فضائلِ رمضان( Fazail -e- Ramzan)
تحریر: سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
(Sultan ul Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib ur Rehman)
حضرت سلمان فارسیؒ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam)نے شعبان کے آخری دن ہم کو خطبہ ارشاد فرمایا:
’’اے لوگو! ایک بہت بڑے مہینہ نے تم پر سایہ کیا ہے‘ اللہ نے اس کے روزوں کو فرض اور رات کے قیام کو نفل قرار دیا ہے۔اس ماہ میں جو شخص کسی نیکی کے ساتھ اللہ کی طرف ’’قرب‘‘ چاہے اس کو اس قدر ثواب ملتا ہے کہ گویا اس نے فرض ادا کیا۔ جس نے رمضان (Ramadan) میں فرض ادا کیا اس کا ثواب اس قدر ہے گویا اس نے رمضان (Ramadan) کے علاوہ دوسرے مہینوں میں ستر فرض ادا کیے۔ وہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے‘ وہ مساوات‘ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ وہ ایسا مہینہ ہے کہ اس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے اور جو ایک روزہ دار کو روزہ افطار کرائے اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور اس کی گردن آگ سے آزاد کر دی جاتی ہے اور اس سے روزہ دار کے ثواب میں کمی نہیں آتی۔‘‘
ہم نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) ہم میں سے ہر شخص روزہ (Roza)افطار نہیں کروا سکتا۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی یہ ثواب عطا فرماتا ہے جو ایک گھونٹ دودھ‘ ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے کسی کا روزہ(Roza) افطار کرواتا ہے۔ جو روزہ دار کو سیر ہو کر کھانا کھلائے اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض سے پانی پلائے گا‘ وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہوگا۔یہ ایسا مہینہ ہے جس کا اوّل حصہ رحمت، درمیانہ حصہ بخشش اور آخری حصہ آگ سے آزادی ہے‘ جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام (نوکر) کا بوجھ ہلکا کر دے اللہ اس کو بخش دیتا ہے اور آگ سے آزاد کر دیتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) کا ارشاد مبارک ہے ’’ رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ شعبان میرا اور رمضان (Ramadan) میری امت کا مہینہ ہے۔ ‘‘
رمضان (Ramadan) ’رمض‘ سے مشتق ہے اور عربی زبان میں رمض کے معنی جلانا کے ہیں۔ یہ مسلمانوں کے گناہوں کو جلا دینے والا مہینہ ہے‘ اس لیے اس کانام رمضان المبارک (Ramadan-ul-mubark) ہے۔ روزہ (Roza) کے لیے عربی زبان میں لفظ صوم استعمال کیا جاتاہے‘ جس کے معنی رکنے اور باز رہنے کے ہیں۔ روزہ کی حالت میں مسلمان فجر سے لے کر مغرب تک حلال چیزیں کھانے پینے سے رکا رہتا ہے‘ اس لیے اسے صوم کہتے ہیں۔
روزہ کی فرضیت
رمضان (Ramadan) کے روزوں کی فرضیت کا حکم 02ھ میں تحویلِ قبلہ سے کم و بیش پندرہ روز بعد نازل ہوا۔
روزہ کی فرضیت کا مقصد
ہر عبادت یا کام کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے‘ روزوں کا مقصد کیا ہے؟ آئیں دیکھتے ہیں قرآن اس بارے میں کیا کہتا ہے:
’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ (البقرہ۔ ۱۸۳)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ روزوں کی فرضیت کا مقصد مسلمان کو متقی یعنی مومن بنانا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) کا فرمان ہے: ’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے یعنی تقویٰ والا ہے۔ ‘‘
اب تقویٰ کیا ہے؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) سے ایک مرتبہ تقویٰ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انگلی سے دل کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تقویٰ یہاں ہوتا ہے۔
تقویٰ اصل میں قلب(باطن) کے اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کا نام ہے۔ جس قدر کسی کا قلب اللہ تعالیٰ کے قریب ہوگا وہ اسی قدر متقی ہوگا یعنی تقویٰ قربِ الٰہی کا نام ہے۔ روزہ انسان کو قربِ الٰہی میں لے جاتا ہے‘ اس عبادت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے’’روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں خود ہوں‘‘ یعنی روزہ (Roza) کی جزا قربِ الٰہی ہے۔
قرآنِ پاک میں ارشاد ہے:
ترجمہ:’’یہ کتاب تقویٰ والوں کو راہ دکھاتی ہے۔‘‘ (البقرہ)
اس آیت مبارکہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرآنِ پاک سے ہدایت صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو متقی ہوتے ہیں۔
تقویٰ کا پہلا درجہ یہ ہے کہ جس چیز پر علما اور فقہا کا فتویٰ ہے اس سے بچنا ضروری ہے‘ یہ عام مسلمانوں کا تقویٰ ہے۔ دوسرا درجہ مشتبہ چیزوں سے پرہیز ہے یعنی شریعت میں کسی چیز کو بظاہر حلال کر دیا گیا ہے لیکن مشتبہ کہلاتی ہے‘ تو اس سے گریز صلحا کا تقویٰ ہے۔ تیسرے درجہ پر وہ متقی ہیں جو حرام ہو جانے کے اندیشہ سے بھی گریز کرتے ہیں۔ یہ’’اتقیا‘‘ کا درجہ ہے۔ چوتھادرجہ ان چیزوں سے گریز کا ہے جن سے عبادات و اطاعت پر قوت حاصل نہیں ہوتی یہ’’صدیقین‘‘ کا تقویٰ ہے۔ گویا پہلا درجہ جو عوام کا تقویٰ ہے‘ ترکِ کفر و شرک ہے۔ دوسرا درجہ جس میں شرع کی منہیات سے پرہیز اور گناہ کے ترک کرنے کا حکم ہے، یہ متقیوں کا تقویٰ ہے۔ تیسرے درجے پر خواص کا تقویٰ ہے جو عبادات و ریاضت میں خطرات کو کم کرتا ہے‘ چوتھے درجہ پر وہ ہیں جو ہر لمحہ ترکِ ماسویٰ اللہ پر قائم ہیں اور دنیا کا کوئی خطرہ دل میں نہیں آنے دیتے، نفس اور شیطان سے خلاصی پاچکے ہیں۔ یہ خاص الخاص یعنی عارفین کا تقویٰ ہے‘ یہی اہلِ تقویٰ اللہ کے محبوب ہیں۔
یعنی روزہ (Roza) کا اصل مقصد متقی بنانا ہے۔ اگر تقویٰ حاصل ہوگا تو قرآنِ کریم سے راہنمائی‘ نور اور صراطِ مستقیم حاصل ہوگا اور تقویٰ کی کس منزل تک پہنچنا چاہیے اس کی قسمیں بیان کر دی گئی ہیں۔ جس طرح انسان دنیا میں اعلیٰ سے اعلیٰ مراتب اور اعلیٰ سے اعلیٰ زندگی کے حصول کی کوشش کرتا ہے، اسے اسی طرح تقویٰ کی بھی اعلیٰ سے اعلیٰ منزل اور مرتبہ کی کوشش کرنی چاہیے اور رمضان المبارک (Ramadan)ان لوگوں کے لیے ایک سنہری موقع ہے کہ اللہ تعالیٰ سے صراطِ مستقیم طلب کریں اور تقویٰ کے حصول کی کوشش کریں۔
رو زہ کی جزا
ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’میں ہر نیکی کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک دیتا ہوں‘ لیکن روزہ (Roza) میرے لیے خاص ہے اس کی جزا میں خود ہوں۔‘‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’صبر نصف ایمان ہے اور روزہ نصف صبر ہے‘‘ اور فرمایا ’’روزہ دار کے منہ کی بو خدا کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بہتر ہے۔‘‘ حق تعالیٰ فرماتا ہے’’میرے بندے نے کھانا پینا اور جماع میرے لیے چھوڑ دیا‘ میں ہی اس کی جزا دے سکتا ہوں‘‘ اور رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے’’روزہ دار کا سونا عبادت‘ سانس لینا تسبیح اور دعا بہترین اجابت ہے‘‘ اور فرمایا’’جب رمضان (Ramadan) کا مہینہ آتا ہے تو بہشت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں اور ایک منادی کرنے والا پکارتا ہے ’’اے طالبِ خیر جلد تیرا وقت ہے اور اے طالبِ شر ٹھہر جا کہ تیری جگہ نہیں۔ ‘‘
روزہ (Roza) طریقت و حقیقت
پیر انِ پیر سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
روزہ (Roza) شریعت یہ ہے کہ انسان دن کو کھانے پینے اور جماع کرنے سے باز رہے اور روزہ طریقت یہ ہے کہ انسان ظاہر و باطن میں رات دن اپنے تمام اعضا کو شریعت میں حرام اور ممنوعہ چیزوں اور تمام بُرائیوں مثلاً تکبر‘ غرور‘ حسد، لالچ ، کینہ‘ بغض‘ خودپسندی اور عجب وغیرہ سے باز رکھے۔ اگر وہ مذکورہ بالا بُرائیوں میں سے کسی ایک کا بھی ارتکاب کرے گا‘ تو اس کا روزہ (Roza) طریقت باطل ہو جائے گا۔ روزہ شریعت کا ایک وقت مقرر ہے لیکن روزہ (Roza) طریقت عمر بھر کا دائمی روزہ ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) کا فرمان ہے ’’بہت سے روزے دار ایسے ہیں جنہیں روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ کتنے ہی روزے دار ہیں جو افطار کرنے والے ہیں اور کتنے ہی افطار کرنے والے ہیں جو (افطاری کے باوجود) روزے سے ہوتے ہیں‘ یعنی وہ اپنے اعضا کو مناہی (شریعت میں ممنوعہ باتوں) اور لوگوں کو دکھ دینے سے باز رہتے ہیں۔ چنانچہ حدیثِ قدسی میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’روزہ (Roza) میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا ہوں۔‘‘ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) کا ارشاد ہے’’روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کی خوشی اور دوسری روئیت (دیدار) کی خوشی‘‘ اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور کرم سے ہمیں بھی یہ خوشیاں عطا فرمائے۔ اہلِ شریعت نے یہاں افطار سے مراد ’’غروبِ آفتاب کے وقت کھانا پینا‘‘ لیا ہے اور روئیت سے مراد ’’ہلالِ عید دیکھنا لیا ہے‘‘ لیکن اہل ِ طریقت فرماتے ہیں کہ افطار سے مراد ’’جنت میں داخل ہونا اور اس کی نعمتیں کھا کر روزہ طریقت افطار کرنا‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور آپ کو بھی یہ نصیب فرمائے اور روئیت سے مراد ’’چشمِ سرِّ (نورِ بصیرت) سے دیدار الٰہی سے مشرف ہونا‘‘ ہے۔
ایک روزہ (Roza) حقیقت ہے اور اس سے مراد فواد (دِل) کو طلبِ ماسویٰ اللہ سے پاک کرنا اور سِرّ کو مشاہدۂ غیر اللہ کی محبت سے پاک رکھنا ہے۔ چنانچہ حدیثِ قدسی میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے ’’انسان میرا سِرّ (بھید) ہے اور میں انسان کا سِرّ ہوں۔ سِرّ اللہ تعالیٰ کے نور سے ہے اس لیے اس کا میلان غیر اللہ کی طرف ہرگز نہیں ہوتا۔ اس کا دنیا اور آخرت میں سوائے ذاتِ حق تعالیٰ کے کوئی محبوب و مرغوب و مطلوب نہیں۔ اگر وہ غیر اللہ کی محبت میں مبتلا ہو جائے تو روزہ حقیقت فاسد ہو جاتا ہے۔ اس کی قضا یہ ہے کہ دنیا و آخرت میں غیر اللہ کی محبت سے تائب ہو کر دوبارہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اسی کی محبت ولقا (دیدار) میں غرق ہو جائے جیسا کہ حدیثِ قدسی میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’روزہ (Roza) میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا ہوں۔‘‘ (سر الاسرار)
حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
روزہ (Roza) تین درجات میں منقسم ہے۔
روزہ (Roza) عوام کا۔
روزہ (Roza) خواص کا۔
روزہ (Roza) خواص الخواص کا۔
عوام کا روزہ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے اس کی غایت کھانے پینے اور جماع کرنے سے پرہیز کرنا ہے اور یہ سب سے ادنیٰ درجہ ہے۔ لیکن خواص الخواص کا روزہ بلند ترین درجہ رکھتا ہے اور اپنے دل کوماسویٰ اللہ تعالیٰ کے تمام اشیا سے خالی کرنا ہے اور اپنے آپ کو مکمل طور پر اس کے حوالے کرنا ہے۔ اس سے مراد ظاہری و باطنی طریق پر روزہ (Roza) رکھنا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے ذکر کے سوا دوسری باتوں سے تعلق رکھتا ہے تو اس کا روزہ (Roza) کھل جاتا ہے اور اگرچہ دنیاوی اغراض میں غور کرنا مباح ہے لیکن یہ روزہ (Roza) اس سے ٹوٹ جاتا ہے مگر جو (غور و فکر) دین کی راہ میں مددگار ہو وہ دنیا میں داخل نہیں۔ حتیٰ کہ علما نے کہا ہے کہ آدمی دن کو اگر افطاری کی تدبیر کرے تو اس کے نام پر گناہ لکھ دئیے جاتے ہیں کیونکہ یہ امر اس بات کی دلیل ہے کہ رزق کے بارے میں جو حق تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے اس شخص کو اس کا یقین نہیں۔ یہ مرتبہ انبیا اور صدیقوں کا ہے۔ ہر ایک اس مرتبہ کو نہیں پہنچتا۔ خواص کا روزہ یہ ہے کہ آدمی فقط کھانا، پینا، جماع کرنا نہ چھوڑ دے بلکہ اپنے تمام جوارح کو حرکاتِ ناشائستہ سے بچائے اور یہ روزہ چھ چیزوں سے پورا ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ آنکھ کو ایسی چیزوں سے بچائے جو خدا کی طرف سے دل کو پھیرتی ہیں۔ خصوصاً ایسی چیز کی طرف نظر نہ کرے جس سے شہوت پیدا ہوتی ہے کیوں کہ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) نے فرمایا ہے کہ نظر ابلیس کے تیروں میں سے زہر میں بجھا ہوا ایک تیر ہے۔ جو شخص خوفِ خدا کے تحت اس سے بچے گا اللہ تعالیٰ اسے ایمان کی ایسی خلعت عطا فرمائے گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ جناب سرورِ کائنات علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) نے فرمایا ہے کہ پانچ چیزیں روزہ (Roza) کو توڑ ڈالتی ہیں۔ ۱۔ جھوٹ۔ ۲۔ غیبت۔ ۳۔نکتہ چینی۔ ۴۔ جھوٹی قسم کھانا۔ ۵۔ شہوت سے کسی کی طرف نظر کرنا۔ دوسری چیز جس سے روزہ (Roza) پورا ہوتا ہے، یہ ہے کہ بے ہودہ گوئی اور بے فائدہ بات سے زبان کو بچائے۔ ذکرِ الٰہی یا تلاوتِ قرآنِ پاک میں مشغول رہے یا خاموش رہے۔ بحث اور جھگڑا بیہودہ گوئی میں داخل ہے لیکن غیبت اور جھوٹ بعض علما کے مذہب میں روزۂ عوام کو بھی باطل کرتا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖٖ وسلم کے زمانہ میں دو عورتوں نے روزہ رکھا اور پیاس کے مارے ہلاکت کے قریب ہو گئیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روزہ (Roza) توڑنے کی اجازت چاہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک پیالہ ان کے پاس بھیجا کہ اس میں قے کریں، دونوں کے حلق سے خون کے ٹکڑے نکلے۔ لوگ اس ماجرے سے حیران ہوئے۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ان دونوں عورتوں نے ان چیزوں سے جو خدا نے حلال کی ہیں، روزہ (Roza) رکھا اور جو اس نے حرام کی ہیں اس سے توڑ ڈالا، یعنی کسی کی غیبت کی ہے اور یہ خون آدمیوں کا گوشت ہے جو انہوں نے کھایا۔ تیسرے یہ کہ کان سے برُی بات نہ سنے کیونکہ جو بات کہنی نہ چاہیے وہ سننی بھی نہ چاہیے۔ غیبت اور جھوٹ کا سننے والا بھی کہنے والے کے گناہ میں شریک ہے۔ چوتھے یہ کہ ہاتھ پاؤں وغیرہ اعضاء کو ناشائستہ حرکتوں سے بچائے۔ جو روزہ دار ایسے برُے کام کرتا ہے‘ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی بیمار ہونے سے تو پرہیز کرے لیکن زہر کھائے کیونکہ گناہ زہر ہے اور طعام غذا ہے‘ مگر زیادہ کھانے میں نقصان ہے۔ ہاں اصل غذا مضر نہیں اسی لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) نے فرمایا ہے کہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں بھوک اور پیاس کے سوا روزہ (Roza) سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پانچویں یہ کہ افطار کے وقت حرام اور مشتبہ چیز نہ کھائے۔ نیز حلال خالص بھی بہت نہ کھائے اس لیے کہ دن کا حصہ بھی جب رات کو کھا لے گا تو کیا فائدہ۔ روزے سے مقصود تو خواہشات کا توڑنا ہے اور دوبار کا کھانا ایک ہی بار کھا لینا خواہش میں اضافہ کرتا ہے، خصوصاً جب طرح طرح کا کھانا ہو۔ جب تک معدہ خالی نہ رہے گا دل صاف نہ ہوگا۔ بلکہ سنت یہ ہے کہ دن میں زیادہ نہ سوئے، جاگتا رہے تاکہ بھوک اور ضعف کا اثر محسوس کرے۔ جب رات کو تھوڑا کھانا کھا کے جلدی سو جائے گا توتہجد کی نماز پڑھ سکے گا۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک کوئی بھرا ہوا برتن معدہ سے بدتر نہیں ہے۔ چھٹے یہ کہ افطار کے بعد اس کا دل اس خیال میں رہے کہ نہ معلوم روزہ قبول ہوا یا نہیں۔
حضرت امام خواجہ حسن بصریؒ عید کے دن ایک قوم کے پاس سے گزرے وہ ہنس کھیل رہے تھے۔ آپؒ نے فرمایا ’’حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے ماہِ رمضان کو گویا ایک میدان بنایا ہے تاکہ اس کے بندے اطاعت و عبادت میں پیش قدمی اور اضافہ کریں۔ ایک گروہ سبقت لے گیا اور ایک گروہ پیچھے رہ گیا۔ ان لوگوں پر تعجب ہے جو حقیقتِ حال نہیں جانتے اور ہنستے ہیں۔ قسم خدا کی اگر پر دہ اُٹھ جائے اور حال کھل جائے تو جن کی عبادت مقبول ہے وہ خوشی میں مشغول اورجن کی عبادت نامقبول ہے وہ رنج میں مشغول ہو جائیں اور کوئی ہنسی کھیل میں مصروف نہ ہو۔‘‘ ان تمام امور سے معلوم ہوگیا کہ جو روزہ (Roza) میں فقط کھانے پینے پر اقتصار کرتے ہیں ان کا روزہ ایک بے جان صورت ہے اور روزہ (Roza) کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے آپ کو فرشتوں کا ہم شکل بنائے کیونکہ فرشتے خواہشات سے مبّرا ہیں اور چوپایوں پر شہوت غالب ہے اس لیے وہ فرشتوں سے بہت دور ہیں۔ اس لیے ہر وہ آدمی جس پر شہوت غالب ہے‘ وہ چوپایوں کا درجہ رکھتا ہے اور جس کی شہوت مغلوب ہے وہ فرشتوں کا ہمسر ہے اور اسی وجہ سے صفات میں ان کے قریب ہے نہ کہ جنتِ مکان سے۔ اور جس طرح فرشتے اللہ تعالیٰ سے نزدیک ہیں اسی طرح اس صفت کا آدمی بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہوتا ہے اور جو شخص نماز کا شام کے بعد اہتمام کرتا ہے اور حسبِ خواہش پیٹ بھر کر کھاتا ہے تو اسے شہوت زیادہ ہوتی ہے اور اسے روزہ کی روح حاصل نہیں ہوتی۔ (کیمیائے سعادت)
احادیث کی روشنی میں سحری اور افطار کی فضیلت
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) نے فرمایا ’’ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں کا فرق سحری کھانا ہے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) نے لگاتار بغیر سحری کھائے روزہ (Roza) رکھنے سے منع کیا ہے۔ ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam)! آپ پے در پے بغیر سحری کھائے روزے رکھ لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) نے فرمایا: ’’مجھ جیسا تم میں سے کون ہو سکتا ہے؟ میں رات گزارتا ہوں‘ میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam)نے فرمایا: ’’مومن کے لیے کھجوریں سحری کا اچھا کھانا ہیں۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) کا ارشادِ گرامی ہے ’’سحری میں برکت ہے‘ اسے ہرگز نہ چھوڑو۔ اگر کھانے کے لیے کچھ نہیں تو اس وقت پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا جائے کیونکہ سحری میں کھانے پینے والوں پر اللہ تعالیٰ رحمت فرماتا ہے اور فرشتے ان کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد۔ معارف الحدیث)
حضرت سہل رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) نے فرمایا: ’’لوگ اس وقت تک بھلائی کے ساتھ رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) نے فرمایا ’’اس وقت تک دین غالب رہے گا جب تک کہ لوگ جلد افطار کرتے رہیں گے کیونکہ یہود و نصاریٰ افطار کرنے میں تاخیر کرتے ہیں۔‘‘
شبِ قدر
عربی زبان میں رات کے لیے لفظ ’’لیلۃ‘‘ اور فارسی میں ’’شب‘‘ مروج ہے۔ قدر کے معنی اہمیت‘ عظمت اور قیمت کے ہیں۔ لیلۃ القدر کا مفہوم یہ ہوا کہ اہمیت و عظمت والی رات۔ اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلہ سے اپنے محبوب کی امت کو ایک ایسی رات عطا فرمائی کہ جس کی عبادت اجرو ثواب کے لحاظ سے ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
موطا امام مالکؒ میں ہے کہ جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) کو سابقہ امتوں کے لوگوں کی لمبی عمروں پر آگاہ فرمایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اِن کے مقابلے میں اپنی امت کے لوگوں کی کم عمر کو دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر کیسے عمل کر سکیں گے پس اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) کو لیلۃ القدر عطا فرما دی جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں بنی اسرائیل کے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا گیا جس نے ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس پر تعجب کا اظہار فرمایا اور اپنی امت کے لیے آرزو کرتے ہوئے جب یہ دعا کی کہ اے میرے ربّ! میری امت کے لوگوں کی عمریں کم ہونے کی وجہ سے نیک اعمال بھی کم ہوں گے‘ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے شبِ قدر عطا فرمائی۔ (تفسیر الخازن)
امام جلال الدین سیوطیؒ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad pbuh) نے فرمایا: لیلۃ القدر کی رات اللہ تعالیٰ نے فقط میری امت کو عطا فرمائی ہے، سابقہ امتوں میں یہ فضیلت کسی امت کو حاصل نہیں ہوئی۔
اعتکاف
رمضان کے آخری عشرے کی فضیلت آگ سے آزادی ہے اور اس عشرے میں اعتکاف کرنا سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے کہ بعض کے اعتکاف کرلینے سے سب کی طرف سے کفایت ہو جاتی ہے۔ جس نے رمضان کے آخری عشرہ میں 10 دن کا اعتکاف کیا تو وہ اعتکاف مثل دو حج اور عمروں کا ہوگا (یعنی اتنا ثواب ملے گا)۔ (بہیقی۔ معارف الحدیث)
ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) کے رو برو ہر سال ایک بار قرآن پڑھا جاتا تھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال ہوا اس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) کے روبرو دو بار پڑھا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہر سال میں دس دن اعتکاف کرتے۔ جس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) کا وصال ہوا اس میں 20 دن اعتکاف فرمایا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم(Prophet Mohammad pbuh) رمضان کے آخری دس دن اعتکاف کرتے۔ ایک سال اعتکاف نہ فرمایا۔ جب آئندہ سال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم(Prophet Mohammad pbuh) نے 20 دن اعتکاف فرمایا۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اعتکاف کرنے والے کے حق میں فرمایا: ’’وہ گناہوں سے دور رہتا ہے۔ نیکیاں کرنے والے کی طرح اس کی نیکیاں جاری کی جاتی ہیں۔‘‘
صدقہ فطر
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم(Prophet Mohammad pbuh) نے فرمایا: ’’بندہ کا روزہ (Roza) آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتا ہے‘ جب تک کہ وہ صدقہ فطر ادا نہ کرے۔‘‘
صدقہ فطر واجب ہے یعنی اگر پچھلے سال ادا نہیں کیا تو اب ادا کرے۔ صدقہ فطر میں روزہ شرط نہیں یعنی اگر کوئی شخص رمضان (Ramadan)کے روزے نہیں رکھ سکا تو بھی اسے ادا کرنا لازمی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک شخص کو بھیجا کہ مکہ المکرّمہ کے گلی کوچوں میں منادی کر دے کہ صدقہ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ آزاد ہو یا غلام‘ چھوٹا ہو یا بڑا۔ دومُد (تقریباً دو سیر) گیہوں کے یا اس کے سوا ایک صاع (ساڑھے تین سیر سے کچھ زائد) کسی دوسرے غلہ یا کھجور وغیرہ کا اور یہ صدقہ نمازِ عید کے لیے جانے سے قبل دے دینا چاہیے۔
(نوٹ: یہ مضمون سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan ul Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib ur Rehman) کی تصنیف مبارکہ ’’حقیقت ِروزہ‘‘ سے اخذ کیا گیا ہے۔)
(Fazail-e-Ramadan)
Mashallah bhot khoob…beshak
Mashallah beshak…🥰🥰🥰🥰❣️❣️❣️
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم(Prophet Mohammad pbuh) نے فرمایا: ’’بندہ کا روزہ (Roza) آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتا ہے‘ جب تک کہ وہ صدقہ فطر ادا نہ کرے۔‘‘
بہت اچھا بیان کیا گیا ہے ۔روزے کے بارے میں سب سے عمدہ بیان کیا گیا ہے
ایک روزہ حقیقت ہے اور اس سے مراد فواد (دِل) کو طلبِ ماسویٰ اللہ سے پاک کرنا ہے۔
حقیقت روزہ کو انتہائی احسن اندا ز میں بیان فرمایا ہے۔
اچھا article ہے
روزے ایمان لانے والوں پر اس لئے فرض کئے گئے تاکہ وہ متقی بن جائیں کی کیونکہ قرآن تقوی’ والوں کو راہ دکھاتا ہے
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک شخص کو بھیجا کہ مکہ المکرّمہ کے گلی کوچوں میں منادی کر دے کہ صدقہ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ آزاد ہو یا غلام‘ چھوٹا ہو یا بڑا۔ دومُد (تقریباً دو سیر) گیہوں کے یا اس کے سوا ایک صاع (ساڑھے تین سیر سے کچھ زائد) کسی دوسرے غلہ یا کھجور وغیرہ کا اور یہ صدقہ نمازِ عید کے لیے جانے سے قبل دے دینا چاہیے۔
بہترین مضمون ہے ماشاءاللّٰہ ❤️
روزہ کی حقیقت پر بہترین مضمون ہے ماشاءاللہ❤❤❤🌹🌹🌹
جس طرح انسان دنیا میں اعلیٰ سے اعلیٰ مراتب اور اعلیٰ سے اعلیٰ زندگی کے حصول کی کوشش کرتا ہے، اسے اسی طرح تقویٰ کی بھی اعلیٰ سے اعلیٰ منزل اور مرتبہ کی کوشش کرنی چاہیے اور رمضان المبارک ان لوگوں کے لیے ایک سنہری موقع ہے کہ اللہ تعالیٰ سے صراطِ مستقیم طلب کریں اور تقویٰ کے حصول کی کوشش کریں۔
بہترین مضمون ہے ۔
امام جلال الدین سیوطیؒ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad pbuh) نے فرمایا: لیلۃ القدر کی رات اللہ تعالیٰ نے فقط میری امت کو عطا فرمائی ہے، سابقہ امتوں میں یہ فضیلت کسی امت کو حاصل نہیں ہوئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) کا ارشاد مبارک ہے ’’ رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ شعبان میرا اور رمضان (Ramadan) میری امت کا مہینہ ہے۔ ‘‘
قرآنِ پاک میں ارشاد ہے:
ترجمہ:’’یہ کتاب تقویٰ والوں کو راہ دکھاتی ہے۔‘‘ (البقرہ)
بہترین مضمون 👌❤️
بڑے بہترین انداز میں روزے کی فرضیت اور اہمیت کے متعلق آگاہ کیا گیا ہے
ماشااللہ بہت ہی خوبصورت آرٹیکل ہے۔
بہترین مضمون۔۔۔کمال 👌
بہترین ❤
Very well written!
Behtreen article
Great points
’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی یہ ثواب عطا فرماتا ہے جو ایک گھونٹ دودھ‘ ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے کسی کا روزہ(Roza) افطار کرواتا ہے۔
ماشاء بہت وضاحت سے بیان کیا ہے۔
یہ ایسا مہینہ ہے جس کا اوّل حصہ رحمت، درمیانہ حصہ بخشش اور آخری حصہ آگ سے آزادی ہے
روزہ (Roza) کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے آپ کو فرشتوں کا ہم شکل بنائے کیونکہ فرشتے خواہشات سے مبّرا ہیں
💖💖💖
Behtreen article ha
Very good article
بہترین اور عمدہ مضمون۔۔۔
روزہ کی ظاہری و باطنی حقیقی روح پر بہترین مضمون ہے❤️❤️❤️❤️
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد مبارک ہے ’’ رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ شعبان میرا اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔ ‘‘
بہت بہت بہت بہترین مضمون ہے. پڑھ کر روح تازہ ہو گئی.
This is very informative article 😍
بہترین مضمون ہے
بہترین مضمون
Behtreen
آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے “رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ، شعبان میرا اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔” رمضان “رمض” سے مشتق ہے اور عربی زبان میں رمض کے معنی جلانا کے ہیں۔ یہ مسلمانوں کے گناہوں کو جلا دینے والا مہینہ ہے، اس لیے اس کانام رمضان المبارک ہے۔
Very informative
بہترین مضمون ہے ماشاءاللّٰہ ❤️🌹❤️