تخلیق ِ کائنات .سائنس اور قرآنی تعلیمات کی روشنی میں
تحریر: فاطمہ برہان سروری قادری۔ لاہور
انسانی ضروریاتِ زندگی کا اگر خلاصہ کیا جائے تو انسان دو طرح کی ضروریات کا تقاضا کرتا ہے ایک مادی ضروریات ہیں اور دوسری روحانی۔ یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان دو طرح کا وجود رکھتا ہے مادی وجود اور روحانی وجود‘ اور دونوں کی اپنی اپنی ضروریات ہیں۔ انسان خواہ کتنا ہی ترقی یافتہ ہو جائے اس کا روحانی وجود اس سے روحانی و قلبی سکون کے لیے ’’مذہب‘‘ کو مانگتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے مادی ضرورتوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے انسان کی روحانی تشنگی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور اس پیاس کو بجھانے کا واحد راستہ مذہب دکھاتا ہے۔ اس مضمون کا مقصد سائنس کے منفی اور مذہب کے مثبت دلائل کو ہرگز پیش کرنا نہیں بلکہ اس اہم دلیل کو ضروراجاگر کرنا ہے کہ کائنات کی پراسراریت کو جاننے کے لیے سائنس نے جو تحقیق اور دریافتیں آج کی ہیں ان کے متعلق چودہ سو سال پہلے ہی قرآنِ حکیم فرقانِ حمید نے ہمیں آگاہ کردیا تھا۔
تخلیق کائنات اور قرآن ایک وسیع موضوع ہے اس کو ایک مضمون میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ اس لیے چند دریافتوں کو مضمون میں شامل کیا گیا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1 ۔ نشاطِ ثانیہ سے پہلے کا دور (سائنسی دریافتوں کو زیر غور لانے سے پہلے سائنسی پس ِ منظر کو جانناضروری ہے)۔
2 ۔ وسعت پذیر کائنات۔
3 ۔ ابتدائی مادے کا اکائی یا نکتے کی صورت میں موجود ہونا اور عظیم دھماکے کا نظریہ۔
4 ۔ آسمان اور زمین جڑے ہوئے تھے۔
5 ۔ کائنات لپیٹ دی جائے گی۔
6 ۔ نئی کائنات کا ظہور ( Super Space )
1 ۔ نشاطِ ثانیہ (Renaissance) سے پہلے کا دور
نشاطِ ثانیہ(علوم و فنون کے احیا کا زمانہ، پھر زندہ ہونے کی کیفیت، یورپی بیداری، ایک ثقافتی تحریک جو چودھوویں سے ستارھویں صدی تک جاری رہی۔) سے پہلے ایک ہزار سال تک عیسائی کلیسا کی یورپ پر حکمرانی تھی۔ یہ وہ دور تھا جس میں سائنسی ترقی بالکل منجمد ہو چکی تھی۔ توہم پرستی، عدم رواداری اور کٹر مذہبی خیالات کو فروغ حاصل تھا۔ اگر کوئی شخص سائنسی دلیل کے ذریعے قدرتی نظام کو بیان کرنے کی کوشش کرتا یا وہ سائنسی دلیل عیسائی روایات کے خلاف ہوتی تو اس شخص کو سخت سے سخت سزا دی جاتی۔ تمام اختیارات کلیسا کو حاصل تھے۔ انہوں نے آزاد خیالی اور جدت پسندی جیسے ہر عنصر کو تعلیمی نظام سے بالکل خارج کر دیا تھا بلکہ اسے ناجائز قرار دے دیا تھا۔
سائنس اور مذہب کے مابین یہ جنگ تقریباً دو صدیوں تک جاری رہی لیکن اس کے بعد آہستہ آہستہ عیسائی کلیسا کی حکمرانی کمزور پڑنے لگی اور مذہب کا عمل دخل ان کی زندگیوں سے ختم ہونے لگا۔ سائنس نے جو کچھ بھی بیان کیا وہ تجربات اور منطقی دلائل کی روشنی میں کیا اور یہی طریقہ کار عوام الناس کے دلوں پر راج کرنے لگا۔ عربی کا ایک محاورہ ہے ’’کل جدید لذیز‘‘ جس کے مطابق ہر نئی چیز لذیز ہوتی ہے۔ اس گھٹن بھرے ماحول سے نکل کر سائنس نے اپنی ترقی کا راستہ ہموار کیا۔ سائنس اور مذہب کے مابین صلح کا راستہ لادینیت (Secularism) کی صورت میں نکلا جس کے بعد دونوں کی حدود متعین ہو گئیں، دائرے علیحدہ علیحدہ ہو گئے۔ نہ خدا کی ضرورت رہی نہ کسی مذہب کی۔ (قرآنِ کریم کے سائنسی انکشافات)
دین ِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات
قرآنِ مجید ہمارے لیے مکمل رہنمائی کا سامان مہیا کرتا ہے اور یہی دنیوی اور اخروی زندگی میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ سائنس اور مذہب کے مابین جو ہولناک پس ِ منظر بیان کیا گیا ہے اس کے برعکس دین ِ اسلام سائنس اور مذہب کے مابین موافقت کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ گویا اسلام ایک طرح سے پل کے طور پر کام کرتا ہے جس پر چل کر ہم قدرت کے عظیم شاہکاروں اور حیرت انگیز نظام کی دلفریبی اور دلنشینی پر سبحان اللہ کی صدائیں بلند کر سکتے ہیں۔
علامہ سیوطی ؒ اس کے متعلق لکھتے ہیں:
’’کتابِ خداوندی ہر چیز کی جامع ہے، کوئی علم اور مسئلہ ایسا نہیں جس کی اصل و اساس قرآنِ کریم میں موجود نہ ہو۔ قرآن میں عجائب المخلوقات، آسمان و زمین کی سلطنت اور عالم ِعلوی و سفلی سے متعلق ہر شے کی تفصیل موجود ہے جن کی شرح و تفصیل کے لیے کئی جلدیں درکار ہیں۔‘‘ (قرآنِ کریم کے سائنسی انکشافات)
2 ۔ وسعت پذیر کائنات
پہلے پہل ماہرین ِفلکیات میں یہ نظریہ عام تھا کہ کائنات ازلی اور ساکن ہے۔ کائنات کا مطالعہ کرتے ہوئے سائنس دان خیال کرتے تھے کہ کائنات ایک مادی شے ہے اور اس کی کوئی ابتدا نہیں۔ مطلب یہ ’’تخلیق‘‘ کا کوئی مرحلہ نہیں تھا۔ (قرآنِ کریم کے سائنسی انکشافات)
مادہ پرستوں کا یہ نظریہ کہ ’’کائنات ہمیشہ سے موجود ہے‘‘ اس نظریے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کائنات کے تخلیقی پہلو کو نظر انداز کر کے خدا کے وجود کو انکار کرنے کا جواز پیدا کیا جاسکتا تھا۔جدید فلکیات کی تاریخ میں 1920 سے 1930 کا عشرہ بہت اہم تھا۔
روسی طبیعات دان الیگزینڈر فرائڈمین
1922 میں الیگزینڈرفرائڈمین (Alexander Friedmann) نے آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کی روشنی میں حساب کتاب لگا کر بتایا کہ کائنات ساکن (static) نہیں ہے۔ (قرآنِ کریم کے سائنسی انکشافات)
فرائڈمین کی تحقیق تسلیم کرنے والا پہلا شخص جیورجس لیمترے (Georges Lemaitre) تھا۔ اس نے بتایا کہ کائنات کا ایک نقطہ آغاز تھا اور یہ اس طرح پھیل رہی ہے جیسے کسی چیز نے اسے پھیلنے پر مجبور کیا ہے۔ (قرآنِ کریم کے سائنسی انکشافات)
ایڈون ہبل (Edwin Hubble ) نامی امریکی سائنس دان کیلیفورنیا میں واقع ’’ماؤنٹ ولسن‘‘ رصد گاہ سے دور دراز ستاروں کا مشاہدہ کر رہا تھا اس نے حیرت انگیز بات محسوس کی کہ ان ستاروں سے آنے والی روشنی بھی اتنی ہی زیادہ سرخی مائل تھی۔ اس دریافت سے جسے بعد میں ’’سرخ منتقلی‘‘ کے نام سے شہرت حاصل ہوئی‘ یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جو ستارہ ہم سے جتنا دور ہے وہ اتنا ہی تیزی کے ساتھ ہم سے مزید دور جا رہا ہے بلکہ ایک دوسرے سے بھی دور ہو رہے ہیں۔ یعنی کائنات پھیل رہی ہے۔ (قرآنِ کریم کے سائنسی انکشافات)
وسعت پذیر کائنات کا قرآنی نظریہ
قرآنِ مجید نے کائنات کی وسعت پذیری کا اصول سورۃ فاطر میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
ترجمہ: تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کو بنانے والا ہے وہ اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے بڑھاتا جاتا ہے۔ بیشک اللہ ہر شے پر قادر ہے۔ (فاطر1 )
اس نظریے کو قرآنِ حکیم نے سورہ الذاریات میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ یوں بیان فرمایا ہے:
ترجمہ: اور ہم نے آسمان (کائنات کے سماوی طبقات) کو طاقت (توانائی) سے بنایا ہے اور بلاشبہ ہم کائنات کو پھیلاتے چلے جا رہے ہیں۔ (الذاریات47)
سورۃ النحل میں ارشاد ہوا ہے۔
ترجمہ: اور وہ پیدا فرماتا ہے جسے تم نہیں جانتے۔ (النحل8)
3 ۔ ابتدائی مادے کا اکائی کی صورت میں ہونا اور عظیم دھماکے کا نظریہ
صدیوں کی تحقیق کے بعد جدید علم کونیات (Cosmology)، علم فلکیات (Asrtonomy) اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مادی کائنات کی ابتدا ایک صفر درجی جسامت کی اکائیت سے ہوئی ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے اس نظریے کو اپنی کتاب میں یوں تحریر کیا ہے:
1965 میں دو امریکی سائنس دانوں آرنوپنزیاس (Arno Penzias) اور رابرٹ ولسن( Robert Wilson) نے کائناتی پس منظر کی شعاع ریزی (Cosmic Microwave Background Radiation) دریافت کی اور یہ ثابت کیا کہ ساری کائنات کا آغاز ایک اکائی سے ہوا۔ اسے انہوں نے مختصر ترین کائناتی انڈے (Minute Cosmic Egg ) کے نام سے موسوم کیا جو اپنے اندر بے پناہ توانائی رکھتا ہے۔ وہ اچانک ایک دھماکے سے پھٹا (جسے بگ بینگ کہا جاتا ہے) جس کے نتیجے میں اس کائنات کا مختلف الاقسام مادہ تخلیق پایا اور بعد ازاں مختلف کہکشائیں تخلیق پائیں۔ (تخلیق و توسیع کائنات کا قرآنی نظریہ)
کائنات کی ابتدا اور عظیم دھماکے کے متعلق قرآنی نظریہ
ابتدائی اکائیت کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: (سب) ایک اکائی (singularity) کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے انہیں پھاڑ دیا۔(الانبیا۔ 30)
عظیم دھماکے کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) فرما دیجئے کہ میں (ایک) دھماکے سے انتہائی تیزی کے ساتھ (کائنات کو) وجود میں لانے والے ربّ کی پناہ مانگتا ہوں۔ ہر اُس چیز کے شر (اور نقصان) سے جو اس نے پیدا فرمائی ہے۔ (الفلق1-2)
4 ۔ آسمان اور زمین جڑئے ہوئے تھے
انسانی تاریخ کے لیے کس قدر حیرت انگیز بات ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے جب فلک بینی کے آلات بھی موجود نہیں تھے اُس وقت قرآنِ کریم نے جو باتیں بیان فرمائی تھیں سائنس حال ہی میں ان باتوں کا انکشاف کر پائی ہے کہ زمین اور آسمان جڑے ہوئے تھے۔
اربوں سال پہلے بگ بینگ نامی دھماکہ ہو اجس کے نتیجے میں آگ کا ایک بگولہ پید ہوا پھر اس بگولے کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے پھر بگولے نے ٹھنڈا ہو کر زمین بنائی اور اس بگولے میں موجود گیسوں اور بھاپ نے ٹھنڈا ہو کر آسمان (خلا) بنایا یعنی بگولے میںخلا (آسمان) و زمین دونوں باہم ملے ہوئے تھے مگر بعد میں الگ ہو گئے۔ (قرآن کریم کے سائنسی انکشافات)
اس نظریے کو قرآنِ مجید نے یوں بیان فرمایا ہے:
ترجمہ:سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کیا۔ (انبیا۔3)
ترجمہ: کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے۔ پس ہم نے انہیں پھاڑ کر جدا کر دیا اور ہم نے (زمین پر) ہر زندہ چیز (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (ان حقائق سے آگاہ ہو کر) اب بھی ایمان نہیں لاتے۔ (الانبیائ3)
سائنسی ریسرچ کے مطابق اگر آسمان کی طرف نظر کی جائے تو ہمیں سات آسمانوں کی لیئرز (Layers) نظر آتی ہیں۔ قرآن نے اس حقیقت پر ان الفاظ کے ساتھ مہر لگائی ہے:
ترجمہ: پھر وہ (کائنات کے) بالائی حصوں کی طرف متوجہ ہوا تو اسے درست کر کے ان کے سات آسمانی طبقات بنا دیئے اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ (سورہ البقرہ29)
5 ۔ کائنات کے تجاذبی انہدام کا قریبی جائزہ
کائنات ایک تخلیق کردہ شے ہے اور اس کا خالق و مالک ربّ تعالیٰ کی ذات ہے جو قادرِ مطلق ہے۔ کائنات کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح پیدا فرمایا اور یہ کس طرح لپیٹ دی جائے گی اور اُس وقت کیساحال ہو گا، قیامت کیسے رونما ہو گی یہ سب بھی قرآنِ مجید میں بیان ہو چکا ہے۔
طویل عرصہ گزر جانے کے بعد آج سائنس اور ماہر فلکیات اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کائنات تجاذبی انہدام کا شکار ہوگی اور سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ کائنات ایک صفر درجہ اکائی سے زور دار دھماکے کے بعد پھیلنا شروع ہوئی اس دھماکے کو Big Bang کے نام سے موسوم کیا جا تا ہے وہ رونما ہوگا جس کے باعث کائنات دوبارہ ایک نقطے یا صفر درجہ اکائی کی صورت میں تبدیل ہو جائے گی۔
’’Bing Bang ‘‘ کے اس واقعے کو تصنیف’’ تخلیق و توسیع کائنات کا قرآنی نظریہ‘‘ میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
’’ہماری مادی کائنات جس کا آغاز 11 سے 20 ارب سال پہلے ہوا تھا‘ اس کا انجام تقریباً 80 ارب سال بعد کائنات کے اولین عظیم دھماکے پر ہو گا جسے کائنات کی آخری عظیم تباہی (Big Crunch) کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔‘‘
سیاہ شگاف (Black Hole) کیا ہے؟
سیاہ شگاف (Black Hole) دورِ جدید میں غورو فکر کیا جانے والا سب سے اہم اور حیرت انگیز موضوع ہے یہ وہ معمہ ہے جس کو حل کرنے کے لیے سائنس جدید ریسرچ کر رہی ہے۔ بلیک ہول دراصل وہ مردہ اجسام ہیں جو سورج سے بھی کئی گنا بڑے ستاروں کے پھٹنے کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔ مختصر اً یہ کہ جب سورج سے کئی گنا بڑے ستارے اپنا ایندھن جلا کر ختم کر دیتے ہیں تو اندرونی انہدام کا شکار ہو جاتے ہیں اور آخر وہ سیاہ شگاف میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے اندر اتنی کشش رکھتے ہیں کہ ہر شے کو اپنے اندر سمیٹتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اسے اپنی کتاب’’تخلیق و توسیع کائنات کا قرآنی نظریہ‘‘ میں اس طرح بیان کیا ہے:
’’ جب سورج سے 20 گنا بڑا کوئی ستارہ 35,000,000 سینٹی گریڈ کے حامل عظیم نو تارہ (supernova ) کی صورت میں پھٹتا ہے تو وہ عموماً اپنے پیچھے اتنا بڑا قالب چھوڑ جاتا ہے کہ جو ایک ’’نیوٹران ستارے‘‘ کا آخری مرحلہ نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ اس کی کشش اس قدر زیادہ ہو کہ وہ ناقابل ِتصور حدتک ہر شے کو اپنے اندر گراتا چلا جائے۔ جوں جوں اس کی کثافت بڑھتی چلی جاتی ہے توں توں اس کی قوتِ کشش میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ روشنی سمیت کوئی شے اس کی کشش سے بچ نہیں سکتی۔ اس کو سیاہ شگاف (Black Hole) کہتے ہیں۔ سیاہ شگاف کے مرکز میں سابقہ ستارے کا ملبہ تباہ ہو کر لامحدود کثافت کا حامل ہو جاتا ہے جبکہ اس کا حجم صفر ہوتا ہے۔ اسی نقطے کو اکائیت (singularity ) کہتے ہیں۔ (ایک محتاط اندازے کے مطابق) ہماری کہکشاں میں ایک کروڑ کے لگ بھگ سیاہ شگاف پائے جانے کا امکان ہے جو عظیم الجثہ ستاروں کے عظیم نوتارہ (supernova) دھماکوں سے معرضِ وجود میں آئے ہیں۔‘‘
جب کائنات کی عمر 1027 سال ہو جائے گی تو وہ ایسے سیاہ شگافوں پر مشتمل ہو گی جو مردہ ستاروں کے جھرمٹ میں بھرے ہوئے ہوں گے۔ کچھ عرصہ مزید گزرنے کے بعد تمام کہکشائیں گھومتی ہوئی ایک دوسرے کی طرف آئیں گی اور آپس میں ٹکرا کر ایک بڑا کائناتی سیاہ شگاف بنا دیں گی۔ آخرکار 10106سال گزرنے کے بعد وہ عظیم سیاہ شگاف بخارات بن کر ایسے ذرّات اور شعاع ریزی کی صورت میں بھڑک اٹھے گا جو ایک ارب میگا واٹ ہائیڈروجن بم دھماکے کے برابر ہو گی۔
بلیک ہول پر کی گئی جدید ریسرچ اور ٹیکنالوجی کے باعث سائنس سال2019 میں Black Hole کی تصویر لینے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اس ریسرچ نے عوام الناس اور سائنٹفک کمیونٹی میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ یہ بلیک ہول سورج سے ساڑھے چھ ارب گنا وزنی ہے۔ چالیس ارب کلومیٹر کے فاصلے پر محیط یہ بلیک ہول کائنات میں موجود سب سے بڑا بلیک ہول تصور کیا جاتا ہے اور یہ ’’ Galaxy M87 ‘‘ میں موجود ہے۔
دنیا ازلی نہیں ہے اور نہ ہی ابد تک قائم رہے گی۔ سائنسدانوں کے نزدیک کائناتی نظام کچھ اِ س ڈھنگ سے ترتیب دیا گیا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آنا ہے جب دنیا میں کچھ باقی نہیں رہے گا سب کچھ تباہ و برباد ہو جائے گا۔ یہ سب کچھ ’’Big Crunch جیسے عظیم دھماکے سے ہو گا یا ’’Black hole‘‘ اپنے اندر سب کچھ سمیٹ لیں گے یا پھر اس سے متعلقہ کوئی سانحہ رونما ہو گا۔ لیکن بہر حال یہ تو طے ہے کہ جس طرح دنیا کا آغاز ہوا اس کا اختتام بھی ہے اور وہ اپنے اختتام ہی کی جانب رواں دواں ہے۔
فلکی طبیعات کے عظیم سائنس دان جان ویلرJohn Wheller کے نزدیک کائنات میں جا بجا موجود سیاہ شگاف آخری قیامت خیز تباہی Big Crunch کے سلسلے میں فقط ریہرسل ہے جو اس کے خیال میں اختتام کائنات کے وقت تخلیق کی بے ثبات حقیقت کو بے نقاب کرتے ہوئے اس کا پردہ چاک کر دے گی۔ قرآنِ مجید کے مطابق وہ آخری تباہی یوم قیامت کی صورت میں برپا ہو گی۔(قرآنِ کریم کے سائنسی انکشافات)
جس دن زمین اور پہاڑ لرزنے لگیں گے اور پہاڑ (ریزہ ریزہ ہوکر) ریت کے بھربھرے تودے ہو جائیں گے۔ (المزمل14)
وہ پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب ہوگا پھر جب (ربّ العزت کی تجلی سے) آنکھیں چندھیا جائیں گی اور چاند بے نور ہو جائے گا اور سورج چاند اکٹھے ہو جائیں گے۔ اس روز انسان پکار اُٹھے گا کہ (اب) بھاگ جانے کا ٹھکانہ کہاں ہے؟ (سورہ القیامہ6-10)
6۔نئی کائنات کا ظہور(Superspace)
قرآنی تعلیمات کے مطابق جب یہ دنیوی زندگی ختم ہو جائے گی تب اخروی و دائمی زندگی کا آغاز ہوگا ۔ اس دن سب کے نامہ اعمال کا حساب کتاب ہوگا اور جزاو سزا کا فیصلہ سنایا جائے گا۔
کائنات ایک خاص ترتیب (Pattern) سے چل رہی ہے اس خاص ترتیب کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے کے بعد سائنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ یہ دنیا ختم ہو جائے گی اور ایک نئی کائنات کا آغاز ہو گا جسے (Superspace) (بہت اعلیٰ مکاں) کا نام دیا ہے۔ یہ نظریہ فلکی طبیعات کے عظیم سائنس دان John Wheeler کا ہے۔
اگر دنیا سیاہ شگاف کے متعلق طبیعاتی قوانین کے مطابق ٹکرائی تو عین ممکن ہے کہ وہ پھر سے معرضِ وجود میں آجائے۔ ’’عظیم آخری تباہی‘‘ (Big Crunch) کائنات کے ایک نئے اولین عظیم دھماکے Big Bang کا باعث بن سکتی ہے۔جس کا نتیجہ ایک نئی کائنات کے وجود میں آنے کی صورت میں ظاہر ہو گا ۔کائنات کی ایک شکل سے دوسری میں تبدیلی کے دوران ایک مرحلہ ایسا بھی آئے گا جسے جان ویلر بہت اعلیٰ مکاں Superspace کا نام دیتا ہے۔ اس کے مطابق وہ ایک مطلق لا محدود جہات کا حامل مکاں ہو گا جس کا ہر نقطہ کائنات کی مکمل ترکیب اور جیومیٹری کا آئینہ دار ہو گا۔ ویلر پر زور انداز سے کہتا ہے کہ سپر سپیس شاعرانہ تخیل نہیں بلکہ عمومی اضافیت کے نظریے پر مبنی ایک حقیقت ہے جیسا کہ وہ ذرا سی مبہم لائن پر بگ بینگ کے نقطے سے بگ کرنچ کا پیچھا کرتے ہوئے نظریہ اضافیت کے مطابق کائنات میں دخل انداز ہے۔‘‘ (تخلیق و توسیع کائنات کا قرآنی نظریہ)
حاصل تحریر(Conclussion )
دنیا کے قائم ہونے سے لے کر اختتام تک ایک اصول جو تبدیل نہیں ہوا وہ غایت (purpose) ہے۔ اگر ہم اسی ایک نقطے پر باریک بینی سے غور و تفکر کریں تو خدا کے وجود اور اسے وحدہٗ لا شریک تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ صد افسوس جو اِس اٹل حقیقت کو جانتے ہوئے بھی آنکھوں پر پٹیاں باندھے رکھتے ہیں اور دنیا و آخرت میں نامراد رہتے ہیں۔
سائنس اپنے عقلی دلائل کی روشنی میں تخلیق کائنات کے متعلق جتنی بھی جدید ریسرچ کر چکی ہے لیکن کائنات کی پراسراریت آج بھی قائم ہے۔ پہلے کائنات کی تخلیق کے متعلق جاننے پر سربستہ تھی اور جب حقائق آشکار ہونے لگے تو حیران ہے کہ دنیا جو ایک میکانزم (Mechanism) کے تحت کام کر رہی ہے وہ درحقیقت اپنے انجام کی جانب رواں دواں ہے۔
تخلیق ِکائنات سائنس کے لیے ایک پیچیدہ معاملہ رہا ہے لیکن مسلمانوں کے لیے بس یہی ایک درج ذیل نقطہ اور یقین ِکامل تمام سوالوں کے جوابات دے دیتا ہے۔
’’اللہ پاک نے کن (ارادہ) فرمایا اور کائنات تخلیق ہوگئی۔‘‘
استفادہ کتب:
قرآن کریم کے سائنسی انکشافات
تخلیق و توسیع کائنات کا قرآنی نظریہ