امیر الکونین-ٓ Ameer Ul Konain

Spread the love

Rate this post

امیر الکونین

دعوت پڑھنے کے تین طریقے ہیں اوّل طریقہ جس میں دعوت زبان سے پڑھی جاتی ہے اور اس کے لیے علمِ گفتگو، حق گوئی اور رزقِ حلال ضروری ہوتا ہے۔ دوم طریقہ جس میں دعوت تصور اسمِ اللہ ذات، اس سے حاصل ہونے والی حضوری اور تصدیقِ قلب سے پڑھی جاتی ہے۔ حدیث :
* اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَلَا یَنْظُرُ اِلٰی اَعْمَالِکُمْ بَلْ یَنْظُرُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَ نِیَّاتِکُمْ 
ترجمہ: بے شک اللہ نہ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے نہ اعمال کو بلکہ وہ تمہارے قلوب اور نیتوں کو دیکھتا ہے۔ 
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
* نِیَّتِ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ 
ترجمہ: مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔
یہ مراتب اس شخص کے ہیں جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا عاشق، مقربِ حق اور معشوقِ الٰہی ہو اور اللہ کی نظر میں منظور اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضوری میں رہنے والا ہو۔وہ نورِ توحیدِ مطلق میں غرق رہتا ہو اور ایسی عبادت کو ترک کرنے والا ہو جو انانیت میں مبتلا کر کے معرفتِ الٰہی سے دور رکھتی ہے۔ سیّد محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کا قول ہے:
* وَمَنْ اَرَادَۃِ الْعِبَادَۃَ بَعْدَ حُصُوْلِ الْوَصُوْلِ فَقَدْ کَفَرَ وَ اَشْرَکَ بِاللّٰہِ تَعَالٰی
ترجمہ: جس نے وصال حاصل ہونے کے بعد عبادت کا ارادہ کیا اس نے اللہ کے ساتھ کفر و شرک کیا۔
اس لیے کہ وصالِ الٰہی حق الیقین کا مرتبہ ہے جس میں طالب دائمی حضوری میں مشاہدہ اور دیدار کرنے والا ہوتا ہے۔ جو کوئی حضوری سے روگردانی کرتا ہے اور عبادت کو حضوری سے بہتر جانتا ہے تو وہ حق کو پوشیدہ رکھتا ہے اور حق سے نابینا ہے تو وہ کافر کیونکر نہ ہو۔ بیت:
شد وجود نور از سر تا قدم
ہر کہ فی اللہ نور شد آنرا چہ غم
ترجمہ: جو نورِ الٰہی میں غرق ہو کر سر سے قدم تک نور میں ڈھل جائے پھر اسے کس چیز کا غم؟
یہ وہ راہ ہے جس میں قربِ الٰہی سے آگاہی کے لیے سر کو قدم بنانا پڑتا ہے بلکہ اپنے سر سے پاؤں تک ہر شے کو فراموش کرنا پڑتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
* مَشِیٌ عَنِ الرَّاسِ بِدُوْنِ الْاَقْدَامِط 
ترجمہ: (اللہ کی طرف جانے والے راستے پر) قدموں کی بجائے سر کے بل چلنا پڑتا ہے۔
مراقبہ کے یہ مراتب تب حاصل ہوتے ہیں جب ظاہری آنکھیں بند ہوں لیکن باطنی آنکھیں عیاں اور روشن ہوں۔ مراقبہ میں باطنی آنکھ سے دیکھنے کے ان مراتب کو صرف وہی شخص جانتا ہے جو فقر کی تمامیت تک پہنچ چکا ہو۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے؟
* وَ اذْ کُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ (الکہف۔24)
ترجمہ: اور اپنے ربّ کا ذکر (اس قدر محویت سے) کرو کہ تم خود کو فراموش کر دو۔
پس معلوم ہوا کہ جب کوئی شخص مقامِ نورِ حضور پر پہنچ جاتا ہے اور فنا فی اللہ ہو کر ذکر سے بے نیاز ہو جاتا ہے تو وہ وحدانیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ ذکر، فکر اور مراقبہ وجود کو فراموش کر دیتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
* مَنْ عَرَفَ رَبَّہٗ فَقَدْ کَلَّ لِسَانَہٗ 
ترجمہ: جس نے اپنے ربّ کو پہچانا پس تحقیق اس کی زبان گونگی ہو گئی۔
یہ عظیم الشان مراتب لاھوت لامکان پہنچنے پر حاصل ہوتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ سلک سلوک معبود کی حضوری کی راہ ہے کیونکہ حضوری تلوار کی مانند یہودی نفسِ امارہ کو قتل کرنے والی ہے اور حضوری میں اہلِ حضور کو جملہ مراتب و مطلوب و مقصود حاصل ہوتے ہیں۔ جو طالب مرشد سے اللہ کی حضوری طلب نہیں کرتا وہ مردود ہے یعنی اس کے دل میں مال و دولت اور مردار دنیا کی محبت ہے جو اسے اللہ کی معرفت اور دیدار سے روک رہی ہے۔ راہِ حضوری غرق کی راہ ہے جو لقائے وحدت سے مشرف کرتی ہے جو طالب مرشد سے لقائے وحدت طلب نہیں کرتا وہ بے ادب اور بے حیا ہے۔ راہِ لاھوت لامکان جہاں اللہ کی حضوری اور معرفت حاصل ہوتی ہے‘ قلب کی حیات میں پوشیدہ ہے۔ ایسا قلب جو دائمی لقا سے مشرف ہونے کے باعث بیدار ہوتا ہے اسے اللہ کے قرب، نورِ حضور اور دیدار کے باعث جذب و کشش حاصل ہوتی ہے۔ سلک سلوک کے یہ تمام مراتب مبتدی و منتہی کو جمعیت اور وصال عطا کرتے ہیں اگر وہ اپنی نگاہ اور توجہ معرفت اور مشاہدۂ جمال کی طرف رکھے۔ توحید حیّ و قیوم کے تمام علوم اور جو کچھ لوحِ محفوظ پر تحریر شدہ ہے وہ تصور اسمِ اللہ ذات کی طاقت اور توفیقِ الٰہی سے منکشف ہوتے ہیں اور ہر شے کی حقیقت واضح کرتے ہیں جس کی تحقیق باطن کرتا ہے۔ جو کوئی اس میں شک کرتا ہے وہ کافر و زندیق ہے۔ یہ تمام مقام و مراتب سر سے ناف تک مشق مرقومِ وجودیہ کرنے سے حاصل ہوتے ہیں جو نفس کی مخالفت کر کے روح کے ساتھ انصاف (یعنی اسے پاک) کرتے ہیں۔ جو کوئی ان مراتب تک نہیں پہنچتا اس کی ہر بات جھوٹ ہے۔ مشقِ مرقومِ وجودیہ کے مراتب یہ ہیں جو مندرجہ ذیل نظم میں درج کیے گئے ہیں:
مشق سر با سرّ رساند خوش بہ بین
این بود اسرار وحدت بالیقین
ترجمہ: مشقِ مرقومِ وجودیہ سرّ تک پہنچا کر دیدار عطا کرتی ہے یہی یقین کے ساتھ وحدت حاصل کرنے کا راز ہے۔ 
این تصور برزخ از ھُو یافتن
ھُو تصور را زبان خود ساختن
ترجمہ: یہ تصورھُو تک پہنچنے کا وسیلہ ہے جو ھُو تک پہنچ جاتا ہے اس کی زبان ھُو کی زبان ہوتی ہے۔ 
میبرد با تو تصورِ کبریا
این مراتب عارفان واصل خدا
ترجمہ: یہ مشق تجھے ذاتِ کبریا تک لے جائے گی اور یہ مراتب واصل باللہ عارفین کو حاصل ہوتے ہیں۔
از تصور سینہ سرّ اِلٰہ
باتصور دل شود ناظر نگاہ
ترجمہ: اگر اللہ کا نام تصور سے سینہ پر لکھا جائے توسینہ رازِ الٰہی سے پُر ہو جاتا ہے اور دل کو ایسی نگاہ حاصل ہوتی ہے کہ دیدار کرنے والا بن جاتا ہے۔ 
از تصور ناف بہ نفس خلاف
ہر کہ این راہ نداند لاف لاف
ترجمہ: ناف پر یہ تصور کرنے سے نفس کشی ہوتی ہے اور جو کوئی تصور کی راہ نہیں جانتا وہ جھوٹا اور شیخی خور ہے۔
مشق پنجاہ پنج ناف تا بسر
این تصور مشق شد صاحب نظر
ترجمہ: اگر یہ مشق پچپن مرتبہ ناف سے سر تک کی جائے تو تصور کی یہ مشق صاحبِ نظر بنا دیتی ہے۔
مشق محرم میکند ہمراز ربّ
باحیا و باوفا و باادب 
ترجمہ: یہ مشق حق تعالیٰ کے اسرار کا محرم بناتی ہے جس سے مشق کرنے والا باحیا، باوفا اور باادب بن جاتا ہے۔
ابتدائے مشق باشد معرفت
و ز مشق زندہ شود عیسیٰؑ صفت
ترجمہ: مشق کی ابتدا میں معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس مشق کے تسلسل سے طالب حضرت عیسیٰ ؑ کی صفت کی مانند زندہ دم ہو جاتا ہے۔
مشق معراج است دائم باحضور 
و ز حضوری مشق شد در غرق نور
ترجمہ: یہ مشق معراج ہے جو دائمی حضوری میں لے جاتی ہے اور آخر یہ مشق نور میں غرق کر دیتی ہے۔ 
کی شناسد مشق را محروم تر
بی خبر از معرفت آن گاؤ خر
ترجمہ: معرفت سے محروم لوگ جو حیوانوں کی مانند ہیں وہ اس مشق کی حقیقت کو کیا جانیں۔
جز باتصور مشق اللہ پیچ پیچ
ہر کہ این راہ نداند ہیچ ہیچ
ترجمہ: اسمِ اللہ ذات کے تصور کے ساتھ کی جانے والی اس مشق کے بغیر یہ راستہ بہت پیچیدہ ہے اور جو یہ راستہ نہیں جانتا وہ باطنی طور پر کمزور ہے۔
طی بگرداند ترا این مشق حق
زیر پای مشق شد جملہ طبق
ترجمہ: یہ مشق تجھے حق تک پہنچانے کا راستہ طے کرا دے گی تب جملہ طبقات تیرے قدموں تلے ہوں گے۔
مشق توفیق است باتحقیق دان
عارفان را مشق دائم باعیان
ترجمہ: اس بات کو تحقیق شدہ سمجھ کہ یہ مشق توفیقِ الٰہی ہے جو عارفین کو دائمی طور پر ہر شے کو عیاں دیکھنے والا بنا دیتی ہے۔
مشق راہبر راہ رحمت حق نما
مشق معشوق است دائم دل صفا
ترجمہ: یہ مشق اللہ کے راستے اور رحمتِ الٰہی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور طالب کا دل ہمیشہ کے لیے صاف کر کے اُسے حق کا معشوق بنا دیتی ہے۔
مشق تصدیق است راہ صادقان
ابتدای مشق باشد لامکان
ترجمہ: مشقِ وجودیہ صادقین کے لیے راہِ تصدیق ہے کہ یہ ابتدا میں ہی لامکان تک لے جاتی ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
* حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِسَیِّءَاتِ الْمُقَرِّبِیْنَ
ترجمہ: نیکوکاروں کی نیکیاں مقربین کے نزدیک گناہ ہیں۔
جو دعوت قلب میں اسمِ اللہ ذات سے حاصل ہونے والی حضوری سے پڑھی جاتی ہے وہ ہر حال میں مقبول ہے کہ یہ توجہ سے پڑھی جاتی ہے۔اگر یہ دعوت اسما الحسنیٰ کے تصور کے ساتھ پڑھی جائے تو اس کی برکت سے طالب کے قلب کو قربِ حق نصیب ہوتا ہے اور وہ دونوں جہان کو توجہ سے طے کر لیتا ہے اور دونوں جہان اس کے ایک ہاتھ کی مٹھی کے تصرف میں آجاتے ہیں اور وہ دونوں جہان کا نظارہ ناخن کی پشت پر دیکھتا ہے۔ اسے نقش اور دائرہ بنانے کی کیا ضرورت؟ اور اسے مؤکل فرشتہ کی کیا حاجت؟ اسے جنوں سے حصار باندھنے کی کیا حاجت، اسے ساعتِ نیک و بد کی کیا فکر، اسے حیواناتِ جلالی و جمالی کھانے کو ترک کرنے کی کیا ضرورت،اسے صاحبِ نصاب ہو کر زکوٰۃ دینے کی کیا حاجت، اسے وظائف کر کے بخشش لینے اور (باطن کے) تالے کھولنے کی کیا ضرورت اور اسے پڑھنے لکھنے اور تین انگلیوں میں قلم پکڑنے کی کیا ضرورت۔ یہ سب ناقص کے وسوسے، خطرات اور وہمات ہیں اس لیے ناقص کے ان جملہ اعمال کو کامل پسِ پشت ڈال دیتا ہے۔ 
تیسری دعوت نوری ہے جو روح کی زبان سے پڑھی جاتی ہے۔ یہ دعوت پڑھنے سے دنیا و آخرت اور آسمان و زمین میں جتنے بھی اللہ کے غیبی و لاریبی خزانے ہیں وہ سب طالب سے مخفی اور پوشیدہ نہیں رہتے۔ عامل عاقل وہ ہے جو حکم سے ہر شے کو تصرف میں تو لے آئے لیکن اپنے نفس کے لیے اس تصرف کی لذات کو جائز نہ سمجھے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
* لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ (القصص۔24)
ترجمہ: تو جو بھی خیر میری طرف نازل کرے میں اس کا محتاج ہوں۔
جان لے کہ فقیر جس پر دنیا و آخرت منکشف ہوتے ہیں‘ چار صفات کا حامل ہوتا ہے ۔ بیت
بانظر عالم کند عارف فقیر
در قید او عالم شود ہر ملک گیر
ترجمہ: اوّل‘ اپنی نظر سے فقیر ساری دنیا کو عارف بنا سکتا ہے کیونکہ اس کی قید اور تصرف میں دنیا کی ہر شے ہوتی ہے۔ 
بانظر غرق آورد برد حضور باشعور
احتیاج ندارد قیل قال ذکر مذکور
ترجمہ: دوم‘ فقیر اپنی توجہ سے غرق عطا کرتا ہے اور پھرشعور کی کیفیت میں ہی حضوری میں لے جاتا ہے جس کے بعد اسے زبانی گفتگو اور وظائف کی ضرورت نہیں رہتی۔
بانظر عالم کند مفلس غنی
بانظر ناظر کند حاضر نبیؐ
ترجمہ: سوم‘ فقیر توجہ سے مفلس کو غنی اور جاہل کو عالم بنا دیتا ہے اور چہارم توجہ سے ہی صاحبِ نظر بناکر مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر کر دیتا ہے۔
ہر کہ منکر از خدا وحدت کرم
کافری مشرک شود اہل از صنم
ترجمہ: جو کوئی خدا کی وحدت اور کرم کا انکار کرتا ہے تو اس کا شمار کافر و مشرک اور بت پرستوں میں ہو جاتا ہے۔
راہ اسلامی بہ تصدیق زبان
دل زبان چون یک شود بیند عیان
ترجمہ: راہِ اسلام میں زبان سے ایمان کی تصدیق ہوتی ہے لیکن جب دل اور زبان ایک ہو جاتے ہیں تو اللہ کا بے حجاب دیدار نصیب ہوتا ہے۔
غرق فی در ذات آن باشد حضور
غرق شد اثبات وحدت ذات نور
ترجمہ: اور جب وہ ذات میں غرق ہو تو اسے اللہ کے سامنے حضوری حاصل ہوتی ہے اور نورِ ذات میں غرق ہو کر اسے وحدت کا اثبات حاصل ہو جاتا ہے۔
غرق کی چند اقسام ہیں جو طالب کے روحانی وجود کو نورِ اسم اللہ ذات میں غرق کر دیتی ہیں۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں‘ خود کو فراموش کر کے نور میں غرق ہونا، غرق روحانی،غرق سلطانی، امان دینے والے اللہ کی امان میں آکر قلبی طور پر غرق ہونا، قربانی دیتے ہوئے غرق ہونا، اللہ کی ذات میں غرق ہونا، لاھوت لامکان میں غرق ہونا، عین دیدارِ الٰہی کرتے ہوئے غرق ہونا، نورِ سبحانی میں غرق ہونا، نورِ ایمانی میں غرق ہونا، اللہ کی ذات میں ایسے غرق ہونا کہ تاریکی کا کوئی پردہ بھی باقی نہ رہے۔ یہ سب غرق تصور اسمِ اللہ ذات کی طاقت سے حاصل ہوتے ہیں کہ اس طریقے میں توفیقِ الٰہی سے صحیح اور غلط کی تحقیق ہوتی ہے کیونکہ ان سب کی اصل اللہ کے ساتھ وصال اور مشاہدۂ نور اور حضوری پر ہے۔ طالب کے لیے پہلے ہی روز ان مراتب پر پہنچنا ضروری اور فرض ہے۔ نیز یہ مراتب تصور اسم اللہ ذات اور تفکر سے مشق مرقومِ وجودیہ لکھنے کی برکت سے حاصل ہوتے ہیں جس سے علمِ حیّ و قیوم مکمل واضح ہو جاتا ہے اور طالب کو ماضی، حال اور مستقبل کی حقیقت معلوم ہو جاتی ہے۔ 
غرق کی دیگر شرح یہ ہے کہ اگر یہ بغیر معرفت اور وصال کے ہو تو محض خام خیالی ہے اور طالب کے لیے باطنی زوال کا باعث ہے۔ مثلاً غرق نفسانی، وسوسہ اور خطراتِ شیطانی میں غرق، جنات کے واہمات میں غرق ہونا جو حیرت پیدا کرتے ہیں، دنیا میں غرق ہونا جو پریشانی پیدا کرتی ہے۔ غرق کی ان سب قسموں کی وجہ استدراج ہے جو معرفت و معراج سے محروم لوگوں کو ہوتا ہے۔
غرق وحدت رہبری را پیشوا
باغرق حاضر شود عارفِ خدا
ترجمہ: باطنی طور پر غرق ہونا ہی وحدت کی طرف پیشوائی کرتا ہے کیونکہ غرق ہو کر ہی ایک عارف حضوری حاصل کرتا ہے۔ 
حقیقی صاحبِ غرق وہ ہے جو اپنے وجود کے سمندر میں غوطہ لگا کر کشمکش کو ختم کرتے ہوئے موتی نکالے۔ ان مراتب کو احمق اہلِ ہوس کیا جانیں۔ عالم کسے کہتے ہیں؟ جو خود کو علم میں اس قدر محو کر لے کہ عمل کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہ ہو (یعنی بغیر ارادے کے نیک عمل کرتا جائے)۔ بیت:
حیّ و قیوم پیش تو قائم
تو گرفتار دیگرے دائم
ترجمہ: حیّ و قیوم ذات ہمیشہ سے تیرے سامنے موجود ہے لیکن تو ہی غیر خدا میں مشغول ہے۔
جو کوئی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے)پڑھتا ہے اور اس کی تفسیر بھی سمجھتا ہے لیکن پھر بھی مخلوق سے التجا کرتا ہے تو گویا وہ ابلیس ہے۔ بیت:
صبر شکر کردم بمنت صد ہزار
نیست مارا جز خدا کس اعتبار
ترجمہ: میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں مرتبہ تیرا احسان مندی کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ مجھ خدا کے سوا کسی پر اعتبار نہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
* طَلْبُ الرِّزْقِ اَشَّدُ مِنْ طَلْبُ اَجْلِہٖ
ترجمہ:رزق موت سے زیادہ شدت سے انسان کا طلبگار ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
* وَمَامِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّاعَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا (ھود۔6)
ترجمہ: اور زمین پر کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی روزی کا ذمہ اللہ پر نہ ہو۔
مصرع!
ای نفس چون سوزی کم نہ شود آنچہ روزئ ما
ترجمہ: اے نفس! تو کیوں پریشان رہتا ہے؟ جو رزق ہمارا مقدر ہے وہ پریشان رہنے سے کم نہ ہوگا۔ 
(جاری ہے)


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں