ایمان کی کسوٹی – Eman Ki Kasauti

Spread the love

5/5 - (1 vote)

 ایمان کی کسوٹی – Eman Ki Kasauti

تحریر:مسز حمیرا امجد سروری قادری۔ لاہور

کسوٹی کے لغوی معنی وہ سیاہ پتھرہے جس پر سونے و چاندی کو گھِس کر اس کاکھرا و کھوٹاہونا پرکھا جاتا ہے۔ مجازاً اس کا مطلب جانچ یا پرکھ کا معیار یا آزمائش وغیرہ ہے۔ ایک سچے مسلمان اور حقیقی مومن کے دل میں ہرلمحہ یہ خیال، سوچ یا آواز گونجتی رہتی ہے کہ آیا وہ درست راستے پر چل رہا ہے یا نہیں؟ اس کادعویٰٔ ایمان سچا ہے؟ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت کا دعویٰ سچا ہے؟ وہ اپنی زندگی میں جو امور اور افعال سرانجام دے رہا ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ہیں یا نہیں۔۔۔؟

آج کے دور میں فرقوں اور گروہوں کی بھرمار ہے، ہر فرقہ خود کو حق پر اور دوسروں کو گمراہ سمجھتا ہے، دوسروں کے اعمال و افعال پر بہت تنقید کی جاتی ہے لیکن خود انسان اپنی پرکھ نہیں کرتا۔ ہر شخص دوسروں کے ایمان اور نیکی و بدی کے معیار کا منصف بنا بیٹھا ہے۔ اپنے نفس کی خرابی اور کوتاہیاں نظر نہیں آتیں۔ وہ فیصلے جو اللہ کے کرنے کے ہیں یعنی کسی انسان کے نیک یا بد ہونے کا فیصلہ، بعض لوگوں نے انہیں اپنے ذمہ لیا ہوا ہے اور وہ اعمال جو انسانوں کے کرنے والے ہیں یعنی اپنی ابدی زندگی کے لیے تیاری کرنا، وہ اللہ پر چھوڑے ہوئے ہیں۔ 

لوگوں کو جانچنے کا کام تم نے سنبھال لیا
حالانکہ اعمال تولنے والا ترازو تو کہیں اور ہے

(رومیؒ)

انسان اپنے ایمان اور نفس کو کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایمان کی کسوٹی کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ اپنے بنائے ہوئے شاہکار انسان کے نفس کی تمام خرابیوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ اسی لیے اس ذات پاک نے انسان کو اس دنیا میں بھیجنے کے ساتھ ہی اس کے علاج کا انتظام فرما دیا اور دنیا میں انسانوں کی ہدایت کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا و رسل بھیجے۔ رشد و ہدایت کے عمل کو مزید فعال بنانے کے لیے ان چنیدہ بندوں پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتب اور صحائف نازل فرمائے۔اس سلسلے کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری اور قرآنِ پاک کے نزول کے بعد مکمل فرمایا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی کا سرچشمہ بنایا لہٰذا ہر مسلمان کے ایمان کو پرکھنے کی کسوٹی قرآنِ پاک، احادیثِ نبویؐ اور نبی آخر الزماںؐ کی سیرتِ مطہرہ ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَ  اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ ڑاقْتَرَفْتُمُوْھَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖط وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۔   (سورۃ التوبہ۔24)
ترجمہ: (اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔ 

مندرجہ بالا آیتِ قرآنی میں اللہ تعالیٰ کاخطاب اہلِ ایمان سے ہے۔ پوری دنیا میں آنے والے ایمان کے دعویداروں کے سامنے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے یہ کسوٹی یا ترازو رکھ دیا ہے جس کے ذریعے ناپ تول کر اور جانچ پرکھ کر ہر مرد و عورت اپنے ایمان کا جائزہ لے سکتا ہے کہ اس کا دعویٰٔ ایمان سچا ہے یا صرف زبانی اقرار ہے۔ اس آیت مبارکہ میں وعید ہے تمام اہلِ ایمان کے لیے۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (سورۃ البقرہ۔ 165)
ترجمہ: اور جو ایمان لائے اللہ کے لیے ان کی محبت بہت شدید ہے۔

اسی امر کی وضاحت کرتے ہوئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَایَؤْمِنْ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْن اَحَبَّ اِلَیْہِ مِن وَالِدِہٖ وَ وَلَدِہٖ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ   (صحیح بخاری۔15)
ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے لیے اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان میں اللہ تعالیٰ سے ایسی محبت اور لگاؤ کیسے پیدا ہو؟جہاں تک قرآن اور احادیثِ نبویؐ کا تعلق ہے تو یہ ذریعۂ ہدایت ہر انسان کے لیے دستیاب ہے۔ انٹرنیٹ کے دور میں ہر شخص بلاتفریق ان علوم کا مطالعہ بآسانی کر سکتا ہے۔ اصل مدعا یہ ہے قرآن و حدیث پر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرتِ مطہرہ کے مطابق عمل پیرا ہوا جائے اور اس امر کے لیے کسی جیتی جاگتی ہستی کا نمونہ موجود ہونا ضروری ہے جو کہ قدمِ محمدؐ پر فائز ہو۔ ایسی ہستی جو نہ صرف خود سیرتِ مطہرہ پر سختی سے کاربند ہو بلکہ اپنے حلقۂ احباب، رشتہ داروں کو بھی اس کی دعوت دیتی ہو۔ہر دور میں ایسی ہستی ضرور موجود ہوتی ہے جو قدمِ محمدؐ پر فائز ہوتی ہے اورعوام الناس کو سیرتِ مطہرہ کی روشنی میں دین کی حقیقی روح سے روشناس کروا کر مقصدِحیات میں کامیاب و کامران کرتی ہے۔اس ہستی یعنی مرشد کامل اکمل کا طریقۂ تربیت عین بعین وہی ہوتا ہے جیسے کہ نبی پاکؐ نے اپنے اصحابؓ کی تربیت فرمائی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرامؓ کے قلوب سے دنیا اور اسکی خواہشات کی محبت نکال کر اللہ تعالیٰ کے عشق کا بیج بویا۔ بعینہٖ مرشد کامل اکمل بھی طالبانِ مولیٰ کے قلوب میں عشقِ الٰہی موجزن کرتا ہے۔ اس محبت کی کلید اسمِ اللہ ذات ہے جو کہ مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ کی طرف سے طالبِ مولیٰ کو عطا ہوتا ہے۔ مرشد کامل اکمل طالبِ مولیٰ کو بیعت کے پہلے ہی روز اسمِ اللہ کی نعمت عطا فرما کر اس کے دل میں محبتِ الٰہی اور عشقِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بیج بو دیتا ہے تاہم ایسے مرشد کی تلاش اور اس کی بارگاہ تک پہنچ کر اس کی پہچان کرنا طالب پر فرض ہے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
جان لو کہ فقیر کامل عارف باللہ کو دومراتب سے پہچانا یا پرکھا جا سکتا ہے: ظاہری طور پر وہ توفیقِ الٰہی کا حامل ہوتا ہے اور باطنی طور پر اسے تحقیق کے مراتب حاصل ہوتے ہیں۔ مرشد تحقیق (بیعت کے) پہلے ہی روز ہر علم سے تحقیق کے مراتب تک طالب کو پہنچاتا ہے اور علمِ ظاہر سے جدا کرتا ہے اس لیے معلوم ہوا کہ لائقِ ارشاد مرشد وہ ہے جسے ظاہری طور پر توفیقِ الٰہی حاصل ہو اور اس کا باطن حق پر تحقیق کیا جا سکتا ہو۔ سب سے پہلے طالب پر فرضِ عین ہے کہ کسوٹی کی مثل مرشد کی مراتبِ تحقیق و توفیق سے پرکھ کرے۔ اگر مرشد درست اور صحیح ہو، طالب کو نظر اور توجہ سے مراتبِ تحقیق اور توفیق تک پہنچا سکتا ہو تو ایسے مرشد سے تلقین و ارشاد حاصل کرے کیونکہ وہ مرشد کامل مکمل ہے۔ (امیر الکونین)

آپؒ مزید فرماتے ہیں:

طالبا! گر عاقلی عارف شناس
می شناسد عارفان اہل از قیاس

ترجمہ:اے طالب! اگر تو عقلمند ہے تو اصل عارف کو پہچان عارف کو اہلِ قیاس ہی (ان کی نشانیوں سے) پہچانتے ہیں۔ 

طالبِ مولیٰ کے لیے مرشد کامل کو پرکھنے کے لیے مزید نشانیاں بیان کرتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں:
جاننا چاہیے کہ عارفِ خدا فقرا اپنے پاکیزہ دل و باطن کی بنا پر صراف کی مثل ہوتے ہیں اس لیے نیک و بد کو اپنی نظر سے اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح صراف سونے چاندی کو دیکھتے ہی پہچان لیتا ہے۔ (امیرالکونین)

جہاں ایک طرف مرشد کامل اکمل کھوٹے اور کھرے طالب کو چھان پھٹک کر جدا کردیتا ہے وہیں طالب کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مرشد کامل اکمل کو مندرجہ بالا نشانیوں کی بدولت پہچانے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ اپنی تصنیفِ لطیف ’’امیر الکونین‘‘ میں جا بجا اسی بات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ آپؒ کا فرمان ہے:
 فقیرِ کامل اسمِ اللہ ذات کے تصور کا حامل اور علمِ دعوتِ تکسیر اور علمِ کیمیا اکسیر میں کامل ہوتا ہے، اس کی نظر سنگِ پارس کی مثل ہوتی ہے اور وہ کامل تصرف کا حامل ہوتا ہے۔(امیرالکونین)

 سلطان العارفین حضر ت سخی سلطان باھوؒ مرشد کامل اکمل کے طریقہ کار کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ـکہ کس طرح مرشد کامل اکمل اسمِ اللہ ذات کی بناپر کھرے، کھوٹے، صاحبِ ایمان اور بے ایمان طالبوں کی پرکھ کرتا ہے:
پس ایمان کی کسوٹی اسمِ اللہ ذات، قرآن کی آیات اور احادیثِ قدسی و نبویؐ ہیں جو صاحبِ ایمان اور بے ایمان کی تحقیق کرتی ہیں۔ ایمان کی کسوٹی یہ ہے کہ جب مرشد طالبِ مولیٰ کو تصور اسمِ اللہ ذات، تصور اسمِ محمدؐ، ننانوے اسمائے باری تعالیٰ اور ہر ایک آیتِ قرآن اور کلمہ طیب سے حضوری عطا کرتا ہے تو اگر طالب باایمان ہو اس کے وجود پر اسمِ اللہ ذات، کلام اللہ، آیاتِ قرآن اور اسمِ اعظم و اسمائے باری تعالیٰ اور احادیث قرار پکڑ کر تاثیر کرتے ہیں اور طالب کو فائدہ دیتے ہیں اور اس کی عظمت اور عظیم فیض و فضل سے طالب کو قلب ِسلیم اور صراطِ مستقیم عطا ہوتے ہیں اور وہ اس حال پر قائم رہتا ہے اور مرتے دم تک اللہ تعالیٰ سے روگردانی نہیں کرتا۔ وہ ذات کی تصدیق کرتا ہے اور عیسیٰ علیہ السلام کی مثل زندہ دم اور خلقِ محمدیؐ سے متصف ہوتا ہے اور توفیقِ الٰہی سے ایمان پر بغیر شک و شبہ کے ثابت قدم رہتاہے۔

ہر کہ با ایمان بود حاضر دوام
در طلب مولیٰ بود ایمان

ترجمہ: جو کوئی صاحبِ ایمان ہو اُسے دائمی حضوری حاصل ہوتی ہے کیونکہ طلبِ مولیٰ سے ہی ایمان کامل ہوتا ہے۔

 لیکن اگر طالب بے ایمان ہو توشریعتِ محمدیؐ اور اسمِ اللہ ذات اس کے وجود میں قرار نہیں پکڑتے اور آیاتِ قرآن اسے فائدہ نہیں دیتیں اور نہ ہی اسمائے الٰہی تاثیر کرتے ہیں اور اس سے اسمِ اعظم جاری نہیں ہوتا۔ اگر وہ دعوت پڑھتا ہے تو بے اعتقاد ہو کر رجعت خوردہ ہو جاتا ہے اور کلامِ الٰہی سے بے یقین اور خواہشاتِ نفس کا تابع ہوتا ہے۔ مصاحبِ شیطان بن کر مشرک و بے دین ہو جاتا ہے اور کمینی دنیا اور حقیر نفس کا طلبگار رہتا ہے جو ہمیشہ خودی اور چوں و چرا میں مبتلا ہوتا ہے۔ (امیرالکونین)

آپؒ مزید فرماتے ہیں:
ایمان اعتقاد سے، اعتقاد اعتبار سے اور اعتبار دیدار سے حاصل ہوتا ہے اور دیدار قلب کی بیداری سے مکمل ہوتاہے ۔ان مراتب کو ہر کوئی جو احمق اور حیوانات کی مثل ہو، نہیں جان سکتا۔ حصارِ ایمان اللہ کی محبت اور خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت ہے، دیگر تمام محبتیں ان دو محبتوں پر انحصار کرتی ہیں اور ان دو محبتوں تک رسائی کا واحد اور کامل ذریعہ مرشد کامل اکمل کی ذات پاک ہے۔(امیرالکونین)

آج کے اس دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ ہیں جو طالبانِ مولیٰ کو بیعت کے پہلے ہی روز ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات اور مشق مرقومِ وجودیہ عطا فرماتے ہیں۔ طالب جب خلوصِ نیت سے یہ عمل کرتا ہے اور ساتھ ساتھ مرشد پاک کی صحبت سے فیضیاب ہوتا ہے تو اللہ کی ذات اسے وہ کسوٹی عطا فرماتی ہے جس سے وہ اپنے نفس کا تزکیہ اور قلب کا تصفیہ کرنے کے ساتھ قرب، مشاہدہ، دیدارِ الٰہی، عشقِ حقیقی، عشقِ مصطفیؐ اور دائمی معراج حاصل کرسکتاہے۔

 ہر مسلمان کو دعوتِ عام ہے کہ وہ اپنے ایمان کی کسوٹی کے لیے ضرور مرشد کامل کی بارگاہ میں حاضری کا شرف حاصل کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی پرُ خلوص اندازمیں اپنے مرشد پاک کی صحبت سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

استفادہ کتب:
۱۔ امیر الکونین :  تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ

 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں