جہادِ اکبر | Jihad-e-Akbar


4.7/5 - (3 votes)

جہادِ اکبر

تحریر: نورین عبدالغفور سروری قادری۔ سیالکوٹ

جہاد ’’جہد‘‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے ’’مشقت کرنا،ہمت کرنا،کسی کام کے کرنے میں پوری طرح کوشش کرنا۔‘‘ 

شرعی اصطلاح میں جہاد کا معنی اپنی تمام تر جسمانی،ذہنی،مالی اور جانی صلاحیتوں کو اللہ کی رضا کی خاطر نیکی اور بھلائی کے کام میں وقف کر دینا ہے۔  
آج کے دور میں جہاد سے صرف لڑائی، قتال اور جنگ مراد لیا جاتا ہے۔ درحقیقت جہاد تو ایک جہد ِمسلسل کا نام ہے جس کا مقصد صرف جنگ و قتال نہیں بلکہ قیامِ امن، نفاذِ عدل، انسانی حقوق کی بحالی اور ظلم کاخاتمہ ہے لیکن آج کل اسلام کے نام پر ہونے والی انتہاپسند اور دہشت گرد کاروائیوں کی وجہ سے جہاد کے تصور سے ذہن میں خون ریزی اور جنگ و جدال کا تاثر اُبھرتا ہے۔ جہاد کا مقصدمالِ غنیمت سمیٹنا اور ملک وسلطنت کی توسیع نہیں بلکہ حقیقت میں جہاد ایک پُرامن، تعمیری، سماجی، اخلاقی اور روحانی جدوجہد کا نام ہے جو حق و صداقت اور انسانیت کی فلاح کے لیے انجام دی جاتی ہے۔ انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک اور قومی سطح سے لے کر بین الااقوامی سطح تک امن و سلامتی، ترویج و اقامت ِ حق اور رضائے الٰہی کے حصول کے لیے مومن کا اپنی تمام تر جانی، مالی، جسمانی، لسانی اور ذہنی و تخلیقی صلاحیتیں صرف کر دینا جہاد کہلاتاہے۔ 

اسلام میں جہاد کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے لیے اس کے دشمنوں سے لڑنا۔ جس طرح ہر شے کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہوتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بھی ظاہری اور باطنی دونوں طرح کے دشمن ہیں۔ ظاہری دشمن منکر ِ خدا، منکر ِ رسولؐ اور اللہ تعالیٰ کے نافرمان‘ اللہ تعالیٰ کی زمین پر فتنہ و فساد برپا کرنے والے کفار اور مشرکین ہیں۔ ان ظاہری دشمنوں سے لڑنے کے لیے ظاہری ہتھیاروں کی ضرورت ہے تاکہ اللہ کا حکم نافذ ہو سکے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنِ الْحُکْمُ لِلّٰہِ  (الانعام۔57)
ترجمہ: بے شک حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے۔ 
اللہ پاک کا باطنی دشمن ابلیس ہے جو انسان کو راہِ حق سے بھٹکانے کے لیے نفس اور دنیا کو استعمال کرتا ہے۔ جب ابلیس راندئہ بارگاہِ حق ہوا تو اس نے اس بات کا ارادہ کیا کہ قیامت تک اولادِ آدم کو اللہ کے راستے سے بہکاتا رہوں گا لیکن اللہ تعالیٰ نے بھی واضح کر دیا کہ تو میرے بندوں کو سیدھے راستے سے نہیں بھٹکا سکے گا۔ قرآنِ مجید میں یہ واقعہ کچھ اس طرح بیان ہوا ہے :
ابلیس نے کہا اے پروردگار! اس سبب سے جو تو نے مجھے گمراہ کیا میں (بھی) یقینا ان کے لیے زمین میں (گناہوں اور نافرمانیوں کو) خوب آراستہ و خوش نما بنا دوں گا اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا۔ (سورۃ الحجر۔39)

اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
بیشک میرے (اخلاص یافتہ) بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا سوائے ان بھٹکے ہوؤں کے جنہوں نے تیری راہ اختیار کی۔ (سورۃ الحجر۔42)

شیطان اپنے ہتھیار یعنی نفس اور دنیا کے ذریعے انسان کو حق سے دور کرنے کے لیے ہر دم سرگرمِ عمل ہے لہٰذا ان باطنی دشمنوں سے لڑنے کے لیے باطنی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ان کی مکارانہ چالوں سے واقف ہونا بھی ضروری ہے۔ اَن دیکھے دشمن سے لڑنا (جہاد کرنا) ظاہری دشمن سے لڑنے سے قدرے مشکل ہے اس لئے نفس اور اس کی خواہشات، شیطان اور دنیا سے جہاد درجے میں زیادہ افضل ہے۔ 

جہاد کی اقسام

امام ابن الحاج المالکی جہاد کی اقسام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جہاد کی دو اقسام ہیں:

 ۱۔جہاد ِاَصغر (ظاہری جہاد)
۲۔جہاد ِ اکبر (باطنی جہاد)

جہادِ اَصغر: جہادِاصغر سے مراد اہل ِ کفر و عناد کے ساتھ (اپنے دفاع کی خاطر کیا جانے والا) جہاد ہے۔جہادِاصغر کو جہاد بالسیف بھی کہا جاتا ہے۔

جہادِاکبر: جہادِاکبر سے مراد جہاد بالنفس ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (یعنی مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی ( طرف سَیراور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں اور بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو اپنی معیت سے نوازتا ہے۔ (العنکبوت۔69)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نفس سے جنگ کر کے اس کا تزکیہ کرنے کو جہادِاکبر کا نام دیا ہے اور جب نفس تمام بیماریوں اور بتوں سے نجات پا لیتا ہے تواس کا تزکیہ ہو جا تا ہے۔(بحوالہ کتاب: تزکیہ نفس کا نبویؐ طریق)

حضرت فضالہ بن عبیدؓ بیان کرتے ہیں ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: (بڑا) مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتا ہے۔‘‘ (امام احمد،ترمذی)

حضرت علیؓ نے جہاد با لنفس کے بارے میں فرمایا: ’’(اگلے زمانوں میں) سب سے پہلے تم جس چیز کا انکار کروگے وہ جہاد بالنفس ہو گا۔‘‘ (ابن رجب حنبلی۔جامع العلوم و الحکم)

حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس غازیوں کی ایک جماعت حاضر ہوئی۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: تمہیں جہادِ اصغر (جہاد بالسیف) سے جہادِ اکبر (جہاد بالنفس) کی طرف لوٹ کرآنا مبارک ہو۔ عرض کیا گیا : جہادِ اکبر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: انسان کا اپنی نفسانی خواہشات کے خلاف جہاد کرنا جہادِ اکبر ہے۔( اسے امام بیہقی نے ’’الزہد الکبیر‘‘ میں اور خطیب بغدادی و ابن ِعساکر نے روایت کیا ہے)  

حضرت ابو ذر غفاریؓ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا: کون سا جہاد سب سے بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’یہ کہ تو اپنے نفس اورخواہشات کے خلاف اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرے۔‘‘ 

حضرت ابو ذر غفاریؓ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: بہترین جہاد یہ ہے کہ انسان راہِ خدا میں اپنے نفس اوراس کی شہوات کے خلاف ریاضت و مجاہدہ کرے۔ (امام سیوطی)

خواجہ حسن بصری ؓ فرماتے ہیں کہ خواہشاتِ نفس کی مخالفت کرنا افضل ترین جہاد ہے۔

حضرت سفیان ثوریؒ کہتے ہیں ’’بے شک تمہارا دشمن وہی نفس ہے جو تمہارے پہلوؤں کے درمیان ہے۔ تم اپنے دشمن کے ساتھ جنگ سے بھی بڑھ کر اپنی نفسانی خواہشات کے ساتھ جنگ کرو۔‘‘

بعض آئمہ کا قول ہے ’’ بہترین جہاد نفس کا مجاہدہ ہے کہ تو اپنے نفس کو حرام سے محفوظ رکھے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور اپنی خواہشات سے باز رکھے۔‘‘ (بحوالہ کتاب: الجہاد الاکبر، ڈاکٹر محمد طاہر القادری)

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نفس کیا ہے؟ نفس کی حقیقت کیا ہے؟ جہاد بالنفس کیوں ضروری ہے؟ نفس کے ساتھ جہا د کو کیوں افضل قرار دیا گیا ہے؟ جب حضرت آدمؑ کا بت تیار ہوگیا تو شیطان نے حسد اور نفسانیت کی وجہ سے اس بت پر تھوک دیا۔ یہ تھوک حضرت آدمؑ کی ناف کے مقام پر جا گرا جس سے آدم ؑکے وجود میں نفس کی بنیاد پڑی۔ نفس شیطان کا ہتھیار ہے اور وہ اسی ہتھیار کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے انسانوں کو گمراہ کرتا ہے۔ نفس انسانی بدن میں چور ہے جو انسان کو خدا کی طرف مائل نہیں ہونے دیتا، نفس بندے اور خداکے درمیان حجابِ اکبر ہے۔ نفس سے ہر طرح کی بُری خواہشات اور باغیانہ خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ نفس تمام بُرائیوں کی جڑ ہے ۔نفس کفر کی بنیاد ہے کیونکہ اسلام کی لطافت کے ساتھ نفس کو کوئی لگاؤ نہیں ہے۔ نفس راہِ حق سے کبھی فرحت محسوس نہیں کرتا۔ نفس باطل ہے۔ نفس کسی حال میں خوش نہیں ہوتا۔ نفس کے مرنے سے ہی وصالِ الٰہی کی منزل حاصل ہوتی ہے۔

حقیقت ِ نفس کے بارے میں مشائخ کے اقوال

سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
نفس مخلوق اور اللہ کے درمیان پردہ ہے،جب یہ درمیان سے اُٹھ جائے گا حجاب زائل ہو جائے گا۔(الفتح الربانی مجلس 49)
اس میں شک نہیں کہ ایک تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ہے اور ایک تیرا ذاتی نفس ہے۔ نفس اللہ کا دشمن ہے۔باقی چیزیں اللہ کی مطیع وفرمانبردار ہیں۔ اگرچہ نفس بھی حقیقت میں اللہ ہی کی مخلوق اور ملکیت ہے تاہم اس کو لذت اور شہوت کی وجہ سے کئی دعوے ہیں جب تو اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے نفس کی سر کشیوں کی مخالفت کرے گا تو تُو اللہ کا ہوکر نفس کا دشمن ہو جائے گا۔ (فتوح الغیب مقالہ 10)

حضرت بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں: ’’نفس کی خوبو ایسی ہے کہ وہ باطل ہی سے چین پاتا ہے۔‘‘

حضرت جنید بغدادیؒ نفس کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’نفس کی مراد کو پورا کرنا کفر کی بنیاد ہے۔‘‘

حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ فرماتے ہیں: ’’خود پرستی اور نفس پرستی ہی دراصل بت پرستی ہے اور اسی کو ترک کرنے کے بعد خدا پرستی کی منزل شروع ہوتی ہے۔‘‘

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ نفس کے بارے میں فرماتے ہیں: 
نفس کیا چیز ہے؟شیطان کیا چیز ہے؟دنیا کیا چیز ہے؟نفس بادشاہ ہے، شیطان اس کا وزیرہے اور دنیا ان دونوں کی ماں ہے جو ان کی پرورش کرتی ہے۔ (عین الفقر)
دونوں جہان میں نفس سے زیادہ بُری اور کمینی چیز اور کوئی نہیں۔ جوآدمی معرفت ِ الٰہی حاصل کرلیتا ہے وہ نفس کو پاؤں تلے روند کر اپنی ہستی کو مٹا دیتا ہے اور جو آدمی نفس کو اپنا دوست بنا لیتا ہے وہ نفس کا قیدی بن کر ہوا و ہوس کی مستی میں غرق ہو جاتا ہے اور ہوا و ہوس سے مغلوب ایسے نفس کو ’’سرکش توسن‘‘ (منہ زورنوجوان گھوڑا) کہتے ہیں جس پر ہروقت خود پسندی سوار رہتی ہے۔ خلق کی نظر میں تو وہ آدمی ہوتا ہے لیکن خالق کی نظر میں خنزیر، گدھے، کتے اور بندر جیسا حیوان ہوتا ہے۔ صورت میں آدمی لیکن سیرت میں حیوان۔ ایسے حیوان سے بات کرنا مناسب نہیں۔ یوں کہیے کہ ایسا صاحب ِ نفس ہزار شیطانوں سے بدتر ہے اور اہل ِ نفس آدمی سے دوری اختیار کر۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ (محک الفقر کلاں)

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس نفس کے بارے میں فرماتے ہیں :
نفسانی خواہشات کے پیچھے بھاگنا نفس پرستی ہے اور یہ بھی بت پرستی کی قسم ہے۔ 
نفس اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان حجاب ہے اگر یہ حجاب ہٹ جائے تو اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہتا۔
انسان بلندہوتا ہے جب وہ اپنے نفس کو ذلیل کرے۔ (بحوالہ کتاب سلطان العاشقین)

نفس کی پیروی میں حق تعالیٰ کی مخالفت مخفی ہے اورحق تعالیٰ کی مخالفت حجابات کا منبع ہے۔ نفس کی مخالفت تمام عبادتوں کی جڑ اور مجاہدوں کی اصل ہے اس کے بغیر بندہ راہِ حق نہیں پا سکتا اس لئے اس کی موافقت میں بندے کی ہلاکت ہے اور اس کی مخالفت میں بندے کی نجات ہے۔نفس دوزخ کی طرف لے جانے والا ہوتا ہے کیونکہ نفس دنیا میں دوزخ کا نمونہ ہے۔مومن و عارفِ ربانی کے لیے عقل مدبر کامل ہے اور جاہل و نادان کے لیے نفس کی خواہش نکمی قائد ہے۔ طالبانِ راہِ حق پر واجب ہے کہ ہمیشہ نفس کی مخالفت کی راہ پر جمے رہیں تاکہ اس کی مخالفت میں عقل روح کی مدد کرتی رہے  کیونکہ وہ اسرارِالٰہی کا مقام ہے۔ ہمارا نفس دنیاوی لذتوں کا عادی ہو چکا ہے، جس کام میں اس کو لذت اور مزہ ملتا ہے اس کی طرف دوڑتا ہے جس کے نتیجے میں یہ نفس انسان کے دل میں خواہشات کے تقاضے پیدا کرتا رہتا ہے۔ اب اگر انسان نفس کو بے لگام چھوڑ کر اس کی ہر بات مانتا جائے اور اس کی ہر خواہش پوری کرتا رہے تو انسان انسان نہیں رہتا بلکہ جانور بن جاتا ہے۔ نفسانفسی کے اس دور میں ہم نے اپنی خواہشات  کے بے شمار بت بنا رکھے ہیں جن کی دن رات پرستش کرتے ہوئے ہم ہر ناجائز حد کو بھی پار کرجاتے ہیں۔ ہم نے اپنے اور ا للہ تعالیٰ کے درمیان ان گنت حجابات قائم کر رکھے ہیں۔ نفسانی خواہشات کے پیچھے بھاگنا اصل میں بت پرستی ہے اور ان خواہشات کی پیروی کرنا شرک ہے۔ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہم اللہ تعالیٰ سے بہت دور چلے گئے ہیں۔شیطان بھی نفس کو ہی استعمال کرکے برائیوں کی طرف راغب کرتا ہے۔ نفس کا تزکیہ ہو سکتا ہے لیکن شیطان کا تزکیہ ممکن نہیں ہے۔نفس کا تزکیہ ہونے سے انسان برائیوں سے نجات حاصل کر کے کامیاب ہو سکتا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وہ فلاح پا گیا جس نے (اپنے نفس کا) تزکیہ کر لیا۔(سورہ الشمس۔9)

نفس کی چار حالتیں ہیں: 
 ۱۔نفس ِ امارہ   ۲۔نفس ِ لوامہ   ۳۔نفس ِ ملہمہ  ۴۔نفس ِ مطمئنہ

ایک عام انسان کے لیے نفس کا تزکیہ کرناممکن نہیں۔ جس طرح جسمانی بیماریوں کے علاج کے لیے طبیب کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح نفس کے امراض کو دور کرنے کے لیے بھی طبیب کی ضرورت ہوتی ہے، ایسا طبیب جو روح کے اس چور (نفس) کو قابو کر کے اس کا خاتمہ کر سکے، نفس کو برائیوں سے پاک کر سکے۔ اور وہ طبیب مرشد کامل اکمل ہے جو نفس کو تمام بیماریوں، برائیوں، خواہشوں اور شہوات سے پاک فرما کر قلب کو نورِ الٰہی سے چمکا دیتا ہے۔ مرشد کامل اکمل کی صحبت میں ذکر و تصور اسم ِ اَللہ ذات  سے نفس کا تزکیہ ہوتا چلا جاتا ہے اور نفس مختلف حالتوں سے گزرتا ہوا نفس ِ مطمئنہ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔اور ایسا صرف مرشد کامل اکمل کی صحبت سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔نفس کی پہلی حالت امارہ ہے اور یہ ہر وقت برائی کا امرکرتا ہے جیسا کہ ارشادِباری تعالیٰ ہے:

بیشک نفس ِ امارہ برائی کا امر کرتا ہے۔(سورہ یوسف۔53)

نفس کی یہ حالت کفا ر، مشرکین، منافقین، فاسقین، فاجر اور دنیادار لوگوں کی ہوتی ہے۔اوراگر نفس کی اصلاح نہ کی جائے تو نفس سرکشی اور بغاوت پر اُتر آتا ہے اور پھر انسان، انسان سے حیوان، حیوان سے درندہ بلکہ شیطان بن جاتا ہے۔

اگر اسی نفس کی اصلاح اور تربیت شروع ہوجائے تو نفس ِ امارہ نفس ِ لوامہ بن جاتا ہے۔لوامہ کا معنی ہے ملامت کرنے والا۔جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کا نفس اسے ملامت کرتا رہتا ہے جس سے انسان شرمسار ہوتا ہے۔ایسے نفس کو موت،روزِ قیامت اور حساب کتاب وغیرہ ہروقت یاد رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبانی روزِ قیامت کے ساتھ ایسے نفس کی بھی قسم اٹھاتا ہے:

خبردار!میں قسم کھاتا ہوں روزِ قیامت کی اور نیز قسم کھاتا ہوں نفس ِلوامہ (گناہوں پر ملامت کرنے والے نفس) کی۔ (القیٰمتہ۔1-2)

جب نفس ِ لوامہ کا تزکیہ ہو جاتا ہے تو یہ نفس ِ ملہمہ بن جاتا ہے اور ایسا نفس گناہ کے ارتکاب سے پہلے ہی خبردار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ ایسے نفس کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
 اور جوشخص قیامت کے روز اللہ کے روبرو حساب کے لیے کھڑا ہونے سے ڈرا اور اُس نے اپنے نفس کو شہوات  اور خواہشاتِ نفسانی سے باز رکھا پس ایسے شخص کا ٹھکانہ بہشت ہے۔ (سورہ النازعات 40-41)

نفس ِ ملہمہ باطن میں ترقی اور عروج حاصل کر کے نفس ِ مطمئنہ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اس طرح نفس اپنے ازلی دشمن شیطان اور اپنے روحانی وباطنی امراض سے نجات حاصل کر لیتا ہے اور اپنی منزلِ حیات پر پہنچ کر اپنا مقصود پا لیتا ہے۔ ایسا پاکیزہ نفس انبیا اور فقرا کا ہوتا ہے اور نفس کی یہ حالت بہت ارفع اور اعلیٰ ہے اور یہ صحبت ِمرشد کامل اکمل میں ذکر و تصور اسم ِ اَللہ ذات سے حاصل ہوتی ہے۔ ظاہری عبادات سے یہ مقام ومرتبہ کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ ایسے نفس والے سالک اللہ تعالیٰ کے دوست اور مقرب بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن سے راضی ہو جاتا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہوجاتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اے نفس ِ مطمئنہ !لوٹ اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی حالت میں کہ وہ تجھ سے راضی ہے اور تو اُس سے راضی ہے۔پس میرے بندگانِ خاص کے حلقے میں شامل اور میری بہشت ِقرب ووصال میں داخل ہوجا۔ (سورہ الفجر28-30)

نفس ِ مطمئنہ کے بارے میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:
نفس ِ مطمئنہ ایک سواری ہے جس کی رسائی رازِ الٰہی تک ہے اور یہ مشاہدۂ توحید ِحق تک پہنچاتی ہے۔( کلید التوحید کلاں)

پنجابی بیت میں نفس ِ مطمئنہ کے بارے میں حضرت سخی سلطان باھُوؒ نے فرمایا:

ایہو نفس اساڈا بیلی، جو نال اساڈے سِدّھا ھُو
 زاہد عالم آن نوائے، جِتھے ٹکڑا ویکھے تِھدا ھُو
جو کوئی اِس دی کرے سواری،اُس نام اَللہ دا لِدّھا ھُو
راہ فقر دا مشکل باھُوؒ، گھر ما نہ سیرا رِدّھا ھُو

مفہوم:یہ نفس اب مطمئنہ ہو کر ہمارا دوست اور ساتھی بن چکا ہے اور اب ہمارے ساتھ صراطِ مستقیم پر ہے۔ جبکہ اسی نفس نے ’’امارہ ‘‘ کی حالت میں کئی عالموں، فاضلوں اور زاہدوں کو خواہشات کا غلام،مال و دولت اور شہرت کا حریص بنا دیا ہے۔ جس نے مرشدکامل سے اسمِ اللہ ذات حاصل کر لیا تو اس کے ذکر اور تصور سے اس کا نفس امارہ سے مطمئنہ ہوگیا۔فقر کے راستہ میں بڑے مشکل مراحل، منازل اور آزمائشیں ہیں یہ کوئی اماں جی کا گھرمیں پکا پکایا حلوہ نہیں ہے کہ اسے آسانی سے کھا لیا جائے۔ (ابیاتِ باھُو کامل)

تزکیہ نفس کے لیے صوفیا کرام اور علما کرام بہت سے طریقوں، مشقوں، مشقتوں، چلہ کشی، مجاہدوں اور ریاضتوں کا ذکر کرتے ہیں لیکن تزکیہ نفس کے لیے وہی طریقہ سب سے اعلیٰ ہے جونبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہے۔ قرآنِ پاک میں تزکیہ نفس کے نبویؐ طریق کو یوں بیان فرمایا گیا ہے:

وہی اللہ جس نے معبوث فرمایااُمیوں میں سے ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) جو پڑھ کر سناتا ہے ان کو آیاتِ قرآنِ پاک اور (اپنی نگاہِ کامل سے) ان کا تزکیۂ نفس (نفسوں کو پاک) کرتا ہے اور انہیں کتاب کا علم اور حکمت (علم ِ لدنیّ)سکھاتا ہے۔ (سورہ الجمعہ۔2)

آیت ِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صحابہ کرام ؓ  کو قرآنِ پاک کی تعلیم دیتے پھر نگاہِ کامل سے تزکیہ فرماتے جس سے صحابہ کرامؓ کے قلوب پاک ہو جاتے اور تزکیۂ نفس کے ساتھ تصفیہ قلب خود بخود ہو جاتا۔ اسی طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت سے صحابہ کرامؓ کو ذکر ِاللہ (اسم اَللہ ذات)  کے ذریعے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت سے صحابہ کرامؓ کا ظاہروباطن پاک و طاہر ہو گیا اور اُن کے اندر معرفت ِ الٰہی کی سچی تڑپ پیدا ہوئی۔

صحابہ کرامؓ نے ’’تزکیہ نفس‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگاہِ کامل، صحبت اور محفل پاک سے حاصل کیا اور ان کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پاؤ گے۔‘‘ اس طرح نورِ معرفت ِ حق کا یہ خزانہ صحابہ کرامؓ کے بعد تابعین اور پھر تبع تابعین کو صحبت سے منتقل ہوا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رسالت تاقیامت قائم رہنے والی ہے اس لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فقرا اور عارفین کو اپنا جانشین بنایا ہے اور انہیں لوگوں کا تزکیہ نفس کرنے کا علم ِ نور عطا فرمایا ہے۔جس طرح انسان اپنا علاج خود نہیں کر سکتا اسی طرح یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی مرد ولی ٔکامل (مرشد کامل اکمل) کے بغیر کتاب و سنت کا محض مطالعہ کرنے سے ہی تزکیہ نفس ہو جائے۔ مرشد کامل اکمل طالب ِ مولیٰ کی تربیت بالکل اسی طریقے سے کرتا ہے جس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے صحابہ کرامؓ کی تربیت فرمائی تھی۔

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطا ن محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس موجودہ دور کے ولی کامل ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جانشین اور سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنے مریدین کا تزکیہ نفس حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریقے کے مطابق فرماتے ہیں، اپنی نگاہِ کامل سے تزکیۂ نفس اور تصفیہ ٔ قلب فرما کرقلوب کو حق تعالیٰ کی محبت سے بھر دیتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس بیعت کے پہلے روز ہی اپنے مریدین کو اسمِ اللہ ذات کے ذکر کے ساتھ ساتھ اس کا تصور بھی عطا فرماتے ہیں۔ اسم ِ اَللہ ذات کے ذکروتصور اور مرشد کامل اکمل کی صحبت میں نفس کا تزکیہ ہوتا ہے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطا ن باھُوؒ فرماتے ہیں کہ:
جب اسم ِاللہ ذات دل پر نقش ہو جاتا ہے اور اسم ِ اللہ ذات کی تجلی دل پر غالب ہوکر بھڑک اٹھتی ہے تو نفس مغلوب ہو کر مر جاتا ہے اور دل زندہ ہوجاتا ہے۔ (عین الفقر)

سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطا ن محمد اصغر علیؒ فرماتے ہیں:

نفس کو مارنے کا واحد طریقہ تصور اورذکر اسم ِ اَللہ ذات اور مرشد کامل کی نگاہ ہے۔(سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطا ن محمد اصغر علیؒ حیات و تعلیمات)

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ذکر وتصور اسم ِ اللہ ذات کے فیض سے دنیا بھر کے تمام سچے طالبانِ مولیٰ کو نفس ِ مطمئنہ کے اعلیٰ ترین مقام پر پہنچا رہے ہیں۔ اللہ پاک سے دعاہے کہ اللہ تعالیٰ آپ مدظلہ الاقدس کا فیض ِ فقر تمام دنیا میں عام فرما دے۔ آمین

استفادہ کتب:
کشف المحجوب تصنیف حضرت علی بن عثمان الہجویریؒ
عین الفقر تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ
شمس الفقرا تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
تزکیہ نفس کا نبویؐ طریق   ایضاً
سلطان الفقر(ششم) حضرت سخی سلطا ن محمد اصغر علیؒ حیات و تعلیمات  ایضاً
حیات وتعلیمات سیّدنا غوث الاعظمؓ  ایضاً
اَلجہاد الاکبرَ مصنف ڈاکٹر محمد طاہر القادری

 

32 تبصرے “جہادِ اکبر | Jihad-e-Akbar

  1. جہاد ایک جہد ِمسلسل کا نام ہے جس کا مقصد صرف جنگ و قتال نہیں بلکہ قیامِ امن، نفاذِ عدل، انسانی حقوق کی بحالی اور ظلم کاخاتمہ ہے

    1. بے شک جہاد اکبر نفس کا تزکیہ کرنا ہے۔اور کامل مرشد کی راہنمائی کے بغیر اس کا حصول ناممکن ہے

  2. ماشااللہ جہاد بالنفس کے ہر پہلو کو بہترین انداز سے بتایا گیا۔

  3. اللہ تعالٰی ہمیں توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اتنی ہمت دے کے ہم اپنے نفس کو ختم کر سکیں!(آمین)

  4. ماشاءاللہ بہت جہاد باالنفس پر بہتی ہی معلوماتی تحریر ہے

  5. جہاد ایک جہد ِمسلسل کا نام ہے جس کا مقصد صرف جنگ و قتال نہیں بلکہ قیامِ امن، نفاذِ عدل، انسانی حقوق کی بحالی اور ظلم کاخاتمہ ہے

  6. MashaAllah
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #spirituality #sufism #islam #faqr #jihadeakbar

  7. ماشااللہ
    جہاد کی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے خوبصورت انداز ا میں

  8. جہاد ایک جہد ِمسلسل کا نام ہے جس کا مقصد صرف جنگ و قتال نہیں بلکہ قیامِ امن، نفاذِ عدل، انسانی حقوق کی بحالی اور ظلم کاخاتمہ ہے

    Reply

اپنا تبصرہ بھیجیں