حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات
(Hazrat Ali r.a Kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat)
قسط نمبر 7 تحریر: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری
حضرت عثمانؓ بن عفان کے خلاف اٹھنے والے فتنے کے متعلق متعدد روایات موجود ہیں:
ابو عمر، سعید بن المسیب سے روایت کرتے ہیں کہ زیدبن خارجہ انصاری رضی اللہ عنہٗ کا حضرت عثمانؓ بن عفان کے زمانہ میں انتقال ہوا اور ان کو کفن پہنایا گیا۔ اس کے بعد لوگوں نے ان کے سینہ سے اوّل ایک جھنجھناہٹ سنی پھر وہ بولنے لگے تو انہوں نے کہا ’’احمد، احمد ہے پہلی کتاب (یعنی انجیل) میں۔ سچا ہے سچا ہے ابوبکر صدیقؓ جو اپنے نفس میں ضعیف اور قوی اللہ کے کام میں،(ان کی یہ صفت مذکور ہے) پہلی کتاب (یعنی انجیل) میں۔ سچا ہے سچا ہے عمرؓ بن خطاب جو کہ قوی امین ہے،(ان کی یہ صفت مذکور ہے) پہلی کتاب (یعنی انجیل) میں۔ سچا ہے سچا ہے عثمانؓ بن عفان جو ان ہی کے طریقے پر ہے، چار سال گزر گئے اور باقی دو رہ گئے کہ فتنہ آئے گا اور طاقتور کمزور کو کھا جائے گا۔‘‘ ( ازالتہ الخفا، جلد چہارم، ص 99-100)
حقیقت تو یہ ہے کہ باغیوں نے صرف مدینہ آنے پر ہی حضرت عثمانؓ سے خلافت سے دستبرداری کا نہ کہا تھا بلکہ یہ سازش بہت عرصہ قبل شروع کر دی گئی تھی۔ اس سلسلے میں محمد رضا مصری لکھتے ہیں:
یزید بن قیس نے حضرت عثمانؓ کی خلافت سے دستبرداری کو ایک تحریک کی شکل میں اٹھانے کا ارادہ کیا۔ اس کے ہمراہ وہ تمام لوگ تھے جو عبداللہ بن سبا کے ساختہ پرداختہ سمجھے جاتے تھے۔ (عثمانؓ بن عفان)
کچھ مستند مؤرخوں نے حضرت عمرو بن العاصؓ کے متعلق بھی لکھا ہے کہ وہ حضرت عثمانؓ کے سخت خلاف تھے۔ اس سلسلے میں محمد رضا مصری لکھتے ہیں:
حضرت عثمانؓ نے حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے مختلف صوبوں میں عمال کے نام فرمان جاری کیا کہ ضروری مشورے کے لئے پہنچ جائیں۔ جب حضرت عمرو بن العاصؓ کی رائے پوچھی گئی تو انہوں نے کہا:
’’یاامیرالمومنین! میرا تو خیال ہے کہ آپؓ نے لوگوں کے کندھے پر بوجھ لاد دیا ہے۔ آپؓ کو عدل و مساوات کے لئے کمر بستہ ہو جانا چاہیے۔ اگر یہ منظور نہیں تو خلافت سے دستبردار ہو جانا چاہیے اور اگر اس سے بھی انکار ہے تو عزائم کو جمع کر کے بہادرانہ قدم اٹھائیے۔‘‘ (عثمانؓ بن عفان، ص 223)
واقدی کی روایت ہے کہ جب حضرت عثمانؓ نے حضرت عمرو بن العاصؓ کو مصر کی گورنری سے معزولی کا فرمان بھیجا تو حضرت عمرو بن العاصؓ سخت برہم ہوئے اور حضرت عثمانؓ کی طرف سے ان کے دل میں پرخاش پیدا ہو گئی۔ (بحوالہ عثمان بن عفان، ص 222)
طبری لکھتے ہیں:
حضرت عمرو بن العاصؓ مدینہ آئے تو وہ حضرت عثمانؓ پر اعتراض کرنے لگے اس لئے حضرت عثمانؓ نے انہیں تنہائی میں بلا کر پوچھا:
’’تم کتنی جلدی اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے لگے ہو۔ تم مجھ پر طعن و تشنیع کرنے لگے ہو، تم مختلف صورتیں بدلتے رہتے ہو۔ بخدا! اگر تمہارے اندر بغض و کینہ نہ ہوتا تو تم ایسی باتیں نہ کرتے۔‘‘ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ اوّل، ص 406)
ڈاکٹر منور حسین چیمہ نے لکھا ہے:
حضرت عمرو بن العاصؓ نے حضرت عثمانؓ سے کہا کہ آپ عدل کریں ورنہ خلافت چھوڑ دیں۔
ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
حضرت عمر وبن العاصؓ کے دل میں حضرت عثمانؓ کے لیے کبیدگی اور ناراضگی پیدا ہو گئی اور جو بات دل میں تھی اسی کے مطابق انہوں نے حضرت عثمانؓ سے گفتگو کی۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے حضرت عثمانؓ کے مقابلے میں اپنے باپ پر فخر کیا اور کہا کہ وہ آپؓ سے زیادہ معزز تھے۔ حضرت عثمانؓ نے کہا ان باتوں کو چھوڑ دو یہ جاہلیت کی باتیں ہیں۔ حضرت عمرو بن العاصؓ حضرت عثمانؓ کے خلاف لوگوں کو جمع کرنے اور متحد کرنے میں لگ گئے۔ (تاریخ ابن کثیر)
طبری نے لکھا ہے:
حضرت عمرو بن العاصؓ جب روانہ ہوئے اور فلسطین میں اپنے گھر میں رہنے لگے تو وہ کہا کرتے تھے ’’بخدا! جب میں کسی چرواہے سے بھی ملاقات کرتا تھا تو اسے بھی ان (حضرت عثمانؓ) کے خلاف بھڑکاتا تھا۔‘‘ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ اول، ص412)
حضرت عمرو بن العاصؓ کا حضرت عثمانؓ سے اختلاف کافی زیادہ ہو گیا تھا۔ طبری لکھتے ہیں:
حضرت عمرو بن العاصؓ کا نکاح حضرت عثمانؓ کی سوتیلی بہن اُمِ کلثوم بنت ابی معیط سے ہوا تھا مگر جب حضرت عثمانؓ نے انہیں معزول کیا تو انہوں نے ان کو طلاق دے دی تھی۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ اوّل، ص408)
طبری ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
ایک دن حضرت عمرو بن العاصؓ اپنے محل میں اپنے دونوں فرزندوں محمد اور عبداللہ اور سلامت بن اوج جذامی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں وہاں سے ایک سوار گزرا۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے اس سے پکار کر پوچھا:
’’کہاں سے آ رہے ہو؟‘‘
وہ بولا ’’مدینہ سے۔‘‘
حضرت عمرو بن العاصؓ نے پوچھا ’’اس شخص (حضرت عثمانؓ) کا کیا حال ہے؟‘‘
وہ سوار بولا ’’میں نے انہیں شدید محاصرہ میں چھوڑا تھا۔ ‘‘
ابھی حضرت عمرو بن العاصؓ وہیں بیٹھے تھے کہ دوسرا سوار گزرا۔ انہوں نے اس سے پکار کر پوچھا ’’اس شخص (حضرت عثمانؓ) کا کیا ہوا؟‘‘
وہ بولا ’’وہ شہید ہو گئے۔‘‘
اس پر حضرت عمرو بن العاصؓ نے کہا:
’’جب میں کسی زخم کو چھیڑتا ہوں تو اسے پھوڑ دیتا ہوں۔ میں ان کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتا رہا یہاں تک کہ میں نے پہاڑ کی چوٹی پر بکریاں چرانے والے چرواہے کو بھی ان کے خلاف بھڑکایا۔‘‘ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ اوّل، ص 407-408)
ارمان سرحدی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
حضرت عمرو بن العاصؓ نے کہا ’’امیرالمومنین! آپ کی بے اعتدالیوں نے لوگوں کو احتجاج پر آمادہ کیا۔ اس کے تدارک کی صرف دو ہی صورتیں ہیں، یا تو عدل و انصاف سے کام لیجئے یا خلافت سے کنارہ کشی اختیار کیجئے۔‘‘ (سیدّنا حضرت علی المرتضیٰؓ)
طبری لکھتے ہیں:
حضرت عثمانؓ نے ایک دن تقریر کی تو عمرو بن العاصؓ نے کہا ’’اے امیرالمومنین! آپ نے کئی ناخوشگوار باتیں کی ہیں۔‘‘ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ اول، ص 419)
حضرت عثمانؓ جب خطبہ دے رہے تھے اس کے متعلق ابنِ خلدون لکھتے ہیں:
چاروں طرف سے آواز آنے لگی ’’اے عثمانؓ اللہ سے ڈرو اور اللہ کی طرف رجوع کرو‘‘ سب سے پہلے اس فقرے کو (حضرت) عمرو بن العاصؓ نے کہا تھا۔ (ابنِ خلدون، جلد دوم، حصہ اوّل، ص356)
۱۰۔جہاں تک مصر کے حالات کی بات ہے تو وہاں حضرت عثمانؓ کے خلاف پروپیگنڈا اس قدر شدید تھا کہ لوگ جہاد کو چھوڑ کر خلافت کے معاملات کی اصلاح کرنا چاہتے تھے۔ محمد رضا مصری لکھتے ہیں:
لوگوں کے ذہنوں میں اس قسم کی باتیں اس قدر پختہ ہو گئیں کہ ان کے ذہنوں میں جہاد کی بجائے مدینہ کی اصلاح اہم مسئلہ بن گیا۔ لوگوں نے برملا حضرت عثمانؓ کی شان میں وہ باتیں کرنا شروع کر دیں جو پہلے کبھی نہ کہی گئی تھیں۔ (عثمانؓ بن عفان)
۱۱) کوفہ میں بھی سازش زوروں پر تھی۔ حضرت عثمانؓ جس کو بھی گورنر یا عامل مقرر کرتے لوگ اس پر اعتراض کرتے۔ آپ جو بھی قدم اٹھاتے وہ پروپیگنڈا کی نذر ہو جاتا۔ اس بات سے اندازہ لگائیے کہ آپؓ کو متعدد گورنر تبدیل کرنا پڑے جن کے خلاف کوئی شکایت نہ تھی بلکہ صرف اور صرف وجہ یہ تھی کہ فتنہ پرداز کہتے تھے کہ تبدیل کیا جائے۔ محمد رضا مصری اپنی کتاب ’’عثمانؓ بن عفان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب حضرت عثمانؓ پر گورنر تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تو انہوں نے فرمایا:
’’میں ان لوگوں کی یہ درخواست بھی منظور کئے دیتا ہوں تا کہ کل ان کے پاس کوئی حجت باقی نہ رہے۔‘‘
آگے لکھتے ہیں:
فتنہ پھوٹ چکا تھا اور قریب تھا کہ شعلے بھڑک اٹھیں اس لئے صحابہ کرام ؓنے ایک دوسرے کو واقعات کی نزاکت کے متعلق خطوط لکھے اور حضرت علیؓ سے درخواست کی کہ آپ حضرت عثمانؓ سے اس صورتحال پر گفتگو کریں۔ (عثمانؓ بن عفان)
اس صورتحال سے بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ فتنہ کس قدر اثر انداز ہوچکا تھا۔
۱۲۔ سبائیوں کا فتنہ بھی کافی خطرناک تھا۔ اس کی ابتدا عبداللہ بن سبا سے ہوئی۔ یہ صنعائے یمن کا مکین تھا۔ چونکہ اس کی والدہ کا نام سودا تھا اسی بنیاد پر اسے ’’ابنِ سودا‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ وہ در حقیقت یہودی تھا لیکن اس نے حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں ریاکارانہ طور پر اسلام قبول کیا۔ اس کی تمام تر تحریکیں اور کاوشیں مسلم اُمہ میں تفرقہ پیدا کرنے کے لیے تھیں جس کے لئے اس نے نئے عقائد متعارف کروانا شروع کیے۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ جب لوگوں کے عقائد ایک دوسرے سے مختلف ہو جاتے ہیں تو فرقوں کی بنیاد پڑ جاتی ہے، اتحاد کو دیمک لگ جاتی ہے اور آخرکار قومیں زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ مزید برآں عبداللہ ابنِ سبا نے اس طرح کے عقائد کی تبلیغ کی جن کو مسلمان جلدی قبول کر لیں اور جو تیزی سے انہیں زوال کی طرف لے جائیں۔ ان میں سے ایک عقیدہ یہ تھا کہ حضرت علیؓ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصی ہیں یعنی اصل میں خلافت انہی کو سزاوار ہے اس لیے جو دوسرا خلافت کا دعویٰ کرے وہ کاذب ہے۔اس سلسلے میں طبری لکھتے ہیں:
ابنِ سبا کہنے لگا کہ گزشتہ زمانے میں جب پیغمبر ہوتے تھے تو ہر پیغمبر کا وصی ہوتا تھا اس لئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصی حضرت علیؓ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خاتم الانبیا ہیں اور علیؓ خاتم الاوصیا ہیں۔ اس سے زیادہ ظالم کون ہو گا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وصیت پر عمل نہیں کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حق کو غصب کر کے اُمتِ اسلامیہ کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ حضرت عثمانؓ نے خلافت پر ناحق قبضہ کر لیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصی موجود ہیں اس لئے تم اس کام کے لئے اٹھ کھڑے ہو۔ اس کا آغاز اپنے حکام پر طعن و تشنیع سے کرو۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ اوّل، ص 382)
اس طرح حضرت علیؓ کا نام استعمال کر کے اس نے نومسلموں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ پہلے بیان کئے گئے معاملات کے ساتھ ساتھ جب عبداللہ بن سبا نے سازشیں شروع کیں تو حالات زیادہ تیزی سے خراب ہونے لگے۔ اس نے کوفہ، مصر، شام، بصرہ اور باقی جگہوں پر سفر کیا اور لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے لگا۔ اس نے حضرت علیؓ کے لئے ایک پارٹی بھی قائم کی۔ وصی والے عقیدے کو نو مسلموں میں بہت مقبولیت ملی۔ جب اس عقیدے پر لوگ جمع ہو گئے تو اس کا مقصد ہی حضرت عثمانؓ کی خلافت کو(معاذاللہ) مشکوک قرار دینا تھا جس کے ذریعے ان سب کے دلوں میں حضرت عثمانؓ سے نفرت کا بیج لگ گیا۔ ساتھ ساتھ ابنِ سبا اور اس کے پیروکاروں نے ظاہری تقویٰ کو سختی اور پابندی سے اختیار کیا تا کہ یہ جدھر بھی جائیں لوگ ان کے معترف ہو جائیں کہ یہ تو نیک و پرہیزگار لوگ ہیں۔ یہ انسانی فطرت بھی ہے کہ انسان جس کو ظاہری طور پر اچھے اعمال کرتے دیکھتا ہے اس کی بات جلد مان لیتا ہے کہ وہ غلط نہیں ہو سکتا۔
یہ سمجھ لینا چاہیے کہ سبائیوں کی سازش بہت منظم تھی۔ آغازِ سازش میں عبداللہ بن سبا نے جب عرب و عجم کے طول و عرض میں دورے کئے تو جرائم پیشہ افراد سے ملا اور جرائم پیشہ بھی وہ جو سزا یافتہ تھے، جن کے اندر پہلے ہی حضرت عثمانؓ کے مقرر کردہ گورنروں کے خلاف نفرت تھی۔ اس نے ان جرائم پیشہ افراد کو گورنروں کے خلاف ابھارا کہ اگر حضرت عثمانؓ کو مجبور کر کے ان کو تبدیل کروایا جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اس طرح جرائم پیشہ افراد کی بہت بڑی تعداد اس کے ساتھ جمع ہو گئی۔ ساتھ ہی ساتھ اس نے حضرت علیؓ پر بہتان لگایا کہ حضرت علیؓ بھی چاہتے ہیں کہ ان سب گورنروں کے خلاف ہر صورت کھڑا ہونا چاہیے۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنی تصنیفِ مبارکہ میں رقمطراز ہیں:
اسلام کا سب سے بڑا دشمن ایک منافق عبداللہ بن سبا تھا جو درحقیقت یہودی تھا، لیکن اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتاتھا۔ ابنِ سبا بہت چالاک اور سازشی تھا۔ اس نے حضرت عثمانؓ اور بنو اُمیہ کے خلاف پروپیگنڈا کیا اور بنی ہاشم کو خلافت کا حقدار قرار دیا۔ بعض مسلمانوں کو یہ کہہ کر بھڑکایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔ (خلفائے راشدین)
۱۳۔ سازشوں اور فتنے کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت عائشہؓ چاہتی تھیں کہ وہ حج پر جانے سے پہلے حضرت عثمانؓ کے حالات بہتر کرنے میں کردار ادا کریں لیکن جب ان کو اندازہ ہوا کہ یہ سب جو حضرت عثمانؓ کے خلاف جمع ہو چکے ہیں نہ حضرت عثمانؓ کو چھوڑیں گے اور نہ کسی اور کو جو اِن کے راستے میں آئے گا تو آپؓ نے حج کے لئے روانہ ہونا ہی بہتر سمجھا۔ اس سلسلہ میں ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اس سال حج کے لئے نکلیں، آپؓ سے عرض کیا گیا کہ اگر آپؓ ٹھہرتیں تو زیادہ مناسب تھا، شاید یہ لوگ آپؓ سے ڈر جاتے۔ آپؓ نے فرمایا:میں اپنی رائے ان کے بارے میں ظاہر کروں تو مجھے اندیشہ ہے کہ مجھے بھی وہی اذیت اٹھانی پڑے گی جو اُمِ حبیبہؓ نے اٹھائی ہے۔ (تاریخ ابنِ کثیر)
بہت سے جید صحابہؓ نے جب یہ صورتحال دیکھی تو گوشہ نشینی کو بہتر جانا۔ اس سلسلہ میں طبری لکھتے ہیں:
جب حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کو معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ اور حضرت اُمِ حبیبہؓ کے ساتھ بدسلوکی کی گئی ہے تو وہ بھی خانہ نشین ہو گئے۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ اول، ص442)
۱۴۔ اس سازش کے متعلق طبری لکھتے ہیں:
ابوعون مولیٰ مسور بن مخرمہ بیان کرتے ہیں اہلِ مصر حضرت عثمانؓ کو شہید کرنا اور جنگ کرنا نہیں چاہتے تھے مگر بصرہ اور کوفہ سے عراقی (باغی) آئے اور شام سے بھی امداد آئی تو انہوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ اوّل، ص 451)
(جاری ہے)
استفادہ کتب:
۱۔خلفائے راشدینؓ: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس، ناشر : سلطان الفقر پبلیکیشنز
۲۔ ازالتہ الخفا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
۳۔ تاریخ طبری: تصنیف علامہ ابی جعفر محمد بن جریر الطبری، ناشر نفیس اکیڈمی کراچی
۴۔ تاریخ ابنِ کثیر: تصنیف حافظ عمادالدین ابوالفدا اسماعیل، ناشر دارالاشاعت کراچی
۵۔ عثمانؓ ابنِ عفان، مصنف: محمد رضا مصری
Very informative artical
Very beautiful ❤️ and informative article
Ya Ali ra mushkil khusha shair e khuda 😍😍😍
بہترین اندازِ بیان ہے
منافقین نے یہاں بھی عبادت کی آڑ میں آپنے مفاد کے لیے فرقے بنا دیے
سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنی تصنیفِ مبارکہ میں رقمطراز ہیں:
اسلام کا سب سے بڑا دشمن ایک منافق عبداللہ بن سبا تھا جو درحقیقت یہودی تھا، لیکن اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتاتھا
بہت اچھی تحریر ہے
عمدہ تحریر
Allah hum pe apna fazal farmaye
بہترین مضمون 👌👌
Allah Pak hamein hamesha ahl-e-haq k sath wafa krne Wala bnaye. Aur bemisal basarat atta farmaye Ameen
بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
Nice article
Behtareen ❤️
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنی تصنیفِ مبارکہ میں رقمطراز ہیں:
اسلام کا سب سے بڑا دشمن ایک منافق عبداللہ بن سبا تھا جو درحقیقت یہودی تھا، لیکن اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتاتھا۔ ابنِ سبا بہت چالاک اور سازشی تھا۔ اس نے حضرت عثمانؓ اور بنو اُمیہ کے خلاف پروپیگنڈا کیا اور بنی ہاشم کو خلافت کا حقدار قرار دیا۔ بعض مسلمانوں کو یہ کہہ کر بھڑکایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔ (خلفائے راشدین)
بہترین آرٹیکل
بہت معلوماتی تحریر ہے
بہت معلوماتی اور بہترین مضمون ہے ۔۔۔👌👌❤️❤️
Nice