بزمِ سلطان العاشقین (ملفوظات سلطان العاشقین) Bazm-e-Sultan-Ul-Ashiqeen Malfuzat Sultan-Ul-Ashiqeen

Spread the love

Rate this post

بزمِ سلطان العاشقین (ملفوظات سلطان العاشقین) 
  (Bazm-e-Sultan-Ul-Ashiqeen (Malfuzat Sultan-Ul-Ashiqeen

قسط نمبر 6                                              مرتب: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

فنا فی الشیطان مرشد

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے فرمایا: جیسے مرشد کامل فنافی اللہ ہوتاہے ایسے ہی جعلی مرشد فنا فی الشیطان ہوتا ہے۔ جو اس جعلی مرشد کا مرید ہوتا ہے وہ دراصل شیطان کا مرید ہوتا ہے۔ 

بیداری میں دیدارِ مصطفیؐ

فرمایا: امام سیوطیؒ بیداری میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دیدار کیا کرتے تھے۔ جس حدیث کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف متوجہ ہوتے۔تو سرکارِ دو عالم  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رہنمائی فرما دیتے۔ 

خواجہ ابوالحسن خرقانیؒ درسِ حدیث کے دوران کبھی کبھی فرماتے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حدیث نہیں ہے حالانکہ اس کی سند صحیح ہوتی۔ لوگ پوچھتے کہ آپ کو کیسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حدیث نہیں ہے؟ فرماتے میں سیدّدو عالم  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ انور کو دیکھتا ہوں، اگر حدیث صحیح ہوتی ہے تو رحمتِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ انور پر مسرت کی جھلک ہوتی ہے اور اگر حدیث صحیح نہ ہو تو حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ انور پر بشاشت نہیں ہوتی جس سے مجھے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ سرکارِ دو عالم کی حدیث نہیں ہے۔

دیدارِمرشد

فرمایا: ہمیں جب کبھی بے سکونی محسوس ہوتی تھی تو ہم اپنے مرشد کے پاس چلے جاتے تھے۔ جیسے ہی ان کے پاس پہنچتے تھے تو سکون آ جاتا تھا اور جیسے ہی ان کی بارگاہ سے باہر نکلتے تھے تو بے قراری۔ لیکن یہ سکون اس صورت میں ہوتا ہے جب مرشد کی پہچان ہو چکی ہو۔ 

رشتے نبھانا

دنیاوی رشتے سب ہی نبھاتے ہیں لیکن مومن ظاہری طور پر تمام رشتے پورے کرتا اور نبھاتا ہے مگر باطن میں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ظاہری تعلق نبھاتے تھے۔ مومن کا جسم تو دنیا میں ہوتا ہے لیکن روح اُس جہان میں۔

اللہ کا سب سے بڑا عاشق

فرمایا: اللہ کا سب سے بڑا عاشق وہ ہے جسے دنیا پہچان نہ پائے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’بہت سارے پراگندہ بال والے، لوگوں کے دھتکارے ہوئے ایسے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ پر قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ اُن کی قسم پوری فرما دے۔‘‘

 بہتر انسان کون ہے؟

فرمایا: بہترین انسان کی تعریف اللہ نے خود بتائی ہے:
وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ  (سورۃ حٰمٓ السجدہ۔33)
ترجمہ: اور اس انسان سے زیادہ خوش گفتار کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے۔ 

عرش پر استوا

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی (سورۃ طٰہٰ۔5)
ترجمہ: رحمن نے عرش پر استوا فرمایا۔

جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت ’’اسْتَوٰی‘‘ عربی زبان میں تھا ہی نہیں۔اس کو آسانی کے لیے ایسے ہی سمجھ لیں جیسے ایک انسان بادشاہ بنے تو وہ اعلان کرتا ہے کہ میں عدل قائم کروں گا، یا وہ کہے کہ ملک کی اکانومی بہتر کروں گا۔ صفتِ رحمن کے ساتھ اس کا استوا فرمانا یہی سمجھ لیں کہ وہ تمام عالموں کو اسی صفت سے چلا رہا ہے۔ یہ تو تھا عام معنی۔ خاص معنی فنا کے بعد جب بقا حاصل ہو تو سمجھ آتا ہے۔

صفت رحمن اور رحیم 

فرمایا: اللہ اپنی مخلوق پر صفت ’’الرحمٰن‘‘کے ساتھ مہربانی کرتا ہے جبکہ مومنین کے لیے صفت ’’رحیم‘‘ ہے۔

دعوتِ الٰہی دینے کا طریقہ

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے پاس بھیجا تو حکم دیا کہ اس سے نرمی سے بات کرنا۔
فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا  (سورۃ طٰہٰ۔44)
ترجمہ: توتم دونوں اس سے نرم بات کہنا۔

 اب دیکھیں اس وقت نہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بلند مرتبہ کوئی موجود تھا اور نہ فرعون سے بڑا کافر کوئی موجود تھا لیکن اس کے باوجود یہ حکم دیاکہ نرمی سے بات کرنا۔ یہی دعوت دینے کا طریقہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب طائف گئے اور اہلِ طائف نے تنگ کیا تو اللہ نے فرشتے بھیجے کہ ان سب کو عذاب دوں۔ لیکن حضور  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کے لیے دعا کی کہ اللہ ان کو ہدایت دے، یہ مجھے نہیں جانتے۔ شاید ان کے بعد آنے والے اسلام قبول کر لیں۔ پھر دیکھیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کاوصال مبارک ہوا توکافی قبائل اسلام سے پھرنے لگے یہاں تک کہ مکہ کے لوگ بھی تذبذب کا شکار ہوئے۔ اس وقت قائم رہنے والوں میں طائف والے بھی تھے۔ ان کے امیر نے ان سے کہا کہ تم اسلام قبول کرنے میں سب سے بعد والے ہو اب پھرنے والے پہلے نہ بنو۔ 

علما کا ارتقا

بعض علماشروع میں تصوف کے خلاف تھے لیکن بعد میں وہ تصوف  ہی کو اصل اسلام سمجھتے تھے۔ جیسے کہ مولانا جلال الدین رومیؒ اور  حضرت امام غزالیؒ۔ ابنِ جوزی تصوف کے شدید ترین مخالف سمجھے جاتے ہیں اور ان کی کتاب ’’تلبیسِ ابلیس‘‘ بطور ثبوت پیش کی جاتی ہے۔ لیکن ان کی آخری عمر کی کتاب’’صفۃ الصفوۃ‘‘ ہے جس میں تصوف کی حمایت کی ہے۔ یہی معاملہ حافظ ابنِ قیم کا ہے ۔ان کی آخری عمر کی کتب ’’الفوائد‘‘اور’’مدارج السالکین‘‘کو دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ تصوف کے حامی ہیں۔

سروری قادری کا مراقبہ

فرمایا: سروری قادری طالب کھلی آنکھوں سے مراقبہ کرتا ہے۔ وہ چلتے پھرتے مراقبہ کرتا ہے۔

مرشد کا چہرہ اور فقر کی منازل

فرمایا: طالبِ مولیٰ مرشد کے چہرے سے جان لیتا ہے کہ مرشد کیا چاہتا ہے۔ مرشد کا چہرہ کھلی کتاب کی طرح ہے جس میں سب درج ہے۔ مرشد کا کسی طرف دیکھنا بھی بغیر ارادہ نہیں ہوتا۔ طالب مرشد کے چہرے میں ہی مشغول رہتا ہے اور اسے تمام منازل مرشد کے چہرے سے حاصل ہوتی ہیں۔ مرشد کی پسند اس کی پسند ہوتی ہے اور مرشد کی ناپسندیدگی اس کی ناپسندیدگی ہوتی ہے۔ اس کی توجہ ہر لمحہ مرشد پر رہتی ہے۔ اس طرح وہ اپنے اندر مرشد کے خیال کے علاوہ کسی خیال کو جگہ نہیں دیتا۔ مرشد کی طرف مسلسل توجہ نہ رکھنا سب برائیوں کی جڑ ہے۔

آسان اور مشکل زندگی

فرمایا: اگر اللہ پر توکل ہو تو یہ زندگی بہت آسان ہے اور اگر نہ ہو تو یہی زندگی بہت مشکل ہے۔ 

انسان کا مقام

حضرت جبرائیلؑ کی طاقت کا اندازہ کریں کہ جنہوں نے قومِ لوط کی بستیوں کو اپنے پروں پر رکھ کر اوپر اٹھا یا یہاں تک کہ ان لوگوں کے مرغوں کی بانگ اور کتوں کے بھونکنے کی آواز فرشتوں نے سنی۔ پھر ان بستیوں کو نیچے پھینک دیا۔ قومِ ثمود بھرپور قوت کے باوجود حضرت جبرائیلؑ کی ایک ہی چیخ سے ہلاک ہو گئی۔ لیکن جب ان سے کہا گیا کہ انسان کی حدود یعنی لاھوت میں داخل ہوں تو کہا کہ اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ 

سب سے بڑی دعا

ایک بار نمازِمغرب کے بعد آپ مدظلہ لاقدس نے پوچھا ’’بتائوسب سے بڑی دعا کون سی ہے؟‘‘ سب خاموش رہے۔ فرمایا: حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت کے لیے بخشش کی دعا کرنا۔ اس دعا کی وجہ سے بہت لوگوں کو ولایت ملی ہے۔ اس لیے یہ دعا ہمیشہ کرتے رہنا چاہیے۔

جادوگر کی تہمت

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی بیعت کرتے ہی لوگوں کے دل بدل جاتے ہیں۔ یہ بات اتنی عام ہو گئی کہ لوگوں نے تہمت لگائی کہ آپ (معاذاللہ) جادو کرتے ہیں۔ جب ظاہر میں بات آپ مدظلہ الاقدس تک پہنچی توفرمایا:جب تک جادو گر نہ کہلایا جائے اس کا مطلب کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ صوفیائے کاملین کے پاس وہی فیض ہوتا ہے جس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پرجادوگر کی تہمت لگائی گئی۔

تبلیغی دورے

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس پورے پاکستان کے دورے فرماتے اور جگہ جگہ جا کر اسمِ اللہ ذات کی دعوت دیتے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی ترتیب یہ ہوتی کہ جدھر جانا ہوتا وہاں شعبہ دعوت و تبلیغ کی ٹیم ایک یا دو ہفتہ پہلے بھیج دی جاتی۔ مریدین کی کثیر تعداد آپ مدظلہ الاقدس کے ہمراہ ہوتی۔ ایک موقع پر سندھ گئے ہوئے تھے تو ایک مرید کو خدشہ ہوا کہ ہر روز اتنے حادثے ہوتے ہیں، اللہ بچائے کوئی حادثہ نہ ہو جائے۔ یہ بات اس نے کسی کو بتائی نہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے اُس شام جب سب مریدین آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت میں بیٹھے تو فرمایا: ہمارا کام صرف یہ نہیں کہ آپ لوگوں کو گھر سے لے آئیں بلکہ گھر تک واپس خیر و عافیت سے پہنچانا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔  

تبلیغ کا مقصد

ایک مرتبہ 2013ء میں احمد پور شرقیہ میں سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے فرمایا: جب ہم مریدین کے ساتھ تبلیغ پر نکلتے ہیں تو اس کے چار مقصد ہوتے ہیں:
اول اسمِ اللہ ذات کا فیض عام کرنا۔
دوم صحبت سے مریدین کی تربیت کرنا۔
سوم دنیا سے تعلق توڑناکیونکہ طالب سب کچھ چھوڑ کر دورے پر نکل آتا ہے۔
اس کے بعد فرمایا: چوتھا مقصد آپ کو پھر کبھی بتائیں گے۔

دَر دَر سے بھیک مانگنا

ایک دفعہ تبلیغی دورے پر خوشاب گئے ہوئے تھے تو فرمایا: ہم تو دَر دَر جا کربھیک مانگتے ہیں کہ اللہ کی طرف آجاؤ۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’میں دَر دَر پر جا کر اپنے نفس کو اللہ کے لیے ذلیل کرتا ہوں۔‘‘(نور الہدی کلاں)

جو کچھ ملا ڈیوٹی سے ملا

فرمایا: ہمیں جو کچھ ملا ہے ڈیوٹی سے ملا ہے۔ جیسے انسان نماز پڑھتا ہے اور توجہ اللہ کی طرف رہتی ہے تو ہی نماز قبول ہوتی ہے۔

لَا صَلٰوۃَ اِلَّا بِحُضُوْرِ الْقَلْبِ 
ترجمہ: حضور ِقلب کے بغیر نماز نہیں۔

اسی طرح جب طالب مرشد کی دی ہوئی ڈیوٹی کرے تو توجہ مرشد کی طرف رہنا ضروری ہے۔ تبھی طالب کو مرشد خود باطن میں ڈیوٹی مکمل کرنے کی ہمت اور استقامت عطا کرتا ہے، ڈیوٹی کرنے کا طریقہ بتاتا ہے اور ڈیوٹی کے بعد اس کو فخرو غرور سے بچاتا ہے۔

کفر کے فتویٰ سے بچو

فرمایا : آج کل تو بہت آسانی سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت کو لوگ کافر قرار دے دیتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حدیث ہے کہ جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا توکہنے والا خود کافر ہو گیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا۔ (بخاری و مسلم)

اللہ نے مارا ہے

ایک شخص دوڑتا ہوا حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور شکایت کی مجھے حضرت علیؓ نے مارا ہے۔ عمرؓ نے کہا جاؤ: بیشک اللہ کی آنکھ نے تجھے دیکھا اور تجھے اللہ کے ہاتھ نے مارا۔ 

دیدارِ الٰہی

فرمایا: سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں ’’صاحبِ یقین طالب کے لیے دو ظاہری اور دو باطنی آنکھیں ہیں۔ پس وہ ظاہری آنکھوں سے زمین پر بسنے والی مخلوق کو دیکھتا ہے اور باطنی آنکھوں سے آسمان پر بسنے والی مخلوق کو دیکھتا ہے۔ اس کے بعد اس کے دل سے تمام پردے اٹھا دیئے جاتے ہیں پس وہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کو بلاشبہ و بلاکیف دیکھتا ہے۔ پس وہ مقرب و محبوبِ خدا بن جاتا ہے۔‘‘ (الفتح الربانی)

عشق نہیں رضا مانگو

اللہ سے اس کا عشق نہیں مانگنا چاہیے بلکہ اس کی رضا مانگنی چاہیے۔ انسان میں اللہ کے عشق کی طاقت نہیں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے رسالہ روحی شریف میں ہے کہ جب اللہ نے ان کو کہا:
’’تو عاشقِ مائی ‘‘  ترجمہ: تو میرا عاشق ہے۔

حضرت سلطان باھوؒ نے عرض کی:
 ’’عاجز را توفیقِ عشقِ حضرتِ کبریا نیست‘‘
ترجمہ: عاجز کو حضرتِ کبریا کے عشق کی توفیق نہیں۔

بیعت

بات بیعت کی طرف چل نکلی تو فرمایا:بیعت کی مختلف اقسام ہیں۔
بیعتِ اسلام: اسلام قبول کرتے وقت لی جاتی تھی۔ یہ بیعت اس وقت ختم ہوئی جب خلفائے راشدین کے دور میں فتوحات ہونے لگیں اور کثیر تعداد میں لوگ مسلمان ہونے لگے۔ یہ فرق مٹ گیا کہ کون خلوص کے ساتھ مسلمان ہو رہا ہے اور کون ڈر سے۔

بیعتِ خلافت: بیعتِ خلافت خلیفہ بننے کے وقت لی جاتی تھی۔ بیعتِ اسلام تو ختم ہو گئی لیکن یہ بیعت خلفائے راشدین کے دور میں لی جاتی تھی۔ جب خلفائے راشدین کے بعد ملوکیت یا بادشاہت آگئی۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ کے بعد بنو امیہ کی بادشاہت آگئی اور ان کے بعد بنو عباس کی بادشاہت آگئی تو وہ بھی بیعت لینے لگے لیکن بنو عباس کے آخری دور میں یہ بیعت بھی ختم ہو گئی تھی کہ اب کیا ضرورت ہے۔ جو تخت پر بیٹھ گیا سو بیٹھ گیا۔ بنو امیہ اور بنو عباس کے بادشاہوں کے نام کے ساتھ خلیفہ لکھا جاتا ہے جبکہ اصل میں بادشاہ ہی تھے۔ 

بیعتِ جہاد: ایک بیعتِ جہاد ہے جو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم جہاد کے وقت لیا کرتے تھے۔ 

بیعتِ توبہ و تقوی: ایک بیعت ہے ’’توبہ و تقویٰ‘‘۔ یہ بیعت اب بھی جاری ہے، باقی ختم ہو گئی ہیں۔ توبہ و تقویٰ کے بارے میں یہ ہے کہ  حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے چار خلیفہ تھے دو تو حسنین کریمین رضی اللہ عنہم تھے، تیسرے حضرت کمیلؓ بن زیاد تھے۔ ان تینوں کو بنوامیہ نے شہید کر دیا اور چوتھے حضرت خواجہ حسن بصریؓ تھے جن کو انگلش میں Hasan of Basraکہا جاتا ہے، وہ بصرہ آگئے۔ انہی کے ذریعے سارا تصوف پھیلا۔ انہوں نے سلاسل کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے خرقہ دینے کا رواج عام کیا کیونکہ جو بیعت کرتا تھا بنو امیہ والے سمجھتے تھے کہ یہ خلیفہ بننے کے لیے بیعت کر رہا ہے۔ تو اس شبہ کو ختم کرنے کے لیے خرقہ دینے کا رواج نکلا کہ اپنی کوئی قمیض دے دی یا اپنی کوئی چادر دے دی یا پھر کوئی اور نشانی دے دی۔ پھر سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ نے بنو عباس کے آخری دور میں اس بیعت ِتوبہ و تقویٰ کا باقاعدہ آغاز کیا۔ خرقہ ختم کر کے بیعت کا آغاز کیا۔ اس وقت خلفائے بنو عباس بہت کمزور ہو چکے تھے اور انہوں نے بیعت کرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ 

بخاری حدیث نمبر57، ترمذی شریف حدیث نمبر 1925 میں حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے نماز قائم کرنے، زکوٰۃ دینے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔
اس کا مطلب ہے کہ بیعتیں ہوتی رہیں۔ احادیث سے ثابت ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد صحابہ کرامؓ بیعت کرتے رہے۔ اسے بیعتِ توبہ وتقویٰ کہا جاتا ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ ہم تو مسلمان ہیں، ہمیں کیا ضرورت ہے دوبارہ بیعت کرنے کی؟ بھئی تم سے افضل لوگ یعنی کائنات کے افضل ترین لوگ بیعت کرتے رہے ہیں، تم کون ہوتے ہو بیعتِ توبہ وتقویٰ نہ کرنے والے۔ 

ان بیعتوں کے علاوہ بیعتِ سمع و طاعت اور بیعتِ تصوف بھی ہے۔ بیعتِ تصوف تو بیعتِ توبہ وتقویٰ ہی ہے۔

(جاری ہے)

 
 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں