حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات
Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat
قسط 16 سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری
فیصلہ تحکیم
مسلم اُمہ کے اتحاد کے لیے ضروری تھا کہ دونوں حکم قرآن و سنت کے مطابق فیصلہ کریں۔ معاہدہ جس تاریخ کو طے ہوا، اس کے متعلق سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام اور اکتیسویں شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس لکھتے ہیں:
یہ عہدنامہ 13 صفر 37 ھ کو لکھا گیا۔ (خلفائے راشدین، صفحہ 212)
طبریؒ لکھتے ہیں:
ابوجعفر کہتے ہیں حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان جو معاہدہ لکھا گیا وہ بروز چہار شنبہ (بدھ) 13 صفر 37ہجری میں لکھا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ دونوں ماہِ رمضان میں دومتہ الجندل میں جمع ہوں گے اور ہر ایک کے ساتھ اس کے ساتھیوں میں سے چار سو اشخاص ساتھ آئیں گے۔ (تاریخ طبری، جلد 3، حصہ 2، صفحہ 250)
اس معاہدہ کے متعلق ڈاکٹر طٰہٰ حسین لکھتے ہیں:
اس معاہدے کی جو خاص بات ہے وہ یہ کہ اصل اختلافی بات کو نظر انداز کر کے دیگر باتوں پر پابندی کا زور دیاگیا۔ فریقین کے مابین مسئلہ یہ تھا:
۱۔ حضرت امیر معاویہؓ خونِ حضرت عثمانؓ کا قصاص اور قاتلوں کی حوالگی چاہتے تھے۔
۲۔ حضرت علیؓ کسی مقرر قاتل کو نہیں جانتے تھے اور تمام باغیوں کو حوالے کر دینا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔
یہ بات تھی جس کا وکیلوں کو ثالث بن کر فیصلہ کرنا تھا اور جس کا ذکر تک مذکورہ معاہدے میں نظر نہیں آتا۔ نہ قصاص اور شہادتِ حضرت عثمانؓ کی بابت کوئی بات لکھی گئی اور نہ حضرت امیر معاویہؓ کی بیعتِ حضرت علیؓ کا ذکر کیا گیا۔ (حضرت علی المرتضیٰؓ، صفحہ 235-236)
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اور حضرت عمروبن العاصؓ کے درمیان اتفاق نہ ہو سکا۔ حضرت عمروبن العاصؓ نے خلیفہ کے لیے حضرت امیر معاویہؓ کا نام دیا لیکن حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ متفق نہ ہوئے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے پھر اپنے بیٹے کا نام دیا لیکن پھر اتفاق نہ ہوا۔ دوسری طرف حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا نام دیا لیکن حضرت عمروبن العاصؓ نے انکار کر دیا۔
آخر دونوں اس بات پر راضی ہوئے کہ حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ دونوں کو معزول کر دیا جائے اور امتِ مسلمہ خود فیصلہ کرے کہ کس کو حاکم بنانا ہے۔ طبریؒ لکھتے ہیں:
حضرت عمرو نے حضرت ابوموسیٰؓ سے دریافت کیا پھر آخر آپ کی رائے کیا ہے؟
حضرت ابوموسیٰؓ: میری رائے تو یہ ہے کہ ہم ان دونوں شخصوں کو معزول کر دیں اور خلافت مسلمانوں کے مشورے پر چھوڑ دیں اور مسلمان اپنے لیے جسے پسند کریں اسے خلیفہ بنا لیں۔
حضرت عمرو: صحیح رائے تو وہی ہے جو آپ نے دی ہے۔ (تاریخ طبری، جلد 3، حصہ 2، صفحہ 266)
جب فیصلہ کا دن آیا تو حضرت علیؓ تشریف نہیں لائے۔ حضرت علیؓ نے حضرت ابنِ عباسؓ اور باقی اشخاص کو روانہ کیا۔ حضرت ابنِ عباسؓ نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے فرمایا تھا کہ پہلے آپ فیصلہ نہ سنائیے گا ورنہ معاملہ خراب ہو جائے گا۔ جب اعلان کا دن آیا اور فیصلہ سنایا جانے لگا اس کے متعلق طبری لکھتے ہیں:
جب حضرت ابوموسیٰؓ اعلان کرنے کے لیے آگے بڑھے تو حضرت ابنِ عباسؓ نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے فرمایا آپ پر افسوس، خدا کی قسم! مجھے یقین ہے عمروؓ نے آپ کو دھوکہ دیا۔ اگر آپ دونوں ایک امر پر متفق ہیں تو اعلان کے لیے عمروؓ کو آگے کیجئے تاکہ وہ پہلے اس کا اعلان کریں پھر بعد میں آپ اعلان کرنا۔۔۔ حضرت ابوموسیٰؓ نہایت سادہ آدمی تھے انہوں نے حضرت ابنِ عباسؓ کو جواب دیا: نہیں ہم دونوں ایک فیصلہ پر متفق ہو چکے ہیں۔ (تاریخ طبری، جلد 3، حصہ 2، صفحہ 266)
ابنِ خلدون لکھتے ہیں:
دونوں ہستیاں ایک ساتھ باہر آئیں، ایک جمِ غفیر فیصلہ سننے کو موجود تھا۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے حضرت ابوموسیٰؓ سے کہا چونکہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی ہے اور مجھ سے آپ سن رسیدہ ہیں، مناسب ہو گا کہ آپ پہلے کھڑے ہو کر اس امر کو بیان فرما دیجئے جس پر ہم نے اور آپ نے اتفاق کیا ہے۔ حضرت ابوموسیٰؓ بیچارے دنیا کے داؤ پیچ سے واقف نہ تھے۔ سادگی کے ساتھ اٹھے اور لوگوں کو مخاطب کر کے کہا ’’ہم لوگ ایسے امر پر متفق ہوئے ہیں عجب نہیں کہ اللہ اس کے ذریعے سے امت میں صلح کرا دے۔‘‘ حضرت ابوموسیٰؓ اس قدر کہنے پائے تھے کہ حضرت ابنِ عباسؓ نے قطع کلام کر کے کہا ’’واللہ مجھے شبہ ہے آپ کو دھوکہ دیا جائے گا اگر فی الواقع آپ لوگوں نے کسی امر پر اتفاق کر لیا ہے تو ان کو (حضرت عمرو بن العاصؓ) پہلے تقریر کرنے دو۔‘‘ حضرت ابوموسیٰؓ نے کچھ توجہ نہ کی تو حضرت ابنِ عباسؓ خاموش ہو گئے۔ (تاریخ ابن خلدون، جلد 2، حصہ اول، ص 462)
اب چونکہ معاہدہ میں لکھا گیا تھا کہ جو حضرت علیؓ کا حکم فیصلہ کرے گا وہ حضرت علیؓ اور ان کے ساتھیوں پر نافذہو گا اور جو حضرت امیر معاویہؓ کا حکم فیصلہ کرے گا وہ حضرت امیر معاویہؓ اور ان کے ساتھیوں پر نافذ ہو گا۔ حضرت ابوموسیٰؓ نے اعلان کیا کہ حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ دونوں کو معزول کیا جاتا ہے لیکن معاہدے کے مطابق حضرت ابوموسیٰؓ کا فیصلہ حضرت معاویہؓ پر نافذالعمل نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے حضرت عمرو بن العاصؓ نے اپنی باری پر یہ اعلان کیا کہ حضرت ابوموسیٰؓ نے حضرت علیؓ کو معزول کر دیا لیکن میں حضرت امیر معاویہؓ کو بحال رکھتا ہوں۔ ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
حضرت ابوموسیٰؓ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا جس میں حمدوثنا کے بعد فرمایا اے لوگو! ہم نے امت کے معاملے پر غور کیا ہے، ہم نے آپ لوگوں کی بہتری اور پراگندگی کو دور کرنے کے لیے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ہم حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ دونوں کو معزول کردیں اور امارت کا معاملہ شوریٰ کے سپرد کر دیں، وہ اتفاق سے جسے چاہیں امیر منتخب کر لیں، میں نے حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ دونوں کو معزول کر دیا ہے۔
اس پر حضرت ابوموسیٰؓ نے اپنی بات ختم کر دی۔ اس کے بعد حضرت عمرو بن العاصؓ خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے۔ انہوں نے حمدو ثنا کے بعد فرمایا اے لوگو! حضرت ابوموسیٰؓ کی گفتگو تم نے سن لی۔ انہوں نے اپنے آقا کو معزول کر دیا ہے میں بھی ان کے آقا کو معزول کرتا ہوں اور اپنے آقا حضرت معاویہؓ کو قائم رکھتا ہوں کیونکہ وہ حضرت عثمانؓ کے مددگار اور ان کے خون کے بدلے کے طالب ہیں اور وہ تمام لوگوں میں حضرت عثمانؓ کی جگہ قائم رہنے کے زیادہ مستحق ہیں۔ (تاریخ ابن کثیر، جلد 4، حصہ7، صفحہ 280-281)
اس فیصلے کی وجہ سے امت میں اختلاف بڑھ گیا۔ لوگ ایک دوسرے کے مزید مخالف ہو گئے۔ طبریؒ لکھتے ہیں:
فیصلہ کے بعد لوگ کھڑے ہو گئے اور ان میں مزید اختلاف پیدا ہو گیا۔ (تاریخ طبری، جلد 3، حصہ 2، صفحہ 267)
اس کے بعد حضرت ابوموسیٰؓ کو احساس ہوا کہ ان کو دھوکہ دیا گیا۔
خوارج:
حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب جنگِ صفین سے لوٹے تو واپسی پر کچھ لوگ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مخالف ہو گئے۔ انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر اعتراض کیا کہ آپ کو دو حکم پر رضامند نہیں ہونا چاہیے تھا جبکہ حقیقت اس کے الٹ تھی کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو انہی لوگوں نے مجبور کیا تھا۔ ان لوگوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اعلانِ جنگ کر دیا۔ انہوں نے نعرہ لگایا:
لا حکم الا للّٰہ
اس نعرے کے بارے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا:
اللہ اکبر! یہ ایک حق کلمہ ہے جس کے ذریعے باطل کو تلاش کیا جا رہا ہے۔ (تاریخ طبری، جلد 3، حصہ 2، صفحہ 270)
خارجیوں نے جنگی امیر شبث بن ربعی کو متعین کیا۔ یہ وہی تھا جس نے حمایت کی تھی کہ معاہدہ میں حضرت علیؓ کے اسمِ گرامی کے ساتھ سے ’’امیرالمومنین‘‘ کا لفظ مٹا دیا جائے اور جس نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو جنگ سے روکا تھا۔ اندازہ کریں کہ خارجیوں کا اعتراض کہ تحکیم کو کیوں مانا اور ان کا امیر وہ جس نے تحکیم ذوق و شوق سے کروایا۔
خارجیوں نے نماز کا امیر عبداللہ بن کواء کو چنا کہ وہ انہیں نماز پڑھایا کرے گا۔ جہاں تک خلافت کا تعلق ہے تو ان کا کہنا تھا کہ وہ فتح کے بعد فیصلہ کریں گے۔ فتح سے مراد تھا کہ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے (معاذاللہ) جنگ جیتیں گے تو خلافت کا فیصلہ کریں گے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہٗ کو ان کے پاس روانہ کیا۔
ڈاکٹر طٰہٰ حسین لکھتے ہیں:
حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے خارجیوں سے پوچھا: تم لوگ امیر المومنین کی کس بات سے ناراض ہو؟
ان لوگوں نے جواب دیا: انہوں نے دو شخصوں کو حکم تسلیم کر لیا ہے اس لیے ہمیں ان کی یہ بات اچھی نہیں لگی۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: اللہ نے توخود احرام کی حالت میں شکار کرنے والوں کے لیے حکم بنانے کا حکم دیا ہے۔
پھر فرمایا ارشاد ربانی ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌط وَ مَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآئٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ ھَدْیًام بٰلِغَ الْکَعْبَۃِ اَوْ کَفَّارَۃٌ طَعَامُ مَسٰکِیْنَ اَوْ عَدْلُ ذٰلِکَ صِیَامًا لِّیَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِہٖ ط عَفَا اللّٰہُ عَمَّا سَلَفَ ط وَ مَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰہُ مِنْہُ ط وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ۔ (سورۃ المائدہ۔95)
ترجمہ: اے ایمان والو! نہ مارو شکار جبکہ تم حالتِ احرام میں ہو اور تم میں سے جو اس کو جان بوجھ کر مارے تو جو وہ مارے اس کے برابر بدلہ ہے مویشیوں میں سے، جس کا تم میں سے دو معتبر فیصلہ کریں، خانہ کعبہ نیاز پہنچائے یا (اس کا) کفارہ ہے کھانا چند محتاجوں کا، یا اس کے برابر روزے رکھنا تا کہ وہ اپنے کیے کی سزا چکھے، اللہ نے معاف کیا جو پہلے ہو چکا اور جو پھر کرے تو اللہ اس سے بدلہ لے گا اور اللہ غالب بدلہ لینے والا ہے۔
پھر شوہر اور بیوی کی علیحدگی کے پیشِ نظر اللہ نے دو حکم مقرر کرنے کا حکم دیا:
وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَاج اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَھُمَا ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا۔ (سورۃ النسائ۔35)
ترجمہ: اگر تم ڈرو ان دونوں کے درمیان ضد سے تو مقرر کر دو ایک منصف مرد کے خاندان سے اور ایک منصف عورت کے خاندان سے، اگر وہ دونوں صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت کر دے گا بے شک اللہ بڑا جاننے والا بہت باخبر ہے۔
وَ اِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَاج فَاِنْ م بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاٰخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَقِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ ج فَاِنْ فَآئَتْ فَآصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْاط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ۔ (سورۃ الحجرات۔9)
ترجمہ: اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کرا دو، پھر اگر زیادتی کرے ان دونوں میں سے ایک دوسرے پر، تو تم اس سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ حکمِ الٰہی کی طرف رجوع کر لے، پھر جب وہ رجوع کر لے تو تم ان دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرادو اور تم انصاف کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
جب اللہ نے ان چھوٹی چھوٹی باتوں اور مسائل میں حکم مقرر کرنے کی اجازت دی ہے تو ان معاملات میں حکم کیوں مقرر نہیں کیے جا سکتے جن کا تعلق بڑے مسائل، باہمی امن اور مسلمانوں کی خونریزی سے ہے۔ (حضرت علی المرتضیٰؓ صفحہ 247-249)
کچھ خارجی ان کی جماعت چھوڑ کر چلے گئے۔ کچھ روایات کے مطابق حضرت ابنِ عباسؓ کے بعد حضرت علیؓ بھی تشریف لے گئے۔
خارجیوں نے بہت سے لوگوں کی طرف خط لکھے۔ کچھ ان سے آ بھی ملے۔ اسی اثنا میں فیصلہ تحکیم آ گیا۔ طبریؒ لکھتے ہیں حضرت علیؓ نے فرمایا:
خبردار! تم لوگوں نے جن حاکمین کا انتخاب کیا تھا ان دونوں نے قرآن کے حکم کوپسِ پشت ڈال دیا اور قرآن نے جن امور کو ختم کیا تھا انہوں نے انہیں دوبارہ زندہ کیا۔ (تاریخ طبری، جلد3، حصہ 2، ص 275)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے دوبارہ جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اہلِ کوفہ جنگ پر راضی نہ تھے۔ کافی سست ہو چکے تھے۔کم لوگ تھے جو دل و جان سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب جنگ کی تیاری مکمل کر چکے تو خوارج نے قتل و غارت شروع کر دی۔ انہوں نے صحابیِ رسول حضرت عبداللہ بنؓ خبابؓ کو شہید کر دیا۔ ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
خارجیوں نے حضرت عبداللہ بن خبابؓ کو ان کی حاملہ بیوی سمیت گرفتار کر لیا۔ انہوں نے ان سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا میں صحابی رسول عبداللہ بن خبابؓ ہوں اور تم نے مجھے خوفزدہ کیا ہے۔ انہوں نے ان کو مطمئن کرتے ہوئے کہا آپ ہم سے اپنے والد سے سنی ہوئی کوئی بات بیان کریں، انہوں نے کہا میں نے اپنے والد کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ عنقریب فتنہ کھڑا ہو گا، اس میں بیٹھنے والا کھڑے رہنے والے سے اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہو گا۔
خارجیوں نے آپ کو ہاتھ پکڑ کر کھینچا۔ اسی دوران جب آپ ان کے ساتھ چل رہے تھے کہ اچانک ایک آدمی کو ایک ذمی خنزیر ملا، اس نے نیزہ مار کر اس کا چمڑا چیر دیا، دوسرے نے اس سے کہا تونے ایک ذمی خنزیر سے ایسا کیوں کیا؟ وہ اس ذمی کے پاس گیا اور اس سے معافی تلافی کر لی۔ پھر کچھ آگے چل کر درخت سے ایک کھجور گری ان میں سے ایک نے اسے کھا لیا دوسرے نے اس کو کہا بلا اجازت دشمن کے تو نے اسے کھا لیا۔ اس کے بعد انہوں نے حضرت عبداللہ بن خبابؓ کو ذبح کر دیا پھر وہ ان کی اہلیہ کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا میں ایک حاملہ عورت ہوں، تمہیں خوفِ خدا نہیں ہے؟ انہوں نے ان کو بھی ذبح کر دیا اور ان کے پیٹ سے بچہ نکال لیا۔ (تاریخ ابنِ کثیر، جلد 4، حصہ 7، ص 283-284)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو جب اس واقعہ کی خبر پہنچی تو آپ نے ایک قاصد بھیجا۔ انہوں نے قاصد کو بھی شہید کر دیا۔ لوگوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو رائے دی کہ پہلے ان کا کام تمام کر لیا جائے۔ اس طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ لشکر لے کر خارجیوں کی طرف روانہ ہوئے۔
ایک نجومی کا واقعہ:
راستے میں ایک نجومی ملا۔ اس نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کہا کہ آپ فلاں وقت نہ روانہ ہوں ورنہ شکست ہو گی اور فلاں وقت روانہ ہوں تا کہ فتح ہو۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس وقت روانہ ہوئے جب نجومی نے منع کیا تھا۔ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو فتح ہوئی تو آپ نے فرمایا’’ اگر ہم اس وقت روانہ ہوتے جب نجومی نے کہا تھا تو لاعلم لوگ سمجھتے ہم نے نجومی کی وجہ سے فتح حاصل کی ہے۔‘‘
حضرت علیؓ جب خارجیوں کے پاس پہنچے تو پیغام بھیجا کہ جنہوں نے قتل کیا ہے اگر ان کو ہمارے حوالے کر دیں تو جنگ نہیں ہو گی۔ خارجیوں نے جواب دیا کہ ہم سب نے قتل کیا ہے اور تم لوگوں کا خون ہم حلال سمجھتے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جنگ سے پہلے حکم دیا کہ جو ہمارے جھنڈے کے نیچے آ گیا اس کو امان ہے۔ کچھ لوگ خارجیوں کو چھوڑ گئے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف جنگ نہیں کرنی چاہیے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے لشکر کو پہلے حملہ کرنے سے منع کیا۔
جب جنگ ختم ہوئی تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک خارجی ڈھونڈنے کے لیے کہا جس کے بارے میں درج ذیل احادیث ہیں:
طارق بن زیاد سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:ہم سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ کی معیت میں خوارج کے مقابلہ کے لیے نکلے، سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ نے ان کوقتل کیا اور پھر کہا: ذرادیکھو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا تھا کہ عنقریب ایک قوم نکلے گی کہ وہ بات تو حق کی کریں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی، وہ حق سے یوں نکل جائیں گے جیسے تیر شکار میں سے گزر جاتا ہے، ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی ناقص ہاتھ والا ہوگا، اس کے ہاتھ پر سیاہ بال ہوں گے۔ اب دیکھو کہ اگر کوئی مقتول ایسا ہو تو تم نے بدترین لوگوں کو قتل کیا اور اگر کوئی مقتول ایسا نہ ہو تو تم نے نیک ترین لوگوں کو قتل کیا۔یہ سن کر ہم رونے لگے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا اسے تلاش کرو۔ پھر ہم نے واقعی ناقص ہاتھ والے ایسے مقتول کو پا لیا، پھر ہم سب اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوگئے اور ہمارے ساتھ علی کرم اللہ وجہہ بھی سجدہ میں گر گئے۔ (مسند احمد 848)
(جاری ہے)
استفادہ کتب:
۱۔خلفائے راشدینؓ: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس، ناشر : سلطان الفقر پبلیکیشنز
۲۔ تاریخ ابنِ خلدون: مصنف علامہ عبدالرحمن ابنِ خلدون،ناشر نفیس اکیڈمی کراچی
۳۔ تاریخ ابنِ کثیر: تصنیف حافظ عمادالدین ابوالفدا اسماعیل، ناشر دارالاشاعت کراچی
۴۔ تاریخ طبری: مصنف علامہ ابی جعفر محمد بن جریر الطبری، ناشر نفیس اکیڈمی کراچی
۵۔سیدّنا حضرت علی المرتضیٰؓ :مصنف طٰہٰ حسین
معلوماتی آرٹیکل
اللہ پاک ہمیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے نقش قدم پر چلاۓ آمین 🥀
Very Beautiful ❤️ and Informative Article
بہت جامع اور منفرد تحریرہے
بہت ہی اعلیٰ تحقیقی اور مستنند تحریر ہے
Ali ra maula mushkil khusha shair e khuda
بہت خوب 🥀🌹🥀
سلام یا علی
I find this so sad😥
Nice article
بہترین مضمون
بہترین مضمون ہے
بہترین تحقیق شدہ تحریرہے❤️
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور حکومت کو نہایت تفصیل اور دلائل سے ثابت کیا ہے
Beautiful blog
حق بیان فرمایا
Haq he.
بہت ہی اعلیٰ مضمون ہے
بہت خوب
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی عظمت کو سلام
بہترین آرٹیکل ہے
بہت بہترین مضمون ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق اہم معلومات فراہم کرنے پر اللہ آپکو جزائے خیر عطا فرمائے
Ay Allah punjtan pak k sadqqay hum pe apna karam aur fazal aata farma