حقیقتِ بندگی۔ Haqiqat-e-Bandagi
تحریر: فقیہہ صابر سروری قادری
زندگی آمد برائے بندگی
زندگی بے بندگی، شرمندگی
یعنی ہمیں زندگی فقط بندگی کے لیے ملی ہے، اگر بندگی نہیں کریں گے تو یہ زندگی شرمندگی ہی شرمندگی ہوگی۔(مولانارومیؒ)
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ہم سب کو اپنا بندہ بنا کر بھیجا ہے اور یہ وہ اعزاز ہے کہ جس کا نعم البدل ممکن نہیں۔بندگی وہ عروج ہے جو نفس کے زوال سے شروع ہوتا ہے۔ یہ وہ کمال ہے جو انہیں نصیب ہوتا ہے جو ایک در کے سوا کسی دوسرے درپر نہیں جھکتے اور یہ ایسی معراج ہے جو اپنے آپ کو فنا کر دینے سے ملتی ہے۔
بندگی یا عبادت سے مراد انتہا درجے کاعجز و انکسار ہے یعنی بندہ اپنے ربّ کے سامنے جس عاجزی و تعظیم کی آخری حد کو چھو جاتا ہے اسکا نام بندگی ہے جو کہ تمام جن و اِنس کا مقصدِحیات بھی ہے۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے :
ترجمہ: اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت( بندگی) کریں۔(سورۃالذر یات ۔ 56 )
علامہ ابنِ کثیر ’’تفسیر مظہری‘‘ میں اس آیت مبارکہ کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی کسی ضرورت کے لیے پیدا نہیں کیا، بلکہ صرف اس لیے کہ ان کے نفع کے لیے اپنی عبادت کا حکم دوں، وہ خوشی ناخوشی میرے معبودِ برحق ہونے کا اقرار کریں، مجھے پہچانیں۔ (تفسیرِمظہری)
انسان کی تخلیق کا مقصد کل مخلوقات و موجودات سے بر ترہے جو فقط اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی اور اطاعت و محبت سے عبارت ہے۔ اس عظیم مقصد کی تبلیغ کیلئے بتقاضائے وقت تمام اُمتوں میں انبیا و رُسل جیسی برگزیدہ ہستیاں مبعوث کی گئیں جو وحیٔ خداوندی کے تحت بنی نوع انسان کو توحیدِ الٰہی کی دعوت دیتی رہیں اور شعورِ انسانی میں یہ عقیدہ راسخ کیا کہ معبودِ برحق صرف خالقِ کائنات حیّ و قیوم کی ذاتِ مطلق ہے جسے ہر عظمت اور سروری زیباہے۔ اُسی کی عبادت کرو اور نفس و شیطان کی ہرگز پیروی نہ کرو تاکہ ہمہ تن تقاضائے عبدیت کا حق ادا کیا جا سکے۔ ابولبشر سیدّنا آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک توحیدِ الٰہی کے پیغام کی ترویج کا یہ سلسلہ یونہی پیہم چلتا رہا۔ بابِ نبوت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہوا تو انسانیت کی فلاح و اصلاح اور توحیدِحق کے پرچار کی یہ عظیم ڈیوٹی اصحابِ عظّام، آئمہ و مجتہدین، سلف صالحین اور اولیائے کرام کو سونپی گئی جن کی تعلیمات قرآنِ کریم اور سنتِ نبویؐ کی روح کے عین مطابق خلقِ خدا کی صراطِ مستقیم کی جانب راہنمائی کرتی ہیں اور انسان کو خدا کا حقیقی بندہ بننے کا عملی درس دیتی ہیں۔یہ تعلیمات اپنی روح میں لافانی اور مقصدیت میں آفاقی نوعیت کی ہیں جو دینِ مبین کے ہر پہلو کا مفصل احاطہ کرتی ہیں۔
عبادت بندے اور خدا کے مابین تعلق کا بنیادی سبب ہے اور یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کی گہرائی اور لطافتوں سے آشنائی کیلئے کمالِ علم و دانش کے ساتھ ساتھ خود حقیقی بندگی میں بھی پختہ اور عالی مرتبت ہونا پڑتاہے جس سے عبدیت کے تقاضوں میں ابہام باقی نہیں رہتااور بندہ درجہ بدرجہ بندگیٔ خدا میں کامل ہوتا چلا جاتا ہے۔
عبادت و بندگی کا سادہ سا مفہو م یہ ہے کہ ہر وہ کام جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے منع فرمایاہے اس سے رُک جانا اور بارگاہِ الٰہی و بارگاہِ محبوب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جو کام کرنے کا حکم ہودل و جان سے اس پر عمل کرنا۔ بالفاظِ دیگر ’’اَطِیْعُوا اللّٰہ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْل‘‘ کے عین مطابق خود کوعملاً ڈھال لینا عبادت و بندگی ہے ۔
ہم لوگ عبادات کا اہتمام تو بہت ذوق وشوق سے کرتے ہیں، نمازِ پنجگانہ کی پابندی کی جاتی ہے،رمضان المبارک کے روزوں کا اہتمام اور زکوٰۃ بھی ادا کی جاتی ہے لیکن کردار میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے میں نہیں آتی۔ جھوٹ بڑی فراخدلی کے ساتھ بولا جاتا ہے، وعدے کی پاسداری نہیں کی جاتی، اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز راستہ اختیار کیا جاتاہے۔ ہماری نمازیں خشوع و خضوع سے خالی ہیں۔ اعمال میں اخلاص نہیں بلکہ ریاکاری اور دکھاوا ہے اسی لیے ہماری عبادتیں تاثیر سے خالی ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ عبادات کے ساتھ ساتھ کردارکا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔حضرت عمر فاروقؓ کا قول مبارک ہے :
انسان کو عبادات سے نہیں بلکہ اس کے معاملات سے پہچانو۔
ہم نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں،زکوٰۃ دیتے ہیں، حج کرتے ہیں، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، ذکرکا اہتمام کرتے ہیں، قربانیاں کرتے ہیں لیکن ان تمام عبادات کا ہم پر کوئی اثر ظاہر نہیں ہو پاتا۔
دلوں کی عمارتوں میں کہیں بندگی نہیں
پتھر کی مسجدوں میں خدا ڈھونڈتے ہیں لوگ
انسانی شخصیت میں عاجزی کمالِ بندگی ہے۔خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ ساتھ بادشاہت کی دنیوی نعمت اختیار کرنے کا موقع بھی دیا تو آپؐ نے بادشاہت پر اللہ کی بندگی اور عبدیت کو ترجیح دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فرمایا گیا:
اِنْ شِئتَ نَبِیًّا عَبْدًا وَاِنْ شِئْتَ نَبِیًّا مَلِکًا۔ فَقُلْتُ نَبِیًا عَبْدًا۔ (احمد بن علی، مسند ابی یعلی، رقم الحدیث: 4920)
ترجمہ:اگر آپؐ چاہیں تو عبد نبی بنیں اور اگر آپؐ چاہیں تو بادشاہ نبی بنیں۔ تو اس سوال اور اختیار کے جواب میں آپؐ نے عرض کیا ’’اے میرے ربّ میں عبد نبی (بندگی والا نبی) بنوں گا۔‘‘
جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ اقدس میں عجزو انکسار کے یہ مظاہر اور نمونے دیکھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ جوں جوں باری تعالیٰ کی نوازشات کی رِم جھم بڑھتی ہے توں توں آپ کی عاجزی و انکساری میں بھی مزید اضافہ ہونے لگتا ہے۔ واقعہ معراج میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پوچھا کہ میں آپ ؐکو کس لقب سے مشرف کروں؟ آپؐ نے عرض کیا:
یَارَبِّ بِانْ تَنْسِبَنِیْ اِلٰی نَفْسِکَ بِالْعُبُوْدِیَّۃِ (فخر الدین رازی، التفسیر الکبیر، ج: 20، ص: 117)
ترجمہ:مولا مجھے اپنی ذات سے نسبتِ عبدیت کے ساتھ منسوب کر۔
اب کائناتِ انسانی کا اس سے بڑا منصب، مقام اور رتبہ و اعزاز نہ ہوسکتاتھااور نہ ہے۔ معراج کے موقع پر جس لفظ کو معراج دی گئی، وہ لفظ ِ عبدیت ہے۔ مقامِ عبدیت کا کمال اور عروج سراپا عاجزی اور انکساری ہے۔
عبد کی اقسام
1۔ عبدِ آبق
وہ بندہ جو مالک کی اطاعت اور فرمانبرداری سے بھاگ گیا ہو، عبدِ آبق کہلاتاہے یعنی ایسے بندگانِ خدا جو خالق و مالک کی اطاعت و محبت سے روگردانی کرکے معبودانِ باطل کے اسیر ہوگئے ہوں اور جھوٹے خداؤں کی پوجا میں مشغول ہوں یعنی صراطِ مستقیم سے بھٹکے ہوئے لوگ۔ایسی زندگی گزارنے والے انسان بے مقصد اور غفلت شعار زندگی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
2۔ عبدِ رقیق
یہ وہ بندگانِ خدا ہیں جو اللہ کی اطاعت و محبت کاپٹہ اپنے گلے میں ڈالے رہتے ہیں اور اس کی اطاعت بجا لانے میں غفلت و کوتاہی نہیں کرتے۔یہ بندے احکامِ الٰہی کی پیروی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ وہ دانستہ و نادانستہ اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے معصیت کا ارتکاب کرنے سے خوف زدہ رہتے ہیں۔
3۔ عبدِ ماذون
یہ بندے اللہ کی عبادت کرتے کرتے رضائے الٰہی میں ایسے گم ہو جاتے ہیں کہ ان کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، بولنا، سکوت اختیار کرنا، جینا مرناغرض ہر فعل اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کا مقصد فقط خوشنودی و رضائے الٰہی ہوتا ہے کیونکہ وہ قرآن کی اطاعت و متابعت میں زندگی گزارنے کا قرینہ و سلیقہ پاچکے ہوتے ہیں۔ انہی کے متعلق قرآن میں ارشاد فرمایاگیا ہے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (سورۃ الانعام۔ 162)
ترجمہ: فرما دیجئے کہ بے شک میری نمازاور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی)اور میری زندگی اور میری موت سب اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔( عبد و عبودیت)
امام راغب اصفہانیؒ کے خیال میں ’’عبادت‘‘ کا لفظ انتہائی درجہ کی عاجزی و انکساری ظاہر کر نے پر بولا جاتاہے۔ لہٰذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بے حد صاحبِ افضال و انعام ہو اور ایسی ذات صرف ذاتِ الٰہی ہے۔ اسی لیے فرمایا ’’اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔‘‘
امام رازیؒ فرماتے ہیں ’’ساری عبادتوں کا خلاصہ صرف دو چیزیں ہیں۔ ایک اَمرِالٰہی کی تعظیم ، دوسرے خلقِ اللہ پر شفقت یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی۔‘‘( تفسیر کبیر)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاعْبُدُوْا اللّٰہَ وَلَا تَشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَا مَلَکَتْ اِیْمَانُکُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا۔ (سورۃ النساء ۔36)
ترجمہ: اور تم اللہ کی عبادت کرو اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو، اوراپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں(سے) اور قریبی ہمسایہ اور اجنبی ہمسایہ اورہم مجلس اور مسافر (سے)اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو (ان سے نیکی کیاکرو)، بے شک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرکرنے والا(مغرور) فخر کرنے والا (خود بین)ہو۔
چنانچہ تکمیلِ ذات اور اللہ کا مطلوب انسان بننے کے لیے لازم ہے کہ ہم اس دنیا کے ہر شعبہ زندگی میں بندگی کی راہ اختیار کریں، کہیں بھی پائے استقلال میں لغزش نہ آنے پائے اور عبد و معبود کے تعلق میں رخنہ اندازی نہ ہو۔ اپنے وجود کی اصلاح اسی عبادت کی صحت کو سمجھیں۔ مقامِ عبدیت انسان کو اپنے کردار کی بلندی اور روحانی عروج کا موقع فراہم کرتا ہے ۔
المیہ یہ ہے کہ عوام الناس کا تصورِعبادت محدود ، مبہم اور ناقص ہے۔ محض نماز، روزہ اور حج ان کی عبادات کا محور ہوتاہے۔ الاماشاء اللہ! قربانی، تلاوتِ قرآن اور کچھ مسنون دعاؤں پر ان کا دین مکمل ہو جاتا ہے۔ ان ظاہری اعمال و اشغال کی تکرار نے عوام الناس کو عبادت کی اصل روح سے لا علم رکھا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی سے رسمی سا ربط و تعلق اور زندگی کے دیگر حساس معاملات میں اللہ تعالیٰ کی کھلی نافرمانیوں کا ارتکاب عام روش ہے۔ تمام زور اور حساسیت حسنِ ظاہر پر ہی مرکوز ہوتاہے کیونکہ صرف ظاہر پر توجہ دینے والوں کے پاس بصارت تو ہوتی ہے مگر بصیرت نہیں ہوتی۔
اللہ کی بندگی و اطاعت کی راہ میں انسان اپنے نفس کے تقاضوں کی وجہ سے ساری عمر آزمائش میں مبتلا رہتا ہے۔ انسان کے ازلی دشمن شیطان نے ہر قدم پر انسانوں کو پھانسنے کے لیے جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ اگر انسان ذرا سا بھی غفلت کا شکار ہوتاہے تو شیطان کے جالوں میں ایسا پھنستا ہے کہ بعض اوقات اس سے چھٹکارا پانا ناممکن نہیں تومشکل ضرور ہو جاتا ہے۔ شیطان کو اللہ ربّ العزت کے سامنے سجدہ کرنے سے روکنے والی شے اس کا سرکش نفس ہی تھا۔ اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں اس واقعہ کو یوں بیان فرمایا ہے:
ترجمہ: (اللہ نے ) ارشادفرمایا:اے ابلیس !تجھے کس نے اس (ہستی) کو سجدہ کرنے سے روکا جسے میں نے خود اپنے دستِ (کرم) سے بنایا ہے۔ کیا تو نے (اس سے)تکبر کیا یا تو (بزعمِ خویش) بلند رتبہ(بنا ہوا) تھا؟اس نے (نبی کے ساتھ اپنا موازنہ کرتے ہوئے)کہا کہ میں اس سے بہتر ہوں توُنے مجھے آگ سے بنایا ہے اور تو نے اس کو مٹی سے بنایا۔(سورۃ ص۔75-76)
شیطان کے سرکش نفس نے اس کو خالقِ حقیقی کی حکم عدولی پر مائل کیا اور اسے یہ سوچنے نہیں دیا کہ حکم دینے والی ہستی کون ہے۔ جس نے جن و اِنس اور تمام مخلوقات کو تخلیق کیا اور انہیں زندگی بخشی ہے ۔ کس شے کو کس مادہ اور کس خمیر سے بنانا ہے،اس کی حکمت تو اس شے کا خالق ہی بہتر سمجھتا ہے۔ اللہ مصورِ کائنات بھی ہے اور مدبرِکائنات بھی، وہ علم والا بھی ہے اور ہر شے سے باخبر بھی۔ ہم اللہ کی مصلحتوں اور حکمتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔
عبادات دراصل عبدیت اور بندگی کی عملی شکل ہے۔ درحقیقت عبدیت وہ مضبوط رشتہ ہے جو بندے اور اس کے معبود کے مابین قائم ہوتاہے اور یہی وہ رشتہ ہے جو اپنے درمیان کسی دوسرے رشتے کا حائل ہونا برداشت نہیں کرتا۔ اور اپنے مابین کسی قسم کے اشتراک اور آمیزش کو پسند نہیں کرتا۔ اس کی صحت و درستی اور اخلاص کو ہی عبادت کہا گیا ہے۔ اس عبادت کا تصور اسلام میں محض چند مخصوص عبادات کا ادا کرلینا ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک ہمہ گیر تصور ہے۔
حضرت برؓأ روایت کر تے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ سے پوچھا:
اسلام کا کونسا نیک عمل زیادہ ممتاز اور عالی ہے؟ صحابہ نے عرض کی نماز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا نماز بھی اچھا عمل ہے، اس کے بعد والا کونسا عمل ہے؟ صحابہ نے کہا زکوٰۃ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا زکوٰۃ بھی اچھا عمل ہے، اس کے بعد والا عمل کونسا ہے؟ صحابہ نے کہا رمضان کے روزے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا یہ عمل بھی اچھا ہے، اس کے بعد والا عمل کونسا ہے؟ صحابہ نے کہا حج ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا حج بھی اچھا عمل ہے، اس کے بعد والا عمل کونسا ہے؟ صحابہ نے کہا جہاد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا جہاد بھی اچھا عمل ہے، اس کے بعد والا عمل کونسا ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود ہی فرمایا کہ ایمان کا سب سے ممتاز اور اعلیٰ کڑا یعنی نیک عمل یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرے اور اللہ تعالیٰ کے لیے بغض رکھے۔ (مسند احمد بن حنبلؒ18723)
اس حدیثِ مبارکہ کی شرح میں حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی لکھتے ہیں:
نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج بلاشبہ اسلام کے بنیادی ارکان ہیں، اور ان کی نفی قطعاً نہیں کی جاسکتی مگر اس حدیث مبارکہ میں جن افعال کا ذکر کیا گیا ہے وہ چونکہ مسلمانوں کی اجتماعی اور سماجی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اور اس حیاتِ انسانی میں بعض اجتماعی عمل اتنے اہم اور ناگزیر ہوتے ہیں کہ اکثر اوقات انفرادی اعمال کی بجا آوری ان ہی اعمال کی ادائیگی پر منحصر ہوتی ہے۔ اور یہ ارکانِ عبودیت دین میں موقوف علیہ کا مقام رکھتے ہیں۔ (ترجمان السنہّ)
عبادت کی تکمیل بھی اس سے مشروط ہے کہ انسان معرفتِ پروردگار، عقیدہ کی درستی، اخلاص اورایمان سے عبادت کو بجالائے اور مقامِ بندگی میں خود کو اس کے حضور سمجھے۔ خدا کا خالص بندہ بن کر اس کی بار گاہ میں جائے اور دنیا، لذات، خواہشات وشہوات اور دنیا داروں سے منقطع ہو کر فقط اس کی عبادت کرے۔یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی ہی زندگی کا اصل مقصدہے کیونکہ یہی وہ ذریعہ ہے جس سے ایک بندہ اپنے معبودکی معرفت حاصل کرتا ہے اور دنیا و آخرت میں فلاح و کامرانی پاتا ہے۔ چنانچہ دنیا میں جتنے بھی انبیا ومرسلین تشریف لائے سبھی نے اللہ وحدہٗ لاشریک پر ایمان لانے کے ساتھ اس کی عبادت وبندگی پر ہمیشہ زور دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ترجمہ: اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر ہم اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس تم میری (ہی) عبادت کیا کرو۔(سورۃالانبیا۔25 )
اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے دلی لگاؤ اور ربط وتعلق کو اللہ کے لئے خاص کردے، اسی کو اپنا سب کچھ جانے اور اسی کی بارگاہ سے اپنی ہر حاجت پوری ہونے کی اُمید رکھے اور دل و دماغ میں صرف اسی کی عظمت وبڑائی کا سکہ جمائے رکھے، غیر اللہ کا خیال ہرگز ہرگز نہ آنے دے، زندگی کا کوئی بھی لمحہ اللہ تعالیٰ کی یادسے غافل نہ رہے۔
بقول حضرت سلطان باھوؒ:
جو دم غافل سو دم کافر، سانوں مرشد ایہہ پڑھایا ھوُ
یہ کیفیت و حالت ایک مومن کے اندر اُسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب اُس کے دل اوردماغ پر یہ چھاجائے کہ حقیقت میں تمام طرح کی عظمت وکبریائی اور حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے، اس کے سوا کوئی شے توجہ کے قابل نہیں ، گویا زندگی کے ہر شعبے میں اللہ ہی اللہ پیشِ نظر رہے۔
انسان اللہ کی عباد ت اور پرستش اس لئے کرتا ہے کیونکہ وہی لائق عبادت ہے۔ اللہ کی بندگی اور اس کے محبوبؐ کی اطاعت صرف محبت میں کرتے ہیں۔یہی احرار لوگوں کی عبادت ہے اور یہی افضل ترین عبادت بھی ہے۔ ایسے بندوں سے اللہ بھی محبت کرتا ہے۔
سورۃ آلِ عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (سورۃ آل عمران۔31)
ترجمہ: (اے حبیب!) آپ فرمادیں:اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کروتب اللہ تمہیں(اپنا)محبوب بنا لے گا۔
امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ ارشاد فرماتے ہیں:
خدایا میری عبادت تیرے عذاب کے خوف اور ثواب کے طمع و لالچ میں نہیں ہے بلکہ میں تیری عبادت اس لئے کرتا ہوں کہ تو اس کے لائق ہے۔
حضرت امام زین العابدینؓ فرماتے ہیں:
جو لوگ کسی چیز (جنت )کی خواہش میں اللہ کی عبادت کرتے ہیں ان کی عبادت تاجروں کی عبادت ہوتی ہے اور جو لوگ اللہ کی عبادت کسی چیز (جہنم )کے خوف سے کرتے ہیں ان کی عبادت غلاموں کی عبادت ہے اور جو لوگ شکر کے عنوان سے اللہ کی عبادت کرتے ہیں وہ آزاد لوگوں کی عبادت ہے اور یہی سب سے افضل عبادت ہے ۔ (اقوال : حضرت امام زین العابدینؓ)
یہ عبادت اور اطاعت کی قسمیں ہیں جو میزان کے اعتبار سے سب سے زیادہ بھاری ہیں،ان میں سے اللہ تعالیٰ آزاد لوگوں کی عبادت پسند کر تا ہے چونکہ اس میں منعم عظیم کے شکر کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، نہ اس میں ثواب کا لالچ ہے اور نہ ہی اس کے عذاب کا خوف ہے۔ بقول شاعر:
سجدوں کے عوض فردوس مِلے، یہ بات مجھے منظور نہیں
بے لوث عبادت کرتا ہوں، بندہ ہوں تِرا مزدور نہیں
انسان کی عبادت کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا دیدار ہو۔ اس کی عبادت نہ مال و دولت، عزت و شہرت کے لئے ہو نہ جنت کے لالچ کے لئے اور نہ ہی دوزخ کے خوف سے۔ الغرض تعلق باللہ کی لذت و حلاوت اور محبتِ الٰہی کی چاشنی و شرینی بندے کو اس طرح محبوب تر ہو جائے کہ بارگاہ ِالٰہی میں حاضری کے وقت اس کے دل میں کسی غیر کا خیال تک بھی نہ گزرنے پائے اور وہ ہر وقت بندگی کی اسی کیفیت میں رہے۔ ہر شخص اپنی معرفت اور ظرف کے مطابق اللہ کی عبادت کرتا ہے جتنی معرفت ہو گی اتنی ہی بندگی(عبادت) ہو گی۔
امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں :
اس عبادت میں کوئی بھلائی نہیں جس میں معرفت نہیں۔ (بحارالانوار)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک اور ارشادِ گرامی ہے ’’جسے (اللہ کی) معرفت حاصل ہوجاتی ہے وہ (گناہوں سے) رک جاتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے اور کائنات کی کوئی چیز اس کی ضرورت نہیں بن سکتی کیونکہ ضرورت اور احتیاج کمال کے منافی ہوتا ہے لہٰذا جن و اِنس کی عبادت کی خدا کو ذرّہ بھر ضرورت نہیں ہے۔بلکہ اگر کائنات میں ایک فرد بھی اللہ کو اپنا خالق و مالک اور ربّ نہیں مانتا اور اس کی عبادت کرنے والا کوئی نہ ہو تو پھر بھی خداکی خدائی میں فرق نہیں پڑتا اور اس کے کمال میں کوئی کمی پیدانہیں ہو سکتی۔اگر انسان اللہ کی اطاعت اور بندگی کو اختیار نہیں کرتا تو وہ اپنی خواہش و ہوس کا بندہ ہے اور نفس کی غلامی اختیار کرتا ہے۔ وہ غیر ِخدا کی پرستش کرتا ہے جیسا کہ فرمانِ ربّ العزت ہے:
اَرَاَیْتَ مَنِ اتَّخِذَ اِلٰہَہٗ ھَوٰہُ (سورۃ الفرقان۔43)
ترجمہ: کیا آپ نے دیکھا اس شخص کو جس نے اپنی خواہشاتِ نفس کو اپنامعبود بنالیا ہے؟
اور اگر انسان اللہ پاک کی اطاعت اور بندگی کو اختیار کرے اور ’’نعبد‘‘ میں مخلص اور سچا ہو تو تکبر اور غرور کی نفی کرتا ہے۔ جب انسان بندگی کو تسلیم کر لیتا ہے تو پھر سر اٹھانے اور نافرمانی کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور وہ راہِ نجات پر گامزن ہوتے ہوئے سعادتِ اُخروی کو پا لیتا ہے۔ بندگی میں خیانت شرک کہلاتی ہے اور بندگی کی ضد اپنی ذات ہے۔ بندہ اللہ کو نہیں، اپنے آپ کو پوج رہا ہوتا ہے۔ دل چاہا تو نماز پڑھ لی، دل چاہا تو خیرات کر دی۔ یہ تو مرضی کی عبادت ہے۔ اللہ کی بندگی نہیں بلکہ بندہ اپنے تصور کو ہی پوج رہا ہوتا ہے۔
بعض لوگ اللہ کی عبادت دنیا کے لئے کرتے ہیں جبکہ بعض آخرت کے لئے اور بعض طبقات ایسے ہوتے ہیں جو اللہ کی عبادت اس کی رضا کے لئے کرتے ہیں۔ دنیا کے لئے عبادت و بندگی کرنے والوں کا انعام ’’دنیا‘‘، آخرت کے لئے سر جھکانے والوں کا اجر’’آخرت ‘‘ جبکہ رضائے الٰہی کے لئے سر بسجود ہونے والوں کو اللہ پاک اپنی رضا کا صلہ دیتے ہوئے فرماتا ہے کہفَاذْکُرُوْنِی اَذْکُرْکُم ’’تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا۔‘‘
دنیا وآخرت کے لئے عبادت کرنا حرص،طمع اور لالچ کی عبادت ہے۔ یہ تاجروں کا طرزِ عمل ہے۔ عبادت و بندگی کا آغاز ہی رضا سے ہوتا ہے گویا عبادت و بندگی کی معراج یہ ہے کہ بندہ اللہ کی بارگاہ میں سر جھکائے ہوئے کہے۔
لربھم سجد وقیاما
ترجمہ: (ہمارے) سجوداور قیام اللہ (کی رضا) کے لئے ہیں۔
جبکہ ایک طبقہ عبادت گزار بندوں کا ایسا بھی ہوتا ہے جو رضا سے آگے بڑھ کر دیدار ِالٰہی تک پہنچتا ہے۔ ان کی تمنا اور مراد کا قرآن نے یوں ذکر کیا یریدون وجہ اور وہ اللہ (کے چہرے یعنی نور) کی طلب رکھتے ہیں۔ ( عبد اور عبودیت)
شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربیؒ اپنی تصانیف’’ فصوص الحکم‘‘اور ’’فتوحاتِ مکیہ ‘‘میں فرماتے ہیں:
وجود اور احدیت میں تو سوائے حق تعالیٰ کے کوئی موجود رہا ہی نہیں پس یہاں نہ کوئی ملا ہوا ہے نہ ہی کوئی جد اہے یہاں تو ایک ہی ذات ہے جو عین وجود ہے دوئی کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ (فصوص الحکم)
پس عالمِ وجود میں خدا کے سوا اور کچھ نہیں اور خدا کو خدا کے سوا کوئی شناخت نہیں کرسکتا اور اس حقیقت کو وہی دیکھ سکتا ہے جس نے با یزیدؒ کی طرح ’’انا اللہ‘‘ اور ’’سبحانی‘‘ کہا ہو۔ (فتوحاتِ مکیہ)
ہماری بندگی اگر خشوع وخضوع سے خالی ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اللہ ربّ العزت چاہتا ہے کہ بندہ مخلص ہو کر اس کی عبادت کرے۔ خالقِ حقیقی کے سوااس کے دل و دماغ میں کوئی نہ ہو۔ وگرنہ سب رائیگاں ہے کیونکہ اللہ پاک کو چاہت میں ملاوٹ پسند نہیں۔حضرت سخی سلطان باھوؒ پنجابی بیت میں فرماتے ہیں:
اندر وچ نماز اساڈی، ہکسے جا نتیوے ھوُ
نال قیام رکوع سجودے، کر تکرار پڑھیوے ھوُ
ایہہ دل ہجر فراقوں سڑیا، ایہہ دم مرے نہ جیوے ھوُ
سچا راہ محمدؐ والا باھوؒ، جیں وچ ربّ لبھیوے ھوُ
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا راستہ فقر کا راستہ ہے اور فقر کے راستہ پر چل کر ہم اللہ پاک کی اطاعت، عبادت اور بندگی کرسکتے ہیں۔ یہ فقر ہی ہے جس کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔‘‘ فقر ہی اصل میں وہ راہ ہے جس پر گامزن ہو کر انسان صرف اور صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے عبادت کرتا ہے۔ اس کی رضا اور قرب ہی اس کے مدِ نظر ہوتاہے، اللہ کی منشا و رضا میں مداخلت کو گناہ سمجھتا ہے اور اس طرح وہ بندگی کے اعلیٰ و ارفع فرض کو صحیح طریقے سے اد اکرتا ہے۔
تاہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچنے کیلئے ہمیں ایسی ہستی، ذات اور انسان کی ضرورت ہے جو قدمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہو۔ہر دور میں اللہ پاک ایک ایسا انسان اس کائنات میں بھیجتا ہے جو انسانِ کامل کے مرتبہ پر فائز اور ظاہرو باطن میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور اللہ کا مظہر ہوتا ہے جسے مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ، امام الوقت اور عبداللہ کہتے ہیں جو شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بندگی کرتا ہے اور اپنے ساتھیوں (مریدین) کو بھی اپنی نگاہِ کامل سے تزکیۂ نفس کرنے کے بعد اسی طریقہ پر شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا پیروکار بناتا ہے جس طرح آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے صحابہ کرامؓ کو بندگی کی حقیقت اور روح سمجھائی۔
آج کے اس پرُفتن دور میں میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہی ایسی ہستی ہیں جو اپنی نگاہِ کامل سے تزکیۂ نفس کرکے بندے کو کامل بندگی سکھاتے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں ہمارے مرشد کریم سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی صحیح معنوں میں اطاعت کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ آپ مدظلہ الاقدس کی اطاعت ہی اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے اور اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی اطاعتِ اللہ ہے اور یہی اصل بندگی ہے۔
میرے عشق کا تقاضہ تیرا حسنِ سرمدی ہے
تجھے دیکھتا رہوں میں یہی میری بندگی ہے
استفادہ کتب:
۱۔ بحار الانوار
۲۔ فصوص الحکم
۳۔ فتوحاتِ مکیہ
۴۔ اقوال حضرت امام زین العابدینؓ
۵۔ عبد اور عبودیت
Very Beautiful ❤️ and Informative Article
allah paak hamenn haqeeqy bandagi ata frmay ameen 🌷🌹
امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں :
اس عبادت میں کوئی بھلائی نہیں جس میں معرفت نہیں۔ (بحارالانوار)
بہترین
ماشااللّٰہ
Allah mujhe is baat ki toufeeq ata farmaye
سجدوں کے عوض فردوس مِلے، یہ بات مجھے منظور نہیں
بے لوث عبادت کرتا ہوں، بندہ ہوں تِرا مزدور نہیں
زندگی آمد برائے بندگی
عبادت بندے اور خدا کے مابین تعلق کا بنیادی سبب ہے اور یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کی گہرائی اور لطافتوں سے آشنائی کیلئے کمالِ علم و دانش کے ساتھ ساتھ خود حقیقی بندگی میں بھی پختہ اور عالی مرتبت ہونا پڑتاہے جس سے عبدیت کے تقاضوں میں ابہام باقی نہیں رہتااور بندہ درجہ بدرجہ بندگیٔ خدا میں کامل ہوتا چلا جاتا ہے۔
آج کے اس پرُفتن دور میں میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہی ایسی ہستی ہیں جو اپنی نگاہِ کامل سے تزکیۂ نفس کرکے بندے کو کامل بندگی سکھاتے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں ہمارے مرشد کریم سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی صحیح معنوں میں اطاعت کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ آپ مدظلہ الاقدس کی اطاعت ہی اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے اور اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی اطاعتِ اللہ ہے اور یہی اصل بندگی ہے۔
اللہ پاک ہمیں ہمارے مرشد کریم سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی صحیح معنوں میں اطاعت کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ آپ مدظلہ الاقدس کی اطاعت ہی اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے اور اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی اطاعتِ اللہ ہے اور یہی اصل بندگی ہے۔
عبادات دراصل عبدیت اور بندگی کی عملی شکل ہے۔
بہترین مضمون ہے
بہت اچھا مضمون ہے
دلوں کی عمارتوں میں کہیں بندگی نہیں
پتھر کی مسجدوں میں خدا ڈھونڈتے ہیں لوگ
حضرت سخی سلطان باھوؒ پنجابی بیت میں فرماتے ہیں:
اندر وچ نماز اساڈی، ہکسے جا نتیوے ھوُ
نال قیام رکوع سجودے، کر تکرار پڑھیوے ھوُ
ایہہ دل ہجر فراقوں سڑیا، ایہہ دم مرے نہ جیوے ھوُ
سچا راہ محمدؐ والا باھوؒ، جیں وچ ربّ لبھیوے ھوُ
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا راستہ فقر کا راستہ ہے اور فقر کے راستہ پر چل کر ہم اللہ پاک کی اطاعت، عبادت اور بندگی کرسکتے ہیں۔ یہ فقر ہی ہے جس کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔‘‘ فقر ہی اصل میں وہ راہ ہے جس پر گامزن ہو کر انسان صرف اور صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے عبادت کرتا ہے۔ اس کی رضا اور قرب ہی اس کے مدِ نظر ہوتاہے، اللہ کی منشا و رضا میں مداخلت کو گناہ سمجھتا ہے اور اس طرح وہ بندگی کے اعلیٰ و ارفع فرض کو صحیح طریقے سے اد اکرتا ہے۔
خوب است۔ ماشاءاللہ
بندگی وہ عروج ہے جو نفس کے زوال سے شروع ہوتا ہے۔ یہ وہ کمال ہے جو انہیں نصیب ہوتا ہے جو ایک در کے سوا کسی دوسرے درپر نہیں جھکتے اور یہ ایسی معراج ہے جو اپنے آپ کو فنا کر دینے سے ملتی ہے۔
آج کے اس پرُفتن دور میں میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہی ایسی ہستی ہیں جو اپنی نگاہِ کامل سے تزکیۂ نفس کرکے بندے کو کامل بندگی سکھاتے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں ہمارے مرشد کریم سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی صحیح معنوں میں اطاعت کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ آپ مدظلہ الاقدس کی اطاعت ہی اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے اور اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی اطاعتِ اللہ ہے اور یہی اصل بندگی ہے۔
بلاگ 👍
خوبصورت تحریر ہے
امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں :
اس عبادت میں کوئی بھلائی نہیں جس میں معرفت نہیں۔ (بحارالانوار)
بہترین آرٹیکل ہے
Behtreen artical
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشادِ گرامی ہے
جسے (اللہ کی) معرفت حاصل ہوجاتی ہے وہ (گناہوں سے) رک جاتا ہے۔
زندگی آمد برائے بندگی
زندگی بے بندگی، شرمندگی
یعنی ہمیں زندگی فقط بندگی کے لیے ملی ہے، اگر بندگی نہیں کریں گے تو یہ زندگی شرمندگی ہی شرمندگی ہوگی۔(مولانارومیؒ)