عاجزی۔۔۔قربِ حق کا ذریعہ (Ajzi –Qurb E Haq Ka Zariya)
الرسالۃ الغوثیہ (ترجمہ و شرح) سے اقتباس
الرسالۃ الغوثیہ سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کی وہ تصنیفِ مبارکہ ہے جس میں آپ رضی اللہ عنہٗ نے اپنی باطنی معراج کے دوران اللہ تعالیٰ سے ہونے والی گفتگو اور سوال و جواب کو تحریر فرمایا جو اپنے اندر بے شمار اسرار و رموزِ معرفت چھپائے ہوئے ہے۔ سلطان الفقر پبلیکیشنز نے اس کتاب کا ترجمہ و شرح شائع کیا جس میں سے ایک اقتباس اس شمارہ میں شائع کیا جا رہا ہے۔
ثُمَّ قَالَ لِیْ یَا غَوْثَ الْاَعْظَمْ مَا بَعُدَ عَنِّیْ اَحَدٌ بِالْمَعَاصِیْ اِلَیَّ وَ مَا قَرُبَ اَحَدٌ بِالطَّاعَاتِ یَا غَوْثَ الْاَعْظَمْ لَوْ قَرُبَ مِنِّیْ اَحَدٌ لَکَانَ مِنْ اَھْلِ الْمَعَاصِیْ لِاَنَّھُمْ اَصْحَابُ الْعَجْزِ وَ النَّدَمِ یَا غَوْثَ الْاَعْظَمْ اَلْعَجْزُ مَنْبَعُ الْاَنْوارِ وَ الْعُجُبُ مَنْبَعُ الْاَکْبَارِ وَ الْاَوْزَارِ وَ الظُّلُمَاتِ
ترجمہ: پھر مجھ سے فرمایا ’’اے غوث الاعظمؓ! کوئی شخص مجھ سے اپنے گناہ کے باعث دور نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی اپنی طاعت کے باعث مجھ سے قریب ہوتا ہے۔ اے غوث الاعظمؓ! اگر کوئی مجھ سے قریب ہوتا ہے تو وہ اُن گناہگاروں میں سے ہوتا ہے جو عاجزی اور ندامت والے ہیں۔ اے غوث الاعظمؓ! عاجزی انوار کا منبع ہے اور عجب، تکبر، گناہوں کے غلبہ اور تاریکیوں کا منبع ہے۔‘‘
شرح: بطور مسلمان اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے ہم پر ارکانِ اسلام یعنی اقرارِ توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج فرض کیے جن کی ادائیگی ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ تاہم انسانی فطرت یہ ہے کہ جب کوئی شخص نیک یا اچھا عمل کرتا ہے یا کثرت سے عبادات کرتا ہے تو اس کے اندر خود پسندی کا جذبہ جنم لینے لگتا ہے۔ اس کے دماغ میں یہ خیال بیٹھ جاتا ہے کہ وہ دوسروں سے افضل ہے یا اللہ کا نیک و پسندیدہ بندہ ہے، وہ عبادت کرتا ہے لیکن فلاں فلاں لوگ عبادت نہیں کرتے، یا یہ سوچتا ہے کہ وہ دوسروں کی نسبت زیادہ عبادت کرتا یا نیک اعمال سرانجام دیتا ہے یا دوسروں کی مدد کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہی سوچ اس کے دماغ میں جڑ پکڑ لیتی ہے اور یہ تمام فاسد و شیطانی خیالات اس کے اندر عجب یعنی خود پسندی کو پیدا کرتے ہیں۔
میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
عجب (خود پسندی) نفس کی ایسی بیماری ہے جو سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتوں کو ختم کر دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی کمال اور خوبی پیدا کر رکھی ہے۔ کوئی علم میں، کوئی حسن میں اور کوئی زہد و تقویٰ میں بڑا صاحب ِ عظمت ہوتا ہے مگر جب کوئی اپنی خوبی اور کمال کو اس حد تک پسند کرے کہ اس کے مقابلے میں اسے دوسرے کی خوبی نظر نہ آئے تو وہ بیماری عجب کہلاتی ہے۔ (شمس الفقرا)
غزوہ حنین کے موقع پر مسلمانوں کی تعداد کافروں کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔ یہ دیکھ کر مسلمانوں میں عجب پیدا ہوا کہ آج کافروں میں ہمارا مقابلہ کرنے کی تاب کہاں ہے۔ اللہ تعالیٰ کو مسلمانوں کی خودپسندی اچھی نہ لگی اور دورانِ جنگ شکست کے آثار پیدا ہو گئے۔ مگر فوراً ہی مسلمانوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور ان میں عاجزی آ گئی تو شکست فتح میں بدل گئی۔ قرآن نے اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے:
لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ کَثِیْرَۃٍ لا وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍ لا اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ۔ ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا ج وَ عَذَّبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاط وَ ذٰلِکَ جَزَآئُ الْکٰفِرِیْنَ۔ (سورۃ التوبہ۔25-26)
ترجمہ: بیشک اللہ نے بہت سے مقامات پر تمہاری مدد کی اور حنین کے دن جب تمہاری کثرت نے تمہیں نازاں بنا دیا تھا پھر وہ (کثرت) تمہیں کچھ نفع نہ دے سکی اور زمین باوجود اس کے کہ وہ فراخی رکھتی تھی تم پر تنگ ہو گئی چنانچہ تم پیٹھ دکھاتے ہوئے پھر گئے۔ پھر اللہ نے اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور اس نے ایسے لشکر اُتارے جنہیں تم نہ دیکھ سکے اور اس نے ان لوگوں کو عذاب دیا جو کفر کر رہے تھے اور یہی کافروں کی سزا ہے۔
مندرجہ بالا واقعہ سے واضح ہوتا ہے کہ محض خودپسندی کی بنا پر مسلمانوں کی فتح شکست میں بدلنے والی تھی لیکن انہوں نے عاجزی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے غیبی لشکروں سے ان کی مدد فرمائی اور انہیں فتح سے ہمکنار فرمایا۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ عاجزی اللہ کی مدد کا باعث بنتی ہے کیونکہ جو اللہ کے حضور جتنا عجز کا اظہار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر اسی قدر مہربانی فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ عجز سے پاک ہے لیکن وہ عجز کو بہت زیادہ پسند فرماتاہے۔
مولانا رومؒ فرماتے ہیں:’’اس راہ (راہِ حق) میں نیچے جھکنا ترقی کرنا ہے۔‘‘ (مثنوی)
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے اپنی طرف عاجزی و انکساری کے ذریعہ راستہ کھولا۔
عاجزی و انکساری راہِ فقر میں آنے والی مشکلات اور آزمائشوں میں قلعہ بندی کا کام دیتی ہے۔
اللہ کی بارگاہ میں جو جتنا عجز اختیار کرتا ہے وہ اتنا ہی محبوب ہوتا ہے۔
دیدارِ الٰہی، فنافی اللہ اور بقا باللہ کے مراتب عاجزی و انکساری سے حاصل ہوتے ہیں۔
عاجزی و انکساری راہِ فقر میں بہت بڑا ہتھیار ہے جو طالب کو شیطانی و نفسانی حملوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ (مجتبیٰ آخر زمانی)
حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’وصالِ الٰہی‘‘ عاجزی و انکساری سے حاصل ہوتا ہے۔ الٰہی! تیرا راز ہر صاحبِ راز (مرشد ِ کامل) کے سینے میں جلوہ گر ہے، تیری رحمت کا دروازہ ہر ایک کے لئے کھلا ہے جو تیری بارگاہ میں ’’عاجزی‘‘ سے آتا ہے وہ خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔ اے طالب! خود پرستی چھوڑ کر (عاجزی و انکساری اختیار کر) غرقِ نور ہو جا تاکہ تجھے ایسی حضوری نصیب ہو کہ وصل کی حاجت ہی نہ رہے۔ (کلید التوحید کلاں)
آپؒ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:
سو ہزار تنہاں توں صدقے، جیہڑے منہ نہ بولن پھکا ھوُ
لکھ ہزار تنہاں توں صدقے، جیہڑے گل کریندے ہکا ھوُ
لکھ کروڑ تنہاں توں صدقے، جیہڑے نفس رکھیندے جھکا ھوُ
نیل پدم تنہاں توں صدقے باھوؒ ،جیہڑے ہوون سونا سڈاون سکا ھوُ
مفہوم: آپؒ فرماتے ہیں میں ہزار بار اِن طالبوں کے صدقے جائوں جو راہِ فقر میں پیش آنے والی مشکلات و مصائب پر صبر اور شکر کے ساتھ ثابت قدم رہتے ہیں اور کوئی گلہ نہیں کرتے اور میں لاکھوں بار ان کے قربان جاؤں جو وعدے کے پکے ہیں اور جو بات ایک بار کہہ دیتے ہیں اس پر ثابت قدم رہتے ہیں اور کروڑوں بار ان لوگوں پر واری اور صدقے جائوں جو اپنے نفس کو قابو میں رکھتے ہیں اور اربوں بار اُن کے قربان جاؤں جو سونے کی طرح ہوتے ہیں اور ہر وقت دیدارِ حق تعالیٰ میں غرق رہتے ہیں لیکن عاجزی و انکساری کی وجہ سے عوام میں سکہ یعنی معمولی آدمی کی طرح رہتے ہیں اور اپنی بڑائی ظاہر نہیں کرتے۔ (ابیاتِ باھوُ کامل)
جب انسان دن رات خود پر ہی توجہ مرکوز رکھتا ہے اور اپنی صفات و اعمال پر خوش ہوتا ہے تو یہی خود پسندی کی نفسانی بیماری انسان میں تکبر پیدا کرتی ہے اور تکبر کی بنا پر ہی دیگر گناہ سرزد ہوتے ہیں بالآخر یہ خود پسندی انسان کے قلب کو سیاہ کر کے اسے تاریکیوں میں دھکیل دیتی ہے۔
تکبر کے باعث انسان دوسروں کو حقیر اور کمتر اور خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے لگتا ہے جبکہ کبر و عظمت کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور کبریائی صرف اسی کو زیبا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’کبریائی میری چادر ہے اور عظمت میرا تہمد ہے۔ ان دونوں کے بارے میں جو کوئی مجھ سے نزاع کرے گا تو میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا۔‘‘ (ابوداؤد 4090)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جس شخص کے قلب میں رائی کے دانہ کے برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا اور جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہو گا وہ جہنم میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ (ترمذی۔ 1998، سنن ابنِ ماجہ 59)
پس انسان کے لیے کسی صورت مناسب نہیں کہ وہ تکبر کرے۔ تکبر کرتے ہوئے اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا اور اچھا جاننا نہایت ہی مذموم خصلت ہے اور درحقیقت اللہ کے ساتھ دشمنی کرنا ہے۔ تکبر کی بنا پر ہی ابلیس کی تمام عبادت و ریاضت اکارت چلی گئی۔ محض اللہ تعالیٰ کے ایک حکم سے انکار کرنے پر وہ اللہ کی بارگاہ سے ردّ کر دیا گیا۔ اپنی عبادت وزہد اور علم کی بنا پر شیطان نے اللہ کی حکم عدولی کی اور تاقیامت لعنتی قرار پایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ ط اَبٰی وَ اسْتَکْبَرَ چ ژ وَ کَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ (سورۃ البقرہ۔24)
ترجمہ: اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ اس نے انکار اور تکبر کیا اور کافروں میں سے ہو گیا۔
یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر چیز سے بے نیاز ہے اسے عبادت سے بھی سروکار نہیں۔ کسی ایک غلطی یا خطا کی بنا پر انسان کی پکڑ ہو سکتی ہے۔ اس کائنات کی ہر چیز چاہے وہ جاندار ہے یا بے جان، اللہ کی تسبیح کر رہی ہے۔ پھر انسان میں اکڑ پیدا ہوتی ہے تو آخر کس بنا پر؟ اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (سورۃ الحدید۔1)
ترجمہ: جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں۔
اسی طرح فرشتے ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں اور ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ انہیں شمار نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ اللہ کی حکم عدولی نہیں کرتے بلکہ جو فرائض ان کے ذمے لگائے جاتے ہیں انہیں انجام دیتے ہیں۔
اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَ مَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ (سورۃ المومن۔7)
ترجمہ: جو (فرشتے) عرش کو اُٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے اردگرد ہیں سب اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں۔
انسان تو ہر لمحہ اللہ پاک کی تسبیح بھی نہیں کرتا اور اگر اللہ اسے توفیق نہ دیتا تو وہ کوئی عبادت نہ کر سکتا پھر بھی وہ اپنی عبادت پر نازاں ہوتا ہے تو کس بنا پر؟ اسی لیے اللہ پاک نے واضح طور پر فرما دیا کہ کوئی طاعت گزار اپنی طاعت کی بنا پر میرے قریب نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اس گمان میں رہے کہ وہ نیک اعمال کر رہا ہے تو وہ اللہ کے ہاں بہت مقبول ہے۔ قیامت کے روز بخشش اللہ کے فضل کے سبب ہی ہوگی۔
عارفین اور فقرا کے نزدیک عبادت پر فخر کرنا بہت بڑی بیوقوفی اور بھول ہے کیونکہ عبادت تو اللہ نے قبول کرنی ہے خواہ وہ قبول کرے یا ردّ۔
شیخ مطرف رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ’’اگر میں ساری رات سوتا رہوں اور صبح کو ہراساں و پریشان اُٹھوں تو یہ بات مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں ساری رات نماز پڑھوں اور صبح کو اس عبادت پر غرور کروں۔‘‘
شیخ بشیر ابنِ منصور رحمتہ اللہ علیہ نے ایک طویل نماز پڑھی۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص ان کی اس طویل نماز سے بہت تعجب میں ہے۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو اس شخص سے کہا ’’میری اس طویل نماز پر تعجب نہ کر۔ ابلیس نے برسوں عبادت کی۔ تجھے معلوم ہے اس کا کیا انجام ہوا۔‘‘
فرشتے چونکہ اللہ تعالیٰ کی نوری مخلوق ہیں اس لیے ان میں کثافت نہیں اور نہ ہی ان میں نفس ہے لہٰذا ہر طرح کی برائی، خامی اور غلطی سے پاک ہیں۔ انسان اربع عناصر آگ، پانی، مٹی اور ہوا سے بنا ہے اس لیے اپنے اندر ان چاروں عناصر کی خصوصیات رکھتا ہے۔ اس کے اندر نفس بھی ہے جو شہوات پیدا کرتا ہے اور انسان شہوات کے غلبہ کے باعث گناہوں کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔ اس کے علاوہ انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ برائی کی جانب جلد مائل ہو جاتا ہے کیونکہ نفس اس برائی میں لذت پیدا کر کے انسان کو اسکی طرف مائل کرتا ہے۔ اس دنیا کی چکاچوند بھی انسان کو اللہ کی طرف نہیں بڑھنے دیتی یا اللہ کی بندگی سے دور کر دیتی ہے۔ انسان دنیا کی بیشمار لذات میں مشغول رہتا ہے یا پھر فکرِ معاش میں الجھا رہتا ہے۔ غمِ دنیا اور غمِ معاش میں وہ فکرِآخرت کو بھی فراموش کر دیتا ہے۔ یہ بھول جاتا ہے کہ اللہ ہی ہر شے کا خالق و رازق ہے۔ وہی کارساز ہے اور وہی مسبب الاسباب ہے۔ لیکن انسان کے توکل اور یقین کے کیا کہنے کہ مسبب الاسباب کو چھوڑ کر اسباب کے پیچھے خوار ہوتا ہے۔ اسی چکر میں وہ اللہ کی ذات سے بھی غافل رہتا ہے۔ اللہ کی ذات سے غافل ہونا بھی گناہ ہے۔ اگرچہ وہ یہ سب غیر ارادی طور پر کرتا ہے اسی وجہ سے انسان خطاؤں کا پتلا قرار دیا گیا ہے کہ انجانے میں لاشعوری طور پر بھی بہت سی غلطیاں کر بیٹھتا ہے۔
لازم ہے کہ انسان اپنی ہر فکر اللہ تعالیٰ سے منسوب کر لے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل رکھے وہ اس کی ہر ضرورت پوری کرے گا۔ انسان کو چاہیے کہ بس اللہ سے اللہ کی طلب کرے۔ تاہم ابھی بھی دیر نہیں ہوئی۔ اللہ پاک نے انسان کو خوشخبری دی ہے کہ وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے مجھ سے دور نہیں ہوتا۔ اس کی شرط یہ رکھ دی کہ اگر وہ مجھ سے قریب ہونا چاہے تو ہو سکتا ہے لیکن عاجزی کی بنا پر۔ یعنی جب انسان سے کوئی غلطی یا خطا سرزد ہو جائے تو فوراً عاجزی کا اظہار کرے اور اللہ کے حضور معافی کا طلبگار ہو جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام انجانے میں اللہ کی حکم عدولی کر بیٹھے اور جلد ہی انہیں اس کا احساس بھی ہو گیا تو فوراً پکار اُٹھے:
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَاسکتۃ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔ (سورۃ الاعراف۔23)
ترجمہ: دونوں (آدمؑ و حواؑ) نے کہا اے ہمارے ربّ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اور اگر تم نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو یقینا ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے۔
حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ہر کہ آمد در انا در نار شد
خاکی آدمؑ لائق دیدار شد
ترجمہ: جو (شیطان) خود پرستی ،انا اور تکبر میں گرفتار ہوا وہ نارِ جہنم کا شکار ہو گیا لیکن آدمِ خاکی (جو انا سے محفوظ رہا اور گناہ کرنے کے بعد عاجزی سے معافی کے لئے ﷲ تعالیٰ کے سامنے جھک گیا) سزاوارِ دیدار ہو گیا۔
شہوت سے کیا گناہ معاف ہو سکتا ہے لیکن تکبر کی وجہ سے کیے گئے گناہ کی معافی نہیں۔ آدم علیہ السلام کا گناہ شہوت کی وجہ سے اور ابلیس کا گناہ تکبر کی وجہ سے تھا۔ (اسرارِ قادری)
جب اللہ پاک حضرت یونس علیہ السلام سے ناراض ہوا اور انہیں مچھلی کے پیٹ میں رہنا پڑا تو وہ مچھلی کے پیٹ میں اللہ سے اس طرح دعا مانگتے:
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ ژ گ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ۔ (سورۃ الانبیائ۔87)
ترجمہ: تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تیری ذات پاک ہے۔ بیشک میں ہی زیادتی کرنے والوں میں سے ہوں۔
پس غلطی اور گناہ کا سرزد ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن اگر اس گناہ یا غلطی کا اعادہ کرتے رہیں، بار بار اس کا ارتکاب کرتے رہیں اور اس کا احساس تک بھی نہ ہو تو یہ خطرناک حالت ہے۔نفس کے غلبہ سے اگر گناہ کے مرتکب ہو جائیں تو فوراً نادم ہو کر اپنے نفس کو سرزنش کریں، سچے دل سے تہیہ کریں کہ آئندہ ایسا کام نہیں کریں گے اور اللہ کے حضور توبہ و استغفار کریں۔ یہی مراد ہے اللہ کے اس فرمان کی جس میں اس نے فرمایا کہ اگر کوئی مجھ سے قریب ہے تو وہ ان گناہگاروں میں سے ہوتا ہے جو عاجزی و ندامت والے ہیں۔ اسی لیے اللہ پاک نے عاجزی کو انوار کا منبع قرار دیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی تنبیہ فرما دی کہ عجب (خود پسندی) تکبر، گناہوں کے غلبہ اور ظلمات کا منبع ہے۔
دنیادار لوگ نہ اعمال کی درستی پر زور دیتے ہیں اور نہ ہی گناہوں پر پشیمان ہوتے ہیں۔ اگر کوئی گناہ سرزد ہو بھی جائے تو زیادہ پریشان نہیں ہوتے بلکہ یہ سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا ہے وہ معاف فرما دے گا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ان لوگوں کے سینے میں قرآن اس طرح پرانا ہو جائے گا جس طرح جسموں پر کپڑے پرانے ہو جاتے ہیں۔ وہ جو کام بھی کریں گے لالچ اور طمع میں کریں گے اس میں خوف شامل نہیں ہوگا۔ اگر کوئی اچھا عمل کرے گا تو یہ کہے گا کہ میرا یہ عمل قبول ہوگا اور گناہ کرے گا تو کہے گا کہ اللہ اسے معاف کر دے گا۔ (مسند الفردوس، راوی ابنِ عباسؓ)
حضرت فضیل بن عیاضؒ فرماتے ہیں ’’استغفار کے ساتھ گناہ جاری رکھنا جھوٹوں کی توبہ ہے۔ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا جھوٹا میرا امتی نہیں۔‘‘
پس انسان کو چاہیے کہ وہ نہ اپنی عبادات و اعمالِ صالحہ پر مغرور ہو اور نہ ہی اپنی خطاؤں اور گناہوں کے باعث اللہ سے دور ہو بلکہ جب بھی کوئی نیک عمل کرے یا اللہ کی عبادت کرے تو اللہ کا شکرگزار ہو کہ اللہ نے اسے نیک عمل اور عبادت کی توفیق بخشی۔ اگر اللہ کی توفیق شاملِ حال نہ ہوتی تو وہ یہ نیک عمل انجام نہ دے پاتا۔ اسی طرح جب گناہ کر بیٹھے تو فوراً عاجزی کا دامن تھامے اور اللہ کے سامنے انکساری کا اظہار کرتے ہوئے نادم ہو پس اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمائے گا اور اس کے گناہوں سے درگزر کرے گا۔ ایسا ہی گناہگار اللہ کے قریب ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ عجز سے پاک ہے لیکن وہ عجز کو بہت زیادہ پسند فرماتاہے۔
عاجزی و انکساری راہِ فقر میں آنے والی مشکلات اور آزمائشوں میں قلعہ بندی کا کام دیتی ہے۔
حضرت فضیل بن عیاضؒ فرماتے ہیں ’’استغفار کے ساتھ گناہ جاری رکھنا جھوٹوں کی توبہ ہے۔ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا جھوٹا میرا امتی نہیں۔‘‘
Very beautiful ❤️ and informative article
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جس شخص کے قلب میں رائی کے دانہ کے برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا اور جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہو گا وہ جہنم میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ (ترمذی۔ 1998، سنن ابنِ ماجہ 59)
آپ مدظلہ الاقدس کے تمام فرامین حکمت و دانائی سے بھرپور ہوتے ہیں
اللہ کی بارگاہ میں جو جتنا عجز اختیار کرتا ہے وہ اتنا ہی محبوب ہوتا ہے۔
Very informative article
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
عجب (خود پسندی) نفس کی ایسی بیماری ہے جو سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتوں کو ختم کر دیتی ہے۔
مولانا رومؒ فرماتے ہیں:’’اس راہ (راہِ حق) میں نیچے جھکنا ترقی کرنا ہے۔‘‘ (مثنوی)
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے اپنی طرف عاجزی و انکساری کے ذریعہ راستہ کھولا۔
Bohot khoob ya Ghaus e Azam nazr e karam khudara
Allah mujhe aajzi ata farmaye
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے اپنی طرف عاجزی و انکساری کے ذریعہ راستہ کھولا۔
اللہ پاک ہمیں بھی اعجزی اور انکساری سے نوازے اور اُس پر قایم رکھے بیشک اللہ پاک ہر چیز پر قادر ہے
مولانا رومؒ فرماتے ہیں:’’اس راہ (راہِ حق) میں نیچے جھکنا ترقی کرنا ہے۔‘‘ (مثنوی)
عاجزی و انکساری راہِ فقر میں آنے والی مشکلات اور آزمائشوں میں قلعہ بندی کا کام دیتی ہے۔
اللہ کی بارگاہ میں جو جتنا عجز اختیار کرتا ہے وہ اتنا ہی محبوب ہوتا ہے
مولانا رومؒ فرماتے ہیں:’’اس راہ (راہِ حق) میں نیچے جھکنا ترقی کرنا ہے۔‘‘ (مثنوی)
Great article ❤❤
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے اپنی طرف عاجزی و انکساری کے ذریعہ راستہ کھولا۔
بہترین آرٹیکل ہے
عاجزی اللہ کی مدد کا باعث بنتی ہے کیونکہ جو اللہ کے حضور جتنا عجز کا اظہار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر اسی قدر مہربانی فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ عجز سے پاک ہے لیکن وہ عجز کو بہت زیادہ پسند فرماتاہے۔
اس مضمون کو پڑھ کر بہت کچھ سیکھنے کو ملا
مولانا رومؒ فرماتے ہیں:’’اس راہ (راہِ حق) میں نیچے جھکنا ترقی کرنا ہے۔‘‘ (مثنوی)