حضرت رابعہ بصریؒ
تحریر: مسز سونیا نعیم سروری قادری۔ (لاہور)
عشقِ الٰہی عطےۂ خداوندی ہے اللہ جسے اس نعمت کے لیے چُن لیتا ہے اسے دوجہاں سے بے نیاز کر کے صرف اپنی محبت کے لئے مخصوص کر لیتا ہے اورعاشق صادق بھی دنیا کی ہر نعمت و آسائش محبوب کی یاد میں قربان کر کے صرف اسی کا ہوجاتا ہے محبوب کی رضا کا حصول ہی اس کا مقصدِ حیات بن جاتا ہے ایسے عاشق ہی عارفِ کامل اور فقیر فنا فی اللہ کے درجات تک پہنچتے ہیں۔ کٹھن ریاضت اور مجاہدے کے بعد عارف باللہ کے مرتبے تک پہنچنے والے ولی اللہ تو بہت ہیں لیکن ولیہ‘ عارفہ کاملہ اور عاشقہ صادقہ جن کا تذکرہ اولیا اللہ نے بھی نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ اپنی کتب میں کیا ہے، صرف مریم ثانی حضرت رابعہ بصریؓہی ہیں ۔ حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ ’’ تذکرۃ اولیا ‘‘ میں آپ ؒ کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:
’’ حضرت رابعہ بصریؒ ایک پردہ نشین مخدومہ اور خلوص کا پیکر تھیں۔ عشقِ الٰہی کی آگ میں چلنے والی یہ خاتون مریم ثانی تھیں اگر کوئی کہے کہ مردوں کی صف میں ایک عورت کا ذکر کیوں کیا گیا ہے تو میں جواب میں یہ کہوں گا کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا فرمان ہے کہ (اللہ) صورتوں پر نہیں بلکہ دلوں اور نیتوں پر نظر رکھتا ہے اور روزِ قیامت حساب کتاب کا نتیجہ نیتوں کے مطابق ہوگا۔ جب اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے دین کا دوتہائی حصہ لینا رو ا ہے تو ان کی کنیزوں سے بھی دینی فائدہ حاصل کرنا جائز اور رو ا ہے پھر عورت اگر عبادت و ریاضت کرلے تو اس کو بھی مردوں ہی کی صف میں شامل کیا جائے گا نیز قیامت کے دن جب مردوں کو پکارا جائے گا تو سب سے پہلا قدم حضرت مریم ؑ کا پڑے گا ۔ پھر حضرت رابعہ بصریؒ کا یہ مقام تھا کہ حضرت خواجہ حسن بصری ؒ کی مجلسِ وعظ میں اگر آپؒ نہ ہوتیں تو حضرت خواجہ ؒ وعظ نہیں فرمایا کرتے تھے۔ حضرت رابعہ بصری ؒ کا ذکر یوں بھی ضروری ہے کہ یہ ذکر از روئے توحید کیا گیا ہے اور توحید میں من و شما یعنی میں اور تُو کا امتیاز نہیں ہوتا۔ یوں بھی حضرت رابعہ بصریؒ اپنے زمانہ میں معرفتِ الٰہی میں بے نظیر تھیں اور بزرگوں کی نظر میں اس رتبہ کی اہل بھی‘‘۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فقر میں مرد اور عورت کی تعریف یوں بیان فرماتے ہیں ’’مرد لفظ ایک صفت کا نام ہے نہ کہ ہم اس کو جسمانی خدوخال یا شکل و صورت سے جانیں بلکہ ’’مرد‘‘ ایک شان اور ’’صفت ‘‘ ہے جو ہر عورت اور مرد میں پائی جاتی ہے۔ طلب حق تعالیٰ کا راستہ ’’مرد‘‘ ہی اختیار کرتے اور طے کرتے ہیں اس لیے بہت سے مرد عورتیں ہیں اور بہت ہی عورتیں مرد ہیں۔‘‘
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی کا فرمان مبارک ہے:
حدیث کے مطابق ہر طالبِ مولیٰ مرد ہوتا ہے تو اس لئے حضرت رابعہ بصری بھی ایک مرد ہیں۔‘‘
ولادت
حضرت رابعہ بصریؒ کا مقام فقر میں جتنا بلند ہے اسی قدر ان کی زندگی کے حالات و واقعات پردہ اخفا میں ہیں قدیم تذکرہ نگاروں نے آپ کے سنِ پیدائش کا ذکر نہیں کیا البتہ دورِ جدید کے تذکرہ نگاروں نے تحقیق کے بعد آپ کی ولادت باسعادت 95 ہجری یا 99 ہجری پر زور دیا ہے ۔ حضرت رابعہ بصری ؒ کی پیدائش سے پہلے شیخ اسماعیلؒ کے ہاں تین بیٹیاں تھیں چونکہ آپ ان کے بعد پیدا ہوئیں اسی مناسبت سے آپ کا نام رابعہ رکھا گیا ۔ عربی زبان میں رابعہ چوتھی کو کہتے ہیں۔ آپ کے والد اگرچہ دنیاوی مال و دولت سے محروم تھے لیکن قناعت کی دولت سے مالا مال تھے۔ آپ چونکہ خود متقی اور پرہیزگار تھے لہٰذا آپ ؒ کو دنیاوی دولت سے محرومی پر کوئی شکوہ نہ تھا۔ آپؒ پیکرِ تسلیم و رضا تھے ہر حال میں اللہ کے شکر گزار اور توکل و قناعت کی دولت پر خوش ہونے والے او رہر مصیبت کو خاموشی سے برداشت کرنے والے تھے۔
حضرت رابعہ بصریؒ کی ابتدائی زندگی اسرار و معرفت کے عظیم الشان واقعات سے بھر پور ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؒ کا بچپن عام بچوں سے مختلف تھا۔ شیخ فریدالدین عطارؒ فرماتے ہیں کہ جس رات حضرت رابعہ بصریؒ پیدا ہوئیں شیخ اسماعیلؒ کے گھر بے سروسامانی کا یہ عالم تھا کہ گھر میں کوئی فالتو کپڑا نہ تھا جو نومولود کو اوڑھایا جاسکے اور نہ رات کے وقت چراغ روشن کرنے کیلئے گھر میں تیل تھا نہ ہی نومولود کی ناف پر لگانے کیلئے تیل کی کوئی بوند موجودتھی ۔ یہ حالتِ زار دیکھ کر حضرت رابعہ بصریؒ کی والدہ ماجدہ نے آپؒ کے والد سے کہا کہ جائیں اور ہمسائے کے گھر سے تھوڑا سا تیل مانگ لائیں تاکہ ایک تو گھر میں روشنی کی جاسکے دوسرا نومولود کی ناف پر تیل لگایا جاسکے۔ آپؒ کے والد نے اس بات کا عہد کر رکھا تھا سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی سے کبھی کچھ نہ مانگیں گے مگر بیوی کے اصرار پر مجبوراً ہمسائے کے گھر گئے ہلکی سی دستک دی ۔ جب کوئی نہ آیا تو واپس لوٹ آئے اور بیوی سے کہا کہ وہ دروازہ نہیں کھولتا۔ اسی بے بسی اور بے کسی کے عالم میں آپ کی آنکھ لگ گئی خواب میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت نصیب ہوئی جس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’غمگین نہ ہو یہ ایسی مقبول اور برگزیدہ لڑکی ہے کہ میری اُمت کے ستر ہزار آدمی اس کی شفاعت سے بخشے جائیں گے۔‘‘ اس کے بعد فرمایا ’’صبح والئ بصرہ عیسیٰ زامنان کو ایک خط بھیجو اور اسے یاد دلاؤ کہ وہ ہر روز مجھ پر ایک سو مرتبہ درودبھیجتا ہے اور جمعہ کی رات کو چار سو باردرود بھیجتا ہے لیکن اس جمعہ کی رات کو وہ درود بھیجنا بھول گیا ہے اس کا کفارہ یہ کہ وہ حلال کمائی میں سے چار سو دینار، اس شخص کو دے جو یہ پیغام تم کو پہنچا رہا ہے۔‘‘
شیخ اسماعیلؒ صبح جب بیدار ہوئے تو آنکھوں سے آنسورواں تھے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہدایت کے مطابق امیرِ بصرہ کے نام ایک خط تحریر کیا ور اللہ کا نام لیکر گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔دربان کو خط دے کر امیربصرہ کے پاس بھیجا امیر بصرہ نے جوں ہی کاغذ کے ٹکڑے پر نظر ڈالی تو گھبرا کر اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہو ا بولا ’’وہ معزز شخص کہاں ہے اور یہ خط تمہیں دے کر چلا تو نہیں گیا۔ عرض کی گئی نہیں ہم نے اسے محل کے دروازے پر روکا ہوا ہے۔‘‘ کہا چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اسے اعزازو اکرام کے ساتھ اپنے محل میں طلب کرتے لیکن جو پیغام وہ لایا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم خود بنفس نفیس اس کے استقبال کیلئے محل کے دروازے پر حاضر ہوں‘‘ اس وقت امیر ننگے پاؤں تھا اسی حالت میں دروازے کی طرف دوڑ پڑا امیر نے آپؒ کو گلے سے لگایا اور دربار میں لے کر اعلیٰ مسند پر بٹھایا ۔ پھر آپؒ کی خدمت میں چار سو دینار پیش کئے اور اپنی خطا پر سخت نادم بھی ہوا اور اشکبار بھی اور دل کے کسی کونے میں خوشی بھی ہوئی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی بہانے مجھے پیغام کے لائق تو سمجھا او ر اسی نسبت سے ایک غریب کی کچھ مدد بھی ہوگئی۔ امیرِ بصرہ نے آپؒ سے کہا ’’آج سے میں آپ کے لئے امیرِ بصرہ نہیں بلکہ آپ کا خادم ہوں آج کے بعد آپ کا جب جی چاہے میرے پاس تشریف لے آنا۔‘‘ یہ حضرت رابعہ بصریؒ کی پہلی برکت تھی۔ جسے بوقتِ ولادت ہی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سرا ہیں اس کی عظمت و جلالت کی بلندیوں تک طائر تصور بھی نہیں پہنچ سکتا۔
حالاتِ زندگی
توکل اور تسلیم و رضا اولیا کرام کا خاصہ ہوتا ہے حضرت رابعہ بصریؒ کو ہوش سنبھالتے ہی بے شمار تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا جن کو انہوں نے صبرو شکر کے ساتھ قبول کیا۔ عمر مبارک ابھی پانچ سال ہی تھی کہ آپ کے والدین اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔ بصرہ میں زبردست قحط پڑا شیخ فرید الدین عطارؒ بیان فرماتے ہیں ’’ قحط اور خشک سالی کے باعث آپ کی بہنیں بھی جدا ہوگئیں چنانچہ آپ بھی ایک طرف چل پڑیں۔ ایک ظالم نے پکڑ کر لونڈی بنالیا اور بعد ازاں فروخت کر دیا چنانچہ خریدار آپؒ کو گھر لے آیا اور سخت مشقت کا کام لینے لگا۔‘‘
حضرت رابعہ بصریؒ سارا دن کام میں مصروف رہتیں رات کو تھکن سے چور ہو جاتیں مگر اُف تک نہ کرتیں بچپن کی تربیت آپ کے کام آرہی تھی کیونکہ آپ غربت میں پلی بڑھی تھیں ایک دفعہ تاجر آقا نے آپؒ کو گھر سے باہر کسی کام سے بھیجا جب آپ ؒ جا رہی تھے تو اچانک کسی نامحرم کو سامنے آتا دیکھ کر گھبرا گئیں اور راستے سے ہٹتے ہوئے گِر پڑیں جس سے آپ کی کلائی ٹوٹ گئی ۔ تکلیف کی اس حالت میں آپؒ نے خاک پر ہی سر بسجود ہو کر دعا کی کہ یاالٰہی اگرچہ میں غریب و بے یارومددگار ،دست شکستہ قیدی ہوں مجھے ان میں سے کسی بات کا غم نہیں اور میں ان باتوں کی پروا ہ نہ کرتے ہوئے صرف تیری رضا کی طالب ہوں مجھے بتا کہ تو مجھ سے راضی ہے کہ نہیں؟ اسی وقت ایک ندائے غیبی آئی جس میں کہا گیا :
’’رابعہ غم نہ کر و کل تمہارا وہ مرتبہ ہوگا کہ آسمان کے مقرب فرشتے بھی تم پر رشک کریں گے۔‘‘ یہ سن کر آپؒ اپنی تمام تکالیف بھول گئیں آپ دلشاد ہوکر خاک سے اُٹھیں اور مالک کے گھر حسبِ معمول کام میں مشغول ہوگئیں شیخ فرید الدین عطارؒ تذکرۃ الاولیا میں آپ کی آزادی کے متعلق فرماتے ہیں ’’آپؒ ہمیشہ روزہ رکھتیں پھر اپنے آقا کی خدمت میں مصروف ہو جاتیں جبکہ رات ہوتے ہی عبادت الٰہی میں مشغول ہو جاتیں۔ ایک رات اتفاق سے آپ کا آقا بیدار ہو گیا باوجود اس کے کہ چراغ بجھ چکے تھے لیکن پھر بھی سارا گھر بقعہ نور بنا ہوا تھا وہ حیرانی کے ساتھ ادھر ادھر دیکھتا ہوا ایک علیحدہ کوٹھڑی تک پہنچا۔ دیکھا کہ ایک کونے میں وہ سربسجود تھیں اور ایک معلق نور آپؒ کے سر پر ہالے کی طرح روشن تھا۔ آپ ؒ مسلسل مصروفِ مناجات تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ خداوند اگر میں کسی دوسرے کی غلام نہ ہوتی توایک بھی لمحہ تیری عبادت سے غافل نہ ہوتی لیکن تو نے مجھے غیر کا محکوم بنا رکھا ہے اس لئے خدمت میں دیر سے حاضر ہوتی ہوں یہ الفاظ اور دعا سن کر آقا حیران ہوگیا اور دل ہی دل میں تائب بھی ہوا کہ آئندہ ایسی برگزیدہ اور نیک ہستی سے کوئی خدمت نہ لوں گا بلکہ خود ان کی خدمت کروں گا چنانچہ علی الصبح آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آقا نے کہا آپ مختار ہیں جہاں جی چاہے رہیں آپؒ آج سے آزاد ہیں۔ اگر آپ یہاں رہیں تو میں آپ کی خدمت کروں گا لیکن آپ وہاں سے آگئیں اور خداکی عبادت میں مشغول ہو گئیں۔َ ‘‘ لیکن قسمت میں ابھی اور آزمائشیں لکھیں تھیں ایک شخص نے آپ کو پکڑ کر زبردستی ایک طوائف کے ہاتھ فروخت کردیا۔ آپ نہایت خوبصورت تھیں اس لیے بکثرت لوگ متوجہ ہونا شروع ہوئے ایک روز طوائف نے غور کیا کہ جو اس کنیز کے پاس جاتا ہے پھر واپس نہیں آتا خوش خوش جاتا ہے اور خاموش نکل کر آنکھیں جھکائے ہوئے چل دیتا ہے۔ آخر اس نے وجہ جاننی چاہی اس نے دیکھا کہ آپؒ نے آنے والے شخص کا استقبال کیا اور کہا ’’بہتر ہے کہ ہم وضو کر کے دورکعت نماز پڑھ لیں تاکہ بعد کا گناہ خدا معاف کر دے۔‘‘چنانچہ دونوں وضو کر کے نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوگئے آپؒ نے اپنی باطنی توجہ مبذول فرمائی تو وہ خوفِ الٰہی سے کانپ اُٹھا اور آپؒ کے ہاتھ پر گناہوں سے توبہ کر کے چلا گیا طوائف بھی اس انکشاف پر اللہ کے خوف سے کانپ اٹھی۔ حضرت رابعہ بصریؒ کے قدموں میں گر کر گناہوں کی معافی چاہی۔ آپؒ نے فرمایا ’’ کم بخت تو نے فضول تجسس کر کے اس جاری شدہ فیض کو یہاں سے بند کردیا‘‘ یہ کہہ کر آپ اس گھر سے نکل گئیں اس سال آپ نے بے شمار زانیوں اور فاسقوں کو اپنی توجہ سے ولی بنا دیا۔
عبادت و ریاضت
اس کے بعد آپ ؒ نے ایک ویرانے میں مسکن بنا کر عبادت و ریاضت شروع کی۔ آپؒ رات دن میں ایک ہزاررکعات نماز ادا کرتیں اور ذوق و شوق سے عبادت کرتیں آپ کے نزدیک دن رات اور موسموں کا امتیاز ختم ہوگیا ۔ آپؒ دنیا اور دنیاوی معاملات سے کوئی سروکار نہ رکھتی تھیں۔ دن بھر روزہ رکھتیں رات کو جاگ کر عبادت کرتی رہتیں۔قرآن کی تلاوت روز کا معمول تھا کئی کئی دن گزر جاتے اور گھر میں کچھ نہ ہوتا کہ جس سے روزہ افطار کرلیں۔ اکثر پانی کے ایک گھونٹ سے روزہ افطار کرلیتی تھیں اور اس پر بھی ہر وقت خدا کا شکر ادا کرتی رہتی تھیں۔ آپؒ کے اس جوش اور ذوقِ عبادت کو دیکھ کر ایک شخص نے آپ ؒ سے پوچھا کہ آپ جس کی عبادت کرتی ہیں اسے دیکھتی بھی ہیں یا نہیں؟ حضرت رابعہ بصریؒ نے جواب میں فرمایا کہ اگر اسے نہ دیکھتی تو عبادت ہرگز نہ کرتی۔ آپؒ فطری طور پر بہت ذہین تھیں لہٰذا آپؒ نے نہایت ہی کم مدت میں قرآن پاک حفظ کرلیا ساتھ ساتھ آپؒ نے فقہ اور حدیث کی تعلیم بھی حاصل کی۔ آپؒ امورِ دینیہ کے سیکھنے میں مردوں سے فوقیت لے گئیں تھیں یہاں تک کہ آپؒ اسرارِ فقہ و حدیث اور تفسیر کے رموز خوب سمجھنے لگی تھیں پھر آپؒ نے ان علوم میں اس قدر مہارت حاصل کرلی کہ جب آپؒ وعظ فرماتیں تو بڑے بڑے محدث اور فقیہہ حیران رہ جاتے تھے۔ آپؒ کی بارگاہ میں بڑے بڑے علماء نیازمندی کے ساتھ حاضر ہوا کرتے تھے۔ ان کی باوقار علمی مجالس میں حضرت سفیان ثوری ،ؒ مشہور بزرگ حضرت مالک بن دینارؒ اور جناب شیخ عبدالواحدؒ جیسے اصحاب بھی حاضر ہوتے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے۔ آپ ؒ چونکہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتی تھیں لہٰذا دنیا کا خیال آپؒ کے دل کے کسی گوشے میں بھی نہ تھا یہی وجہ ہے کہ آپؒ نے عمر بھر شادی نہ کی۔ آپؒ کو کئی لوگوں نے شادی کی پیش کش کی لیکن آپؒ نے ان سب پیش کشوں کو اسلئے مسترد کر دیا کہ آپؒ یکسوئی اور تندہی سے اللہ کی عبادت جاری رکھ سکیں اور اس میں کوئی رخنہ نہ آجائے۔ آپؒ لمحہ بھر کے لیے بھی خدا سے دوری پسند نہ کرتی تھیں ایک بار کچھ لوگوں نے آپؒ سے کہا کہ آپ شادی کر لیجئے فرمایا اگر تین فکروں سے مجھے بے فکر کر دیں تو میں ضرور شادی کرلوں گی پہلا سوال میں دنیا سے اپنا ایمان سلامت لے جاؤں گی، دوسرا بروز حشر میرے دائیں ہاتھ میں ہی نامہ اعمال دیا جائے گا، تیسرا سوال قیامت کے روز جب لو گ دائیں جانب سے بہشت میں اور بائیں جانب سے دوزخ میں پہنچائیں جائیں گے تو مجھے کس جانب سے پہنچایا جائے گا۔ لوگوں نے کہا اس کا علم تو خدا ہی کو ہے فرمایا تو پھر جسے اتنے عظیم افکار و غم در پیش ہوں وہ بھلا کیسے کسی کے ساتھ نتھی ہوسکتی ہے۔ پھر آپ نے یہ اشعار پڑھے: (ترجمہ)
میرا سکون اور اطمینان تنہائی میں ہے
اور میرا محبوب ہمیشہ میرے ساتھ ہے
اس کی محبت کا مجھے کوئی متبادل نہیں مل سکتا
فانی چیزوں کے درمیاں اس کی محبت میرا امتحان ہے
جہاں اس کا حسن ہوگا وہیں میں مراقبہ کروں گی
وہی میری محراب ہے اسی کی طرف میرا قبلہ ہے
آپؒ کی عادت مبارکہ تھی کہ کبھی فضول گفتگو نہ فرمائی۔ اگر کبھی کسی سے کوئی بات کرنا ضروری ہوتی تو قرآنِ پاک کی آیات مبارکہ کا سہارا لے کر اپنا مدعا بیان کرتیں چونکہ قرآنِ پاک کی حافظہ تھیں اس لیے اپنی بات کا اسطرح سے بیان کرنا آپ کو دشوار نہ ہوتا ایک مرتبہ کسی سے آپؒ نے جواب دیا ’’میں ڈرتی ہوں کہ میرے منہ سے کہیں کوئی غلط بات نہ نکل جائے اس لیے قرآنِ پاک کی آیات مبارکہ کے علاوہ کوئی بات منہ سے نکالنا نہیں چاہتی۔‘‘ آپؒ کی تمام تر عبادات کا مقصد صرف رضائے الٰہی کا حصول اور دیدار کی خواہش تھی۔ ایک مرتبہ بارگاہِ الٰہی میں مناجات کرتے ہوئے فرمایا’’ اے اللہ ! اگر میں تیری عبادت جہنم کے خوف سے کرتی ہوں تو تو مجھے جہنم میں پھینک دے اور اگر میں تیری عبادت جنت کی خاطر کرتی ہوں تو تو مجھے جنت سے محروم کردے لیکن اگر میں صرف تیری ہی خاطر تیری عبادت کرتی ہوں تو مجھے اپنے دیدار سے محروم نہ کرنا۔‘‘
سفرِ حج
شیخ فرید الدین عطارؒ فرماتے ہیں کہ آزادی کے بعد آپؒ نے طویل عبادت و ریاضت کی زندگی بسر کی اور اس دوران حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کی چنانچہ آپ ایک گدھے پر سامان لاد کر چل پڑیں۔ آپ کا یہ گدھا بہت نحیف تھا، سفر کی صعوبتیں برداشت نہ کر سکا اور راستے ہی میں مر گیا قافلے والوں نے ازراہِ ہمدردی کہا کہ کوئی بات نہیں ہم آپؒ کا سامان اٹھالیں گے آپؒ اپنا سفر ہمارے ساتھ جاری رکھیں آپؒ نے قافلے والوں سے فرمایا کہ آپ جائیں میں نے یہ سفر اپنے پروردگار کے بھروسے اور توکل پر شروع کیا تھا۔ قافلے والوں نے یہ سنا تو خاموش ہوگئے اور آپؒ کو تنہا چھوڑ کر روانہ ہوگئے۔ اب آپ جنگل میں اکیلی تھیں، آنسووں کا دریا آپؒ کی آنکھوں سے رواں تھا۔ آپؒ نے فرمایا اے ربّ العزت تو نے ہی مجھے خانہ کعبہ کی زیارت کیلئے بلایا تھا اور اب تو ہی مجھے اس سے روک رہا ہے راستے میں میرے گدھے کو مار ڈالا اور مجھ کو جنگل میں تنہا چھوڑ دیا۔ اے ربّ العالمین! میں کمزور ہوں تیرے دیدار کی پیاسی ہوں مجھ پر اپنا فضل و کرم کر۔ ابھی آپ دعا میں مصروف ہی تھیں کہ گدھا اٹھ کھڑا ہوا ، آپؒ بہت خوش ہوئیں۔ اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنا سامان دوبارہ گدھے پر لاد کر مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوگئیں۔جب آپؒ وہاں پہنچیں آپؒ نے دیکھا کہ کعبہ خود آپؒ کے استقبال کیلئے چلا آرہا ہے آپؒ ٹھہر گئیں اور فرمایا ’’اے پتھر کے مکاں واپس لوٹ جا مجھے تیری پتھریلی دیواروں کی ضرورت نہیں بلکہ میں تواس محبوب سے ملنے کی متمنی ہوں جس کا یہ گھر ہے مجھے تیرے حُسن سے زیادہ جمالِ خداوندی کی تمنا ہے۔‘‘
یہی وہ دن تھا جب حضرت ابراہیم بن ادہمؒ ہر قدم پر دورکعت نماز ادا کرتے ہوئے چودہ سال میں مکہ معظمہ پہنچے تھے۔ جب آپ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ اپنی جگہ پر موجود نہیں تھا آپؒ نے خیال کیا کہ شاید میری بصارت زائل ہوگئی ہے یا شاید میری عبادت و ریاضت ضائع ہو گئی ہے لیکن اسی وقت غیب سے ایک ندا آئی کہ ’’اے ابراہیم! نہ تو تمہاری بصارت زائل ہوئی ہے اور نہ تمہاری ریاضت ضائع ہوئی ہے بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ خانہ کعبہ واقعی اپنی جگہ پر موجود نہیں کیونکہ وہ ایک ضعیفہ کے استقبال کے لئے گیا ہوا ہے۔‘‘ حضرت ابراہیم بن ادھمؒ نے جب یہ سنا تو آپ پر رقت طاری ہوگئی روتے ہوئے پوچھا اے اللہ! وہ قابلِ احترام کون ہے؟ جواب ملا سامنے دیکھ آپؒ نے دیکھا کہ حضرت رابعہ بصریؒ لاٹھی کے سہارے چلی آرہی ہیں اور خانہ کعبہ بھی اپنے مقام پر واپس آچکا ہے۔ پھر آپ دونوں نے حج ادا کیا حضرت رابعہ بصریؒ نے انتہائی عاجزی سے اللہ کو پکارا اے مالک تو نے حج پراجر کا وعدہ کیا ہے اور مصیبت پر صبر کرنے پر بھی لہٰذا اگر میرا حج قبول نہیں تو مصیبت پر صبر کرنے کا اجر ہی عطا کردے کیونکہ حج کی عدم قبولیت سے زیادہ اور کون سی مصیبت ہو سکتی ہے حج سے فارغ ہو کر حضرت رابعہ بصری ؒ واپس تشریف لائیں اور عبادت و ریاضت میں مشغول ہوگئیں۔
اگلے سال پھر حج کا مہینہ آیا تو دیدار کی خواہش جاگی ساتھ ہی دل میں خیال آیا گزشتہ سال تو کعبہ نے میرا استقبال کیا تھا لیکن اس بار میں خود اس کا استقبال کروں گی چنانچہ شیخ ابو علی فارمدیؒ (جو امام غزالی ؒ کے استاد بھی تھے) کی روایت ہے کہ ایامِ حج میں آپؒ نے کروٹ کے بل کعبے کی سمت لڑھکنا شروع کر دیا اور پورے سات سال کے عرصہ میں عرفات پہنچیں۔
شیخ فرید الدین عطارؒ اپنی کتاب تذکرۃ الاولیا میں فرماتے ہیں:
ابھی عرفات میں داخل ہوئی ہی تھیں کہ ندا آئی ’’رابعہ اس طلب میں کیا رکھا ہے تو نے ہمیں بصرہ میں ہی کہہ دیا ہوتا ہم وہیں تجھے اپنی تجلی سے نواز سکتے تھے آپؒ نے عرض کیا اے خداوند تعالیٰ مجھ میں تیری تجلیوں کا بار اُٹھانے کی طاقت اور سکت کہاں ہے البتہ التجا ہے کہ مجھے فقر عنایت کیا جائے۔ ندا آئی۔’’ رابعہ! فقر تو ہمارے قہر کے مترادف ہے جس کو ہم نے صرف ان لوگوں کے لیے مخصوص کر دیا ہے جو ہماری بارگاہ سے اس طرح متصل ہوجاتے ہیں کہ بال برابر فرق نہیں رہتا پھر ہم انہیں قربت سے محروم کر کے ان سے لذتِ وصال چھین لیتے ہیں اور پھر ان کو ہجر کی آگ میں ڈال دیتے ہیں اس کے باوجود ان کو کسی قسم کا حزن و ملال نہیں ہوتابلکہ وہ میرے قرب کیلئے از سرِ نو سر گرمِ عمل ہو جاتے ہیں اے رابعہ اس وقت تو دنیا کے ستر پردوں میں ہے اورجب تک تو ان پردوں سے باہر آکر ہماری راہ پر گامزن نہیں ہوتی اس وقت تک تجھے فقر کا نام بھی نہیں لینا چاہیے پھر ارشاد ہوا نگاہ اٹھا اور سامنے دیکھ اور جب آپؒ نے نگاہ اٹھائی تو لہو کا ایک بحر بیکراں ہوا میں معلق نظر آیا ندا آئی یہ ہمارے عشاق کی چشم خون چکاں کا دریا ہے جو ہماری طلب میں چلے اور منزلِ عشق میں اسطرح شکستہ پا ہو کر رہ گئے اور خون کے آنسو رونے لگے آپؒ نے عرض کیا کہ ان عشاق کی ایک صفت مجھ پر بھی ظاہر ہو یہ کہتے ہی آپؒ کو نسوانی معذوری ہوگئی ندا آئی کہ ان کا مقام یہی ہے کہ سات برس تک پہلو کے بل لڑھکتے ہیں تاکہ خد اتک رسائی ملے اور ایک تجلی کا مشاہدہ کر سکیں اور جب وہ قرب کی منزل تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں تو ایک حقیر سی علت ان کی راہوں کو مسدود کر کے رکھ دیتی ہے اور وہ صبر کرتے ہیں یہی ان عاشقوں کی علامت ہے۔ پھر آپ ؒ بصرہ واپس تشریف لے آئیں اور یادِ الٰہی میں مصروف ہو گئیں ۔ جب تک زندہ رہیں اللہ تعالیٰ کی یاد میں ہی مشغول رہیں۔
دنیا سے بے رغبتی
حضرت رابعہ بصری ؒ کی اللہ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ دنیا کی ہر چیز سے منہ موڑ کر خالص اللہ کیطرف توجہ کر لی تھی آپؒ کئی دن روزے رکھتی تھیں ۔آپؒ پیکر تسلیم و رضا تھیں سب خاموشی سے برداشت کرتیں تھیں کبھی آپؒ نے اللہ سے گلہ شکوہ نہ کیا بلکہ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتی تھیں ۔ حضرت رابعہ بصریؒ مخلوق سے بے نیاز تھیں حضرت مالک بن دینار ؒ ایک مرتبہ آپ سے ملاقات کیلئے آئے اور دیکھا کہ آپ کے پاس ایک بوسیدہ سی چٹائی ہے جس پر اینٹ کا تکیہ بنا کر آرام فرماتی ہیں مٹی کا ایک ٹوٹا ہو لوٹا ہے جس سے آپؒ پانی بھی پیتی ہیں اور وضو بھی فرماتی ہیں دیکھ کر عرض کیا کہ میرے مالدار دوست ہیں اگر اجازت ہو تو ان سے آپ کیلئے کچھ طلب کروں؟ آپؒ نے حضرت مالک بن دینار کی یہ بات سنی تو غصے میں کہا ’’ مالک کیا کہہ رہے ہو کیاتمام بندوں کا روزی رساں صرف ایک ہی نہیں۔ تو کیا وہ درویشوں کو ان کی درویشی کی وجہ سے بھلا بیٹھا ہے اور امیروں کو دولتمند ہونے کی وجہ سے یاد رکھتا ہے؟ جب وہ سب کچھ دیکھتا ،سنتا اور جانتا ہے تو پھر اسے یاد دلانے کی ضرورت ہے ۔اگر وہ اسطرح پسند کرتا ہے تو ہمیں بھی عذر نہیں۔ ہم بھی وہی پسند کرتے ہیں جو اس کی رضا ہے۔‘‘
اسطرح ایک بزرگ نے آپ ؒ کو شکستہ لباس پہنے دیکھا تو کہا کہ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہیں آپؒ ایک اشارہ فرمائیں گی اور وہ آپؒ کے لیے نفیس لباس کا بندوبست کرسکتے ہیں۔ حضرت رابعہ بصریؒ نے فرمایا ’’ مجھے غیر سے کچھ طلب کرتے ہوئے اس لئے حیا آتی ہے کہ مالکِ دنیا تو اللہ ہے پھر میں کسی ایسے شخص کے سامنے کیوں ہاتھ پھیلاؤں جس کے ہاتھ میں خود ہر شے عارضی ہے اس سے کچھ طلب کرنا باعثِ ندامت ہے۔‘‘
ایک دن حضرت سفیان ثوریؒ حضرت رابعہ بصریؒ کے پاس آئے اور ہاتھ اٹھا کر کہا اے اللہ! میں تجھ سے سلامتی کا طالب ہوں ۔ حضرت رابعہ بصریؒ یہ سن کر رونے لگیں ۔ سفیانؒ نے رونے کا سبب دریافت کیا تو کہنے لگیں ’’تم نے مجھے رُلا دیا ہے کیا تم نہیں جانتے کہ دنیا کی سلامتی تو اس کے ترک کر دینے میں ہے اور تم اس میں آلودہ ہورہے ہو۔‘‘ حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیا نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے ’’ ایک شخص حضرت رابعہ بصری ؒ کے پاس آیا اور ذکرِ دنیا بڑی برائی کے ساتھ کرنے لگا جب وہ اپنی بات مکمل کر چکا تو آپ نے فرمایا’’ تم آئندہ میرے پاس نہ آنا کیونکہ تم دنیا کے دوست ہو جو جس کا دوست ہوتا ہے اس کا بہت ذکر کرتا ہے تم بھی دنیا کا ذکر بہت زیادہ کر رہے ہو لہٰذا تمہیںآئندہ میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
دنیاوی چیزوں سے آپؒ بے رغبتی برتتی تھیں۔ بصرہ کا ایک مال دار آدمی جو آپؒ کا عقیدت مند تھا آپؒ کے پاس حاضر ہوا اور درخواست کی کہ اس سے حضرت رابعہ بصریؒ ایک سال کا راشن اور کپڑے وغیرہ قبول کر لیں ۔آپؒ نے فرمایا کہ اگر تم ذمہ داری قبول کر لو کہ میں سال بھر زندہ رہوں گی میں غلہ اور کپڑے قبول کر لوں گی یہ کہہ کر آپ دوبارہ عبادت میں مشغول ہوگئیں اور امیر آدمی مایوس واپس لوٹ گیا۔
خشیتِ الٰہی
آپ ؒ اللہ کی یاد میں ہر وقت مصروف رہتی تھیں آپؒ ہمہ وقت گریہ وزاری کرتی رہتی تھیں اور جب لوگوں نے وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ میں اس کے فراق سے خوفزدہ ہوں جس کو ہر وقت تصور کرتی ہوں کہیں ایسا نہ ہو دم نزاع کے وقت یہ ندا آجائے کہ تو لائقِ بارگاہ نہیں۔ ایک دن حضرت عبدا للہ بن عیسیٰ آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا ان کے چہرے پر بہت نور تھا اور آپ کے سامنے کسی آدمی نے جہنم کے ذکر والی آیت پڑھی تو آپ چیخ مار کر گر پڑیں۔صفحات ’’نیرات من حیاۃ السابقات‘‘ میں سجف بن منصور کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے ’’میں حضرت رابعہ بصری کے پاس گیا وہ حالتِ سجدہ میں تھیں اور جب انہیں میری موجودگی کا احساس ہوا اپنا سر اُٹھایا تو سجدہ کی جگہ آنسوؤں سے تربتر تھی میں نے سلام کیا انہوں نے پوچھا بیٹا کوئی کام ہے ؟ میں نے عرض کیا میں سلام کی غرض سے حاضر ہوا تھا حضرت رابعہ بصریؒ نے فرمایا اللہ تیرے عیبوں کو چھپائے اور کچھ دعائیں دیں پھر نماز میں مشغول ہوگئیں اور میں واپس آگیا۔‘‘
فقر میں مقام
حضرت رابعہ بصریؒ فقر کے بلند مرتبہ پر فائز تھیں آپؒ خدا کے ان چنے ہوئے لوگوں میں سے تھیں جنہوں نے اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی میں ضم کر دیا تھا اور اپنی تمام ضرورتوں کو خدا تعالیٰ کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا تھاحتی کہ آپؒ کا کہنا ہے کہ میں نے تیس سال تک اپنے ربّ سے بھی کچھ نہ مانگا اس کے باوجود خدا نے بھی ناکام نہیں کیا۔ آپؒ نے چونکہ تمام دنیاوی علائق کو پیچھے پھینک دیا تھا لہٰذا آپؒ نے فقر کے آخری مقام خدا کے قرب اور جمالِ دوست کو بے نقاب دیکھنے اور محبوب سے ہمیشہ متحد رہنے کی منزل کو پا لیا تھا۔
آپؒ اپنے اشعار میں فرماتی ہیں ’’میں نے اس دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے فرار حاصل کر لیا ہے میری امید خدا کے ساتھ قرب اور اتصال کی ہے اور یہی میری خواہش کی آخری منزل اور نصب العین ہے۔‘‘
چونکہ فقر اللہ کی رضا میں راضی ہونے کا نام ہے حضرت رابعہ بصریؒ نے نہ صرف اپنی ذات کی نفی کی بلکہ اپنی مرضی ترک کر کے اللہ کی رضا میں راضی ہوگئیں۔ حضرت سفیان ثوریؒ نے ایک دن حضرت رابعہ بصریؒ کی موجودگی میں دعائیہ انداز میں کہا ’’اے اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جا‘‘ اس پر حضرت رابعہ بصریؒ نے فوراً کہا سفیانؒ تم کو اللہ سے کہتے ہوئے شرم نہیں آئی کہ مجھ سے راضی ہو جا جبکہ تم خود اس سے راضی نہیں ہو یعنی تم اپنے لئے خدا کی مرضی پر رضا مند نہیں ہو جس پر حضرت سفیان ثوریؒ نے کہا’’ میں اللہ سے اس کی معافی چاہتا ہوں۔‘‘ ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت رابعہ بصریؒ سے پوچھا کہ ’’بندہ کب خدا سے مطمئن ہوتا ہے؟‘‘ آپ ؒ نے جواب دیا’’ جب بدبختی پر بھی اس کو اتنی ہی خوشی محسوس ہو جتنی اسے اپنی ترقی پر ہوتی ہے۔‘‘
راہِ فقر میں توکل کی خاص اہمیت ہے توکل اغیار کو چھوڑ کر صرف خدا تعالیٰ کی ذات پر بھروسے کا نام ہے اور یہ یقین کے ان اعلیٰ مقامات میں سے ایک ہے جو مقربینِ بارگاہِ لٰہی کیلئے مخصوص ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتا ہے‘‘
بے شک اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ آلِ عمران)
حضرت رابعہ بصریؒ متوکلین کے گروہ کی سردار تھیں وہ توکل کے اس مقام پر تھیں جہاں طالبِ مولیٰ ظاہری اسباب و علائق سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو اللہ کی مرضی پر چھوڑ دیتا ہے ۔ رزق کی تلاش اور فکر اس کے دل سے نکل جاتی ہے اور وہ کشتئ حیات کو اللہ کے حوالے کر دیتا ہے ۔ شیخ فرید الدین عطارؒ تذکرۃ الاولیا میں لکھتے ہیں ’’دو درویش حضرت رابعہ بصریؒ سے ملنے آئے وہ دونوں بھوکے تھے جب وہ اندر آکر بیٹھ گئے تو ان کے سامنے ایک کپڑے میں دوروٹیاں رکھی گئیں اس سے پہلے کہ وہ کھانا شروع کرتے اچانک کسی سائل نے صدا دی کہ خدا کیلئے کھانے کو کچھ دو حضرت رابعہ بصریؒ نے روٹیاں سائل کو دے دیں۔ درویش یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہو گئے لیکن خاموش رہے کچھ دیر بعد ایک کنیز بہت سی گرم روٹیاں لئے حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میری مالکہ نے بھجوائی ہیں آپ نے روٹیاں لیں ان کا شمار کیا تو وہ اٹھارہ نکلیں آپ نے روٹیاں واپس کرتے ہوئے فرمایا یہ کسی اور کی ہیں اسی کے پاس لے جاؤ مگر کنیز نے بڑے وثوق سے کہا آپؒ کیلئے ہیں لیکن آپ ؒ نے واپس بھجوادیں۔ کنیز نے جا کر مالکن سے سارا واقعہ بیان کیا مالکن نے پوچھا کتنی روٹیاں ہیں کنیز نے کہا اٹھارہ مالکن نے دو اور رکھی دیں اور کہا اب لے جاؤ کنیز جب حضرت رابعہ بصریؒ کے پاس پہنچی آپؒ نے روٹیاں گنی اور رکھ لیں اور فرمایا یہ ہمارے لیے ہی بھیجی گئی ہیں۔ آپؒ نے روٹیاں درویشوں کے آگے رکھ دیں اور وہ محوِ حیرت ہو کر کھانے میں مصروف ہو گئے۔ فراغتِ طعام کے بعد انہوں نے حضرت رابعہ بصریؒ سے واقعہ کی نوعیت دریافت کی حضرت رابعہ بصریؒ نے فرمایا ’’جب آپ تشریف لائے تو مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ آپؒ بھوکے ہیں اور دو روٹیاں ناکافی ہیں اسی اثنا میں سائل آپہنچا تو میں نے دو روٹیاں اٹھا کر اسے دے دیں اور اللہ سے عرض کیا کہ اللہ تیرا عدہ ایک کے بدلے دس دینے کا ہے اور مجھے اللہ پر مکمل بھروسہ تھا کہ اب دو کے بدلے بیس روٹیا ں عطا کر ے گا جب کنیز اٹھارہ روٹیاں لائی تو مجھے معلوم ہوگیا کہ یا تو کوئی غلطی ہوئی ہے یا پھر یہ میری روٹیاں نہیں ہیں لہٰذا میں نے روٹیاں واپس کردیں پھر جب پوری بیس روٹیاں آئیں تو مجھے معلوم ہوگیا کہ اللہ کے وعدے کے مطابق بیس روٹیاں آگئیں ہیں لہٰذا میں نے وصول کر لیں۔‘‘ درویش آپؒ کا اللہ پر توکل دیکھ کر حیران رہ گئے۔
راہِ فقر راہِ عشق ہے عشق کے بغیر فقر کی انتہا دیدارِ الٰہی تک پہنچا ہی نہیں جاسکتا حضرت رابعہ بصریؒ صوفیا میں پہلی نہیں تھیں جنہوں نے عشقِ الٰہی کا ذکر کیا لیکن وہ ان میں سے پہلی ضرور تھیں جنہوں نے اس پر سب سے زیادہ زور دیا بلکہ اپنی تعلیمات کے ذریعے اس کی تبلیغ کی اور اس کو پھیلایا۔ سید علی عباس جلالپوری اپنی کتاب ’’ وحدت الوجود تے پنجابی شاعری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’اسلامی تصوف میں عشقِ حقیقی اور خدا سے بے لوث محبت کی ریت حضرت رابعہ بصریؒ سے شروع ہوئی حضرت رابعہ بصریؒ نے جس طرح مسلسل اور پُر جوش طریقے سے عشقِ حقیقی کا اظہار کیا ہے تو ہم بلا خوف تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا اصل مذہب ہی عشقِ الٰہی تھا۔‘‘
شیخ فرید الدین عطارؒ تذکرۃ الاولیا میں لکھتے ہیں:
’’رابعہ بصری ؒ عشقِ الٰہی کی آگ میں جلنے والی اور خدا کی آرزو میں سرشار اور اس کی مشتاق تھیں‘‘ حضرت رابعہ بصریؒ نے فرمایا ’’ خدا سے محبت کرنے والے کا جوش اور شوق کبھی ختم نہیں ہوتا یہاں تک کے وہ ذاتِ خداوندی سے ہم آہنگ نہ ہوجائے۔‘‘ (عوارف المعارف)
حضرت رابعہ بصریؒ کا قول ہے :
سجدہ مستانہ ام باشد نماز
درد دل با او بود قرآن من
ترجمہ: مستانہ وار محبوب کو سجدہ کرنا عاشقوں کی نمازِ حقیقی اور درد بھرے دل کا سوزوگداز ان کا قرآن پڑھنا ہے۔ (شمس الفقرا)
حضرت رابعہ بصریؒ نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت دوزخ کے ڈر اور جنت کے لالچ میں نہیں کرنی چاہیے اس سے عشق تو اس کی ذات کی وجہ سے کرنا چاہیے۔ ایک دن آپؒ اپنے ایک ہاتھ میں پانی اور دوسرے ہاتھ میں آگ لئے بھاگی چلی جارہی تھیں لوگوں نے پوچھا یہ کیا ہے تو آپؒ نے جواب دیا کہ میں اس آگ سے جنت کو پھونک دینا چاہتی ہوں اور اس پانی سے دوزخ کی آگ کو بجھانا چاہتی ہوں تاکہ یہ دونوں حجاب جو اللہ تعالیٰ کے سچے تصور میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں مکمل طور پر غائب ہوجائیں۔ آپؒ چاہتی تھیں کہ لوگ جزا اور سزا کے تصور کے بغیر اللہ کی عبادت کریں۔
آپؒ ہمہ وقت عشقِ الٰہی میں مستغرق رہا کرتی تھیں دنیا سے بے خبر اپنے محبوب کی یاد اور عبادت میں مشغول رہتیں۔ ایک مرتبہ رابعہ بصریؒ کو خواب میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت نصیب ہوئی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پوچھا اے رابعہ! کیا تو مجھ سے محبت رکھتی ہے حضرت رابعہؒ نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! کیا یہ ممکن ہے کہ میں آپ سے محبت نہ کروں؟ ہاں البتہ میرا دل محبتِ الٰہی میں اس قدر محو ہے اور میں توحید فنا فی اللہ میں اس قدر غرق ہوں کہ مجھے دوستی و دشمنی کی خبر تک نہیں۔‘‘
علم و عرفان
حضرت رابعہ بصریؒ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ تنہائی اور گوشہ نشینی میں گزارا آپؒ اکثر فرمایا کرتی تھیں کہ میں کبھی تنہا نہیں رہی ہر لمحہ اللہ تعالیٰ میرے ہمراہ ہوتا ہے میں خدا کا جلوہ دیکھتی ہوں اس کو پہچانتی ہوں کیونکہ جب تک معبود کو پہچان نہ لیا جائے اس کی عبادت کیونکر ہو سکتی ہے۔
حضرت خواجہ حسن بصریؒ نے آپؒ سے دریافت کیا ’’آپؒ کو یہ عظیم مراتب کیسے حاصل ہوئے؟ فرمایا ’’ہر شے کو یادِ الٰہی میں گم کر کے۔‘‘ پھر حضرت حسنؓ نے سوال کیا کہ ’’آپ نے خدا کو کیونکر پہچانا جواب دیا کہ بے مایہ اور بے کیف ہونے کی وجہ سے۔‘‘
ایک بار حضرت خواجہ حسن بصریؒ نے آپؒ سے پوچھا کہ مجھے ان علوم کی بابت سمجھاؤ جو تمہیں اللہ تعالیٰ سے بلا واسطہ حاصل ہوئے ہوں فرمایا کہ میں نے تھوڑا سا سوت کات کر تکمیل ضروریات کے لیے دو درہم میں فروخت کر دیا اور دونوں ہاتھوں میں اس خیال سے ایک ایک درہم لے لیا کہ اگر میں نے دونوں کو ایک ہاتھ میں لے لیا تو یہ جوڑا بن جائے گا اور یہ بات وحدانیت کے خلاف اور میری گمراہی کا باعث ہوسکتی ہے۔ بس اس کے بعد سے میری تمام راہیں کھلتی گئیں۔
حضرت خواجہ حسن بصریؒ ، حضرت مالک بن دینار ،ؒ شفیق بلخی ؒ اور حضرت رابعہ بصریؒ ایک مجلس میں اکٹھے ہوئے اور بات صدق کے متعلق چل نکلی۔ حضرت حسن بصریؒ بولے وہ شخص طلبِ مولیٰ میں صادق نہیں جو مولیٰ کیطرف سے دی گئی تکلیف پر صبر نہیں کرتا حضرت رابعہ بصریؒ نے فرمایا’’اس قول سے خود نمائی کی بُو آتی ہے بات اس سے بڑھ کر ہونی چاہیے ‘‘ حضرت شفیق بلجیؒ بولے ’’ وہ شخص طلبِ مولیٰ میں صادق نہیں جو مولیٰ کی دی ہوئی تکلیف سے لطف اندوز نہیں ہوتا رابعہ بصریؒ نے فرمایا ’’ اس بات سے بھی خود نمائی کی بُو آتی ہے حضرت مالک بن دینار ؒ بولے’’ وہ شخص طلبِ مولیٰ میں صادق نہیں جو مولیٰ کی طرف سے دی گئی تکلیف پر شکر نہیں کرتا۔ حضرت رابعہ بصریؒ بولیں ’’وہ شخص طلبِ مولیٰ میں صادق نہیں جو مشاہدہ مطلوب میں غرق ہو کر مولیٰ کی طرف سے دی گئی تکلیف کو بھول نہیں جاتا ۔ (عین الفقر۔ سلطان باھُوؒ )
حضرت رابعہ بصریؒ اور حسن بصریؒ رات بھر جاگ کر حقیقت اور معرفت کے موضوع پر گفتگو کرتے تھے۔ حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ ہم مرد وزن کے خیال سے بالا تر ہو کر معرفت کے اسرار پر گفتگو کرتے ہیں لیکن صبح کے وقت میں اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ مفلس اور رابعہ کو کہیں زیادہ مخلص پاتا۔‘‘
حضرت رابعہ بصریؒ کی کرامات
یہ بات سب پر واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو اپنے فضل سے اسطرح نوازتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز ان کی تابع ہوجاتی ہے اور اگر وہ چاہیں تواللہ تعالیٰ کے حکم سے ہر چیز پر تصرف کر سکتے ہیں حضرت رابعہ بصریؒ ان برگزیدہ ہستیوں میں سے ایک ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل و کرم سے نوازا ہے لہٰذا آپؒ کی ذات سے کافی کرامات کا ظہور ہوا ۔آپؒ حتی الامکان کوشش کرتی تھیں کہ آپؒ کی کرامات پردہ اخفا میں رہیں بلکہ آپؒ کرامات کو قربِ الٰہی کی دلیل بھی نہیں سمجھتی تھیں ایک واقعہ میں وہ اپنے ساتھی سے فرماتی ہیں ’’پانی پر چلنا کون سے کمال کی بات ہے یہ تو چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی کر سکتی ہیں اور ہوا میں اُڑنا کون سا مشکل کام ہے یہ تو حقیر مکھیاں بھی کر سکتی ہیں جبکہ حقیقت کا ان دونوں سے تعلق نہیں ہے۔‘‘
اس کے باوجود جہاں ربّ تعالیٰ نے چاہا آپؒ سے کرامات کا ظہور ہوا۔ ایک بار آپؒ اپنے گھر میں اولیا اللہ کی مجلس میں بیٹھی ہوئی تھیں رات کا وقت تھا گھر میں تاریکی چھائی ہوئی تھی مگر حالت یہ تھی کہ آپ ؒ کے پاس ایک پیسہ بھی نہ تھا کہ تیل خرید کر چراغ روشن کر لیتیں تمام اہلِ مجلس ایک دوسرے کی زیارت سے محرومی کی وجہ سے پریشان ہورہے تھے کہ حضرت رابعہ بصریؒ نے اپنی دو انگلیوں پر اسمِ g پڑھ کر دم کیا تو آپ کی دوانگلیوں کے درمیان سے سورج کی طرح روشن چراغ نمودار ہوگیا جیسے دیکھ کر تمام اہلِ مجلس اولیا حیران رہ گئے۔ ایک بار کسی نے پوچھا کہ ولی کی پہچان کیا ہے فرمایا کہ اگروہ اس پہاڑ کی طرف مخاطب ہو کر کہے کہ سونا ہو جا تو معاً سونا ہو جائے یہ الفاظ زبان سے نکلتے ہی پہاڑ سونے کا ہوگیا فرمایا میں نے تجھے تو کچھ نہیں کہا تو پتھر کا ہی بنا دے پہاڑ پھر اپنی اصلی حالت پر آگیا۔
شیخ فرید الدین عطارؒ تذکرۃ الاولیا میں بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپؒ نے کافی دن سے کچھ نہیں کھایا تھا جب خادمہ کھانا تیار کرنے لگی تو گھر میں پیاز نہیں تھا اس نے حضرت رابعہ بصریؒ سے پوچھا کیا وہ پڑوس سے ایک پیاز مانگ لائے لیکن حضرت رابعہ بصریؒ نے جواباً کہا کہ 40 سال قبل میں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ تیرے سوا کسی سے نہیں مانگوں گی لہٰذا اگر پیاز نہیں ہے تو کوئی بات نہیں اس کے بغیر ہی کھالوں گی ابھی آپؒ نے اپنا جملہ مکمل ہی کیا تھا کہ ایک پرندہ اپنی چونچ میں پیاز لئے ہوئے آیا اور ہانڈی میں ڈال کر اڑ گیا مگر آپ نے اس کو شیطانی فریب تصور کرتے ہوئے سالن کے بغیر روٹی کھا کر پانی پی لیا اور کہا کہ میں شیطان کے دام تزویرسے غافل نہیں۔ ایک رات ایک چور حضرت رابعہ بصریؒ کی کوٹھڑی میں آیا جب کہ آپ سورہی تھیں اس نے آپؒ کے تمام کپڑے چر الئے اور گٹھڑی میں باندھ کر بھاگنے کی کوشش کی تو اسے دروازے کا راستہ نہ ملا۔ اس نے جب سامان نیچے رکھا تو اسے راستہ نظر آنے لگا لالچ میں آکر اس نے سامان پھر اٹھا لیا لیکن دوبارہ اسے باہر جانے کا راستہ نہ ملا۔ یہ عمل اس نے سات بار دہرایا۔ پھر کوٹھڑی کے ایک کونے سے آواز آئی اے شخص اپنے آپ کو مصیبت میں نہ ڈال کیونکہ اس نے کئی سال سے اپنا آپ ہماری دوستی اور نگہبانی کے سپرد کر دکھا ہے یہاں تو شیطان کی مجال نہیں کہ وہ اس کے گر دیا آگے پیچھے بھٹک سکے پھر اک چور کی کیسے جرات ہوسکتی ہے کہ وہ اس کی چادر چرالے اے چور اگر ایک دوست سورہا ہے تو کیا ہوا دوسرا تو جاگ رہا ہے۔
ایک دن حضرت حسن بصریؒ عصر کی نماز کے بعد حضرت رابعہ بصریؒ کے پاس گئے جبکہ وہ ہانڈی میں گوشت پکانے کی تیاری کر رہی تھیں انہوں نے ہانڈی میں پانی ڈال کر رکھا تھا اور آپ ؒ کے پاس آکر باتوں میں مصروف ہوگئیں اور کہنے لگیں آپ سے گفتگو ہانڈی پکانے سے کہیں بہتر ہے۔ باتیں کرتے کرتے نمازِ مغرب کا وقت ہو گیا دونوں نے نماز پڑھی پھر حضرت رابعہ بصریؒ خشک روٹی کا ٹکڑا اور پانی کا کوزہ لے آئیں تاکہ روزہ افطار کر سکیں اس کے بعد حضرت رابعہ بصریؒ ہانڈی اتارنے گئیں تو انہیں خیال آیا کہ وہ تو ہانڈی کے نیچے آگ جلانا ہی بھول گئیں تھیں لیکن اس کے باوجود ہانڈی اتارتے ان کا ہاتھ جل گیا ۔ آپؒ نے دیکھا کہ ہانڈی اللہ کی قدرت سے جوش مار رہی ہے ۔ حضرت رابعہ بصریؒ ہانڈی لیکر آئیں سالن خود بخود تیار ہوچکا تھا۔ حضرت خواجہ حسن بصریؒ فرماتے تھے کہ اتنا مزیدار کھانا پھر میں نے کبھی نہ کھایا۔ وہ گوشت اتنا لذیذ تھا کہ موت تک اس کا ذائقہ محسوس ہوتا رہا۔
علامہ محمد یوسف نبہانیؒ اپنی کتاب’’جامع کراماتِ اولیا‘‘ میں علامہ سخاوی ؒ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت رابعہ بصریؒ سفرِ حج کی غرض سے نکلیں راستے میں انہیں شیبان الراعی ملے جنہوں نے پوچھا کہ کہاں کا ارادہ ہے آپ ؒ نے فرمایا میں حج کی غرض و غایت سے نکلی ہوں۔ اس پرشیبان الراعی نے از راہِ ہمدردی اپنی جیب سے سونانکالا اور حضرت رابعہ بصریؒ سے کہا کہ آپؒ یہ رکھ لیں تاکہ راستے میں آپؒ کے کام آسکے۔ یہ دیکھ کر حضرت رابعہ بصریؒ نے ہوا میں ہاتھ بڑھایا تو آپ ؒ کا ہاتھ سونے سے بھر گیا آپؒ نے فرمایا تو نے جیب سے نکالا اور میں نے غیب سے پکڑا لیکن مجھے ان چیزوں کی حاجت نہیں مجھے اپنے ربّ پر مکمل یقین اور بھروسہ ہے میں دنیاوی مال و دولت کا سہارا نہیں لیتی اس پر شیبان الراعی نے بھی ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کا عہد کیا اور آپ ؒ کے ساتھ سفرِ حج پر روانہ ہوگئے۔
دورانِ سفر گدھے کا مر کر زندہ ہوجانا اور کعبہ اللہ کا آپؒ کا استقبال کرنا بھی کرامات ہی ہیں۔
آخری ایام
حضرت رابعہ بصریؒ نے طویل عمر کے باعث بہت سے مجاہداتِ خیر اور تقویٰ کے کام سرانجام دئیے اسی لیے آپؒ ولایت کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہیں۔ آپؒ اپنی گریہ زاریوں، شب بیداریوں اور حق تعالیٰ سے شدید عشق کے باعث سوختہ عشق اور اُم الخیر کہلاتی ہیں۔ عشقِ الٰہی کی شدت کی وجہ سے آپ بہت رقیق القلب ہوگئیں تھیں۔ شیخ فرید الدین عطارؒ تذکرۃ الاولیا میں فرماتے ہیں ’’ایک بار آپؒ بیماری میں مبتلا آہ وزاری میں مصروف تھیں کہ دوستوں نے کہا اے اس دنیا کی قابلِ تعظیم ہستی ! ہم آپ کی بیماری کی کوئی ظاہری وجہ نہیں پاتے پھر آپ درد سے یوں کیوں کراہ رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا! میری بیماری میرے سینے کے اندر ہے اور ساری دنیا کے طبیب بھی اس کے علاج سے بے بس ہیں اور میرے زخم کا مرہم صرف دوست کے ساتھ وصال ہی ہے صرف ا س کے دیدار سے مجھے تسکین مل سکتی ہے۔‘‘
زندگی کے آخری ایام میں آپ وصالِ خداوندی کے لئے بہت بے چین رہا کرتی تھیں ہر وقت آنسو ؤں کی جھڑی آنکھوں سے رواں رہتی ، غذا برائے نام رہ گئی تھی۔جسم بالکل کمزور پڑگیا تھا مگر دل اب تک قوی تھا قربِ خداوندی کی شدید خواہش کا یہ عالم تھا کہ کفن ہر وقت تیار نظروں کے سامنے رہتا، باقی گھر میں کوئی چیز نہ تھی اینٹوں کا ایک بستر جس پر وہ سوتی تھیں اوراسی پر نماز پڑھتی تھیں۔
وصال مبارک(180 ھ)
جب دمِ نزع آپہنچا تو آپ نے پاس بیٹھے ہوئے دوستوں اور مریدوں سے کہا اُٹھو راستہ کشادہ کرو ، اللہ تعالیٰ کے قاصد آرہے ہیں سب لوگ بھاری اور بوجھل دل سے اُٹھے اور باہر نکل گئے جب انہوں نے دروازہ بند کیا تو انہوں نے حضرت رابعہ بصریؒ کے کلمہ شہادت کی آواز سنی پھر انہوں نے ایک اور آواز سنی:
ترجمہ:’’اے نفسِ مطمئنہ چل اپنے ربّ کی طرف تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی، پھر شامل ہو میرے بندوں میں اور داخل ہو میری جنت میں۔‘‘
اس کے بعد کوئی آواز نہ سنی گئی وہ واپس لوٹے تو دیکھا کہ حضرت رابعہ بصریؒ وفات پا چکی تھیں۔دوستوں اور پڑوسیوں نے وصیت کے مطابق ان کی تدفین کا انتظام کیا اور چشم ہائے پُر نم سے ان کو الوداع کہا۔ مشائخ کا قول ہے ’’آج اس کا وصال ہوگیا جس نے کبھی خدا کی شان میں گستاخی نہیں کی نہ کسی سے کچھ مانگاکسی سے طلب کرنا درکنار اپنے خالق و مالک حقیقی سے بھی کچھ نہیں مانگا۔‘‘
حضرت رابعہ بصریؒ کی تعلیمات
* میں اللہ کو دیکھتی ہوں اس لئے اس کی عبادت کرتی ہوں اللہ کی عبادت خالصتاً اللہ ہی کے لئے کرنی چاہیے ، جنت کی لالچ یا دوزخ کے خوف سے نہیں کرنی چاہیے۔
* انسان کو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر اللہ کے حضور شرمندہ نہیں ہونا چاہیے۔
* دل کو قابو میں رکھ اور اختیار حاصل ہونے پر ناجائز خواہشوں سے بچ یہی مراد ہونی چاہیے۔
کسی دل میں دنیا اور خدا کی محبت یکجا نہیں ہوسکتی ۔
* جس دل میں شمع الٰہی روشن ہو اس کے زخمِ دل کا مرہم وصالِ الٰہی ہے۔
* اچھے کاموں میں مشغول رہنا جن سے لوگوں کی بھلائی ہو‘ بزرگی ہے۔
* جاہل انسان وہ ہے جو اللہ کو بھول جائے اور دنیا کو یاد رکھے۔
* اللہ کی رضا سے بہتر کوئی شے نہیں اس لئے اس کی رضا پر راضی اور شاکر رہنا چاہیے۔
* جو شخص اپنے محبوب کے مشاہدے کے دوران بھی اپنی تکالیف کو نہیں بھولتا وہ دعویٰ عشق میں سچا نہیں۔
* عمل کے بغیر علم ایسا ہے جیسے روح کے بغیر جسم۔
* اللہ پر توکل کرنے والا کبھی مسائل کا شکار نہیں ہوتا۔
* دنیا ایسے دوست کی مانند ہے جو بظاہر دوست لیکن اندر سے دشمن ہے۔ (حیاتِ ابدی)
* عاصی اس وقت تک توبہ نہیں کرسکتا جب تک خدا توفیق نہ دے۔
* دنیا کا ذکر وہ کرتا ہے جو اسے دوست رکھتا ہے۔
* خدا اپنے بندے سے اس وقت خوش ہوتا ہے جب بندہ محنت پر اس طرح شکر کرتا ہے جس طرح نعمت پر کرتا ہے۔
* ہر چیز کا ثمر ہے اور معرفت کا ثمر خدا کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ (نفحات الانس۔ مولانا عبدالرحمن جامیؒ )