اپنے وقت کے ولیٔ کامل کو پہچانو!
Apny Waqt Kay Wali-e-Kamil Ko Pehchano
تحریر: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری
سیدّناغوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کی سب سے بڑی تعریف کیا ہے؟
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ روزانہ تین ہزار طالبوں کو بقا باللہ کا مقام عطا کرتے اور دو ہزار کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری عطا فرماتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ولیٔ کامل ایسا ہے جو آج اس پرُفتن دور میں وہی فیض عام کر رہا ہو جو آپ رضی اللہ عنہٗ اپنے دور میں کرتے رہے؟ چونکہ یہ فتنوں کا دور ہے اور ہمارے ذہن میں یہ ڈال دیا جاتا ہے کہ ان فتنوں کے دور میں اس شان کے اولیا موجود نہیں ہیں۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کے بہت سے لوگوں نے بنی اسرائیل کا طریقہ اپنا یا ہوا ہے۔ بنی اسرائیل کے پاس جب ایک نبی آتا تو زندگی بھر اس کی مخالفت کرتے، لیکن جب وہ نبی وصال پا جاتا تو اسے سراہنے لگتے اور جو نیا نبی آتا پھر زندگی بھر اسکی مخالفت کرتے۔ آج یہی طریقہ کار مسلمانوں کا بھی ہے۔ جو زندہ ولی یا مجدد ہو اُسے نہیں ماننااور جب وہ دنیا سے رُخصت ہو جائے تو اس کے گن گانا۔ یہ ایسا زہرِ قاتل ہے جو باطن کے سفر کو تباہ کر دیتا ہے۔ اگر آپ پہلے ہی یہ عقیدہ بنا چکے ہوں کہ ولی موجود ہی نہیں ہے تو پھر آپ کے سامنے ولی آ بھی جائے تو اس کا انکار کریں گے کیونکہ دل سے تو آپ پہلے ہی انکار کر چکے ہیں۔ اگر ولی کا پتہ چل بھی جائے تو اس کی شان نہ پہچان پائیں گے کیونکہ دل تو یہ تسلیم کر چکا ہے کہ آج کے دور میں اس شان کے ولی ہوتے ہی نہیں۔ اس موقع پر اگر اللہ اپنے ولی کی شان آپ پر ظاہر بھی کرے توآپ انکار کر دیں گے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے شیطان نے حق کو جھٹلایا۔ شیطان بھی اللہ کو مانتا تھا، اس نے صرف اللہ کے خلیفہ کا ہی انکار کیا تھا۔ اور ولی کا انکار کرنے والا بھی اللہ کے خلیفہ کا ہی انکار کرتا ہے۔ آج مسلمانوں کے زوال کا سبب یہی عقیدہ ہے۔ اس کے متعلق حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جب فتنے بڑھ جاتے ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ اولیا کی شان بڑھا دیتا ہے۔
یہی طریقہ اللہ کا بھی رہا کہ جو قوم زیادہ گمراہ ہوتی اس کی طرف اولو العزم پیغمبر کو بھیجا جاتا۔ سب سے تباہ کن معاشرہ عرب کا تھا تو اس معاشرے کی اصلاح کے لیے نبی آخرالزماں، وجۂ کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھیجا۔ لہٰذا یہ سوچنا کہ اب فتنوں کا دور ہے اور اولیا کی شان وہ نہیں تو یہ بات سراسردین سے میل نہیں رکھتی کیونکہ یہ بات قرآن سے بھی ثابت ہے:
کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ (سورۃ الرحمن۔29)
ترجمہ: ہر روز ھوُ کی نئی شان ہے۔
حضرت ذوالقرنین کے واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اولیا کی شان دراصل اللہ کی شان ہے۔قرآن میں ہے کہ جب حضرت ذوالقرنین نے ایک قوم اور یاجوج ماجوج کے درمیان دیوار بنا دی تو لوگوں نے ان کی تعریف بیان کی تو انہوں نے کہا:
قَالَ ہٰذَا رَحْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّیْ (سورۃ الکہف۔98)
ترجمہ: یہ میرے ربّ کی رحمت ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اولیا کی شا ن دراصل اللہ کی رحمت کو بیان کرنے کے مترادف ہے یعنی اولیا کی شان کو کم کرنا (معاذاللہ) اللہ کی شان کو کم کرنا ہے۔ شان بھی وہی ہے بس لباس نیا ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ اگر ذات وہی ہے تو پھر ہم کیوں کہتے ہیں کہ اس کی شان (معاذاللہ) وہ نہیں۔۔۔
اب ابتدائی سوال کو دوبارہ دوہراتے ہیں کہ سیدّناغوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کی سب سے بڑی تعریف کیا ہے؟
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں ولیٔ کامل کی سب سے بڑی تعریف یہ ہے کہ اس کی پہچان حاصل کر لی جائے۔
ایک ولیٔ کامل کا جب وصال ہوتا ہے تو ان کے اندر جو حقیقت جلوہ گر ہوتی ہے وہ کدھر جاتی ہے؟؟ اس حقیقت کو توموت نہیں، موت تو جسم کو ہے۔ جیسا کہ ارشادِباری تعالیٰ ہے:
کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ (سورۃ العنکبوت۔ 57)
ترجمہ: ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
کسی نے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس سے پوچھا کہ نفس کیا ہے تو فرمایا:
نفس یہ جسم ہے۔
انسان کی جو حقیقت ہے اس کے متعلق عبدالکریم الجیلیؒ فرماتے ہیں:
حقیقت ازل سے ابدتک ایک ہی ہے ۔وہ ہر زمانے کے مطابق لبا س بدلتی ہے۔ (انسانِ کامل)
ذرا غوروفکرکیجئے!سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کی باطنی حقیقت دورِ حاضر میں کہاں جلوہ گر ہے؟ کون ہے وہ عظیم ہستی جو آج ویسے ہی دین کی تجدید کر رہی ہے جیسے آپ رضی اللہ عنہٗ نے کی؟ تجدید یہ ہے کہ دین کی اصل روح کو قائم رکھتے ہوئے زمانہ کے مطابق کیا جائے کیونکہ اللہ فرماتا ہے کہ زمانہ میں خود ہوں۔ تجدید بھی دو قسم کی ہوتی ہے :جزوی تجدید اور کامل تجدید۔ کون ہے وہ جس کا مزاج سیدّنا غوث الاعظمؓ کے مزاج جیسا ہے، جسکی حقیقت، پاکیزگی، اعتدال، تعصبات سے آزاد سوچ، زمانے کی رفتار کے مطابق ہمت، راہنمائی، تعمیر نو کی اہلیت سیدّنا غوث الاعظمؓ کی عطا سے ان جیسی ہے بلکہ ان کی شبیہ ہے۔ کون ہے وہ ہستی جو شبیہِ غوث الاعظم ہے؟ کون ہے وہ ہستی جس کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے شبیہِ غوث الاعظم کا لقب ملا؟ باخدا وہ ہمارے مرشدکریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں جنہوں نے خود کو سیدّنا غوث الاعظمؓ کی ذات و صفات سے متصف کر لیا ہے۔ سبحان اللہ !
تاریخ میں کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کا بحکمِ الٰہی وقوع پذیر ہونا اٹل ہوتا ہے۔ اگر کوئی ایک شخص وہ کام کرنے میں ناکام رہے تو اللہ کسی دوسرے شخص کو اس کا وسیلہ بنا دیتا ہے۔ جیسا کہ تمام اولیا اللہ کا یہ فریضہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کا تزکیہ کریں تا کہ لوگ فلاح پا سکیں۔ تاہم کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو کسی ہستی کے ساتھ منسوب ہوتے ہیں۔ وہ کام اللہ اپنے خاص بندوں سے لیتا ہے اور اس کی توفیق اور صلاحیت صرف انہی کو عطا کی جاتی ہے۔ اس مضمون میں ان دو ہستیوں کے متعلق بیان کیا جا رہا ہے جنہوں نے ایسے کام کیے جو قیامت تک کے لیے ان کی پہچان بن گئے ہیں۔ وہ کسی اور سے منسوب نہیں کیے جا سکتے۔ ان میں سے ایک ہستی سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ ہیں اور دوسری ہستی دورِ حاضر کے مجدد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس۔
سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کے دور میں جو حالات تھے بالکل ویسے ہی حالات آج شبیہ غوث الاعظم سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے دور میں بھی ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر دیکھیں تو مسلمان رُسوا ہو رہے ہیں۔ دنیا پر غیر مسلم حکومت کر رہے ہیں۔ مسلمان حکومتیں زوال کا شکار ہیں۔ مسلمانوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ فرقہ واریت کا فتنہ دیکھ لیں تو پوری اُمت فرقہ در فرقہ تقسیم ہے۔ ہر عالم دوسرے کو غلط کہہ کر اپنے آپ کو قرآن و حدیث سے صحیح ثابت کرتا ہے۔ ہر طرف منافقت، بدکاری اور دیگر باطنی بیماریوں کا بازار گرم ہے۔تصوف اورباطن کا دعویٰ کرنے والے ہر کونے میں موجود ہیں۔ نام نہاد پیر لوگوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ جھوٹے پیروں نے دنیائے اسلام میں اودھم مچا رکھا ہے۔ اب تو (معاذاللہ) خواتین بھی پیر بننے کا دعویٰ کرتی ہیں اور لوگوں میں مرید کرتی ہیں۔ یاد رکھیں اللہ فرماتا ہے:
یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِہِمْ (سورۃ بنی اسرائیل ۔ 71)
ترجمہ:وہ دن (یاد کریں) جب ہم لوگوں کے ہر طبقہ کو ان کے امام (پیشوا)کے ساتھ بلائیں گے۔
اس لیے ضروری ہے کہ مرشد یا امام کا انتخاب صحیح کریں کیونکہ قیامت کے دن اللہ نے اسی کے ساتھ آپ کو بلاناہے۔ مرشد ایسا ہو جس کے ساتھ اللہ کے سامنے حاضرہوں تواللہ کی بارگاہ میں مقبول ہو جائیں۔
اگرآج سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کی حقیقت کہیں جلوہ گر ہے تو پھر یقینا سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ جیسے کمالات کا ظہور بھی ہوا ہو گا۔ جیسا بیج ہوتا ہے ویسی ہی فصل اُگتی ہے۔ اگر حقیقت سیدّنا غوث الاعظم ؓکی ہے تو پھر کمالات بھی ان کی شبیہ ہونے چاہئیں۔
سیدّناغوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ نے خود بے انتہا ریاضتیں کاٹیں جبکہ اپنے مریدین کو اس سے آزاد کر دیا۔ ان کے لیے راہِ حق آسان کر دی۔ اسی طرح سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے خود مصائب اٹھائے لیکن اپنے طالبوں کے لیے راہ آسان کر دی۔ اس سلسلے میں تین باتیں ہیں اور ہر بعد والی بات پہلی سے بڑھ کر ہے۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس سے پہلے اسمِ اعظم کو ظاہر کرنا حرام تھا لیکن آپ مدظلہ الاقدس کے دور میں اس کو چھپانا حرام قرار دیا۔ صرف اسمِ اعظم عطا نہیں کیا بلکہ صلاحیت بھی دی۔صلاحیت کیا ہوتی ہے؟اسے ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک ولی اسمِ اعظم کا ذکر کر رہے تھے، انہوںنے دیکھا کہ کچھ دور دو فرشتے ان کو مسلسل دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے فرشتوں سے کہا کہ آکر میرے ساتھ ذکر میں شامل ہو جاؤ۔ فرشتے بولے کہ ہم میںاس کی صلاحیت نہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس سے لاکھوں لوگوں نے اسمِ اعظم حاصل کیالیکن آج تک کسی نے آکر یہ نہیں کہا کہ اسمِ اعظم کے (معاذ اللہ) غلط اثرات مرتب ہو گئے ہیں یا اس کی تاثیر اُلٹ گئی ہے۔
کوئی صاحبِ نسبت مرشد بیعت کے بغیر اپنے سلسلے کے ورد و وظائف کسی کو نہیں دیتا اور نہ ہی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا لیکن سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس بغیر بیعت کے بھی اسمِ اعظم عطا کرتے ہیں۔
اسمِ اعظم کا چرچا تو سارے جہاں میںتھا،لوگوں کو اگرچہ ملا نہیں لیکن انہیں یہ ضرور معلوم تھا کہ اسمِ اعظم موجود ہے۔ تاہم ایک ایسا خزانہ جو صرف اولیائے کاملین تک محدود تھا اور اس کا کسی کو پتہ بھی نہیں، وہ ہے اسمِ محمدؐ۔ اسمِ محمدؐ صرف امتِ محمدیہ کو عطا کیا گیا۔ چونکہ اس سے بقا حاصل ہوتی ہے اس لیے یہ صرف ان خوش نصیبوں کو ملتا تھا جو فنا فی اللہ ہو جاتے ہیں۔ کہا جاتاہے کہ اگر منصور حلاجؒ کو اسمِ محمدؐ مل جاتا تو وہ ٹھوکر نہ کھاتے۔ باقی اُمتوں کو اس لیے نہیں ملا کہ ادھر کامل بقا نہیں تھی۔ یہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خاصہ ہے۔
اس سے زیادہ آسان راہ کیا ہو سکتی ہے؟ کیا یہ اسی کمال کا ظہور نہیں جیسا سیدّنا غوث الا عظم رضی اللہ عنہٗ کا کمال تھا۔ سب کچھ طالبوں کے لیے کھول دیاہے، اب باقی صرف چلنا ہی رہ گیا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی کو ہاتھ پکڑ کر زبردستی راہِ حق پر چلایا جائے۔ یہ تو دین میں جبر ہو گا۔ اس لیے راہ پر چلنا خود ہے۔
سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ جب کسی کو مرید بنا لیتے تو اس کو کبھی نہیں چھوڑتے بلکہ کسی نہ کسی طریقے سے مرید کو خود سے جوڑ کر رکھتے۔ اس سے ان مریدین کے مراتب روز بروز ترقی پذیر رہتے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے مسافر اگر کشتی پر سوار رہے تو کنارے لگ جاتا ہے۔ بس ضروری یہ ہے کہ کشتی پر سوار رہے۔ اب ملاح پر ہے وہ کیسے سوار کو اپنے ساتھ جوڑ کر رکھے تاکہ وہ کشتی چھوڑ کر نہ جائے۔
سروری قادری مرشد کامل اکمل کے مراتب حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم سے ہر لمحہ ترقی پذیر ہوتے ہیں۔ اس لیے جب طالب مرشد سے جڑا رہتا ہے تو اس کے مراتب بھی اسی طرح بلند ہو جاتے ہیں۔
سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کا واقعہ ہے کہ ایک روز آپ وعظ فرما رہے تھے۔ آپؓ نے کچھ فرمایا تو ایک شخص کھڑا ہوا کہ میں تب تک نہیں مانتا جب تک یہ راز مجھ پر منکشف نہ ہو جائے۔ سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا اگر ایساہو گیا تو پھر؟ اس نے کہا مجھ سے سب کچھ لے کر محفل سے نکال دیا جائے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ نے اس کو پاس بلا کر اس کا ہاتھ پکڑا۔ فوراً ہی اس پر سب کچھ منکشف ہو گیا۔ لیکن وہ ڈر گیا کہ اب مجھ سے سب کچھ واپس لے لیا جائے گا۔ سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا جب ہم کسی کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں اس کو چھوڑتے نہیں۔
آسان کام تو یہ ہوتا ہے کہ کسی کو مرید بنا لیا اور بات ختم۔ پاکستان میں تو ایسے فریبی اور دھوکے باز نام نہاد پیر کثیر ہیں کہ ایک بار مرید بنا لیا اور سالہا سال ان سے رقم بٹورتے رہے۔ نہ ان کی تربیت کی، نہ صراط ِمستقیم کی طرف رہنمائی کی اور نہ ہی ان کو اپنے ساتھ جوڑا۔
اب بات کرتے ہیں کہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کس طرح مریدین کو اپنے ساتھ جوڑتے ہیں۔۔۔بلکہ میں کہتاہوں کہ جس طرح آپ مدظلہ الاقدس نے اس معاملہ میں انتہا کی ہے کسی اور ولی نے ایسا کام نہیں کیا ہوگا۔
کچھ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب ہی اس حقیقت کو آشکارکرتا ہے جیسا کہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ہر مہینے ایک عظیم الشان محفل منعقد کرواتے ہیں، اس کا کیا مقصد ہے؟ ہر ہفتہ منعقد ہونے والی ’’بزمِ سلطان العاشقین‘‘ کس لیے ہے؟ جمعہ سے اتوار تک آپ مدظلہ الاقدس خانقاہ میں قیام فرماتے ہیں اور اکثر اوقات ایک سے دو ہفتے خانقاہ میں خصوصی قیام فرماتے ہیں، اس کے پیچھے کیا حکمت ہے؟ دعوت و تبلیغ کے لیے قافلوں کو مختلف شہروں میں روانہ فرماتے ہیں تا کہ لوگوں کو آپ مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں لایا جائے، وہ کس لیے ہے؟ اتنی وسیع و عریض خانقاہ میں قیام و طعام کا وسیع انتظام ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ مسجدِزہراؓکے قیام کا مقصد کیا ہے؟ تحریک دعوتِ فقرکے اتنے شعبہ جات قائم فرمانے کی وجہ کیا ہے؟ اس کے علاوہ فیس بک، کورا(Quora)، انسٹا گرام، لنکڈاِن،پن ٹرسٹ، ٹھریڈز، ایکس اور دیگر سوشل میڈیا فورمز پر اکائونٹ بنانے کا مقصد کیا ہے اور جو طالبانِ مولیٰ ان اکاؤنٹس کو مینج کرتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ ’’ماہنامہ سلطان الفقر‘‘ شائع ہوتاہے، کثیر کتب شائع کی جاتی ہیں، ویب سائٹس کے ذریعے پیغامِ حق کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلایا جا رہا ہے، کثیر لوگ جو ان شعبہ جات میں مختلف امورسر انجام دے رہے ہیں، آخر اس سب کا مقصد کیا ہے؟ ایسے ہزاروں سوال ہیں جن سب کا جواب ایک ہے کہ یہ سب اس لیے ہے کہ مریدین اور طالبانِ مولیٰ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس سے جڑے رہیں۔ یہ ہے سیدّنا غوث الاعظمؓ کی حقیقت کا اظہار۔۔
بیعت کے معاملے میں جو انقلابی قدم سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ نے اٹھایا اُسی سنت پر عمل کرتے ہوئے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے بھی انقلابی قدم اُٹھایا۔ بیعت کا آغاز خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایاتھا۔ پھر خلفائے راشدین نے اس سنت پر عمل جاری رکھا۔ لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد اس بیعت کی صورت بدل دی گئی کیونکہ جب بیعت لی جاتی تو حکمران سمجھتے کہ ہمارے خلاف بیعت لی جا رہی ہے اور وہ خیال کرتے تھے کہ بیعت کا حق صرف انہی کو ہے۔امام حسن بصریؓ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے امانت منتقل فرمائی تو بیعت کی یہ صورت چھوڑ دی گئی۔ خرقہ دیا جانے لگا۔ خرقہ کہتے ہیں کہ مرشد جب کسی کو مرید کرے تو اسے اپنی کوئی نشانی دے دے جیسے چادر، لباس، دستار، جائے نماز وغیرہ۔ اِسی طرح سلسلہ چلتا رہا اور لوگ خفیہ طور پر بیعت ہوتے رہے۔ کوئی ڈر کر یہ راہ ہی نہ چلتا کیونکہ بیعت کے بغیر تو سفر شروع ہی نہیں ہوتا طے ہونا تو دور کی بات ہے۔ جب سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کا دور آیا توآپؓ اس شان سے ظاہر ہوئے کہ آپؓ نے بیعت کی اصلی صورت دوبارہ بحال کر دی۔ ایسا کرنا ضروری تھاکیونکہ لوگ چھپ کر اس راستہ پر چلتے تھے۔جب آپؓ نے بیعت کی اصل صورت بحال کر دی تو لوگ آسانی کے ساتھ اس راہ پرچلنے لگے۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے دور اور زمانہ کے مسائل مختلف ہیں۔ گزشتہ ادوار میں جب طالبِ مولیٰ مرشد کامل ڈھونڈنے نکلتے تھے تو اس طرح بارڈر(سرحدیں)نہیں ہواکرتے تھے، کراس بارڈر نقل و حرکت تھی۔ ایک طالب اگر مرشدکا کسی ملک میں سنتا تو پیدل بھی پہنچ جاتااور بغیر خرچے کے پہنچ جاتا۔لیکن اب اگر کوئی ولیٔ کامل دوسرے ملک میں ہے توآپ کو پاسپورٹ، ویزااور ریٹرن ٹکٹ چاہیے،اگراس ملک میں قیام کرناہے تووہاں کی نیشنیلٹی (قومیت) چاہئے۔ اور یہ رائج الوقت طریقہ کار اتنا مہنگا ہے کہ نوّے فیصد لوگ اپنی ساری جائیداد و جمع پونجی بیچ دیں پھر بھی اپنے ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔
خواتین کے مسائل یہ ہیں کہ اگرکوئی خاتون اللہ کی طلب رکھتی ہے تو وہ دوسرے ملک جانا تو بہت دور کی بات ہے دوسرے شہر بھی اکیلی نہیں جا سکتی بلکہ اپنے ہی شہر میں اکیلی نہیں نکل سکتی۔ بظاہر تو بیعت کی اصل صورت سیدّنا غوث الاعظمؓ کے دور سے ہی بحال ہو چکی لیکن آج کے دور میں بھی مذکورہ بالا مشکلات طالبانِ مولیٰ کے پیروں کی زنجیر تھیں۔ ضرورت اس مر کی تھی کہ کچھ ایسا ہو جائے جس کی بدولت یہ سب مشکلیں آسان ہو جائیں اور فقر پر چلنا مزید آسان ہو۔ جیسے سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ نے بیعت آسان کر دی اور وہ سب اس راہ پر چلنے لگ گئے جو چلنا چاہتے تھے، سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے اپنے اعلیٰ مقام اور اُمتِ مسلمہ کی آسانی کے لیے ایک ایسا قدم اٹھا یاکہ سب پریشانیاں فوراً دور ہو گئیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے آن لائن بیعت کا سلسلہ متعارف کروایا۔ آن لائن بیعت کی سہولت وہ انقلابی قدم ہے جوسینکڑوں سالوں تک طالبانِ مولیٰ کو اس راہ پر چلنے میں مدد دے گا۔ آن لائن بیعت کا طریقہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ بیعتِ رضوان کا واقعہ ذہن میں لائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت عثمانؓ کو بھی بیعت فرمایا جبکہ وہ وہاں پر موجود نہ تھے۔لہٰذابیعت کی دو صورتیں ہیں :ایک کوسیدّنا غوث اعظم رضی اللہ عنہٗ نے بحال کیا اور دوسری کو سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے بحال کیا۔ غیر مسلموں نے بھی اس اقدام کو سراہا اور شیفلڈ یونیورسٹی نے اس پر ریسرچ آرٹیکل شائع کیا۔
سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ جب مسندِتلقین و ارشاد پر فائز ہوئے تو تصوف کے بیشمار فرقے بن چکے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ نے حق کو اس طرح واضح کیا کہ یہ سب خودبخود ختم ہو گئے۔ اِسی طرح جب شبیہ غوث الاعظم سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس مسندِتلقین و ارشاد پر فائز ہوئے تو ہر بندہ اپنے آپ کو پیر کہلوا رہا تھا۔ جس کو بھی تصوف کا تھوڑا بہت علم تھا وہ پیر بنا بیٹھا تھا۔ حالت یہ تھی کہ پیری مریدی کو ایک کاروبار سمجھا جاتا تھا۔ ان نازیبا حرکات کی وجہ سے عوام تصوف سے ڈرتے تھے اور جواس راہ پرچلنا چاہتے تھے وہ ان ایمان پر ڈاکہ ڈالنے والوں کے پاس پھنس جاتے۔ حالت یہ تھی کہ پامسٹ اور خواتین بھی پیر بن چکی تھیں۔ تصوف کو شریعت سے بالاتر رنگ دے دیا گیا تھا اور نام نہاد پیرانِ طریقت غیر شرعی امور کو بھی حلال ثابت کر رہے تھے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے ان بدعات اور مشرکانہ رسوم کے خلاف موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق سخت جہاد کیا اور اس سلسلہ میں بڑی صعوبتیں اٹھائیں۔ نام نہاد تصوف کے پیشواؤں نے جتنی آمیزش کی تھی آپ مدظلہ الاقدس نے ان میں سے ایک کو بھی نہ چھوڑا اور فقرِمحمدیؐ کو ان سب سے چھانٹ کر علیحدہ اور واضح کر دیا۔
اس کے ساتھ ساتھ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اپنے مریدین کی اس طرح تربیت فرماتے ہیں کہ وہ جہاں بھی جائیں علمِ لدنیّ ان کی زبان پر ہوتاہے جس سے عوام کے عقائد و اخلاق کی اصلاح ہوتی ہے اور سننے دیکھنے والے پکار اٹھتے ہیں کہ اگر مرید کی یہ حالت ہے تو مرشد کیسا ہو گا۔
ایک غلط فہمی جو عام ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ سیدّنا غوث الاعظمؓ نے صرف وعظ کیا اور کچھ کتابیں تصنیف فرمائیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا سیدّنا غوث الاعظمؓ نے صرف انہی دو کاموں سے سب کچھ کیا۔ آپ رضی اللہ عنہٗ کا قدم تمام اولیا کی گردن پر ہے۔ ہر ولی کو جو بھی مقام و مرتبہ اللہ کی بارگاہ سے حاصل ہوتا ہے وہ اسے ثابت بھی کرتا ہے۔ اسی کے متعلق اللہ فرماتا ہے:
رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ (سورۃ الاحزاب۔ 23)
ترجمہ: جنہوں نے اللہ سے کیا ہوا عہد سچ کر دکھایا۔
یعنی اولیا کو اللہ سے جو ولایت ملتی ہے وہ مخلوق کے سامنے ثابت بھی کرتے ہیں کہ وہ اس کے اہل تھے۔ اِسی طرح سیدّناغوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ نے ثابت کیا کہ آپؓ کا قدم تمام اوّل وآخر اولیا کی گردن پر ہے۔ سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ نے اپنی ایک علمی، فکری، روحانی، اصلاحی تنظیم قائم کی۔ اس تنظیم کے نام کے بارے میںمختلف روایات ہیں بہرحال اس تنظیم کے نام کا مطلب تھا ’’تنظیم اولیائے دین‘‘۔ اس تنظیم میں آپؓ خلوص والے مریدین کو شامل فرماتے ۔اس تنظیم کے کچھ اصول وضع کئے گئے تھے۔ چونکہ آپؓ کا مشن پورے عالمِ اسلام میں دینِ مبین کو زندہ کرناتھا لہٰذا اس عظیم مشن کی تکمیل کے لیے کثیر تعداد میں مریدین تیار کئے گئے اور انہیں دنیا کے کئی ممالک میں بھیجاگیا۔بعینہٖ شبیہ غوث الاعظم سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے سیدّناغوث الاعظمؓ کی اُسی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ’’تحریک دعوتِ فقر‘‘ کی بنیاد رکھی۔ سیدّنا غوث الاعظمؓ اور شبیہ غوث الاعظم کی تنظیم کا مقصد ایک ہی تھا لیکن اس کے طریقہ کار میں تھوڑا سا فرق ہے وہ سمجھیے گا۔
سیدّنا غوث الاعظمؓ مریدین تیار کرتے اور علمِ لدنی عطا فرما کر انہیں مختلف ممالک کی طرف روانہ فرما دیتے۔ کہا جاتاہے کہ آپ رضی اللہ عنہٗ کے پاس جتنی مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے بیعت ہوئے اتنے ہی ممالک میں آپ رضی اللہ عنہٗ کی تنظیم نے کام کیا۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے دیکھا کہ مختلف ممالک میں کون سے مختلف سوشل فورمز کام کر رہے ہیں کیونکہ آج کے دور میں سب سے بہترین ذریعہ جس کی بدولت پیغام پھیلایا جا سکتا ہے وہ سوشل میڈیافورمز ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے ان فورمز کو شارٹ لسٹ کیااور ان فورمز کو چلانے کے لیے مریدین کی تربیت کی۔ اب ان فورمز کے ذریعہ دنیا بھرمیں فقر محمدیؐ کا پیغام عام فرما رہے ہیں۔ ہر روز ان فورمز کے ذریعہ لوگوں کو فقر کی طرف بلایا جاتا ہے۔جو فورم جس ملک میں چلتا ہے وہاں کا مرید ہی اس کو چلاتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کس قدر وسیع پیمانے پر فقر کو عام فرما رہے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں عظیم ہستیوں نے کیسے دینِ اسلام کی اصل روح دوبارہ سے اُجاگر کی۔ غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کا تو مشہور واقعہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہٗ کہیں سے آ رہے تھے تو راستہ میں ایک نہایت کمزور بوڑھا ملا۔ اس نے آپ رضی اللہ عنہٗ سے اپنی کمزوری دور کرنے کی درخواست کی توآپ رضی اللہ عنہٗ کی نگاہ سے وہ فوراً صحت یاب ہو گیا۔ اس نے کہا کہ میں دینِ اسلام ہوں ،میں لاغر ہو گیا تھا لیکن آپ رضی اللہ عنہٗ نے مجھے حیاتِ نو بخشی ہے اس لیے آج سے آپ رضی اللہ عنہٗ کا لقب ’’محی الدین‘‘ ہے۔ اس طرح آپ رضی اللہ عنہٗ کا یہ لقب مشہور ہو گیا۔
دورِ حاضر میں بھی لوگ دین کی روح ’’فقر‘‘ سے آگاہ نہیں ہیں۔ عام لوگ تو ایک طرف علما بھی اس سے انجان ہیں۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے طفیل پتہ چلا کہ دین کی روح بھی ہوتی ہے اور یہ بھی پتہ چلا کہ ’’فقر‘‘ دین کی روح ہے۔ علما کی یہ حالت تھی کہ قرآن و حدیث میں جہاں بھی فقر کا ذکر آیا اس کا ترجمہ تنگدستی و مفلسی کر دیا۔ اس کی ایک مثال قرآن کی درج ذیل آیت ہے:
اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ (سورۃ البقرۃ۔ 268)
ترجمہ: شیطان تمہیں ڈراتا ہے محتاجی سے۔
یعنی قرآن کہہ رہا ہے کہ شیطان فقر سے ڈراتا ہے اور ترجمہ کرنے والا کہتا تھا کہ شیطان محتاجی سے ڈراتا ہے۔یہ تھی علما کی حالت۔ اور دین کی روح کو زندہ کرنے کے لیے جو صعوبتیں سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے اٹھائیں وہ بیان سے باہر ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے جس قدر محنت کی اس کا نتیجہ آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ دینِ اسلام کی روح کو عام کرنے کی تحریک آپ مدظلہ الاقدس نے اس طور پر چلائی کہ آج جو فقر کے بارے میں جاننا چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر یہ بات جان سکتا ہے۔ اور اگر کوئی فقر کا متلاشی ہے تو فقر اس سے چھپ نہیں سکتا۔ یہ بات بھی حق ہے کہ جو انتظام آپ نے کیا ہے اب تا قیامت فقر کی حقیقت لوگوں پر واضح ہوتی رہے گی۔
سیدّناغوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ نے وہ انفرادی انقلاب برپا کیاکہ اس کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔اسی طرح شبیہِ غوث الاعظم نے مسلم اُمہ کی خرابیوں کو غور سے دیکھا اور یہ کھوج لگایا کہ ان میں بنیادی خرابی کون سی ہے جس سے تمام خرابیوں کی جڑیں نکلتی ہوں۔ آخرکار آپ مدظلہ الاقدس نے ایک چیز پر انگلی رکھ دی اور وہ تھی تزکیۂ نفس۔مسلمانوں میں نفسانی بیماریاں جیسے جھوٹ، بددیانتی، غرور و تکبر، حسد، عجب، ریاکاری، غصہ، بغض و کینہ، غفلت وغیرہ پیدا ہو چکی تھیں۔ مسلمانوں میں ہر طرف اخلاقی انحطاط رونما ہو چکا تھا جس کے اثر سے کوئی طبقہ خالی نہ رہا۔ مسلمانوں کی انفرادی زندگی قرآن اور سنت کی روشنی سے بڑی حد تک خالی تھی۔ مسلمانوں کی زندگی بدعات وخرافات سے بھری ہوئی تھی۔ اس وقت ضرورت تھی کہ انفرادی انقلاب کے لیے تزکیۂ نفس کی راہ کھولی جائے۔لہٰذا آپ مدظلہ الاقدس نے غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کی طرح لوگوں کی ذہنی، اخلاقی اور معاشرتی زندگیوں سے جاہلیت کے اثرات کو ختم کرنا شروع کیا۔اس مقصد کے لیے آپ مدظلہ الاقدس نے خانقاہ سلطان العاشقین کی بنیاد رکھی جہاں دور دراز سے طالبانِ مولیٰ آتے ہیں اورآپ مدظلہ الاقدس کی نگاہ سے ان کا تزکیۂ نفس ہوتا ہے۔
سیدّنا غوث الاعظمؓ جب تشریف لائے تو دنیا میں جو نیک لوگ تھے وہ راہبانہ زندگی اختیار کیے ہوئے تھے۔ آپؓ نے راہبانیت کو ختم کیا۔ اسی طرح سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے جب مسندِتلقین و ارشاد سنبھالی تو لوگوں کو صراطِ مستقیم کی طرف بلانے والے بہت کم لوگ تھے اور جو تھے وہ راہبانیت کا درس دے رہے تھے۔ ان کے نزدیک ترکِ دنیا سے مراد ظاہری طور پر الگ ہوکر اللہ کی عبادت کرنا تھا۔سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے اس معاملے میں بھی اپنے آپ کو شبیہ غوث الاعظم ثابت کیا۔ اس سلسلے میں تجدید کے لیے جو اقدامات اٹھائے ان کا احاطہ مشکل ہے لیکن بات سمجھنے کے لیے اس کی بہترین مثال موجود ہے۔ کثیر مرد و خواتین جب آپ مدظلہ الاقدس کے ہاتھ مبارک پر بیعت ہوئے اور انہیں معرفت کا جام ملا تو وہ پکار اٹھے کہ حضور ہم سب کچھ چھوڑ کر آپ کی بارگاہ میں رہنا چاہتے ہیں تو آپ مدظلہ الاقدس نے سختی سے منع فرما دیا اور فرمایا کہ اصل کامیابی یہ ہے کہ دنیا میں رہا جائے اور دنیادل کے اندر نہ آئے، بجائے اس کے کہ سب کچھ چھوڑ کر اس راہ پر چلا جائے۔ کامل صوفی وہ کام کرتا ہے جو خلقت کے مزاج کے مطابق ہو۔ خریدار کی ضرورت کے مطابق سامان رکھا جاتا ہے چاہے اس میں اپنے لیے تکلیف ہو۔ اسی طرح سیدّنا غوث الاعظمؓ نے اپنے دور کے لوگوں کے مزاج کے مطابق وعظ کیے اور کتب تحریر فرمائیں۔ جبکہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے موجودہ دور کے مطابق دنیا بھر کے لوگوں کے مزاج کے مطابق طریقہ کو اپنایا۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے کام کا اجمالی نقشہ اگر کھینچا جائے تو یہ بنتا ہے:
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے موجودہ دور کو سمجھا کہ جاہلیت کہاں کہاں سرایت کی ہوئی ہے۔ اس کی جڑیں کہاں ہیں اور اسلام کی کیا حالت ہے۔
پھر آپ مدظلہ الاقدس نے تعین کیا کہ اس وقت ضرب کہاں لگانی ہے یعنی کیا کام فوری کرنا ہے اور کیا آہستہ آہستہ کرنا ہے تا کہ جاہلیت ختم ہو اور ہر کسی کی انفرادی تربیت ہو جس سے اجتماعی زندگی میں اسلام آئے۔
آپ مدظلہ الاقدس اپنی تعلیمات اور صحبت سے لوگوں کے خیالات کو بدل رہے ہیں اور لوگوں کے افکار کو اسلام کے مطابق کر رہے ہیں۔
جمود ختم کر کے عمل پر راغب کر رہے ہیں۔
اس طرح دینِ اسلام کی تعمیرِ نو فرما رہے ہیں کہ اسلام کی روح برقرار رہے اور اسلام دنیا کی امامت کر سکے۔
انفرادی تربیت فرما کر اسلام کے ابھرنے کا راستہ پیدا کر رہے ہیں۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس سیدّنا غوث الاعظمؓ کی طرح عالمگیر تحریک چلا رہے ہیں اور اس نعمتِ عظمیٰ کو ایک ملک تک محدود نہیں رکھا۔
پہلی صدی میں وہ کامل صوفی جنہوں نے تاریخ کا دھارا بدلا وہ سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ ہیں اور اس صدی میں جنہوں نے تصوف کے نظام کو دوبارہ کھڑا کیا وہ شبیہ غوث الاعظم سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے روحِ اسلام کو تازہ کیا اور کر رہے ہیں اور ایسا لٹریچر اور علم چھوڑا ہے کہ فقرِ محمدیؐ تا قیامت چھپ نہیں سکتا۔ جو چیز آپ کو شبیہ غوث الاعظم سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی بارگاہ سے حاصل ہو سکتی ہے وہ دنیا میں کہیں اور سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس کی گواہی وہ لوگ دے سکتے ہیں جنہوں نے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس سے فقر کی نعمت پائی۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے جب مسندِتلقین و ارشاد سنبھالی تو اس وقت پڑھے لکھے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو (معاذاللہ) بہت عرصہ ہو چکا اس لیے وہ موجودہ دور کے لیے نہیں ہے۔ لیکن جب آپ مدظلہ الاقدس نے لوگوں کی تربیت کی اور ان کی رہنمائی فرمائی تو قرونِ اوّل کے صحابہؓ و تابعین کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کو دیکھ کر اہلِ بصارت یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس پایہ کی بزرگ ہستی ہمارے درمیان موجود ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے اپنے عمل اور تعلیمات سے واضح کیا کہ دین دنیا بھر میں عام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ دور کے تمام فورمز سے دین کو عام کیا جائے۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے جو کتب لکھیں ان کا اندازِ بیاں، خیالات، نظریات، مواد، تحقیق کسی چیز پر بھی ماحول کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا حتیٰ کہ اس کے اوراق کی سیر کرتے ہوئے یہ گمان نہیں ہوتا کہ یہ سب ایسے معاشرے میں لکھا گیا جس کے گردوپیش عیاشی، نفس پرستی، قتل و غارت، ظلم و جبر، بد امنی اور طوائف الملوکی کا طوفان برپا تھا۔ آپ مدظلہ الاقدس نوجوان نسل کے دل و دماغ میں نئی روشنی پیدا کر رہے ہیں۔ اس طرح آپ مدظلہ الاقدس نے آزاد خیالی کی بنا پر نئی دنیا بنائی۔ بقول علامہ اقبالؒ:
جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سر آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی
آپ مدظلہ الاقدس نے صدہا برس کی جمی ہوئی غلط فہمیوں کا غبار چھانٹا، غلط عقائد کے بنے ہوئے پختہ سانچے کو توڑ کر اس کے ملبے سے اصلی اور ازلی پائیدار نعمتِ فقر کو نکال کر دنیا کے سامنے رکھ دیا۔
عوام الناس کے لیے دعوتِ عام ہے دل و جان اور یقین کے ساتھ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے مرید ہو جائیں۔ اس دور میں اور آنے والے دور میں تا قیامت اگر کسی کو معرفت حاصل ہو گی تو باخدا سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے دَر سے ہو گی اس لیے اس دَر کو خلوص سے پکڑیے اور گردن جھکا کر دعا کیجیے کہ اے ازل کے بھیدوں کے میخانہ کے ساقی!مجھے میکدۂ معرفت سے ایک قطرہ دیدے۔ آمین