قربانی
تحریر: عرشیہ خان سروری قادری (لاہور)
اللہ تبارک تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں بھی قبول کرتا ہے اور انہیں آزمائش میں بھی ڈالتا ہے۔ ان کے عشق کا امتحان بھی لیتا ہے اور انہیں ارفع و اعلیٰ مقامات پر فائز بھی کرتا ہے۔ انبیا اور اولیا کرام کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح کائنات میں سب سے بلند مراتب پر فائز فرمایا اور اپنے قرب و وصال کی نعمتوں سے نوازا اسی طرح انہیں مشکل سے مشکل آزمائشوں سے بھی گزارا۔ انہیں بڑی سے بڑی قربانی کا حکم دیا گیا اور ان کی تسلیم و رضا کا یہ عالم رہا کہ اولاد جیسی عزیز متاع کے قربان کرنے کا حکم بھی ملا تو ثابت کر دیا کہ یہ بھی راہِ حق اور عشقِ الٰہی میں قربان کی جاسکتی ہے۔
راہِ فقر دراصل راہِ عشق ہے اور اس راہ میں کامیابی اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک طالب اپنی ہر شے کو راہِ حق میں قربان نہ کر دے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَنْ تَنَالُوالْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ(آلِ عمران۔92 )
ترجمہ:تم اس وقت تک بَرّْ (اللہ تعالیٰ ) کو نہیں پا سکتے جب تک اپنی سب سے پیاری چیز خدا کی راہ میں قربان نہ کرو۔‘‘
سب سے بڑی سنت راہِ حق میں گھر بار لٹا دینا ہے۔ اللہ پاک نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا:
فَلَاتَتَّخِذُوْا مِنھُمْ اَوْلِےَآءَ حَتّٰی ےُھَاجِرُوْا فِیْ سَبِےْلِ اللّٰہِط (النساء۔89)
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان میں سے کسی کو اپنا ولی (دوست) نہ بنائیں جب تک کہ وہ راہِ خدا میں اپنا گھر بار نہ چھوڑ دیں۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرامؓ کی تربیت اس انداز میں فرمائی کہ اللہ او ر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے علاوہ ہر محبت سے پاک فرمایا یہی وجہ تھی اس عشق کے شعلے نے تمام دنیاوی مال و دولت، عزیز و اقارب، گھر بار کو راکھ کر دیا اور عشقِ الٰہی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دل کو منور کر دیا۔ اگر سمجھا جائے تو قربانی بھی اللہ پاک کی عطا ہے کیونکہ وہ اپنے محبوب کو ہی نوازتا ہے۔ عشق و محبت ہی مسلمان اور مومن کا فرق بتاتا ہے۔ عام مسلمان ایمان کی سلامتی کی دعا کرتا ہے اور مومن عشق کی، لازم نہیں مسلمان اللہ کا عاشق ہو وہ عقبیٰ اور سزا و جزا کو ترجیح دیتا ہے مگر عاشق کا ایک ہی مرکز، ایک ہی نقطہ ہوتا ہے وہ ہے اللہ کی ذات۔ وفا اور قربانی بھی وہی دے سکتا ہے جو عشق کے نشے میں چور ہو، جس کےُ لوںُ لوں میں یار سماتا ہو جس کی تسبیح اور ذکر وہ ہر دم کرے اور کسی غیر اللہ کا خیال آتے ہی اس کی روح کانپ اُٹھے۔ یہی وہ عاشق ہے جو وفا نبھانا جانتا ہے یہی وجہ ہے قربانی اس کے لیے رکارٹ نہیں بلکہ خوشی اور اللہ کی رضا کا باعث ہوتی ہے۔
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ فرماتے ہیں:
’’ راہِ فقر راہِ عشق ہے اور عشق قربانی کا طلبگار ہے اور اس راہ میں اس وقت تک کامیابی نہیں ہوتی جب تک طالب اپنا سب کچھ اور ہر شے اللہ کی راہ میں قربان نہیں کر دیتا اس سلسلہ میں طالب کو صحابہ کرامؓ کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ قربانی اور وفا کی مثالیں سامنے رکھنی چاہئیں کیونکہ طالبانِ مولیٰ کیلئے یہ مثالیں مشعلِ راہ ہیں۔‘‘
میرے مرشد میرے ہادی سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس وفا اور قربانی کے جذبے کو ان خوبصورت الفاظ میں قلمبند فرماتے ہیں :
* سب سے بڑی نسبت راہِ حق میں گھر بار لٹا دینا ہے۔
* راہِ عشق میں وفا اور قربانی کا تقاضا یہ ہے کہ نہ تو وفا میں لغزش آئے اور جب قربانی کا وقت آئے تو منہ نہ موڑا جائے اور نہ ہی قربانیوں کے عوض طلب کیا جائے۔
* عشق کی فتح وفا اور قربانی کی ہی بدولت ہے۔
* وفا اور قربانی کے بغیر عشق کا دعویٰ جھوٹا ہے۔
* طالب کی وفا اور قربانی کی پرکھ ہی در حقیقت اس کے خلوص اور عشق کی پرکھ ہے۔
غرضیکہ وہ عاشق ہی کیا جس نے اپنا خون نہ بہایا ہو ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے جان نثار نہ کی ہو اللہ کے ہر فیصلے اور رضا پر سرِ تسلیم خم نہ کیا ہو۔
عاشقانِ الٰہی اللہ تعالیٰ کی ایک الگ اور نرالی تخلیق ہیں۔ اللہ کا تعلق ان عاشقوں سے مختلف ہے جو عام بندے کی سوچ سے بالاتر ہے تبھی جب کوئی مومن اللہ کی راہ میں چلتا ہے اس کو ہر شخص رشتے ناتوں، دوست، عزیز و اقارب، اولاد سب کی مخالفت کا سامنا کرتا پڑتا ہے۔ عاشق کو تو بس اپنے محبوب کی رضا اور خوشنودی چاہیے۔ وہ خوشی خوشی اپنی تمام متاع محبوب کے قدموں پر نثار کر دیتا ہے ایسے ہی عاشق کے بارے میں اللہ پاک قرآن میں فرماتا ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ (البقرہ۔201 )
ترجمہ: اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اللہ کی مرضی چاہنے میں اپنی جان (بھی) بیچ دیتے ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:
’’ انبیا کا گروہ سب سے زیادہ مبتلا ئے مصائب کیا گیا اور مَیں ان سب سے بڑھ کر آزمایا گیا ہوں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آزمائشوں اور قربانی کی سب سے بڑی قربانی آلِ رسول کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لاڈلے نواسے حضرت امام حسینؓ کی شہادت ہے جس سے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پہلے ہی آگاہ کردیا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اتنا شدید صدمہ اپنے بیٹوں قاسمؓ اور ابراہیمؓ کی وفات کا نہ ہوا جتنا حضرت امامِ حسینؓ پر ڈھائے جانے والے مظالم کی خبر نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو رنجیدہ کر دیا مگرقربان جائیں ان عظیم ہستیوں پر جنہوں نے اپنی ذات ختم کر کے اپنے عشق کو فوقیت دی اپنے رشتے ناتوں پر اپنے ربّ کو ترجیح دی مجال ہے جو محبوب کی رضا کے سامنے اُف بھی کیا بلکہ اس کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے سب کچھ لٹا دیا اور نہ کبھی اس کے عوض کچھ مانگا۔
سیّدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آتشِ نمرود میں بے خطر کود کر کلمۂ حق کہنے کی جس پیغمبرانہ روایت کو آگے بڑھایا تھا وہ عظیم روایت ذبح اسماعیل سے ذبح حسینؓ تک تسلیم و رضا اور ایثار و قربانی کی ان کائناتی سچائیوں کی امین ہے جن کے بغیر تہذیبِ انسانی کے اجتماعی رویوں کی ہر تفہیم اور توجیہ بے معنی اور غیر مؤثر ہو کر رہ جاتی ہے۔ تاریخِ اسلام حریت فکر کے امین انہی لمحاتِ جاوداں کی عینی شاہد ہے۔
حضرت علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے :
غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتدا ہے اسماعیل ؑ
راہِ خداوندی میں سیّدنا اسماعیل علیہ السلام کی قربانی:
جملہ انبیائے کرام اپنی شان بندگی میں یکتا اور بے مثال تھے لیکن سلسلہ انبیا میں سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کی داستان عزمیت بہت دلچسپ اور قابلِ رشک ہے۔ ان کیلئے اللہ کی راہ میں بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ایک بہت بڑی آزمائش تھی لیکن سیّدنا ابراہیم علیہ السلام اس آزمائش میں بھی پورے اترے۔
روایت میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذوالحجہ کی آٹھویں شب کو خواب میں دیکھا کہ بیٹے کو ذبح کرتا ہوں جب صبح ہوئی تو بہت فکر مند ہوئے اور پھر نویں اور دسویں شب بھی یہی خواب دیکھا مگر پھر بھی تعبیر سمجھ میں نہیں آئی تو اس پر اپنے بیٹے سے کہا اور انہوں نے باپ کے فرمان کے مطابق تسلیم کرلیا کیونکہ باپ بیٹا دونوں جانتے ہیں کہ پیغمبر کا خواب اللہ کی وحی ہوتا ہے۔حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اب تمہارا کیا صلاح و مشورہ ہے وہ بولے کہ میری ہزار جان بھی خدا کی راہ میں قربان ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ نے مجھے قربان ہوتے ہوئے خواب میں دیکھا پس آپ جس طرح بھی ممکن ہو جلدی کیجئے ۔
پھر جب دونوں حکمِ خداوندی پر راضی ہو گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لختِ جگر کو زمین پر ماتھے کے بل بچھاڑا تاکہ بیٹے کا منہ سامنے نظر نہ آئے اور محبت جوش نہ کرے اور حکمِ خداوندی میں کوئی کوتاہی نہ ہو جائے اور یہ بات در حقیقت بیٹے نے اپنے باپ کو سکھائی تاکہ میری قربانی کی آزمائش کی تکمیل ہوسکے اور میں خداوند قدوس کے ہاں مقبول ہو جاؤں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے ویسا ہی کیا جیسا کہ بیٹے نے کہا لیکن چھری کا دستہ حلق پر رہ گیا اور کچھ نہ کٹا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے چھری زمین پر ڈال دی اور اس وقت چھری نے حضرت ابراہیم ؑ سے کلا م کیا کہ اے ابراہیم ؑ ! خدا تمہیں کہتا ہے کاٹواور مجھے کہتا کہ مت کاٹو اور آپکو ایک دفعہ فرماتا اور مجھے دس مرتبہ فرماتا ہے کہ مت کاٹو اور جان لو حکمِ الٰہی سب سے بہتراور اس کے حکم کے آگے کسی کا حکم نہیں چل سکتا ۔
حضرت ابراہیم ؑ اسی گفتگو میں تھے کہ اتنے میں پیچھے سے تکبیر کی آواز آئی اور حضرت جبرائیل کو دیکھا کہ بلند آواز سے اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْدَ کہتے ہوئے آئے۔
اللہ پاک نے اس واقعہ کو یوں بیان فرمایا ہے:
ترجمہ: اور ہم کو یوں پکارا کہ اے ابراہیم ؑ ! بے شک سچ کیا تم نے اپنے خواب کو، تحقیق اسطرح ہم جزا دیتے ہیں احسان کرنے والوں کو یعنی ایسے مشکل حکم میں ڈال کر آزماتے ہیں اور پھر ان کو ثابت رکھتے ہیں اس کے بدلے میں بلند درجات عطا کرتے ہیں بے شک یہی ہے صریح آزمانا اور ہم نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ایک بڑی قربانی کے بدلے چھڑا لیا۔
حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر چھری زور سے چلائی کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے گلا نہ کٹا حضرت جبرائیل ؑ نے حضرت اسما عیل ؑ کو اس جگہ سے ہٹا دیا اور جو دنبہ بہشت سے لائے تھے ان کی جگہ پر لٹا دیا جب حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی آنکھوں سے پٹی کھول کر دیکھا تو ان کے بیٹے کے بدلے ایک دنبہ ذبح ہوا تھا اور یہ سنت آنے والی نسلوں کے لیے قائم کر دی گئی اور قیامت تک یہ سنتِ ابراہیمی ؑ جاری رہے گی اور حضرت ابراہیم ؑ پر سلامتی ہو، ہم یوں ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔( قصص الانبیا)
راہِ خدا وندی میں حضرت امام حسینؓ کی قربانی
حضرت اُمِ سلمہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ دونوں میرے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے کھیل رہے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور کہا ’’اے محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت میں سے ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس بیٹے حسینؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد قتل کر دے گی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس جگہ کی تھوڑی سی مٹی دی۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس مٹی کو اپنے سینہ مبارکہ سے چمٹا لیا اور روئے۔‘‘ اور پھر فرمایا’’ اے اُمِ سلمہؓ! جب یہ مٹی خون میں بدل جاتے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہوگیا ہے ‘‘ اُمِ سلمہؓ نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ لیا اور ہر روز اسکو دیکھتیں اور فرماتیں ’’اے مٹی جس دن تو خون ہو جائے گی وہ دن عظیم ہوگا۔‘‘ گویا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت امام حسینؓ کربلا میں پیش آنے والے واقعات اور آزمائش سے پہلے ہی بخوبی واقف تھے۔
روایت میں ہے کہ حضرت امام حسینؓ جب کربلا پہنچ گئے تو اپنی چھوٹی بہن اُمِ کلثومؓ سے فرمایا ’’اے بہن! ایک بار میں اور میرے بڑے بھائی امام حسنؓ امیر المومنین (حضرت علیؓ) کے ساتھ سفر میں تھے جب ہم اس (کربلا کی) زمین پر پہنچے تو امیرالمومنینؓ آرام کی عرض سے حسنؓ کے زانو پر سر رکھ کر لیٹ گئے میں بھی قریب ہی بیٹھا تھا ۔ آپؓ سو رہے تھے کہ یکایک آپؓ نے آنکھیں کھول دیں اور روتے ہوئے اُٹھ بیٹھے، اور امام حسنؓ نے فرمایا کہ میں نے ابھی خواب میں دیکھا ہے کہ یہ ساری زمین خون کا دریا بن گئی ہے اور میرا فرزند تمہارا چھوٹا بھائی حسینؓ اس دریا میں ہاتھ پاؤں مار رہا ہے، فریاد کر رہا ہے لیکن کوئی اس کی فریاد نہیں سنتا، پناہ مانگتا ہے لیکن کوئی اسے پناہ نہیں دیتا اس کے بعد مجھ سے مخاطب ہو کر پوچھا ’’جب یہ‘‘ واقعہ پیش آئے گا تو تم کیا کرو گے؟‘‘ میں نے نہایت ادب احترام سے گردن جھکا کر عرض کی ’’اے پدر بزرگوار! مَیں امتحانِ خدا پر صبر کروں گا اورانشاء اللہ اسی خون والے دریا میں تیروں گا ۔ مجھے صبر کرنا ناگزیر ہے۔‘‘ (روضتہ الشہدا)
حضرت امام حسینؓ جن کا جسم مبارک اور روح مقدس محبوبِ الٰہی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)، حضرت فاطمتہ الزہرہؓ اور مولا علی کرم اللہ وجہہ سے ہے، عشقِ الٰہی ان کے رگ و ریشے ، جان و تن میں رچا بسا تھا۔ ذاتِ باری تعالیٰ کا اپنے عاشقوں کو آزمانے کا جو طریق ازل سے چلا آرہا ہے ان آزمائشوں کے احوال کے تذکرہ سے کہنے ،سننے اور لکھنے والوں کے دل کانپ جاتے ہیں مگر آپؓ نے اس آزمائش پر بھی صبر، حوصلے، استقامت کا مظاہرہ کیا۔ سب سے بڑھ کر اپنی جان، خاندان، اور بچوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اس نے بجا طور پر آپؓ کو تمام عاشقانِ الٰہی کا امام بنا دیا۔ آپؓ کی آزمائش کی سختی ثابت کرتی ہے کہ آپؓ کا عشق کتنا گہرا اور کس اعلیٰ مقام کا ہوگا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
’’ خدا کے نزدیک کسی انسان کی عزت جتنی زیادہ ہوتی جاتی ہے اسکا امتحان بھی اس قدر سخت ہوتا چلا جاتا ہے۔‘‘
حضرت امام حسینؓ نے مانگی جانے والی قربانی پر پورا اتر کر ثابت کردیا کہ اللہ تعالیٰ کا ان کو اس عظیم قربانی کیلئے منتخب کرنا بالکل درست تھا۔ حضرت امام حسینؓ نے سب سے پہلے اللہ کے دین کی حفاظت اور اپنے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُمت کو پنجۂ باطل کی گرفت سے بچانے کیلئے اپنے گھر بار اور مال کو قربان کر کے اپنے وطن مدینہ سے کوفہ کی طرف سفر کیا۔ اپنے اصحاب، عزیز و اقارب اور اولاد کو بھی اپنے ساتھ کیا تاکہ اللہ کی راہ میں قربانی کا وقت آئے تو کچھ کمی نہ رہ جائے۔اللہ کی راہ سے کوئی پیچھے نہ ہٹا حالانکہ دس دن آپؓ، ساتھیوں اور خاندان والوں کو بھوک پیاس سے بھی آزمایا گیا اور جب جانوں سے آزمائے جانے کا وقت قریب آیا تو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر شوق و جذبہ سے حصہ لیا اور اللہ کے حضور جان قربان کر دی۔
حضرت امام حسینؓ ساتھیوں کو خود تیار فرما کر شہادت کیلئے بھیجتے رہے، ننھے بچوں کو بھوک پیاس سے بلک بلک کر شہید ہوتا دیکھتے رہے، لیکن نہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑا اور نہ ہی رضائے الٰہی میں کسی قسم کی مداخلت کی۔ آپؓ فقرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وارث اور محبوبیت کے رتبہ پر فائز تھے۔ آپؓ اگر چاہتے تو آسمان کی طرف توجہ فرماتے خدا کی ذاتِ قدیر بادلوں کو حکم کرتی وہ برستے اور پیاس کی کوئی صورت نہ رہتی اگر آپؓ فرات کے طرف اشارہ فرماتے تو فرات اپنا رُخ بدل کر آپؓ کے قدموں میں آجاتا ایک نگاہِ غضبناک ڈال دیتے تو یزیدی لشکر تہس نہس ہوجاتا لیکن یہ سب عبودیت اور مقامِ رضا کے خلاف ہوتا۔
حضرت امام حسینؓ کے اصحاب اس قدر وفادار اور مخلص تھے کہ آپؓ نے انہیں اجازت دی کہ وہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں کہ آزمائش کی بڑی گھڑی آنے والی ہے اور وعدہ بھی فرمایا کہ قیامت کے دن وہ ان کی بے وفائی کا گلہ اپنے نانا جان سے نہیں کریں گے اور گواہی دیں گے کہ تمام اصحاب وفادار تھے تمام نے وفاداری کا ثبوت دیا اور آخری لمحات میں بھی وہ اپنی گردنیں آپؓ کے قدموں میں رکھنے کو تیار تھے، تمام اصحاب کا جانثاری کا جذبہ بڑھتا جارہا تھا اور ہرگز آپؓ کو تنہا چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔
کڑی آزمائش کا وقت تھا اس ذبح عظیم کا لمحہ جوں جوں قریب آرہا تھا آلِ رسول کی سختیاں بڑھتی چلی جا رہی تھیں۔تمام اصحاب، حضرت عباس علمدارؓ، حضرت علی اکبرؓ، حضرت عونؓ و محمدؓ حضرت علی اصغرؓ، حضرت قاسم بن حسنؓ جامِ شہادت نوش کر کے نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نثار ہوگئے تھے ایک ایک کر کے حقِ شجاعت دیتے ہوئے صفتِ شہادت سے سرفراز ہوئے۔ آسمان خون کے آنسو رو رہا تھا خاندانِ رسول کے بھوکے پیاسے شہزادوں کے خون نے ریگِ کربلا کو سرخ کر دیا تھا۔
10 محرم 61 ھ نمازِ فجر سے لے کر نمازِ عصر تک تقریباً تمام اصحاب شہید ہو چکے تھے، جن میں 19 اہلِ بیتؓ تھے، اب امام عالی مقامؓ حضرت زین العابدینؓ اور بیبیاںؓ باقی رہ گئیں تھیں حضرت زین العابدینؓ اس وقت بیمار تھے لیکن پھر بھی شہادت کا جذبہ لیے امام عالی مقامؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن امامؓ نے اجازت نہ دی ۔ اور خود میدانِ جنگ کی طرف چل دئیے۔ہزاروں کی فوج سامنے موجود تھی یہ سب امام عالی مقامؓ کی نظر میں چیونٹی کے برابر بھی نہیں تھے۔ امام عالی مقامؓ نے لڑائی شروع کرنے سے پہلے شامی فوج کو اپنے ذاتی و نسبی فضائل اور گستاخیوں اور ظلم کے انجام کے متعلق بیان فرمایا تمام خاندان قربان کرنے کے باوجود بھی امام عالی مقامؓ اپنا فرض نہیں بھولے اور شامیوں کو ہوش میں لانے کی کوشش کی جو کہ دولت اور عزت وجاہ کے نشے میں ڈوبے ہوئے تھے۔
بد باطن سیاہ دل یزیدیوں کے اوپر ذرابھی اثر نہ ہوا جب امام عالی مقامؓ نے اپنی آخری کوشش بھی کرلی تو فرمایا کہ تم جو ارادہ رکھتے ہو پورا کرو اور جس کو میرے مقابلے میں بھیجنا چاہتے ہو بھیجو۔ آپؓ نے دشمن پر حملہ کر دیا اور دشمن کی فوج کی صفوں میں کہرام مچ گیا آپؓ کی تلوار دشمن کے خون سے اپنی پیاس بجھا رہی تھی جن بازوؤں سے لاشے اٹھا اٹھا کر خیمے میں لاتے رہے وہ اب قہر خدا بن کر دشمن پر ٹوٹ رہے تھے غیظ و غضب کا یہ عالم تھا کہ کسی کی بھی جرأت نہ تھی کہ آپؓ کے مقابلے میں آئے آخر کار فیصلہ ہوا کہ اگر اسی طرح جنگ ہوتی رہی تو کوئی بھی اس مردِ مومن شیرِ حق کے ہاتھوں سے نہیں بچے گا لہٰذا یکبارگی حملہ کیا جائے۔ ان شقی قلب دشمنوں نے حضرت امام حسینؓ پر چاروں طرف سے حملہ کردیا تیروں کو برسایا، نیزوں اور تلواروں کی بارش کر دی ایک ملعون نے نیزہ کا وار کیا اور دوسرے نے آگے بڑھ کر سرِ اقدس تن مبارک سے جدا کر دیا۔
یزیدیت جیت کر بھی ہار گئی ہے اور حسینیت بظاہر ہار کر بھی جیت گئی۔ حسینیت محبت و وفا کی علمبردار ہے ۔یزید ظلم اور حسین امن کا نام ہے۔ یزید اندھیرے کی علامت ہے اور حسین روشنی کا استعارہ ہے۔
واضح ہوا کہ ذبح اسماعیل ؑ اور شہادت امام حسینؓ کا باہمی تعلق ہے اگر شہادت حسینؓ کا تعلق ذبح اسماعیل سے جوڑا نہ جائے تو بات مکمل نہیں ہوتی حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کا صرف ذبح کے لفظ سے ذکر کیا گیا ان کی جگہ مینڈھا قربان ہوا تواسے ذبح عظیم کہا گیا۔ قابلِ غور بات ہے کہ مینڈے کی قربانی ذبح عظیم اور پیغمبر کے بیٹے کی قربانی کو محض ذبح کہا جائے۔ سوال یہ پید اہوتا ہے ذبح عظیم سے مراد کونسی قربانی ہے؟ ذبح عظیم یقیناًوہی قربانی ہوگی جو ذبح اسماعیل سے بڑی قربانی کی صورت میں ادا کی گئی۔ اسماعیل علیہ السلام حضرت سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کے فرزند تھے جبکہ سیّدنا حسینؓ حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لختِ جگر اور نورِ نظر تھے۔ قطع نظر اس کے کہ نبی اور صحابی کے مرتبے میں بہت فرق ہوتا ہے، لیکن نسبتِ ابراہیمی ؑ سے نسبتِ مصطفائی یقیناًارفع و اعلیٰ ہے علاوہ ازیں سیّدنا حسینؓ کو سبطِ پیغمبر اور پسرِ بتول و حیدر ہونے کے ساتھ ساتھ نسبتِ ابراہیمی بھی حاصل ہے۔ نیز شہادتِ امام حسینؓ چونکہ سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہی باب ہے اس لیے کائنات کی اسی منفرد اور یکتاقربانی کو ہی ذبح عظیم ہونے کا شرف حاصل ہے۔ لہٰذا بڑی صداقت کے ساتھ یہ بات پاےۂ ثبوت کو پہنچ گئی کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے ضمن میں جس ذبح عظیم کا فدیہ دیا گیا وہ ایک مینڈھا نہ تھا بلکہ وہ لختِ جگر مصطفی حسین ابنِ علیؓ کی قربانی تھی۔
فقر اور قربانی
(مرشد اور سچا طالب)
یہ عشق ہی تھا جس نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح ہونے کیلئے نیچے لٹا لیا یہ جنون اور دیوانگی ہی تھی اللہ کا قرب اور اسکی رضا کے حصول کے لئے حضرت حسینؓ نے اہلِ بیت اور اپنی جان کا نذرانہ راہِ خدا وندی میں پیش کر دیا۔ عقل تو اس کا نکار کرتی ہے اور اپنی جان کی حفاظت کرنے کا کہتی ہے۔ سچا عشق اللہ پاک خود ظاہر فرماتا ہے تاکہ اخلاص و محبت سے طالبِ مولی سبق سیکھے، ایمان کو تازہ اور قلب کو منور کرے اور راہِ فقر میں آنے والے مصائب پر صبرو استقامت سے کام لے اور ان بے مثال نسبتوں کی طرح اپنے ربّ کو اپنی ذات پر ترجیح دینا سیکھے جو حکمِ خدواندی اور اپنی سچی لگن کی وجہ سے اللہ کی ذات پر مرمٹنے کو تیار ہوگئے ۔
غرضیکہ راہِ فقر میں طالبِ مولیٰ کو حضرت ابراہیم ؑ ،حضرت امام حسینؓ اور صحابہ کرامؓ کی زندگی کو نمونہ رکھنا چاہیے۔ قربانی اور ایثار کے جذبے میں چور چور ہونا چاہیے۔ جن کے عشق کی گہرائی سوچ کے روح تڑپ اُٹھے، رونگٹے کھڑے ہو جائیں، اور آنکھیں نم ہوجائیں تب طالب اپنا محاسبہ کرے کہ ان کا بھی وہی خدا ہے اور ہمارا بھی۔ ان کی محبت کی شدت اور اپنی گریبان میں جھانکنا چاہیے ہم نے جان کی بازی تو کیا اپنا مال و دولت میں سے کچھ نہیں خرچ کیا۔ عاشق تو وہی سچا اور مخلص ہو تا ہے جو دنیا کی قید سے آزاد اور خدا کی محبت میں گرفتار ہوتا ہے غرضیکہ کہ راہِ فقر میں وفااور قربانی بہت اہمیت کی حامل ہے جو طالبِ مولیٰ مرشد کے ساتھ مخلص و وفادار اور قربانی میں جتنا کامل اور گہرا ثابت ہو گا اتنی ہی جلدی منزل پاکر حیاتِ جاودانی حاصل کر لے گا۔