلا جلوس تھا جو سرورِ کائنا ت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت باسعادت سے ایک ہزار برس قبل اس شہر میں نکلا جہا ں آپؐ تشریف لانے والے تھے۔ تبع الحمیری نے اس کے بعد یثرب کو صاف کرایا۔ عالی شان اور خو بصورت عمارات تعمیر کروائیں۔ وہ ہمیشہ کے لیے ہی ان کا ہونا چاہتا تھا اور نبی آخرالزماں ؐ کا انتظار کرنا چاہتا تھا لیکن یمن میں بغاوت کے با عث اُسے واپس جانا پڑا۔ لیکن اس نے چار سو علما کو مکانات بنوا کر دئیے اور نبی آخر الزماںؐ کے نام ایک خط لکھ کر با دشاہ کے حوالے کیا اور تاکید کی کہ اگر اسے نبی آخر الزماںؐ کا دیدار نصیب ہو تو یہ خط بصد ا حترام انہیں پیش کر دے اور اگر اسے یہ سعادت نصیب نہ ہو سکے تو اپنی اولاد کو تاکید کر دے اور یوں نسلاً بعد نسل وہ خط حضرت ایوب انصاریؓ کے پاس پہنچا۔ یہی وجہ تھی کہ مدینہ میں تشریف آوری کے وقت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اونٹنی حضرت ایو ب انصاریؓ کے گھر کے سامنے بیٹھ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہیں پر قیام کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مکان میں نہیں اترے بلکہ اپنے مکا ن میں اترے تھے تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ یہ مکا ن ایک ہزار سال قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے ہی تعمیر کروایا گیا تھا اور ایک سچے عاشقِ رسولؐ کی یہ آرزو تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہاں قیام فرمائیں۔ اہلِ یثرب کو تمام اعزازات اور مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پہلے عاشق تبع الحمیری کی بدولت حاصل ہوا جس نے جلوس کی صورت میں میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم منانے کی اوّلین سعادت حاصل کی تھی۔
یہ تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت سے قبل جشنِ میلاد منانے کا واقعہ ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس دنیا میں جلوہ افروز ہونے کے بعد بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت کے روز خوشی کا اظہار فرماتے تھے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہؓ کے اس عمل کو ہمیشہ پسند فرمایا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ظاہری دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی ہر دور میں اہلِ عقیدت و محبت اپنے اپنے انداز میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یومِ ولادت کی خوشی مناتے آ رہے ہیں۔
حجۃ الدین امام محمد بن ظفر المکیؒ کہتے ہیں کہ الدرالمنتظم میں ہے ’’اہلِ محبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے میلاد کی خوشی میں دعوتِ طعام منعقد کرتے چلے آرہے ہیں۔ قاہرہ کے جن لو گو ں نے محبت وعشق سے بڑی بڑی دعوتو ں کا اہتما م کیا ان میں شیخ ابو الحسنیؒ بھی ہیں جو کہ ابن قفل قدس اللہ تعالیٰ سرہٗ کے نا م سے مشہور ہیں۔‘‘
شیخ امام ابو شامہؒ فرما تے ہیں ’’ہمارے زما نے کی اچھی ایجادوں میں وہ افعال ہیں جو مولد النبیؐ کے دن کیے جاتے ہیں یعنی صدقات ‘ بھلائی کے کام ‘ زینت و سرور کااظہا ر کیو نکہ اس میں فقرا کے ساتھ احسان کرنے کے علا وہ اس با ت کا شعار ہے کہ میلا د کرنے والے کے دل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت اور تعظیم ہوتی ہے اوروہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے جو اس نے رحمتہ العالمین کو پیدا فرما کر ہم پر احسان فرما یا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒکے والد گرامی شاہ عبدالرحیم دہلویؒ فرماتے ہیں ’’میں ہرسال حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے میلاد کے دن کھانے کا اہتمام کرتا تھا لیکن ایک سال بو جہ غربت کھانے کا اہتمام نہ کرسکا تو میں نے کچھ بھنے ہو ئے چنے لے کر میلا د کی خوشی میں لوگو ں میں تقسیم کر دئیے۔ رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے وہی چنے پڑے ہوئے ہیں اور آپؐ خوش و خرم تشریف فرما ہیں۔‘‘
شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ فرماتے ہیں ’’ماہِ ربیع الاوّل کی برکت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے میلاد شریف کی وجہ سے ہے۔ جتنا اُمت کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگا ہ میں ہدیہ ٔ درود و سلام اور طعام کا نذرانہ پیش کیا جا ئے اُتنا ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی برکتوں کا اُن پر نزول ہوتا ہے۔‘‘
سلطا ن الفقر ششم حضرت سخی سلطا ن محمد اصغر علیؒ فرما تے ہیں ’’ہماری خواہش ہے کہ ساری زندگی اپنے آقا و مولا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعریف و نعت سنتے رہیں اور یہی ہما ری زندگی ہے۔ عشقِ مصطفیؐ کے بغیر زندگی فضول ہے۔‘‘ آپؒ باقاعدگی سے ہرسال دو مرتبہ میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظیم الشان محافل منعقد کیا کرتے تھے جس میں آپؒ کی طرف سے وسیع اور عالیشان لنگر کا اہتمام کیا جاتا۔ اس کے علاوہ ساراسال آپؒ جہاں بھی موجود ہوتے وہیں محفلِ میلا د شروع ہو جاتی۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطا ن محمد نجیب الرحمن مدظلہ الا قدس سلسلہ سروری قادری کے موجودہ شیخِ کامل ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس ہر سال 12 ربیع الاوّل کے موقع پر میلادِ مصطفیؐ شاہانہ انداز میں خانقاہ سروری قادری میں منعقد فرماتے ہیں جس میں حاضرین کے لیے وسیع اور عالیشان لنگر کا اہتمام کیا جاتا ہے اور سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنے دستِ مبارک سے طالبانِ مولیٰ کو اسمِ محمدؐ عطا فرماتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کے زیر ِ سایہ بہت سے طالب عشقِ مصطفیؐ اور لقائے الٰہی کی دولت سے فیضاب ہورہے ہیں۔
نگاہِ مرشد سے عشقِ مصطفیؐ حاصل
خدا کا قرب دیتی ہے محبت پیر خانے کی
آپ مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر اور تعریف عبادت ہے اور درود شریف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعریف کا دو سرا نام ہے۔
جب عالمِ اسلام خلافت کی صورت میں متحد تھا تو خلافتِ عثمانیہ تک عید میلاد النبیؐ بڑی عقیدت و احترام اور شان وشوکت سے تمام عالمِ اسلام میں منائی جاتی رہی ہے اور جب عالمِ اسلا م بکھر گیا تو اُمت بھی بکھر گئی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اُمت کو پھر سے متحد فرمائے اور قومیت و عصبیت کے گرداب سے نکال کر واحد مسلم اُمت بنائے۔ آمین